تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے۔

بسم‏ اللَّه ‏الرّحمن‏ الرّحيم‏

میں اس با برکت عید کی تمام عالم اسلام، تمام حریت پسند انسانوں اور عظيم اسلامی امت اور ایران کی قوم نیز آپ لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ روز بعثت یقینی طور پر تاریخ بشریت کا سب سے بڑا دن ہے کیونکہ جس کو خداوند عالم نے اپنا مخاطب بنایا اور جس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی، یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات، وہ بھی تاریخ کے عظیم ترین انسان، عظيم ترین الہی نشانی اور اسم اعظم کے مظہر ہیں؛ یا دوسرے لفظوں میں اسم اعظم الہی خود ان کا وجود ہے اور اس زاوئے سے بھی یہ دن عظیم ہے کہ جو ذمہ داری اس عظیم شخصیت کو سونپی گئ یعنی نور کی سمت عوام کی ہدایت، بشریت کے کاندھوں سے بھاری بوجھ ہٹانا، انسانی وجود کے لائق ایک نئ دنیا کے مقدمات کی فراہمی اور بعثت انبیاء کے دیگر سنگین فرائض، یقینی طور پر بھاری اور عظیم ذمہ داری تھی یعنی مخاطب بھی عظیم تھا اور اسے سونپی جانے والی ذمہ داری بھی بہت بڑی تھی۔ اسی لئے یہ دن تاریخ کا سب سے عظیم اور سب سے زیادہ قابل احترام دن ہے۔
اگر کوئی بعث کے مفاہیم کو ہماری ناقص فہم کے دائرے میں سمیٹنا چاہے تو یقینا بعثت، اس کی حقیقت اور اس عظيم ذمہ داری کی حقیقت پر ظلم ہوگا۔ پیغمبر اعظم کی بعثت کے مفاہیم کو ہم اپنی ناقص فہم میں محصور نہیں کر سکتے لیکن اگر ایک جملے میں بعثت اور اس کے دائرے کو جو لامحدود ہے اجمالی طور پر سمجھنا چاہیں تو میں یہ کہوں گا کہ بعثت انسانوں کے لئے اور انسانوں سے متعلق ہے، انسان لامتناہی ہے اور اس کے وجود کے وسیع پہلو ہيں۔ وہ جسم، مادے اور دنیا کی چند روزہ زندگی تک ہی محدود نہيں ہے۔ صرف معنویات تک بھی محدود نہیں ہے۔ تاریخ کے کسی خاص دور تک بھی محدود نہيں ہے۔ انسان ہمیشہ اور تمام حالات میں انسان ہے اور اس کے وجود کے پہلو لامتناہی اور ناشناختہ ہيں۔ آج بھی انسان پراسرار موجود ہے۔ بعثت اس طرح کے انسان کے لئے اور اس طرح کے انسان کے مستقبل کے لئے اور اس طرح کے انسان کی ہدایت کے لئے ہے۔
البتہ ہر دور میں اور ہر زمانے میں، ہر فرد اور ہر انسانی معاشرہ، اپنی گنجائش اور صلاحیت کے اعتبار سے اس سے استفادہ کرتا ہے، جیسا کہ صدر اسلام کے مسلمانوں نے بعثت کے مفہوم اور اس کی حقیقت سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کی اور اس درخشاں نور کو اس زمانے کی پوری دنیا تک پھیلایا اور بہت سے انسانوں کی صحیح راستے اور بندگی کی حیققت کی سمت راہنمائی کی۔ اس کے بعد ایک دور میں دنیا میں علم و ثقافت کا ایسا راستہ کھولا کہ آج بھی تاریخ کی اونچی دیواروں اور مدتیں گزر جانے کے باوجود اس کی روشنی دیکھی جا سکتی ہے اور آج بھی دنیا اس علمی و تہذیبی ترقی سے استفادہ کر رہی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں جب بھی مسلمانوں نے اسلام سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا ہے کامیاب رہے ہيں۔ جس انسان نے بھی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اسلام سے فائدہ اٹھایا ہے وہ کامیاب رہا ہے ۔
جو کجھ ایران میں ہوا یعنی وہ عظیم انقلاب اور اسلامی نظام کی تشکیل، اس چیز کا پرتو تھا جسے اسلام انسانوں کے لئے لایا ہے۔ ایرانی قوم کی بہت بری حالت تھی، ایرانی قوم تاریکیوں میں زندگی گذار رہی تھی، وہ اپنے انسانی مقام و مرتبے سے سے بہت دور ہو چکی تھی۔ اسلام سے دوری کی وجہ سے اس پر علمی، انسانی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ظلم ہو رہا تھا۔ اسلام سے آشنائی اور اس کی معرفت کی برکت سے ہماری قوم نے ایک عظيم تحریک کے ذریعے خود کو اسلام کے سرچشمے تک پہنچا دیا۔ اسلامی احکام پر عمل کیا، اس کے عظیم احکام پر عمل اور اسلام کے احکام پر غور و خوض کا موقع اپنے لئے فراہم کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا، اسلام کی حقیقت پر گہرائی سے غور کیا اور قرآن کی معرفت حاصل کی۔
