تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی بہت خوش ہوں کہ اس صوبے کے آئمہ جمعہ حضرات، بوشہر اور اس صوبے کے بعض دوسرے شہروں کے علما‏‏‏‏‏‏‏ئے کرام کے درمیان ہوں۔ اس صوبے میں قدم رکھنے کے بعد ایک چیز یہ معلوم ہوئی کہ ، اگرچہ اس سے پہلے رپورٹوں کے ذریعے بھی کسی حد تک معلوم تھا، الحمد للہ خود بوشہر اور اس صوبے کے تمام شہروں میں ائمہ جمعہ حضرات، صوبے کی انتظامیہ کے ذمہ داروں کے تعاون اور ہمفکری کے ساتھ کافی فعال ہیں۔ رپورٹوں سے یہ بھی معلوم ہوا اور معلوم تھا کہ الحمد للہ اس صوبے میں، بوشہر میں بھی اور صوبے کے دیگر شہروں میں بھی، نماز جمعہ بہت اچھی کیفیت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور خطبے بہت بامعنی اور اچھے ہوتے ہیں۔ البتہ میں یہ دعوا نہیں کر سکتا کہ اس صوبے کے علماء کے حالات سے پوری طرح مطلع ہوں۔ جو کچھ اس صوبے کے تمام معاملات سے اجمالی طور پر سمجھا ہوں یہ ہے کہ اس صوبے میں علماء کا کردار بہت اچھا رہا ہے اور حق بھی یہی ہے۔ علمی اور دینی لحاظ سے اس صوبے کا ماضی بہت اچھا رہا ہے ۔ یہاں بڑے علمائے کرام گزرے ہیں۔ سید عبد اللہ بلادی مرحوم(1) جو اپنے زمانے میں ایران کے جید علما میں سے تھے اور میں نے اس سفر میں بھی (2) ان کا نام لیا تھا اور کتنے دیگر بڑے علماء اور کتنے معروف علمی گھرانے یہاں رہے ہیں جنہوں نے فقہ ، حدیث اور دیگر دروس کی کتابیں تالیف کی ہیں؟! لوگوں کی دینی حالت سے بھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگر کسی شہر میں علم دین کا شجر مستحکم، بارور اور سایہ فگن نہ ہو تو اس علاقے کے لوگوں میں دینی جذبہ رشد نہیں کرتا اور دشمن کو نفوذ کا راستہ مل جاتا ہے۔ چونکہ اس شہر اور اس صوبے کے عوام متدین اور انقلابی ہیں اور ان کے اہداف دینی ہیں، اس لئے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ اس صوبے میں علمائے دین کی تربیت، علم دین کی نشر و اشاعت اور تبلیغ دین کا کام بہت اچھی طرح انجام دیا گيا ہے۔ میں آپ کو اس کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس حالت کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ علمائے دین میں سے بھی ہرایک جس مرکز، جس جگہ اور جس عہدے پر بھی ہے، لوگوں کی دینی تربیت اور ان کے درمیان دین کی تبلیغ کا کام پورے وجود سے انجام دے۔ البتہ فلیبداء بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ (3) یہ وہ بات ہے کہ جس کو اس صوبے کے حالات کے مدنظر، شروع میں بیان کرنا ضروری تھا۔
برادران عزیز اور علمائے کرام! ہمارا یہ لباس اور ہماری یہ شان ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتی ہے۔ کوئی دور اور زمانہ ایسا فرض نہیں کیا جا سکتا کہ جس میں عالم دین اپنے سنگین فرائض سے جو عام لوگوں کے فرائض سے بالاتر ہیں، سبکدوش رہا ہو؛ نہیں، ہمشیہ ایسا ہی رہا ہے۔ یہ علم کی فطرت کی وجہ سے ہے۔صنفان من امتی اذا صلحا صلحت امتی واذا فسدا فسدت امتی (4) پہلی صنف فقہا کی ہے اور اس کے بعد امراء ہیں۔ ہمارے زمانے میں یہ دونوں صنفیں ایک جگہ جمع ہوگئ ہیں۔ مصیبت بڑھ گئی ہے۔ بنابریں جن لوگوں کے پاس یہ دونوں چیزیں ہیں ان کی ذمہ داری سنگین ہے۔
ماضی میں بھی ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ بنابریں ہم مسلمین ایران کے درمیان ایسے علمائے کرام کو جانتے ہیں کہ جنہوں نے تاریخ میں بہت فیصلہ کن طرز عمل اختیار کیا ہے۔ اگر آئینی حکومت کی تحریک، اس تحریک کے بعد اور اس سے پہلے کے دور میں اسی صوبہ فارس کے علماء کی جد و جہد، آقا سید عبد الحسین لاری (5) مرحوم کی مجاہدت اور اسی بوشہر کے علمائے کرام جیسے آقا سید عبداللہ بلادی مرحوم کی مجاہدتوں اور ملک کے اکثر معاملات میں بڑے مراجع تقلید کی فعالیت اور ملک کے تمام شہروں میں تمام دیگر علمائے کرام کی مجاہدتوں پر ایک نظر ڈالیں تو علمائے کرام کا کردار فیصلہ کن نظر آئے گا۔
البتہ ممکن ہے کہ بہت سے علماء کے کردار کا ذکر ان کی بہت زیادہ شہرت نہ ہونے کی بناء پر نہ کیا گيا ہو؛ ورنہ مثلا روسیوں کے حملے کے مقابلے میں ایرانیوں کے دفاع میں میرزا قمی مرحوم ( رضوان اللہ تعالی علیہ) (6) کا کردار واضح ہے۔ انہوں نے اپنا رسالہ عباسیہ جہاد میں لکھا ہے۔ یا کاشف الغطاء مرحوم ( رضوان اللہ تعالی علیہ) (7) نے بھی اسی زمانے میں وہی کردار ادا کیا اور بہت سے اہم احکام بیان کئے۔ علمائے کرام کا یہ کردار بہت ملے گا سوائے اس زمانے کے جب علماء الگ تھلگ رہے ہیں۔ یعنی امور سے انہیں دور رکھا گیا اور جن کے ہاتھوں میں امور کی باگ ڈور رہی ہے انہوں نے علمائے کرام پرتوجہ نہیں دی۔

یہی مجاہدتیں اور فداکاریاں تھیں جو کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ لائیں۔ البتہ تمام چیزیں ختم ہو جائیں گی حتی عزت و عظمت کے یہ ذخائر بھی جلد یا دیر ختم ہو جائيں گے۔ جلد یا دیر کا انحصار ہمارے عمل پر ہے۔علمائے اسلام بالخصوص ایران کے شیعہ علماء نے عمومیت کے ساتھ، عظیم ذخیرہ خلق کیا اور اسی ذخیرے نے اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ ہمارے عظیم امام کی، جن کے جیسی کوئی ہستی ہزاروں افراد میں ایک بھی نہیں ملتی ہے، ان کی اس روحانی طاقت اور معنوی صلابت کے ساتھ آنے والا یہ عظیم انقلاب، علماء سے ایرانی عوام کی گہری عقیدت کے بغیر کہ وہ ذخیرہ یہی عقیدت ہے، ممکن تھا اور اسی قیادت سے کامیاب ہو سکتا تھا، تو یقین رکھیں کہ وہ غلط سمجھ رہا ہے۔ اگر نسلا بعد نسل گہرے ایمان کا یہ ذخیرہ موجود نہ ہوتا تو کوئی بھی ہستی ایسا انقلاب لاکے کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتی تھی۔
امام نفوس طیبہ کے اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ انہی ہستیوں میں سے ایک تھے کہ جنہوں نے اس ذخیرے میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ علمائے کرام اور رہبران دینی کو عزت و عظمت عطا کی۔ لیکن اس ذخیرے سے آپ نے صحیح جگہ پر اور صحیح طریقے سے بھرپور استفادہ کیا۔
جب تیرہ سو اکتالیس ( انیس سو باسٹھ ) میں ہمارے امام نے تحریک شروع کی تو جن لوگوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا ان میں سے ہزار میں ایک فرد بھی نہیں جانتی تھی کہ آپ کون ہیں۔ بہت سے آپ کا صحیح نام بھی نہیں لے سکتے تھے۔ لیکن آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ جانتےتھے کہ بڑے عالم ہیں جو قم میں اسلام کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوئے ہیں اور کھڑے ہوئے ہیں۔ کشش یہ تھی۔ عالم دین۔ بعد میں جب لوگ آپ سے واقف ہو گئے اور آپ کو پہچان لیا تو آپ سے محبت کا بے نظیر رشتہ قائم ہو گيا۔ یہ چیز ہمارے دیگر علماء کے سلسلے میں نہیں تھی اور اتنی آسانی سے وجود میں بھی نہیں آئے گی۔ یہی وہ ذخیرۂ معنوی ہے۔
بڑے علماء میں سے ہر ایک نے اس ذخیرے میں اضافہ کیا ہے۔ میرزائے شیرازی(8) شیخ انصاری (9) آخوند خراسانی(10) آ‍قا شیخ عبداللہ مازندرانی (11) آ‍قا سید محمد کاظم یزدی (12) آقا شیخ محمد حسن آشتیانی (13) مدرس مرحوم (14) آیت اللہ کاشانی مرحوم (15) آیت اللہ بروجردی مرحوم (16) اور دوسرے علمائے کرام میں سے ہر ایک نے ایک ورق کا اضافہ کیا اور فضائل دین اور علمائے دین کے افتخارات کی یہ ضخیم کتاب وجود میں آئي۔ یہ آسان نہیں ہے۔ یہ تحریک کی کامیابی کا پس منظر تھا جو ماضی سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن آج ہمارے اور آپ علمائے دین کے کندھوں پر وہ تمام سنگین ذمہ داریاں اور فرائض تھوڑے اضافے کے ساتھ ہیں۔ ہمیں چند باتیں معلوم ہونی چاہئیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اقدامات کتنے دقیق ہونے چاہئے۔
