آپ نے اراکین پارلیمنٹ کو فرائض منصبی پر توجہ دینے کی سفارش کی اور ساتھ ہی ان کی زحمتوں اور مشقتوں کی قدردانی فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس موقع پر سامراجی طاقتوں کی سازشوں کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن مسلسل ایران کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے اور وہ اسلامی جمہوریہ ایران میں کسی ایک شخص اور ایک حلقے نہیں بلکہ اس نظام کی اسلامی ماہیت اور اس ملک اور قوم کی خود مختاری کا مخالف ہے اور اسے اپنا زیر نگیں دیکھنا چاہتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کے دباؤ اور غنڈہ ٹیکس جیسے مطالبات کے سامنے ڈٹ جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ دشمن کے دباؤ کے سامنے اگر پسپائی اختیار کی تو مسلسل پیچھے ہی ہٹتے رہنا پڑے گا اور اس پسپائی کی کوئي حد نہیں ہوگی۔
تفیصلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ عزیز بھائيوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ بڑی دوستانہ اور بے تکلفانہ نشست ہے۔ حالانکہ متعدد نیوز ایجنسیوں اور کیمروں کی موجودگی سے میرے اور آپ کے لئے کچھ باتوں کی پابندی لازمی ہو گئی ہے لیکن بہرحال نشست بحمد اللہ بڑی دوستانہ اور ہمدلی سے سرشار ہے۔ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی میں اپنے فرائض منصبی کے تقاضوں کے مطابق آپ محترم بھائی بہن جو محنت و مشقت کر رہے ہیں جن میں بعض کی جانب جناب کروبی صاحب ( پارلیمنٹ کے اسپیکر) نے آج اپنی گفتگو میں اشارہ بھی کیا اس کے لئے آپ کا ممنون ہوں۔ جناب کروبی صاحب پارلیمنٹ کی سربراہی کے فرائض کی انجام دہی میں جو مساعی فرما رہے ہیں اور اس عہدے کی بنا پر انہیں جو زحمتیں گوارا کرنی پڑ رہی ہیں اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے معروضات کا آغاز اس آيت کریمہ سے کروں: بسم اللہ الرحمن الرحیم ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدادوا ایمان مع ایمانھم و للہ جنود السموات و الارض و کان اللہ علیما حکیما چونکہ اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں اور ملت ایران اور علاقے کی قوموں کی اس عظیم اسلامی تحریک کے مخالف سیاسی حلقوں نے سماجی اور نفسیاتی تلاطم پیدا کرنے کے لئے یعنی دلوں کو مضطرب اور ذہنوں کو پریشان کرنے کے لئے اس وقت جو وسیع تشہیراتی جنگ شروع کر رکھی ہے، گزشتہ بیس پچیس سالوں میں ہمارے خلاف اور راہ حق کے خلاف تاریخ اسلام کے روز اول سے آج تک، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جن باتوں کو منفی موضوع کے طور پر پیش کیا گیا ہے ان میں ایک مرجفون کا مسئلہ ہے، یعنی وہ افراد جو دلوں کو مضطرب، پریشان اور ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دن کچھ دیگر احباب کے لئے جو یہاں تشریف فرما تھے میں نے اس آيت کی تلاوت کی تھی الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم مدینے میں یہ افواہ پھیلائی جا رہی تھی کہ (دشمن) اکٹھا ہو چکے ہیں اور تم لوگوں کی خبر لینے والے ہیں، آپ لوگوں کا خاتمہ اب یقینی ہے، آپ کی کہانی بس اب ختم۔ قرآن کی آیت نازل ہوئی کہ جب لغویات گو عناصر اور کمزور عقیدے کے لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں اور خوف و ہراس کے یہ خطرناک جراثیم ماحول میں پراکندہ کر رہے ہیں تو سچے ایمان والے وہ ہیں کہ فزاد ھم ایمان جن کا ایمان ( اور یقین کمزور ہونے کے بجائے) اور بھی پختہ ہو گیا اور و قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل یہ جو فقرہ ہے حسبنا اللہ و نعم الوکیل وہ ایسے ہی مواقع کے لئے ہے۔ یعنی اس تلاطم اور فکر و تشویش کے مقابلے میں جو دشمن تشہیراتی اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ ( مومنین) پر سکون اور مطمئن رہتے ہیں۔ یہی سکینہ یا طمانیت ہے۔ ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین اللہ تعالی نے مومنین کے قلوب کو طمانیت عطا کی۔ لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم تاکہ ان کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہو۔ امر واقع یہی ہے۔
