نماز جمعہ کے خطبے حسب ذیل ہیں؛

بسم ‏الله ‏الرّحمن‏ الرّحيم

الحمدلله ربّ العالمين. نحمده و نستعينه. و نستغفره و نتوكّل عليه. و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه، حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته، سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين. الهداة المهديّين المعصومين، سيّما بقيّةالله فى‏الأرضين. و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين.«اوصيكم عبادالله بتقوى الله.

میں تمام عزیز نماز گزار بھائیوں اور بہنوں کو تقوی و پرہیزگاری اور رفتار و گفتار حتی فکر و خیال کے سلسلے میں محتاط رہنے کی سفارش کرتا ہوں۔ آج پہلے خطبے میں اس وقت کے سب سے اہم مسئلے یعنی مسئلہ عراق اور اس سے متعلق پیچیدہ اور پہلو دار واقعات پر تبصرہ کروں گا اور دوسرے خطبے میں عراقی عرب بھائیوں اور بہنوں اور دیگر اسلامی ممالک سے عربی زبان میں خطاب کروں گا۔ آج سب کی آنکھیں اور سب کے دل ایران میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسی کی جانب یعنی مسئلہ عراق کی طرف متوجہ ہیں۔ ایک اور بات بھی اختصار سے عرض کروں گا جو ہم ملت ایران کے لئے خاص اہمیت کی حامل ہے اور وہ ہے سال کے آغاز پر عہدہ داروں اور عوام کو کی گئی سفارش یعنی عوام کی خدمت گزاری کے لئے عمومی مساعی اور عملی طور پر نظام کی افادیت کا مظاہرہ کرنے کی سفارش پر عمل۔ ہم اسلام کے نام پر بات کرتے ہیں اور اسلام کے نام پر عمل کرتے ہیں۔ اگر ہمارے کام میں کوئی کمی اور خامی ہوئی تو اس کا نقصان صرف ہم تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے اسلام کو بھی نقصان پہنچے گا اور دشمن بھی اسی انتہائی ظریف اور نازک پہلو کا زیادہ سے زیادہ غلط استعمال کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے کارآمد اور ماہر افراد اور نظام کے عہدہ داروں کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ ملک میں وسیع سطح پر دستیاب وسائل کے ذریعے، خواہ وہ ماہر افرادی قوت ہو یا ہمارے غیر معمولی مادی وسائل، ملک کی تمام مشکلات کو یعنی صرف اقتصادی مشکلات نہیں بلکہ اخلاقی، ثقافتی اور سماجی مسائل کو بنحو احسن حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو افراد اعلی عہدوں پر فائز ہیں وہ دلجمعی، بلند ہمتی اور باہمی ہمدلی کے ساتھ اور کلیدی و اصلی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے تمام مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں۔ اس پر ملک کے عہدہ داروں کی توجہ بھی ہونی چاہئے جبکہ ہماری بیدار، ہوشیار اور شریف و نجیب قوم کو چاہئے کہ مختلف محکموں یعنی مجریہ، عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ سے وابستہ دیگر محکموں کے عہدہ داروں سے اس کا مطالبہ کرے۔ یہ ایک فریضہ ہے اور میں نے عرض کیا ہے کہ ہمارے ملک کے حکام رواں سال کو اس سلسلے میں باہمی رقابت کا سال سمجھیں۔ یہ صحتمند رقابت ہے، یہ اچھی اور اللہ تعالی کی نظر میں بھی پسندیدہ رقابت ہے۔ فاستبقوا الخیرات رقابت کی صورت یہ ہے کہ ہر محکمہ ملک بھر میں اپنی مختلف یونٹوں کو اس رقابت اور مقابلہ آرائی کی دعوت دے۔ عدلیہ ملک بھر کی عدالتوں کو اس مقابلہ آرائی کی دعوت دے اور کچھ مہینے یا پھر ایک سال گزرتے گزرتے حساب کتاب کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ملک کی کون سی عدالت عوامی شکایات برطرف کرنے، ان کے درد کا مداوا کرنے، ان کا اعتماد حاصل کرنے اور کیسز کو بہترین طریقے سے نمٹانے میں سب سے آگے رہی۔ اسے اہم کارکردگی کا درجہ دیا جائے۔ تمام وزارتیں ملک بھر میں اپنے مختلف محکموں کو اس رقابت اور مقابلہ آرائی کی دعوت دیں اور وہ محکمے بھی اپنی سطح پر اسی روش پر کام کریں۔ کابینہ بھی مختلف وزارت خانوں کے مابین یہ مقابلہ آرائی اور رقابت شروع کرے۔ انہیں اس کی دعوت دے تاکہ معلوم ہو کہ ان بیس سے زائد وزارتوں میں عوام کی خدمت کا سب سے اچھا اور واضح ریکارڈ اور کارکردگی کس کی ہے، اسے ایک خوبی اور خصوصیت شمار کیا جائے۔ اس کی اطلاع عوام کو بھی دی جائے۔ پارلیمنٹ کے اراکین بھی دیکھیں کہ کون سا منصوبہ، کون سا بل اور کون سا قانون عوام کے لئے زیادہ مفید ہے اور عوام کی مشکلات کو جلدی اور بہتر طور پر حل کر سکتا ہے، اسے ترجیح دیں اور اس عمل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ یہ ایک شرعی، صحیح اور باعث خوشنودی پروردگار رقابت ہوگی۔ عوام کو بھی معلوم ہوگا، محسوس ہوگا کہ ان کی خدمت کی جا رہی ہے۔ مختلف ادارے اپنے مشترکہ کاموں میں بھی یہی رقابت شروع کریں۔ مجریہ، عدلیہ اور مقننہ بھی بد عنوانی کے سد باب، رشوت ستانی کے خلاف اقدام اور بد نیتی رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائي کے سلسلے میں آپس میں مسابقتی صورت حال پیدا کریں۔ صحیح کمپٹیشن یہی ہے۔ یہ کمپٹیشن میری سفارش ہے۔ عراق کا مسئلہ بے حد اہم ہے لیکن اس قضیئے کی اہمیت اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ لہذا یہ میری پہلی گزارش ہے۔
آج ہماری بحث کا اہم موضوع مسئلہ عراق ہے۔ عراق میں بہت اہم واقعہ پیش آیا ہے۔ اس ملک پر لشکر کشی کی گئی اور یہاں کی بر سراقتدار ٹیم سرنگوں کر دی گئی۔ اب اپنی خواہشوں، مطالبوں، آرزوؤ اور توانائيوں کے ساتھ ایک قوم ہے جو بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کے محاصرے میں پھنسی ہوئی ہے۔ بڑے اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ تمام عالم اسلام کی نگاہیں اسلامی جمہوریہ پر ٹکی ہوئی ہیں کہ اس قضیئے میں اس کا واضح موقف کیا ہے۔ البتہ اس ایک مہینے کے دوران جب حالات بہت تیزی سے نشیب و فراز سے گزرے، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملک کے حکام نے اظہار خیال کیا جو بالکل درست ہے۔ آج حالات بالکل مختلف ہو چکے ہیں اور ضروری ہے کہ میں اس سلسلے میں چند باتیں عرض کر دوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عراق گزشتہ صدی کے دوران خونیں اور بڑے پرمحن حالات سے گزرا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد انگریزوں نے ایک غیر عراقی خاندان کو اس ملک کے شاہی خاندان کی حیثیت سے اقتدار سونپ دیا۔ اس سلسلے کے تین بادشاہ یکے بعد دیگرے اقتدار میں آئے۔ ان میں سے پہلا تو مر گیا۔ دوسرا پر اسرار حالات میں قتل کر دیا گيا اور تیسرے کو عوام نے اپنے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ان کو انگریزوں نے اقتدار میں پہنچایا تھا۔ اس کے بعد کودتا اور بغاوت کے ذریعے یکے بعد دیگرے حکومتیں تشکیل پائیں۔ انیس سو اٹھاون سے انیس سو اڑسٹھ تک دس سال کے عرصے میں بغاوتوں کے ذریعے حکومتیں قائم اور ختم ہوئیں۔ انیس سو اڑسٹھ میں بعثیوں نے اقتدار سنبھالا جن میں پہلے نمبر کا آدمی احمد حسن البکر اور دوسرے نمبر پر یہی صدام تھا۔ دس سال تک یہ (بغاوت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والے) لوگ رہے۔ بغاوت کے ذریعے تین فوجی حکومتیں قائم ہوئیں۔ پہلی فوجی حکومت کے رہنما کو قتل کر دیا گیا، دوسری حکومت کا سربراہ ایک پر اسرار حادثے میں مارا گیا اور تیسری حکومت کے سربراہ کو معزول کر دیا گيا۔ انیس سو اڑسٹھ کے بعد تیس سال سے زائد عرصے تک اقتدار بعثیوں کے ہاتھ میں رہا۔ اس دور، خاص طور پر صدام کی مطلق العنان حکومت کے دور کو عراق کا دشوار ترین اور سخت ترین دور کہا جانا چاہئے۔ اب صدام کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے اور خود صدام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ کہاں گيا، حالات بہت مشکوک ہیں۔ جو کچھ عراق میں ہوا ہے در حقیقت کوئي ایک قضیہ نہیں بلکہ چار چار معاملات ہیں۔ امریکی، برطانوی اور ان کے تشہیراتی ایجنٹ چاہتے ہیں کہ سب کچھ خلط ملط کرکے اسے ایک قضیئے کی صورت میں پیش کریں اور رائے عامہ کی سطح پر اس کے تعلق سے ہاں یا نہیں کا فیصلہ حاصل کر لیں لیکن ان کی یہ کوشش بے نتیجہ ہے۔ یہ چار قضیئے ہیں، ایک قضیہ نہیں ہے۔ ابھی کل یا پرسوں کی بات ہے، بش اور بلیئر کی جانب سے عراقی عوام کے لئے ایک پیغام نشر ہوا۔ ویسے عراقی عوام بجلی سے محروم ہونے کے باعث یہ پیغام نہیں سن سکے۔ پیغام کا مضمون یہ تھا کہ ہم آپ کو آزادی دلانے کے لئے عراق آئے ہیں! اپنا نصب العین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کو آزادی دلانے، صدام کے ہاتھ سے نجات دلانے آئے ہیں۔ ان صاحبان کے اسی ایک جملے میں دو بڑے مغالطے موجود ہیں۔ ایک تو یہی کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو آزادی دلانے آئے ہیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ عراقی قوم کے پاس اس کی طاقت و توانائی نہیں ہے اور یہ کام ہمیں اس کے لئے کرنا ہے۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔ دوسرا مغالطہ یہ کہ خود یہ بات اپنی جگہ پر جھوٹ ہے۔ کیونکہ کسی قوم کو آزادی دلانی ہوتی ہے تو اس پر بم اور میزائل نہیں برسائے جاتے۔ فوجی چھاونی اور ٹھکانے کو ختم کرنے کے نام پر شہروں، گاؤں اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں کو ویران نہیں کیا جاتا، یہ المئے جن کی جانب میں ہلکا سا اشارہ کروں گا، انجام نہیں دئے جاتے۔
یہ عراق کے عوام کو آزادی دلانے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہاں چار قضیئے ہیں جہنیں ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک معاملہ ہے صدام کی سرنگونی کا۔ صدام اور امریکا کے بر سراقتدار گروہ کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا جو کھینچ تان اور جھڑپ پر منتج ہوا۔ وہ زیادہ طاقتور تھے انہوں نے صدام کو سرنگوں کر دیا، یہ تو رہا ایک معاملہ۔ اس معاملے میں ہمارا موقف بالکل واضح ہے جسے میں ابھی عرض کروں گا۔ ان چاروں قضیوں میں ہمارا موقف عیاں اور روشن ہے۔ ہم قضیوں کو ایک دوسرے سے الگ کریں گے تاکہ اسلامی جمہوری نظام کا موقف جو اسلامی فکر و نظر پر استوار اور ملکی مفادات اور مصلحتوں کے مطابق ہے، واضح ہو سکے۔ تو ایک معاملہ ہے صدام کے خاتمے کا۔ دوسرا معاملہ جو عراق میں پیش آیا اور اب بھی جاری ہے وہ المناک واقعات ہیں جو ملت عراق کو در پیش ہیں۔ یہ صدام کی سرنگونی سے ہٹ کر الگ مسئلہ ہے جس کا الگ حکم ہے۔ اس معاملے میں بھی ہم اپنا موقف بیان کریں گے۔ تیسرا معاملہ یہ ہے کہ اغیار کی افواج نے ایک ملک پر جارحیت اور فوجی یلغار کی ہے مختلف بہانوں سے مثلا عام تباہی کے ہتھیاروں کے بہانے، دہشت گردی کی حمایت وغیر جیسے بہانوں سے۔ یہ بہانے تو ہمیشہ ہر جگہ تراشے اور بیان کئے جا سکتے ہیں۔ یہ بہانے کبھی بھی ایک ملک پر فوجی چڑھائی اور اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کا جواز نہیں بن سکتے۔ ہم اس بارے میں بھی اپنا رخ واضح کریں گے۔ چوتھا مسئلہ عراق کے مستقبل کے فیصلے کا ہے جس کے بارے میں ان (بیرونی طاقتوں) کے ذہنوں میں کچھ منصوبے، پروگرام اور خام خیالیاں ہیں۔ یہ بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔ ان میں ہر قضیئے اور معاملے کا الگ حکم ہے۔
پہلے مسئلے یعنی صدام کی حکومت کی سرنگونی کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ معاملہ بنیادی طور پر اس طرح کا ہے کہ صدام کا شروعات میں امریکا سے کوئي اختلاف نہیں تھا۔ رپورٹوں میں یہ باتیں ہیں البتہ میں اس کا دعوی تو نہیں کرتا لیکن خود امریکیوں نے یہ بات کہی کہ انیس سو اڑسٹھ میں عراق میں بعثیوں کی بغاوت میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ صحیح نہ ہو۔ جس چیز کے بارے میں یقین نہیں ہے میں اس کے تعلق سے کچھ نہیں کہنا چاہوں گا لیکن اس میں کوئي شک نہیں کہ اس کے بعد خاص طور پر اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد ان کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہو گئے۔ اس سے پہلے انہوں نے ایران کے طاغوتی حاکم محمد رضا کے ساتھ مل کر ساز باز کر لی تھی۔ یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ ان کے مفادات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو ان (صدام اور امریکیوں) کے مفادات میں یکسانیت پیدا ہو گئی۔ صدام کو ہماری زمین کا لالچ تھا تو امریکا اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے خلاف تھا، اس کا منشا یہ تھا کہ اپنی کٹھپتلی طاغوتی حکومت کو دوبارہ ملک کی باگڈور دلوائے۔ یہ مفادات میں تال میل پیدا ہو گیا لہذا جب ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کا آغاز ہوا تھا صدام نے پہلے دن اسی تہران پر فضائی حملہ کیا۔ امریکیوں نے اس پر برائے نام بھی ناراضگی ظاہر نہیں کی بلکہ الٹے اس کی امداد میں اضافہ کر دیا۔ یہ زمینی حقائق ہیں ان میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ اس (صدام) نے پہلے ہی امریکا سے مکمل ہماہنگی کر لی ہو۔ اس کا ہم دعوا تو نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ بات وثوق سے مجھے معلوم نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں رپورٹیں موجود ہیں۔ میں نے اپنی صدارت کے زمانے میں جو سفر کئے ان کے دوران بعض اسلامی مملکتوں کے سربراہوں نے ہمیں بتایا کہ اس نے پہلے ہی بعض جگہوں سے مکمل ہم آہنگی کر لی تھی۔ بہرحال ہمیں اس کا سو فیصدی یقین تو نہیں ہے تاہم اتنا تو طے ہے کہ جنگ شروع ہو جانے کے بعد امریکا کی طرف سے صدام کی حد سے زیادہ حمایت اور مدد ہوئی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کو بھی مختلف طرح کے دباؤ ڈال کر صدام کی حمایت پر مجبور کیا گیا۔ ہم نے آٹھ سال تک اس جنگ کو جھیلا۔ صدام امریکیوں کے کام آيا کیونکہ اس نے آٹھ سال تک اسلامی انقلاب کو امریکیوں کے مفاد کے مطابق ایک خونیں جنگ میں الجھائے رکھا۔ ظاہر ہے جنگ کے لئے بہت زیادہ ذہنی محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اگر ملک میں آنے والے انقلاب کو شروع میں ہی ایسی خونیں جنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ملک کی تعمیر نو اور بڑے کاموں کی انجام دہی کے لئے اس کے پاس موقع ہوتا ہے۔ صدام نے ہمارے بہترین وقت کے آٹھ سال امریکیوں کی منفعت کی جہت میں صرف کروا دئے کیونکہ ان کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ بعد میں جب انیس سو نوے میں صدام نے کویت پر حملہ کر دیا تو ان کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا۔ امریکیوں نے دیکھا کہ اس آدمی کی اونچی اڑانیں کچھ اس انداز کی ہیں کہ خطے میں امریکا کے مفادات کو بٹہ لگا دیں گی کیونکہ کویت پر حملہ، امریکا پر حملے کے مترادف تھا۔ اگر صدام کی نکیل نہ کس دی ہوتی تو ممکن تھا کہ اس کا اگلا نشانہ سعودی عرب بنتا۔ یہ بات اس وقت وہ خود بھی کہہ رہا تھا! وہ کہہ رہا تھا کہ کویت پر قبضہ کر لینے کے بعد میں آگے بڑھوں گا، امارات، بحرین، قطر جہاں تک ممکن ہوا آگے جاؤں گا۔ صدام کے عزائم یہ تھے۔ یہاں پہنچ کر ان کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ یہیں سے صدام کے خلاف اقوام متحدہ کے دباؤ اور تشہیراتی مہم کا آغاز ہو گیا۔ صدام امریکا سے بھڑنے والا آدمی نہیں تھا، وہ تو موقع پڑنے پر پیچھے ہٹ جانے اور امریکیوں کی آغوش میں جا بیٹھنے والا آدمی تھا لیکن امریکی اسے یہ موقع نہیں دے سکتے تھے، صدام ان کے لئے ایک مشکل میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اگر امریکی اس سے سازباز کر لیتے تو خلیج فارس میں وہ اپنے دوستوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ خلیج فارس کے حکام ہرگز تیار نہیں تھے کہ امریکا ماضی کی طرح ایک بار پھر صدام کو تقویت پہنچائے، کیونکہ انہیں خوف تھا۔ دوسری جانب یہ مسئلہ تھا کہ اگر امریکا صدام پر زبردست طریقے سے دباؤ بڑھا دیتا تو عراق میں اس کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے۔ بنابریں خود امریکا ایک دوراہے پر پہنچ گیا تھا۔ مشرق وسطی کے اس اہم ترین علاقے میں تیل کی دولت، بے پناہ ذخائر اور تقریبا دو کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی والا ملک عراق امریکا کے لئے بہت پرکشش تھا۔ امریکا عراق میں اپنا نفوذ باقی رکھنا چاہتا تھا، اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتا تھا، لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اگر وہ صدام سے کوئی سازباز کر لیتا تو دوسری جانب اسے مشکل سے دوچار ہونا پڑتا اور اگر سازباز نہ کرتا تو اس کے یہ مفادات ہاتھ سے نکل جاتے۔ امریکا اور صدام کے مابین یہ ٹکراؤ رفتہ رفتہ شدیدتر ہوتا گيا۔ لہذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی صورت سے صدام کو راستے سے ہٹایا جائے، عراق میں اپنا راستہ صاف کیا جائے۔ یہ سارے واقعات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بنابریں اگر امریکی یا برطانوی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے عراقی عوام کی خاطر صدام کو ہٹا دیا، یہ شرمناک اور کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ یہ اقدام ہرگز عراقی عوام کے لئے انجام نہیں دیا گیا۔ انہوں نے صدام کو اس لئے ہٹایا کہ ان کے اور صدام کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا تھا ورنہ جب تک ان کے مفادات میں یگانگت تھی انہوں نے اس کی حمایت کی۔ (آٹھ سالہ) جنگ کے دوران زبردست حمایت کی۔
بہرحال وہ آئے اور فوجی طاقت کا استعمال کیا، نتیجے میں صدام کا کام تمام ہو گیا۔ اس واقعے پر ملت ایران کو خوشی ہے یا نہیں؟ بلا شبہ خوشی ہے۔ ایرانی عوام تو بیس سال سے کہہ رہے ہیں کہ منافقین مردہ باد، صدام مردہ باد۔ اب موت صدام کی سمت بڑھی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے عوام کی خوشی بالکل عراقی عوام کی شادمانی کی مانند ہے۔ ہمارا موقف بالکل ملت عراق کا موقف ہے۔ عراقی عوام صدام کے جانے سے خوش ہیں، ہم بھی صدام کے جانے پر مسرور ہیں۔ صدام ایک مطلق العنان، ظالم، عہد و پیمان سے بے اعتنا، بد ترین اور انتہائی شر پسند آدمی تھا۔ بنابریں اگر قابض قوتیں کہتی ہیں کہ عراقی عوام ہماری آمد پر مسرور و شادماں ہیں تو یہ واقعی بڑی مضحکہ خیز بات ہے۔ عراقی عوام کی خوشی صدام کے جانے پر ہے۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے، ایک یورپی ٹی وی چینل نے بغداد کا ایک نظارہ پیش کیا، تصویر میں ایک نوجوان سے کچھ پوچھا گيا جس کے جواب میں اس نے مٹھی بھینچ کر کہا صدام مردہ باد، بش مردہ باد۔ ایک سانس میں اس نے دونوں کا نام لے کر مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ البتہ ایسا ایک ہی بار ہوا، اس کے بعد خبروں پر لگے سینسر نے اسے دوہرائے جانے کی اجازت نہیں دی۔ ورنہ اگر عراق کے ایک ہزار افراد سے سوال کیا جائے تو ان میں سے نو سو افراد یہی جواب دیں گے۔ صدام کے جانے کی خوشی کا قابض قوتوں کی آمد سے کوئي تعلق نہیں ہے جو خود کو بلا وجہ ہی اس معاملے سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اب اگر بغداد میں چند افراد نے ہاتھ ہلا دئے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عوام ان (قابض طاقتوں) کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مجھے مختلف علاقوں کی مکمل اطلاع ہے کہ عوام، نہ تو بصرے میں جہاں برطانوی داخل ہوئے اور نہ دوسرے شہروں میں جہاں امریکی پہنچے کہیں بھی قابضوں کے ساتھ خندہ روئی سے پیش نہیں آئے ہیں۔ اگر انہیں صدام کے جانے کی خوشی تھی بھی تو وہ بمباری کی نذر ہو گئی۔ ان چند ہفتوں میں انہوں نے عوام کی درگت بناکر رکھ دی۔ بنابریں قابض اور جارح طاقتوں کے ساتھ صدام کی جنگ میں عراقی عوام غیر جانبدار رہے۔ حکومت ایران نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ کسی کی طرف نہیں ہے۔ یہی حقیقی غیر جانبداری ہے۔ دونوں ہی محاذ یعنی صدام کا بھی محاذ اور حملہ آوروں کا محاذ دونوں ظالم ہیں۔ اس جنگ میں عراقی قوم بھی کسی کی بھی حامی نہیں تھی۔ ایران کے عوام اور حکومت نے بھی اس جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کی۔ یعنی ہم نے کسی ایک کی بھی ذرہ برابر بھی مدد نہیں کی۔ اسے کہتے ہیں غیر جانبداری۔ ہم نے نہ تو صدام کی مدد کی کہ وہ خود کو بچا سکے اور نہ قابض قوتوں کی مدد کی کہ وہ جلد فتحیاب ہو جائیں۔ ہم نے اپنے تمام تر وسائل اس مقصد کے تحت استعمال کئے کہ کسی کی کوئی مدد نہ ہونے پائے۔ اس چیز کو خود وہ لوگ جو سیٹیلائٹ کے ذریعے ہر جگہ کی جاسوسی میں لگے رہتے ہیں بخوبی جانتے ہیں۔ انہیں بتانے کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ ملت ایران کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ملک کے حکام اور حکومت نے پوری کوشش کی اور کامیابی بھی حاصل کی کہ ان دونوں فریقوں میں کسی کی بھی کوئی مدد نہ کرے اور واقعی مدد نہیں ہوئی۔ حملہ آوروں نے اگر تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی ہے تو اس کی وجہ ملت عراق کی یہی غیر جانبداری تھی۔ اس جنگ میں اگر ملت عراق نے صدام کا ساتھ دیا ہوتا تو یہ بات خود جارح طاقتیں بھی جانتی ہیں کہ وہ اس طرح پیش قدمی نہ کر پاتیں۔ جب کسی ملک میں عوام کا دل حکام کی جانب سے صاف نہ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ ملت عراق کو اپنے حکام سے سب و شتم، زد و کوب، توہین و تحقیر، سخت گیری اور سنگدلی کے علاوہ کچھ نہیں ملا تھا تو اس نے بھی کوئي حمایت نہیں کی۔ نتیجے میں اس ملک کے دشمن یعنی یہی جارح طاقتیں تیزی سے پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ البتہ اس معاملے میں بھی بہت سی باتیں اور بحثیں ہیں۔ تو میں نے عرض کیا کہ اس معاملے میں ہماری قوم خوش و خرم ہے۔ ہماری حکومت اور حکام بھی مسرور و شادماں ہیں۔ البتہ ہماری قوم، حکومت اور ذمہ دار افراد کو اس قضیئے میں کچھ باتیں مشکوک معلوم ہو رہی ہیں۔ آخر بغداد میں بصرہ کی طرح مزاحمت کیوں نہیں ہوئی۔ یعنی جنگ کا پہلا ہفتہ گزرتے ہی جنگ کا رخ بالکل بدل گیا۔ پہلے ہفتے میں جنگ سخت تھی اور کہا جا رہا تھا کہ اصلی جنگ تو اس کے بعد ہوگی لیکن اس کے بعد حملہ آور چند روز ٹھہرے رہے اور پھر جو انہوں نے پیشقدمی شروع کی تو ٹھیک سے مزاحمت ہی نہیں ہوئی۔ در حقیقت بغداد دو تین دنوں کے اندر ڈھیر ہو گیا اور بغداد کا کسی نے ٹھیک سے دفاع ہی نہیں کیا۔ جبکہ ہمیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق خود بغداد میں ایک لاکھ بیس ہزار مسلح فوجی تھے۔ بغداد کے ارد گرد جو دفاعی حصار تیار کیا گيا تھا اور صدام کی صدارتی گارد کے اہلکار کثیر تعداد میں تھے۔ بغداد جس کے پاس تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار فوجی تھے دو تین دن سے زیادہ حملہ آوروں کے سامنے نہیں ٹک سکا۔ یا شاید یہ حکم دے دیا گيا کہ مزاحمت نہ کی جائے، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ مستقبل میں یہ باتیں بھی آشکارا ہوں گی۔ ابھی سے کچھ فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس بات کی یوں بھی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ ہماری رائے کیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ انتظار کریں اور دیکھیں کہ مستقبل میں اس قضیئے کی کیا حقیقت سامنے آتی ہے۔