ہماری پہلی ذمہ داری ایک عالم دین کی حیثیت سے ہے، ان لوگوں کے تئیں جو اس کے علم کے محتاج ہوں۔ ایک عالم کی ذمہ داری لتبیننہ للنّاس ولا تکتمونہ (17) ہے۔ بیان کرنے کے لئے سمجھنا ضروری ہے۔ ہم کو پہلے سمجھنا چاہئے تاکہ جو سمجھے ہیں اسے بیان کر سکیں۔ بنابریں سمجھنا بھی ہمارے لئے واجب، ضروری اور ناقابل اجتناب ہے۔ ہمیں روز بروز اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے۔ جو ہم جانتے ہیں وہ اس کے مقابلے میں جو نہیں جانتے، ایک بڑے کھیت اور صحرا کے مقابلے میں ایک ذرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ ہم جو جانتے ہیں وہ کیا ہے؟ جو کتاب بھی کھولتے ہیں دیکھتے ہیں کہ اس میں مفاہیم کا ایک سیلاب ہے کہ ہمارے خالی ظروف جن کے محتاج ہیں۔ گہرائی کہاں ہے؟ استعداد کہاں ہے؟ اتنا کچھ سمجھنے کی توفیق کہاں ہے؟ بہرحال ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔
جو ہمیں معلوم ہونا چاہئے اور عوام کو ہم سے جن تعلیمات کی ضرورت ہے، ان کے مقابلے میں ہماری معلومات ہیچ ہیں۔ ہمیں پڑھنا چاہئے۔ مطالعہ کرنا چاہئے۔ میں یہاں درس پڑھنے کے فریضے کی بات نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال ہمیں مطالعے، تحقیق، غور و فکر اور تفکر کے ذریعے اپنا علم بڑھانا چاہئے تاکہ بیان کر سکیں۔ ایک فریضہ، بیان کا فریضہ ہے جو تمام علماء سے متعلق رہا ہے۔
دوسرا فریضہ، جو ماضی کے علماء سے متعلق بھی رہا ہے اور ہم سے بھی تعلق رکھتا ہے، عوام کے لئے مجاہدت کا فریضہ ہے۔ اگر انقلاب کامیاب نہ ہوتا تو بھی یہ ایک فریضہ تھا۔ ہمارے علماء نے عوام کے لئے ہمیشہ کام اور سعی و کوشش کی ہے۔ زحمتیں اٹھائی ہیں۔ غریبوں کی پاسداری کی ہے۔ ان کا خیال رکھا ہے۔ علماء کے آداب و روش یہ رہی ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ یہ وہ عام ہے جس میں کوئی تخصیص اور استثناء نہیں ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بنیادی طریقہ یہ تھا کہ غرباء اور کمزور طبقات کی مدد کریں، ان کی حفاظت کے لئے تسلط پسندوں کے مقابلے پر ڈٹ جائیں، زمینداروں اور جاگیر داروں کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں، بادشاہ کے سامنے ڈٹ جائیں۔ ہمارے علماء خاص طور پر شیعہ علماء ہمیشہ ان باتوں میں معروف رہے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ یہاں علمائے برادران اہلسنت اور ہمارے درمیان فقہی لحاظ سے ایک معمولی سا فر‍ق ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ہر حکومت کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں لیکن شیعہ اس کو نہیں مانتے۔ شیعوں نے خراب حالات کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا ہے اور اسی لئے ہمیشہ باطل حکومتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے ہیں۔ البتہ برادران اہلسنت نے بھی خاص مواقع پر ظالم اور سرکش حکومتوں کے مقابلے میں غیر معمولی اور پرکشش مجاہدت کی ہے جس کی مثالیں بعض دوسرے ملکوں میں ملتی ہیں اور ہم جانتے ہیں۔ لیکن یہ شیعہ اور امامیہ علمائے کرام کا طریقہ رہا ہے کہ ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ رہے ہیں، ان کی مدد کی ہے اور طاغوتی اور ظالم حکومتوں سے ٹکراتے رہے ہیں۔ یہ بھی ان فرائض میں سے ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ انقلاب کامیاب ہوا ہے یا نہیں ، اسلامی حکومت ہو یا نہ ہو، یہ ہمارا فریضہ رہا ہے۔
