تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز بھائیو! توحید کی ذمہ داری اور پیغام نور کے حامل سفیرو! خوش آمدید۔ سب سے پہلے تمام بھائیوں کا خیرمقدم ضروری ہے چاہے وہ مختلف ملکوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہیں یا وزارت خارجہ کے اندر اور متعلقہ اداروں میں خدمت، تدبیر، مطالعے و تحقیقات اور راہنمائی میں مصروف ہیں۔ آپ کی عظیم، ظریف اور موثر خدمت کے اجر و ثواب کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں۔
اصل موضوع جس پر گفتگو کرنی ہے اس کے سلسلے میں عرض کروں کہ آج ہماری ڈپلومیسی، بعض پہلوؤں سے، حتی جنگ کے دور کی ڈپلومیسی سے بھی جو بہت پیچیدہ اور دشوار تھی، زیادہ پیچیدہ، زیادہ سخت اور زیادہ ظریف ہے۔ اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی کے اصولوں کو جو عزت، حکمت اورمصلحت پر استوار ہیں، آج کی دنیا کے پیچیدہ حالات اور اپنے خاص حالات سے مطابقت دینا چاہیں تو بے شک جدت عمل، محنت، دقت نظر اور اصول واقدار کی سختی کے ساتھ پابندی ہماری ڈپلومیسی کے نظام کے عام فرائض میں ہونا چاہئے۔
آج ہماری ڈپلومیسی کا مسئلہ سخت اور پیچیدہ کیوں ہے؟ کیونکہ حضرت امام رحمت اللہ علیہ کی رحلت کے بعد ہمارے تعلق سے دنیا میں شاطرانہ سیاست وجود میں آئی ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ پوری دنیا اسی کام میں لگی ہوئی ہے۔ نہیں، بلکہ ہمارے تعلق سے دنیا کی سرگرمیوں اور پالیسی سازی میں بہت زیرکانہ اور خباثت آمیز نظریہ وجود میں آیا ہے۔ تقریبا شروع کے ایام سے ہی یہ سلسلہ شروع ہوا اور مختلف میدانوں میں اس پالیسی پر عمل کیا گیا، اب بھی کیا جارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ کے طرزعمل، رفتار و گفتار میں ایسی چیز ڈھونڈ لیں یا اس سے ایسی چیز منسوب کر دیں کہ جس میں امام کے دور کی پالیسی سے انحراف نظر آئے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ایسا کام کریں کہ حضرت امام (خمینی رہ) کی حیات کے دس گیارہ برسوں کے دور کی روش سے، کہ جس سے دنیا کی اقوام کے دل وابستہ ہیں، اس دور میں ہمیں زندگی ملی، ملک اس دور میں اسلامی عزت کے اوج پر پہنچا اور جس دور کو مخدوش کرنے کی دشمن کے سیاسی و تشہیراتی نظام کی تمام کوششیں ناکام رہیں، اسلامی جمہوریہ کے اندر، رفتار و گفتار اور طرزعمل، زبان اور قلم میں کوئی انحراف ظاہر ہو اور اگریہ چیز ممکن نہ ہو تو یہ ظاہر کریں کہ گویا یہ کام ہو رہا ہے۔
یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے بظاہر نئی پالیسیاں اختیار کی ہیں اور نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ایران نے نیا راستہ شروع کیا ہے اور ایرانی شخصیات کا نام لیتے ہیں، اس کے مضمرات وہ نہیں ہیں جو ان ظاہری باتوں سے سمجھ میں آ جائیں۔ یہ ایرانی شخصیات کی تعریف نہیں ہے۔ یہ ان کا وہی خباثت آمیز آئیڈیا ہے۔ یعنی یہ کہ آج خود ایران امام کے دور کی روش سے ہٹ رہا ہے، وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا یعنی اسلامی جمہوریہ ایران عملی طور پر اپنی گفتار و کردار اور روش میں دور امام کی روش سے ہٹ جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے، یہ ان کی کامیابی ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور معلوم تھا کہ نہیں ہوگا۔
