تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم. الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین قال اللہ تعالی فی کتابہ؛ یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم۔

خدائے بزرگ و برتر کا شکر گزار ہوں کہ اس نے ایک بار پھر یہ توفیق عنایت فرمائی کہ حضرت علی بن موسی الرضا ( علیہ الاف التحیۃ والثناء ) کے پر نور حرم میں شہر شہادت کے آپ مخلص اور فداکار خواتین و حضرات کی قریب سے زیارت کروں اور آپ کی مخلصانہ مجاہدت اور فداکاریوں کی یاد جس کا طولانی برسوں کے دوران ہم نے نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے، اپنے قدرداں دل و دماغ میں ایک بار پھر تازہ کروں ۔
حضرت علی بن موسی الرضا (علیہ الصلاۃ والسلام ) کا روضہ منور بے شمار برکات کا منبع ہے اور خاص طور پر میرے لئے عظیم برکات الہی کا سرچشمہ ہے۔ تھوڑی سی نا‎سازی طبع تھی جو الحمدللہ اس روضہ مطہر و منور کی شفابخش برکت سے برطرف ہوگئی ۔
قبل اس کے کہ میں اپنی گزارشات عرض کروں ملت ایران کے دو قابل تعریف کارناموں کی قدردانی اور اظہار تشکر ضروری ہے۔
پہلی بات رمضان المبارک کے جمعت الوداع پر یوم قدس کے اجتماع اورمظاہروں میں عوام کی پرشکوہ شرکت ہے۔ یہ منظر پوری دنیا میں دوستوں کے لئے فرحت بخش اور امید افزا تھا جس نے فلسطینی مجاہدین کے دلوں کو شادمانی اور استحکام دیا اور جو دشمنوں محکم وار بن کر گرا تھا۔ چاہے وہ دشمن ہوں جو چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین اقوام کے اذہان سے مکمل طورپر محو ہوجائے اور مسلمین اس اہم مسئلے کوجو بنیادی طور پر ان کے ذہنوں میں موجود تھا اور ہے، فراموش کردیں اور چاہے وہ دشمن ہوں جو یہ چاہتے ہیں کہ ملت ایران بنیادی اسلامی اور انقلابی مسائل کے بجائے چھوٹے اور حقیر مسائل میں الجھ جائے اور ذاتی مسائل اور اختلافات میں پڑجائے۔ میدان عمل میں موجود یہ زندہ قوم ہوشیار ہے اور ضرورت پڑنے پر تمام حالات میں ضروری اقدام کرتی ہے۔
دوسرا شکریہ اس امداد کا ہے جو ہماری قوم نے عراقی پناہ گزینوں کی امداد کی اپیل پر کی ہے۔ ملک میں ہرجگہ مختلف طبقات نے، پوری بالغ نظری اور فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے دینی بھائیوں کے تئیں اپنے شرعی فریضے کی انجام دہی میں، جس سے جو ہوسکا، اس نے ان مظلوم عراقی پناہ گزینوں کی مدد کی۔ خداوند عالم آپ کو آپ کی راہ میں زيادہ سے زیادہ ثابت قدمی عطا کرے اور اسلامی انقلاب کے اعلا اہداف کے حصول میں زیادہ تیزی کے ساتھ کامیاب کرے۔
خداوند عالم سے اسی طرح ہماری یہ بھی عاجزانہ دعا ہے کہ رمضان المبارک کی برکتیں آپ کے لئے قائم و دائم رکھے۔ یہ ماہ رمضان الحمد للہ پورے ملک میں ایک عام جوش و ولولے، توجہ (الی اللہ) دعا و مناجات اور قرآن کا مہینہ تھا۔ امید ہے کہ یہ عبادتیں، یہ ایام، خدا کی جانب توجہ، ذکر خدا اور فداکاریاں آپ کے لئے زاد راہ ہوں گی۔
