قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بہت خوشی ہورہی ہے کہ خدا نے یہ توفیق عطا کی کہ آپ لوگوں سے اور ان ہستیوں سے جو انقلاب کی آزمودہ ہیں اور جنہوں نے اس راہ میں سختیاں برداشت کی ہیں ، ملاقات ہورہی ہے۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں بالخصوص ان بھائیوں کا جو خلوص کے ساتھ طولانی راستہ پیدل طے کرکے تہران آئے ہیں۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ آپ کی تمام حرکات وسکنات کا وہ خود آپ کو اجر عطا کرے ۔
ایک وقت تھا جب دشمن کی قید میں بند جنگی قیدیوں اور یرغمالیوں یعنی آپ کا نام لیا جاتا تھا تو، دل پر غم کے بادل چھا جاتے تھے، دل پر مایوسی چھا جاتی تھی۔ واقعی کوئی نہیں جانتا تھا کہ انسانیت سے دور، شقی القلب حکومت کے اختیار میں میدان جنگ کے ان فداکار اور پاک و پاکیزہ نوجوانوں کا انجام کیا ہوگا اور یہ معاملہ کہاں تک جائے گا۔ میں بھولوں گا نہیں کہ رمضان المبارک میں جب یہ دعا پڑھتے تھے کہ اللہم فک کل اسی تو میر دل پر غموں کا ہجوم ہو جاتا تھا۔ جنگی قیدیوں کا غم، ان کے ماں باپ اور بیوی بچوں کا غم، ان لمحوں کا غم جن کے بارے میں یہ نہیں معلوم تھا کہ کیسے ہیں مگر اتنا جانتے تھے کہ کتنے تلخ ہیں؟ ہمارے دل پر ان تمام غموں کا ہجوم ہوتا تھا اور دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلتی تھی، ہماری ساری امید خداوند عالم کی عظیم اور مقدس ذات کے معجزے سے تھی۔ ورنہ ، معمول کے اسباب ، معاملات کی دوسری ہی تصویر پیش کرتے تھے۔ ملت ایران کے پاک طینت اور فداکار جنگی قیدی، بغیر کسی بات اور بہانے کے، مختصر سی مدت میں، اور وہ بھی اس طرح کہ اس کا آغاز دشمن کرے ، دسیوں ہزار کی تعداد میں ملک میں واپس آجائیں، ہمارے لئے ایک خواب تھا جو خدا کی لاثانی ذات مقدس کے علاوہ اور کسی ذریعے سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ تمام چیزیں قدرت خدا کے اختیار میں ہیں۔ ہماری سانسیں بھی قدرت الہی کے اختیار میں ہیں۔ اس خواب کی تکمیل ایک معجزاتی قدرت نمائی کے علاوہ اور کسی ذریعے سے ممکن ہی نہیں تھی۔
میں نے بارہا سوچا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی، یہ بد اخلاق، بہانے تراشنے والی، شقی القلب حکومت، جب تک ہمارے پچاس ساٹھ ہزار سپاہیوں کو ہمیں واپس کرے گی، برسوں گذر جائیں گے۔ جیسا کہ آج آپ دیکھ رہے ہیں بہت زیادہ امکان ہے کہ ہمارے بہت سے جنگی قیدی ابھی اس کے پاس رہ گئے ہیں۔ ہمیں ان کی تعداد نہیں معلوم ہے لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ ہمارے بہت سے غازی اب بھی دشمن کی قید میں ہیں۔ اس وقت بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیسا رویہ پیش کر رہے ہیں۔ کس کس طرح کی بہانے بازی کر رہے ہیں۔ کس طرح پریشان کررہے ہیں۔ بین الاقوامی اصطلاح میں کس طرح کی بد اخلاقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ نارمل لوگ نہیں ہیں۔ اگر یہ عام حالات میں ہمارے پچاس ساٹھ ہزار جنگی قیدیوں کو واپس کرتے تو کتنا دل خون ہوتا، کتنی مشکل پیش آتی، کتنا طول دیتے۔ ممکن تھا کہ اسی کام میں دس پندرہ سال لگ جاتے۔ مگر قدرت الہی درمیان میں آئی، ایک بار پھر ملت ایران پر خدا کا لطف و کرم ہوا اور اتنا بڑا کام تھوڑی سی مدت میں انتہائی آسانی کے ساتھ انجام پا گیا۔ اس قوم کے دسیوں ہزار جگر گوشے، فرزندان قوم، یعقوب سے بچھڑ جانے والے یوسف، تھوڑے سے عرصے میں اپنے وطن واپس آ گئے۔ یہ واقعہ ایک درس ہے۔ اس واقعے میں بہت سے درس ہیں۔ میں ان کی طرف اشارہ کروں گا اور آپ کے سامنے اس واقعے پر فکر کرنے کا ایک بنیادی نکتہ پیش کروں گا۔ اس کے بعد آپ عزیزوں کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ بہت سی چیزیں دنیا میں نہ ہونے والی ہوتی ہیں یا بہت مشکل سے ممکن ہوتی ہیں۔ انسانوں کے لئے ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ کاموں اور آرزوؤں کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ مایوسی اس انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے جو کسی آرزو یا آئیڈیل تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اس سے کیا فائدہ، ہم یہ کام تو نہیں کرسکتے ہیں پھر بلا وجہ کیوں کوشش کریں؟ تو یقین رکھیں کہ وہ کام نہیں ہوگا۔ اسی بناء پر اسلام میں مایوسی کو منفی عوامل میں شمار کیا گیا ہے اور بعض اوقات مایوسی کو گناہ کبیرہ بتایا گيا ہے۔ جیسے یاس من روح اللہ (1) یعنی خدا کے لطف و کرم اور اس کی خاص توجہ کی طرف سے مایوسی ہے۔ اگر انسان اس سے مایوس ہوا تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔ ہمیں مایوس ہونے کا حق نہیں ہے۔ خدا کی رحمت سے مایوسی، گناہ کبیرہ ہے۔ کسی کو خدا کی رحمت سے مایوس ہونے کا حق نہیں ہے چاہے اس رحمت میں حائل رکاوٹیں اس کو زیادہ نظر آتی ہوں۔ مایوسی کا کیا تک ہے؟ بعض جگہوں پر مایوسی گناہ کبیرہ تو نہیں، لیکن مانع کبیرہ یعنی بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ انقلاب کی کامیابی سے قبل، جدوجہد کے دور میں میں بعض لوگوں سے کہتا تھا کہ تم جو اسلامی حکومت اور اسلامی نظام پر عقیدہ رکھتے ہو اور اس بات کو قبول کرتے ہو کہ اسلام ہم سے اسلامی معاشرہ چاہتا ہے تو اقدام کیوں نہیں کرتے ہو؟ ہمارا فریضہ صرف انفرادی عمل، نماز، روزہ اور طہارت و نجاست کا خیال رکھنا ہی تو نہیں ہے۔ تو کہتے تھے کہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیا فائدہ؟ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ دشمن کس طرح مسلط ہے؟ آج جب ہم دشمن کہتے ہیں تو ہماری مراد عالمی سامراج کا وسیع نیٹ ورک ہوتا ہے۔ آج اس سے کم کو ہم دشمن نہیں سمجھتے۔ کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہے۔ لیکن اس زمانے میں جب ہم دشمن کہتے تھے تو ہماری مراد ، عالمی سامراج کا وسیع نیٹ ورک نہیں ہوتا تھا بلکہ شاہی نظام کی خفیہ ایجنسی مراد ہوتی تھی جو شاہی نظام کا اپر ہینڈ تھی ۔ کوئی چیز اس سے بالاتر نہیں تھی۔
آپ دیکھیں کہ جب کوئی قوم طوفان کی طرح اٹھتی ہے تو حکومتی ادارے کس طرح خس و خاشاک کی مانند اڑ جاتے ہیں ۔ دیکھا کہ مشرقی یورپ میں کیا ہوا اور کس طرح ان کا سارا نظام ایک ایک کرکے زمیں بوس ہوگیا۔ ان چند برسوں میں ہم نے ایشیا افریقا اور دوسری جگہوں پر کتنے استبدادی اور سامراجی نظاموں کو ختم ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ سب سے نزدیک وہی شاہی نظام تھا۔ شاہی نظام کے ظاہری امور اسلامی جمہوری نظام کی طرح تو نہیں تھے ۔اس نظام میں حکام اور سرکاری اہلکار عوام کے دوست ہیں ۔عوام سے قریب ہیں ۔ لوگ اس بات کو دیکھتے ہیں ۔صدر مملکت کو دیکھیں کہ جب کسی شہر میں پہنچتا ہے تو لوگ اس طرح اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں جیسے بچوں نے باپ کو دیکھ لیا ہو۔ کتنی محبت اور لگاؤ سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس سے اپنے قلبی لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں ۔اس کو اپنے خطوط دیتے ہیں اور وہ بھی لوگوں کے مسائل کو حل کرتا ہے۔ اس دور میں ایسا تو نہیں تھا۔
