اس میں کہنہ مشق شعرا کے ساتھ ہی کچھ نوخیز شاعروں نے بھی شرکت کی اور اپنے کلام پیش کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں شعراء کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کیا اور انہیں جمود و سست روی سے گریز کرتے ہوئے مسلسل ارتقائی عمل جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ آپ نے انقلاب کے موضوع پر طبع آزمائی کرنے والے شعراء کی تعریف کی اور ساتھ ہی انہیں اپنے اشعار کا تنقیدی جائزہ لینے کا مشورہ دیا۔ آپ نے تنقید کی نشستوں کو بھی اہم اور موثر قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے شعراء اور اہل فن حضرات کو حقیقت کے ادراک اور صحیح انداز میں بیان کرنے کی دعوت دی اور اسے بہت اہم قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے بارہ جون دو ہزار نو کو ایران میں منعقدہ صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے بد امنی کے واقعات کا بھی حوالہ دیا اور فرمایا کہ یہ واقعات فوجی مشقوں کی مانند تھے جن سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ کہاں کہاں خامیاں ہیں، جس طرح فوجی مشقوں میں بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کہاں پر خامیاں موجود ہیں۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے: 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم ‏

تمام محترم شعراء و شاعرات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کے درمیان کچھ کہنہ مشق اور استاد فن لوگ موجود ہیں اور کچھ تازہ دم افراد ہیں۔ ہر ایک کا اپنا الگ لطف ہے اور ہر گل کی اپنی الگ خوشبو۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ہر گل کی عطر انگیزی سے (وقت کی کمی کے باعث) استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔ احباب نے تقسیم بندی کی ہے اور بعض معززین سے درخواست کی گئی ہے کہ اپنا کلام پیش کریں۔ میں بھی محظوظ ہونے کے لئے تیار بیٹھا ہوں۔ خدا آپ سب کو کامیاب کرے۔
(اس کے بعد شعرا نے اپنا اپنا کلام پیش کیا اور آخر میں قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اہم ترین نکات بیان کئے)

 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

ایک بار پھر خوش آمدید کہتا ہوں اور سبھی بھائیوں، بہنوں اور بالخصوص ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جن کے کلام سے بہرہ مند ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ گزشتہ سال کی مانند میں نے اس سال بھی غور کیا کہ انقلابی اشعار کی سطح اور اس (نئی) نسل کے شعرا کا انداز کیا ہے۔ میں نے گزشتہ سال بھی یہ بات کہی تھی اور آج بھی اسے دہراؤں گا کہ میں نمایاں طور پر محسوس کر رہا ہوں کہ یہ سطح بلند ہو رہی ہے۔ انقلابی شعراء کے اشعار کی سطح آج دس سال، پندرہ سال قبل کے مقابلے میں زیادہ بلندتر ہے۔ میں ان لوگوں کی بھی جو کل انقلاب کے تازہ دم جوان تصور کئے جاتے تھے اور آج الحمد للہ ادھیڑ ہو چکے ہیں اور بدستور اسی راہ میں آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو اس میدان میں نئے نئے وارد ہوئے ہیں، میرا مقصد یہ ہے کہ جن کے اشعار حال میں سامنے آئے ہیں، شاید یہ لوگ بھی برسوں سے اس میدان کی سیاحی میں مصروف ہوں لیکن غالبا ان کے اشعار اس سے قبل تک ان اخبارات و جرائد میں شائع نہیں ہوتے تھے جو مجھ تک پہنچتے ہیں، میں ان سب کی دل سے قدردانی کرتا ہوں۔ آج کی شب پڑھے جانے والے بیشتر اشعار بہت اچھے تھے۔ اچھے تھے کا یہ مطلب ہے کہ الفاظ کی بندش، مفاہیم کی بلندی، پیش کرنے کا بہترین انداز، الفاظ کا انتخاب اور وسعت خیال یہ سب کچھ ان اشعار میں خاص طور پر نوجوان شعرا کے کلام میں صاف طور پر نظر آیا۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمارے ملک میں شعر و ادب کے شجر کی بھرپور نشو نما پر دلالت کرتی ہیں۔
