خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں تمام بہنوں اور بھائیوں، محنت کشوں، ٹیچروں، طلبا اور عہدیداروں کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔ آپ، اسلامی معاشرے کے دست و بازو اور دماغ ہیں، پروردگار عالم سے آپ سب کے لئے فضل و برکت کا طلبگار ہوں۔
آج اور آنے والے کل کا دن، اسلامی جمہوری نظام کے اہم ترین اور ایسے ایام میں سے ہے جو سبق آموز ہیں اور معاشرے کے دو بہت موثر، زحمت کش اور عالی قدر طبقات، یعنی محنت کشوں اور ٹیچروں کے طبقوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ضروری ہے کہ پہلے اپنے انقلاب کے زندہ جاوید شہید، آیت اللہ مطہری کو خراج عقیدت پیش کریں جنہیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اپنی عمر کا حاصل قرار دیا تھا۔ شہید مطہری (رضوان اللہ علیہ) چشمہ فیاض و خروشاں تھے۔ شہادت ایک ذی قیمت خلعت ہے جو خدا وندعالم اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے اور شہید مطہری نے شہادت سے وہ اعلی معنوی مقام حاصل کیا جس کی سب کو آروز ہوتی ہے۔ اگر ہم ان کی شہادت پر غمزدہ ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چشمہ فیاض عالم اسلام کو اور بھی نئی برکات سے نواز سکتا تھا۔ شہید مطہری جیسی ہستی کی عمر کا ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ امت اسلامیہ اور مسلم قوم کے ایک ایک فرد کے لئے مفید اور خیر و برکت کا باعث ہوتا ہے۔
البتہ شہید مطہری کی تخلیقات و تالیفات ان کی یاد کی طرح زندہ و پائندہ ہیں۔ شہید مطہری کی کتابیں ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انقلاب کے بعد سے اب تک ہم نے مسلسل شہید مطہری کی کتابیں شائع کرکے، تکراری کام کیا ہے۔ نہیں' حق بات اور کلام حکمت کا بار بار دہرانا تکراری نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے، نوجوان نسل اور علمی و ثقافتی برادری کو اب بھی ان مفاہیم کی ضرورت ہے جو شہید مطہری نے اپنی زبان و قلم فیض سے امت اسلامیہ کو دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بہت سے مطہری، ان کے جیسے مفکر اور مطہری جیسی پر فیض زبان و قلم کی مالک ہستیاں وجود میں آئیں۔ انشاء اللہ ایسا ہوگا لیکن جو چیز کبھی پرانی نہیں ہوگی وہ ، وہ مفاہیم و حقائق ہیں جن سے واقفیت اور ان کے دہرائے جانے کی ہمارے معاشرے کو اب بھی ضرورت ہے اور وہ، وہی شہید مطہری کی کتابوں کے مفاہیم ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ خناسوں کے وسوسوں اور دشمنوں کی باتوں میں آکر، جو مطہری کی فکر کے مخالف ہیں اور اسی وجہ سے (ان دشمنوں نے) انہیں ہم سے جدا کر دیا، اس عظیم ہستی کی کتابیں متروک ہو جائیں۔ یقینا ایسا نہیں ہوگا۔ مشتاق دل اور اذہان اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ یہ گہرے اور پرمغز مفاہیم معاشرے کی فکر سے خارج ہو جائیں۔
محنت کشوں اور ٹیچروں کے بارے میں یہ عرض کر دوں کہ ایک نظر سے ہم دونوں طبقات کو ایک ہی شکل میں قوم کی خدمت اور میدان عمل میں سرگرم پاتے ہیں۔ دونوں طبقات کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا وجود اور حیات، انقلاب کے بنیادی ستونوں میں سے ہے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک محنت کش کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لیتے ہیں، اس کو لمس کرتے ہیں اور پھر اپنے سر مبارک کو خم کرکے، محنت کش کے ہاتھ کو اپنے مبارک ہونٹوں سے بوسہ دیتے ہیں، یا آپ دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد وحی الہی سے متصل، بحر معرفت سے متصل عظیم ترین قلب و زبان کے مالک امیرالمومنین ، مولائے متقیان حضرت علی علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں کہ من علمنی حرفا فقد صیرنی عبدا جس نے بھی مجھے کسی چیز کا علم دیا، اس نے مجھے غلام بنا لیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ عمل اور امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ ارشاد یونہی نہیں ہے۔ یہ عمل اور یہ ارشاد بھی ، ان ہستیوں کے تمام اعمال و ارشادات کی طرح ہمارے لئے درس ہے۔ محنت کش کے لئے بھی، معلم کے لئے بھی اور بقیہ تمام لوگوں کے لئے بھی درس ہے تاکہ محنت کش اور معلم جان لیں کہ وہ اس عمارت کی بنیادیں ہیں۔ اپنی قدر کو جانیں اور سمجھیں کہ ان کا وجود قوم کی تعمیر و ترقی میں کتنا موثر ہے۔
آج اگر ایرانی محنت کش، پورے وجود سے، بیدار ضمیر کے ساتھ، احساس ذمہ داری کے ساتھ، خلاقیت اور جدت عمل کے جذبے کے ساتھ اور یہ سوچ کر کام کریں کہ ثواب کا کام کر رہے ہیں، اور یقینا وہ ایسا ہی کر رہے ہیں، اور پھر وہ اس محنت کا نتیجہ قوم کے سامنے پیش کریں تو ہم اس ہدف تک جس کا شروع میں اعلان کیا تھا یعنی نہ شرقی نہ غربی جس کا مطلب تمام دنیاوی طاقتوں سے عدم وابستگی ہے، پہنچ جائیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں یہ ممکن نہیں ہوگا۔
بنابریں دیکھیں کہ انقلاب کا ایک اہم نعرہ، یعنی ملک و قوم کی خود مختاری، جس کے ہمارے دشمن مخالف ہیں، محنت کشوں کے وجود ان کی محنتوں اور ان کے احساسات حسنہ پرمنحصر ہے۔ محنت کش کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا (1) یعنی جو بھی کوئی اچھا کام کرے گا خداوند عالم اس کا دس گنا اجر اس کو عطا کرے گا۔ یہ کام وہی حسنہ ہے اور معلم کو بھی احساس ہونا چاہئے کہ اگر ہم نے کہا ہے کہ ایرانی مسلمان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غلامی کی یہ زنجیریں جو دو تین صدیوں کے دوران اس کی گردن اور پیروں میں ڈالی گئی ہیں، توڑ دے اور اس غلط سامراجی فکر کو کہ کہتے تھے کہ ایرانی کام نہیں کر سکتا، ختم کر دے۔
جس وقت اس ملک میں تیل کو قومی تحویل میں لینا چاہتے تھے، ایک پہلوی شخصیت نے کہا کہ ایرانی مٹی کا لوٹا بھی نہیں بنا سکتا وہ تیل کے امور کیسے چلائے گا؟ یہ وہی فکر ہے جو سامراجیوں نے مسلم اقوام اور سامراجی تسلط کا نشانہ بننے والی دیگر اقوام کے ذہنوں میں بٹھا رکھی تھی کہ تم سے کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ تمھاری صنعت بھی ہم ہی ٹھیک کر سکتے ہیں، تمہاری زراعت بھی ہمیں صحیح کر سکتے ہیں۔ تمہارے تعلیمی اداروں کے لئے بھی منصوبہ بندی ہمیں کو کرنی ہے اور تمہاری حکومت بھی ہمیں چلا سکتے ہیں۔ جو ذلت پہلوی خاندان ( لعنت اللہ علیہم ) اور قاجاریہ خاندان (لعنت اللہ علیہم ) نے اس مملکت اور قوم پر مسلط کی اس نے ہمیں سو سال پیچھے دھکیل دیا۔ اگر ہم اس ذلت کو ختم کرنا چاہیں اور درخشاں ایرانی استعداد کو ایران اور اسلام کے مفادات اور مصلحت کے لئے صرف کرنا چاہیں تو مفید اور کارآمد افرادی قوت کی تربیت کے علاوہ کسی اور طرح یہ کام ممکن ہے؟ کون یہ تربیت کرے گا؟ بظاہر اس سیاہ پتھر اور بظاہر اس زنگ خوردہ دھات کو کون تراشے گا؟ کون صیقل دے گا ؟ انہیں تیز دھار شمشیر میں کون تبدیل کرے گا؟ یہ تمام کام کون کرے گا؟ معلم، یہ معلم کا کام ہے۔