عوام اور حکام کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ جسمانی لحاظ سے بھی اور فکری لحاظ سے بھی۔ لوگ انہیں کسی دوسری دنیا کی کوئی اور ہی چیز سمجھتے تھے۔ البتہ ان سے نفرت بھی کرتے تھے۔ ( یہی فاصلہ نفرت کا باعث تھا) حکام کی ایسی تصویر بنا رکھی تھی کہ جیسے وہ بہت سخت گير، ناقابل شکست اور دسترس سے باہر ہوں لیکن آپ نے دیکھا کہ عوام میدان میں اترے اور اس ناامیدی کے باوجود جسے پھیلانے کی کوشش کی جا رہی تھی، کس طرح اس نظام کو تہہ و بالا کر دیا۔ روئی کے گالوں کی طرح اس کا شیرازہ بکھیر دیا۔ مایوسی اس بات کا باعث ہوتی ہے کہ بعض لوگ میدان میں نہ اتریں۔ مایوسی کو خود سے دور کرنا چاہئے۔ جب آپ بعثی حکومت کی جیلوں میں تھے، جہاں تک دیکھتے تھے آپ کی آنکھوں کے سامنے تاریکی تھی۔ اس ہنٹر بدست سپاہی سے لیکر غلیظ بعثی افسروں اور صدام تک آپ کے لئے، سب کے سب جیسے پشتہا پشت کے ذاتی اور خونی دشمن تھے۔ جس کے ہاتھ میں بھی آپ پڑ جاتے تھے وہ آپ کو سخت ترین ایذائیں دیتا تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ پوری فضا تاریک تھی۔ ہم بھی جو یہاں آپ سے دور گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے فراق میں غمگین تھے۔ ہم سب غمزدہ تھے۔ میں خود ذاتی طور پر یہی محسوس کرتا تھا اور میں جانتا ہوں کہ ملت ایران کی اکثریت یہی محسوس کرتی تھی۔ چاہے اس کے گھر اور خاندان کا کوئی جنگی قیدی تھا یا نہیں۔ سب یہی محسوس کرتے تھے۔ وہ بھی جب دیکھتے تھے تو انہیں بھی ہر طرف تاریکی ہی نظر آتی تھی لیکن اس مایوس نگاہ کے پیچھے امید و فضل الہی کی ایک کرن بھی ضو فگن تھی مگر ہم کو نظر نہیں آ رہی تھی۔ یہ ایک سبق ہے۔ کچھ لوگ اس بات کو محال کیوں سمجھتے ہیں کہ دنیا کی سامراجی طاقتوں پر غلبہ پایا جا سکتا ہے؟ کچھ لوگ اس جانب سے مایوس کیوں ہیں کہ اسرائیل کو علاقے سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کچھ لوگ اس بات کی جانب سے مایوس کیوں ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو آج کی مظلومیت کی حالت سے نجات دلائی جا سکتی ہے ؟
آج پوری دنیا میں مسلمان مظلوم ہیں۔ یورپ، ایشیا، کشمیر، بعض دیگر ایشیائی ملکوں کے مسلمان، افریقا کے مسلمان، وہ الجزائر کے مسلمان، وہ دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں کے مسلمانوں کی اسلام پسندی ہر جگہ مسلمان مظلوم ہیں۔ ہر جگہ مسلمانون کا خون بہایا جا رہا ہے۔ انہیں بے رحمی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ سلوک میں انسانیت اور انسانی اصولوں کی پابندی نہیں کی جاتی۔ مقبوضہ فلسطین ہو، لبنان ہو یا دوسرے علاقے ہوں، کوئی یہ امید کیوں نہ رکھے کہ کبھی یورپ میں، ایشیا میں، مشرق وسطی میں، افریقا میں، سامراجی طاقتوں کے مرکز میں مسلمانوں کو عزت و شوکت حاصل ہوگی۔ کیوں نہیں ہوگی؟ کچھ لوگ مایوس کیوں ہیں؟ کچھ لوگ اس بات کی جانب سے کیوں مایوس ہیں کہ ہم اپنے ملک میں کبھی مکمل اسلامی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے؟