ایک بات یہ ہے کہ انقلاب کے اس عرصے یعنی ان تیس برسوں میں انقلابی اشعار کا بڑا کامیاب ارتقائی سفر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہمارے شعرا میں کہیں کوئی سست روی یا جمود نظر نہیں آتا، اسے با قاعدہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ انقلاب سے قبل کے مختلف ادوار میں ایسے شعرا تھے جن میں بعض تو بڑے معروف بھی ہوئے، انہیں اپنی زندگی کے کسی ایک مرحلے پر بڑی شہرت ملی لیکن پھر ان کی تنزلی شروع ہوئی اور ایک طرح سے وہ جمود کا شکار ہو گئے۔ پھر آپ ان کے اشعار کو دیکھئے تو وہ دل آویزی نظر نہیں آتی، لیکن ہمارے یہ جو (انقلابی) شعرا ہیں انہیں دیکھئے تو ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس جلسے میں آپ دیکھئے تو جناب فرید صاحب، جناب امیری صاحب اور جناب میر شکاک صاحب موجود ہیں جو بہت پہلے سے بڑے اچھے اشعار کہتے آئے ہیں، بالخصوص جناب فرید صاحب۔ مجھے یہ صاحبان اچھی طرح یاد ہیں۔ ان حضرات نے اچھے اور معیاری اشعار کی سمت اپنا سفر جاری رکھا۔ کبھی رکے نہیں تو ظاہر ہے کہ تنزلی کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ یہ چیز بہت اہم ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں نئی پودھ بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ان نوجوان شعرا کو دیکھ کر تو میں حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔ یہ مختلف صوبوں کے نوجوان شعرا یہاں آکر اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔ جب میں اپنی جوانی کے دنوں کے ان صوبوں کے شعرا سے ان کا موازنہ کرتا ہوں تو ان نوجوانوں کو بہتر پاتا ہوں۔ حالانکہ اس دور میں بعض نامور اور معروف شعرا گزرے ہیں۔ پھر بھی مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ شعرا ان سے بہتر شعر کہتے ہیں۔ ابھی اسی جلسے میں ایک شہر کے شاعر نے جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا، شعر پیش کیا۔ میں اس شہر کے ماضی کے شعرا کے اشعار سے واقف ہوں کیونکہ میں اس شہر کی انجمن شعر و ادب کے پروگرام میں جا چکا ہوں، وہاں کے معروف شعراء کو سن بھی چکا ہوں لیکن آج کی شب اس شہر کے شاعر نے جو اشعار پیش کئے وہ ان تمام شعرا سے بہتر ہیں۔ بنابریں یہ انقلابی اشعار کا ایک سفر ہے جس میں یہ اشعار مسلسل بلندیوں کی سمت بڑھتے نظر آئے ہیں۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ انقلابی اشعار کے لئے ضروری ہے کہ انقلابی مفاہیم کی خدمت کریں۔ آپ کے درمیان بہت سے شعرا ہیں جو مدح اور منقبت کے اشعار کہتے ہیں۔ یعنی مذہبی اشعار اور ائمہ علیھم السلام کی مدح کے اشعار۔ واقعی ان کے بڑے اچھے اشعار دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ بعض شعرا ہیں جو جنگ اور مقدس دفاع یا پھر شہدا اور جانبازوں کے موضوع پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن میں نے گزشتہ سال بھی کہا تھا کہ انقلاب کے اہداف اور امنگیں یہیں تک محدود نہیں ہیں۔ انقلاب نے ہمارے سامنے درخشاں ستاروں کی ایک انجمن قائم کر دی ہے اور ہمیں ان نورانی مقامات کی سمت پرواز کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہم نے بھی خود کو آزما کر دیکھ لیا ہے کہ ہم پرواز کر سکتے ہیں۔ یہ پرواز ہماری حد امکان کے اندر بھی ہے اور اس کا سب سے نمایاں نمونہ مقدس دفاع کے دوران نظر آیا۔ ہم نے دیکھا کہ جب یہ قوم ان بلندیوں کی سمت بڑھنے کے لئے پر تولتی ہے تو کامیابی کے ساتھ آگے بھی بڑھتی ہے۔ اب بھی بہت سے اہداف ہمارے سامنے ہیں اور ہمیں ان کی سمت بڑھنا ہے۔ ہمیں عدل و انصاف کی سمت بڑھنا ہے، ہمیں اخلاق و کردار کی سمت بڑھنا ہے۔ ہمیں حقیقی خود مختاری کی جانب کہ جس میں ثقافتی خود مختاری بھی شامل ہے اور جو سب سے زیادہ دشوار ہے، پیش قدمی کرنا ہے۔ ہمیں اپنے اسلامی-ایرانی تشخص کی سمت بڑھنا ہے۔
اس بار انتخابات کے آس پاس یعنی انتخابات سے قبل اور انتخابات کے بعد جو حالات پیش آئے ہم نے دیکھا کہ انہی چیزوں میں ہمارے ہاں کچھ کمزوریاں اور مشکلات ہیں۔ یہ واقعات در حقیقت ہمارے لئے نعمت عظمی سے کم نہیں۔ اس لحاظ سے کہ ان سے ہمیں اپنی کمزوریوں سے واقفیت ہوتی ہے۔ جس طرح مسلح فورسز کی مشقوں میں ہوتا ہے۔ فوجی مشقیں اسی لئے ہوتی ہیں کہ فوج کو اپنی کمیوں اور خامیوں کا اندازہ ہو سکے۔ ایک ہدف معین کر دیا جاتا ہے اور پھر اس ہدف کی سمت پیش قدمی کا حکم جاری ہوتا ہے۔ کچھ تیز بیں نگاہیں اس پورے عمل کی نگرانی کرتی ہیں۔ یہی تمام فوجی مشقوں میں ہوتا ہے۔ ایک مناسب جگہ پر کھڑے ہوکر منظر کا جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ فلاں زاوئے سے خامی ہے یا شاید طویل عرصے سے پائی جانے والی کمی اب بھی موجود رہ گئی ہے۔ یہ (انتخابات) ہمارے لئے فوجی مشقیں ثابت ہوئے۔ البتہ یہ (انتخابات سے متعلق ناخوشخگوار واقعات) ہماری مرضی سے رونما نہیں ہوئے بلکہ ہم پر مسلط کر دئے گئے۔ لیکن اچھا ہی ہوا۔ ہم کو اپنی کمیوں کا علم ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ کچھ اہداف ہمارے سامنے موجود ہیں جن کی سمت ہمیں پیش قدمی کرنا ہے۔ اس صورت میں خامیاں دور ہو جائیں گی۔ یہ رہا دوسرا اہم نکتہ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس میں شاعر کا کیا کردار ہے؟ فن و ہنر کے شعبے سے وابستہ افراد کا اس میدان میں کیا کردار ہے؟ میرے خیال میں تو بہت اہم کردار ہے۔ بہت بڑا کردار ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری ہے (حقائق کو) بیان کرنا اور لوگوں تک پہنچانا۔ الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونھ و لا یخشون احدا الا اللہ (1) یہ ایک ضابطہ ہے۔ جس حقیقت کو آپ نے سمجھ لیا ہے، اسے بیان کیجئے۔ کسی کی یہ توقع اور خواہش نہیں ہے کہ آپ اپنے ما فی الضمیر کے بر خلاف کچھ کہئے۔ آپ وہی بات بیان کیجئے جس کا آپ کو ادراک ہے۔ البتہ صحیح اور درست ادراک کے لئے آپ کو کوشش کرنا پڑے گی۔ کیونکہ پر آشوب حالات میں صحیح شناخت اور ادراک بڑی دشوار چیز ہوتی ہے۔ واقعے کے فریقوں کو پہچاننا دشوار ہوتا ہے، جارحیت اور دفاع کی پہچان دشوار ہوتی ہے، ظالم و مظلوم کی پہچان مشکل ہوتی ہے، دوست اور دشمن کی شناخت دشوار ہوتی ہے۔ اگر کوئی شاعر بھی دیگر افراد کی مانند فریب میں آ جائے، بے بصیرتی کا شکار ہو جائے تو یہ دنیائے فن سے تعلق رکھنے والے انسان کی کسر شان ہے۔ تو لازم ہے کہ حقیقت کو سمجھا جائے اور پھر اسی حقیقت کو منظر عام پر لایا جائے۔ دنیائے فن و ادب میں سیاسی طریقوں اور سیاستدانوں کی روش پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ دنیائے فن و ادب میں مشکل کشائی کی جانی چاہئے، حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا جانا چاہئے، ذہنی گرہوں کو کھولنا چاہئے۔ اس کے لئے وضاحت کی ضرورت ہے۔ گویا انبیاء کا کام انجام دینا ہے۔ بیان میں فصاحت و بلاغت کو جو ضروری قرار دیا گيا ہے تو بلاغت کا مفہوم کچھ اس طرح کا ہے؛ البتہ متعلقہ کتب میں تو بلاغت کے معنی کلام کا حالات کے تقاضے کے مطابق ہونا بتایا گيا ہے لیکن یہ بلاغت کا ایک خاص مفہوم ہے۔ بلاغت کا بدیہی اور اولیں مفہوم یہ نہیں ہے۔ بلاغت کے معنی ہیں پہنچانے کے۔ بلاغ یعنی پہنچانا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حافظ کے فلاں اشعار بہت فصیح و بلیغ ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ مطلب ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق ہیں؟ ہمیں کیا معلوم کہ جس وقت یہ اشعار کہے گئے تھے حالات کے تقاضوں کے مطابق تھے یا نہیں؟! ہم تو آج انہیں دیکھ رہے ہیں۔ تو گفتگو حالات کے تقاضے کی نہیں بلکہ بات کی رسائی کی ہے۔ یعنی آپ کی بات لوگوں کے دل میں اتر جانے والی ہو، واضح ہو، عیاں ہو۔ البتہ آپ بات وہی بیان کریں جسے آپ نے سمجھا ہے۔ یہ توقع اور خواہش نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہئے کہ کسی سے ایسی بات بیان کرنے کو کہا جائے جو اس کے ادراک اور ما فی الضمیر کے بر خلاف ہے۔ ہاں یہ بھی کوشش کیجئے کہ جو کچھ آپ سمجھ رہے ہیں صحیح و درست سمجھیں۔
میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اسلامی انقلاب کی یہ عظیم تحریک ایسا نہیں ہے کہ اختتام پذیر ہو گئی ہو۔ اس کے عظیم لشکر کا ایک چھوٹا سا جز ہم لوگ ہیں جنہیں ادب و ثقافت سے وابستہ افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ و للہ جنود السماوات و الارض (2) اس کا لشکر زمین و آسمان میں پھیلا ہوا ہے۔ و کان اللہ عزیزا حکیما (3) خدا عزیز ہے۔ عزیز یعنی ایسا غالب جس کے مغلوب ہونے کا کوئی تصور نہیں، یعنی سب سے بے نیاز۔ ہمارے اور آپ کے ہاتھ میں مہم کا ایک معمولی سا حصہ ہے۔
اسلامی انقلاب سے شروع ہونے والی یہ عظیم تحریک اختتام پذیر نہیں ہوئی ہے، تمام نہیں ہوئی ہے۔ یہ تحریک آج بھی جاری ہے۔ آج کل جو بیانوں، ٹی وی چینلوں، تشہیرات، عدالت میں اور عوام کے درمیان جو کہا جاتا ہے نرم جنگ وہ ایک حقیقت ہے، درست ہے۔ یعنی اس وقت جنگ چل رہی ہے۔ البتہ یہ میری آج کی بات نہیں ہے۔ میں (عراق کی جانب سے مسلط کردہ) جنگ کے بعد سے ہی یہ بات کہتا آیا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ میدان میری نظروں کے سامنے ہے۔ اب اس کا کیا کروں جو اس چیز کو دیکھ نہیں پاتا؟! میری نظروں میں تو پورا میدان ہے، میں تیاریوں کو دیکھ رہا ہوں، صف آرائی کو محسوس کر رہا ہوں میں کینہ و غضب کی شدت سے کانپتے ہوئے ہونٹ دیکھ رہا ہوں، میں انقلاب، امام (خمینی رہ) ان اہداف اور ان تمام افراد کے خلاف جو اس تحریک سے قلبا وابستہ ہیں بھنچے ہوئے جبڑے دیکھ رہا ہوں۔ جب ایک انسان ان چیزوں کو دیکھ رہا ہے تو وہ کیا کرے؟ یہ چیزیں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ چونکہ ختم نہیں ہوئی اس لئے ہم سب کے فرائض بھی برقرار ہیں۔ ادبی و ثقافتی شعبے سے وابستہ افراد کے فرائض بھی معین ہیں۔ وضاحت، تشریح، بیان کیجئے اور خوب بیان کیجئے۔ میں نے ہمیشہ اس پر تاکید کی ہے کہ اچھے پیرائے کا انتخاب کیا جائے اور پھر بھرپور انداز میں فن کا مظاہرہ کیا جائے۔ کوئی دقیقہ فروگزار نہ کیا جائے تاکہ اس کا اثر ہو۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض افراد اپنی فنکاری کے ذریعے باطل کی تبلیغ کرتے ہیں اور تعجب اس پر ہے کہ ہم بھی اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ کوریا کا یہی سیریل (کوریائی سیریل جسے ترجمہ کرکے افسانہ جومونگ کے عنوان سے ایران میں نشر کیا گيا) جو آج کل نشر ہو رہا ہے اور جسے لوگ بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں، محض ایک افسانہ ہے، گڑھی ہوئي تاریخ اس میں پیش کی گئی ہے۔ انسان اگر شاہنامہ (فردوسی) میں اگر تلاش کرے تو اس طرح کی دس پندرہ داستانیں آسانی سے مل جائیں گی۔ لیکن کیا ہے کہ فن کا استعمال کیا گيا ہے۔ جب کوئی فنکارانہ انداز میں کام کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ملتا ہے کہ آپ حضرات بھی جن کو اس (کوریا کی) تاریخ سے اور اس ثقافت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بیٹھ کر نہایت شوق سے اسے دیکھتے ہیں اور جانے انجانے میں اس ثقافت سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ یہ اچھے فن کی خاصیت ہے۔
اچھا فن ضروری ہے۔ دنیائے فن میں آپ شعر سے وابستہ ہیں۔ جتنا زیادہ اور بہتر انداز میں ممکن ہے آپ اساتذہ اور قدیم شعراء کی تخلیقات کا مطالعہ کیجئے لیکن ان کے درمیان محدود نہ ہو جائیے البتہ ان کی خوبیوں کو نظر انداز بھی نہ ہونے دیجئے اور اب تک جو آپ نے حاصل کیا ہے اس پر اکتفا نہ کیجئے۔ میں یہ عرض کر دوں کہ شروع میں جو تعریفیں میں نے کیں وہ اپنی جگہ درست ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہمارے عزیز نوخیز شعرا کے اشعار، جو وہ پڑھتے ہیں تو بے ساختہ تعریفی کلمات منہ سے نکلتے، بالکل بے نقص ہیں۔ یہ تنقید کی نشست نہیں ہے جہاں بیٹھ کر اشعار کا تنقیدی جائزہ لیا جائے ورنہ اگر واقعی معیاروں پر پرکھا جائے تو کچھ اعتراضات یقینا وارد ہوں گے۔ آپ ان نقائص کو خود محسوس کیجئے۔ اگر اس کے لئے مخصوص نشست منعقد کی جائے تو چہ بہتر۔ جس طرح ماضی میں ہم نے مشہد میں دیکھا اور شرکت بھی کی، تہران کے بارے میں بھی سنا تھا البتہ شرکت کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تاہم تہران میں وہ مشہد والی بات نہیں تھی۔ وہاں اشعار کو کریدا جاتا تھا۔ ایسی نشست میں اشعار کا تنقیدی جائزہ لیجئے۔ اگر اس کا انتظام نہیں ہے تو آپ خود غور کیجئے، اپنے اشعار کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کیجئے تاکہ انہیں بے نقص و عیب بنایا جا سکے، میری نظر میں یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کے اشعار سے مانوس ہوکر بھی انسان اپنے اشعار کی کمیوں کو بھانپ سکتا ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ معلوم نہیں کہ کب اور کتنے سال بعد ایسی با برکت شب میں ان شعرا کی بزم میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوگی۔ ممکن ہے کہ یہ آخری اتفاق ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوبارہ یا اس سے زیادہ بار یہ موقع نصیب ہو (4) البتہ ہم نے اس طرح کی نشست کہیں نہیں دیکھی۔ میلاد النبی کے موقع پر برادران اہل سنت کے ہاں نعت خوانی اور دف ‌زنی کی نشست ہوتی ہے جو میں دیکھ چکا ہوں۔ بہرحال اگر حضرات سال کی تین سو ساٹھ شبوں میں سے ہر شب تشریف لائیں، بشرطیکہ ہمارا وقت نہ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔ ہم دیکھیں گے، یہ بھی ایک تجویز ہے۔ انشاء اللہ جو بہتر ہوگا انجام پائے گا۔ اللہ آپ سب کی تائید و نصرت کرے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1) احزاب: 39
2) فتح: 7
3) فتح: 7
4) حاضرین میں سے ایک نے یہ تجویز دی کہ اسی نشست کی مانند ہر سال عید بعثت یا یوم ولادت پیغمبر پر قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں قصیدہ خوانی کی بزم کا اہتمام کیا جائے۔