تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج کا ہمارا جلسہ، بہت ہی دلنشین اور جامع ہے۔ ایک طرف ہمارے عالیقدر شہیدوں کی یادگار اور فرزندان شہداء کے وسیلے سے راہ خدا میں شہادت و فداکاری کی خوشبو ہے تو دوسری طرف ٹیچرس ٹریننگ یونیورسٹی کے اساتید اور طلبا کا اجتماع راہ اسلام اور خدمت انسانیت میں زینت علم و تہذیب کا آئينہ ہے۔ میں آپ تمام بہنوں، بھائیوں اور نورچشمان عزیز کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ خاص طور پر ان عزیزوں کو جو دوسرے شہروں سے اور طولانی راستے طے کرکے یہاں تشریف لائے ہیں، بالخصوص اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے، معذور جانبازوں کو جو ہمارے انقلاب کے شہیدان زندہ ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں کہ انہوں نے آج ہماری محفل کو منور کیا ہے۔
ایک بات اپنے عالیقدر شہیدوں کے فرزندوں کے تعلق سے عرض کروں گا۔ سب سے پہلے شہیدوں کے خاندان کے امور کے ذمہ داروں بالخصوص فرزندان شہدا کے مربیوں کو افتخار اور خوشی محسوس کرنا چاہئے کہ انہیں فرزندان شہدا کی خدمت کا افتخار دیا گيا ہے۔ یہ کام خوشی سے انجام دیں اور تھکن محسوس نہ کریں۔ شوق و ذوق اور اندرونی جذبے کے ساتھ یہ کام انجام دیں۔ فرزندان شہدا کی تربیت اور انہیں اسلامی اور علمی تربیت کے مطلوبہ مرحلے تک پہنچانا ایک عظیم ہدف ہے۔ اس ہدف تک بلند ہمتی، ایمان راسخ اور شوق و دلجمعی سے پہنچا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی اس اہم کام کو مجبوری سمجھ کے نہ انجام دے ۔ البتہ ایسا ہے بھی نہیں۔
میں بھی یہاں ان تعلیمی اداروں اور ثقافتی امور کے عہدیداروں کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ان سے عرض کروں گا کہ جس قدر ممکن ہو ان نوجوانوں اور عزیز بچوں پر توجہ دیں۔ اس سے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ منصوبہ بندی کے لئے ماہرین امور اور بچوں اور نفسیات کے ماہرین اور تعلیم و تربیت کی مہارت رکھنے والوں سے استفادہ کریں بالخصوص جہاں تک ہو سکے ان عزیزوں کی اخلاقی تربیت کے پروگراموں کے سلسلے میں کوشش کی جائے۔ اس لئے کہ یقینا ہمارے اس عظیم قومی سرمائے کے لئے دشمن غلط منصوبے تیار کرے گا۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
خود آپ عزیز بچوں اور اپنی آنکھوں کے نور سے عرض کروں گا کہ آپ کے والد نے اس ملک کی عزت اور عظمت کے لئے جہاد کیا اور موت کو گلے لگایا اور راہ خدا میں شہید ہوئے۔ یقینا آپ کے والد آج سربلند ہیں اور انشاء اللہ خدا کے حضور الہی نعمتوں سے بہرہ مند اور رفاہ میں ہیں۔ آپ نوجوانوں، بیٹوں اور بیٹیوں کو چاہئے کہ اپنے والد کی راہ کو اپنا راستہ قرار دیں۔ وہ اس راہ میں شہید ہوئے۔ آپ انشاء اللہ زندہ رہیں، کوشش کریں اور اس راہ میں عزت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اسلام کو آپ کی ضرورت ہے۔ آپ فرزندان اسلام ہیں۔ آپ کو اسلام کا سپاہی بن کے اس راہ میں جہاد کرنا چاہئے۔
سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ انقلاب کے تعلق سے دشمن کی سازش ختم نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے چھوٹے بڑے، عورت مرد، عالم و جاہل سب خود کو اسلامی اقدار کا دفاع کرنے والا سپاہی سمجھیں۔ ہم میں سے ہر ایک جہاں بھی خدمت میں مصروف ہے، اس کو اپنا مورچہ سمجھے۔ ہم اگر اہل جہاد ہوں تو جہاں بھی ہوں وہیں ہمارا مورچہ ہوگا۔