آج ہماری مجموعی انقلابی روش اور اقتصادی و سیاسی زندگی کے لئے نمونہ عمل وہی ہے جو ہم نے امام سے سیکھا ہے اور سنا ہے۔ امام کے وہی افکار و کردار اور وہی طرزعمل جو بالکل درست تھا، حق کے مطابق تھا، ایران کے حکام اور عوام جان ودل سے اس کی پیروی کرتے تھے اور امام کی رحلت کے بعد بھی اسی راہ پر گامزن ہیں، وہی راہ حق ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی اس راہ حق سے جدا نہیں ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے لیکن دشمن پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ دنیا کی رائے عامہ پر، اس عالمی رائے عامہ میں مسلم اور تیسری دنیا کی اقوام کے افکار، ادراکات اور احساسات بھی شامل ہیں جو اسلامی انقلاب کے مخاطب تھے، یہ ثابت کرے کہ ایران خود اس دور کی مخالف سمت میں چل رہا ہے، تم کس کی پیروی کرنا چاہتے ہو؟ وہ اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں کے عوام پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ایران اپنے پہلے کے موقف سے عدول کرگیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ غیر اسلامی ملکوں نے بھی اپنی عظیم الشان تحریکوں میں ایران کی راہ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیا۔ انہوں نے بینر لگائے اور کہا کہ ہمارا راستہ وہی ہے جس پر ایران چلا ہے۔ یعنی امریکی سامراج اور خونخوار عالمی تسلط سے مقابلے کا راستہ۔ وہ دنیا کے لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم نے اس راستے کا انتخاب کیا، اس کی کشش نے تمہیں اپنی طرف کھینچا اور تمھارے اندر امید پیدا کی لیکن اب خود اس راہ کے بانی اور اس پر چلنے والے اس سے ہٹ گئے ہیں، تم کیا کروگے؟ وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے۔
البتہ اس ذیل میں یہ بات بھی بیان کر دینا ضروری ہے کہ بد قسمتی سے ملک کے اندر بھی کچھ لوگ اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہیں کہ دنیا میں ان باتوں کا ہدف اور غرض کیا ہے۔ جہالت میں انہی باتوں کی تکرار کرتے ہیں۔ کوئی ریڈیو یا کوئی نیوز ایجنسی مسلسل، حکومت یا کسی ذمہ دار عہدیدار کی پالیسیوں میں سے کسی ایک پالیسی کا انتخاب کرتی ہے اور مناسبت سے یا بغیر مناسبت کے کہتی ہے کہ ہاں انہوں نے نیا راستہ شروع کیا ہے ، راہ انقلاب سے ہٹنے کا آغاز کردیا ہے۔ راہ امام (خمینی رہ) سے ہٹنے کی بات کرتی ہے۔ ملک کے اندر کے لوگوں نے بھی ان باتوں کا سہارا لیکر بچکانہ حرکتیں شروع کردی ہیں۔ بعض کام بہت بچکانہ لگتے ہیں۔ انہی باتوں کی تکرار کرتے ہیں کہ شاید کسی کو یا کچھ لوگوں کو ان کے اپنے سیاسی خطوط سے ہٹا سکیں۔ اس سے غافل ہیں کہ جو یہ بات کہتا ہے اسے آپ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وہ آپ کی بات نہیں کرتا۔ وہ کچھ اور کہتا ہے۔ اس کا مقصد کچھ اور ہے۔ یہ عالمی سیاست ہے۔
ان حالات میں آپ تعمیرنو کے دور سے گزرنا چاہتے ہیں۔ تعمیر نو کا دور سن اٹھاسی یعنی جنگ بند ہونے کے بعد سے شروع ہوا ہے۔ تعمیر نو کے دور کے آغاز کا اعلان امام نے کیا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ امام نے حکم دیا تھا اور آپ نے ہی تعمیر نو کی اعلی کونسل تشکیل دی تھی اور اس کی پالیسی تیارہوئی تھی۔ اس سال سے اب تک تقریبا چار سال گزر چکے ہیں۔ یہ ایسا دور ہے کہ جس میں ملک کو جنگ کے دور میں ہونے والے نقصانات کی تلافی کرنی ہے اور اس کے لئے اس کو تمام جائز اور ممکنہ وسائل سے کام لینا ہے۔
ہمارے ملک پر دوسرے کے دیئے ہوئے بم گرائے گئے۔ نئی ٹکنالوجی سے کام لیکر یہ حالت وجود میں لائی گئی۔ ورنہ اگر جارح عراقیوں کو تلوار دیتے اور کہتے کہ جاؤ پاسداران انقلاب سے مقابلہ کرو تو میدان جنگ میں ہمارے جانباز پاسدار، چار کے سرقلم کرتے تو بقیہ راہ فرار اختیار کرتے۔ یہ کہ وہاں بیٹھ کے ایک بٹن دبا دیا اور ایک مہینے میں تقریبا سو میزائیل تہران پر برسا دیئے، یہ دنیاکی پیشرفتہ ٹکنالوجی کی مدد سے ہوا۔
کچھ جرائم پیشہ لوگوں نے انسانی ترقی و پیشرفت سے غلط فائدہ اٹھا کر ہمارے ملک کو تباہ کردیا۔ آج ہم اسی انسانی پیشرفت سے کام لیکر اپنے ملک کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کام عالمی رابطے، فعال ڈپلومیسی، نشست و برخاست، حکیمانہ گفتگو، جس کی میں تھوڑی سی وضاحت کروں گا، فعالیت، جدت عمل، لین دین ، اعلان اور خاص ضابطے اور دائرے کے اندر رہتے ہوئے، تعاون کی درخواست کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بنابریں آج وزارت خارجہ اس رابطے کی ذمہ دار ہے جو تعمیر نو کے لئے ضروری ہے۔ سیاسی روابط ہوں، اقتصادی روابط ہوں یا حتی ثقافتی تعلقات، اس ڈپلومیسی کی نمائندہ وزارت خارجہ ہے۔ بقیہ اس کا ساتھ دیں گے اور ساتھ دینا چاہئے۔
دوسری طرف وہ بہتان ہے جو آگاہ دشمنوں اور بعض نا واقف دوستوں کی جانب سے باندھا جا رہا ہے۔ دوسرا گروہ بہت اہم ہے۔ ایسا کوئی کام نہیں ہونا چاہئے کہ اس غلط بہتان اور جھوٹ کا شائبہ تک ہو۔ یہ کام بہت ظریف ہے اور اس کے لئے بہت قوت درکار ہے۔ لاغر و ناتواں جسم کو بارگراں اٹھانا ہے یہ وزارت خارجہ کے ذمے ہے۔ یہ کام توکل، ایمانی قوت، دینی و انقلابی اصولوں کی سخت پابندی، اپنی گفتار، رفتار اور کردار کی مکمل نگرانی اور تمام حالات میں خدا کو حاضر و ناظر سمجھنے اور اس سے مدد طلب کرنے اور اسی کے ساتھ ہوشیاری اور ذہانت سے کام لینے کے علاوہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ کام، آپ کا ہے۔ اب دیکھیں کہ آج کے دور میں یہ کام کتنا سخت اور سنگین ہے۔
میں نے عرض کیا کہ وقار، حکمت اور مصلحت ہمارے بین الاقوامی روابط کے لئے ایک ضروری مثلث ہے۔ عزت: الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ (1) لن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا (2) ہم اپنی عزت کو نسل، نیشنلزم اور ان باتوں سے نہیں ثابت کرنا چاہتے کہ پوری دنیا جن کے بھروسے اپنے گرد حصار کھینچتی ہے۔ کوئی یورپی ملک یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی نسل سب سے برتر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نہیں ہماری نسل برتر ہے۔ یہاں تک کہ یہ غرور و تفاخر بین الاقوامی جنگوں، خونریزیوں اور بھاری اخراجات پر بھی منتج ہوتا ہے۔ نہیں، ہم اپنے لئے، اپنے توحیدی ایمان و اعتقاد، کہ جس کی خصوصیت اسلامی تفکر ہے، خدا سے دل وابستہ کرنے اور خدا کی مخلوق اور اس کے بندوں سے محبت اور ان کی خدمت کی بنیاد پر اپنے لئے عزت حاصل کرنے کے ہیں۔ اس لئے ہم اس طاقت کو مسترد کرتے ہیں جو اقوام کے ساتھ اپنے روابط میں تفاخر سے کام لے، سپر پاور بننا چاہے، تکبر اور استکبار کی راہ پر چلنا چاہے۔ اگر تم فلاں نسل سے ہو تو اپنے لئے ہو۔ اگر تمھارے پاس دولت و ٹکنالوجی ہے، تمھارے اپنے لئے ہے۔ تمھاری ٹکنالوجی تمھارے لئے ہے۔ ہمارے لئے تو نہیں ہے۔ ہم پر تفاخر کیوں کرتے ہو؟
ہر قوم کے پاس ذخیرے ہیں۔ ہماری قوم کے پاس بھی بہت سے ذخائر ہیں۔ ثقافتی ذخائر، عالمی سائنسی میدان میں، عالمی سیاست کے میدان میں، گوناگوں میدانوں میں ہمارے کارنامے بہت درخشاں ہیں۔ ہم تفاخر نہیں کرنا چاہتے۔ اگر تم اچھے ہو تو اپنے لئے اچھے ہو۔ اگر پیسے والے ہو تو اپنے لئے ہو۔ اگر طاقت والے ہو اپنے لئے ہو۔ ہمارے ساتھ تمھارے روابط انسان کے انسان کے ساتھ روابط ہیں۔ بنابریں عزت نفس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کا تسلط قبول نہ کیا جائے۔
بعض ملکوں کے حکام حتی ان کے سفارتکاروں کے اندر بھی کبھی کبھی بے جا اور احمقانہ تفاخر اور غرور کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ سوچتے ہیں کہ چونکہ ان کی زبان فلاں زبان ہے، یا نسل فلاں نسل ہے اورنام فلاں ہے اس لئے انہیں تفاخر کرنا چاہئے۔ یہ احمقانہ خیالات ہیں اور صحیح انسانی منطق میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی بھی یہ بات قبول نہیں ہے۔ ہم اسلامی وقار، توحیدی افتخار اور اپنی قوم کی ‏عزت کی اساس پر چلتے ہیں۔
قوم کو بین الاقوامی روابط میں ذلت کا سامنا نہ ہو۔ کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ دوسروں کے ساتھ روابط میں ملت ایران کی معمولی ترین توہین بھی برداشت کرے۔ اگر کوئی توہین قبول کرتا ہے تو اپنی ذاتی توہیں قبول کرے، ایرانی قوم کی توہین قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ قوم کی توہین قبول کرنے کا حق اس کو نہیں ہے۔ ایرانی قوم عظیم، بیدار اور سرفراز قوم ہے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ دنیا کے میدان میں آنے کی لیاقت رکھتی ہے۔
ہم کیا تھے؟ ہم کہاں تھے؟ ہمیں کسی زمانے میں برطانیہ کا حلقہ بگوش کہتے تھے اور کسی زمانے میں امریکا کے حلقہ بگوشوں میں شمار کرتے تھے۔ کون یقین کر سکتا تھا کہ یہ قوم کسی کا سہارا لئے بغیر اس طرح دنیا میں عزت حاصل کرے گی اور دنیا کی نگاہوں کا محور و مرکز بن جائے گی؟ ہم نے الحمد للہ تمام میدانوں میں دیکھا کہ یہ قوم عظیم، زندہ اور فعال ہے۔ کمزوری اور ذلت قبول کرنے والی نہیں ہے۔
