نماز کے بعد خطبہ عید میں آپ نے عید الفطر کی ماہیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ماہ رمضان کی برکتوں اور دل آویز خصوصیتوں کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور ایک دوسرے کے سلسلے میں بد گمانی سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی باتوں کو سو فیصدی سچ مان کر اسے ثبوت کے طور پر پیش کرنے سے اجتناب کا مشورہ دیا۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:
 

خطبه‏ى اول‏

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏
الحمد للَّه ربّ العالمين. الحمد للَّه الّذى خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذين كفروا بربّهم يعدلون.
نحمده و نستعينه و نستغفره و نؤمن به و نتوكّل عليه‏ و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه و حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين‏ الهداة المهديّين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‏
و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين‏

میں نمازی بھائی بہنوں، تمام ملت ایران، دنیا بھر کے مسلمانوں اور عظیم امت مسلمہ کو عید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مسلمان ماہ رمضان سے نورانیت کے ساتھ باہر آتے ہیں۔ ماہ رمضان اپنے روزوں، ذکر و ثنائے الہی، دعا و مناجات، تلاوت کلام پاک اور دیگر حسنات کے ذریعے جن سے صاحب ایمان انسان بہرہ مند ہوتا ہے، قلوب کو نورانی کر دیتا ہے، انسان کے دل و جان پر جمی زنگ کو ہٹا دیتا ہے۔ صاحب ایمان انسان در حقیقت شب قدر سے نئے سال کا آغاز کرتا ہے۔ شب قدر میں کاتبان الہی اس کی ایک سال کی تقدیر لکھتے ہیں۔ نیا سال شروع ہوتا ہے اور در حقیقت ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ مسلمان ایک نئی راہ پر چل پڑتا ہے، تقوا کے زاد راہ کے ساتھ اس راستے کو طے کرتا ہے۔ اس راستے میں یادیں تازہ کرنے کے لئے کئی مراحل قرار دئے گئے ہیں جن میں سے ایک عید الفطر ہے۔ اس دن کی بڑی قدر کرنا چاہئے۔ عید فطر کے دن کی نماز در حقیقت ماہ رمضان میں دستیاب رہنے والی الہی نعمتوں کے شکرانے کی نماز ہے۔ اس نئی زندگی کے آغاز پر شکرانے کی نماز ہے۔ نماز عید فطر میں ہم باربار بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں کہادخلنی فی کل خیر ادخلت فیھ محمدا و آل محمد ہمیں ایمان و اخلاق و عمل کی اس پاکیزہ بہشت میں جگہ دے جہاں یہ برگزیدہ ہستیاں قیام پذیر ہیں۔ و اخرجنی من کل سوء اخرجت منھ محمدا و آل محمد صلواتک علیھ و علیھم ناشائستہ اعمال، ناپسندیدہ اخلاق و عادات اور نا مناسب عقائد کے دوزخ سے سے ہمیں نکال دے جس سے ان برگزیدہ ہستیوں اور عالم خلقت کی معزز ترین شخصیتوں کو محفوظ اور دور رکھا ہے۔ ہم عید فطر کے موقع پر اس عظیم ہدف کا تصور ذہن میں لاتے ہیں اور اللہ تعالی سے اس کے حصول کی دعا کرتے ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ کوشش کریں، محنت کریں کہ اس صراط مستقیم پر باقی رہیں۔ یہی نہیں تقوا و پرہیزگاری ہے۔ ماہ رمضان کا ایک بہت بڑا ثمرہ توبہ ہے، اللہ تعالی کی سمت واپسی۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ہم پڑھتے ہیں: واجتمع بینی و بین المصطفی و انقلنی الی درجۃ التوبۃ الیک ہمیں توبہ کے مقام پر پہنچا دے کہ ہم واپس آ سکیں۔ راہ کج، عمل بد، فکر بد اور اخلاق بد سے واپس لوٹ سکیں۔
ماہ مبارک رمضان کی الوداعی دعا میں امام سجاد علیہ السلام پروردگار عالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: انت الّذی فتحت لعبادک بابا الی عفوک و سمّیتہ التّوبۃ (1) تونے ہمارے لئے یہ دروازہ وا کیا کہ ہم تیری عفو و مغفرت کی جانب دوڑ پڑیں، تیری رحمت و مغفرت کی نعمت سے بہرہ مند ہو سکیں۔ یہ دروازہ توبہ کا دروازہ ہے۔ یہ مغفرت الہی کی پاکیزہ فضا میں کھلنے والا روشندان ہے۔ اگر اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر توبہ کا دروازہ وا نہ کیا ہوتا تو ہم گنہگار بندوں کی حالت بہت بری ہوتی۔ انسان اپنی فطری خواہشات اور ہوا و ہوس سے مغلوب ہوکر غلطیاں کرتا ہے، لغزش کا شکار ہوتا ہے اور اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ ہر گناہ ہمارے دل و جان پر ایک زخم لگاتا ہے۔ اگر توبہ کا راستہ نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے؟!