ایک بات ان عزیزوں سے عرض کرنا ضروری ہے جو ٹیچرس ٹریننگ یونیورسٹی میں حصول علم، یا پڑھانے یا کسی اور خدمت میں مصروف ہیں۔ یونیورسٹی ہر ملک اور معاشرے کا بنیادی مرکز ہوتی ہے۔ اگر یونیورسٹی کی اصلاح ہو جائے تو معاشرے کا مستقبل سنور جاتا ہے۔ اگر یونیورسٹی بگڑ جائے تو معاشرے کی تقدیر بگڑ جاتی ہے۔
یہ برائی جو فرض کریں کہ یونیورسٹی میں ہو، چاہے اخلاقی برائی ہو یا علمی، یونیورسٹی میں علمی برائی کا مطلب یہ ہے کہ نہ معلم پڑھانے میں مخلص ہو اور نہ ہی طالب علم پڑھنے میں مخلص ہو۔ اس کا نتیجہ جاہل رہ جانے، غلط سمجھنے یا نہ سمجھنے اور استعدادوں کے رشد نہ کرنے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اخلاقی برائی کا مطلب یہ ہے کہ جو پڑھ رہا ہے یا نہیں پڑھ رہا ہے، اخلاقی لحاظ سے اپنے اندر شرافت، شرف، غیرت و حمیت کے جذبے اور ایمان کی تقویت نہ کرے۔ اس کا نتیجہ بھی وہی ہے جو پہلی شق کا ہے بلکہ شاید کبھی اس سے بھی بدتر ہو۔
اگر عالم شریف نہ ہو اور اس کے اندر حمیت و غیرت اور اپنے ملک قوم اور دینی و قومی اقدار کے دفاع کا جذبہ نہ ہو، اگر عالم، دشمن کو اپنوں پر ترجیح دے اور خود کو قوم کے دشمن کے اختیار میں دیدے تو وہ ہر جاہل سے بدتر ہے۔ یہ وہی چور ہے جو چراغ ہاتھ میں لے کر چوری کرتا ہے اور زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ بنابریں یونیورسٹی میں اصلاح کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔
آپ نے دیکھا کہ ہمارے امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے یونیورسٹی کے بارے میں کتنی باتیں کہی ہیں اور کتنے نکات بیان کئے ہیں۔ اوائل انقلاب میں یونیورسٹی کے تعلق سے کتنی کوششیں عمل میں آئی ہیں اور یونیورسٹیوں کی اصلاح کے لئے انقلاب اور انقلابیوں کی طرف سے کتنی مجاہدت کی گئی ہے۔ اگر آج ہم یونیورسٹیوں کے بارے میں چھے سال پہلے اور آٹھ سال پہلے کی باتیں نہیں کر رہے ہیں تو اس یقین کے ساتھ ہے کہ ان باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی یونیورسٹیوں کی اصلاح ہو چکی ہے۔ ان دنوں یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری اور طلبا کے داخلے کے سلسلے میں اور یونیورسٹیوں میں ذمہ دار علمی اور غیر علمی شعبوں میں اور تعلیمی شعبوں میں مختلف عہدوں پر لوگوں کو لانے کے لئے جس دقت نظر سے کام لیا جاتا تھا، اگر آج اتنی باریک بینی نہیں کی جارہی ہے تو اس اعتماد کے ساتھ ہے کہ اصلاح کا کام ہو چکا ہے اور ہم اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ اگر معلوم ہو جائے کہ ابھی ہم ان مراحل سے نہیں گزرے ہیں تو وہی دقت نظری اور وہی سختی زمانے کی ضرورت ہوگی ۔
ٹیچرس ٹریننگ یونیورسٹی وہ نقطہ امید ہے کہ انقلابی عناصر اور عاشقان انقلاب جس سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ٹریننگ کے کام کے ماہر دانشور، عالم اساتذہ اور معلم تیار ہوں اور یونیورسٹیوں کی اصلاح میں مدد ہو۔ یہ کام پوری قوت اور شدت کے ساتھ جاری رہنا چاہئے ۔
یونیورسٹیوں میں اساتید کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ استاد کا دین اور مسلک اگر طالب علم کے مسلک سے الگ ہو تو بھی وہ پڑھا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یونیورسٹی کی اسلامی اور انقلابی فضا کو متغیر نہ کرنا چاہے۔ جو استاد اس طالب علم پر طنز کرتا ہے جو اپنی بات بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرے ، وہ استاد جو اس طالبہ کی جو حجاب میں تعلیمی اداروں میں آئے، توہین کرتا ہے، وہ یونیورسٹی میں رہنے کا حقدار نہیں ہے۔ یہ استاد طلبا کو جو علم دے گا وہ ایسا علم نہیں ہے جو ملک اور اس فداکار قوم کی اقدار کے کام آئے۔
