تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:

بسم‏ اللَّه ‏الرّحمن‏ الرّحيم‏

تمام بھائیوں اور بہنوں خاص طور پر شہیدوں کے گھرانے اور دور دراز کے علاقوں سے تشریف لانے والے بھائیوں اور بہنوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی زحمتوں، کوششوں اور اخلاص کا اجر عنایت فرمائےگا۔
ماہ مبارک رجب آنے والا ہے جو انتہائی عظیم اور با برکت مہینہ ہے۔ یہ مہینہ اور ماہ شعبان و ماہ رمضان، خدا کے صالح بندوں اور اولیاء خدا کے لئے عید کے مہینے سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ مناجات، رب الارباب کی جانب ارتکاز اور اس کی بارگاہ میں گریہ و زاری کا زمانہ ہے۔ انسان کو ہر زمانے میں اور ہر طرح کے سماجی حالات میں، خدا سے رابطے دعا اور تضرع کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت، ایک بنیادی حاجت ہے، خدا سے رابطے کے بغیر انسان اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے، بے معنی و تہی ہوتا ہے۔ خدا کی جانب توجہ اور اس سے رابطہ، انسان کے بدن میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ بندے اور خدا کے درمیان رابطے کے ہر موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ رجب کا مہینہ انہی مواقع میں سے ایک ہے۔ اس مہینے کے لئے جو دعائیں وارد ہوئی ہيں وہ در حقیقت تربیت کے دروس ہیں۔ دعا سے آشنا و مانوس ہونا چاہئے۔
دعا انسان کے دل کو خدا سے جوڑنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کی روح میں معنویت و پاکیزگی بھر دیتی ہے۔ اس کے افکار و ذہن کی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ دعائيں درس ہیں۔ اگر ہم ان دعاؤں کے معانی پر غور کریں تو ان میں ہمیں خدا کے اہم ترین معنوی و روحانی تحفے نظر آئيں گے۔ انسانوں کو ان اضافی دروس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہ رجب اور ماہ شعبان، ماہ رمضان کا مقدمہ ہیں اور یہ سب لیلۃ القدر کے خیر مقدم کی تیاریاں ہیں۔ کتنی اچھی بات ہے کہ ہمارے نوجوان اور عوام اس مہینے میں اپنے دلوں کو ماہ مبارک شعبان اور ماہ مبارک رمضان میں داخل ہونے کے لئے تیار کریں۔
اسلامی نظام کی تشکیل سے جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، وہ صرف سیاسی تبدیلیاں نہيں ہیں۔ الہی نظام اور دوسرے نظاموں میں بنیادی فرق یہی ہے۔ الہی نظام میں انسان معنوی و روحانی طور پر متغیر ہو جاتے ہيں۔ مادی انسان، الہی و معنوی انسان بن جاتا ہے اور اس کی مادی آرزوئيں، اعلی انسانی و الہی خواہشات میں تبدیل ہو جاتی ہيں۔ اگر آپ مشاہدہ کر رہے ہيں کہ مسلمان صدر اسلام میں تھوڑے عرصے کے لئے قائم ہونے والی خدائی حکومت کی برکت سے، انہی چند برسوں کی برکت سے صدیوں پر محیط اثرات مرتب کئے اور دنیا کو بدل دینے میں کامیاب رہے، دنیا کو علم و تمدن، غور و فکر، عقل و دانش، معنویت و روحانت، مفہوم و منطق کا تحفہ دیا، عظیم اسلامی تہذیب کو وجود بخشا اور آئندہ برسوں اور صدیوں میں انسانی ترقی کے لئے مقدمات فراہم کئے تو یہ سب کچھ اس تبدیلی کی وجہ سے تھا جو صدر اسلام میں مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئی تھی۔ آج بھی سچا مسلمان، کہ جس کے اندر خدا سے رابطے کی برکت سے حقیقی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہ ایک معنوی انسان بن گیا ہے، اس معنی میں نہيں کہ وہ اپنی جسمانی اور مادی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دے، نہيں، «و لاتنس نصيبك من الدّنيا» دنیا کو بھی آباد کیا جانا چاہئے، مادیات میں بھی ترقی ہونی چاہئے، علم میں بھی ترقی ہونی چاہئے، زندگی کو بھی سنوارا جانا چاہئے، لیکن انہی چیزوں تک محدود نہيں رہنا چاہئے بلکہ اس میں یہ تبدیلی پیدا ہونی چاہئے کہ اس کے دل میں اعلی الہی مقاصد و اہداف سے عشق پیدا ہو جائے تو اگر ایسا ہو جائے تو سچا مسلمان نہ صرف اپنے سماج کی سطح کو بلند کرنے میں کامیاب ہوگا بلکہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوگا، تاریخ پر اثر انداز ہوگا، انسانیت کو بدل کر رکھ دے گا، خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوگا۔ اس کام کا بینادی اصول یہ ہے کہ آج ہمارے اسلامی نظام میں عوام، خدا کے ساتھ قلبی و معنوی تعلق کو مضبوط کریں۔ خدا سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ رجب اور دیگر مبارک مواقع قابل قدردانی ہیں۔
عزیزو! یہ جان لیں کہ آج تک ہماری قوم کو جو بھی کامیابی نصیب ہوئی ہے، وہ سب معنویت پر بھروسے کی وجہ سے ملی ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ہيں جو مادی اعتبار سے ایرانی قوم سے آگے ہيں لیکن وہ دیگر اقوام اور دیگر ملکوں کے نوجوانوں پر اس طرح سے حیرت انگیز شکل میں اثر ڈالنے میں کامیاب نہيں ہوئے جس طرح ایرانی قوم نے اپنے انقلاب سے، اپنی تحریک سے، امام (خمینی رہ) سے، اپنی جد و جہد سے، اپنی شہادتوں سے انہیں متاثر کیا ہے۔ آپ نے دیگر اقوام پر اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے حالات پر گہرے اثرات چھوڑے ہيں۔ یہ معنویت و روحانیت کی برکت سے تھا۔ اس معنویت میں روز بروز اضافہ کیا جانا چاہئے۔ ایرانی قوم کی عزت، ایرانی قوم کی سربلندی اور ایرانی قوم کی امیدیں، خدا سے لو لگانے اور اس پر توکل کا نتیجہ ہیں۔ حالت روز بروز مضبوط ہوتے تعلقات کے ذریعے مزید بہتر، درخشاں اور شفاف ہوتی جائے گی۔ یہ جو ہم اتنی تاکید کرتے ہيں کہ ہمارے نوجوان جو الحمد للہ اس عرصے میں پاکیزگی و نورانیت کے مظہر رہے ہيں، خدا سے اپنا رابطہ زيادہ سے زيادہ مضبوط کریں، حالانکہ ماضي کی بنسبت آج ہمارے نوجوان پوری طرح بدل چکے ہيں اور آج ان میں کئی گنا زیادہ نورانیت و پاکیزگی پیدا ہو چکی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا سے ہمارا تعلق جتنا زیادہ ہوگا، خدا کی توفیقات اتنی زیادہ اور ہمارے دل اتنے ہی روشن و نورانی ہوں گے۔ ایرانی قوم کے دشمنوں نے شروع سے ہی یہ کوشش کی ہے کہ ہماری قوم کے دلوں میں نا امیدی و مایوسی بھر دیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں تاریکی کے سائے گھر کر جائيں، اس کے بر عکس صورت حال وہی خدا پر توکل، اس پر اعتماد، اسی سے امید، اس سے رابطہ اور اس کی بارگاہ میں تضرع ہے۔ یہ توکل، اعتماد اور تضرع، دل کو منور کرتا ہے، نئی امیدیں جگاتا ہے۔ نوجوانوں کو اپنی عمر کے اس پڑاؤ کی قدر کرنی چاہئے۔ اپنے ملک میں اسلامی حکومت کی تشکیل اور اس کے سائے میں زندگی گزارنے کی بھی (قدر کرنی چاہئے)۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہمیں قدر کرنی چاہئے۔ یہاں تک کہ جو لوگ اسلام کو نہيں مانتے ان کے لئے بھی اسلامی حکومت میں زندگی غنیمت اور بہتر ہے کیونکہ اسلامی نظام میں (معاشرے کا) ماحول، معنویت و روحانیت، پاکیزگی و طہارت محبت و ہمدردی، اور انسیت و اخوت پر استوار ہوتا ہے۔ ایسا ماحول سب کے لئے سازگار اور بہترین موقع ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے سب فائدہ اٹھاتے ہيں۔
ماہرین کی کونسل کے انتخابات کے سلسلے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ الحمد للہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایرانی قوم نے اپنی بیداری کی وجہ سے اس حساس صورت حال کو محسوس کر لیا ہے اور ہمیشہ کی طرح اسے علم ہے کہ اس کے کیا فرائض ہیں۔ ماہرین کی کونسل کے انتخابات میں شرکت، در حقیقت قوم کی خودمختاری و وقار کے دشمنوں کے سامنے صف آرائی ہے۔ جو بھی یہ چاہتا ہے کہ ہمارا ملک اور ہماری قوم، سربلند و کامیاب و کامران رہے اسے ملک کے سیاسی و سماجی معاملات میں حصہ لینا چاہئے اور اس کا بہترین مظہر انتخابات ہيں۔ مختلف اوقات میں مختلف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے، ماہرین کی کونسل کے انتخابات ان میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہيں۔ الحمد للہ قوم نے گزشتہ چند برسوں کے دوران تمام مراحل میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ فکر بلندی و بیداری کی حامل ہے اور حساس مواقع پر دشمن کو مایوس کرکے انقلاب میں نئ روح پھونک دیتی ہے۔ اس بار بھی خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوگا اور ایرانی قوم اپنی ذہنی بیداری و فکری بلندی کا مظاہرہ کرے گی۔
سیاسی جماعتوں، اہم شخصیتوں، عوام میں معروف و مقبول لوگوں نے، اس معاملے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ میں ان تمام لوگوں کا جنہوں نے اس سلسلے میں بیانات دیئے ہیں یا اقدامات انجام دئے ہیں یعنی عوام کے لئے اس مسئلے کو بیان کیا ہے، تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ یہ قومی ترقی اور ایرانی قوم میں بیداری کے عمل میں تعاون ہے۔ بہت سے دانشور، معروف شخصیات، علماء رضاکارانہ طور پر میدان میں آئے اور اس عمل میں خود ہی شریک ہو گئے۔ انشاء اللہ خدا ان کی کوششوں کا انہیں صلہ دے گا۔ جو لوگ انتخاباتی عمل میں شرکت کرنے میں کامیاب ہوئے اور جو لوگ کامیاب نہیں ہو پائے ان سب کو خدا اجر دے گا۔ ان لوگوں نے اپنا فرض ادا کر دیا، اپنے عزم کو ثابت کر دیا اور اپنا کردار ادا کر دیا۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کی لسٹ جاری نہيں کی۔ ہماری نظر میں اس میں بھی کوئی برائی نہيں ہے۔ جو لوگ اس معاملے میں اظہار رائے کر سکتے ہيں وہ اپنی رائے ظاہر کرتے ہيں اور انہوں نے اپنی رائے ظاہر بھی کی۔ کچھ لوگوں نے اسے فرض نہیں سمجھا اس میں بھی کوئی برائی نہيں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سب کے سب اس کام میں، جو قومی عمل ہے، ملکی عمل ہے، اسلامی نظام سے متعلق عمل ہے، انقلابی عمل ہے، شرکت کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔ سب لوگوں کو چاہئے کہ اس طرح تیاری کریں کہ عوام رائے دہی کے دن، انتخاباتی عمل میں شریک ہوکر حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ سب کو اس الہی امتحان میں شرک ہونا چاہئے۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ دشمن کئی مہینوں سے منصوبہ بندی کر رہا ہے کہ کیسے عوام کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایرانی قوم کے دشمن، یعنی سامراج اور امریکا و صیہونیوں وغیرہ سے وابستہ ذرائع ابلاغ اگر اربوں ڈالر خرچ کرکے ایرانی قوم کو ووٹ ڈالنے سے روک پاتے تو یہ رقم خرچ کر دیتے؛ یہ ان کے لئے ایسی ہی اہم بات ہے! تمام انتخابات اہم ہیں لیکن یہ انتخابات ان کی نظر میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ انہی غیر ملکیوں میں سے کچھ نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ عوام کو ماہرین کی کونسل کے انتخابات کے اثرات کا اندازہ نہيں ہے! جبکہ معاملہ بر عکس ہے، کیونکہ ماہرین کی کونسل کے اثرات ظاہر ہو چکے ہيں۔ اسی لئے دشمن اس کے اتنا خلاف ہے۔ ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ ملک میں قیادت کا خلاء پیدا نہیں ہونے دیتی۔ تمام لوگوں کی نظریں ایران پر گڑی ہوئی تھیں یہ دیکھنے کے لئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کب اس دنیا سے کوچ کرتے ہيں۔ اس کے لئے انہوں نے پوری منصوبہ بندی کی تھی اور بڑی امیدیں لگا رکھی تھیں! دس برسوں تک اس دن کا انتظار کیاتھا۔ چودہ خرداد سن تیرہ سو اڑسٹھ کا دن، ہماری قوم اور ہمارے انقلاب کے دشمنوں کے لئے ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن دن تھا۔ ماہرین کی کونسل نے یہ خلاء پیدا نہيں ہونے دیا۔ البتہ انہوں نے اس عظیم ذمہ داری کے لئے مجھ جیسے حقیر کا انتخاب کیا۔ یہ بھی اللہ کا منشا تھا، مجھ جیسے حقیر کے لئے تو یہ چیز شرمندگی کا باعث تھی تاہم اس بات سے قطع نظر کہ ماہرین کی کونسل نے کس کا انتخاب کیا، یہ بات عالمی سطح پر دوست و دشمن سب کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ چودہ خرداد کو ایرانی قوم کو غم فراق دے کر اس دنیا سے اپنے رب حقیقی کے پاس چلے گئے ۔ چودہویں تاریخ کا سورج ابھی ڈوبا نہيں تھا کہ ماہرین کی کونسل نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور دشمن کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ دشمن یہ چیز دیکھ چکا ہے۔ ماہرین کی کونسل کی عالمی سامراجی دشمن کی جانب سے مخالفت کی وجہ یہی ہے۔ اس طرح بر وقت اقدام اور دشمنوں کو موقع نہ دینا پوری دنیا کے لئے انتہائی اہم تھا۔ اسی لئے وہ ماہرین کی کونسل کے مخالف ہيں۔ تو ایسا بالکل نہیں ہے کہ ماہرین کی کونسل کا کردار واضح نہ ہو۔ معاملہ بر عکس ہے، اس کونسل کا کردار واضح ہو چکا ہے اور ایک زمانے میں اس کونسل نے اتنا اہم کام انجام دیا ہے اس لئے دشمن اس کے مخالف ہیں۔