اسلامی جمہوریہ میں جو بھی کسی کام میں مشغول ہے، خواہ وہ کوئي بھی کام ہو جیسے ثقافتی کام ، اقتصادی کام، صحیح اور مفید خدمات سے متعلق کام، اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ حسنہ انجام دے رہا ہے اور خدا کے لئے کام کر رہا ہے اس لئے اس کی عمر بیکار میں ضائع نہیں ہوئی۔ آپ نے ایک دن کام کیا تو ایک دن خزانہ الہی میں ذخیرہ کر لیا، ایک دن قوم کو فائدہ پہنچایا اورمعاشرے کے تکامل کے عمل میں ایک دن کی مدد کی۔ یہ اسلامی ثقافت ہے۔ وہ نہیں جو افسوس کہ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بعض پروگراموں میں انسان دیکھتا ہے کہ کوئی تیس سال کام کرنے کے بعد احساس کرتا ہے کہ اس کی محنت بیکار اور عمر ضائع ہو گئی۔ یہ اسلامی اور قرآنی ثقافت نہیں ہے۔
اگر آپ نے تیس سال صحیح کام کیا تو اس معاشرے کو تیس سال آگے لے گئے اور تیس سال خدا کے پاس ذخیرہ کر لیا۔ اگر صحیح کام کیا ہے تو آپ تیس سال آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہ اسلامی اور قرآنی ثقافت ہے۔ یہی ثقافت ہمارے آرٹ اور فن میں پیش کی جانی چاہئے۔ یہ باتیں ڈراموں میں، فلموں میں، سنیما، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے پروگراموں میں پیش کی جانی چاہئے۔
پتہ نہیں آرٹ اور فن کا ہمارا سرکاری ادارہ فکر اسلامی کی گہرائیوں سے کب آشنا ہوگا۔ لکھتے ہیں غلط، پیش کرتے ہیں غلط، آرٹ اور فن کے قالب میں غلط بات کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اسلام کی منطق یہ نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ اگر آپ محنت کش اچھا، ضمیر کی آواز کے مطابق ، اچھی نیت کے ساتھ کام کرتے ہیں، آپ معلمین اگر احساس ذمہ داری کے ساتھ پڑھاتے ہیں ، آپ سرکاری ملازمین معاشرے کی پیشرفت کے لئے اور معاشرے کے مسائل حل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں تو آپ کے کام کی ہر گھڑی، خدا کے نزدیک ایک حسنہ اور ذخیرہ ہے۔ آپ کے کام کا ہر ایک گھنٹہ اس قوم کو ایک گھنٹہ آگے بڑھاتا ہے۔ ایسے کام سے انسان میں تھکن اور سستی پیدا نہیں ہوتی۔
معلمین، کارخانوں کے محنت کش، کاشتکار، صنعتکار، محققین ، سرکاری ملازمین، ملک کے امن و سلامتی کے محافظین، جو بھی اس اسلامی ملک کے جس حصے میں بھی ان کاموں میں مشغول ہے، اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ عبادت میں مشغول ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ جو مسافر راستے میں سفر کا ایک مرحلہ گزارنے کے بعد ٹھہرا ہے اگر وہ یہ سوچ لے کہ اس کا کام ختم ہو گیا تو وہ راستے میں ہی رہ جائےگا۔ اس بات کو یاد رکھیں ۔
یہ اسلامی معاشرہ ایک ہدف کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس ہدف اور اس راستے کے کئی مرحلے ہیں۔ اب تک کئی مراحل سے ہم گزر چکے ہیں۔ سامراج کے اندرونی کارندوں کے خلاف جدوجہد کا مرحلہ سلامتی کے ساتھ بخیر و خوبی انجام پا گیا لیکن کام ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ راستے کے درمیان کا ایک مرحلہ تھا۔ اس کو ہم نے عبور کر لیا۔ ایک مرحلہ اس اشتعال انگیز، جنگ افروز حملے کو پسپا کرنا تھا کہ جس نے اس ملک پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی اور پوری دنیا نے جارح کی پشت پناہی کی کہ شاید انقلاب کو نا کام بنایا جا سکے۔ یہ مرحلہ بھی کامیابی و سربلندی کے ساتھ ہم نے سر کیا۔ یہ مرحلہ بھی ہم نے پار کر لیا۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ کام ختم ہو گیا ہے۔ کام ختم نہیں ہوا ہے۔ ایک مرحلہ، عالمی رائے عامہ کی نگاہ میں ایک مجاہد، سچی، مظلوم اور اعلی اہداف کی مالک قوم کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنی تھی۔ یہ مرحلہ بھی گزر گیا اور دنیا نے پہچان لیا۔ یہ راستے کی درمیانی منزلیں اور مراحل ہیں۔
