آپ نے لبنان اور فلسطین کے حالات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمام بہنوں اور بھائیوں کو جو ملک کے مختلف علاقوں سے، طویل راستے طے کرکے تشریف لائے ہیں، بالخصوص شہیدوں کے پسماندگان اور اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور جانبازوں اور ان کے زحمتکش گھر والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
اپنی گزارشات کے آغاز میں، مسلط کردہ جنگ کی محترم یادگاروں کے اجتماع کی مناسبت سے یہ عرض کرنا چاہئے کہ ایرانی قوم کو جنگ کے ان فداکاروں کی فداکاریوں کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اگر جنگ میں ناحق بہایا جانے والا یہ خون، یہ مظلومیت، یہ ایثار اور یہ شجاعت نہ ہوتی تو آج دنیا میں اسلام کا افتخار آمیز نام ونشان نہ ہوتا۔
انقلاب کے شروع میں دقیق مطالعے کے بعد سامراج اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ایرانی قوم پر اس انقلاب کے ذریعے اسلام کو عظمت عطا کرنے کی پاداش میں سخت دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے، تاکہ اپنے خیال خام کے تحت، ایرانی قوم کو انقلاب لانے کی سزا دے سکے اور اس قوم کی حالت، دیگر ملکوں کے لئے عبرت بن جائے۔ جنگ شروع ہوئی تو دنیائے کفر و استکبار کی تمام قوتیں، جنگ شروع کرنے والی حکومت کی پشت پر آ گئیں۔ ان کا اٹل فیصلہ یہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ کو ختم کر دیں۔ لیکن خداوند عالم کا ارادہ اس کے برعکس تھا۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ شیاطین کے ارادوں پر خدا کا ارادہ غالب آتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مومنین راہ خدا میں فداکاری کریں۔
اگر یہ فداکاریاں نہ ہوتیں اور اگر ہماری مسلح افواج، فوج، سپاہ پاسداران انقلاب، پولیس فورس اور عوامی رضاکار فورس بسیج میدان میں نہ آتیں اور بہادری کے ساتھ دفاع اور فداکاری نہ کرتیں، تو دشمن جو چاہتا تھا وہ ہو جاتا۔ خدا کا ارادہ آپ فرزندان (ملک و قوم ) شہیدوں، اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور جانبازوں، دشمن کی قید کی صعوبتیں برداشت کرنے والے سپاہیوں اور ان غازیوں کے عمل کے پیکر میں پورا ہوا جنہوں نے فداکاری کی اور الحمد للہ صحیح و سالم رہے، ان کے عمل میں ارادہ الہی مجسم اور پورا ہوا۔
آج صرف ایران، اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی قوم کی عفت، شرف اور ناموس ہی ان عزیزوں کی فداکاریوں کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ پوری دنیائے اسلام ان فداکاریوں کی ممنون احسان ہے۔ اگر آج دنیا میں اسلام اس حیثیت میں ہے کہ اسلامی ملکوں میں عوام، نوجوانوں اور روشنفکر طبقے کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے تو یہ انہی فداکارویوں کا نتیجہ ہے۔ اگر آج یہ دیکھا جا رہا ہے کہ الحمد للہ ایران اور اسلامی جمہوریہ دنیا میں سرافراز اور محترم ہے، ملک کی تعمیر کا کام معمول کے مطابق ہو رہا ہے اور ایرانی قوم روز افزوں عزت و سعادت کی سمت میں حرکت کر رہی ہے تو یہ بھی انہی فداکاریوں کا نتیجہ ہے۔ بنابریں ایرانی قوم کو ان عظیم یادوں کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے اور شہیدوں کے پسماندگان کو بھی اپنے عزیز شہیدوں کے خون کے احترام میں اسی عزت نفس، اسی فداکاری اور اسی ایمان کو متجلی کرنا چاہئے۔