مرعوب ہو جانے، ڈر جانے، مضطرب ہو جانے، بے چین ہو جانے سے انسان کا یقین بھی زائل ہو جاتا ہے، ختم ہو جاتا ہے۔ مرعوب ہو جانے والے آدمی کا یہی حال ہوتا ہے۔ بزدل آدمی عقل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور عزم و ارادے سے بھی۔ بزدل اور ڈرپوک آدمی نہ صحیح سوچ پاتا ہے اور نہ ہی مناسب انداز سے اپنے عزم و ارادے کو عملی جامہ پہنا پاتا ہے۔ ہمیشہ گو مگو کے عالم میں ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو فورا ایک قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے اپنی معروف وصیت میں فرمایا کہ و لا تشاورنّ جبانا لانّہ یضیق علیک المخرج بزدل اور ڈرپوک انسان سے کسی بھی معاملے میں مشورہ نہ کرو کیونکہ وہ گشائش کی ہر راہ تم پر بند کر دے گا۔ اگر انسان خوفزدہ اور ڈرا ہوا نہیں ہے تو اس کا دماغ بھی صحیح کام کرے گا، وہ صحیح فیصلہ بھی کرے گا اور دشوار مرحلے سے نکل جائے گا۔ لیکن اگر وہ ڈرا ہوا ہے، اس پر خوف طاری ہے تو یضیق علیک المخرج گو مگو میں مبتلا رہے گا اور سرانجام ہاتھ جوڑ کر خود سپردگی کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سکینۃ اور طمانیت بہت اہم اور لازمی چیز قرار دی گئی ہے۔
سورہ مبارکہ فتح انا فتحنا لک فتحا مبینا میں بڑی عجیب بات ہے کہ (قرآن میں) تین دفعہ مومنین کے قلوب پر سکینۃ نازل کرنے کی بات دہرائی گئی ہے۔ مسلمانوں کے لئے انتہائی دشوار مراحل میں سے ایک یہی ہے جس کا تعلق انا فتحنا سے ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحیح الہی حکمت عملی کے تحت مکے کی جانب بڑھنے کا ارادہ فرمایا۔ وہی مکہ جہاں کے رہنے والوں نے دو سال قبل مدینے کا محاصرہ کر لیا تھا اور اہل مدینہ کو نابود کر دینے پر تل گئے تھے، ان دشوار حالات میں جنگ کا بازار گرم ہو گیا، وہ لوگ پیغمبر اور آپ کے اصحاب با وفا کے خون کے پیاسے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم عمرے کے لئے جانا چاہتے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں سے بھی فرمایا کہ تیار ہو جائیں۔ کچھ لوگ ڈر گئے اور کہنے لگے کہ اب پیغمبر کا مدینہ واپس لوٹ پانا مشکل ہے۔ اب تو حضور باقی نہں رہیں گے۔ تو یہ سکینۃ نازل ہونے کا ماجرا اس موقع سے متعلق ہے۔ اللہ تعالی نے مومنین کے دلوں کو اس طرح مطمئن اور بے خوف بنا دیا کہ وہ گئے، انہوں نے دشمنوں کا سامنا بھی کیا اور کامیاب ہوکر لوٹے۔ وہی ہوا جو آنحضرت صلی علیہ و آلہ و سلم کی مرضی اور خواہش تھی۔
سکینۃ یا طمانیت کا سرچشمہ اور بنیاد اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ اور اس کی بابت حسن ظن ہے۔ جب آپ نے صحیح ہدف اور منزل کا تعین کر لیا ہے اور اسی منزل اور ہدف تک رسائی کے لئے کوشاں ہیں تو ایسے موقع کے لئے اللہ تعالی نے نصرت و مدد کا وعدہ کیا ہے، جس میں ذرہ برابر شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ کبھی ممکن ہے کہ آپ سے غلط ہدف اور منزل کا انتخاب ہو گيا ہے۔ اگر آپ نے صحیح ہدف کا انتخاب کیا ہے لیکن ہاتھ پاؤں ہلانا نہیں چاہتے، کوئی محنت اور اقدام کرنا نہیں چاہتے تو ایسی صورت میں نصرت الہی کی توقع رکھنا غلط ہے۔ مسلمانوں کے اہداف اور مقاصد، اعلی اہداف و مقاصد تھے لیکن صدیوں تک ان کے اندر جنبش اور سعی و کوشش کا فقدان رہا تو نتیجے میں انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ آج بھی آپ جو مسلمانوں کو ذلت و حقارت سے دوچار دیکھ رہے ہیں اس کی وجہ ان کی بے حسی اور آرام طلبی ہے۔ ورنہ اگر ہدف صحیح ہے اور کوششیں بھی کی جا رہی ہیں تو نصرت و تائید الہی کا شامل حال ہو جانا طے ہے۔ البتہ نصرت الہی کے شامل حال ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پھر کوئی سختی اور دشواری باقی ہی نہیں رہے گی۔ و لنبلونکم بشیء من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات یہ چیزیں بھی ہیں، جہاد کے راستے میں یہ ساری دشواریاں ہیں۔ لیکن بشر الصابرین کے ساتھ۔ صبر سے مراد ہے استقامت، راستے پر رواں دواں رہنا۔ یہ صورت حال ہے تو اللہ تعالی کی بشارت عملی ہوگی یعنی فتح و کامرانی نصیب ہوگی۔
(شاہی حکومت کے خلاف) مزاحمت اور جہاد کے دوران آپ لوگوں میں سے بہت سے افراد میدان میں موجود رہ چکے ہیں۔ اس وقت لوگ کہتے تھے کہ عبث ہے، بے فائدہ ہے، آپ کیوں لڑ رہے ہیں، کیوں مزاحمت کر رہے ہیں، اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ حقیقت میں طاغوتی دور کا محکمہ پولیس ایسا نہیں تھا جس سے ٹکرا جانا آسان کام ہوتا۔ بہت سے افراد جو مارکسسٹ نظرئے کے حامل تھے اور روشن خیالی کے دعوے کرتے تھے، جب انہوں نے ان جیلوں کو دیکھا اور شکنجوں اور ایذارسانیوں کے بارے میں صرف سنا ہی تھا، اس کا شکار نہیں بنے تھے، ہمت ہار دی اور تحریک کا راستہ ترک کر دیا۔ لیکن بہت سے لوگ اسی راستے پر چلتے رہے، آگے بڑھتے رہے۔ ان کی اس تحریک کا سب سے پہلا ثمرہ یہ ملا کہ اللہ تعالی نے ان کی صداقت اور ان کے اخلاص کو عوام کی نظروں میں آشکارا کر دیا، ان کی راہ کو صحیح راہ کے طور پر پہچنوایا اور لوگ ان کے ساتھ ہوتے گئے۔ جب عوام ساتھ ہو جائیں تو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ جہادی اور مزاحمتی تحریک چلانے والا پختہ ارادے کا مالک گروہ پہلے اپنی صداقت اور حقانیت ثابت کرے اور اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچائے کہ صداقت و خلوص کے ساتھ اپنے ہدف کی سمت بڑھ رہا ہے تب اللہ تعالی بھی اپنی نصرت نازل کرے گا۔ نہج البلاغہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ فلما رآی اللہ صدقنا جب اللہ تعالی نے ہماری صداقت کو دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ہم اپنی بات میں سچے ہیں ہمیں دنیا اور مال و منال کی ہوس و لالچ نہیں ہے تو انزل بعدونا الکیت و انزل علینا النصر ہمیں فتحیاب اور ہمارے دشمنوں کو سرنگوں کر دیا۔ ہماری تحریک میں بھی یہ چیز تھی اور ان تیئیس چوبیس برسوں میں بھی یہی چیز چلی آ رہی ہے۔ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب ملک پر اور حکومت پر دباؤ نہ رہا ہو۔
عزیز بھائیو اور بہنو! آپ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ سیاست داں ہیں، میدان میں موجود ہیں۔ آپ میں سے بہت سے افراد کے لئے شاید یہ بات واضح چیز کی وضاحت کرنے کے مترادف ہو لیکن امر واقع یہی ہے کہ اس وقت امریکا جو انقلاب اور اسلامی تحریک پر جاری یلغار میں پیش پیش ہے، ملت ایران سے جو چاہتا ہے وہ عام تباہی کے اسلحے، انسانی حقوق، حکومت، جمہوریت وغیرہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ ملت ایران اور ایران کے حکام سے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔ وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا۔ ورنہ کیا ان کو جمہوریت سے کوئی لگاؤ ہے؟ اس وقت کون سے ممالک ہیں جن کی جمہوریت امریکا کی نظر میں قابل قبول ہے؟ ان ملکوں میں اگر عوامی انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قانونی حکومتیں بھی، فوجی طاقتوں کی مرضی اور ان کے نظرئے کے برخلاف ایک قدم بھی بڑھا دیں تو ان کے سروں پر باز کی مانند مڈرانے والی فوجی طاقتیں ان پر جھپٹ پڑیں گي اور ایک تیتر اور بٹیر کی مانند انہیں راستے سے ہٹا دیں گی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے۔ وہ کب جمہوریت کے پابند رہتے ہیں؟ یہ لوگ جمہوریت کو صرف نعرے بازی کے لئے استعمال کرتے ہیں اور خود انہیں بھی اس کا علم ہے کہ دنیا کے عوام سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ لیکن دنیا میں تشہیراتی مہم کا طریقہ کار بار بار اپنی بات کو دہراتے رہنا ہے۔ یہی دنیا کی تشہیراتی پالیسی اور حکمت عملی ہے۔ کہتے جائیں، دہراتے رہیں- دہراتے رہیں۔ سرانجام عوام کا کوئی نہ کوئی حصہ تو اس سے متاثر ہوگا ہی۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم لوگوں کو یہ سننے کی عادت تو پڑ جائے گی۔ جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی حمایت یافتہ بہت سی حکومتیں تو عوامی رائے اور ووٹ کا مطلب بھی نہیں جانتیں۔ انہیں معلوم بھی نہیں ہے کہ حق رائے دہی کا استعمال اور ملک کے عہدے دار کا انتخاب کیا ہوتا ہے۔ ان حکومتوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ اسلامی جمہوریہ، جہاں اتنے انتخابات ہوتے ہیں، مختلف مواقع پر بے مثال عوامی شرکت ہوتی ہے، جہاں جمہوریت کے بے شمار مظاہر اور علامتیں صاف نظر آتی ہیں جس کی مثال دنیا کے بہت کم ہی ممالک میں ملتی ہے، جہاں عوام اور حکام کے روابط اور ان کی باہمی ہمدلی حکام کے لئے عوام کی وسیع حمایت، محبت اور گہرے جذبات ہیں، اس پر آمریت برتنے اور جمہورت سے دور ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو واضح ہے کہ ان کی نیت کیا ہے۔
ان کا مسئلہ جمہوریت اور عام تباہی کے ہتھیار نہیں ہیں کیونکہ علاقے کو اسلحے سے پاٹ دینے والے خود یہی لوگ ہیں۔ آپ صیہونی حکومت کو دیکھئے جو ایٹمی اور عام تباہی کے ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ دوسرے خطوں میں بھی یہی عالم ہے۔ صدام حکومت کی مدد انہی طاقتوں نے کی اور اسے ایک ہزار کلومیٹر اور ڈیڑھ ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل انہی نے فراہم کئے، اس کے لئے کیمیاوی ہتھیار انہی طاقتوں نے بنائے یا بنانے میں اس کی مدد کی۔ جبکہ وہ دیکھ رہی تھیں اور انہیں بخوبی علم تھا کہ عراق میں مکمل آمرانہ نظام ہے۔ امریکا کا کہنا یہ ہے کہ ایرانی عوام! آپ لوگ قومی حکومت، اقتدار اعلی اور اپنے مسلمہ اقدار سے کنارہ کشی کر لیجئے اور ان چیزوں سے دست بردار ہو جائیے۔ آئین اور اسلامی جمہوریہ کی اس بیس سال سے زیادہ طویل کارکردگی پر استوار اصولوں اور اقدار کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا کے لئے طاغوتی دور والے تسلط کا راستہ صاف ہو گیا ہے، وہ اس سے کم کسی چیز پر راضی ہونے والے نہیں ہیں۔ البتہ اگر ان کی نظر میں کوئی چیز بری اور کوئی دوسری چیز زیادہ بری ہے تو پہلی چیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک شخص کو دوسرے شخص پر ترجیح دیتے ہیں، ایک حلقے کو دوسرے حلقے پر ترجیح دیتے ہیں اور کبھی ایک بات کو دوسری بات پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج ساری حقیقت سامنے آ چکی ہے۔ جیسے ہی کسی گوشے سے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف ہوتی ہے فورا وہ اپنے موقف کا اعلان کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت امریکی مغرورانہ انداز میں اپنی باتیں بڑے واشگاف الفاظ میں بیان کر رہے ہیں اور میرے خیال میں ان کا یہ غرور احمقانہ ہے۔ حقیقت میں وہ احمقانہ غرور کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں سرانجام انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔ ہمارے صدر مملکت جناب خاتمی صاحب نے جو بیان جاری کیا اور جس میں انہوں نے اپنا اصولی موقف بیان کیا جو میرے لئے نیا نہیں تھا کیونکہ میں ان کو پہچانتا ہوں اور ان کے موقف اور افکار سے آگاہ ہوں، انہوں نے اس بیان میں اسلامی اصولوں اور بنیادوں پر اپنی استقامت و پابندی کا اعلان کیا اور امریکا کے متکبرانہ طرز عمل پر شدید غم و غصے کا بھا اظہار کیا ہے۔ اسے سب نے سنا۔ انہوں نے اور ان کے ساتھ ہی دنیا کے تشہیراتی اداروں نے اس بیان پر اعتراض کیا، حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جو بہت سے معاملات میں جب مناسب سمجھتے تو ان کی حمایت کرتے تھے! ان کا مسئلہ ایک شخص یا دوسرا شخص اور ایک حلقہ یا دوسرا حلقہ نہیں ہے، ان کی مشکل یہ ہے کہ یہاں عوامی خواہشات کی بنیاد پر ایک حکومت تشکیل پائی ہے جو انہی عوام کے اقدار کی پابند ہے، ان (مغرب والوں) کی مسلط کردہ اور درآمد شدہ اقدار کی وفادار نہیں۔
میں یہ دعوی نہیں کرنا چاہتا کہ کس حکومت، کس پارلیمنٹ اور کون سے حکام نے ان چند برسوں میں اپنے تمام فرائض پر عمل کیا ہے اور ہر مرحلے میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن مقننہ، مجریہ اور عدلیہ اسی طرح ملک کے حکام کی مجموعی حرکت اور پیش قدمی ان بنیادوں کی تقویت کی سمت میں رہی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ وہ (مغرب والے) اسی چیز کو پسند نہیں کرتے، یہ چیز ان کی مرضی کے خلاف ہے۔ اس ملک میں عوامی ووٹوں کی بنیاد پر ایک طاقت معرض وجود میں آئی ہے جس نے دنیا کے اس ایک خطے کو ہی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں بنایا اور یہیں پر ان کے مفادات کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ یہاں سے اٹھنے والی موج نے پورے عالم اسلام میں ان کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔
لبنان کے دورے سے واپس آنے کے بعد جناب خاتمی صاحب سے میں نے کہا کہ آپ جس اسلامی ملک میں بھی جائیے، اگر وہاں لوگوں کو اجازت ملی تو آپ کا ایسا ہی خیر مقدم کیا جائے گا جس طرح لبنان میں کیا گيا، یہ واقعی حقیقت ہے۔ کس ملک کا کون سا صدر ہے کہ جب کسی غیر ملکی دورے پر جاتا ہے تو وہاں کے عوام اس سے اس طرح اظہار محبت کرتے ہیں؟! یہ چیز صرف اور صرف اسلامی جمہوریہ کا طرہ امتیاز ہے۔ میں نے اپنی صدارت کے زمانے میں جب پاکستان کا سفر کیا تو پوری دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب نے اپنے دور صدارت میں جو سفر سوڈان کا کیا اس سے بھی دنیا ششدر رہ گئی۔ یہ چیزیں عالمی سطح پر رائج طور طریقوں میں بالکل نئی ہیں، ایسا کہیں اور نہیں ہے۔ آپ کوئي ایک مثال پیش کیجئے۔ ایک بھی مثال نہیں ملے گی کہ کسی ملک کا سربراہ کسی غیر ملک میں جائے اور وہاں کے عوام پروانہ وار آئیں اس کی گاڑی تک کو بوسہ دیں، گھیر کے کھڑے ہو جائیں، نعرے لگائیں، ہاتھ ہلائیں، تصویریں ہاتھوں میں اٹھائیں۔ یہ سب غیر معمولی چیزیں ہیں، یہ دنیا میں آپ کی ہمہ گیری کی علامتیں ہیں۔ بعض لوگ خود کو بے وقعت تصور کرتے ہیں، اپنی طاقت کو بالکل معمولی خیال کرتے ہیں، بعض لوگ اس قوم کے اندر اور اس قوم کی انتظامیہ کے اندر پنہاں توانائیوں اور صلاحیتوں کے ذخیرے کی اہمیت کا ادراک نہیں کر پاتے۔ یہ بھی دشمن کے منفی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ دشمن کی تشہیراتی مہم اسی نقطے پر مرکوز ہے، کہ آپ لوگ برباد ہو گئے، لٹ گئے، ختم ہو گئے، مٹ گئے یہ پروپیگنڈہ آج کا نہیں ہے، برسوں سے یہ باتیں دہرائی جا رہی ہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں اس کی متعدد مثالیں ہیں لیکن ان باتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہوں گا۔ ان کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیں۔ ان کا یہ موقف کوئی عجیب و غریب بات بھی نہیں ہے، بالکل فطری ہے۔ آپ وہ قوم اور وہ حکومت ہیں جس نے اپنی مرضی اور ارادے سے اپنے اقتدار اعلی کو یقینی بنایا، آپ خود اپنی بات کرتے ہیں، اپنے راستے پر چلتے ہیں، اپنے اہداف کے حصول کی کوشش کرتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی زندگی، جن کی بقا اور جن کا نشونما اس پر موقف ہے کہ دوسری قوموں کا خون چوسیں، ان کے مفادات تو خطرے میں پڑیں گے ہی، وہ تو نقصان اٹھائیں گے ہی، یہی وجہ ہے کہ وہ اس تحریک کے مخالف ہیں۔ یہ بالکل واضح نمایاں اور روشن ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