اب آئیے حکمت کا رخ کرتے ہیں۔ حکمت یعنی سوچ سمجھ کر اور دانشمندی کے ساتھ کام کرنا۔ سفارتی بیانات اور ہر اس چیز میں جس کا تعلق خارجہ پالیسی اور عالمی روابط سے ہو، تدبر سے عاری کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔ ہر بات تدبر کے ساتھ ہونی چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جو منہ میں آئے وہ کہہ دے۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ بات منطق اور خرد کے پیمانے پر پوری اترتی ہے یا نہیں۔ اگر عقل و خرد کے مطابق نہ ہو تو وہ بات نہ کہیں۔ بصیرت سے کام لیں۔ بصیرت سے کام لینا صرف گفتگو میں ہی ضروری نہیں ہے بلکہ معاشرت اور طرزعمل میں بھی بصیرت اور حکمت سے کام لینا لازمی ہے۔ حکمت کا مطلب نہ بولنا نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر نہیں بولنا چاہئے تو بولیں ہی نہیں؟ بالکل اسی طرح جیسے غور و فکر کے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔ نہیں اگر ہم نے یہ کہا کہ حکیمانہ کام کرنا چاہئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کام ہی نہ کریں۔ رابطہ ہی برقرار نہ کریں۔ کوئی اقدام ہی نہ کریں۔ بولیں ہی نہیں کہ کہیں کوئی غیر حکیمانہ بات منہ سے نہ نکل جائے۔
جیسا کہ (وزیر خارجہ) جناب ڈاکٹر ولایتی نے اشارہ کیا ہے، بالکل صحیح ہے۔ وزارت خارجہ ایک عظیم انسانی مشینری ہے۔ افرادی قوت کے لحاظ سے واقعی بہت غنی ادارہ ہے۔ الحمد للہ اچھے، انقلابی اور با ایمان افراد، زیادہ تر یا عموما، فرزندان انقلاب، اچھی فکر کے مالک مومن انقلابی نوجوان وزارت خارجہ میں سرگرم عمل ہیں۔ ہم اپنے حزب اللہی فرزندوں کی معقولیت، ذہانت، لیاقت، فکر اور سعی و کوشش سے مایوس کیوں ہوں؟ ہم نے دیکھا کہ ہمارے حزب اللہی افراد، یہی وزارت خارجہ کے برادران، یہی مومن اور اچھے افراد، خلیج فارس کی جنگ جیسے سیاسی تجربے کے وقت، جو بہت حساس وقت تھا اور بہت سے لوگوں سے غلطی ہو گئی تھی، یا(سلامتی کونسل کی) قرارداد (598) کے مسئلے میں کتنی ذہانت، لیاقت اور ہوشیاری کا ثبوت دیا۔ بہت سے روابط اور معاملات میں ایسا ہی ہے۔
کام سوچ سمجھ کے کریں۔ بغیر سوچے سمجھے کوئی کام نہ کریں۔ اس لئے کہ یہاں بغیر سوچے سمجھے کام کا نقصان، بالفرض رجسٹریشن کے ادارے یا مثلا وزارت صنعت یا کسی اور وزرات میں بغیر سوچے سمجھے کام کے نقصان سے مختلف ہے۔ یہاں بغیر سوچے سمجھے کام کا نقصان فوری ، بہت زیادہ ، بہت گہرا اور بہت نمایاں ہوتا ہے۔ بغر سوچے سمجھے کام نہیں کرنا چاہئے۔ بغیر سوچے سمجھے نہیں بولنا چاہئے۔ ہر کام کے تمام جوانب کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کام کرنا چاہئے۔ حکمت کے معنی یہ ہیں۔
مصلحت کا مطلب کیا ہے؟ اس سے مراد ہماری اور آپ کی ذاتی مصلحت نہیں ہے کہ یہ کام کیا تو ممکن ہے کہ ہمارے لئے مہنگا پڑے۔ نہیں، ہمارے لئے مہنگا ہو بھی تو ہم ہیں ہی کیا؟ اگر کوئی کام ملک کے فائدے میں ہے، انقلاب کے فائدے میں ہے لیکن ہمارے ذاتی فائدے میں نہیں ہے تو نہ رہے، اس (ذاتی مفاد) کی اہمیت ہی کیا ہے؟ مصلحت یعنی انقلاب کی مصلحت اور یہ مصلحت ہمہ گیر ہے اور ہمارے بالخصوص ذاتی رفتارو کردار سے شروع ہوتی ہے۔