میں اس موقع پر خرم شہر کے عزیز شہید محمد جہاں آرا اور اس مظلوم شہر کے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے منفرد انداز سے دفاع کیا۔ ان دنوں میں اہواز شہر میں تھا اور حالات کا نزدیک سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ خرم شہر میں در حقیقت کوئی مسلح فورس تھی ہی نہیں۔ ایک لاکھ بیس ہزار نہیں دس ہزار اور پانچ ہزار فوجی بھی نہیں تھے۔ فوج کے وفا شعار افسر جناب اقارب پرست صاحب خسرو آباد سے کچھ پرانے ٹینک خرم شہر لے آئے تھے اور اس کی مرمت کر لی تھی۔ البتہ یہ بعد میں ہوا۔ خرم شہر کے اصلی حصے میں کوئی فوج نہیں تھی۔ محمد جہاں آرا اور ہمارے دیگر نوجوانوں نے عراقی حملہ آوروں کے سامنے بکتر بند گاڑیوں، ایک مخصوص یونٹ اور نوے توپوں سے لیس عراقی بٹالین کی خرم شہر پر شب و روز ہونے والی گولہ باری کا پنتیس دنوں تک مقابلہ کیا۔ جس طرح بغداد پر میزائل گر رہے تھے، خرم شہر کے بھی رہائشی مکانات پر توپوں کے گولے مسلسل برس رہے تھے۔ اس عالم میں ہمارے نوجوانوں نے پینتیس روز تک شہر کا دفاع کیا لیکن بغداد نے تین دنوں کے اندر گھٹنے ٹیک دئے! ملت ایران کو چاہئے کہ اپنے ان نوجوانوں اور مجاہدوں پر ناز کرے۔ بعد میں جب خرم شہر کو آزاد کرانے کا موقع آیا تب بھی سپاہ، فوج اور بسیج (رضاکار فورس) نے عراقی فوجیوں کے مقابلے میں بہت کم تعداد میں اپنے فوجیوں کے ساتھ جاکر خرم شہر کا محاصرہ کر لیا اور ایک دو دنوں کی کارروائی میں تقریبا پندرہ ہزار عراقی فوجیوں کو قیدی بنا لیا۔ ہم پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ درس و عبرت کی ایک عجیب داستان ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بعض افراد مسلط کردہ جنگ کے ہمارے افتخار آمیز کارناموں کو پیش کرنے میں کوتاہی کیوں کرتے ہیں۔
تو جہاں تک جارح امریکی اور برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں صدام کی سرنگونی کا معاملہ ہے، اس بارے میں ہمارا موقف اور نظریہ یہ ہے کہ ہم نے دونوں ظالموں میں کسی ایک کی بھی مدد نہیں کی۔ صدام کی سرنگونی سے ہم بہت خوش ہیں اور ہماری قوم بھی شادماں ہے۔ ہم غیر جانبدار رہے جیسا کہ عراقی قوم بھی غیرجانبدار رہی۔ ہم بھی اسی طرح خوش ہیں جس طرح عراقی عوام مسرور ہیں۔
دوسرا معاملہ ان المیوں کا ہے جو اس عرصے میں عراق میں عوام کو پیش آئے۔ یہ المئے ایسے نہیں ہیں کہ فراموش کر دئے جائیں۔ آپ غور کیجئے! جنگ ویتنام کو ستائیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور بہت سی چیزیں فراموش کی جا چکی ہیں لیکن اس جنگ میں امریکیوں نے عوام کے خلاف جو مجرمانہ اقدامات کئے وہ فراموش نہیں کئے گئے ہیں۔ اس بارے میں کتنی فلمیں بن رہی ہیں، کیسے کیسے واقعات بیان کئے جا رہے ہیں! بے گناہ عوام پر حملہ دنیا کے لوگوں اور دنیا کے ضمیروں میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ عوام کا سب سے بڑا حق، زندگی بسر کرنے کا حق ہوتا ہے۔ یہ صاحبان انسانی حقوق کے پاسباں کی حیثیت سے آئے ہیں لیکن اپنی بمباریوں کے ذریعے انہوں نے عوام سے زندگی کا حق تک چھین لیا ہے۔ بصرہ، ناصریہ، دیوانیہ، حلہ، بغداد اور دیگر شہروں پر ایک ہزار سے زائد کروز میزائل، ہزاروں وزنی بم اور مختلف سمتوں سے توپوں کے گولے برسائے گئے۔ ان شہروں میں لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ بمباری کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے اوپر بمباری ہو چکی ہے۔ ہمارے اوپر تہران میں، دزفول میں اور دیگر شہروں میں میزائل برسائے جا چکے ہیں۔ یہ کیا کوئي معمولی بات ہے کہ کسی شہر پر ایک گھنٹے کے اندر درجنوں بلکہ سیکڑوں میزائلوں کی بوچھار کر دی جائے؟! کہتے ہیں کہ ہم تو فوجی اہداف کو تباہ کرنا چاہتے تھے! آخر عراق میں کتنے فوجی ٹھکانے ہیں کہ انہیں تباہ کرنے کے لئے ایک ہزار سے زائد کروز میزائل اور ہزاروں بم برسائے جائیں؟! ان حرکتوں سے عوام تباہ ہوکر رہ گئے۔ عوام پر خوف و وحشت طاری ہے۔ بچے سہم کر رہے گئے ہیں۔ بچوں کا قتل عام ہوا ہے، بچے بھوک سے تڑپے ہیں۔ ان باتوں کا مطلب وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے گھر میں چھوٹا بچہ ہو اور اسے پلانے کے لئے دودھ نہ ملے۔ ماں کے پاس غذا نہ ہو، اس بچے کو پلانے کے لئے پانی نہ ہو۔ ایسے لوگ ان باتوں کا مطلب سمجھ سکتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی دلخراش آہ و زاری سے ماں باپ کے دل کس طرح خون ہو گئے! ان اسپتالوں میں کتنے ایسے نوجوان لائے گئے جن کے زخموں کی مرہم پٹی تک نہ ہو سکی! خاندانوں کو ان کے کتنے عزیزوں سے محروم کر دیا گيا! کیا یہ کچھ کم ہے؟! اس کے بعد عوام کی توہین، ان کے گھروں میں درانہ گھس جانا! یہ مناظر دیکھ کر انسان کا دل خون ہو جاتا ہے۔ بے بنیاد شک اور گمان کی بنا پر کسی بھی گھر میں داخل ہو جاتے ہیں، بیوی بچوں کے سامنے گھر کے مرد کے ہاتھ اور آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے ہیں، اس کی توہین کرتے ہیں، اسے ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟! بیگانہ فوجیوں نے عرب مردوں کے ہاتھ پیٹھ پر باندھ دئے، ان کے منہ پر کپڑا چڑھا دیا، زمین پر لٹا دیا، منہ کے بل لٹا دیا اور ان پر بندوق تان کر کھڑے ہو گئے۔ کیا یہ کوئی معمولی مصیبت ہے؟! کیا اس کی تلافی کی جا سکتی ہے؟! یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔ ایک امریکی فوجی نقاب پوش عرب خاتون کی تلاشی لے۔ وہ امریکی فوجی جس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ وہ آکر پردہ نشیں عرب خاتون کی تلاشی لے کہ کہیں اس نے بم تو نہیں چھپا رکھا ہے! اسے کہتے ہیں انسانی حقوق؟ یہی ہے انسانوں کا احترام اور انسانوں کی آزادی کا احترام جس کا دعوی یہ جھوٹے کرتے ہیں؟ معذرت خواہی سے ان چیزوں کی تلافی نہیں کی جا سکتی۔ مار دیا، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ معاف کیجئے گا، ہم سے غلطی ہو گئی! افغانستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ جنگ افغانستان کے آغاز سے یہ واقعہ کئی بار پیش آیا۔ ابھی حال ہی میں چند روز قبل بھی ایسا ہی واقعہ پیش آيا ہے۔ مار دیتے ہیں، بم گراکر متعدد افراد کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیتے ہیں اور پھر فرما دیتے ہیں کہ معاف کیجئے گا ہم سے غلطی ہو گئی۔ کیا معاف کیجئے گا غلطی ہو گئی کہہ دنے سے جرائم کے اثرات ختم ہو جائیں گے؟ یہ ہے دوسرا مسئلہ اور ہم اس دوسرے مسئلے کی شدت کے ساتھ مذمت کرتے ہیں۔ ہم عراقی قوم کے لئے جذبہ ہمدردی رکھتے ہیں اور جارح طاقتوں کی مذمت کرتے ہیں اور اگر وہ انسانی حقوق کی دعویدار ہیں تو ہم انہیں دروغگو مانتے ہیں۔