یونیورسٹی کی اصلاح ایک بنیادی کام ہے۔ ہر ملک میں افرادی قوت پیشرفت کی اساس ہوتی ہے۔ کسی ملک میں کون سی افرادی قوت پیشرفت کی ضمانت دے گی؟ مومن افرادی قوت، صاحب ضمیر، کام پر یقین رکھنے والی اور مخلص افرادی قوت۔ وہ افرادی قوت جو کام پر یقین نہ رکھے اور مخلص نہ ہو اور ملک، نظام، عوام اور ان کی اقدار کو کوئی اہمیت نہ دیتی ہو وہ ملک کی پیشرفت میں کیا مدد کر سکتی ہے؟ یہ بنیادی نکات ہیں جن پر اہم اداروں کو اپنے پالیسی سازی کے عمل میں پیش نظر رکھنا چاہئے۔
ہم مومن اور مخلص افرادی قوت چاہتے ہیں۔ اگر دین نہ رکھتے ہوں، اسلامی اقدار پر ایمان نہ رکھتے ہوں تو کم سے کم ان کا دل یہ تو چاہتا ہو کہ اپنے وطن کے لئے مفید اور موثر واقع ہوں۔ یہ چاہتے ہوں کہ طالب علم کی صحیح تربیت ہو، وہ با اخلاق بنے۔ اس کو اخلاقی برائی کی طرف نہ لے جائیں۔ مسئلہ یہ ہے۔
اس انقلاب کے دشمنوں نے بااستعداد اور ذہین افراد کی چوری، پوری دنیا میں مسموم پروپیگنڈوں، چھوٹے نقائص کو بڑا بنا کے پیش کرنے اور بڑی اچھائیوں اور ترقیات کی پردہ پوشی کے ساتھ ہی جو دیگر راستے سوچے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ علم، روشن خیالی، آگاہی اور معرفت کے مراکز میں بے ایمانی کا بیج بوئیں اور اس کی ترویج کریں۔ یہ انقلاب اور اسلام سے دشمنی ہے۔
آج عالمی سامراج عوام کی ہر فرد میں گہرے ایمان سے خوفزدہ اور ہراساں ہے۔ آج تسلط پسند نظام اور عالمی تسلط پسند طاقتیں جانتی ہیں کہ ان کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے والے، یہی باایمان، غیور اور اصول و اقدار پر یقین اور اعتقاد رکھنے والے انسان ہیں جو سامراجی نظام کی زور زبردستی اور تسلط پسندی کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں۔ دشمن ان سے ڈرتا ہے اور ان کی مخالفت کرتا ہے۔
ہماری قوم کو بیدار رہنا چاہئے۔ ان بارہ برسوں میں انقلاب نے کافی پیشرفت کی ہے۔ بہت سی مشکلات سے گزرا ہے اور بہت سے میدانوں کو اس نے سر کیا ہے، لیکن ابھی مشکلات ختم نہیں ہوئی ہیں۔ دشمن انقلاب اور اسلام کی دشمنی سے باز نہیں آیا ہے۔ استکبار نے ابھی اسلام سے آشتی نہیں کی ہے۔ غلط ہے اگر کوئی یہ سمجھے کہ امریکا اور دنیا کے تسلط پسند نظاموں نے انقلاب، اسلام، ہماری قوم اور دیگر مسلم اقوام کے ایمان کی مخالفت بند کر دی ہے۔ وہ آشتی کرنے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ جانتے ہیں کہ اسلام ان سے آشتی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جانتے ہیں کہ مومن انسان جہاں بھی ہیں ظلم، زور زبردستی اور برائیوں سے آشتی نہیں کر سکتے۔ عالمی استکبار ان تمام برائیوں کا مرکز اور معدن ہے۔ سب بالخصوص طلبا، اساتذہ، یونیورسٹیوں کے ذمہ دار عہدیدار اور ان سے تعلق رکھنے والے دیگر تمام افراد ہوشیار رہیں، تسلط پسندوں اور عالمی لٹیروں کی مخالفت کو اپنی جہت قرار دیں، یہ چیز ہمیں اسلامی اقدار تک پہنچائے گی۔
خدا وند عالم آپ تمام بہنوں اور بھائیوں کو جو ذمہ داری بھی آپ کے ذمے ہے اس میں کامیابی عطا کرے ، ہم سب کو شعور اور ضروری ہدایت عطا فرمائے تاکہ ہر حساس اور اہم موقع پر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور بتوفیق پروردگارقوی ارادے کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