دعائے کمیل میں امیر المومنین فرماتے ہیں: لا اجد مفرا مما کان منّی و لا مفزعا اتوجّھ الیھ فی امری غیر قبولک عذری اگر اللہ تعالی کی بارگاہ میں معذرت خواہی اور عذر خواہی کی قبولیت کا راستہ نہ ہوتا ہو تو ہم خواہشات کی پیروی، لغزشوں، قانون شکنی اور گناہوں کے ذریعے جو مصیبتیں مول لیتے ہیں ان سے ہماری گلو خلاصی کی کیا صورت ہوتی؟! ہمارے پاس کوئی راہ فرار نہ رہتی، کوئی پناہ گاہ نہ ہوتی۔ اللہ تعالی نے ہمارے لئے ایک پناہ گاہ کا انتظام کیا ہے اور وہ ہے توبہ۔ توبہ کی قدر کیجئے۔
ایک نوجوان نادانی کے باعث ماں باپ کے گھر سے فرار ہو جاتا ہے لیکن بعد میں اپنے ماں باپ کی آغوش میں لوٹ آتا ہے تو اس سے مہر و محبت کا برتاؤ کیا جاتا ہے، اسے لاڈ پیار کیا جاتا ہے۔ یہی توبہ ہے۔ جب ہم خانہ رحمت الہی کی سمت لوٹ آتے ہیں تو رحمت الہی کی آغوش میں ہمیں جگہ دے دی جاتی ہے۔ ماہ مبارک رمضان میں فطری طور پر ہونے والی مومن انسان کی اس واپسی کی قدر کرنا چاہئے۔ میں نے ماہ رمضان میں نوجوانوں، کم عمر کے لڑکے لڑکیوں، عورتوں اور مردوں پر مشتمل دعا و مناجات کے جلسوں، قرآن کے جلسوں، ذکر و اذکار کے جلسوں کو دیکھا۔ اللہ تعالی کی سمت توجہ اور ارتکاز کے نتیجے میں آنکھوں سے نکل کر رخسار پر بہنے والے یہ آنسو بڑے قیمتی ہیں، بڑے با ارزش ہیں اور یہی توبہ بھی ہے۔ ہمیں اس توبہ کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ہماری خواہشیں اور خواہشوں سے مغلوب ہمارے دل ہمیں غلطیوں، خطاؤں اور لغزشوں کی سمت گھسیٹ لے جاتے ہیں۔ ایسے میں ماہ رمضان ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم خود کو پاک صاف بنا سکیں۔ یہ طہارت و صفائی بہت اہم ہے۔ یہ آنسو دلوں کو پاکیزہ بناتے ہیں۔ لیکن پھر اس طہارت و پاکیزگی کو محفوظ رکھنا چاہئے، اسے باقی رکھنا چاہئے۔ یہ سبھی بڑے رنج و الم، یہ مہلک و خطرناک بیماریاں، یعنی انانیت، تکبر، حسد، حد سے تجاوز، خیانتیں، لا ابالی پن، یہی ہماری بڑی بیماریاں ہیں، رمضان ان کے علاج کا موقع فراہم کرتا ہے اور ان کا علاج ممکن ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی نظر التفات ڈالتا ہے اور یقینا اس نے توجہ فرمائی ہے۔ اس سال کا ماہ مبارک رمضان بڑا دل آویز تھا۔ محفل قرآن، ذکر و اذکار کی نشست، دعا و مناجات کے جلسے، وعظ و نصیحت کی مجلس اور ان میں مختلف سماجی طبقات کی شرکت، مختلف چہروں اور الگ الگ مزاج کے افراد کی موجودگی۔ اس مہینے میں کتنا انفاق کیا گيا، اس مبارک مہینے میں مستضعفین کی کتنی مدد کی گئی؟! اس کی بڑی ارزش ہے۔ ان میں ہر ایک سے روح انسانی کو ایک خاص خوشبو ملتی ہے، انسان کو گشائش میسر ہوتی ہے۔ ان چیزوں کو برقرار رکھنا چاہئے۔ میری سفارش یہ ہے کہ نوجوان اپنے ان نرم و لطیف اور نورانی قلوب کی قدر کریں۔ اول وقت نماز کی ادائیگی، مساجد میں جانا، تلاوت کلام پاک، قرآن سے انسیت، اہل بیت سے ماثور و منقول دعاؤں سے، جو اسلامی معرفتوں کا خزینہ ہیں، مانوس ہونا بڑی قابل قدر چیزیں ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ اخلاقیات پر توجہ دیں، اخلاقیات کو اہمیت دیں۔ اخلاق کی اہمیت عمل سے بھی زیادہ ہے۔ معاشرے کی فضا کو اخوت و برادری، مہر و محبت اور حسن ظن سے معمور کریں۔ میں فضا کو بد گمانی سے مکدر کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ ہمیں خود کو ان عادتوں سے نجات دلانا چاہئے۔ یہ جو نئی روش چل پڑی ہے کہ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کہ جن کی تعداد اور جن کے پھیلاؤ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہےایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کرتے ہیں، یہ اچھی چیز نہیں ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ یہ چیز ہمارے دلوں کو تاریک اور زندگی کی فضا کو ظلمانی بنا دینے والی ہے۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہےکہ گنہگار کو اس کے گناہوں کی سزا بھی مل جائے لیکن ماحول گناہ کی آلودگی سے بھی محفوظ رہے۔ تہمتیں لگانا، دوسروں پر افواہیں پھیلانے کا الزام لگانا۔ میں یہیں پر یہ بھی کہتا چلوں کہ یہ جو کورٹ کے اندر جس کی کاروائی ٹی وی پر نشر کی جا رہی ہے، اگر کوئی ملزم کسی دوسرے شخص کے بارے میں کچھ کہتا ہے تو اس کے بارے میں میں بتا دوں کہ شرعی لحاظ سے یہ حجت نہیں اور کوئی حتمی دلیل نہیں ہے۔ ہاں اگر ملزم اپنے بارے میں کوئی اقبالیہ بیان دے تو وہ یقینا حجت ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا اقبالیہ بیان حجت اور دلیل نہیں، غلط بات ہے، اس بات کی کوئی ارزش نہیں ہے۔ جب عدالت کے اندر کیمروں کے سامنے دسیوں لاکھ ناظرین کی نظروں کے سامنے کوئی شخص کسی چیز کا اعتراف کرتا ہے، اقبال جرم کرتا ہے تو یہ اعتراف نافذ ہوگا، قبول کر لیا جائے گا، ہاں اگر کسی اور شخص کے بارے میں کسی چیز کا اعتراف کرتا ہے تو وہ نافذ نہیں ہوگا۔ ماحول کو تہمت و بد گمانی سے مکدر نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن کہتا ہے لو لا اذ سمعتموہ ظنّ المؤمنین والمؤمنات بانفسھم خیرا (2) جب آپ لوگ کسی پر الزام لگتا دیکھیں تو ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن کیوں نہ رکھیں؟ عدلیہ اور مجریہ کے فرائض اپنی جگہ برقرار ہیں۔ مجریہ کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کا تعاقب کرے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ مجرم کو سزا سنائے۔ سب کچھ اسی روش کے مطابق جو اسلامی قوانین اور عرف عام کی بنیاد پر طے شدہ ہے۔ اس سلسلے میں کوئی رو رعایت نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن پھر بھی کسی مجرم کو سزا دینا جس کا جرم قانونی طریقے سے ثابت ہو گیا ہے الگ بات ہے اور بد گمانی، تہمت، الزام تراشی، بدنام کرنا، چرچہ کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ماحول مناسب نہیں ہے۔ یا یہ کہ اغیار اور غیر ملکی ٹی وی چینل کسی کے خلاف کوئی بات کہہ دیں، کوئی شوشہ چھوڑ دیں کہ ان لوگوں نے فلاں موقع پر خیانت کی ہے، فلاں جگہ پر غلطی کی ہے اور ہم انہی کی باتوں کو دہرانے لگیں تو یہ سراسر ظلم ہے، یہ قابل قبول نہیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کب سے ہمارے ہمدرد بن گئے؟! انہوں نے کب حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے کہ اب اس مسئلے میں وہ حقیقت پسند بن جائیں گے؟! وہ تو کہتے رہتے ہیں، دعوے کرتے رہتے ہیں، اسے شفافیت کا نام نہیں دینا چاہئے۔ یہ شفافیت نہیں ہے، یہ فضا کو مکدر کرنا ہے۔ شفافیت کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے عہدہ داران اپنی کارکردگی کو پوری تفصیلات کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کر دے۔ یہ ہے شفافیت۔ یہ ہونا بھی چاہئے۔ لیکن یہ کہ دوسروں پر، ثابت ہونے سے قبل، تہمتیں لگانے لگیں ایسی باتیں ان سے منسوب کریں جو ممکن ہے صحیح بھی نکل آئیں لیکن جب تک یہ چیزیں ثابت نہیں ہوئی ہیں انہیں بیان کرنے کا ہمیں حق نہیں ہے۔ ایک شخص دوسرے پر الزام لگائے دوسرا تیسرے کو مورد الزام ٹھہرائے اور بیرونی ذرائع ابلاغ، برطانوی ذرائع ابلاغ کی باتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے پھر کہیں سے کوئی اٹھے اور پورے اسلامی جمہوری نظام پر ایسے الزامات لگا دے جو کسی بھی طرح اسلامی نظام کے شایان شان نہیں۔ کسی شخص پر الزام اور تہمت لگانا گناہ ہے اور پورے اسلامی نظام پر الزام عائد کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ پروردگارا! تقوا کے ذریعے ہمیں ان گناہوں سے دور رکھ۔

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات‏
و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.(3)

 

خطبه‏ى دوم‏
 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد
و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين لا سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة
و الحسن و الحسين سيّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏بن‏الحسين و محمّدبن‏علىّ‏
و جعفربن‏محمّد و موسى‏بن‏جعفر و علىّ‏بن‏موسى و محمّدبن‏علىّ و علىّ‏بن‏محمّد
و الحسن‏بن‏علىّ و الخلف الهادى المهدىّ حججك على عبادك و امنائك فى بلادك‏
و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين‏
اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه‏

دوسرے خطبے میں سب سے پہلے جس موضوع پر گفتگو کو ضروری سمجھتا ہوں وہ یوم قدس پر دنیا والوں کے سامنے بے مثال عظمت کے مظاہرے کے لئے عظیم الشان ملت ایران کے شکرئے اور قدردانی کا موضوع ہے۔ ان گزشتہ برسوں میں کتنی کوششیں کی گئيں کہ یوم قدس کو جو باطل کے مقابلے میں حق کی صف بندی کا مظہر ہے پھیکا اور کمرنگ کر دیا جائے۔ یوم قدس صرف فلسطینیوں کا دن نہیں ہے۔ یہ امت مسلمہ کا دن ہے۔ صیہونزم کے سرطانی پھوڑے کے خلاف جو غاصب مداخلت پسند اور سامراجی قوتوں کی سازشوں کے نتیجے میں مسلم امہ کی جان کو لگ گيا ہے، مسلم امہ کی صدائے احتجاج بلند ہونے کا دن ہے۔ یوم قدس کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یوم قدس ایک عالمی دن ہے۔ اس کا ایک عالمی پیغام ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ امت مسلمہ ایک تو ظلم برداشت کرنے والی نہیں ہے خواہ اس ظلم کو دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یوم قدس کو کمزور کرنے کی کتنی کوششیں کی گئیں؟! اس سال یہ کوششیں کچھ زیادہ ہی دیکھی گئیں لیکن ایران اسلامی اور شہر تہران میں منائے جانے والے یوم قدس سے ثابت ہو گیا کہ انقلاب اور ملت ایران کی پیش قدمی کی سمت و رخ کیا ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ ملت ایران کا ارادہ کیا ہے، ثابت ہو گیا کہ حربوں، مکر و فریب اور سیاسی خباثتوں کا ملت ایران کے جذبے پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مغرب کے حکام اور سیاستداں ان چند مہینوں میں اپنے ہی ذرائع ابلاغ کے فریب میں آ گئے، اپنے ماہر و پیشہ ور سیاسی تجزیہ نگاروں کے فریب میں آ گئے، وہ سجمھے کہ ملت ایران پر اثر انداز ہو جائیں گے۔ لیکن یوم قدس پر آپ نے ثابت کر دیا کہ وہ جو دیکھ رہے تھے محض ایک سراب تھا۔ حقیقت یہ ہے، (جو یوم قدس پر سامنے آئی ہے)۔ ملت ایران کی حقیقت وہی چیز ہے جو ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے یعنی یوم قدس پر سامنے آئی۔ یہ ثابت ہو گیا کہ عالم اسلام میں اس باعظمت روش کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے، یہ صرف ایران سے مختص نہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو جہاں بھی موقع ملا انہوں نے یوم قدس پر ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ یوم قدس بڑا عظیم دن ہے۔ آپ نے یہ کارنامہ بڑے شاندار انداز میں انجام دیا۔ ملت ایران نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ حساس مواقع پر وہ اپنی موثر آواز دنیا والوں کے کانوں تک پہنچا سکتی ہے۔
ہفتہ دفاع مقدس شروع ہو رہا ہے۔ مقدس دفاع ملت ایران کا دینی و قومی جہاد تھا۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے ذریعے ملت ایران نے اپنی قومی خود اعتمادی کے جذبے کی تقویت کی، اس کی صلاحیتوں پر نکھار آیا، اسے اپنی نہفتہ صلاحیتوں کی شناخت ہوئی۔ مسلح فورسز ہوں یا رضاکار فورس (بسیج) ہر جگہ ہمارے نوجوانوں نے ایران کی وہ تصویر پیش کی کہ دسیوں سال بلکہ شائد دو سو تین سو سال میں کبھی بھی ایران کی ایسی تصویر دنیا کے سامنے نہیں آئی۔ اگر آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم اور ہمارے جوان اپنی عظیم صلاحیتوں کے ساتھ سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں سرگرم عمل ہیں تو اس کا بڑی حد تک سہرا مقدس دفاع کے سر جاتا ہے۔ اسی مرحلے پر پہنچ کر ملت ایران کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس کتنی توانائیاں ہیں، کتنی صلاحیتیں ہیں۔ جن لوگوں نے اسلامی جمہوریہ پر حملہ کیا تھا انہوں نے اپنے اندر ہی اندر یہی خواب دیکھا تھا کہ تین دن، ایک ہفتے یا ایک مہینے کے اندر تہران کو فتح کر لیں گے! ان دنوں کو اب تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ملت ایران روز بروز زیادہ طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ درخت روز بروز زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوا ہے۔ فکری دیوالئے پن کا شکار یہ عناصر کوڑے دانوں کی نذر ہوکر نابود ہو گئے۔ آگے بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔
آج میں اپنی عزیز قوم اور محترم حکام سے جس چیز کی سفارش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ترقی و انصاف کے عشرے میں سب خود کو آمادہ کریں۔ ہمیں برق رفتار پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ ہم بہت پسماندگی کا شکار ہیں۔ معمولی رفتار سے پیش قدمی کی صورت میں ہم مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ہمیں برق رفتاری کی ضرورت ہے۔ اس برق رفتاری کے لئے ایمان چاہئے، اس کے لئے ہم آہنگی چاہئے، محکموں کا باہمی تعاون چاہئے۔ تینوں ادارے (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) آپس میں تعاون کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں، ہم خیالی و ہمفکری قائم کریں۔