اس کارواں سالار نے، راستے اور اس دانائے راہ اور دشمن کو پہچاننے والے رہبر نے، ہمارے عظیم الشان اور جلیل القدر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے پوری دقت نظر اور ظرافت فکر کے ساتھ ایک ایک کرکے، ان تمام مراحل سے ہمیں گذار دیا۔ ہماری عزیز قوم نے اچھی طرح راستہ طے کیا اور تھکن کا احساس نہ کیا۔ ہم یکے بعد دیگرے گوناگوں مسائل، ملک کی اندرونی تعمیر کے مراحل، عوام کے سیاسی و ثقافتی رشد اور احکام اسلامی میں پیشرفت کے سلسلے میں الحمد للہ آگے بڑھے اور ترقی کی ۔
اب اگر کچھ لوگ بیٹھیں اور ان کی طرح سے جو ابھی ابھی خواب سے بیدار ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس مملکت میں کیا ہوا ہے ، شاہی حکومت کے دور کی تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کو زبان سے دہرائیں اور یہ سمجھیں کہ یہ قوم وہی قوم ہے تو یہ افسوس کا مقام ہے۔ افسوس کہ بعض لوگ ایسے ہی ہیں۔ وہ اس طرح بولتے ہیں کہ گویا یہ مردہ قوم ہے۔ گویا یہ وہی قوم نہیں ہے جس نے امریکا، سوویت یونین اور ان تمام رجعت پسندوں کو جو صدام کے پشت پناہ تھے، شکست دی ہے۔ جیسے یہ وہی قوم نہیں ہے کہ ملک کے ہر گوشہ و کنار اور دیہی علاقوں میں بھی اس کے افراد ، عورت، مرد، بوڑھے، جوان سبھی سیاسی، ثقافتی اور انقلابی مسائل کو اپنی زندگی کے واضح ترین مسائل کی طرح سمجھتے ہیں۔ ہماری قوم ایک زندہ، کارآمد، صاحب اعتقاد اور مومن قوم ہے اور اپنے آپ پر اس کو بھروسہ ہے۔ ہماری قوم سامراج اور سامراجی کارندوں کی حکمرانی کے دور کی قوم نہیں ہے جس سے کوئی امید نہیں تھی۔
بیٹھتے ہیں اور فضا کو تاریک ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ سب کچھ شروع ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود ابھی ہم آدھے راستے میں ہیں۔ یہ نکتہ بنیادی ہے۔ یہ خیال نہ کریں کہ یہ کامیابیاں جو ہم نے حاصل کی ہیں یہی ہمارا آخری ہدف ہے۔ نہیں ' اس مملکت میں ابھی بہت کام ہونا ہے۔ اس اسلامی سرزمین میں بہت کوشش اور مخلصانہ اور ہمدردانہ خلاقیت کی ضرورت ہے۔ ہمارے دشمن اب بھی کمین لگائے بیٹھے ہیں کہ کب یہ قوم اسلام سے تھک جائے اور اس پر حملہ کیا جائے۔ کب اس قوم کا ایمان ختم ہو اور اس پر ہر طرف سے یلغار شروع کر دیں۔
دشمنان اسلام سکون سے نہیں بیٹھے ہیں۔ اس قوم اور اس کے رہبر سے امریکا اور دنیا کے دیگر تسلط پسندوں نے بارہا اور بارہا منہ کی کھائی ہے لیکن وہ باز نہیں آئے ہیں۔ جب انہوں نے دیکھ لیا کہ اس قوم کو اس کے ایمان، اسلام، انقلاب، اس کے امام اور اس کے نعروں سے الگ نہیں کرسکتے، درحقیقت یہ ممکن نہیں ہے، تو دنیا میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش شروع کی کہ حکومت، مغرب کی طرف مائل ہو گئی ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ اقوام عالم کے حوصلے پست کر سکیں۔ تاکہ دنیا کے گوشہ و کنار کے مسلمانوں کو جن کی نگاہیں، ایران کی عظیم قوم پر ٹکی ہوئی ہیں، مایوس کر سکیں، تاکہ وہ کہیں کہ حیرت ہے، ایران ایسا ہو گیا۔ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمین عالم کی امید ختم کر دیں لیکن وہ غلطی پر ہیں۔