آج الحمد للہ ہمارے ملک کے نوجوانوں نے، اپنے اندر موجود معنویت، پاکيزگی اور نورانیت کی بدولت بڑے بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ آج قرآن ہمارے سماج میں متروک شئ نہيں ہے۔ ہمارے نوجوان، قرآن مجید سے آشنا ہو رہے ہيں، عوام میں قرآن سے لگاؤ پیدا ہو رہا ہے، وہ اس سے نزدیک ہو رہے ہیں اور ملک میں قرآنی علوم رائج ہو رہے ہيں۔ ملک میں بہت سے اسلامی احکام پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ یقینا ہم اپنی توانائی اور طاقت کے مطابق آگے بڑھے ہيں لیکن ہماری منزل یہ نہیں ہے۔ یہ اسلام میں موجود گنجائش کی انتہا نہیں ہے۔ اگر کوئی قوم محکم ارادہ کر لے اور اس قوم کا درد رکھنے والے، اسلامی معارف اور اسلامی حقائق کی سمت قوم کی پیش قدمی کے لئے خود کو وقف کر دیں تو جو چیز ان کے ہاتھ لگے گی وہ اتنی درخشاں ہوگی کہ انسان اس کا تصور بھی نہيں کر سکتا۔ اسلام کے سائے میں ترقی کا میدان کھلا ہوا ہے۔ علمی ترقی کے لئے بھی اور عملی ترقی کے لئے بھی، اخلاقی ترقی کے لئے بھی، سیاسی ترقی کے لئے بھی، شہری تہذیب کے لئے بھی اور آزادی و انصاف و عظیم انسانی اہداف کے لئے بھی۔ اسلامی ماحول میں اور اسلام کے پرچم کے تلے انسان کے لئے کوئي حد اور حجاب نہيں ہے۔ یہ ہماری کمزوری ہے، یہ انسانوں کی کوتاہی ہے جو انہيں اسلام سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے نہيں دیتی۔ اسلامی ماحول میں اسلامی روش کی سمت بازگشت اور اسلامی معارف پر عمل ایک عظیم کام ہے اور اگر تمام اسلامی ممالک کے دانشور اور اہل علم و معرفت حضرات اس پر غور کریں تو بہت بڑے فوائد حاصل ہو سکتے ہيں۔
اسلام کو صحیح انسانی فہم کے ذریعے اور اسلام کے اصل معارف میں موجود شکل میں پہچانا جانا چاہئے، اس کے صحیح علم اور قرآن مجید کی رہنمائی میں اس پر عمل کرنا چاہئے۔ خود قرآن «تبياناً لكلّ شى» ہے، راہنما ہے، بیان ہے، لائحہ عمل ہے۔ اسلامی سماجوں میں، دانشوروں کو یہ سمجھایا جاتا ہے، جو در اصل مغرب کے نظریاتی تسلط اور مغربی تہذیب کے غلبے کا نتیجہ ہے جسے اسلامی نظریات سے خوف ہے، کہ اسلام کو مغربی علوم کے ذریعے سمجھنا چاہئے! ایسا نہيں ہے۔ البتہ ہر طرح کا علم انسان میں آگہی پیدا کرتا ہے اور اسے بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے لیکن اسلام کو خود اسلام سے سمجھا جانا چاہئے۔ اسلامی حقائق کو اسلامی ماخذوں اور معرفتوں سے اخذ کیا جانا چاہئے۔ اسلام کے حقائق سے واقفیت خود اسلامی اصطلاحات کے ذریعے حاصل کی جانی چاہئے اور اسے سمجھنا اور اس پر عمل کیا جانا چاہئے۔ اسلام، انسانی اذہان کو راستہ دکھانے والی مشعل اور انسان کے لئے ہادی ہے۔ قرآن ہدایت و نور کی کتاب ہے۔ جو لوگ قرآن سے رجوع اور اس میں غور و فکر کرتے ہیں وہ در اصل اپنے اندر وہ ضروری صلاحیت پیدا کرتے ہيں جس کے ذریعے وہ قرآن کے معارف سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ایسے ہی لوگوں کو قرآن سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اس بات پر بالکل توجہ نہيں دی جانی چاہئے کہ ہم اسلام کو جس طرح سے سمجھ رہے ہيں وہ ان لوگوں کے فیصلوں پر کس طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے، جن کا اسلام سے کوئي تعلق نہيں ہے، جو لوگ اسلام کو پسند نہيں کرتے اور اسے اپنے لئے اقتصادی و سیاسی امور میں باعث زحمت تصور کرتے ہيں۔ ہمیں اس بات پر توجہ نہيں دینی چاہئے کہ اسلام کے بارے میں ہمارا ادراک انہيں پسند ہے یا نہيں، اسلام کا ہمارے ذہنوں میں جو مفہوم ہے اسے وہ قبول کرتے ہيں یا نہيں؟ اسلام، انسانوں کی ہدایت کے لئے ایسے عالم میں آیا اور انسانی سماج میں داخل ہوا جب ہر طرف سے اس کی نفی کی جا رہی تھی۔ پیغمبر پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جا رہے تھے، آپ قرآن کو ملاحظہ کریں؛ دشمن پیغمبر اسلام کے بارے میں جس قسم کے الفاظ کا استعمال کرتے تھے وہ ایسے تھے کہ ہر کمزور انسان کو توڑ دیں گے اور اپنی بات کہنے کی جرئت و ہمت اس سے سلب کر لیں گے لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی توجہ نہ دی اور اپنی زبان پر جاری اور دل پر اترے الہی پیغام کو بیان کیا پھر کلام الہی کی نورانیت نے اپنا کام کر دکھایا۔ ہمارے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جب میدان میں آئے، جب پوری دنیا میں سب کو یہ علم ہوا کہ اس عظیم انسان نے اسلام پر صحیح معنوں میں عمل اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کیا ہے تو وہی ذرائع ابلاغ جو پہلے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بارے میں کبھی تعریفی الفاظ بھی استعمال کر لیا کرتے تھے، انہی نے خود امام خمینی اور ان کے پیغام، اسلامی سماج اور نظام اسلامی کے بارے میں اہانت آمیز، تحقیر آمیز انداز اختیار کر لیا۔ الزامات کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا لیکن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اہمیت نہيں دی اور ہمارا اسلامی سماج، ہمارے نوجوان، ہمارے دانشور اور ہمارے حکام، پوری شجاعت و جرئت کے ساتھ اس راستے پر آگے بڑھتے رہے نتیجے میں کامیابی نے ان کی قدم بوسی کی۔ آج اسلامی نظام اور حکومت، دنیا کی با عزت ترین حکومت ہے۔ آج ہمارا علاقہ، دنیا کے اہم ترین سیاسی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہماری قوم با عزت و با وقار ہے۔ ہماری حکومت با عزت و سربلند ہے۔ ہمارے امور، صحیح طریقے پر، صحیح شکل میں اور بغیر کسی بڑے نقص کے جاری و ساری ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کی برکت ہے۔ اس دباؤ کا، ان تہمتوں کا، ان تحقیروں کا، تعصب کے ان الزامات کا، شدت پسندی کے الزامات کا کوئی اثر نہيں ہوا اور قوم نے اپنے راستے پر سفر جاری رکھا۔ آج بھی ایسا ہی ہے ۔ میرا یہ خیال ہرگز نہيں ہے کہ ہر ایک اسلام کے ادراک میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ جی نہيں، اسلام کو سمجھنے اور قرآن کا شعور حاصل کرنے کے لئے، دیگر تمام امور کو سمجھنے کی طرح کچھ مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ زحمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی حد تک صلاحیت ضروری ہوتی ہے۔ تنگ نظری، شدت پسندی و تعصب سے کام نہيں چلنے والا ہے جسیا کہ بے لگام ہو جانا بھی کار ساز نہيں ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں جو سمجھا جاتا ہے، اسلام کے بارے میں جو کچھ تسلیم کیا جاتا ہے، اسلامی ہدایت کی شکل میں جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے، اسے طاقت، شجاعت، ایمان، امید اور اچھے مستقبل کے یقین کے ساتھ لے لینا چاہئے۔ راستے پر چلنا چاہئے اور تحریک کو آگے بڑھانا چاہئے۔ یہ ایسا کام ہے جو آج ہماری قوم انجام دے رہی ہے۔ آج ایران کی قوم اور حکومت، حقیقی اسلام کے راستے پر، اس اسلامی راستے پر کہ انقلاب کی برکتوں کی وجہ سے جس کی شناخت حاصل ہوئی ہے، آگے بڑھ رہی ہے۔ یقینا ان پر الزامات عائد کئے جا رہے ہيں؛ کبھی کہا جاتا ہے وہ متعصب ہيں، کبھی کہاجاتا ہے کہ وہ رجعت پسند ہيں، کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ شدت پسند ہيں۔ کوئي بات نہيں، انہيں کہنے دیں۔ دشمن سے اور توقع ہی کیا ہے۔ ہم نے اسلام کو پہچان لیا؛ اسلام پر ایمان لے آئے، پیغمبر اسلام سے محبت کرتے ہيں، جس راستے پر چل رہے ہيں اس (کی حقانیت) پر پورا یقین ہے، اسے آزما چکے ہيں لہذا اسی راستے پر چلتے رہيں گے۔ ایرانی قوم اس راستے پر چلتی رہے گی۔