آج جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ ایک بنیادی اسلامی مسئلہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات کریمہ میں بھی جس کا ذکر کیا گیا ہے اور ہم ایرانیوں کو اس پر ہمیشہ توجہ رکھنی چاہئے۔ وہ مسئلہ طیب و طاہر اسلامی و خدائی زندگی کی سمت میں آگے بڑھنے کا ہے؛ یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم (2) خدا اور رسول آپ کوحیات طیبہ اور پاک و پاکیزہ زندگی کی دعوت دیتے ہیں۔ حیات طیبہ صرف کھانا پینا، لطف اندوز ہونا اور شہوت پرستی نہیں ہے۔ اس کے لئے خدا اور رسول کی دعوت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر انسان کا نفس اس کو حیوانی زندگی کی دعوت دیتا ہے۔ تمام حیوانات، کھانے پینے کی فکر میں رہتے ہیں، شہوانی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرنے اور تھوڑا سا زیادہ زندہ رہنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ حیات طیبہ وہ ہے جو خدا کی راہ میں، اعلی اہداف کی راہ میں گزرے۔ انسان کا اعلی ہدف یہ نہیں ہے کہ جیسے بھی ہو پیٹ بھر لیا جائے۔ یہ جانداروں کا معمولی ترین ہدف ہو سکتا ہے۔ انسان کے لئے اعلی ہدف حق تک پہنچنا، تقرب خدا کا حصول اور اخلاق الہی سے متصف ہونا ہے۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے انسان کو مادی و معنوی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھانا پینا ضروری ہے مگر اس لئے کہ انسان ہدف کی طرف بڑھے۔
آرام کی زندگی انسان کے لئے ضروری ہے اور اسلام اپنے اصول وضوابط کے ساتھ انسان کو رفاہ و آسائش کی زندگی کی طرف لے جاتا ہے لیکن زندگی کی یہ آسائش ہدف نہیں ہے۔ جانے کتنے انسان ہیں جنکی زندگی آرام و آسائش میں گزر رہی ہے، انہیں پیٹ بھرنے، معاش اور آسائش کی پریشانی نہیں ہے لیکن انسانیت انہیں کہیں سے چھو کر بھی نہیں گزری ہے۔ مادی تہذیبیں انسان کو اس زندگی کی دعوت دیتی ہیں البتہ وہ جھوٹ بولتی ہیں۔ ان نظاموں اور ملکوں میں جہاں مادی علوم اور جدیدترین وسائل کی حکمرانی ہے، زندگی کی آسائش سب کے لئے نہیں ہے بلکہ لوگوں کے ایک خاص طبقے کے لئے مخصوص ہے۔ آج امریکا میں، ترقی یافتہ یورپی ممالک میں بھوک، غربت، غذائیت کے فقدان سے موت، گھر اور سر چھپانے کی جگہ کا فقدان ہے اور حتی حیوانی زندگی گزارنے کے لئے بھی پر امن ماحول نہیں ہے۔ ان ملکوں میں جو لوگ جدید علوم اور ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ خاص طبقے کے لوگ ہیں۔ جو لوگ ایک وقت کے کھانے کے لئے اپنی شخصیت اور عزت و آبرو سب کچھ بیچنے اور انواع و اقسام کی توہین برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں وہ زیادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے۔ ان کا زرق و برق صرف ظاہری ہے۔ خبررساں ایجنسیاں اور ٹیلی ویژن چینل دنیا میں پروپیگنڈے کے لئے ، صرف ان کا زرق و برق دکھاتے ہیں۔
اگر مغربی تمدن، اپنی تمامتر سائنسی ترقی، خلا کی تسخیر، اپنی عظیم مادی دولت و ثروت کے ساتھ جو اس نے تیسری دنیا اور غریب ملکوں کو لوٹ کے جمع کی ہے، یہ دعوی کرے کہ اس نے ترقی یافتہ ملکوں سے غربت ختم کردی ہے تو اس کا یہ دعوی جھوٹا ہے۔ بنابریں مغربی تمدن تمام انسانوں کو مادی زندگی کی آسائش بھی فراہم نہیں کرسکا ہے۔