امریکا ایرانی قوم اور اس کے اہداف کا پورے وجود سے دشمن ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں۔ اس قوم نے فلسطین کے بارے میں اپنا ٹھوس موقف بیان کر دیا ہے۔ امریکا اس سے رنجیدہ ہے۔ اس قوم نے امریکا کے ظالمانہ تسلط کے بارے میں اپنی بات صراحت کے ساتھ کہی ہے اور اپنے موقف پر قائم ہے۔ امریکا اور عالمی سامراج اس کے اس موقف سے سخت ناراض ہیں۔ اس قوم نے اسلام اور قرآن سے اپنے مضبوط تمسک کو ثابت کر دیا ہے۔ امریکا اور تمام دشمنان اسلام ایرانی قوم سے زخم کھائے ہوئے ہیں اس لئے ہمارے خلاف مہم اور پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ جہاں بھی پرچم اسلام بلند ہو، یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ آج اسی عراق کو دیکھ لیں۔ جنوبی عراق کے مظلوم شیعوں کو دیکھ لیں۔ شمالی عراق میں ہمارے کرد بھائی بھی مظلوم اور محکوم ہیں۔ ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ اسے ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ اب تک مدد کی بھی ہے ۔اس کے بعد بھی ان کی مدد کریں گے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے۔ دنیا میں صرف باتیں اور پروپیگنڈے ہیں۔ اس پر عمل نہیں ہوتا۔ ان تمام پروپیگنڈوں کے باوجود اب تک دنیا کی طرف سے ان کی جو مدد کی گئی ہے وہ ان کی ضرورت کا سواں حصہ بھی نہیں ہے۔ ایران کی حکومت اور عوام نے مردانہ وار اس راہ میں قدم بڑھایا ہے اور ان کی مدد کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ یہ اسلامی فریضہ ہے، کسی کو دکھانے کے لئے نہیں ہے۔ لیکن اس پروپیگنڈے کا اس چیز سے موازنہ کریں جو جنوبی عراق کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیوں ؟وجہ کیا ہے؟ کیا بصرے، نجف، عمارہ، سماوہ اور ناصریہ کے شیعہ مظلوم نہیں ہیں؟ کیا ان پر دباؤ نہیں ہے؟ (2) کیا صدام نے ان علاقوں کے عوام پر حجاج بن یوسف سے بھی بدتر مظالم نہیں ڈھائے ہیں؟ کیا اس نے عوام کے مرجع تقلید کو جیل میں نہیں رکھا اور ان پر دباؤ نہیں ڈالا؟ کیا اس نے مقدس زیارتگاہوں کو منہدم نہیں کیا؟ کیا اس نے اس قوم کے مذہبی عقائد اور جذبات کو بہت زیادہ مجروح نہیں کیا ہے؟ دنیا سے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی؟ کسی کو ان کی فکر کیوں نہیں ہے؟ نجف اشرف کے صاحبان علم، مراجع تقلید، علما و فضلاء اور امیر المومنین اور حسین بن علی علیہما السلام کے روضوں پر جو کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کے مرجع و معشوق ہیں، کوئی توجہ کیوں نہیں دیتا؟ عالمی پروپیگنڈوں میں خدا کے دشمن ان جلادوں، صدام اور صدامیوں کے ان المناک جرائم کی طرف کوئی اشارہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ کوئی دو باتیں کر دیتا اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جانتے ہیں کہ یہاں پرچم اسلام، پرچم دین اور پرچم علمائے کرام بلند ہے۔
یہ دین کے مخالف ہیں۔ جان لیں کہ اگر خداوند عالم نعوذ باللہ، استغفراللہ، پہلوی جلاد، ذلیل اور بدبخت محمد رضا کو مہلت دیتا اور وہ سترہ شہریور ( آٹھ ستمبر) اور پندرہ خرداد (پانچ جون) کے قتل عام کو سو مرتبہ دہراتا اور ہزاروں بے گناہ عوام کا قتل عام کر دیتا تب بھی امریکا اور انسانی حقوق کے دفاع کی جھوٹی دعویدار تنظیمیں اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہتیں۔ کچھ نہ کرتیں۔ یہ دینی اہداف کی راہ میں اٹھ کھڑ ہونے والے لوگوں کے قتل عام کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس قسم کے افراد کے قتل عام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کس لئے؟ دین بالخصوص اسلام سے ان کی گہری دشمنی کی وجہ سے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسلام مظلوموں کا طرفدار ہے۔ اس لئے کہ اسلام غنڈہ گردی کا مخالف ہے۔ اس لئے کہ اسلام امریکا اور دیگر تسلط پسندوں کے تسلط کا مخالف ہے۔ اس لئے کہ اسلام مظلوم اقوام کی آزادی و خود مختاری کا حامی ہے۔ ایرانی قوم کو ماضی کی کامیابیوں سے سبق سیکھنا چاہئے ۔
