تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیّدنا ونبینا ابی القاسم محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین۔

ہمارے اسلامی معاشرے کے لئے خدا وند عالم کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ان دلیر اور فداکار افراد کی موجودگی ہے جو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل سے آج تک دشمنان انقلاب کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں اور راہ خدا کی نصرت کرتے آئے ہیں۔ ان عزیزوں میں سے بعض راہ خدا میں شہید ہو گئے اور شہادت کے اعلا درجات پر فائز ہوئے، لامتناہی خدائی نعمتوں سے بہر مند ہوئے اور ایران، اسلام اور اسلامی انقلاب کے لئے سند افتخار اور ہمارے امام رحمت اللہ علیہ کے لئے سرمایہ عزت بن گئے اور ان کے نام تاریخ میں درج ہو گئے ۔
اگر ہم اپنے شہیدوں کو اسلامی اقدار کے میزان پر پرکھنا چاہیں تو یقینا وہ صدر اسلام کے شہداء کی سطح پر نظر آئیں گے اور شايد بعض معاملات میں ان سے بہتر ہوں۔ اس لئے کہ شہدائے صدر اسلام ، نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اور امیر المومنین ( علیہ الصلاۃ والسلام) کے ساتھ تھے۔ پیغام وحی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے سنتے تھے۔ لیکن ہماے زمانے کے شہداء امام معصوم یا نبی اکرم کو دیکھے بغیر ہمارے امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی دعوت پر، معصومین (علیہم السلام) کے نائب برحق کے اشارے پر محاذوں پر گئے اور مجاہد فی سبیل اللہ کا کردار بہت اچھی طرح ادا کیا۔ اگر ہمارے عزیز شہدا نہ ہوتے اور ان کی فداکاری نہ ہوتی تو آج اسلام کی یہ عزت و عظمت نہ ہوتی۔
آج جب آپ دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پرچم اسلام سربلند ہے۔ اسلام کو عزت حاصل ہے، مسلم اقوام اسلامی حکومت کے لئے سعی و کوشش اور مجاہدت کر رہی ہیں، مسلمانوں کے دل پر امید ہیں، مسلمانوں کا مستقبل روشن ہے اور اقوام جہنمی طاقت کے مقابلے میں نہ مرعوب ہیں اور نہ ہی خوفزدہ ہیں۔ وہ کمزوری اور زبوں حالی کا احساس جس میں دسیوں سال بلکہ صدیوں تک اقوام مبتلا رہیں ، آج نہیں ہے۔ اقوام بہادر اور عمل کرنے والی ہو گئي ہیں۔
اگر کوئی صاحب انصاف ہو اور دنیا کے اس عظیم تغیر کا تجزيہ و تحلیل کرنا چاہے تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ تمام برکات انہی نوجوانوں اور آپ کے فرزندوں کے خون کا نتیجہ ہیں۔ انہیں مجاہدین کی برکت سے ہے کہ جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں مختلف محاذوں پر ڈٹ گئے ، اپنی جان کی پرواہ نہ کی، اہداف الہی کو مد نظر رکھا ، ان میں سے کچھ شہید ہو گۓ ، کچھ زخمی اور معذور ہو گئے اور عین جوانی میں جسمانی سلامتی سے محروم ہو گئے اور کچھ دشمن کی قید میں چلے گئے اور جنگی قیدی کے عنوان سے برسوں ایذائیں اور سختیاں برداشت کیں۔ اسلام کو یہ عزت و عظمت انہوں نے دی ہے ۔
جانے کتنے ماں باپ ایسے تھے جو اپنے جوانوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ میں جب کبھی شہیدوں کے بارے میں ان کے ماں باپ سے گفتگو کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک ان کے بیٹے زندہ رہے، وہ ان کی روح کی عظمت کا ادراک نہ کر سکے۔ ان کے جوان وہی بچے ہیں جنہیں انہوں نے بڑا کیا ہے۔ ماں باپ ان مجاہدین فی سبیل اللہ کی عظمت کا صحیح ادراک نہیں کر سکتے۔ قوم بھی ان درخشان ستاروں کی عظمت کو نہیں سمجھ سکتی۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ہم ابھی اس بات پر قادر نہیں ہوئے کہ ان عزیز شہیدوں کے کام کی عظمت کو سمجھ سکیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے انہی فداکار نوجوانوں ، انہیں مومن اور جذبہ عشق سے سرشار بسیجیوں یا فوجیوں یا پاسداروں نے، دنیا اور تاریخ میں کیا عظمت قائم کی ہے؟
اسلام کو گوشہ نشین بنا دیا گیا تھا۔ عالمی لٹیرے اور غارتگر وہ کام کر رہے تھے کہ صفحہ عالم پر اور لوگوں کے دلوں میں اسلام کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے، وہ اسلام کو جڑ سے ختم کر دینا چاہتے تھے۔ یہ کام آسانی سے نہیں کیا تھا بلکہ اس پر اربوں ڈالر خرچ کئے تھے۔ منصوبہ سازوں ، مفکرین اور ان کے ایجنٹوں نے برسوں رات اور دن مسلسل فکر کی، لوگوں کو قتل کیا، شہروں کو ویران کیا، حکومتیں ختم کیں اور ان کی جگہ دوسری حکومتیں برسراقتدار لائے، تمام اسلامی ملکوں میں علماء کا قتل کیا۔ مدرسوں کو ویران کیا، شہروں کے در و دیوار سے دین کا نام بھی دھو ڈالا کہ شاید اسلام کو ختم کرسکیں۔
یہ کام کب انجام دیئے گئے؟ یہ ایک ہزار سال پہلے ، پانچ سو سال پہلے یا دو سو سال پہلے کا کام نہیں ہے۔ یہ کام ہماری اور آپ کی عمر میں ہی انجام دیا گیا ہے۔ منحوس پہلوی حکومت کے دور میں، اسی ملک میں یہ کام کیا گیا۔ انہیں شہروں میں حتی انہیں دیہی بستیوں میں اور اسلامی دنیا میں ہر جگہ سخت کینے کے ساتھ اسلام سے جنگ کر رہے تھے تاکہ اسلام کو پوری طرح صفحہ عالم سے محو اور ختم کر دیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسلام ان کی اقتدار پرستی، تسلط پسندی، غارتگری، انسانوں کا خون چوسنے، ان کی بدعنوانیوں، ان کی بے راہ روی ، انسانوں کا خون بہانے کی ان کی روش، اور ان کی انسانیت سوز سازشوں کا مخالف تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بے لگام رہیں اور آزادی کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ لیکن اسلام رکاوٹ تھا۔ اس لئے ضروری سمجھا کا اسلام کو راستے سے ہٹا دیں اور وہ اسلام کو مٹا رہے تھے کہ انقلاب الہی فجر نور کی طرح طلوع ہوا۔
اس انقلاب سے قبل مسلمان دنیا میں جہاں بھی زندگی گزارتے تھے، اپنے مسلمان ہونے پر افتخار نہیں کرتے تھے۔ بہت سے مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے میں حقارت کا احساس کرتے تھے اور مسلمان ہونے کا دم نہیں بھرتے تھے۔ مسلم اقوام دنیا میں ہر جگہ خود کو حقیر چھوٹا اور ماتحت سمجھتی تھیں۔ انقلاب نے آتش فشاں بھٹی کی طرح پوری دنیا کو ہلاکے رکھ دیا اور سب کچھ بدل دیا۔ نظریات بدل دئے، احساس و جذبات بدل دئے اور مسلمانوں کو بدل دیا۔ صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے اسلام میں۔
آج مسلم ملکوں کے سربراہ حتی وہ بھی جنہوں نے اسلام سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا، اسلام کے تظاہر پر مجبور ہیں ۔ کیوں؟ اس لئے کہ اقوام اسلام سے محبت کرتی ہیں۔ آج عالم کفر و استکبار مسلمانوں سے مرعوب ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اب مسلمان حقارت کا احساس نہیں کرتے۔ دنیا میں کہیں بھی اب مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی کا احساس نہیں کرتے بلکہ اس پر افتخار کرتے ہیں۔ یہ کام انقلاب نے کیا ہے۔
ہم جب پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے زمانے کے شہیدوں، غسیل الملائکہ حنظلہ، حمزہ، جنگ احد کے ان دو بہادر بھائیوں اور دیگر شہیدوں کی تاریخ زندگی کا مطالعہ کرتے تھے تو حیرت ہوتی تھی، لیکن ہمارے ان نوجوانوں نے ہمیں ہزاروں حمزہ سیدالشہداء اور ہزاروں غسیل الملائکہ حنظلہ دکھائے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھا اور ان کی عظمت کو درک کیا۔ ہمارے معذور جانباز، ہمارے لاپتہ سپاہی اور دشمن کی قید میں رہنے والے ہمارے بہادر جنگی قیدی بھی انہی جیسے ہیں۔
میں نے ہمیشہ شہیدوں کے پسماندگان سے کہا ہے کہ ہمارے شہداء اگلی صف میں ہیں، ان کے بعد ان کے پسماندگان ہیں۔ یہی ان کے ماں باپ اور بیوی بچے، جنہوں نے اپنے جوانوں، اپنے گھر کے مردوں اور اپنے محبوب عزیزوں کی مجاہدت پر فخر کیا۔ ان کے شہید ہونے سے نہ گھبرائے، انہیں جانے سے نہ روکا۔ حتی ماؤں نے اپنے بچوں کا حوصلہ بڑھایا اور بیوی بچوں نے شکر کیا اور ان کی شہادت پر افتخار کیا۔ اس طرح یہ تحریک شعلہ ور ہوئی ہے اور ہمارے عظیم امام نے اسلام کے لئے عزت و عظمت کی چوٹیاں فتح کی ہیں۔ اسی بناء پر اقوام صراحت کے ساتھ کہتی ہیں کہ اے قوم ایران ہم نے تجھ سے سیکھا ہے تو ہماری معلم ہے۔
اے شہیدوں کے والدین! ان کے بیوی بچو! بھائیو اور بہنو! میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس عظمت اور اس جذبے کو اپنے لئے محفوظ رکھئے جیسا کہ اب تک محفوظ رکھا ہے۔ دنیا تاریکی اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اقوام اکیلی ہیں، انہیں پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ آپ کا جذبہ، آپ کی تحریک کا دوام اور آپ کی استقامت اقوام کے لئے حوصلہ افزا ہے۔ آپ مسلم خواتین، فلسطین اور اسلامی ملکوں کی خواتین کے حوصلے برھنے کا باعث ہیں۔ وہ صراحت کے ساتھ کہتی ہیں کہ ہم نے آپ سے بالخصوص آپ نوجوانوں سے سیکھا ہے۔ اس پائیداری کی حفاظت کریں اور اس استقامت کی قدر کریں۔ آپ نے اپنی استقامت، اپنے ضمیر اور مختلف سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اپنی موجودگی، ملک کی تعمیر اور امور مملکت کو چلانے اور امور کو آگے بڑھانے میں مشارکت اور حکام کی پشت پناہی سے آپ نے اسلام کو جو عزت و عظمت عطا کی ہے، اس کو جاری رکھئے ، آپ نے اسلام کو زندہ کر دیا ہے۔
بہترین موت شہادت ہے۔ راہ خدا میں مجاہدت کا اعلا ترین اجر ، شربت شہادت ہے۔ انہیں یہ عظیم نعمت الہی گوارا اور مبارک ہو۔ انہوں نے شہادت کی شکل میں اپنا اجر پا لیا۔ شہادت یعنی حریم خلوت الہی میں داخل ہونا یعنی خوان ضیافت الہی تک پہنچنا۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ بہت عظیم ہے۔ پالنے والے! تجھے شہیدوں کے خون کا واسطہ ، تجھے تیرے اولیاء کا واسطہ، تجھے حضرت صاحب زمانہ (ارواحنا فداہ) کے حق کا واسطہ ہماری موت کو بھی اپنی راہ میں شہادت قرار دے۔
اگر مسلمان ، جذبہ شہادت کےساتھ میدان میں باقی رہے تو کوئی بھی طاقت اس پر غالب نہیں آ سکتی۔ اس جذبے کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ میں شہیدوں کے اہل خاندان، مخصوصا ان کی اولادوں ان عزیز نوجوانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ جتنا ہو سکے خودسازی کریں۔ سب کو خود سازی کرنی چاہئے ، لیکن آپ کو اولویت حاصل ہے۔
ہمارے عظیم امام (رضوان اللہ تعالی علیہ ) شہیدوں اور ان کے گھرانے کو بہت اہمیت دیتے تھے اور آپ کے دل میں ان کی فکر زیادہ تھی۔ یہ خدا کے صالح بندوں کے عمل کا ایک نمونہ ہے۔
راہ انقلاب اور دشمنان خدا کے مقابلے میں استقامت کا راستہ، دنیا میں عزت، کرامت اور سربلندی اور آخرت میں رضائے خدا کے حصول کا راستہ ۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم تھک جائے۔ اس سے غافل ہیں کہ یہ قوم راہ خدا میں بہنے والے اس خون اور اپنی اس عظمت کے ساتھ کبھی تھکنے والی نہیں ہے اور راہ خدا کو جاری رکھے گی۔ دشمن مسلم اقوام سے یہ نمونہ عمل چھین لینا چاہتا ہے۔ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ یہ قوم تھک گئی ہے اور اپنے راستے میں کمزور اور متزلزل ہو گئی ہے۔ لیکن آپ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ اب بھی دکھا دیں، اب بھی دشمن کے دعوے کا جھوٹا ہونا ثابت کردیں اور یہ کام انقلاب کے ہر میدان میں موجودگی سے ہوگا۔
ہمارے معذور جانباز بھی ہمارے زندہ شہید ہیں۔ اس لئے کہ شہیدوں کی طرح میدان جنگ میں گئے اور شہیدوں کی طرح زخمی ہوئے لیکن خداوند عام نے اپنے کرم سے انہیں زندہ رکھا۔ یہ زندہ ہیں لیکن شہیدوں کے درجے میں ہیں۔ ان عزیزوں سے بھی ہماری سفارش ہے کہ اپنے لئے اس کرم الہی کو محفوظ رکھیں۔ للذین احسنوا منھم واتّقو اجر عظیم (1) اس جذبے کی جو ہمیشہ انہیں میدان جنگ میں آگے لے جاتا تھا اور فداکاری کا سبب بنتا تھا، حفاظت کریں۔ البتہ تمام اداروں کا فریضہ ہے کہ ان ‏عزیزوں، شہیدوں کے خاندان والوں، معذور جانبازوں، دشمن کی قید سے آزاد ہوکے آنے والے سپاہیوں، ان کے گھروالوں اور ان کے فرزندوں کی قدر اور دیکھ بھال کریں۔ ان تمام چیزوں سے بڑھ کے خدا کا فضل و کرم ہے اور امید ہے کہ یہ فضل و کرم ہمیشہ آپ کے شامل حال رہے گا۔
پالنے والے! تجھے تیرے عزیز شہیدوں کی ارواح مطہرہ کی قسم دیتا ہوں شہیدوں پر پہلے سے زیادہ فضل رحمت نازل فرما۔ پالنے والے! شہیدوں کے اہل خاندان کو اجر، صبر اور استقامت عطا فرما۔ پالنے والے! ہمارے معذور جانبازوں کو صبر اور عافیت عنایت فرما۔ پالنے والے! ہمارے لاپتہ سپاہیوں کو اگر زندہ ہیں تو حمایت کے سائے میں ان کی حفاظت فرما اور ان کے گھر والوں کو ان کے بارے میں اچھی خبر پنہچا۔

 

والسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ

--------------------------------
1- آل عمران ؛ 172