تیسرا مسئلہ ہے عام تباہی کے ہتھیاروں کے بہانے ایک ملک پر لشکرکشی کا۔ یہ انتہائی مذموم اور بدترین عمل ہے جس کی عالمی رائے عامہ نے مذمت کی اور اسے غیر قانونی ٹھہرایا۔ مجھے جنگ ویتنام کا زمانہ یاد ہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں امریکا کے خلاف مظاہرے ہوتے تھے لیکن آج اس قضیئے میں جو عالمی اتفاق رائے نظر آیا وہ ہم نے جنگ ویتنام کے مسئلے میں نہیں دیکھا۔ جنگ ویتنام کے موقع پر یہ عالمی اجماع اور اتفاق نظر نہیں تھا۔ ان دنوں کہا جاتا تھا کہ یہ اجتماعات اور یہ مظاہرے سوویت یونین کے اشارے پر ہو رہے ہیں۔ آج یہ کس کے اشارے پر ہو رہے ہیں؟ ہندوستان میں، پاکستان میں، انڈونیشیا میں، ملیشیا میں، افریقا میں، یورپ میں اور خود امریکا کے اندر لوگ جمع ہوتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں، دسیوں ہزار کی تعداد میں اور لاکھوں کی تعداد میں اکٹھا ہوتے ہیں اور سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔ یہ کون کروا رہا ہے؟ ان کا اہتمام کرنے والا کوئی مرکز موجود نہیں ہے۔ یہ عالمی ضمیر ہے، یہ انسانی ضمیر ہے جو اس عمل کی مذمت کر رہا ہے۔ یہ ہے ہی قابل مذمت فعل۔ یہ بڑی قبیح بدعت ہے۔ یہ جارحیتوں اور کشور گشائی کی جنگوں کے دور کی سمت رجعت ہے۔ آپ نے کسی ملک کے خلاف ایک بہانہ تلاش کر لیا ہے، پھر اقوام متحدہ کے انسپکٹرز لاکھ کہیں کہ (عام تباہی کے ہتھیار) نہیں ہیں آپ یہی فرماتے رہیں کہ نہیں آپ کو معلوم نہیں ہے، ہم جانتے ہیں کہ موجود ہیں! اس کے بعد آکر حملہ کر دیا جائے۔ یہ بالکل غلط کام ہے۔ ہم نے اس کی مذمت کی اور آج بھی مذمت کر رہے ہیں۔ ویسے ہمارے خیال میں، اقوام متحدہ نے اس قضیئے میں کوتاہی کی۔ سلامتی کونسل نے امریکا اور برطانیہ کے حملے کے مذمت کیوں نہیں کی؟ ان کے خلاف قرارداد کیوں منظور نہیں کی؟ ہم نے مانا کہ وہ قرارداد کو ویٹو کر دیتے، تو کوئی بات نہیں۔ سلامتی کونسل میں قرارداد کا لایاج جانا بھی ان کے خلاف ایک اقدام تو ہوتا، کیوں نہیں کیا گيا؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گيا کہ اس عمل کی مذمت کی جاتی۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنا چاہئے تھے۔ اقوام متحدہ سے توقعات وابستہ ہیں۔ خیر ہم تو برسوں سے اپنی توقعات ختم کر چکے ہیں اور اثر و نفوذ اور کارکردگی کا جو عالم ہے وہ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن دنیا میں بہرحال کچھ توقعات ہیں۔ بہت کمزور کارکردگی رہی۔
امریکا نے اپنی اس جارحیت سے ثابت کر دیا کہ وہ بغاوت پیشہ ہے۔ یہ لفظ سابق امریکی صدر نے دنیا کے بعض ممالک کے لئے استعمال کیا تھا۔ بغاوت پسندی یہی ہے جو ان لوگوں نے کی ہے۔ انسانیت کے خلاف بغاوت، ملکوں کے ثبات و استحکام کے خلاف بغاوت۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ برائی کا محور حقیقی معنی میں وہ خود ہیں۔ ثابت کر دیا کہ وہ شیطان بزرگ ہیں۔ وہی لقب جس کا استعمال عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ان کے لئے کیا۔ انگریزوں نے بھی بہت بڑی غلطی کی۔ برطانیہ امریکا کے پیچھے لگ گيا تاکہ مال غنیمت میں اسے بھی کچھ مل جائے لیکن اس سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ اس علاقے میں، ایران میں، عراق میں ہندوستان اور دوسرے خطوں میں برطانیہ بے حد منفور ہے کیونکہ ان علاقوں میں اس نے ظلم و شر پسندی کی انتہا کر دی تھی۔ تقریبا تیس سال، چالیس سال پہلے یہ تبدیلی ہوئی کہ دنیا میں اس سے بھی زیادہ نفرت انگیز چہرا سامنے آ گیا تھا جس کی وجہ سے برطانیہ کا کریہ المنظر چہرا لوگ فراموش کرتے جا رہے تھے لیکن یہ جو جناب بلیئر ہیں انہوں نے انگریزوں کا کریہ المنظر چہرا دنیا والوں کو پھر یاد دلا دیا۔ اس کی یاد تازہ کر دی۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ تو اس تیسرے قضیئے یعنی فوجی جارحیت کے سلسلے میں بھی ہم نے دنیا کی دوسری قوموں کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے اس کی مذمت کی اور مذمت کرتے رہیں گے۔ ہم اسے بین الاقوامی روابط میں ایک بدعت، ایک اسلامی ملک پر جارحیت اور اسلام، مسلمین اور امت اسلامیہ پر جارحیت قرار دیتے ہیں۔
چوتھا معاملہ ہے عراق پر امریکا کے آئندہ کے تسلط کا۔ انہوں نے جارحیت تو کی ہی، بے شمار جرائم تو انجام دئے ہی ستم بالائے ستم یہ کہ وہ کسی غیر ملکی یعنی امریکی یا برطانوی حاکم کے ذریعے جو یا تو صیہونی ہوگا یا پھر صیہونی حلقوں کا مطیع ہوگا، عراق کا نظم و نسق چلانا چاہتے ہیں، اسے ایک غیور عرب اور اسلامی ریاست کا سربراہ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بخیال خود ایک تقسیم بندی کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں امریکا اور برطانیہ کے اختلافات بھی واضح ہیں۔ بصرے کا علاقہ جو تیل والے علاقوں کے نزدیک واقع ہے اور برطانیہ کو تیل کی مہک کچھ زیادہ ہی پسند ہے، برطانیہ کو اور بغداد امریکیوں کو ملا ہے جو اقتدار کا مرکز ہے اور امریکی اقتدار کے بھوکے ہیں۔ البتہ ان کے درمیان اختلافات بہت ہیں جو بڑھتے جا رہے ہیں، عوام کے سامنے بھی یہ چیزیں آئیں گی۔ لیکن سر دست ان کے درمیان اس طرح کا اتفاق رائے ہوا ہے۔ یہ سامراج اور خالص رجعت پسندی کے ابتدائی دور کی جانب واپسی کا نمونہ ہے۔ شروعات میں سامراج ایسا ہی تھا۔ یورپ کی سامراجی حکومتیں ایشیا اور افریقا میں ملکوں پر طاقت کا استعمال کرکے قبضہ کر لیتی تھیں پھر اپنا ایک فوجی حاکم وہاں بٹھا دیتی تھیں جو پورے علاقے کو کنٹرول کرتا تھا۔ ہندوستان، آسٹریلیا، کینیڈا، افریقا اور متعدد ممالک میں انہوں نے یہی کیا۔ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ کسی قوم پر ایک غیر ملکی فوجی حاکم کو مسلط کر دینا ٹھیک نہیں ہے تو انہوں نے اپنی روش تبدیل کر دی۔ اب انہوں نے انہی ممالک کے اندر سے (اپنی مرضی کے) افراد کو تلاش کرکے منصوب کرنا شروع کر دیا جو پوری طرح ان ( سامراجی حکومتوں) کے مطیع و فرمانبردار ہوں۔ ان کی مدد کرتی تھیں، انہیں وسائل فراہم کرتی تھیں، وہ شخص اس ملک کو لوٹ کھسوٹ اور غارت گری کے لئے پوری طرح ہموار کر دیتا تھا۔ سارے دروازے کھول دیتا تھا تاکہ سامراجی حکومتیں آئیں اور جو جی میں آئے کریں۔ ایک دور اس طرح سے گزر گیا۔ بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ طریقہ بھی کارگر نہیں ہے اور ان سے غلطی ہوئي ہے کیونکہ ان قوموں نے ان حکام کے خلاف جو بظاہر تو مقامی ہی تھے لیکن در حقیقت ان (سامراجی، ظالم اور استبدادی حکومتوں) کے مطیع تھے، بغاوت شروع کر دی۔ اس روش کے بعد انہوں نے کچھ عرصے سے ایک اور روش پر کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ نئی روش بظاہر جمہوری روش ہے لیکن ثقافتی تسلط اور غلبے سے جڑی ہوئی ہے۔ (اس کے تحت) کسی ایسے فرد کا جو ان کا طرفدار ہے، انہیں کے بقول منتخب کیا جاتا ہے۔ ایران میں (شاہ کے) طاغوتی دور میں یہی چیزیں پیش آئیں۔ پہلے انگریزوں نے رضا پہلوی کو منصوب کیا۔ اس کے بعد محمد رضا کو۔ لیکن جب محسوس کیا کہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں تو اسے حکم دیا کہ علی امینی کو وزیر اعظم منصوب کرے جو نام نہاد اصلاحات انجام دے۔ اس (شاہ) نے دیکھا کہ اس طرح تو زمام امور اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی تو اس نے کہا کہ اصلاحات کا کام وہ خود انجام دے گا۔ اس طرح وہ چھے نکاتی شرمناک اصلاحات طاغوتی دور میں انجام پائیں۔ یہ دنیا کے مختلف خطوں میں آزمائے ہوے سامراجی طریقے ہیں۔ یہ ایک بار پھر سامراجیت کے ابتدائی دور کی جانب پلٹے ہیں۔ یعنی ایک ملک کو اسلحے کے زور پر اپنے قبضے میں لے لیا اور پھر وہاں اپنا حاکم بٹھا دیا۔ یہ بڑا عجیب و غریب، رجعت پسندانہ، گھٹیا، توہین آمیز اور مغرورانہ کام ہے جس کے نتیجے میں وہ منہ کے بل گریں گے۔