اسلام اور ہمارے اسلامی نظام کے دشمنوں کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ ہماری قوم کو اپنے ماضی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیں؛ اس گزشتہ بیس سالہ ماضي کے بارے میں، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات با برکت کے دس برسوں کے بارے میں، اس دور کے بارے میں جب وہ عظیم مرد خدا، بے مثال عالم دین اور تاريح کا عدیم المثال رہنما ہمارے درمیان موجود تھا اور ہم سے باتيں کرتا تھا، ہماری راہنمائی کیا کرتا تھا، آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں۔ دشمن حیرت و پسندیدگی کے اظہار پر مجبور ہو جاتے تھے۔ جس نے وقار و مہارت کے ساتھ ہماری عظیم قوم کو تاریخ کے سخت ترین دور سے گزار دیا، اس دور سے جو ہماری قوم کے لئے لائحہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے اور جسے معیار بنا کر ہماری قوم آج آگے بڑھ رہی ہے۔ دشمن ان سب چیزوں کی نفی کرنا چاہتا ہے اور اسے ہماری قوم سے چھین لینے کے در پے ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ اس دور کو عوام کے ذہنوں میں غلط ظاہر کرے اور یہ تصور پیدا کرے کہ اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
آج جو لوگ اس ملک میں اہم عہدوں پر ہيں، اس ملک کے حکام، صدر، حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور ملک کا ہر شہری سب کے سب، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، ان کے راستے، ان کی تحریک اور ان کے دور کے قابل فخر کارناموں سے عقیدت رکھتے ہيں اور اسے کبھی نظر انداز نہيں کر سکتے۔ یہ انقلاب کے بعد بیس برسوں کا ہمارا قیمتی سرمایہ ہے۔ ہم نے اسلام کی برکت سے اپنی تحریک شروع کی۔ اسلام کی برکت سے آگے بڑھے، اسلام کی برکت سے اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنایا، اسلام کی برکت سے اپنے دشمنوں کو مایوس کیا، اسلام کی برکت سے دشمن کے ذریعے پھیلائے ہوئے بہت سے جالوں سے بچ نکلے، اسلام کی برکت سے اپنے ملک کی نئے سرے سے تعمیر و ترقی کے راستے پر بڑھے اور اب اس راستے پر گامزن ہیں، بہت سے امور میں ہم نے ترقی کی۔ یہ سب کچھ اسلام کی برکت سے ممکن ہوا ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے سب اسلام کی دین ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے، قرآن کی وجہ سے ہے، اس عظیم شخصیت کی راہنمائیوں کی وجہ سے ہے۔ ہمیں علم ہے کہ یہی راستہ ہماری قوم کو خوشحالی و کامرانی تک پہنچائے گا اور قوم کو مادی و معنوی نعمتوں کے چشموں سے سیراب کرے گا ۔ ہمارے مسائل اسلام پر عمل کی برکتوں اور اس راستے پر خودمختاری کے ساتھ گامزن رہنے سے حل ہو جائيں گے اور الحمد للہ آج ملک کے تمام حکام، اس حقیقت پر مکمل یقین کے ساتھ کام کر رہے ہيں، محنت کر رہے ہيں اور کوشش کر رہے ہيں۔ دنیا کے مسلمان، اسلام سے جتنا نزدیک ہوں گے اس عزت و وقار کے ذائقے سے اتنا ہی زیادہ محظوظ ہوں گے اور جتنا ایک دوسرے سے متحد رہیں گے اتنا ہی زیادہ انہيں اسلام سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ آج مسلمانوں کو جزوی اور فروعی اختلافات، قبائلی اختلافات، تاريخی و مذہبی اختلافات کو بھول کر اتحاد کی سمت بڑھنا چاہئے۔
انشاء اللہ عظيم اسلامی امہ تمام اسلامی ملکوں میں بڑے بڑے مسائل کو حل کر لے گی اور انشاء اللہ اسلامی امت کا مستقبل، ماضی سے کہيں بہتر ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ ایران اور پوری دنیا کی اسلامی امہ، اسلامی و قرآنی فیوض سے مستفیض ہوگی اور حضرت بقيۃ اللہ الاعظم کی دعائيں اس کے شامل حال ہوں گي اور خدا تمام مسلمانوں کو اپنے لطف و کرم و رحمت سے نوازے گا۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