تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے۔
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلے میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو عید (نوروز) کی مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ویسے عید کو کئي دن، پندرہ سولہ دن گزر چکے ہیں لیکن عید نوروز تو در حقیقت عید بہار ہے۔ سرکاری تعطیلات اور رسومات وغیرہ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو عید کے یہ ایام در حقیقت (اب بھی) جاری ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ نیا سال تمام ملت ایران کے لئے بالخصوص مختلف محکموں، مقننہ، عدلیہ اور مجریہ میں عوام کے خدمت گزار افراد کے لئے با برکت سال ہوگا۔ سال کے مبارک ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ اللہ تعالی آپ حضرات کے ذریعے سے اس ملک پر، اس سرزمین پر، ان با ایمان عوام پر اپنی برکتیں نازل فرمائے۔ البتہ اس کے لئے میری اور آپ کی جانب سے با ہدف اور پرجوش سعی و محنت ضروری ہے۔ ہم محنت کریں اور بفضل الہی اپنے وجود کو عوام کے لئے منفعت بخش بنائیں۔
ہمارے اور آپ کے فرائض منصبی کے ایام کے ایک ایک لمحے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ محاسبہ تو سب کا ہوگا لیکن جس شخص کے دوش پر کوئی بڑا بوجھ نہیں ہے مثلا وہ شخص جس کے پاس زیادہ دولت نہیں ہے، اگر اس کا حساب لیا جائے گا تو وہ انگلیوں پر گن کر اپنا حساب دے دیگا اور اس کی گلو خلاصی ہو جائے گی۔ جس کے پاس زیادہ دولت ہے، کوئی سرمایہ ہے، آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں، ظاہر ہے جب اس سے حساب لیا جائے گا تو ایک دو جملوں میں یہ محاسبہ ختم نہیں ہوگا۔ اگر محاسبہ کرنے والا بہت باریک بیں ہو اور پائی پائی کا حساب لے، سخت گیر ہو، انصاف کے تقاضوں پر عمل کرے تو ظاہر ہے کہ (حساب) بہت مشکل ہوگا۔ اس شخص کو ایک ایک قدم کا جواب دینا ہوگا کہ یہ رقم فلاں جگہ سے حاصل ہوئی، اسے ہم نے فلاں جگہ پر خرچ کیا۔ اس مقصد کے تحت حاصل کیا اور فلاں مقصد سے خرچ کیا۔ منصبی فرائض کا بھی یہی عالم ہے۔ آپ حضرات الحمد للہ بظاہر تو مالدار اور دولتمند لوگ نہیں ہیں لیکن آپ کے منصبی فرائض کا بوجھ دولت کے بوجھ سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم سے سوال کریں گے کہ فلاں قضیئے میں آپ کی ذمہ داری کیا تھی؟ آپ کو اپنے فرائض کی تمام تفصیلات اور فروعات کا علم ہونا چاہئے۔ اگر ہم اس سے واقف نہ ہوں تو ہم سے سوال ہوگا کہ آپ نے واقفیت کیوں نہیں حاصل کی؟ آپ نے کیسے غفلت برتی؟ اور اگر ہمیں پوری واقفیت رہی تو پھر سوال ہوگا کہ آپ نے ان فرائض کو کیسے ادا کیا؟ وضاحت کرنے، بیان کرنے یا عذر پیش کرنے میں یقینا وقت لگے گا۔
ہم سب کے سب پر کچھ نہ کچھ فرائض باقی ضرور ہیں۔ پوری انسانیت، ساری خلقت محاسبہ الہی کی کسوٹی کے مطابق دیکھا جائے تو کسی نہ کسی فریضے کی ادائیگی میں ناکام ضرور رہی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میرے اعمال مکمل ہیں۔ انبیاء تک استغفار کرتے ہیں۔ انبیائے الہی بھی آخری لمحات تک توبہ و استغفار میں مصروف نظر آتے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں؛ وعدلک و مھلکی تیرا عدل تو ہماری نابودی کا سامان فراہم کر دے گا، اسی لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم سے مہربانی کا برتاؤ فرما۔ ورنہ اگر عدل کا سوال آ جائے اور باریکی کے ساتھ حساب کیا جائے اور ہمارے اعمال کا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو تباہی رکھی ہے۔ ہمیں اللہ تعالی سے فضل و کرم کی دعا کرنی چاہئے، اس سے چشم پوشی کی دعا کرنا چاہئے، درگزر کی دعا کرنا چاہئے۔
البتہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ بات بھی عرض کی جا سکتی ہے کہ میں نے اپنی طاقت بھر محنت کی۔ اگر ہم یہ کہہ سکیں تو بھی بہت اچھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ سکے، جہاں تک ہمارے بس میں تھا وہاں تک محنت کی اب اگر کمی بیشی ہو گئی، غفلت و کوتاہی ہو گئی تو ہمیں معاف فرما، اس طرح جان بچ سکتی ہے۔ تو ہمیں چاہئے کہ اپنی پوری طاقت و توانائی اور استعداد و صلاحیت کو بروئے کار لانے پر کمربستہ ہو جائیں۔ البتہ ہر انسان میں کچھ خامیاں ہوتی ہیں، مسائل ہوتے ہیں، کمیاں ہوتی ہیں، ان چیزوں کو اللہ تعالی کے سپرد کر دیں لیکن اپنے طور پر پوری محنت کریں، جو بھی توانائي ہے اس سے دریغ نہ کریں۔
ہم نے ( نئے سال کا نام معین کرنے کے تعلق سے) عرض کیا کہ دوہرا عزم اور دگنا کام۔ ہماری مراد صرف دگنا نہیں ہے۔ اگر آپ نے عزم سے کام لیتے ہوئے اسے دس برابر تک پہنچا دیا تو بالکل مناسب ہے۔ سب سے اہم چیز معاشرے میں موجود صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں۔ ہم تمام شعبوں میں ایک ایسی معدن کی مانند ہیں جسے ہاتھ نہیں لگایا گيا ہے یا پھر اس کے اندر کی نصف چیزیں ابھی باہر نکالی گئی ہیں۔ ماہرین اور متعلقہ افراد معاشی، فنی اور سائنسی تمام شعبوں کے سلسلے میں ہم سے کہتے ہیں کہ ملک کی صلاحیت اور توانائی بے مثال ہے۔ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ جو معاشرے کے کسی بھی اہم شعبے میں مصروف کار ہیں اور امور سے آگاہی رکھتے ہیں، وہ جب اپنے شعبے کی رپورٹ پیش کرتے ہیں جب موازنہ کرتے ہیں۔ جب ہمارا، ہمارے ملک کا اور ہماری قوم کا دوسرے بہت سے ممالک سے موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہماری صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ معاشی شعبے میں بھی ملک کی صلاحیت و توانائی بہت زیادہ ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی ہماری صلاحیتیں واقعی حیرت انگیز ہیں۔ ذرا سی رفتار تیز کی، ذرا سا سنجیدہ ہو گئے، ذرا سا اپنے اوپر دباؤ بڑھایا، تھوڑی سی دلجمعی دکھائي تو اچانک انسان محسوس کرتا ہے کہ اس گلشن میں نئے پھول کھلنے لگے ہیں، غنچے مسکرانے لگے ہیں۔ انسان کو اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا، تصور بھی نہیں کرتا تھا لیکن اچانک کیا نظر آتا ہے کہ سب کچھ ہو رہا ہے، انجام پا رہا ہے۔
مختلف ثقافتی شعبوں میں انسان جب دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ پوری آمادگی ہے، صلاحیتیں موجزن ہیں، ماہر افرادی قوت فراواں ہے۔ ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ ملک جس انداز سے آگے بڑھ رہا ہے وہ بہت حیرت انگیز ہے۔ بڑے کارنامے انجام دئے جا سکتے ہیں، ملک میں اس کی صلاحیت اور توانائی بدرجہ اتم موجود ہے۔
مختلف شعبوں کی یہ صلاحیت اور یہ توانائی ہمارے اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم ان صلاحیتوں کی شناخت نہ کر پائیں، ہم سے کوتاہی اور غفلت سرزد ہو یا اگر شناخت کر لی لیکن اسے بروئے کار لانے کے لئے ہمت سے کام نہ لیا، کوتاہی کی یا یہ کہ ایک میانہ درجے کی پیشرفت پر اکتفا کر لیا، کوتاہی کی، (تو ہم اس کے لئے جواب دہ ہوں گے) کیونکہ ہمیں تو چوٹی پر پہنچنا ہے، بالکل کسی اسپورٹ مین کی طرح جو جسمانی لحاظ سے پوری طرح فٹ ہے۔ اس کی جسمانی توانائی بالکل مناسب ہے، اس کے سامنے اسپورٹ کا میدان بھی ہے، ایسے میں وہ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ہر روز آدھا گھنٹہ یا بیس منٹ کسرت کر لیا کروں گا۔ اسے چیمپین شپ کے لئے آگے بڑھنا ہوگا، اسے اپنی نگاہ چوٹی پر مرکوز کرنی ہوگی۔
اخروی کاموں میں بھی یہی صورت حال ہے، روحانی و معنوی کاموں میں بھی یہی چیز ہے، توحیدی کاموں میں بھی ایسا ہی ہے، کبھی بھی کم پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ ثواب دارین کے حصول میں بھی یہی ہے کہ کبھی کم پر قناعت نہ کی جائے۔ اگر ہم نے بلند ہمتی اور دوہرے عزم سے کام نہ لیا تو ہم نے گویا زیادتی کی ہے، کوتاہی کی ہے۔ یہ کوتاہی زیادتی ہے۔ خود اپنی ذات کے ساتھ بھی، کیونکہ ہمیں مواخذہ الہی کا سامنا کرنا ہوگا اور ان لوگوں کے ساتھ بھی جو ان صلاحیتوں اور توانائيوں سے استفادہ کرنے اور بہرہ مند ہونے کے حقدار ہیں۔ اگر وہ بہرہ مند نہ ہو سکے تو یہ ہمارا قصور ہے۔ ان باتوں کا کہنا آسان ہوتا ہے، اس پر عمل کرنا، اس سمت میں قدم بڑھانا دشوار ہے، اس کے لئے بلند ہمتی کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ یقین بھی رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے گا۔ جو شخص بھی کسی ہدف کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی توانائیوں کو بروئے کار لائے، اللہ تعالی اس کی مدد کرےگا۔ کوئی دنیوی کام ہو تو بھی اللہ مدد کرےگا؛ کلا نمد ھؤلاء و ھؤلاء(1) خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص دنیا کے حصول کے لئے کوشاں ہے اللہ اس کی بھی مدد کرتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر وہ دنیا میں غرق ہوکر رہ گئے تو آخرت میں انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں جو آخرت کے طالب ہیں اور ان کی بھی مدد کرتے ہیں جو دنیا کے خواہشمند ہیں۔ آخرت کی طلب سے مراد صرف نماز، روزہ، دعا و ذکر اور توسل و مناجات نہیں ہے۔ یہ سب (آخرت میں کامیابی کے) ذریعے اور وسیلے ہیں جبکہ انسانوں کی خدمت، بر وقت اس جگہ پر جہاں ضرورت ہے حاضر رہنا یہ سب بھی خدا پسندانہ اعمال ہیں۔
آپ دیکھئے! صدر اسلام میں، البتہ ہمارے عقیدے اور ہماری ثقافت کے مطابق، جو افراد ممدوح قرار پائے ہیں وہ اپنی نمازوں اور عبادتوں کے باعث سراہے جانے سے بڑھ کر اپنے سیاسی موقف، اپنے سماجی موقف اور اپنی مجاہدتوں کے باعث مدح و ثنا کے حقدار قرار پائے۔ ہم جناب ابوذر کی، عمار یاسر کی، مقداد کی، میثم تمار کی اور مالک اشتر کی تعریف ان کی عبادتوں کے باعث کم کرتے ہیں، تاریخ انہیں ان کے اس موقف سے پہچانتی ہے جو تقدیر ساز اور فیصلہ کن تھے، جس نے معاشرے کی کلی اور عمومی فضا کی اصلاح کی، اسے نئي شکل دی اور اس کو قائم رکھنے میں مدد کی۔ جو لوگ مذمت کے مستحق قرار پائے ان کی بھی یہی صورت حال ہے۔ بہت سے بزرگان جن کی مذمت کی گئی، شرابخوری کی وجہ سے نہیں کی گئی، بے نمازی ہونے کی وجہ سے نہیں کی گئی، ان مقامات پر عدم موجودگی کی بنا پر کی گئی جہاں ان کا ہونا لازمی تھا۔ تاریخ نی اسی انداز سے یہ چیزیں اپنے دامن میں محفوظ کی ہیں۔ آپ نظر ڈالئے، دیکھئے۔ بنابریں کار خدا، روحانی عمل اور عبادت نماز پڑھنے میں محدود نہیں ہے۔ اگرچہ نماز کی اہمیت کوئی کم نہیں ہے، نماز ان تمام اعمال کے لئے بنیاد کا درجہ رکھتی ہے، تلاوت کلام پاک، تدبر در قرآن، بارگاہ الہی میں تضرع، دعاہائے ماثورہ کو پڑھنا، صحیفہ سجادیہ، دعائے امام حسین، دعائے کمیل یا دوسری دعائیں جو موجود ہیں، یہ سب مدد کرنے والی ہیں۔ وجود انسانی کی مشین کو رواں بنانے والی ہیں چنانچہ اگر آپ نے خدا سے انس حاصل کیا اور اپنے اور اللہ تعالی کے رابطے کو بہتر بنایا تو یہ اعمال آپ آسانی سے انجام دیں گے، رغبت کے ساتھ انجام دیں گے، زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ انجام کو پہنچائیں گے۔ جو شخص اللہ تعالی کے لئے کوئی کام کرنا چاہتا ہے اللہ تعالی اس کی مدد کرتا ہے۔ کارہائے دنیا کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ جن لوگوں کا نصب العین دنیا ہے، دنیوی مقام و مرتبہ ہے، مادی عیش و عشرت ہے، مال و منال ہے، جنسی لذت اور اس جیسی دیگر چیزیں ہیں جس کی مثالیں آپ کو دنیا میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں، ایسے لوگ بھی جب اپنے ہدف کے لئے محنت کرتے ہیں تو انہیں بھی کامیابی ملتی ہے۔ کامیابی یوں ملتی ہے کہ اللہ کے خلق کردہ وسائل انہیں حاصل ہوتے ہیں۔ وہ کمر ہمت باندھتے ہیں، اسی راہ پر آگے بڑھتے ہیں، ان کا ہدف صرف اور صرف مادی چیزیں ہیں تو وہ اپنے اسی ہدف کو حاصل کرتے ہیں لیکن چونکہ انہوں نے حقیقی پہلو یعنی روحانی پہلو، معنوی پہلو، الہی پہلو اور اخروی پہلو کو نظر انداز کیا ہے اس لئے وہ شدید خسارہ اٹھانے والوں میں قرار پائے ہیں۔ بہرحال انہوں نے جو ہدفت طے کیا ہے اس کی سمت میں پیش قدمی کرنے میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔
آپ خواتین و حضرات جو یہاں تشریف فرما ہیں، عہدہ داروں اور حکام کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو باتیں یہاں میں آپ سے عرض کر رہا ہوں یہ وہی باتیں ہیں جو آپ عوام سے کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک یاددہانی ہے۔ انسان کو یاد دہانی اور انتباہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ نتائج ایسے ہیں جو آپ کو صرف کسی بات کے جان لینے سے نہیں ملتے بلکہ اس بات کی بار بار ياد آوری سے حاصل ہوتے ہیں۔ بہت سی چیزیں ہیں جنہیں انسان جانتا ہے لیکن اسے مسلسل یاددہانی کی ضرورت رہتی ہے۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ ہم کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں، کیا ہدف ہے؟ ہدف، دنیوی بادشاہت نہیں ہے کہ ہم اس کی خاطر اپنے عظیم فرائض کو فراموش کر دیں اور اعلی اہداف کو پیروں تلے کچل دیں۔ ہدف لوگوں کے تعریفی جملے سننا نہیں ہے کہ ایک کرسی پر براجمان ہو جائيں، چار لوگ آئیں، جھک کر سلام کریں، فرمانبرداری کے لئے دست بستہ کھڑے رہیں۔ انسان کے لئے یہ چیزیں تو بہت معمولی ہیں۔ اصلی ہدف ہے فلاح و نجات۔ قد افلح المؤمنون (2) اس ہدف پر نگاہ مرکوز ہونی چاہئے۔ حقیقی زندگی کی فکر کرنی چاہئے۔ یہ حقیقی زندگی شروع ہونے والی ہے۔ جلدی یا کچھ تاخیر سے ہم سب کی حقیقی زندگی ہماری مادی موت اور جسمانی موت کے ساتھ ہی شروع ہونے والی ہے خواہ چند دنوں بعد، چند گھنٹوں بعد یا چند سال بعد۔ ہمیں اس دنیا کو آباد کرنا ہے۔ باقی چیزیں تو تمہید اور مقدمہ ہیں۔
یہاں پر تینوں اداروں (مقننہ، عدلیہ، مجریہ) کے حکام تشریف فرما ہیں۔ ایک اور اہم چیز امور کی انجام دہی میں آپ کی ہم آہنگی اور اتحاد ہے۔ خواہ فکر و نظر میں یگانگت نہ ہو، یہ ممکن بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی توقع رکھی جاتی ہے۔ نظریات اور افکار کا اختلاف بحث و محباثے پر منتج ہوتا ہے اور مباحثے سے نئے پہلوؤں کا انکشاف ہوتا ہے۔ لہذا ہماری یہ خواہش نہیں ہے کہ سب کے سب تمام امور میں یکسان فکر کریں۔ یہ چیز ممکن ہی نہیں ہے۔ ابتدائے خلقت بشر سے ہی انسانوں کا فکر و نظر اور فہم و ادراک کا اختلاف بشریت کی پیشرفت پر منتج ہوا ہے۔ اس اختلاف کے باوجود جو فکر و نظر میں پایا جاتا ہے، عمل میں اور حرکت میں ہم آہنگی لازمی ہے۔ اگر کوئی کارواں ہے اور کارواں کے افراد میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں، ان میں بحث و مباحثہ ہو رہا ہے، بات تکرار اور جدل تک کھنچ گئی ہے، علمی مباحثہ ہو رہا ہے، سیاسی مناظرہ ہو رہا ہے، روزمرہ کے گوناگوں مسائل کے سلسلے میں بحث ہو رہی ہے تو کوئي بات نہیں۔ وہ بحث کریں، اس میں کوئي مضائقہ نہیں ہے۔ اگر وہ کسی متفقہ نتیجے پر پہنچ گئے تو چہ بہتر اور اگر متفقہ نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو کوئی بات نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن سفر جاری رہنا چاہئے، اس میں خلل نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ بحث و تکرار اس کا باعث نہ بنے کہ جس سواری پر چل رہے ہیں وہی بیکار ہوکر رہ جائے اور آپ اپنی بحث میں مصروف رہیں۔ یا اگر کبھی کسی علمی اور فکری بحث میں کسی متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تو کہہ دیں کہ تم اس راستے سے جاؤ اور میں کسی دوسرے راستے سے جاتا ہوں۔ جی نہیں، ہم سب آگے بڑھ رہے ہیں، منزل اور مقصد معین ہے۔ تینوں محکموں کو اس انداز سے آگے بڑھنا ہے۔
عزیز دوستو! عزیز بھائیو اور بہنو! آپ تینوں اداروں میں مصروف کار ہیں۔ آپ بہت محتاط رہئے۔ حرکت میں ہم آہنگی، پیش قدمی میں تال میل اور بڑے فیصلوں میں یگانگت کو برقرار رکھنا چاہئے۔ یہ اختلافات بنیادی کاموں میں اختلافات پر منتج نہ ہوں۔ ہمارے سامنے اس وقت پانچواں (ترقیاتی) منصوبہ ہے۔ پانچویں منصوبے نے سب کے شانوں پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد کر دی ہیں۔ البتہ میدان عمل میں تو حکومت ہی ہے جو اجرائي ادارہ ہے لیکن مقننہ، عدلیہ اور اسی طرح ذیلی ادارے جو موجود ہیں سب کے سب ذمہ دار ہیں اور موثر واقع ہوتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ چل پڑے کہ قدم قدم پر ہم کہنے لگیں کہ اب ایسا ہو گیا ہے تو ٹھیک ہے ہم بھی تعاون نہیں کریں گے، تو ظاہر ہے کہ کام آگے نہیں بڑھے گا۔ آپ تعاون کیجئے، مدد کیجئے اور جو اجرائي میدان میں موجود ہے اس کے لئے سہولتیں اور وسائل فراہم کیجئے۔ آپ مفادات اور مصلحتوں کو یقینا پیش نظر رکھئے لیکن اجرائی امور کو آگے بڑھانے میں مدد کیجئے۔
میں تینوں محکموں کے درمیان تعاون پر خصوصی تاکید کرتا ہوں تاکہ ہم بفضل پروردگار منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ منصوبے کے اہداف بے حد اہم اہداف ہیں۔ البتہ اگر آپ دوہرے عزم سے کام لیں تو ان اہداف سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے، یہ ناممکن نہیں ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترقیاتی منصوبے کے اہداف کے لئے طے شدہ نظام الاقات کے مطابق ہم بعض شعبوں میں آگے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض شعبوں میں ہم کچھ پیچھے رہ گئے ہوں لیکن بعض شعبوں میں ہم یقینا طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق آگے ہیں، ہمیں کوئي مشکل نہیں ہے۔ بنابریں معینہ اہداف سے آگے جایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود کو آگے بڑھا سکیں، پیش قدمی کر سکیں، محنت کر سکیں۔ تو بلند ہمتی بہت ضروری چیز ہے۔
دنیوی امور میں بھی اور اخروی امور میں بھی محنت اور تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عزیز دوستو! شخصی اور ذاتی امور اور اللہ تعالی سے اپنے رابطے کے سلسلے میں بھی جہاں تک ممکن ہو عزم و عمل میں اضافہ کیجئے۔ یہ چیز بھی غفلت و فراموشی کی نذر نہ ہونے پائے۔ شخصی اور ذاتی امور بھی جو انسان اور اس کے خالق کے مابین ہوتے ہیں ان کی بھی بہت اہمیت ہے۔ اگر ہم ان چیزوں پر توجہ دیں اور ان سے انسیت پیدا کر لیں تو اللہ تعالی ہماری اور بھی مدد کرے گا، چنانچہ خدا وند عالم اب تک ہماری مدد کرتا رہا ہے۔
ثقافتی اور تعلیمی امور بھی بہت اہم ہیں، عمومی ثقافت بھی بہت اہم ہے۔ عوام کی عمومی زندگی میں دینی رنگ کا ہونا بہت اہم ہے۔ دینی ظاہر اور دینی چہرا جو انشاء اللہ اچھے باطن کا آئینہ ہوگا، بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ہمیں ان احباب کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہئے جنہوں نے نوروز کی تعطیلات میں بڑی محنت کی، پولیس سے لیکر ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے تک، اسپتالوں اور ہنگامی سروسز وغیرہ تک۔ گوناگوں اداروں نے بڑی خدمت کی تاکہ عوام آسودہ خاطر رہ سکیں۔ حکومتی محکموں میں اور دیگر اداروں میں بڑی اچھی کارکردگی رہی ہے۔ واقعی بعض نے بڑے عزم کا مظاہرہ کیا، کام کیا اور عوام کے لئے آسا‌ئش و نشاط اور سکون و سلامتی فراہم کی۔ ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہے۔
کتنی اچھی بات ہے کہ سرکاری ادارے، سرکاری تعطیلات کے ختم ہوتے ہی اپنا کام شروع کر دیں۔ خوشی کی بات ہے کہ بہتوں نے بڑی محنت کی، موجود رہے۔ فروردین ( ایرانی سال کے پہلے مہینے) کی شروعات سے ہی جب ہم چھٹیاں منا رہے تھے ہم نے دیکھا کہ بعض لوگ محنت و مشقت میں لگے ہوئے ہیں، بہت اچھے کام انجام پا رہے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو کار و عمل اور سعی و کوشش نیز میدان عمل میں حاضر رہنے کی عادت کی ترویج کی جائے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔ اس سے معاشرے کی حرکت و پیشرفت اور نشاط و جوش و جذبے میں مدد ملے گی۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی سب کو توفیق دے، آپ سب کی تائید و نصرت کرے۔ خدا کرے کہ سبسڈی کو منظم اور با ہدف بنانے کے منصوبے کو جس کے تعلق سے کچھ اتفاق رائے ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں، رو بہ عمل لایا جائے اور عوام آپ کی زحمتوں اور محنتوں کے ثمرات سے بہرہ مند ہو سکیں

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

(1) اسراء 20
(2) مؤمنون 1