صورت حال کو نہ سمجھ پانا اور وقت کو نہ پہچان سکنا ان کی بڑی غلطی ہے۔ اس کی مذمت تو تقریبا پوری دنیا حتی حکومتوں نے کی ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام قابل عمل نہیں ہے۔ ہمارے موقف کے مطابق جو بالکل واضح ہے اور جو میں عرض کروں گا، یہ کام سو فیصدی غلط ہے۔ یہ حاکم نہ تو غیر ملکی ہونا چاہئے نہ فوجی اور نہ صیہونی بلکہ عراقی عوام کا منتخب کردہ ہو اور جارح طاقتوں سے کسی طرح کی وابستگی نہ رکھتا ہو۔ عراقی عوام ایسا حاکم چاہتے ہیں۔ ویسے امریکیوں نے اپنے خیال میں ہر چیز کا اندازہ لگا ليا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم فلاں شخص کو منصوب کر دیں گے، اس طرح زمام مملکت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے، کچھ مدد بھی کریں گے اور پھر مقامی ثقافت کو تبدیل کر دیں گے۔ یعنی تعلیم و تربیت کا شعبہ اپنے قبضے میں لے لیں گے۔ وہ بخیال خود افغانستان میں بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ امریکیوں نے ایک ایشیائی ملک میں پشتو اور فارسی زبانوں میں کئی ٹن کتابیں شائع کروائي ہیں جنہیں وہ افغانستان کے ہائی اسکول کے طلبہ میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان افغان طلبہ کی نظر میں امریکا کی شبیہ کوئی بری شبیہ نہ ہو اور افغانوں کی ثقافت اور تاریخی نقطہ نگاہ بالکل بدل جائے۔ یہی کام وہ بخیال خود عراق کے لئے بھی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کام کا نتیجہ ہرگز ان کی مرضی کے مطابق نہیں نکلے گا۔ عوام اور اساتذہ کے دلوں میں امریکیوں کے جرائم سے نفرت اور ان کی دشمنی اس طرح گہرائی تک اتر چکی ہے کہ جو نسلا بعد نسل منتقل ہوتی رہے گی۔ تو یہ چوتھا معاملہ دیگر قضیوں سے مختلف ہے۔ یعنی اگر یہ کام نہ بھی کرتے تو ان کی جارحیت ہی اپنی جگہ ایک بہت بڑا جرم تھا۔ اگر جارحیت نہ کرتے تو بھی یہ سارے اقدامات جو جارحیت کے بعد انجام پائے اپنے آپ میں بہت بڑا گناہ اور ملت عراق کی توہین کے اقدامات تھے۔ واقعی انسان تعجب کرے کہ یہ لوگ کیسے اتنے پست کام کر رہے ہیں؟ ٹیلی ویژن پر صریحی طور پر کہتے ہیں کہ عراقی قوم اپنے لئے حاکم کا انتخاب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ایسے ماضی، ایسی تاریخ، ایسی ہستیوں اور ایسی علمی و سیاسی شخصیات والی قوم کے بارے میں کوئی شخص کیونکر اتنی بے شرمانہ باتیں کر سکتا ہے اور پوری قوم پر عدم صلاحیت کا الزام لگا سکتا ہے۔ ہم اس چیز کو ملت عراق کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی مانتے ہیں، اس کی مذمت کرتے ہیں اور ہم عراقی عوام پر مسلط کی جانے والی نئی آمریت کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ خود عراقی قوم بھی اس چیز کو قبول نہیں کرے گی۔ ملت عراق صدام کے چنگل سے اس لئے تو آزاد نہیں ہوئی تھی کہ امریکی فوجی آمر کے آہنیں پنجے میں گرفتار ہو جائے۔ اس انداز سے تو اگر کسی عراقی شخص کو بھی وہ مامور کرتے ہیں تو عراقی عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ بہرحال اس صورت حال کو جس کی وہ بات کر رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں پر ایک نئی جارحیت سمجھتے ہیں، ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا فوجی فتح جس میں متعدد شکوک و شبہات بھی ہیں، حتمی فتح کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ امریکیوں کو اس قضیئے میں نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے، شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ ابھی شاید انہیں اس کا اندازہ نہ ہو لیکن مستقبل قریب میں اس شکست کے آثار یقینا نمایاں ہوں گے۔ انہیں بڑی بنیادی قسم کی شسکت ہوئی ہے۔ ان کی سب سے پہلی شکست تو مغربی جمہوریت اور آزادی کے نعرے میں ہوئی ہے۔ یہی لبرل جمہوریت جس کا وہ دنیا میں ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ لبرل ڈیموکریسی کسی بھی قوم کو اس مقام تک نہیں پہنچا سکتی جہاں وہ حقیقی معنی میں انسانوں کی آزادی کا احترام کرے۔ (لبرل ڈیموکریسی کا) یہ نظریہ جب بھی مفادات کا تقاضا ہو انسانوں کے حق انتخاب، آزادی اور زندگی کو پامال کر دینے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ اگر امریکی سچ بول رہے ہیں اور وہ واقعی جمہوریت کے حامی ہیں تو وہ آج ہی عراق کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں۔ آپ صدام کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے سو ہٹا دیا، اب آپ کا عراق میں کیا کام؟ اگر وہ سچے ہیں اور جمہوریت اور قوموں کے حقوق کو مانتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ فورا عراق سے اپنے فوجیوں کو باہر نکال لیں اور عراق کے داخلی امور میں کسی طرح کی بھی مداخلت نہ کریں۔ معلوم ہے کہ وہ ایسا کچھ بھی کرنے والے نہیں ہیں۔
آئیڈیالوجی کی سطح پر بھی امریکیوں کو شکست ہوئی اور ان کے نعرے جھوٹے ثابت ہو گئے۔ یہ بات دنیا کے عوام نے بھی دیکھی۔ عوام جو نعرے لگا رہے ہیں ان سے عیاں ہے کہ وہ امریکیوں کے جھوٹ کو سمجھ گئے ہیں۔ مختلف مظاہروں میں دنیا کے عوام نے دس پندرہ نعرے جو زبان سے لگائے یا پلے کارڈوں پر رقم کئے ہیں وہ نعرے مجھے لاکر دکھائے گئے، ان سے واضح ہے کہ دنیا کے عوام معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ نعرے یہ ہیں؛ یہ جنگ تیل کی جنگ ہے، آزادی اور انسانی حقوق کی جنگ نہیں یہ جنگ امریکا کی بحران زدہ معیشت کو نجات دلانے کے لئے ہے یہ جنگ ہٹلری جارحانہ قبضہ ہے شیطنت کا محور امریکا، برطانیہ اور اسرائیل ہیں یہ نعرے دنیا کے عوام لگا رہے ہیں، تہران کے عوام نہیں۔ یہ نعرے وہ اس حقیقت کے عکاس ہیں جسے ملت ایران نے اپنی بصیرت سے کام لیتے ہوئے مدتوں پہلے محسوس کر لیا تھا۔ آج پوری دنیا اس چیز کو سمجھ چکی ہے اور عالمی رائے عامہ اسی کو دہرا رہی ہے۔
امریکیوں کی تیسری شکست سیاسی شکست ہے۔ اس وقت امریکا دنیا میں سیاسی لحاظ سے تنہا ہو چکا ہے۔ ایک ریٹائرڈ فوجی کو حاکم منصوب کرنے کے امریکی فارمولے کو ان کے اپنے دو تین لوگوں کو چھوڑ کر دنیا میں کسی بھی حکومت نے قبول نہیں کیا ہے۔ عرب، اسلامی اور یورپی حکومتوں نے بھی اسے مسترد کیا ہے۔ امریکیوں کی تیسری شکست ان کی فوجی ہیبت کا چکناچور ہو جانا ہے۔ انہوں نے پروپیگنڈا کیا تھا کہ دو تین دن کے اندر وہ عراقی فوج کو شکست دے دیں گے۔ بعد میں واضح ہوا کہ دو تین دن نہیں اس سے کہیں زیادہ عرصے میں بھی تسلط حاصل کرنے کی طاقت ان میں نہیں ہے۔ اگر کہیں عراقی فوجیں لڑی ہوتیں تو یہ جنگ ابھی جاری ہی رہتی اور کچھ معلوم نہیں کہ بھاری جانی نقصان کے بعد فوجی فتح بھی حاصل ہو پاتی یا نہیں۔ عراقیوں کو جب جنگ کرنا چاہئے تھی، انہوں نے نہیں کی، اس سلسلے میں سوال اور ابہام باقی ہے! میں نے جیسا کہ عرض کیا، اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا لیکن یہ ان سوالات میں ہے جن کے جواب آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔
چوتھی شکست، ان کے ذرائع ابلاغ کے اعتبار اور اعتماد کا ختم ہو جانا ہے۔ دنیا میں ان کے ذرائع ابلاغ کا اعتبار پوری طرح ختم ہو چکا ہے۔ پوری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ امریکی حکام خبروں کو آشکارا سینسر کر رہے ہیں، نامہ نگاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے بعد میں کہا کہ ہم نے غلطی سے ایسا کیا تھا لیکن کوئی بھی ان کے اس عذر لنگ کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ وہ اپنے نقصانات کے بارے میں بھی جھوٹی خبریں نشر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں ہمارے اسی، نوے یا سو لوگ مارے گئے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان کی یہ بات غلط ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کیا ہے۔ امریکیوں کی ہلاکتوں کی تعداد تو کویت کے مردہ گھروں کے اہلکاروں سے معلوم کرنی چاہئے۔ امریکی عوام کو بھی بعد میں معلوم ہوگا۔ جنگ ویتنام میں بھی بعد میں اعلان کیا تھا کہ ہمارے پچاس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، جنگ کے دوران تو وہ صرف دس، بیس، سو اور دو سو کے مارے جانے کی ہی بات کرتے تھے۔
آخر میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ میرا نظریہ تو یہ ہے کہ اس واقعے میں جو رونما ہوا امریکی حکومت کو اکسانے اور اس کام کے مقدمات فراہم کرنے میں صیہونیوں کا سب سے بڑا کردار رہا اور مشرق وسط کے اس نئے نقشے سے جس کی بات جارج بش کی زبان سے سنائی دی اور سنائی دے رہی ہے، اس کے مقدمات بھی خود انہی نے فراہم کئے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی وہی اٹھا رہے ہیں۔ نیا نقشہ یہ ہے کہ مشرق وسطی میں صیہونی اپنے اطراف کے عرب اور غیرعرب ممالک میں سیاسی لحاظ سے، اقتصادی لحاظ سے اور اگر بن پڑے تو جغرافیائی لحاظ سے پوری طرح پھیل جائیں۔ اس واقعے سے سب سے زیادہ فایدہ انہی صیہونیوں اور اسی خبیث شیرون نے اٹھایا ہے۔ ان دنوں جب سب کی توجہات عراق کی جانب مبذول ہیں ہر روز فلسطینی قتل کئے جا رہے ہیں اور ان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے، وہاں دردناک المئے رقم کئے جا رہے ہیں۔
میں عراق کے سیاسی رہنماؤں سے بھی ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عراق میں سیاسی رہنماؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس وقت عراق کے سیاسی افراد کے سامنے عظیم اور تاریخی آزمائش و امتحان کی گھڑی ہے۔ وہ بہت محتاط رہیں کہ ان سے کوئی اسٹریٹیجک غلطی نہ ہونے پائے۔ صدام پر امریکا کی فتح سے نہ بہت زیادہ محظوظ ہوں اور نہ خوفزدہ، کیونکہ اس سے انہیں نقصان پہنچے گا۔ عراق کے سیاسی افراد دو چیزوں کے سلسلے میں بہت محتاط رہیں۔ ایک ہے نراجیت، غیر منطقی انتقامی کارروائياں اور تباہ کن رقابت۔ بہت محتاط رہیں۔ کیونکہ نراجیت عراق کے عوام اور مستقبل کے لئے تباہ کن ہے اور اس سے قابض قوتوں کو عراق میں پیر جمانے کا بہانہ ہاتھ آ جائے گا۔ بنابریں انہیں چاہئے کہ غیر معقول انتقامی کارروائیوں اور ٹکراؤ پر بندش لگائیں۔ اس کے لئے وہ آپس میں مل بیٹھ کر مشورہ کریں، طریقوں پر بحث کریں اور یہ کام نہ ہونے دیں۔
دوسری چیز ہے بیگانہ اقتدار سے عدم تعاون اور عدم معاونت۔ بہت محتاط رہیں کہ ان سے کہیں یہ غلطی سرزد نہ ہو جائے۔ کیونکہ یہ چیز عراق کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے رقم ہو جائےگی۔ اگر کوئی آج غیر ملکی طاقتوں کی مدد کرتا ہے اور وہ عراق میں اپنے پیر جما لیتی ہیں تو یہ کام کرنے والے شخص اور گروہ کے لئے یہ کلنک ہمیشہ کے لئے عراق کی تاریخ میں محفوظ ہو جائے گا۔ عراقی عوام آزادی، خود مختاری اور قومی و دینی امنگوں پر استوار حکومت کے طالب ہیں۔ یہ عراقی عوام کی خواہش ہے۔ ان گزشتہ برسوں میں جو لوگ عراقی عوام کی بات کرتے تھے وہ عراقی عوام اور ان کی خواہشات اور امنگوں کے وفادار رہیں اور اسے عملی طور پر ثابت کریں۔ چھپ چھپ کر کام کرنے اور غیر ملکی طاقتوں سے ساز باز کے نتیجے میں عوام ان سے بد دل ہو جائیں گے۔ وہ صرف مرضی پروردگار اور عوام کی خوشنودی کو مد نظر رکھیں اور جان لیں کہ صدام پر فوجی فتح کا مطلب عراقی عوام پر سیاسی و ثقافتی فتح ہرگز نہیں ہے۔ انہیں صدام حکومت کے خلاف فوجی فتح حاصل ہو گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انہیں عراقی عوام کے خلاف بھی سیاسی اور ثقافتی فتح مل گئی ہے یا مل جائے گی۔
اللہ تعالی کو اس کے اولیاء اور مظلوموں کے خون کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ عراقی عوام، فلسطینی عوام اور تمام مظلوم اقوام کی مدد و نصرف فرمائے، انہیں دینداری و استقامت کے زیر سایہ فتح و کامرانی کا شاہد بنائے۔ اللہ تعالی سے میری دعا ہے کہ ہماری عزیز اور با عظمت قوم پر اپنی برکتیں اور اپنے الطاف نازل فرمائے۔

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.

خطبہ دوم
بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم
الحمدلله ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على آله الأطيبين الطّاهرين. سيّما على اميرالمؤمنين والصّديقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين والحسن والحسين سيّدى شباب اهل الجنّة و على‏بن‏الحسين زين‏العابدين و محمّدبن‏على باقر علم النبيّين و جعفربن‏محمّد الصادق و موسى‏بن‏جعفر الكاظم و على‏بن‏موسى الرضا و محمّدبن‏على الجواد و على‏بن‏محمّد الهادى والحسن‏بن‏على الزكىّ العسكرى و الحجّة القائم المهدى (صلواةالله‏عليهم اجمعين) والسّلام على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين.

عزیز نمازیو! دوسرے خطبے میں میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ اپنی رفتار و گفتار اور اعمال و کردار میں تقوائے الہی کو ہمیشہ مد نظر رکھئے۔ یہ جان لیجئے کہ ملک کے حکام تمام امور میں خود اس مسئلے میں بھی جس کا ذکر پہلے خطبے میں کیا گيا یہی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی اہداف کو جو ملک اور عوام کے مفادات کے لئے سازگار بھی ہے پوری دقت نظری کے ساتھ معین اور انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ انہیں اس کام میں کامیاب کرے، انہیں یہ توفیق دے کہ تمام شعبوں میں اور تمام مواقع پر اپنے فریضے کی ادائیگی اور ملک و قوم کے مفادات کے مطابق عمل کرنے میں کامیاب ہوں۔
میں نے جو باتیں عرض کیں ان کا کچھ حصہ اپنے عرب مسلمان بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے (عربی زبان میں) پیش کرنا چاہوں گا؛
السّلام على الاخوة المسلمين و الاخواتِ المسلماتِ فى شتى انحاء العالم و خصوصاً الشعبِ لعراقىِ المظلوم المضطهد.
إنّ الحوادثَ الّتى يَمُرُّ بها العراقُ هذه الايّام، مهمةٌ جداً و معقّدةٌ و مَصيريةٌ.
فرغمَ أنَّ سقوطَ نظامِ صدامٍ الّذى شكّلَ نموذجاً للظُلم و القَسوةِ و العُنفِ و زجَّ بالشّعبِ العراقىِ لسنينَ طويلةٍ فى سجنِ استبدادهِ و قَمعهِ الدّموىِ، يُشكّلُ يوماً للفرحةِ التاريخيةِ، الّا أنَّ المصائبَ الفادحةَ الّتى جرَّها الهجومُ الامريكىُ البريطانىُ على الشعبِ، و ما يخطِّطُه المهاجمونَ لمستقبلِ هذا الشعبِ، يَتركُ طعمَهُ المرَّ فى ذائقةِ هذا الشعبِ الغيور الشريفِ، و يَحزنُ كلَ المسلمينَ و الاحرار فى العالم.