ایک نکتہ پولیس فورس کے اراکین کی موجودگی کی مناسبت سے عرض کروں گا۔ آج ہماری پولیس فورس نئے مرحلے میں ہے۔ آج ہماری پولیس فورس کو تین اہم چیزوں کا مظہر ہونا چاہئے۔ اول؛ دینداری اور جو بھی دینداری کا تقاضا ہے جیسے عفت اور اچھا اور اسلامی اخلاق۔ دوم؛ طاقت و اقتدار، ہماری پولیس فورس کو طاقتور ہونا چاہئے۔ پورے ملک میں ایک پولیس فورس ہے اور اس کے کندھوں پر اہم ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے مادی و معنوی عوامل کے ساتھ ہی اس کے اندر طاقت و توانائی بھی رہنی چاہئے۔ تیسرے ؛ ہوشیاری اور ذہانت، پولیس فورس کی خصوصیت یہی ہوشیاری اور ذہانت ہے۔ دھوکہ نہ کھانا اور ہر جگہ موجود رہنا۔ ہماری پولیس فورس کو یہ تین خصوصیات، ایمان، طاقت و توانائی اور ہوشیاری کو اپنے اندر روز بروز بڑھانا چاہئے۔ لوگوں کو بھی چاہئے کہ اس کے اراکین کو اپنے بھائیوں اور نظم و نسق نیز امن و امان کے محا‌فظین کی حیثیت سے دیکھیں۔
اصلی بات جو آج میرے مد نظر ہے، وہ تکنیکی (1) شعبے سے تعلق رکھنے والے حضرات کی موجودگی کے پیش نظر یہ ہے کہ ایران کی تعمیر ایرانیوں کے ہاتھوں ہونی ہے۔ یہ واضح اور روشن فکر اور مشخص راہ و روش ہے۔ ایرانی قوم کی نیت اور ارادہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے ملک کی خود تعمیر کریں گے۔
جو ممالک علم و صنعت میں پیچھے رہ گئے ہیں، وہاں دو طرح کی فکر پائی جاتی ہے۔ ایک طرز فکر غلط اور قوم کی بدبختی کا باعث ہے اور ایک طرز فکر صحیح ہے۔ غلط طرز فکر وہی ہے جو ہمارے ملک میں سامراج کے کارندوں کی حکومت کے دور میں اس ملک پر حکمفرما تھا اور وہ یہ ہے کہ سائنس، صنعت، ٹکنالوجی اور تکنیکی امور غیر ملکیوں، یورپ اور مغرب والوں کے ذریعے انجام پانے چاہئیں، ان کے یہاں تیار ہوکے مصنوعات کی شکل میں ہمارے پاس آنے چاہئیں۔ ہمیں چاہئے کہ انہیں پیسہ اور تیل دیں اور ان کی مصنوعات استعمال کریں۔ یہ ایک طرز فکر تھا۔ افسوس کہ آج بھی سامراج کے زیر تسلط بعض ملکوں میں یہ طرز فکر پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم پیسہ دیتے ہیں، مغرب والے ہمارے لئے تیار کرتے ہیں۔ یہاں لاتے ہیں اور نصب کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ احمقانہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ایک طرح سے مغرب والوں پر حکومت چلانا ہے کہ ہمارے پاس پیسہ ہے اس لئے وہ آتے ہیں اور ہمارے لئے تیار کرتے ہیں۔
آج یہ طرز فکر پایا جاتا ہے۔ ماضی میں ہمارے ملک میں بھی یہ طر‌ز تفکر پایا جاتا تھا۔ ظالم شاہی حکومت کے دور میں ملک کے فیصلے کرنے والوں میں یہ طرز فکر تھا۔ ہم نے بھی یہ بات ان کے بعض عوامل کی زبان سے سنی تھی۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس فکر میں نہیں تھے کہ کارخانے بھی ملک میں لگائیں۔ نہیں، لیکن وہ کارخانے بھی غیر ملکیوں کے اختیار میں تھے۔ مینجمنٹ باہر والوں کا تھا۔ ایران میں اسٹیل مل لگائی گئی لیکن غیر کے پاس رہی، مینجمنٹ ان کا رہا حتی مالکیت بھی انہی کی تھی۔