یہ آپ کا صوبہ بھی اسی طرح کا ہے۔ جب محمد شاہ قاجار کے زمانے میں انگریز بوشہر میں اترے تو چونکہ انگریزوں نے ہرات پر دباؤ ڈالا تھا اور اس جگہ کو دباؤ کا ذریعہ بنایا تھا، ان کے مقابلے پر کون کھڑا ہوا؟ رئیس علی جیسے کن لوگوں نے فتوا دیا، عوام میں بیان کیا، ان کے اندر جوش و ولولہ پیدا کیا، ان کا حوصلہ اور قوت قلب بڑھائی؟ علماء کے علاوہ کوئی اور تھا؟ علماء تھے جو سرکشوں اور ظالموں کے مقابلے کھڑ ے ہو جاتے تھے۔ یہ ہمارا دائمی فریضہ ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔
ایک اور فریضہ اس انقلاب کی وجہ ہے ہم پر عائد ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں اس انقلاب کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنی چاہئے۔ میں نے ایک بار ایک گفتگو میں ایک ماجرا بیان کیا۔ پتہ نہیں آپ حضرات نے سنا ہے یا نہیں۔ مولوی (18) مثنوی معنوی میں ایک داستان بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کافروں کے کسی شہر میں مسلمانوں کا ایک محلہ تھا۔ ایک عیسائی لڑکی کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی ۔ وہ مسلمان ہونا چاہتی تھی۔ لیکن ماں باپ روکتے تھے پھر بھی وہ ماں باپ اور اپنے خاندان کی بات نہیں سنتی تھی اور چرچ جانا بھی چھوڑ دیا۔ اس کے عیسائی باپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس لڑکی کے ساتھ کیا کرے۔ اس محلے میں ایک نیا مسلمان موذن آیا تھا اور بہت بری آواز میں اذان کہتا تھا۔ وہ عیسائی اس بری آواز والے موذن کے پاس گیا، اس کو پیسے دیئے اور کہا کہ اونچی آواز سے اذان دو۔ موذن نے اونچی آواز میں اذان دی۔ لڑکی اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی تھی کہ ناگہاں اس نے دیکھا کہ ایک بہت ہی نفرت انگیز آواز بلند ہوئی ۔ اس نے کہا یہ کیا ہے؟ اس کے باپ نے کہا کہ کچھ نہیں مسلمانوں کا موذن اذان دے رہا ہے۔ اس نے کہا حیرت ہے ۔ مسلمان ایسے ہیں؟ اور اسلام کی محبت اس کے دل سے نکل گئي ۔ (19)
خدا بہتر جانتا ہے کہ ابتدائے انقلاب میں کئی بار یہ داستان مجھے یاد آئی اور مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ہمیں اس پہلو کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ اس بری آواز والے موذن کی طرح ہوں کہ اسلام سے لوگوں کی محبت، عشق، شوق و ذو‍ق اور اسلام کی کشش کو جو آج پہلے سے زیادہ ہے، اپنے بغیر سوچے سمجھے اور غلط کاموں سے نفرت میں بدل دیں۔ یہ وہ چیز ہے کہ ہمارے اسلاف کم سے کم اس شدت کے ساتھ اس سے دوچار نہیں تھے۔ لیکن ہم اور آپ اس سے دوچار ہیں اور میں آپ سے زیادہ دوچار ہوں۔ جو بھی اس نظام میں زیادہ فعال اور زیادہ نمایاں ہے اس کے سامنے یہ مسئلہ زیادہ ہے۔ ہمیں اپنی رفتار ، اپنی گفتار اور اپنے کرداراور اپنے طور طریقے کا خیال رکھنا چاہئے۔