اس طرح کے مواقع ہمیشہ آتے رہتے ہيں۔ اگر ماہرین کی کونسل ایسی ہوگی جسے عوامی حمایت حاصل ہوگی تو جب وہ کسی کا انتخاب کرے گی تو وہ انتخاب قوم کا انتخاب ہوگا اور ملک میں کسی قسم کا خلاء پیدا نہيں ہوگا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔ دشمن چاہتا ہے کہ ماہرین کی کونسل، عوامی حمایت سے محروم ہو جائے، تھوڑے سے لوگ ووٹ دیں، کونسل کی تشکیل بھی ہو جائے اور جب ضرورت کے وقت یہ کونسل کوئی اقدام کرے تو سب یہ کہیں کہ یہ کونسل عوامی ووٹ سے محروم ہے! غور کریں! تقریبا ایک سال سے دشمن اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہے کہ لوگوں کو ووٹ دینے سے روکا جائے۔ ماہرین کی کونسل عوامی حمایت سے محرو م ہو جائے تاکہ مستقبل میں جب قوم کی قیادت کے لئے کوئی شخص اس کونسل کے ذریعے منتخب ہو تو اسے عوامی حمایت حاصل نہ ہو، دشمن کی کوشش یہ ہے۔ ایرانی قوم کو دشمن کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے اور خدا کے فضل سے وہ ایسا ہی کرے گي۔ ایرانی قوم ہمیشہ کی طرح انشاء اللہ اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرے گی اور اس عمل اور اس طرح کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے گی۔
کسی بھی ملک و حکومت کی طاقت، عوامی حمایت پر منحصر ٹکی ہوئي ہوتی ہے۔ یہ جو اسلامی جمہوریہ ایران اتنے برسوں سے الحمد للہ پوری دنیا میں سیاسی و معنوی اقتدار کا حامل رہا ہے اور دشمن اس کا بال بھی بیکا نہيں کر پائے، یہ آپ لوگوں کے بھرپور تعاون اور شراکت کا نتیجہ ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ یہ نعمت، اسلامی جمہوریہ ایران سے چھین لے۔ بنابریں ایرانی قوم کو اس کے بر عکس عمل کرنا چاہئے؛ یعنی تمام شعبوں میں اپنی موجودگی کو دن بہ دن مضبوط بنائے۔ یہ بھی ایک شعبہ ہے۔ ماہرین کی کونسل کے انتخابات کا شعبہ۔ انشاء اللہ خواتین و حضرات خاص طور پر نوجوانوں کو تیاری کرنا چاہئے اور دشمن کو مایوس و نا امید کر دینا چاہئے۔ اگرایرانی قوم کا عزم، جو الحمد للہ گزشتہ برسوں میں بہترین طریقے سے ظاہر ہوا ہے، مستقبل میں پیش آنے والے امور میں بھی اسی طرح ظاہر ہو اور خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوگا ، تو یہ جان لیں کہ دشمن ایرانی قوم کے سامنے ایک بار پھر کمزوری و بے چارگی کا احساس تلے دب جائے گا۔ اسے ایک بار پھر اپن بے مائیگی کا احساس ہوگا، ایک بار پھر آپ اپنے ٹھوس موقف پر اپنی پائیداری کو پایہ ثبوت تک پہنچائیں گے۔ اس صورت میں آپ کے سرکاری عہدہ دار اور حکام پورے اطمینان اور دلجمعی کے ساتھ ملکی امور کی نگرانی کر سکیں گے۔ جب حکومت اور عوام کے خدمت گزار، عوامی حمایت کی جانب سے مطمئن ہوں تو وہ پوری تندہی کے ساتھ ملکی امور پر توجہ دیتے ہيں اور مسائل کو حل کرتے اور ضروری اقدامات انجام دیتے ہيں۔ جو کچھ ہونا چاہئے وہ خدا کی مدد سے ضرور ہوگا۔ دشمن جو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہ ہو، جبکہ ایرانی قوم جو چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ خداوند عالم، ایرانی قوم کو مختلف امتحانوں میں سرفراز و سربلند کرے گا اور ایرانی قوم کے توسط سے دنیا میں سامراجی محاذ کو ذلیل و رسوا کرے گا۔ انشاء اللہ حضرت بقيۃ اللہ ارواحنا فداہ کی دعائيں آپ سب کے شامل حال رہيں گی۔

والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته