قائد انقلاب اسلامی کا خطاب مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میری نظر میں ہمارے عزیز شہید سید عباس موسوی (1) کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، وہ کسی مجاہد فی سبیل اللہ کو نصیب ہونے والا بہترین انجام ہے کہا جا سکتا ہے۔ راہ خدا میں مجاہدت کرنے والے کے لئے اس سے بہتر کوئی چیز سوچی بھی نہیں جا سکتی۔ ہم بھی یہی آرزو رکھتے ہیں۔ مگر وہ کامیاب ہوگئے اور جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ ان کا فقدان ہمارے لئے یقینا ایک مصیبت ہے اور لبنان بالخصوص حزب اللہ کے لئے راہ خدا میں ایک عظیم قربانی ہے۔ سید عباس موسوی شہید ممتاز ہستی کے مالک تھے۔ ان کے اندر بہت اچھی خصوصیات یکجا مجتمع تھیں۔ دینداری، تقوا، متانت، ذہانت، شجاعت، سب ایک ساتھ (ان کے اندر پائی جاتی تھیں)۔ ہم نے لبنان میں ان کی فداکاری دیکھی ہے۔ ہم یہاں لبنان کے لئے ان کی فکرمندی اور جوش وخروش کو نزدیک سے محسوس کر چکے ہیں۔ میں لبنان کی خانہ جنگی کے سخت اور دشوار ایام کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ وہ یہاں ہمارے پاس آئے اور تقریبا سات گھنٹے تک ایک جلسے میں ہمارے ساتھ بیٹھے رہے کہ ہم کسی نتیجے تک پہنچ جائیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ کتنا پرجوش ہیں اور عوام نیز مجاہدین کے مسائل کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے، اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے اور اس مظلومیت پر جو انہوں نے برداشت کی، انہیں اور ان کے عزیزوں کو اجر جزیل عطا فرمائے۔ میں آقائے موسوی کے کنبے، عزیزوں، دوستوں، ان کے والدین، شریکہ حیات اور ان کے بچوں کو ان کی شہادت پر تعزیت اور مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
یہ ذمہ داری آج برادر عزیز آقائے سید حسن نصراللہ! (2) آپ کے کندھوں پر ہے۔ ہم آپ کو بھی اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے آپ کو چاہا ہے اور آپ کو لائق سمجھا ہے۔ اس حسن انتخاب پر خدا کا شکر گزار ہوں اور برادرانہ گزارش کرتاہوں کہ ذمہ داری کا بار بہت سنگین ہے۔ اگرچہ آپ الحمد للہ باصلاحیت اور ہر لحاظ سے آمادہ ہیں، لیکن اپنی آمادگی میں روز بروز اضافہ کریں۔ جیسا کہ اپ نے رپورٹ میں بتایا ہے، عوام نے اپنا جسم و جان آپ کے اختیار میں دے دیا ہے۔ اس لئے ذمہ داری اور بھی سنگین ہو گئی ہے۔ دشمن سنگدل اور وحشی ہے۔ تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، جہاد کو بنیاد سمجھنا چاہئے۔ دوسرے اس امر میں پوری احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ تیسرے لبنان کے پیچیدہ حالات میں ہوشیاری سے کام لیا جائے۔ جہاد میں عوام ہی بنیاد ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو سکے ان کا اعتماد حاصل کرنا چاہئے۔ آپ کے پروگراموں میں تعداد اور کیفیت کے لحاظ سے الحمد للہ جو فروغ ہے، اس کی ہم سو فیصد تائید کرتے ہیں۔
میری نظر میں آپ کے ذہن میں اہم ترین بات یہ ہونی چاہئے کہ خدا پر توکل کریں اور حقیقی معنوں میں اس سے نصرت طلب کریں اور اس سے مدد مانگیں۔ ہماری حقیقت عاجزی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس عاجزی کو پروردگار کی لامتناہی طاقت و قدرت سے متصل کر دیں تاکہ ناقابل شکست بن جائیں۔ میں آپ کی پاکیزگی اور طہارت سے واقف ہوں لیکن اس میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ خدا پر توجہ اور اس سے توسل بڑھائیں۔ نوافل بالخصوض نافلہ شب اہم ترین وسیلہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ خداوند عالم سورۂ مزمل میں اپنے پیغمبر سے کس طرح گفتگو کرتا ہے۔ خداوند عالم آنحضرت کو رات میں جاگنے اور آدھی رات میں گریہ و زاری کا حکم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ انّا سنلقی علیک قولا ثقیلا (3) البتہ آنحضرت کا قیام ہم جیسوں کے قیام سے مختلف ہے۔ فطری طور پر جو وزن آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کندھوں پر تھا وہ اس وزن سے جو ہمارے ضعیف و ناتواں کندھوں پر ہے، مختلف ہے۔ اسی تناسب سے ہم بھی چھوٹے اور کمزور ہیں اور اسی مناسبت سے ہمارے لئے مشق ضروری ہے۔ میں نے اپنے عظیم امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ) کی زندگی میں دیکھا ہے کہ جب کوئی نیا بوجھ آپ کے کندھوں پر آتا تھا تو آپ معنوی و قلبی اتصال کے ذریعے اپنی تقویت کرتے تھے۔ اواخر میں معمولا ماہ رمضان میں آپ کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے۔ میں رمضان کے بعد آپ کی زیارت کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ واضح طور پر آپ زیادہ نورانی ہو گئے ہیں۔ اسی نورانیت کی بنا پر آپ اپنی عمر کے آخری مہینوں تک پہاڑ کی طرح محکم اور ثابت قدم رہے۔ بڑھاپے کا سن معمولا انسان میں جسمانی اور روحانی کمزوری اور زوال کا زمانہ ہوتا ہے اور جوان ، جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے قوی ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ خود کو خدا وند عالم سے متصل کرے تاکہ اس کے اندر کسی اور شئے کا نفوذ نہ ہو سکے۔ بہرحال اس عظیم مجاہدت میں جو آپ کے سامنے ہے اور آپ کو اس کو جاری رکھنا ہے، میں معنوی پہلوؤں کی تقویت کو ضروری سمجھتا ہوں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عوام کا یہ جوش وجذبہ ، سچا جوش و جذبہ ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ سچا جوش وجذبہ کب تک خود سے باقی رہے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر چیز فرسودہ ہوجاتی ہے۔ لہذا آج جو ہے اور آپ کے اختیار میں ہے، اس سے ایک عظیم سرمائے کی حیثیت سے کام لیں۔ جو کچھ انجام پایا، یہ مجاہدت اور یہ استقامت و مزاحمت اچھی تھی، لیکن اس صورت حال اور کیفیت کو زیادہ محکم اور مضبوط تنظیم، اتحاد اور ناقابل اجتناب اصولوں کی بنیاد رکھنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔
ہم آپ کے لئے دعا گو ہیں اور امید کرتے ہیں کہ خداوند عالم آپ کے حق میں ، لبنان کے عوام کے حق میں اور عام مسلمانوں کے حق میں ہماری دعاؤں کو مستجاب کرے۔ آپ سے بھی دعا کی التجا ہے۔ آپ بھی ہمارے لئے دعا کیجئے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل، حجت الاسلام سید عباس موسوی کی شہادت پر قائد انقلاب اسلامی کے پیغام ( مورخہ 28-11-1370 مطابق 17-2-1992 ) سے رجوع کریں ۔
2- انقلابی تحریک حزب اللہ لبنان کے تیسرے سیکریٹری جنرل
3- مزمل؛5