ایک اور اہم فریضہ جو آج علمائے کرام کے ذمے ہے، یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے وقار اور اس چیز پر توجہ رکھیں جو دشمن کے نشانے پر ہیں۔ دشمن ایک لمحہ بھی اسلام اور اسلامی جمہوریہ کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ آج دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟ ان چند دنوں میں کہ جب الجزائر میں انتخابات شروع ہوئے ہیں (20) میں جب کبھی یہ خبریں سنتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ واقعی دنیا کی ان استکباری طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں اسلام کتنا مظلوم واقع ہوا ہے۔ جہاں بھی اسلام کا معمولی سا بھی احساس کرتے ہیں بے درنگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جبکہ الجزائر نے ابھی اسلامی جمہوریہ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ خود ان کے اندر بعض لوگ اٹھے ہیں اور اس خوف سے کہ دشمن کہیں زیادہ حساس نہ ہو جائے، کہا ہے کہ نہیں ہم اس طرح نہیں ہونا چاہتے۔ ہم ان باتوں کا خیال رکھیں گے۔ یہ باتیں اس لئے کہہ رہے ہیں کہ کہیں دشمن حساس ہوکے یہ نہ کہنے لگے کہ یہ بھی اسلامی جمہوریہ جیسے ہو گئے۔ اس کے باوجود چونکہ یہ اسلام کی سمت میں ایک عوامی حرکت تھی، طاقت کے تمام بلاکوں میں وحشت اور سراسیمگی پھیل گئی ہے کہ اگر ہو سکے تو ان کو نہ رہنے دیں۔
دیکھئے ان چند برسوں میں ایران کے ساتھ کیا کیا؟ جہاں تک ہو سکا وار کئے۔ اب ان میں سے بعض وار تو لگے ہی نہیں اور خداوند عالم نے خود انہیں کی طرف پلٹا دیئے۔ بعض لگے بھی تو ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بعض کا اثر ہوا لیکن بہت کم اور بعض نے نقصان پہنچا دیا۔ لیکن دشمن اس سے بہت کمتر اور چھوٹا ہے کہ ہمیں ختم کر سکے۔ اگر ہم توجہ رکھیں تو دشمن ناکام رہے گا لیکن اگر ہم نے غفلت کی اور بیدار نہ رہے تو دشمن ناکام نہیں کامیاب ہو جائے گا۔
کس نے کہا ہے کہ باطل کبھی بھی حق پر وار نہیں لگا سکتا اور وقتی طور پر اس کو ختم نہیں کر سکتا؟ کون سا اصول اور قانون اس طرح کا ہو سکتا ہے؟ جو چیز قانون الہی میں ہے یہ ہے کہ سرانجام حق کامیاب ہوگا۔ آخرکار، باطل نابود ہوگا۔ لیکن کس نے کہا ہے کہ بیچ میں باطل حق پر وار نہیں لگا سکے گا اور اس کو میدان سے نہیں ہٹا سکے گا؟
ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ حق کے لئے مجاہدت ہو تو کوئی بھی باطل اس کو روکنے پر قادر نہیں ہوگا۔ اگر جد و جہد اور مجاہدت ہوگی تو خدا وند عالم اس کی ہدایت اور نصرت کرے گا اور اگر مجاہدت نہ ہو، ہم بیٹھے رہیں، ہوشیاری سے کام نہ لیں، اگر مورچے میں سو جائیں تو کیا پھر بھی دشمن ہمارے مورچے کو فتح کرنے کے لئے نہیں آئے گا؟ کس نے ایسی بات کہی ہے؟ ہمیں کوشش کرنی چاہئے، تاکہ دشمن ناکام رہے۔ اگر ہم نے کوشش نہ کی تو دشمن کامیاب ہو جائے گا۔ اور نستجیر باللہ من ذلک ۔ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ ہمارے زمانے میں اور اس دور میں کہ جب ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے، ایسا ہو۔ اس بناء پر، اس لحاظ سے بھی علماء کی ذمہ داری زیادہ ہے۔
علمائے دین کا خاصہ اور پہچان، دنیا کے پر فریب ظواہر اور مظاہر سے بے رغبتی رہی ہے۔ یہ بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بہت اہم ہے۔ ورنہ لذیذ، شیرین اور مرغن دنیا اشتہا آور ہے اور اس انسان کو جس میں احساسات پائے جاتے ہیں، اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جس کو بھی مل جاتی ہے وہ پوری طرح اسی کا ہوکے رہ جاتا ہے۔ اگر ہم بھی پوری طرح دنیا میں لگ گئے تو ہم میں اور دوسروں میں فرق کیا رہ جائےگا؟ جبکہ عالم دین کو دوسروں سے مختلف ہونا چاہئے۔
الحمد للہ خدا کے فضل سے، ان تیرہ برسوں میں جو مجاہدتیں انجام پائی ہیں، ان کے نتیجے میں آج اس نظام کی بنیادیں محکم ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا جب انہیں امید تھی کہ اس نظام کی بنیادوں کو رشد نہیں کرنے دیں گے۔ ایک وقت انہیں امید تھی کہ اس نظام کو جڑ نہیں پکڑ نے دیں گے۔ ایک وقت انہیں امید تھی کہ ایک طوفانی حملے میں اس کو اکھاڑ کے پھینک دیں گے۔ طوفانی ترین حالت یعنی جنگ ہم پر مسلط کی۔ وہ جنگ جس میں ایک حکومت کو ایک انقلابی ملک پر چڑھائی پر اکسایا اور حملے کے بعد پوری دنیا نے اس کی مدد کی۔ عجیب بات ہے کہ ان میں سے بعض کو ان کے کئے کی سزا مل گئی اور بعض کو زیادہ پاداش ملنی ہے۔
یہی یوگوسلاویہ (21) جسے آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس طرح لبنان کی مانند جنگ کی آگ میں گرفتار ہے، یہ ان ممالک میں سے ہے جو اپنے پروپیگنڈوں میں ہم سے کہتے تھے کہ کیا تم وحشی ہو، مذاکرات کے ذریعے جنگ کو حل کیوں نہیں کرتے؟ یہ ایسی حالت میں تھا کہ عراق ابھی ہمارے علاقوں پر قابض تھا۔ البتہ ہمارے سامنے یہ باتیں کرنے کی جرائت نہیں کرتے تھے۔ اپنے پروپیگنڈوں میں کہتے تھے۔ آج اسی ملک کی حالت ایسی ہے کہ ایک دوسرے کی جان کو آ گئے ہیں اور ایک ہی ملک کے دو صوبوں کے عوام ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں کہ جن کی نسل ایک ہے۔ ان میں بہت سے یوگوسلاوی نسل کے ہیں اور ان کی زبان بھی ایک ہے۔ ان کی تاریخ اور ثقافتی ماضی ایک ہے۔ یہ ان ممالک میں سے ہے کہ جنگ کے دوران جو اپنے دشمن کی اسلحے سے بھی اور پروپیگنڈے سے بھی مدد کرکے، ان لوگوں کے دل خون کرتے تھے جو ملک کے دفاع میں جنگ میں اترے تھے۔ یہی ملک جو آج اس طرح جنگ کی آگ میں ہے اور اس کے شہروں پر مارٹر کے گولے گر رہے ہیں۔ یعنی شہروں کے نزدیک جاتے ہیں اور ساٹھ ملی میٹر اور اکیاسی ملی میٹر کے مارٹر سے ایک دوسرے پر حملے کرتے ہیں۔ اتنے نزدیک سے ایک دوسرے سے جنگ کر رہے ہیں۔ بنابریں انہوں نے بہت کوشش کی اور انہیں امید تھی کہ ان طوفانی حالات میں اسلامی نظام کو ختم کر دیں گے۔
اس سے بڑا ناگہانی موقع امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ ) کی رحلت کا تھا۔ اس موقع سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ برسوں کہتے رہے کہ جب امام نہیں ہوں گے تو بہت کچھ کر لیا جائےگا۔ بہت کچھ بدل جائے گا۔ عوام کی موجودگی، عوام کی طاقت، عوام اور علماء کی یکجہتی اور میدان میں ان کی ہوشیارانہ موجودگی (سب کچھ بدل جا ئے گا) لیکن ان نوجوانوں اور معاشرے کے مختلف طبقات نے ان کی اس امید پر بھی پانی پھیر دیا۔
آج الحمد للہ استحکام کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کو کمترین امید بھی نہیں رہ گئی ہے۔ نظام الحمد للہ مستحکم ہے۔ منبصوبہ بندی اچھی ہے اور حکومت مضبوط ہے۔ ہم عمامے والے، جہاں بھی ہیں، ہمیں اپنے اقدامات میں موقع کی ضرورت کے لحاظ سے تیزی لانی چاہئے۔ تبلیغ دین صحیح کام ہے۔ اتحاد اور یکجہتی کی حفاظت کریں جو عوام کے جوش وولولے پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ وہی بات جو میں نے اپنی گفتگو کے شروع میں عرض کی۔
کبھی بعض شہروں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض حکام کے درمیان، بعض اہل علم کے درمیان بعض لوگوں اور مختلف طبقوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ عوام نہ جمعے کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی نماز جمعہ کو، نہ ان کے اندرجلوسوں میں شرکت کا حوصلہ ہے نہ ہی دوسرے کاموں کا۔ ان کے دل مردہ ہو چکے ہیں۔ الحمد للہ یہاں ایسا نہیں ہے۔ اتحاد، اتفاق، ہماہنگی اور باہمی قربت سے عوام کے اندر شوق و ذوق پیدا ہوتا ہے، اس کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