عوام حکام کی بالخصوص مجریہ کے عہدہ داروں کی جو میدان میں موجود ہیں مدد کریں، ان سے تعاون کریں، ان کی ہمراہی کریں تاکہ ہم نئی راہوں پر قدم رکھ سکیں، ان منزلوں پر پہنچیں جو ہمارے انتظار میں ہیں۔
ایک نکتے پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا اور وہ نقطہ علم کا ہے۔ کئی سال سے ملک میں علمی تحریک شروع ہو چکی ہے۔ دانشور اور سرکردہ شخصیات اس تحریک کو سست روی اور توقف کا شکار نہ ہونے دیں۔ مسلسل آگے بڑھتے رہیں۔ یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز کی اس سلسلے میں بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ اساتذہ اور طلبا سب کی ذمہ داریاں ہیں۔ علم کی راہ پر آگے بڑھئے۔ اگر کوئی قوم علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں اور علمی حدوں کو توڑنے کے سلسلے میں پیشرفت نہ کر سکی تو وہ فتحیاب نہیں ہو سکتی۔
اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ افراد جان بوجھ کر اور آنکھیں بند کرکے ظلم کئے جارے رہے ہیں، تو اس کی وجہ ان کا علم اور ان کی سائنسی ترقی ہے۔ سائنس نے ہی انہیں دولت مہیا کرائی ہے، سائنس سے ہی انہیں سیاسی طاقت ملی ہے، دنیا کے گوشے گوشے میں ان کا اثر و نفوذ بڑھا ہے۔ بنابریں ترقی کی کنجی علم و دانش ہے۔ علمی تحریک کی پیشرفت کو رکنے نہ دیجئے۔
ایک اور نکتے کی طرف بھی اشارہ کر دوں۔ اس سال ہم نے اعلان کیا ہے کہ یہ معیار صرف کی اصلاح کا سال ہے۔ سب نے اس کا خیر مقدم بھی کیا۔ حکام نے استقبال کیا، عوام نے بھی جن کی آوازیں ہم تک پہنچی بھی ہیں، اس کا خیر مقدم کیا ہے، ماہرین اور دانشوروں نے بھی جو مختلف سماجی و اقتصادی میدانوں میں کام کر رہے ہیں، اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ سب نے کہا کہ کیا اچھا نعرہ ہے؟ ٹھیک ہے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ بد قسمتی سے تین چار مہینے ملک کو بیکار کے ہنگاموں سے الجھنا پڑا۔ اب نصف سال ختم ہونے کو ہے۔ البتہ معیار صرف کی اصلاح کا مسئلہ کسی ایک سال سے مختص نہیں اس میں برسوں لگیں گے۔ میں نے عید (نوروز) کے موقع پر کہا تھا کہ شائد اس کے لئے دس سال لگ جائیں لیکن بہرحال کام شروع کرنا چاہئے۔ حکام کو چاہئے کہ اس سلسلے میں کوششیں کریں، تعاون کریں، مدد کریں۔ یونیورسٹیاں، با خبر افراد، دینی تعلیمی مراکز سب کی ذمہ داریاں ہیں، سب اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ تائید الہی کے ذریعے اور محترم حکومت کی کوششوں سے ہم اس میدان میں آگے بڑھ سکیں اور عوام کی مدد سے اس ہدف کو حاصل کریں۔

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏
انّا اعطيناك الكوثر. فصلّ لربّك و انحر. انّ شانئك هو الابتر.(4)
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏

1) صحيفه‏ى سجاديه، دعاى 45
2) نور: 12
3) عصر: 1 - 3
4) كوثر: 1 - 3