عزیز بھائیو اور بہنو! مجلس شورائے اسلامی ( ایران کی پارلیمنٹ) اور دنیا کی دیگر پارلیمانوں کے درمیان ایک فرق ہے اور وہ ہے اسلامی ہونا۔ یہ کوئي مذاق نہیں ہے! ڈیڑ سو سال کا عرصہ ہو رہا ہے کہ ہماری قوم کے سرکردہ اور با شرف ترین سیاسی اور مذہبی افراد نے اسلام کی حکومت کا پرچم بلند کیا ہے اور انہوں نے اس راہ میں اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ جیسے مدرس (شہید) آخوند خراسانی اور سید جمال الدین وغیرہ۔ قصہ یہ ہے۔ یہ ہمارے زمانے کا مخصوص نعرہ نہیں ہے کہ دین و سیاست ایک ہیں۔ کچھ لوگ کہیں کہ دونوں ایک ہیں اور کچھ کہیں نہیں ایک نہیں ہیں۔ یہ آج کی بات نہیں ہے۔ اس نعرے کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے۔ اسی نظرئے کی راہ میں جد و جہد کرتے ہوئے ہمارے ملک کی چنندہ شخصیات کو لوہے کے چنے چبانے پڑے، ہزاروں پاکیزہ جانیں نثار ہو گئیں۔ مدرس (شہید) نے اسی کی خاطر اپنی جان دے دی۔ ایران کا آئینی انقلاب اسی نظرئے کے تحت آیا البتہ بعد میں وہ اپنے راستے سے ہٹ گیا۔ کچھ لوگوں نے بڑی سادہ لوحی دکھائي اور غیر ملکی طاقتوں سے وابستہ بعض عناصر نے چالاکی کی اور اس تحریک کو عوام کے ہاتھوں سے جھپٹ لیا۔ اس کے بعد جب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) آئے تو آپ نے روز اول سے ہی اپنی تحریک کی بنیاد اسی (نظرئے) پر رکھی اور عوام بھی یہی چاہتے تھے، آج بھی چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بے دین ترین حکومتوں والی قومیں بھی جو آپ کے ارد گرد ہیں، یہی چاہتی ہیں۔ میں ان ممالک کا نام نہیں لوں گا، آپ خود اپنے ذہن میں تصور کر لیجئے۔ یعنی اگر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جیسی کوئي ہستی انہیں مل جائے، اس گزرے زمانے والی صورت حال ان ملکوں میں فراہم ہو جائے اور ایک پرچم بلند کر دیا جائے تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہی قومیں جن کی حکومتیں الحاد کا دم بھرتی ہیں اور الحاد کے خلاف چوں کرنے والے کی مٹی پلید کر دیتی ہیں، یہی قومیں اس پرچم کے تلے آ جائيں گی۔ یہ ہے اسلام۔ یہی صحیح ہے، یہی قوموں کے مفاد میں ہے اور قومیں اسے سمجھتی بھی ہیں۔ اگر آج اس ملک میں اسلامی احکامات پر مکمل عمل آوری شروع ہو جائے یعنی ہم اور آپ اسلامی احکام کو نافذ کر لے جائیں تو یہ ساری مشکلات برطرف ہو جائیں گی اور یہ ساری گرہیں وا ہو جائیں گی۔ ہم جو پسماندہ رہ گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں کوتاہی کی ہے یا ہم سے یہ کام ہو ہی نہیں سکا ہے۔ یہ آواز ڈیڑھ سو سال سے مسلمانوں کے درمیان گونج رہی ہے۔ بھلا اسے ترک کیا جا سکتا ہے؟! اب سوال یہ ہے کہ اس ڈیڑھ سو سالہ جانفشانی کا مظہر جو ہزاروں پاکیزہ زندگیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، کیا ہے؟ جو لوگ شہید کر دئے گئے وہ کوئی معمولی افراد نہیں تھے، وہ مجاہد، فداکار، سربلند، با فہم اور شجاع انسان تھے جنہوں نے میدان میں آکر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ مجلس شورائے اسلامی، اسلامی جمہوری حکومت، اسلامی نظام، یہ ان بے پناہ جانفشانیوں کے ثمرات ہیں۔ مجلس شورائے اسلامی اور دنیا کی دیگر پارلیمانوں میں یہی فرق ہے۔ اس بات کا مطلب کہ حکم اور قانون اسلام کے مطابق ہو، یہی ہے۔