آپ جو وزارت خارجہ کے کارکن ہیں، بالخصوص بیرون ملک متعین سفراء اور ان کے بعد وہ حضرات جو بیرون ملک آتے جاتے رہتے ہیں، ان کے ذاتی عادات و اطوار، کسی دوسرے وزارتخانے کے کارکنوں کے ذاتی عادات و اطوارسے مختلف ہونا چاہئے۔ آپ پیغام رساں ہیں۔ آپ کے توسط سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ اگر آپ سفارتخانے میں ایک مسلمان کی زندگی گزاریں اور آپ کے بیوی بچوں اور آپ کے کارکنوں کی راہ و روش ایک مسلمان کی راہ و روش ہو تو یہ بہت مختلف ہے اس سے کہ کسی اور وزرات خانے میں کوئی آپ کا ہم رتبہ ایک مسلمان کی زندگی گزارے۔ یہاں اس کی تاثیر زیادہ نمایاں ہے اور اگر خدا نخواستہ آپ کے عمل میں کوئی خرابی ہو تو اس کا نقصان بھی بہت زیادہ ہے۔ بنابریں یہاں سے مصلحت آمیز کردار شروع ہوتا ہے۔
میں ان بھائیوں سے جو دوسرے ملکوں میں زندگی گزار رہے ہیں، مکمل زہد و پارسائی کی توقع نہیں رکھ سکتا لیکن اجمالا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ظاہری زندگی میں تھوڑا سا پرہیز ضروری ہے۔ اگر کسی کی آمدنی ہے، استفادے کا امکان ہے تب بھی بعض استفادوں سے، خود سے، اپنے ارادے سے، اپنی جدت عمل سے خود کو روکنا چاہئے۔ اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ یہ انقلاب کی مجموعی حالت کے لئے بھی مفید ہے اور خود آپ کی ذات کے لئے بھی مفید ہے۔ اس سے آپ کو نوارنیت ملے گی۔ آپ کا یہ کام میرے کام کے مقابلے میں چونکہ میرے لئے استفادے کا امکان نہیں ہے، مختلف ہے۔ میرے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ لیکن آپ کے پاس اس کا موقعہ تھا، تجملاتی کام ، زیادہ خرچ، معمول سے زیادہ استعمال، کہ ممکن ہے کہ اس کے لئے کوئی شرعی راستہ بھی نکال لیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ مثلا اس طرح استفادہ کروں تو کوئی ہرج نہیں ہے، ایسا کرسکتے تھے لیکن خود کو روکا تو اس کی فضیلت، فائدہ اور تاثیر خود آپ کے نفس پر بہت زیادہ ہے۔
ہم اسی کے لئے ہیں۔ بنیادی طور پر انسان دنیا میں کام، جد و جہد اور کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ زمین پر خدا کی حاکمیت قائم کرے، کس لئے؟ اس لئے کہ انسانوں میں نورانیت پیدا ہو۔ بنیادی فائدہ اور اساسی ہدف یہ ہے کہ انسانوں میں اللہ کے اوصاف آ جائیں۔ اللہ کے اوصاف کا حصول کسی دوسرے کام کا مقدمہ نہیں ہے۔ دوسرے کام اللہ کے اوصاف کے حصول کی تمہید ہیں۔ عدل اللہ کی خصوصیات کے حصول اور انسانوں کے نورانی ہونے کا مقدمہ ہے۔ اسلامی حکومت اور پیغمبروں کی حاکمیت اسی لئے ہے۔ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ( 3) بنابریں یہ ذاتی عمل اور روش پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہاں سے مصلحت شروع ہوتی ہے کہ اپنے تمام روابط، مواقف، اور کوششوں میں آپ کامیاب ہوں ۔
آپ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے کی حیثیت سے دوسرے ملکوں میں قیام پذیر ہیں، معلومات و اطلاعات جمع کرنے، اس ملک کی سیاسی حالت سے واقفیت حاصل کرنے اور مستقبل کے بارے میں صحیح اندازہ لگانے میں ان تمام لوگوں سے زیادہ فعال رہیں جو وہاں سفیر اور نمائندے کی حیثیت سے موجود ہیں۔ اس لئے کہ آپ خدا کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔
کبھی کبھی پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں بعض سفارتخانوں اور غیرملکی اداروں کے کارکن اور سفیر حضرات، اس طرح کام کرتے ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہ ان کوششوں کا مادی اجر کیا ہوگا؟! اب چاہے وہ نیشنلزم کا جذبہ ہو یا کوئی اور جذبہ کارفرما ہو، میں نہیں جانتا۔ اس طرح کام کرنے کے لئے آپ کے پاس ایمان اور اخلاص کا محرک ہے۔ آپ کو بھی اسی طرح کام کرنا چاہئے۔ سفیر اور کارکن جس رتبے کا بھی ہو، چاہے سفیر یعنی نمائندہ دفتر کی اعلا ترین ہستی ہو اور چاہے بقیہ افراد ہوں جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ بذات خود سفیر ہے؛ دوسرے نمبر کا عہدہ دار، تیسرے نمبر کا عہدہ دار، ملازمین سب کو اسی احساس اور جذبے کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ سب کو محنت اور سعی پیہم سے کام کرنا چاہئے۔
آپ کا یہ طرز فکر، وزارت خارجہ کو نئی راہوں کی جستجو اور جدت عمل کے راستے پر ڈال دےگا۔ یہ نکتہ وزارت خارجہ سے تعلق رکھتا ہے۔ البتہ میں نے گذشتہ برسوں میں بھی جدت عمل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ عالمی مسائل میں ہم اسلامی جمہوریہ کی سیاسی جدت کے امکان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بہت سی جگہیں ہیں کہ جہاں تک عالمی پالیسیوں کی وجہ سے رسائی نہیں ہو پاتی، یہ نہیں ہے کہ وہ ناتواں ہوں، بعض بہت زیادہ توانا ہیں لیکن بعض وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان (علاقوں) پر توجہ نہیں دے پاتے۔ مثال کے طور پر کسی جگہ اقدام اور جدت عمل سپر طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ عام طور پر یہ کام تیسری دنیا اور یورپ کا کوئی ملک، وجہ کچھ بھی ہو، انجام نہیں دیتا ۔ لیکن ہم اقدام کرسکتے ہیں۔ راستے کھلے ہیں اور اگر کوئی ملک کچھ کرے تو جواب دیا جا سکتا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر آپ پیش قدم ہوں تو دوسرے آگے نہیں آئیں گے۔ ماضی میں جب ہم آپ بھائیوں کے ساتھ بیٹھتے تھے تو اس نکتے کی تکرار کرتے تھے کہ ہم مناسب تنظیمیں اور ادارے قائم کرسکتے ہیں۔ ہم ایشیا میں، مشرق وسطی میں، اسلامی ملکوں میں، علاقے کے ملکوں میں، مشرق میں اور دوسرے علاقوں میں، فعال ہوسکتے ہیں، ادارے قائم کرسکتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران انہی موجودہ عالمی اداروں کو صحیح سمت میں لے جا سکتا ہے۔ مثال کے طور دنیا میں ناوابستہ تحریک کی بات کیا ہے؟ آج ناوابستہ کون ہے؟ یہ تنظیم آج ماضی کے معنی و مفہوم سے عاری ہے۔ ناوابستہ تحریک مشرق اور مشرقی اتحادوں کے مقابلے میں اور مغرب اور مغربی اتحادوں کے مقابلے میں مد نظر قرار پائی تھی۔ لیکن آج مشرق ومغرب اس معنی میں نہیں ہے۔ آج ناوابستہ تحریک کی اصطلاح میں امریکی بلاک سے وابستگی، یعنی سیاسی، اقتصادی اور فوجی معاہدوں میں شمولیت کو وابستگی نہیں سمجھا جاتا۔ آج ناوابستگی کے معنی کیا ہیں؟ اس کا ہدف کیا ہے؟ کس سے اس کا مقابلہ ہے؟ آج اس تحریک کے اراکین کس کو جمع کرنا چاہتے ہیں؟ کون سے ممالک ناوابستہ تحریک کے رکن ہوسکتے ہیں؟ ناوابستہ تحریک کے مسئلے پر ایک سنجیدہ نظر ثانی ضروری ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جیسے ہی آپ کہیں گے، فورا سو ممالک کہیں گے ٹھیک ہے اور آپ کی بات مان لیں گے۔ لیکن کوشش کے لئے، کام کو آگے بڑھانے کے لئے، نئے نظریات پیش کرنے کے لئے اور اقوام متحدہ میں جدت عمل کے لئے یہ راستہ موجود ہے۔ یا مثلا یہ سابق کمیونسٹ ممالک، اسلامی کانفرنس تنظیم کے رکن کیوں نہیں ہیں؟ مثلا البانیہ اسلامی کانفرنس تنظیم کا رکن کیوں نہیں ہے؟ سابق سوویت یونین کی رکن بعض (مسلم اکثریتی) ریاستیں اسلامی کانفرنس تنظیم کی رکن کیوں نہیں ہوسکتیں؟ یہ وہ افکار ہیں جن پر کام کیا جا سکتا ہے۔ ان کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ اور انقلاب کے اہداف کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
آخری بات ، اپنے ملک سے مستقل رابطے اور معنوی تقویت کے تعلق سے ہے۔ میں غیر ممالک میں رہنے والے اپنے بھائیوں سے ایک بات ہمیشہ کہتا رہا ہوں۔ یہاں (ایران میں) آپ انقلابی، دینی اور اسلامی ماحول میں زندگی گزارتے ہیں جہاں سب کچھ دینی ہے۔ وہ چیز جس کو غیر دینی مظاہر میں شمار کیا جاتا ہے، ملک کی مجموعی فضا میں صفر کے برابر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں ان سے ناواقف ہوں کہ کیا ہیں۔ مثلا بعض جگہوں پر بعض لوگوں کے لباس کی حالت ہے۔ لیکن یہ سب کچھ، ملک کی جو مجموعی صورتحال ہے، جو دینی اسلامی اور قرآنی (فضا) ہے، اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ اس کے تخریبی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن زیادہ نہیں ہیں۔ ماحول دینی ہے۔ جب آپ یہاں سے نکلتے ہیں، تو اس خلاباز کی طرح ہوتے ہیں جو زمین کے مدار سے خارج ہوتا ہے۔ اس کے پھیپھڑوں کو آکسیجن اور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور وہاں آکسیجن نہیں ہوتی۔ اسے آکسیجن اپنے ساتھ لے جانی پڑتی ہے۔ اسی طرح اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ زمین سے اپنا رابطہ جس کی اس کو ضرورت ہوتی ہے، قائم رکھے۔ آپ بھی وہاں (غیر ملک میں) اسی طرح ہیں کہ آکسیجن کم نہیں ہونی چاہئے۔ دینداری، تقوی، خوف خدا، ایمان اور توکل کی آکسیجن اپنے ساتھ رکھیں۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ سے مستقل رابطہ برقرار رکھیں۔ اس طرح رابطہ قائم رکھیں کہ ان معنوی خصوصیات یعنی ایمان، دینداری اور تقوے کی تقویت ہوتی رہے۔
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ آپ کی نصرت کرے کہ آپ نے یہ عظیم، اہم اور ظریف کام جو اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے، اس کو انجام دے سکیں۔ الحمد للہ اب تک مسلسل بہتری آتی رہی ہے۔ یہ جہت مبارک ہے۔ امید ہے کہ آئندہ بھی انشاء اللہ ہمیشہ ایسا ہی ہوگا اور آپ کی زحمات پر حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ ) کی خاص توجہ ہوگی اور انشاء اللہ حضرت امام (خمینی) رحمت اللہ علیہ کی روح مقدس آپ سے راضی ہوگی۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- بحار الانوار، ج 39 ص 47
2- نساء : 141
3- بحارالانوار، ج 16 ص 210