پہلا سبق یہ ہے کہ یہ کامیابیاں مزاحمت سے حاصل ہوں گی،سرتسلیم خم کر دینے سے نہیں۔ جو بھی سپر طاقتوں کے سامنے جھکا وہ ذلیل ہوا۔ اگر پہلے سے ذلیل ہو تو زیادہ ذلیل کرتے ہیں۔ اگر عزت والا ہو تو، ذلیل کرتے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عراق کا ڈکٹیٹر امریکا کے مقابلے میں کتنا ذلیل ہوا۔ کس طرح اس نے ذلت قبول کی لیکن اپنے عوام کے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے۔عربوں کی ایک مثل ہے کہ اسدعلی وفی الحروب نعامہ اپنی قوم کے سامنے جاتا ہے تو شیر ہوجاتا ہے ۔ امریکا کے سامنے جاتا ہے تو چوہا ہو جاتا ہے۔ امام( خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ایک بار فرمایا تھا کہ جب بھی جنگ میں عراق کو شکست ہوتی ہے اور سرداران قادسیہ جب بھی ہمارے بسیجیوں اور مجاہدین سے منہ کی کھاتے ہیں تو صدام انہیں ایک میڈل اور تمغہ دیتا ہے۔ جب بھی انہیں میڈل دیتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ انہوں نے شکست کھائی ہے۔ اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ حکومت عراق نے صدام کو میڈل دیا ہے۔ میڈل کس چیز کا؟ امریکا کے مقابلے میں ذلت قبول کرنے کا میڈل۔ عراق پر حملہ کرنے والوں سے شکست کا میڈل۔ مظلوم عراقی عوام کی خونریزی کا میڈل۔ دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ کبھی موقع آنے پر کچھ بولتے ہیں مگر عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ بنابریں پہلا سبق یہ ہے کہ سامراج کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہئے، مزاحمت کرنی چاہئے، جھکنا نہیں چاہئے۔ اس صورت میں آپ سب کچھ حاصل کرلیں گے جس طرح آج تک حاصل کرتے آئے ہیں۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ ابھی ہم آدھے راستے میں ہیں بنابریں زیادہ محنت کرنا چاہئے۔ معلمین کو ہمدردی کے ساتھ ، خلوص کے ساتھ ، اس احساس کے ساتھ کہ ملک، قوم اور انقلاب کو ہر لمحہ ان کے درس کی ضرورت ہے، خوب کام کرنا چاہئے۔ اس جذبے اور احساس کے ساتھ پڑھائیں۔ محنت کش بھی جذبے کے ساتھ ، احساس ذمہ داری کےساتھ، خلاقیت اور جدت عمل کی فکر کے ساتھ اور اس بات پر توجہ کے ساتھ کہ ان کی ہتھوڑی کی ہر چوٹ، ہر پیچ جو وہ کستے ہیں اور ان کا ہر صاف ستھرا اور اچھا کام سامراج کے پیکر پر ایک وار اور ایران اور انقلاب کی خدمت ہے، کام کریں۔
دعا ہے کہ خدا وندعالم آپ تمام عزیز بہنوں اور بھائیوں، پوری ایرانی قوم ، اس ملک کے تمام حکام، زحمت کش، عوامی اور عوام کی خادم حکومت کو توفیق عنایت فرمائے کہ انشاء اللہ اس قوم کو روز بروز اس کے اعلی اہداف کی طرف لے جا سکیں اور خدا وند عالم اس قوم پر حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا لطف و کرم اور نظر عنایت ہمیشہ باقی رکھے اور ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر کو ہم سے راضی رکھے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ

1- انعام : 160
2- خلیج فارس کی دوسری جنگ کے خاتمے اور کویت سے عراقی افواج کے نکلنے کے بعد عراق کے شمالی، جنوبی اور مرکزی علاقوں میں وسیع بدامنی شروع ہو گئ۔ اسپیشل عراقی افواج نے مخالفین کا قلع قمع کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر بہیمانہ کاروائیاں شروع کیں۔ اس درمیان بین الاقوامی برادری اور عالمی ذرائع ابلاغ عامہ کی توجہ صرف شمالی عراق اور کردوں پر مرکوز رہی اور جنوبی عراق میں شیعوں کے خلاف عراقی افواج جو مظالم اور جرائم کر رہی تھیں، بیرونی ذرائع ابلاغ عامہ نے انہیں یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