اس نظام کی قانونی حیثیت کا دارومدار اسلامی طرز فکر اور اسلامی بنیادوں پر اس کے استوار ہونے پر ہے۔ پارلیمنٹ اور قائد انقلاب کی قانونی حیثیت کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ ایک دفعہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ اگر میں بھی اسلام سے روگردانی کر لوں تو یہ عوام مجھے بھی برطرف کر دیں گے۔ واقعی بالکل بجا فرمایا تھا۔ عوام نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ کو اسلام کی بنیاد پر پہچانا۔ اسلام کی راہ میں آپ کے ایثار و قربانی کو دیکھا تب ان کی پیروی پر آمادہ ہوئے، ہم سب کا یہی عالم ہے۔ اگر ہم اس راستے سے منحرف ہو جائیں، ہٹ جائيں تو نقصان ہمارا اپنا ہوگا، یہ جو تحریک شروع ہوئي ہے اور آگے بڑھ رہی ہے یہ ہرگز رکنے والی نہیں ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اسلامی نظام کا انحصار ہمارے اور آپ جیسے افراد پر نہیں ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) فرماتے تھے کہ اسلامی نظام مجھ پر منحصر نہیں ہے ہم لوگوں کو یہ سن کر واقعی تعجب ہوتا تھا کیونکہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس انقلاب کے خالق اور فی الواقع اس نظام کے موجد تھے اور ہمارے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی بقا اور اسلامی نظام کی بقا کو ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل تھا لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بڑی سنجیدگي سے فرماتے تھے کہ جی نہیں، اسلامی نظام میری ذات پر منحصر نہیں ہے۔ اب اتنی عظمتوں والے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا وجود اگر اسلامی نظام کی بقا کے لئے لازمی نہیں ہے اور ان کی غیر موجودگی میں بھی عوام انقلاب اور اسلام کی حفاظت کر سکتے ہیں تو پھر مجھ جیسے لوگوں کو یہ کہنے کا کہاں حق ہے کہ اسلام اور نظام کا انحصار ہم پر ہے! جی نہیں، ہمارے جیسے تو سیکڑوں لوگوں کا کام یہ ہے کہ اسلام کی راہ میں خود کو قربان کر دیں، اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کو اسلامی نظام کے قدموں میں ڈال دیں تاکہ اس کی بنیادیں اور مضبوط ہوں۔ دشمن کے نشانے پر یہی نکتہ ہے۔ ہمیں اسی موضوع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دشمن ماہر سیاستداں ہے، شاطرانہ سیاسی ذہن رکھتا ہے، اپنا دماغ دوڑاتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ ایک سازش یہ ہوتی ہے کہ اپنی آخری اور حتمی بات کو پہلے زبان پر نہ لایا جائے۔ بلکہ دھیرے دھیرے اور بتدریج دباؤ بڑھایا جائے اور سامنے والے فریق کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جا ئے۔ جیسے ہی آپ نے پسپائی اختیار کی، دشمن کا دوسرا مطالبہ شروع ہو جائے گا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کچھ دو کچھ لو! ہم دشمن کو کچھ دے دیں، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس سے کچھ حاصل بھی کر لیں، یہ صحیح بات نہیں ہے کیونکہ وہ کچھ دینے والا ہی نہیں ہے۔ نعرے بازی تو وہ خوب کرتے ہیں۔ ایران کو برائی کا محور قرار دیتے ہیں۔ اب ہم چلیں فلاں کام انجام دیں تاکہ وہ ہمیں برائی کے محور کی فہرست سے نکال دے! یہ بھی کوئي بات ہوئی؟! یہ ان کی حماقت ہے کو انہوں نے برائی کا محور قرار دیا ہے۔ وہ دوبارہ بھی بلکہ جب بھی ضرورت ہوگی ہم کو برائی کا محور قرار دے دیں گے۔ اگر کوئی طاقت ناک بھوں چڑھائے اور کہے کہ میرے پاس تو قوت ہے، میں یہ کر دوں گی، وہ کر دوں گی لہذا تم اپنا دماغ صحیح رکھو، سامنے والا بھی یہ سن کر مرعوب ہو جائے اور پیچھے ہٹ جائے تو پیچھے ہٹانے کا یہ سلسلہ کبھی بھی رکنے والا نہیں ہے۔ آپ ایک محاذ سے پیچھے ہٹیں گے اور کسی ایک اضافی پروٹوکول کو قبول کر لیں گے تو وہ فی الفور دوسرا مطالبہ پیش کر دیں گے کہ آپ فلاں غیر قانونی حکومت کو تسلیم کر لیجئے! اس کے بعد بھی وہی دباؤ اور وہی دھمکیوں کا سلسلہ۔ جیسے ہی آپ نے کسی ایک غیر قانونی حکومت کو تسلیم کیا فورا دوسرا مطالبہ پیش کر دیں گے کہ آپ اپنے آئين سے اسلام کا نام نکال دیجئے۔ آپ اسی طرح پسپائی اختیار کرتے چلے جائیے۔ اس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ میں نے بعض عہدہ داروں سے جو وسوسے کا شکار تھے، ابہام میں پڑے ہوئے تھے یہ بات بارہا کہی کہ آپ امریکا کے دباؤ کی آخری حد معین کر دیجئے کہ اگر ہم نے خود کو اس جگہ پہنچا دیا تو پھر اس کے بعد امریکا ہمارے اوپر دباؤ ڈالنا بند کر دے گا۔ اب میں بتا دوں کہ آخری حد کیا ہے؟ یہ ہے کہ ہم قوم کی جانب سے کہ جس کا حق نہ مجھے ہے اور نہ آپ کو ہے، یہ اعلان کر دیں کہ ہم اسلام، اسلامی جمہوریہ اور عوامی حکومت نہیں چاہتے، آپ جس کو چاہیں آکر اس ملک میں اقتدار سونپ دیں! اس جگہ پر پہنچنے کے بعد امریکا ٹھہرے گا، یعنی ملک کی اسیری کے پہلے مرحلے پر۔ کیا ہم یہ کام کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ملک کو دشمن کے ہاتھوں میں سونپ سکتے ہیں؟ کیا ہم کو ایسا کرنے کا حق ہے؟ یہ قوم ایسا کرنے کے لئے ہمیں اقتدار میں نہیں لائی ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ دشمن کی طاقت اور وسائل کے سلسلے میں مبالغہ آرائي سے کام لیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے اطلاع نہیں ہے۔ جی نہیں، ان کے پاس جو وسائل ہیں اور جو وسائل وہ بنا رہے ہیں ان کے بارے میں آپ میں سے اکثر افراد سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ کیونکہ یہاں (میرے پاس) مختلف مقامات سے جاری گوناگوں اطلاعاتی سیلاب کا مرکز ہے اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ جو قوم پائیداری و استقامت سے کام لینے پر کمربستہ ہو اس پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے جاسوسی کے آلات اور سراغرسانی کے وسائل کافی نہیں ہیں۔ چنانچہ آج آپ ان کی یہ باتیں سن رہے ہیں کہ ایران کو اندرونی طور پر کمزور کیا جانا چاہئے، استقامت و پائیداری کے جذبے کو اندر سے ختم کیا جانا چاہئے۔ اگر کسی قوم کا عزم و ارادہ جو حکام اور عہدہ داروں کے عزم و ارادے میں منعکس اور مجسم ہوتا ہے کمزور اور متزلزل نہ ہو تو دشمن بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ دشمن دباؤ ڈالتا ہے، سختیاں پیش آتی ہیں۔ لیکن ایک قوم کی شناخت اور خود مختاری کی حفاظت کے لئے اور خود کو تاریخ کے سامنے شرمساری سے بچانے کے لئے ان سختیوں کو برداشت کرنا ضروری ہے۔ آپ ذرا تصور کریں کہ اگر شاہ سلطان حسین صفوی نے شہر اصفہان کے دروازے حملہ آوروں کے لئے کھولنے کے بجائے حملہ آوروں کے وارد ہو جانے کے بعد اپنے ہاتھوں سے شاہی تاج اپنے سر پر رکھا ہوتا اور یہ سوچ لیا ہوتا کہ مجھے اپنی جان کی فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے میں تو اتنی عمر گزار چکا ہوں اب اور کتنے دن زندہ ہی رہنا ہے، اگر مجھے عوام کی فکر ہے تو پھر یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اگر شہر اصفہان کو دشمن کے قدموں میں ڈال دیا تو حملہ آور عوام کی وہ درگت کریں گے جو ان کے خلاف جنگ کرنے کی سختی سے کسی طرح کمتر نہیں ہوگی، تو وہ ہرگز شہر کو ان کے حوالے نہ کر دیتا۔ آپ اصفہان کی تاریخ پڑھئے اور دیکھئے کہ جب حملہ آور، شہر اصفہان، کاشان، وسطی ایران کے علاقوں فارس اور دیگر خطوں میں داخل ہوئے تو مقامی لوگوں کو انہوں نے کس انجام کو پہنچایا، ہتھیار ڈال دینے کے بعد عوام کے خون کی کس طرح ندیاں بہائي گئیں! حملہ آوروں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ چونکہ آپ لوگوں نے خود ہتھیار ڈال دئے ہیں اس لئے آپ کا انعام یہ ہے کہ آپ سب امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کیجئے۔ آج بھی وہی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ آج بھی آپ غور کیجئے! عراق میں وہ عام افراد کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟! ان کا جہاں بھی غلبہ ہوتا ہے وہ یہی کام کرتے ہیں۔ اگر شاہ سلطان حسین نے اس نہج پر سوچا ہوتا کہ اس کی اپنی ایک جان کی کیا بات ہے، ہزاروں انسانوں کی جانیں اسلام کی حاکمیت کے لئے، رضائے پروردگار کے لئے اور عوام کی سربلندی کے لئے قربان کر دی جاتی ہیں اور میرے ہتھیار ڈال دینے سے عوام پر جو مصیبت کا پہاڑ ٹوٹے گا وہ زیادہ ناقابل برداشت اور ذلت کا باعث ہوگا جبکہ استقامت و پائیداری کی صورت میں جو سختیاں سامنے آئیں گی ان میں کم از کم ذلت نہیں اٹھانی پڑے گی تو وہ یقینا میدان جنگ میں جاتا اور لڑتا۔ عوام میں پائے جانے والے جذبہ استقامت و پائیداری کے مد نظر میرا یہ خیال ہے کہ اصفہان پر ہرگز حملہ آوروں کا قبضہ نہ ہو پاتا۔ البتہ بہت سے عہدہ داروں اور سرداروں نے خیانت کر دی تھی لیکن عوام تیار تھے۔ اسے عوامی صفوں میں شامل ہوکر جنگ کرنی چاہئے تھی۔ تاریخ اور حکومتی عہدہ داروں کی ذمہ داریوں کا مسئلہ ایسا ہوتا ہے، اس میں مقننہ، عدلیہ اور مجریہ سب شامل ہیں اور یہ سنگین ذمہ داری سب کے دوش پر ہے۔
اس وقت ہماری اور آپ کی ذمہ داری بہت بڑی اور سنگین ہے۔ ڈر کر اور گھبرا کر نہیں بلکہ سوجھ بوجھ کے ساتھ، غور و فکر کے ساتھ، شجاعت و بلند ہمتی کے ساتھ اور اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ساتھ یہ راستہ طے کرنا چاہئے۔ سب سے پہلا کام اندرونی مضبوطی و استحکام ہے۔ بحثوں کو ٹکراؤ اور تصادم پر منتج نہ ہونے دیجئے۔ آپ سے یہ میری واحد سفارش ہے۔ کہنے سننے اور اعتراض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اعتراض سننا ان لوگوں کو ناگوار لگتا ہے جو متکبر ہیں یا پھر جن کے پاس عوامی پذیرائی اور مقبولیت نہیں ہے، جو ڈرتے ہیں، جن کے دلو پر خوف طاری ہے۔ اگر کوئی شخص تکبر کا شکار نہیں ہے اور میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ کسی کو بھی اس آلودگی میں مبتلا نہ ہونے دے، اگر عوامی حمایت حاصل ہے تو وہ شخص کبھی بھی اعتراضات سے ناراض نہیں ہوگا۔ لیکن ہاں یہ خیال ضرور رہے کہ اس بحث و تکرار سے دشمن وہ ہدف حاصل نہ کر لے جس کے وہ در پے ہے۔ اس وقت دشمن کی چال یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے اندر دھڑے بندی ہے اور دو گروہ پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ دو نظریات اور کئی نظریات والی بات جو آپ کہتے ہیں اور جس کا مجھے بھی یقین ہے دشمن وہ نہیں کہتا، کئی نظریات ہونا کوئی مشکل نہیں ہے یہ چیز تو ہر جگہ ہے۔ وہ دشمنی اور تصادم کی بات کہتا ہے۔ یعنی اس کا یہ خیال ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کو نابود کر دینا چاہتا ہے۔ وہ اس چیز کا پرچار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ یہ تاثر عام کرنے کی دشمن کی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیجئے۔ اس سلسلے میں آپ بہت محتاط رہئے۔ بحث و مباحثہ آپ طلبہ والے انداز میں انجام دیجئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بار بار یہی فرماتے تھے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دینی طلبہ کے ماحول میں بعض اوقات دو طالب علموں کے درمیان بحث و تکرار ہو جاتی ہے، وہ غصہ بھی ہو جاتے ہیں لیکن مباحثہ ختم ہو جانے کے بعد وہ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، چائے پاتے ہیں، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ اپنی بات بیان کرتے ہیں لیکن اس سے ان میں کوئی دشمنی پیدا نہیں ہونے پاتی۔ بحث و مباحثے میں منطق و استدلال کا سہارا لیا جائے اور قانونی پیرائے اور دائرے کا خیال رکھا جائے۔ قوانین میں بھی سب سے پہلا درجہ آئين کا ہے۔ اس دائرے کو ملحوظ رکھئے۔ میں نے حال ہی میں نوجوان طلبہ سے بھی کہا کہ قانون اس لئے آیا کہ اسے بالادستی حاصل ہو۔ ممکن ہے کہ کوئي بھی جبری طور پر کہے کہ یہ کام اسی طرح انجام دیا جانا چاہئے۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ استبداد، ڈکٹیٹرشپ اور توسیع پسندی انہی افراد سے مخصوص ہے جو نظام کے سربراہ ہیں۔ جی نہیں، نظام کے اندر ایسی متعدد جگہیں ہوتی ہیں اور یہ چیز ہر جگہ بری ہوتی ہے۔ سلطنتی خو، استبدادی خصلت ہر جگہ بری ہے، ہر جگہ مذموم ہے۔ جس شکل میں بھی ہو بری ہے۔ قانون انہیں چیزوں کا سد باب کرنے کے لئے بنایا گيا ہے۔ قانون کے مطابق اور اسی کے تناظر میں انسان کو بات کرنی چاہئے، عمل کرنا چاہئے اور مسائل کو قانون کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہئے۔ یہ اتحاد کا بہترین معیار ہے۔ دوسرے جذبات کو الگ رکھئے۔ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم نے داخلی استحکام کی حفاظت کے فریضے سے عدول کیا اور اسے نظر انداز کیا تو اللہ تعالی، عوام اور تاریخ ہمیں بخشے گی۔ یہ ایسا موقع نہیں ہے کہ اس فریضے کو نظر انداز کیا جائے۔ بہت ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہئے اور ساتھ ہی اس کی دشمنی اور مکر و فریب سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے۔ بہت محتاط رہنا چاہئے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ واللہ لا اکون کالضبع تنام علی طول اللدم ایک بات بڑی معروف ہے کہ جب عرب بھیڑئے کا شکار کرنا چاہتے ہیں تو رقص کرتے ہیں اور گانا گاتے ہیں جو نیند لانے والا ہوتا ہے۔ گانے سے بھیڑئے کو اس کی مان میں سلا دیتے ہیں، جب وہ سو جاتا ہے تب اسے جاکر پکڑ لیتے ہیں۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ و اللہ لا اکون کالضبع میں وہ بھیڑیا نہیں کہ جسے رقص کرکے اور گانا گاکر سلا دیا جائے اور پھر اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔
اللہ آپ سب کو کامیاب کرے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعلی ہم سے اور آپ سے راضی و خوشنود رہے اور آپ اسی بچے ہوئے ایک سال میں جیسا کہ جناب کروبی صاحب ( پارلیمنٹ کے اسپیکر) نے فرمایا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے، البتہ چھٹیں پارلیمنٹ کے ساتھ یہ آخری ملاقات خود آپ لوگوں سے انشاء اللہ ہماری یہ آخری ملاقات نہیں ہوگی، آپ سب کامیاب و کامران رہیں۔ اس ایک سال کو بھی غنیمت جانئے۔ اس ایک سال میں بھی بہت سے کام انجام دئے جا سکتے ہیں۔ عوامی مسائل کے زمرے میں اور عوام کی خدمت کے تعلق سے آج جو مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے وہ گرانی کا مسئلہ ہے۔ فرائض کو بہرحال پہنچاننا ضروری ہے۔ آپ ہی ملک کا کئی ہزار ارب (تومان) کا بجٹ منظور کرتے ہیں جسے حکومت خرچ کرتی ہے اور حکومت کی نگرانی کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ تو آپ ہوشیار رہئے، محتاط رہئے۔ آپ انہی کمیشنوں میں جن کا حوالہ جناب کروبی صاحب نے دیا بیٹھئے اور کوئی ایسا راستہ نکالئے جس سے عوام کے لئے کچھ گشائش ہو۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