اسلامی نظام کے اہداف مادی اہداف سے بالاتر ہیں۔ یعنی اسلامی نظام میں کوئی انسان صرف پیٹ بھرجانے سے خوش نصیب نہیں ہوتا۔ مادی زندگی، رفاہ و آسائش اور امن و سلامتی انسان کو فراہم ہونی چاہئے لیکن اسلامی نظام اسی کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ انسان کی روح اور اس کے دل میں پاکیزگی، نورانیت کی تجلی، دوسرے انسانوں کی نسبت فداکاری اور برادری کا جذبہ اور خدا کے لئے عبودیت، بندگی اور اخلاص بھی ہونا چاہئے۔ اسلام اور تمام ادیان الہی لوگوں کے لئے یہ چاہتے ہیں۔
بنابریں اسلام میں ہدف مادیات سے بالاتر ہے لیکن اسلام مادی رفاہ وآسائش بھی سب کے لئے فراہم کرتا ہے یعنی اسلامی معاشرے میں تمام انسانوں کو رفاہ و آسائش، امن و سلامتی اور زندگی کی آسانیاں حاصل ہونی چاہئیں۔ یہ بات نہ مغربی تمدن میں ہے اور نہ ہوسکتی ہے اور نہ ہی اشتراکی اور کمیونسٹ تمدن اور نظام میں پائی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کمیونسٹ نظام کا حشر کیا ہوا۔ ہمارے لئے صدر اسلام کا دور نمونہ اور مثالی ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لئے خدا اور اسلام کے احکام کافی ہیں۔
اگر ہم اسلامی احکام پر عمل کریں، اگر اسلامی معاشرہ اسلامی ایمان کے ساتھ خدا کے بتائے ہوئے احکام و قوانین پر عمل کرے تو وہ چیز پیش کرسکتا ہے جس کی بشریت تاریخ میں ہمیشہ متلاشی رہی ہے۔ یعنی کیا؟ یعنی معنوی تکامل، عروج اور پیشرفت کے ساتھ مادی رفاہ و آسائش۔ انسان حیوان نہیں ہے کہ اس کے سامنے گھاس ڈال دی جائے اور وہی اس کے لئے کافی ہو۔ انسان طہارت اور نورانیت چاہتا ہے۔ انسان نورانیت، پاکیزگی اور بندگی خدا سے روحانی لذت کا احساس کرتا ہے۔
جب آپ عبادت کرتے ہیں، خاص کیفیت کے ساتھ دعا پڑھتے ہیں، نماز توجہ کے ساتھ ادا کرتے ہیں، کسی مستحق کی مدد کرتے ہیں تو کیسی لذت محسوس کرتےہیں، کیسی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ لذت کھانے پینے سے نہیں حاصل ہوسکتی۔ جو لوگ بندگی خدا کی لذت سے واقف ہیں -ہر مومن انسان، زندگی میں کم و بیش اس کیفیت سے گزرتا ہے- خدا پر توجہ، عبادت خدا، مناجات، اور خدا کے حضور گریہ و زاری کے اس لمحے میں جو لذت انسان محسوس کرتا ہے، اس کے لئے، دنیا و مافیہا سب کچھ دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے کہ وہ لذت اس کے لئے باقی رہے۔
مادیات انسان کو اس حالت سے باہر لاتی ہیں۔ یہ کیفیت کبھی کبھی پیدا ہوتی ہے۔ معنوی لذت، یعنی وہی کیفیت۔ جو لوگ خدا اور معنوی اہداف سے نا آشنا ہیں، وہ اس لذت سے بھی آشنا نہیں ہوسکتے۔ جانے کتنے لوگ ہیں جو مادی نظاموں کے منحوس سائے میں زندگی گزار دیتے ہیں اور خدا پر توجہ کی اس کیفیت اور معنوی لذت سے محروم رہتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھ سکتے کہ ہم اور آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
اسلام انسانوں کو اتنا اوپر لے جانا چاہتا ہے، دلوں کو اتنا منور کر دینا چاہتا ہے اور برائیوں کو ہمار ے اور آپ کے سینوں سے اس طرح نکال کے دور کر دینا چاہتا ہے کہ ہم زندگی کے ہر لمحے میں، صرف محراب عبادت میں ہی نہیں بلکہ کام کرتے وقت، پڑھنے اور پڑھانے میں، میدان جنگ میں، تعلیم دینے اور حصول علم میں اور تعمیری کاموں کی مصروفیت میں، معنوی لذت کی وہ کیفیت محسوس کریں۔ خوشا آنان کہ دائم در نمازند یعنی کاروبار کے وقت بھی خدا کے سامنے ہوتے ہیں اور کھانے پینے کے دوران بھی یاد خدا میں رہتے ہیں۔ یہ وہ انسان ہیں کہ ان کی زندگی کے ماحول میں اور پورے عالم میں ان سے نور پھیلتا ہے۔ اگر دنیا ایسے انسان تیار کرسکے تو ان جنگوں، مظالم، نابرابری، گندگی اور نجاستوں کی جڑیں ختم ہوجائیں۔ یہی حیات طیبہ ہے۔