آپ میں سے کچھ لوگ مسلح افواج میں ہیں۔ یہاں الحمد للہ بحریہ کا اڈہ بھی اور فضائیہ کا اڈہ بھی اور زمینی فوج کا مرکز بھی ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کا اڈہ بھی ہے۔ ان کا آپ سے اور عوام سے رابطہ ہے۔ جو حضرات ان شعبوں میں کام کرتے ہیں، وہ نظم و ضبط کے ساتھ، فکر کے ساتھ، منصوبہ بندی کے ساتھ اور وقت کے تقاضے اور موقع کی مناسبت سے عمل کریں۔ جو مناسب اور ضروری ہو، ان شاء اللہ دین سے اس کا استنباط کریں۔ قران پر توکل کریں۔ قرآن بہت اہم ہے۔ نماز اور نماز جماعت میں لوگوں کی شرکت پر زور دیں۔
ان شاء اللہ مستقبل بہت اچھا ہے۔ مستقبل کے افق پر ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے فضل سے دشمن محصور ہوگا۔ انہوں نے علاقے میں ہمارا محاصرہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن خداوند عالم چاروں طرف سے ان کا محاصرہ کرے گا۔ یغشیھم العذاب من فوقھم ومن تحت ارجلھم (22) اس کا نمونہ یہاں دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسلامی بیداری اسی سے متعلق ہے۔ یہ سابق سوویت یونین کے شیرازے کا بکھرنا اسی سے متعلق ہے۔ یہ یورپ میں اندرونی، نسلی اور قومی اختلافات کا تعلق بھی اسی سے ہے۔ ہم کسی سے جنگ کی آرزو نہیں رکھتے لیکن خدا کا کام دیکھنے والا ہے۔
سنت الہی اس وقت کام کرے گی جب ہم اپنی جگہ محکم اور استوار ہوں۔ اصل قضیہ یہ ہے۔ سارے علمائے کرام کو قول میں، فعل میں، سیاست میں، سماجی امور میں، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اس حیثیت اور جگہ پر ہونا چاہئے جو ہمارا محاذ ہے۔ جہاں بھی ہمارا کام اور ہماری ذمہ داری ہو، وہاں کمترین توقع اور بھرپور فداکاری کے ساتھ اور محکم انداز میں ہمیں اپنا کام کرنا چاہئے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم ہماری نصرت کرے گا اور ہم پر اپنی برکات نازل فرمائے گا۔ الحمد للہ اب تک ایسا ہی تھا۔ جیسا کہ امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی خوش خبریوں میں اس کی نشاندہی کی گئي ہے۔ آپ کا نظریہ ہمیشہ یہ تھا ، میں نے سنا تھا کہ آپ انجام اور مستقبل کو بہت روشن دیکھتے تھے۔ دست قدرت الہی کو عوام کے ساتھ دیکھتے تھے اور پر امید تھے۔ اب جب ہم نظر ڈالتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ واقعی ویسا ہی ہے جیسا کہ امام نے بارہا فرمایا ہے اور ہم سب کو سکھایا ہے۔
دعا ہے کہ خداوند عالم ہماری یہ لیاقتیں زیادہ کرے۔ اس قوم کو اپنی رحمتوں اور فضل و کرم میں شامل کرے اور آپ حضرات پر اپنا فیض نازل فرمائے، آپ کو توفیق عطا کرے اور آپ کی نصرت فرمائے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

------------------------------------------------------------------
1- آپ سن بارہ سو اکیانوے ہجری قمری میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے۔ نوسال کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ بوشہر تشریف لائے اور اس شہر میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ تیرہ سو گیارہ ہجری قمری میں نجف اشرف گئے اور تین سال اس شہر میں حصول علم میں مشغول رہے۔ چونکہ آپ خاص ذہانت اور استعداد کے مالک تھے، اس لئے سن تیرہ سو چوبیس ہجری قمری میں درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ سن تیرہ سو چھبیس ہجری قمری میں جب ایران میں آئینی حکومت کی تحریک عروج پر تھی، بوشہر واپس تشریف لائے اور اسلامی علوم کی تدریس کے ساتھ ہی آئینی حکومت کے نظام کے قیام میں عوام کا ساتھ دیا اور اس میں ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ پہلی عالمی جنگ کے قریب آپ، بوشہر اور جنوبی ایران میں برطانوی اہداف کے مخالف اہم ترین اور ممتاز ترین عالم دین شمار ہوتے تھے اور آپ نے جو فتوا صادر کیا اس میں ملک کے دفاع کو واجب قرار دیا۔ ۔۔۔ جابر اور ظالم برطانوی حکومت ہماری سرزمین پر حملہ کرنا چاہتی ہے ۔ ہم پر واجب ہے کہ اپنا دفاع کریں۔ انہوں نے شروع سے ہی رضا خان کی اسلام مخالف حرکتوں کی مخالفت کی اور اس سلسلے میں مسلسل آیت اللہ مدرس سے رابطے میں تھے۔ آپ ان جید علماء میں سے تھے کہ جنہوں نے اسلامی حجاب کے دفاع میں مختلف رسالے لکھنے کے ساتھ ہی رضا خان کے شیطانی منصوبوں کا پردہ چاک کیا۔ آیت اللہ بلادی نے سن تیرہ سو بہتر ہجری قمری میں دل کا دورہ پڑنے سے رحلت فرمائی۔ آپ کا پیکر تین سال تک محفوظ رکھا گیا اور تیرہ سو چوہتر ہجری قمری میں نجف اشرف لے جایا گیا اور وادی السلام میں سپرد خاک کیا گیا۔
2- یہ سفر 18-8-1983 کو انجام پایا۔
3- نہج البلاغہ، کلمات قصار ، ش 73
4- تحف العقول ، ص 50
5- آپ بارہ سو چونسٹھ ہجری قمری میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ الحاج میرزا محمد حسن مجدد شیرازی کے درس خارج ( درس اجتہاد) میں شرکت کی ۔اس کے بعد سامرہ مہاجرت کی اور شیخ محمد حسین کاظمی، شیخ لطف اللہ مازندرانی، شیخ محمد ایروانی اور شیخ حسین قلی جیسے اساتذہ سے فقہ، اصول، اور دیگر دینی علوم میں کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ سن تیرہ سو نو ہجری قمری میں لار کے عوام کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے اور پچیس سال تک مرجع تقلید اور مرکز خلائق رہے۔ آئينی حکومت کی تحریک شروع ہوئی تو آزادی اور آئینی تحریک کا پرچم اٹھا کے حریت پسندوں میں شامل ہو گئے اور ظلم و استبداد کے خلاف مجاہدت کے لئے اٹھے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جب انگریزوں نے لار اور شیراز پر قبضہ کرنا چاہا تو آپ نے لوگوں کو جارحیت کے خلاف مجاہدت کی دعوت دی اورحکم جہاد صادر کیا اور جہاد اور مجاہدت میں عمر گزارنے کے بعد سن تیرہ سو بیالیس ہجری قمری میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔
6- 1231-1151 ہ ق
7- 1228- 1154 ہ ق
8- 1313-1230 ہ ق
9- 1281-1214 ہ ق
10- 1329-1255 ہ ق
11- نویں صدی ہجری قمری ۔
12- 1338-1247 ہ ق
13- 1319-1248 ہ ق
14- 1316-1249 ہ ش (1937-1860 عیسوی )
15- 1340- 1263 ش ( مطابق 1961- 1884 عیسوی )
16- 1340- 1253 ش (مطابق 1961- 1874 عیسوی)
17- آل عمران؛ 187
18- 672-604 ہ ق
19- گفت دختر چیست این مکروہ بانگ کہ بہ گوشم آمد این دوچار دانگ

من ہمہ عمر این چنین آواز زشت ھیچ نشنیدم درین دیر و کنشت
خواہرش گفت کہ این بانگ اذان ھست اعلام و شعارمومنان
باورش نآمد بپرسید ازدگر آن دگر ہم گفت آری ای پدر
چون یقین گشتش رخ او زرد شد از مسلمانی دل او سرد شد
(مثنوی معنوی دفتر پنجم)
20-دیکھیں ، حاشیہ نمبر1 شہدائے ہفتم تیر کے اہل خاندان سے ملاقات میں خطاب ( مورخہ 8-4-1370 مطابق 28-6-1991)
21- یوگوسلاویہ آزادی کی تحریکوں کے باعث تقسیم کے قریب پہنچ گیا تھا اور ان علاقوں میں جو زبردستی اس ملک میں شامل کئے گئے تھے، آزادی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ یوگوسلاویہ کے حکام نے طاقت اور جنگ کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ بوسنیا ہرزے گووینا کے بحران میں سربوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں وحشیانہ ترین درندگی کا مظاہرہ کیا اور اس علاقے کے مسلمانوں کے خلاف بہت زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا۔ بعد میں اس علاقے کے مسلمانوں نے آزادی حاصل کی اور اقوام متحدہ نے ان کی آزادی کو سرکاری طور پر تسلیم کیا۔
22- عنکبوت ؛ 55