انقلاب کامیاب ہوا تو ملک کے اہم کارخانوں سے بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی یہاں سے گئے۔ ان کا کام اس ملک کے عوام کو علم اور ٹکنالوجی سکھانا نہیں تھا۔ ان کا کام یہ تھا کہ ایک بڑے مالک اور صنعتکار کی حیثیت سے آئیں، اس ملک سے اپنے لئے کچھ ماتحت منتخب کریں، تاکہ اس ملک کا سرمایہ بھی لے جائیں اور ملک کی صنعت کی کنجی بھی اپنے پاس رکھیں۔ اس لئے آپ ملک کے صنعتی نقشے کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مغرب والوں، امریکیوں اور یورپ والوں نے یہ نقشہ اس طرح تیار کیا تھا کہ اگر اس مملکت سے چلے گئے اور اس ملک کے دروازے ان کے لئے بند ہو گئے تو ایرانی خود صنعت چلانے سے عاجز رہیں۔ یعنی اس ملک کی صنعت میں جان بوجھ کر ایسی پیچیدگی پیدا کی گئی تھی کہ یہ قوم کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایرانی ہمیشہ ان کے محتاج رہیں۔
یہ طرزتفکر یونیورسٹیوں میں بھی تھا۔ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے علوم کا نصاب بھی اسی طرح تیار کرتے تھے کہ ہمارے انجینیئر موجد اور خلاق نہ ہو سکیں۔ یہ وہ کام ہے جو انہوں نے اس دور میں کیا ہے اور ان کے اس کام کے برے نتائج کا مدتوں ہمیں سامنا رہا ہے اور شاید آئندہ کچھ عرصے تک بھی رہے۔
دوسرا طرزفکر صحیح ہے۔ صحیح طرز فکر یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ہم سائنس، ٹکنالوجی اور صنعت ان ملکوں سے لیں جن کے پاس ہے، لیکن ان کو ہم خود چلائیں گے۔ ہم خود صنعت کا انتخاب کریں گے۔ جو ملک کے لئے ضروری ہے وہ لائیں گے۔ خود بنائیں گے۔ انسان کو چاہئے کہ علم جس کے پاس بھی اس سے سیکھے ۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس لئے سیکھیں کہ ان کی نوکری کریں۔ مغرب والے ایرانی قوم اور دیگر تمام مسلم اقوام سے یہ چاہتے ہیں۔
ہمیں علم اس لئے سیکھنا چاہئے کہ اپنے ملک کی تعمیر خود کریں۔ ہماری قوم میں استعداد اور خلاقیت کا جذبہ بہت ہے۔ یہ وہی قوم ہے کہ چند صدیوں پہلے تک دنیا میں مشعل علم اس کے ہاتھ میں تھی۔ جہاں تک امکان کی بات ہے تو علمی توانائی اوراستعداد میں ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہم علم و صنعت کے سفر میں پیچھے کیوں رہیں کہ ہمارے لئے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی غیر لوگ بنائیں؟
ظالم شاہی دور میں اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ ایرانی انجینیئر اس ہوائی جہاز کی جس کا پیسہ دیا جا چکا ہے اور غیروں سے خرید لیا گیا ہے، مرمت کرے یا اس کے نزدیک جائے۔ تاکہ اس کے اسرار سے آگاہ نہ ہو سکے۔ یہ قوم کے ساتھ بہت بڑا ظلم تھا۔
آج حالات بہت بدل گئے ہیں۔ انقلاب کی برکت سے ایرانی قوم، علم و صنعت، اپنی استعداد پر بھروسے اور صنعتی زندگی خود چلانے کے نقطہ نگاہ سے ماضی سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ ہمارے بہت سے جوانوں نے، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی ، صنعت میں، میڈیکل کے شعبے میں اور مختلف سائنسی شعبوں میں اعلا مدارج طے کر لئے ہیں اور نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ایرانی قوم ان میں سے بعض کو جانتی ہے اور بعض کو مستقبل میں جب کام پورے ہو جائیں گے تب جان لے گی اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی۔
قوم نے ترقی کی ہے۔ لیکن خود انحصاری کی یہ روش جاری رہنی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ مختلف شعبوں میں وسوسہ پیدا ہو کہ غیر ملکیوں کو سونپ دیئے جائیں۔ قوم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اپنی ضرورتوں کو صرف وہ خود سمجھ سکتی اور برطرف کر سکتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دوسروں کے علم اور صنعتی تجربات سے استفادہ نہ کیا جائے۔ نہیں، استفادہ کیا جائے لیکن ہمیں خود بھی کوشش کرنی چاہئے۔
علم کسی شخص یا قوم کی بلا شرکت غیرے ملکیت نہیں ہے۔ علم بشریت سے تعلق رکھتا ہے اور اقوام کے درمیان ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ کسی زمانے میں آج کا متمدن یورپ جہالت میں غرق تھا۔ اس زمانے میں بڑے سائنسداں مسلمان ہوا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے یورپ والوں کو علم دیا۔ یہ وہ بات ہے جو خود انہوں نے کہی ہے اور اب بھی کہتے ہیں۔ لکھا ہے اور لکھتے ہیں۔ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو لوگوں کو معلوم نہ ہو اور ہم دعوا کریں۔ کبھی علم ایشیا میں تھا۔ کبھی یورپ میں ہے اور کبھی کہیں اور۔ علم کا تعلق پوری بشریت سے ہے۔ علم ایسی چیز نہیں ہے کہ کوئی قوم یہ کہے کہ یہ ہمارا ہے اور بشریت کا نہیں ہے۔ نہیں، علم بشریت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمیں جہاں بھی علم نظر آئے گا ہم اسے حاصل کریں گے۔
ہمارے پیغمبر نے چودہ سو سال پہلے فرمایا ہے کہ اطلبوا العلم ولو بالصین (2) اگر علم دور ترین جگہ پر بھی ہو تو جاؤ اور سیکھو۔ ان کے دانشوروں سے بھی استفادہ کریں، علم و صنعت میں ان سے استفادہ کریں۔ علم و صنعت میں دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں لیکن خود بھی سیکھنے اور بنانے کی کوشش کریں۔
ہمارے یہ نوجوان جو آج سائنس و ٹکنالوجی اور صعنت و تکنیک کے مراکز میں ہیں، جان لیں کہ انہیں ایران کی تعمیر کرنی ہے۔ ایک وسیع تر نقطۂ نگاہ سے پوری اسلامی دنیا کو مد نظر رکھیں۔ اسلامی دنیا اتنی کمزور اور محتاج کیوں ہو؟ ہر چیز دشمنوں کے در سے گدائی کرکے کیوں حاصل کرے؟ آج بعض پیسے والے اسلامی ممالک پیسے دیتے ہیں اور پھل اور سبزیاں بھی یورپ سے ہوائی جہاز کے ذریعے لاتے ہیں۔ مشینیں وغیرہ اپنی جگہ پر، بندرگاہیں بنانے کا کام اپنی جگہ پر، تیل وغیرہ کے ذخائر کا پتہ لگانے کا کام اپنی جگہ پر، اس طرح کیوں ہو؟ امت اسلامی کے پاس کمی کس چیز کی ہے؟
آج دنیا میں ایک ارب سے زائد مسلمان ہیں اور وہ بھی ان اہم اور حساس ملکوں میں جو ہم مسلمانوں کے پاس ہیں۔ آج دنیا کا بڑا حصہ فرزندان اسلام کے قدموں کے نیـچے ہے۔ ہمارے پاس اتنے مالا مال ذخائر ہیں، ایسی جغرافیائی پوزیشن ہے۔ کیا پھر بھی ان ملکوں پر امریکا برطانیہ اور ایسی حکومتوں کی حکمرانی ہو؟ مسلمانوں کو بیدار ہونا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ ایک کنبے کی طرح ایک دوسرے کے علم و صنعت، ذخائر اور پیسے سے استفادہ کریں اور اپنے عالمی دشمن کے مقابلے میں ایک محاذ تشکیل دیں۔
یہ مسلمانوں کی آج کیا حالت ہے؟ خاص طور آج جب امریکا یہ سمجھ رہا ہے کہ دنیا اس کی ہے۔ البتہ یہ تصور احمقانہ ہے۔ لیکن امریکی حکام میں یہ تصور پایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ان کا حریف، سوویت یونین تھا اور اس کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ وہ کمزور اور ذلیل و خوار ہو گیا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب دنیا ان کی ہے۔ گویا دنیا انہیں دونوں حریفوں کی تھی کہ ایک حریف شکست کھا گیا ہے تو اس کا حصہ بھی اس دوسرے حریف کا ہو گيا اور اب پوری دنیا اس کی ہو گئی۔ یہ غلط منطق کس نے انسانی فطرت سے بے خبر ان کم عقل حکام کے ذہنوں میں ڈال دی ہے۔ انسان آزاد ہیں۔ انسان اور اقوام آزاد و خود مختار ہیں۔ دنیا کے مسائل کا تم سے کیا تعلق ہے؟ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا کی ہر جگہ ان کی ہے۔
ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی واقعہ ہوا، کوئی اختلاف ہوا، کوئی ایسی بات ہوئی جس میں انہیں پیسہ نظر آیا تو فورا وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ جیسے ماضی میں یہ محلے کے دادا اور غنڈے ہوتے تھے، میاں بیوی میں لڑائی ہو جاۓ تو وہاں بھی غنڈہ ٹیکس لینے پہنچ جاتے تھے۔ تم سے کیا مطلب ہے؟ خود کو دنیا کا کوتوال سمجھتے ہیں۔ تم کون ہو؟ تمہیں اپنی طاقت کا گھمنڈ اس لئے ہے کہ دنیا کی بعض اقوام اور حکومتیں اپنی طاقت و قوت کو سمجھنے اور محسوس کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ورنہ اگر مسلم اقوام یہ سمجھتیں کہ کتنی طاقتور ہیں اور اپنی طاقت سے کام لیتیں تو تم دنیا میں اس طرح کب اکڑتے پھر سکتے تھے؟
اس علاقے کے غاصب، تشدد پسند، بدخو اور جارح اسرائیل کی پشت پناہی میں کھڑے ہیں تاکہ فلسطینیوں کا حق پوری طرح پامال کر دیں۔ یہ اسلامی اقوام ان زیادتیوں کے مقابلے میں کب اٹھیں گی؟ ایک نام کی تکرار کی، انہیں کھینچ کے وہاں لے گئے ، ساتھ میں بٹھایا، بیٹھے اور دستخط کرکے ایک قوم کے حقوق کو پامال کر دیا۔ (3) مسلمان جتنا پیچھے ہٹیں گے اس خبیث اور ذلیل دشمن کی جرئتیں اتنی ہی بڑھیں گی۔
دیکھئے اس وقت جنوبی لبنان میں کیا کر رہے ہیں؟ بہت کم ہفتے بلکہ شاید بہت کم دن ایسے گزرتے ہوں گے جب اس علاقے پر بمباری اور جنوبی لبنان کے دیہی باشندوں کی ایک تعداد کو بغیر کسی جرم کے بلا وجہ قتل نہ کرتے ہوں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مرگئی ہیں۔ ایک لفظ ان کے منہ سے نہیں نکلتا ۔ کوئی دم نہیں مارتا۔ لیکن ان دنوں اگر چار روسی یہودیوں کو سوویت یونین سے اسرائیل جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی تو پوری دنیا میں شور مچاتے تھے کہ کیوں روکتے ہو۔ ایک روسی باشندہ حکومت اسرائیل کے زیر سایہ رہنا چاہتا ہے، سوویت یونین کی حکومت اس کو کیوں روکتی ہے۔ دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ، البتہ ذرائع ابلاغ خود صیہونیوں سے وابستہ ہیں ہنگامہ کھڑا کر دیتے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جو انسانی حقوق کے دفاع کا دعوا کرتی ہیں، ان کا ساتھ دیتی تھیں، آج وہ کہاں مرگئی ہیں؟ آج کیوں خاموش ہیں؟
فلسطینی قوم کا قتل عام کر رہے ہیں۔ لبنانی قوم کا قتل عام کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی ایک لفظ نہیں بولتا۔ البتہ ہمیں بھی ان سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ کیونکہ دشمن سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ یہ اسلام، اسلامی اقوام اور ہر اس چیز کے دشمن ہیں جو ان کی زیادتی کو روکے۔ ہمیں ان سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ ہمیں اپنے آپ سے اور اسلامی اقوام سے توقع رکھنی چاہئے۔ اسلامی اقوام کیوں بیدار نہیں ہو رہی ہیں؟ اسلامی حکومتیں بالخصوص بعض عرب حکومتیں ہوش میں کیوں نہیں آ رہی ہیں؟
ایرانی قوم کو اپنی حیثیت کی قدر کرنی چاہئے۔ آپ کی قوم واحد قوم ہے جو بلند آواز اور پوری قوت سے فلسطین اور اسلام کی حمایت کے نعرے لگاتی ہے اور اسرائیل، امریکا، سامراج اور غنڈہ گردی کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ اسلام کی برکت سے ہے۔ اسلام نے آپ کو زندہ، بیدار اور آزاد کر دیا ہے۔ آپ کسی کے پرچم کے زیر سایہ نہیں ہیں۔ دنیا کی طاقتیں آپ سے نہیں کہہ سکتیں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ آپ کا جو بھی فریضہ ہے آپ وہی کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی نعمت اور افتخار ہے۔ اس وقت مسلم اقوام کے دل خون کے آنسو رہے ہیں لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتیں۔ البتہ میرے خیال میں ہمت بھی نہیں کر رہی ہیں۔
اسلام کی حفاظت کریں۔ اسلامی احکام، اسلامی اصولوں، اسلامی روش اور اسلامی نظم و نسق کی حفاظت کریں۔ اپنے درمیان اسلامی اتحاد کی پوری قوت سے حفاظت کریں۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ یہ خبیث دشمن جن کے ناموں کا میں نے ذکر کیا، آپ پر لالچ کی نظر رکھ سکیں اور آپ کے درمیان اختلاف ڈال سکیں۔ امید ہے کہ خدا کے فضل سے آپ کا اتحاد و یک جہتی ایمان اور آپ کی طاقت و قوت اسلامی دنیا کو بھی بیدار کرے گی۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ حضرت ولی عصر ( امام زمانہ ارواحنا فداہ) کی پاکیزہ دعائیں ہمارے شامل حال کرے۔
ایک روایت کے مطابق آئندہ ہفتے منگل کے دن، تین جمادی الثانی کو سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا یوم شہادت ہے۔ میں ایرانی قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ اس دن اپنی دکانوں اور کاروبار کو بند کر دیں اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے اپنی عقیدت کا اظہار کریں۔ ان سرکاری اداروں اور کارخانوں سے جو خاص کام کرتے ہیں، کچھ نہیں کہوں گا، کاروباری افراد، دکاندار، بازاروں اور سڑکوں پر کام کرنے والے اس کا خیال کریں۔ انشاء اللہ منگل کو کام کی چھٹی کریں تاکہ حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علیہا ) کی برکات سے بہرہ مند ہو سکیں۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

--------------------------------------------------------------------------
1- ایران خودرو آٹوموبائیل کمپنی کے کارکن۔
2- وسائل الشیعہ ج 27 ص 27
3- میڈرڈ کانفرنس، میڈرڈ کانفرنس میں اسرائیل اور امریکا کی خباثت آمیز سازشوں کے مقابلے کے لئے مسلم اقوام کے نام ( مورخہ 25-7-1370 مطابق 16-10-1991 ) کے پیغام کے حاشیے کو دیکھیں۔