بنابریں حیات طیبہ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ صرف نماز پڑھ لیں، عبادت کرلیں اور زندگی اور مادیات کی فکر بالکل نہ کریں۔ نہیں، حیات طیبہ یعنی دنیا و آخرت دونوں کو ایک ساتھ رکھنا، حیات طیبہ یعنی معنویت و مادیت دونوں کا ایک ساتھ ہونا، حیات طیبہ اس قوم کی زندگی ہے جو تعمیری امور میں سرگرم رہتی ہے، صنعت وتجارت اور زراعت کو فروغ دیتی ہے، سائنس و ٹکنالوجی میں توانائی حاصل کرتی ہے اور ہر لحاظ سے ترقی و پیشرفت کرتی ہے مگر ان تمام حالات میں اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور روز بروز تقرب خدا میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اسلامی نظام کا ہدف یہ ہے۔ یہ وہ ہدف ہے جس کا اعلان پیغمبروں اور مصلحین نے کیا اور جو گذشتہ ڈیڑھ، دو سو برسوں میں ممتاز اسلامی شخصیات نے بتایا ہے۔
دشمنان اسلام سمجھ گئے ہیں کہ اسلام کے پاس کیا ہے اسی لئے اس سے خوفزدہ ہیں۔ اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ اسلام کی مخالفت کررہے ہیں تو یہ مخالفت اس لئے ہے کہ اگر اسلام آزادی کے ساتھ انسانوں کی تعمیر میں مصروف ہوگیا اور اس نے انسانی معاشرے کے افراد کی اصلاح کردی تو مادی طاقتوں اور ان کے تمدن کا رنگ اڑجائے گا ان کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ اسلامی جمہوریہ کی بھی اسی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ نے پرچم اسلام و ‍قرآن بلند کیا ہے۔ ہمارے انقلاب، امام اور عوام نے شروع میں ہی اعلان کردیا کہ ہم وہ نہیں ہیں جو دنیا وآخرت کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں۔ جیسا کہ دشمنان دین نے ہمیشہ کہا ہے اور اس کی ترویج کی ہے کہ دنیا و آخرت ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ جی نہیں' دنیا و آخرت ایک ہیں اور انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی دنیا کی تعمیر دینی فریضہ ہے۔ یہ بات شروع سے ہی اسلامی انقلاب، امام اور قوم نے کہی ہے۔
دنیا کی طاقتوں اور ان میں سرفہرست، ہمارے زمانے کی دو تسلط پسند طاقتوں نے جن میں سے ایک انقلاب کے اوائل میں تھی اور اب نہیں ہے، یعنی مشرقی سپر طاقت اور دوسری ابھی باقی ہے جسے ختم ہونا ہے، شروع میں ہی سمجھ لیا تھا کہ اگر یہ فکر، یہ نظام اور یہ نیا تمدن میدان میں آ گیا تو انہیں اپنی بساط لپیٹنی پڑے گی اور پھر غنڈہ گردی، لوٹ مار، غارتگری اور زور زبردستی کا کوئی وجود نہیں رہے گا جو ابھی دنیا میں باقی ہے اور یہ زور زبردستی سامراجی سربراہ یعنی امریکا چلا رہا ہے۔ اس لئے اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف مہم میں مصروف ہیں۔ پہلے ہی دن جب محسوس ہوا کہ اسلامی جمہوریہ دنیا کی تسلط پسند طاقتوں سے ساز باز کرنے والی نہیں ہے تو اس کی دشمنی شروع ہو گئی اور آج تک جتنی رکاوٹیں ڈال سکے ڈالیں۔ ہاں زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ سے اچھے روابط رکھنا چاہتے ہیں مگر ان کی اس بات میں سچائی نہیں ہے۔ امریکی صدر سے بار بار سوال کیا جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ سے روابط کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ (اور وہ کہتے ہیں کہ) ہم ایران کے ساتھ اچھے روابط قائم کرنے پر اصرار کرتے ہیں یہ بات وہ نیک نیتی سے نہیں کہتے۔ ہاں اس اسلامی جمہوریہ سے جو صرف نام کی اسلامی جمہوریہ رہ جائے، اسلامی اقدار و اہداف سے صرف نظر کر لے، ایسی اسلامی جمہوریہ سے جس پر اس کے نام کا (حقیقی معنی میں) اطلاق نہ ہو، امریکی، صلح اور تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن وہ اسلامی جمہوریہ جو اسلامی اقدار کو اپنی حیات کی بنیاد قرار دیتی ہو اور ان سے صرف نظر کرنے کے لئے تیار نہ ہو، اس سے ان کا دل صاف نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا ہے۔
گذشتہ بارہ برسوں تک انہوں نے مسلسل اسلامی جمہوریہ کی مخالفت میں مہم چلائی لیکن ان کی جنگ، دشمنی، زک پہنچانے کی کوششوں اورخباثتوں کے باوجود اسلام کے جوہر تابناک نے اس طرح اپنی صلاحیتیں اجاگر کی ہیں کہ وہ ان کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں اور اسی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ سے ان کا خوف و وحشت پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ اگر ہم اسلامی اہداف کی راہ میں پیشرفت نہ کر پاتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ مغرب، شیطانی طاقتیں اور ان میں سرفہرست بڑا شیطان اس طرح اسلامی جمہوریہ سے وحشت زدہ ہوتا، اسلامی جمہوریہ اس کو اتنی بری لگتی اور اس سے جنگ کرتا۔ جس دشمن کو آپ دیکھیں کہ وہ آپ کا کجھ بگاڑ نہیں پا رہا ہے ، اس سے آپ کوئی سروکار نہیں رکھتے لیکن اس دشمن کے خلاف اقدام کرتے ہیں جس کو دیکھتے ہیں کہ کچھ کرسکتا ہے اور آگے آ رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ، خدا کے فضل سے، دشمنوں کی آنکھیں پھوٹ جائیں، شیطانوں کے تمام تر وسوسوں اور اعتراض کرنے والوں کی موذیانہ مخالفتوں کے باوجود، آج تک کافی پیشرفت کر چکی ہے اور پوری طاقت سے یہ پیشرفت جاری رکھے گی۔ یہ وعدہ الہی ہے؛ من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ ( 3) جو معاشرہ، جو فرد بھی، جو عورت اور جو مرد عمل صالح انجام دے اور مومن ہو ہم اسے حیات طیبہ عطا کریں گے۔ یہ حیات طیبہ آج ہمارے معاشرے میں محسوس کی جاسکتی ہے۔
البتہ اگر رکاوٹیں نہ ہوتیں تو صورتحال بہت بہتر ہوتی۔ اگر رکاوٹیں نہ ڈالی جاتیں تو صورتحال بہت اچھی ہوتی ۔ اگر دشمنوں کی، جنہیں ہم اچھی طرح پہچانتے ہیں، دشمنی اور کینے کے اقدامات نہ ہوتے تو صورتحال اس سے بہت اچھی ہوتی۔ عوام کے اتحاد، عوام اور حکام کے درمیان موجود محبت، راہ خدا، راہ اسلام اور ہمارے رہبر عظیم الشان، ہمارے امام(خمینی رہ)، ہمارے استاد اور پیر و مرشد کے بتائے ہوئے راستے کے عشق نے عوام کو آگے بڑھایا ہے اور پیشرفت عطا کی ہے۔ یہ سعی و کوشش بہت اہم ہے۔
تیرہ سو ساٹھ سے تیرہ سو ستر تک ( انیس سو اکیاسی سے دوہزار ایک تک ) ان دس برسوں میں، انقلاب میں در اندازی کرنے والوں کو نکال باہر کیا ہے۔ آپ، عوام نے، مشرق و مغرب سے وابستہ عناصر کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اوائل انقلاب، سن اٹھاون، انسٹھ ( سن اناسی، اسی ) میں اسی مشہد، دوسرے شہروں اور تہران میں ایسے لوگ تھے جو انقلاب کے نام لیوا تھے لیکن مغرب سے وابستہ تھے، مشرقی کیمپ سے وابستہ تھے اور ان کے دل عوام کے ساتھ نہیں تھے۔ سن ساٹھ (سن اکیاسی ) سے امام اور عوام کی تحریک نے انقلاب کو در اندازی کرنے والے عناصر سے جو امور پر قابض تھے، الحمد للہ پاک کیا اور انقلاب کو آگے بڑھایا۔
ان دس برسوں میں آپ نے عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ دنیا میں کون ایران کی عظمت کا قائل تھا؟ چار زرخرید قلمکاروں کو تلاش کرتے تھے اور انہیں کافی پیسے دیتے تھے جو کتابوں اور جریدوں میں ایرانی قالین، تخت جمشید اور بعض ایرانی مصنوعات کی تعریف کرتے تھے اور یہ مصنوعات کیویئر ( ایک قسم کی مخصوص مچھلی کے کےبیش قیمتی انڈے) اور ایرانی قالین تھے۔
خدا کی قسم آج آپ کے دشمن بھی آپ کی عظمتوں پر حیرت سے انگشت بدنداں ہیں۔ ہمارے ان جوانوں نے آٹھ سال تک اپنے انقلاب اور ملک کا جان کی بازی لگا کے دفاع کیا۔ ملت ایران نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا اور دوسرے ملکوں کے لئے نمونہ عمل بن گئی۔ آج عراقی قوم اور اس سے پہلے دوسرے ملکوں میں دیگر اقوام زور زبردستی کے مقابلے میں ڈٹ گئی ہیں اور یہ تحریک آگے بڑھےگی۔
کامیاب و فاتح تو نام خدا اور پرچم اسلام ہے۔ امریکا، دنیاوی طاقتیں، سیاسی اور اقتصادی دنیا کے غنڈے، ایک دوسرے کے مقابلے میں کچھ کرسکتے ہیں لیکن اسلام کے مقابلے میں ان کے اسلحے کند اور بیکار ہیں۔ اسلام سے جنگ نہیں کرسکتے۔ اسلام ان پر غالب رہے گا۔
آج دنیا میں اہم مسائل رونما ہو رہے ہیں۔ عراق کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ایرانی قوم نے اپنا موقف بیان کردیا ہے۔ وہ شخص جس کی حالت سے سب واقف ہیں، کہتا ہے کہ ایرانی حکام عراق کے داخلی امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔(4) وہ مداخلت جو وہ کہتے ہیں اور دعوا کرتے ہیں ہم نے نہیں کی ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم نے اپنی اسلامی اخوت کے تقاضے کے تحت، صرف اس حد میں جو معاملے کے تمام جوانب کو نظر میں رکھ کے ہمارا فریضہ تھا، وہ انکشاف، وہ فریاد اور وہ ہمدردی، اس کے تحت اپنا فریضہ ادا کیا ہے۔ جب وہ بے گھر اور مہاجرت پر مجبور ہوگئے تو ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کی یہ عظیم مدد کی۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔
ہم نصیحت کرتے ہیں، نصیحت صرف دوستوں سے مخصوص نہیں ہے، ہم نے اپنے دشمنوں کو اور تسلط پسندوں کو نصیحت کی ہے کہ غنڈہ گردی کامیابی کا راستہ نہیں ہے۔ تمہیں ناکامی ہوگی۔ کوئی جلدی ناکامی کا منہ دیکھے گا اور کوئی دیر میں۔ یہ تاریخ کی تجربہ گاہ ہے۔ دیکھئے، صدام انہیں غنڈہ گردی کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ ناکامی سے دوچار ہوا اور اب ناکامیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ کیا یہ تجربہ کافی نہیں ہے؟ اس نے کسی زمانے میں عراقی قوم کو چین کی سانس لینے دی؟ کیا دنیا ہمیشہ اسی طرح رہتی ہے جیسی غنڈہ گردی اور زور زبردستی کرنے والا چاہتا ہے؟
دیکھئے کیا حالت ہے؟ عراق کے شمال اور جنوب میں لوگ آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ البتہ لوگوں کو مار رہے ہیں۔ ان کی تحریک کو کچل رہے ہیں لیکن انہیں ختم نہیں کرسکتے۔ ان اسلامی تحریکوں میں اگر دو شرائط پائی جائیں، ایک یہ کہ اسلام پر استوار ہوں اور دوسرے فداکاری کے ساتھ ہوں تو ختم ہونے والی نہیں ہیں۔
مقدس مقامات کا جو کروڑوں دلوں کا مرجع و قبلہ ہیں، انہدام بہت بڑی غلطی ہے جو تم کر رہے ہو۔ جن لوگوں نے یہ درگاہیں شہید کی ہیں ان کی خود کی قبریں آج گھورمیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ جولوگ عوام کے دین میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے تھے، ان کی جگہ آج تاریخ کے کوڑے دان کے علاوہ اور کہیں نہیں ہے۔ رضا خان کیا ہوا؟ محمد رضا کیا ہوا؟ متوکل جیسے لوگ کیا ہوئے؟ تیرا انجام بھی وہی ہوگا۔ تو (صدام) جو مقدس مقامات، اولیائے خدا کے حرم اور ان روضوں کے مقابلے پر آتا ہے جو لوگوں کے قبلہ قلوب ہیں۔ ہم اگر یہ بات کہتے ہیں تو کیا یہ غلط ہے؟ کیا یہ مداخلت ہے؟
ہم عراقی قوم سے کہتے ہیں کہ ایران میں آپ کے بھائیوں اور بہنوں نے مشین گنوں، توپوں اور ٹینکوں کا مقابلہ کیا۔ آپ کو یاد ہے کہ اسی مشہد کی سڑکوں پر فوجی ٹرک آئے اور ان لوگوں پر جو مٹی کے تیل یا روٹی کی لائن میں کھڑے تھے، مشین گنوں سے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ یہ افسانہ تو نہیں ہے۔ یہ تو ابھی کل ہی کا واقعہ ہے جو خود ہمارے ساتھ پیش آیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ شاید آپ میں سے ہزاروں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو کہ اسی خسروی روڈ پر، بہت سی دوسری جگہوں پر آپ کی بہنوں اور بھائیوں نے ٹینکوں کا سامنا کیا۔ اسی شہر مشہد کی گورنریٹ میں ٹینک داخل ہوا۔ مشہد والو! کیا ایسا نہیں تھا؟ آپ کے جوانوں، عورتوں اور مردوں نے دیکھا، آپ لوگوں نے دیکھا، ہم بھی تھے، ہم نے بھی دیکھا۔ گورنریٹ میں ٹینک داخل ہوا لیکن لوگوں نے اس ٹینک کو اپنے گھیرے میں لے کر اس کا محاصرہ کرلیا۔ نوبت یہ آگئی کہ وہ شخص جو ٹینک کے اندر تھا مدد مانگنے لگا۔ میں خود گیا اور اس افسر کو جو ٹینک کے اندر تھا لوگوں سے بچایا۔ لوگ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتے تھے لیکن ہم نے اس کو بھگا دیا۔ لوگ طاغوت سے روبرو ہوئے، ڈٹ گئے۔ فداکاری کی۔ ہم عراقی عوام سے یہ کہتے ہیں کہ اگر انسان راہ خدا میں قیام کرے تو کامیاب ہوگا۔
آخری بات اپنی عزیز قوم سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بھائیو اور بہنو! عزیز ایرانی قوم! یہ مبالغہ نہیں ہے۔ آپ واقعی عظیم قوم، بے نظیر یا کم نظیر ہیں۔ حیات طیبہ تک پہنچنے کے لئے، جہاں مادی زندگی، جسم کی آسائش بھی فراہم ہو اور معنوی زندگی ، روح کی آسائش اور دل کی پاکیزگی اور روح کی خوشی بھی فراہم ہو، اس منزل تک پہنچانے والا آپ کا راستہ واضح اور روشن ہے؛ لیکن سعی و کوشش، اتحاد، ایمان اور عمل کی ضرورت ہے جو الحمد للہ آپ کے پاس ہے۔ اس کو بڑھائیں۔ محنت کریں، اپنے اتحاد کو محفوظ رکھیں، اپنے دلوں میں یاد خدا کو زندہ رکھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں، ایک دوسرے سے دلوں کو صاف کریں، باہم مہربان رہیں ، ایک دوسرے کے لئے دل میں کینہ نہ رکھیں، معمولی نوعیت کے محرکات آپ کو ایک دوسرے سے الگ نہ کریں، الحمد للہ اب تک آپ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکے ہیں اور آئندہ بھی نہیں کرسکیں گے۔ اگرچہ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اگر اس جذبے، اس ایمان اور اس سچے قدم کے ساتھ آگے بڑھیں تو اسلامی جمہوریہ حیات طیبہ کی بلند چوٹی پر پہنچ جائے گی جس کا خدا وند عالم نے وعدہ کیا ہے۔
میں آج جب آپ عزیزوں کی زیارت کے لئے آرہا تھا تو چونکہ تھوڑی سی طبیعت کی ناسازی اور کمزوری تھی اس لئے دوستوں نے مجھ سے کہا کہ کم تقریر کروں، میں نے بھی کہا کہ بیس منٹ یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے تقریر کروں گا لیکن جب میں نے آپ کے شاداب اور تابندہ چہروں کو دیکھا ، آپ کے اس پرجوش اجتماع اور اس معنوی کشش کو دیکھا جو آپ کے اندر ہے تو گفتگو طولانی ہوگئی ۔
پالنےوالے! تجھے حرمت اسلام کا واسطہ ہماری زندگی اور موت کو اسلام کی راہ میں قرار دے۔
پالنے والے ! اس عظیم ہستی کو جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ، روز بروز خود سے مقرب تر قرار دے۔
پالنے والے! اس عظیم ہستی کی روح کو ہم سے راضی فرما۔
پالنے والے! ہمارے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے پہلے سے زیادہ مہربان کر۔
پالنے والے! اس قوم پر اپنی برکتیں اور فضل و رحمت نازل فرما۔
پالنے والے! اس دلیر قوم کو ہر میدان میں اس کے دشمنوں پر فتح عنایت فرما۔
پالنے والے! عراقی قوم کو فرعونی ظلم وستم سے نجات دلا۔
پالنے والے! تمام مسلم اور مظلوم اقوام کو حیات طیبہ تک پہنچا۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہماری مغفرت فرما، ہمیں اپنی خوشنودی عنایت فرما، ہماری گفتار کو کردار کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔
پالنے والے! حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔
پالنے والے! حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں آپ کے ناصرین میں قرار دے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- انفال؛ 24
2- انفال؛24
3- نحل؛ 97
4- عراق میں داخلی کشمکش جاری رہنے، اس ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں پیدا ہونے والی وسیع بدامنی اور لوگوں میں حکومت کی تشدد آمیز کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کی توانائی آنے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے ایران پر عراق کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام لگایا اور صدام نے بھی ایران پر جنوبی عراق کے شیعوں کی طرفداری کا الزام لگایا ۔ لیکن دونوں دعوے بغیر کسی ثبوت کے اور غلط تھے کیونکہ عراقی عوام میں خاص طورپر عراق کے مرکزی شہروں میں عوام کے اندر قیام اور تحریک کا جذبہ خود سے پیدا ہوا تھا۔