انّ المذابحَ الّتى طالتِ الشعبَ الاعزلَ، حتّى ضاقت عليهم الارض بما رحبت. و أَنَّاتِ الثّكالى و المصابين و بكاءَ الاطفال الجائعينَ و المجروحين المتروكينَ دونَ علاجٍ، و تهديمَ مساكنِ الناس، و اعتقالَ وأسرَالعابرينَ بحُججٍ واهيةٍ،والاعتداءَ على حرمةِ العوائلِ، و فرضَ جوِّ الرعبِ و الوحشةِ الشاملةِ، و توجيه الاهاناتِ و الاذلالِ للرجالِ الغَيارى امامَ أعينِ ابنائِهم و نسائِهم، و القضاءَ على البنى التحتيةِ الحيويةِ للبلادِ، و القاءَ الالافِ من القنابلِ و الصواريخِ و حِممِ المَدافعِ على المدنِ، و الّتى يُعتبرُ كلٌ منها - لوحدهِ - جريمةَ حرب إِنّ كلّ ذلك منح المهاجمينَ قصبَ السبقِ على جَرائمِ صدامٍ التى قام بها لسنينَ متماديةٍ.
و لن يشعُرَ أىُ شعبٍ بامضَّ و امرّ من أن يَرى الجنودَ الاجانبَ مغترّينَ بِفَتحِهم يطأوُن بيته و أرضَه بكلِّ حرّيةٍ و يتحكَّمون فى مصيرِه.
لقد ادّعى الامريكانُ و الانگليزُ أنّهم قاموا بهجومهم هذا لإِزاحةِ صدامٍ و جلبِ الديمو قراطيةِ و الحرّيةِ للعراق، و تجاهلوا - عمداً - كونهم هم الّذينَ جَهّزوا صداماً القاسىَ الظالمَ و دعموه بكلِّ ما يُمهِّد له القيامَ بتلكَ الاعمالِ الاجراميةِ القاسيةِ، و أنّهم هم الّذينَ أرخوا له العنانَ ليقومَ بمذبحةِ عامِ واحدٍ و تسعينَ الرّهيبةِ و لم يزجروه حتّى برمشَةِ عَين. و هم الّذينَ ساعدوه ليستخدمَ السلاحَ الكيمياوىَ ضدَ الايرانيينَ، بل و ضدَ شعبِ العراق فى حلبچه و غضُّوا الطّرف عنه و همُ الّذين قدَّموا له فى حربِ السنواتِ الثمانِ الّتى فرضَها على الجمهوريةِ الاسلاميةِ كلَّ ما يدعَمُهُ من سلاحِ و اِعلام و تغاضَوا عن كلِ المصائب التى كان يصبّها على الشعب العراقى ليلاً و نهاراً انّ دعاءَ آمريكا و انگلترا باهداء الحريّةِ للشعب العراقى يُعدُّ مِن اكبر المهاذلِ. إنّهم فى الواقعِ يعملون للسيطرةِ على العراق و للسيطرة على النفت و للسيطرة على الشرق الاوسط، و لقمع الانتفاضةِ الفلسطينيةِ، و لوَأدِ الصحوة الاسلامية. و إنّ تعيينَ حاكمٍ عسكرىٍ اجنبىٍ على العراقِ يشِكِّلُ اهانةً للحرّيةِ و السّيادةِ الشعبيةِ فى العراق.
إنّهم يخطّطون لمحوِ الهويِّةِ الاسلاميةِ و الوطنيةِ للعراق و تحويله الى مركز للتسلطِ الامريكى على كلِ الشرقِ الاوسط و منابعهِ و ذخائِرْ البشريّة البرية و المادّية إنّهم لايعتبرون الشعب العراقىَّ قادراً على تقرير مصيره و مالكاً لحقوقه الطبيعيه المسلّمةَ فى ارضه. إنّ افضلَ العناصرِ العراقية - فى رأيِهم - هىَ تلكَ الّتى تُقدّم خدمةً اكبرَ للمعتدين الاجانبِ و تُديرُ ظهرَها لشعبها و وطنها.
انّ الوجدانَ العامَ للشعبِ العراقىِ و لكلِّ الاحرارِ، و للتاريخ، يَحكمُ على أَىِّ خدمةِ لإمريكا كى تحققَ اهدافها الاستعماريَة اللئيمةَ، بأنها خيانةٌ للعراقِ و شعبهِ و تاريخه.
انّ الحلم الّذى يحلُمُ به الامريكانُ و الانگليزُ سوفَ لن يتحققَ، ذلك أنّه و فى كلِ مكان تَقِفُ المقاومةُ بِلُغتِها و أُسلوبها بوجهِ الاعتداء و لُغته و سلوكهِ، و لن يكونَ الشعبُ العراقىُ المعروف بغيرتهِ و حميّتهِ مستثنى من هذه القاعدةِ.
لقد قامَ الشعبُ الفلسطينى المظلومُ عبر مقاومتهِ الباسلةِ بسلب العدو الصهيونىِ السّفاكِ رغم شدّة بطشه قدرته على كسر شوكة المقاومة و استطاعَ الشعبُ الايرانىُ المؤمنُ الثائر عَبر وحدتهِ و استقامتهِ أنْ يُفشلَ الحربَ العدوانيةَ الّتى فرضَها نظامُ صدام بمعونةِ آمريكا و انگلترا - نفسيهما - و دعمِ الاتحاد السوفيتىِ السابق و معسكره الشرقىِ على مستوى السلاحِ و الاعلامِ و السياسة و يحافظ على حدود بلاده و يطرد العدوّ الى خارجها.
لقد عانتِ المدنُ الايرانيةُ و لسنواتٍ على يدِ صدام الظالمِ هذا من قَصفِ الصواريخِ و القنابلِ، و ضُرب شبابُها المضحّى الحُر بالقنابل الكيمياويةِ، الّا أنَّ مقاومةَ الشعبِ تُبطل كلَّ اساطير الديكتاتوريةِ و الاستعمار و القمعِ و الاعتداءِ.
انّ المهاجمينَ استطاعوا أن يقهروا النظامَ البعثىَ و هو ما كنّا نَتوقّعُهُ لنظامٍ لايحميه شعبُه بل يعتمدُ على أجهزةٍ و عناصرَ قمعيةٍ، الّا أنّ هولاء المهاجمينَ لن يستطيعوا ان يقهروا الشعب العراقىِ و إذا ارادوا أن يتحاشَوا مواجهة الشعب العراقى فانّ عليهم أن يُخلوا العراق من جنودِهم فوراً و يمتَنِعوا تماماً عنِ التدخلِ فى مصيرِ العراق و شعبهِ.
انّ الحكمَ فى العراقِ و المصادرَ و الثرواتِ العراقيةَ هو مِلكٌ للشعبِ العراقىِ و هو قادرٌ على تعيينِ حكومتهِ الآتيةِ.
و لو كانَ الامريكيونَ صادقينَ فى ادعائِهم للديمو قراطية فإنّ عليهم ان لا يتدَخّلوا فى الشّؤونِ العراقيةِ ليقومَ الشعبُ بنفسه عبرَ الاستفتاءِ العامِ بتعيينِ نظامِه المسقبلىِ و انتخاب مسؤوليهِ و تعيينِ الاسلوبِ المناسبِ لإعادةِ إعمار ما هدَّمه هؤلاءِ المهاجمونَ إنّ موقف الحكومةِ و الشعبِ الايرانىِ واضحٌ.
لقد خالفنا نظامَ صدامٍ القمعى الظالمِ، و لقد اعترضنا على اعتداءِ الاجانبِ على العراق. و بالنسبةِ للحربِ بينَ صدامٍ و آمريكا و انگلترا اعبَدنا الطرفين الظامين، و لم نقدّم اىّ لإىّ منهما و اعلنّا عدمَ الانحيازِ لإىّ منهمَا. و لكنّا لن نقفَ على الحياد فى مجال الصراع بين المحتلّين و الشعب العراقى.
انّ المحتلَّ معتدٍ مدان، وإنّ الشعبَ المقاوم محقٌّ و مظلومٌ و إنّ دَعمنا المعنوىَّ و السياسىَّ لكلِ شعبٍ مظلومٍ معتدى عليه هو سبيلُنا الّذى لانحيد عنه.
انّ الشعبَ العراقىَ اليومَ يحملُ مسؤوليةً ضخمةً. و انّ اىّ تفريطٍ او تمزّقٍ فى الموقفِ يرسم فى طيّاته مستقبلاً صحباً لهم.
فالوحدةُ الوطنيةُ، و التواجدُ فى الساحة، و المساهمةُ فى تشكيلِ الحكومةِ المستقّلةِ المدافعةِ عن الهويّةِ الاسلاميةِ، هى من اكبرِ واجباتِ الشعبِ العراقىِ و خصوصاً العلماء و المثقّفين و النُخَبِ العلميةِ و السياسيةِ.
والله تعالى اسألُ أن يوفّقَ امّتَنا الاسلاميةَ للسير على دربِ التزكيةِ و التقوى لتحقيق اهدافِها المنشودةِ إنّه هو السّميع المجيدُ، «و قل اعملوا فسيرى الله عملكم و رسوله و المؤمنون» و استغفرالله لى و لكم.

بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم
قل هو الله احد. الله الصّمد. لم يلد و لم يولد و لم يكن له كفواً احد.

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته