تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ عزیزوں اور محترم شہداء کے پسماندگان کو دیکھ کے بڑی خوشی ہوئی۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ دن دیکھنے کو ملا کہ آپ فرزندان شہداء نے علم اور ترقی کے مدارج طے کئے اور مختلف درجات میں فارغ التحصیل ہوئے۔ امید ہے کہ ہمارا ملک اور معاشرہ وہ دن بھی دیکھے گا کہ جب مملکت کے اہم امور بھی آپ عزیزوں کے ہاتھ میں ہوں گے جو ہمارے شہداء کی یادگاریں ہیں اور آپ کے وجود سے بوئے شہادت مشام جاں کو معطر کرتی ہے۔
ہمارے لئے جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں اور ملک میں ہر جگہ اسی جہت کو اختیار کیا جائے جس پر چل کے ہمارے فداکار اور بہادر شہداء نے شوق و ذوق کے ساتھ اپنی جان دی۔ ہر فرد، چاہے وہ اس ملک میں جہاں بھی اور جس سطح پر بھی ہو، اس بات سے سختی سے پرہیز کرے کہ اس ملک میں انقلابی اور اسلامی جہت، جس پر ہمارے شہداء چلے ہیں،اس کے برعکس کوئی کام ہو۔ یونیورسٹیوں کو بھی اسی جہت میں بڑھنا چاہئے۔ مختلف سطح پر امور مملکت چلانے والے ادارے بھی اسی جہت میں رہیں۔
آپ فرزندان شہداء ہیں، آپ کے والد نے اس راہ میں جان دی ہے اور آپ کا زیادہ حق ہے کہ اس راستے کو باقی رکھیں اور اس جہت میں چلیں۔ اپنا اور اس جہت کا بہت زیادہ خیال رکھیں۔
یہ نکتہ بھی آپ عزیزوں سے عرض کر دوں کہ انسان ہمیشہ امتحان اور آزمائش میں رہتا ہے۔ کوئی بھی چیز کسی انسان کو ہمیشہ کے لئے محفوظ نہیں بنا سکتی۔ نہ علم ، نہ مجاہدت، حتی دینداری اور تقوا بھی نہیں، اگر انسان اس کی حفاظت کی کوشش نہ کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم خود سے کہیں کہ ہم نے راہ خدا میں یہ بڑا کام اور یہ مجاہدت کی ہے تو اب ہمیں نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ حتی جو لوگ راہ خدا میں بڑے کام کرتے ہیں اگر اپنا خیال نہ رکھیں تو انہیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہمیشہ اپنی حفاظت کرنی چاہئے۔
خدا وند عالم ان مجاہدین کے بارے میں، جو جنگ میں زخمی بھی ہوئے ہیں، کہ اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ کہ آدمی میدان جنگ میں بھی جائے اور زخمی بھی ہو۔ جیسے یہ ہمارے ‏عزیز معذور جانباز ہیں، فرماتا ہے کہ الذین استجابوا للہ والرسول من بعد ما اصابھم القرح (1) جو لوگ راہ خدا میں جنگ اور جہاد کے لئے میدان میں گئے اور زخمی ہوئے، للذین احسنوا منھم واتّقوا اجر عظیم (2) یہ اجر اور انعام ان کے لئے اس صورت میں باقی رہے گا کہ اپنے ساتھ تقوے اور نیکوکاری کو باقی رکھیں۔ ورنہ اگر کوئی وہ مجاہدت کرے، وہ معنوی اہمیت حاصل کرے، لیکن خدا نخواستہ اپنے اس شرف کی حفاظت نہ کرے تو یہ نقصان ہے۔ کون سی چیز اس شرف کو ہمارے لئے محفوظ رکھ سکتی ہے؟ تقوا۔ اسی لئے ہر نماز جمعہ میں اور قرآن کے ہر سورے میں ہمیں مستقل طور پر تقوے کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ قرآن کے شروع میں۔ وہی آیات جن کی یہاں تلاوت ہوئی ، ان میں بھی تقوے کی بات ہے ۔ ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین (3)
آپ دنیا اور آخرت دونوں جگہ عزیز ہیں۔ اس لئے کہ راہ خدا میں آپ نے بڑی مصیبت برداشت کی ہے وہ ہے باپ کے سائے سے محرومی۔ یہ بہت اہم شرف ہے جس کی حفاظت ہونی چاہئے۔ یہ دائمی اور کبھی نہ ختم ہونے والا شرف نہیں ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ خود اپنی حفاظت کس طرح کرتے ہیں اور حفاظت اس طرح ہو سکتی ہے کہ تقوا اختیار کریں۔
اپنے والد، ان شہیدوں کی راہ کی حفاظت کریں۔ آپ ان شاء اللہ اعلا علمی مقامات پر پہنچیں گے۔ محقق بنیں گے۔ سائنسدان بنیں گے۔ پروفیسر اور ڈاکٹر بنیں گے۔ فنی اور تکنیکی کارنامے انجام دیں گے۔ کارخانے چلائیں گے۔ حکومتی اور قومی ادارے چلائیں گے۔ جہاں بھی ہوں، چاہے یونیورسٹی میں یا کام کی جگہ پر، یہ بات فراموش نہ کریں کہ راستہ وہی شہید کا راستہ ہے جس کی آپ یادگار شمار ہوتے ہیں۔ اس کے راستے کو جاری رکھیں۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر ہم اس کو یاد رکھیں تو ہمارا انقلاب محفوظ رہے گا۔
البتہ حصول علم میں بھی آپ کو زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری (کدورت ) ہے وہ کچھ کہہ نہ سکیں اور انہیں کوئی بہانہ نہ ملے۔ سب سے بہتر اور زیادہ پڑھائی کریں، علمی مدارج طے کریں اور سب سے اعلا مدارج طے کریں۔ شہادت استقامت کی علامت ہے۔ شہداء معمولا جنگ کے محاذوں اور عوام کے فولادی افراد تھے۔ اس جذبے اور اس ارادے کو اپنی پڑھائی اور سعی و کوشش میں دکھائیں۔
میں یہ دیکھ کر کہ الحمد للہ آپ نے مختلف درجے طے کئے، بہت خوش ہوں۔ حصول علم کا یہ سلسلہ اسی انداز سے جاری رکھیں۔ جو حصول علم جاری رکھ سکتے ہیں، وہ جاری رکھیں تاکہ زیادہ پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہوں اور معاشرے اور نظام کے لئے مفید ہوں۔
یہ انقلاب آپ سے تعلق رکھتا ہے۔ نوجوانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ مومن اور حزب الہی عوام سے تعلق رکھتا ہے۔ شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ فرزندان شہداء سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ انقلاب آپ کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس انقلاب اور اس ملک کی باگ ڈور ان شاء اللہ آپ کو اپنے ہاتھ میں لینی ہے۔ اس راستے کو جو ہمارے عظیم امام نے شروع کیا اور آپ کے باپ، پائیداری کے ساتھ اس راستے پر باقی رہے، اب ان شاء اللہ آپ کو اس راستے پر استحکام اور استواری کے ساتھ چلنا ہے۔
یہ شہید فاؤنڈیشن کے ذمہ دار حضرات، جتنا ہو سکے، حتی الوسع ان شاء اللہ اس ثقافتی کام میں مدد کریں۔ اس لئے کہ شہیدوں کے خاندان کی ثقافتی خدمت، جس پر ہم نے بارہا تاکید کی ہے، مادی خدمات سے زیادہ اہم ہے۔ شہیدوں کے خاندان والوں کے لۓ اس کا دوام اور برکت بھی زیادہ ہے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

------------------------------------------------------
1و2- آل عمران ؛ 172 3- بقرہ ؛ 2