جب سے یہ نظام قائم ہوا، اس وقت سے اب تک ہم نے کافی پیشرفت کی ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل ایران میں جو نجس نظام حکومت تھے ان کا اس اسلامی نظام سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں حکومت اور سیاست کی بنیاد برائیاں اور بد عنوانیاں تھی۔ محمد رضا اور کے اس کے نزدیکی حوالی موالیوں سے لیکر نچلی سطح تک، ہر طرف برائیاں اور بد عنوانیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے یہ حالات شائع ہو چکے ہیں۔ یقینا آپ نے دیکھا اور پڑھا ہے۔ شاید ان کے حالات کے بارے میں دس پندرہ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ انسان دیکھتا ہے کہ ان کے اندر، کتنی برائی اور گندگی تھی۔ اوپر سے لیکر نیچے تک ۔ ان سے وابستہ افراد، ان کا سیکورٹی کا نظام، ان کا پولیس اور فوج کا محکمہ، جو لوگ ان سے وابستہ تھے سب فاسد اور مفسد تھے۔ البتہ ان کے اداروں میں کچھ لوگ صالح اور صحیح بھی تھے۔ یعنی ان سے ان کی وابستگی کم تھی۔ انتظامیہ اور فوج میں اچھے افسران بھی تھے۔ ان کو ہم نے دیکھا ہے۔ کچھ افسر مومن، متدین اور صحیح تھے۔ فوج میں بھی اور پولیس میں بھی۔ بعض اداروں میں بھی بالخصوص تعلیمی شعبے میں ایسے افراد زیادہ تھے۔ اچھے لوگ کم نہیں تھے مگر ان کے عمائدین اور حکام اغیار سے وابستہ افراد تھے۔
علما میں بھی ان سے تعلق رکھنے والے کچھ برے لوگ موجود تھے۔ کچھ علما بھی ان سے وابستہ تھے۔ اب ہم کہتے ہیں درباری ملا، لیکن دربار ان میں سے بھی بعض ملاؤں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ یعنی یہ لوگ انٹیلیجنس ادارے، ساواک کے اپنے شہر یا علاقے کی یونٹوں سے وابستہ ہوتے تھے۔ کوتوالی یا اپنے محلے کی پولیس چوکی سے وابستہ تھے۔ اتنے ہی برے بھی تھے۔ جو بھی شاہی نظام سے وابستہ تھا وہ برا تھا۔ جتنا نزدیک تھا اتنا ہی برا تھا۔ اس نظام کے مرکز تک پہنچتے تھے تو نظر آتا تھا کہ برائیوں اور گندگیوں کا مرکز ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں معاملہ بالکل مختلف ہے۔ جو لوگ برے ہیں، جتنے برے ہیں اتنا ہی نظام سے دور ہیں. خود نظام میں حکام اور عوام پاک و پاکیزہ ہیں۔ صدر مملکت کو دیکھیں، ایک اعلا انسان، مومن، عالم، مجاہد فی سبیل اللہ، عوام دوست، زحمتیں اٹھانے والا اور آزمودہ۔ صدر مملکت کے ساتھ جو لوگ کام کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک ایسا ہی ہے۔ البتہ نچلی سطح پر فطری بات ہے کہ اعلا سطح کی خصوصیات نہیں ہوں گی۔ یعنی مرکز نظام سے جتنا دور ہوں گے، اتنا ہی صحیح و سالم ہونے کی ضمانت کم ہوگی۔ البتہ اسلامی جمہوری نظام میں نچلی سطح پر بھی اعلا اور ایسے لوگ ہیں جو کم نظیر ہیں۔ ایران میں کبھی بھی کسی بھی وقت اتنے مقدس اور پاک انسان، حقیقی معنی میں نہیں تھے۔ میں ملک کے مختلف اداروں میں کتنے پاکیزہ لوگوں کو پہچانتا ہوں۔ ان میں نوجوان بھی ہیں اور بڑے سن کے لوگ بھی ہیں جو واقعی اعلا انسان ہیں۔ سب امانتدار، صادق، دنیاوی مال و متاع سے کوئی دلچسپی نہ رکھنے والے، جو اس پل سے جس سے تاریخ کی بڑی بڑی ہستیاں نہ گذر سکیں، یعنی خود پسندی، زراندوزی اور آرام و آسائش کی چاہت کے پل سے آسانی سے گذر گئے۔ یہ نظام ایسا ہے۔ اس کے مقابلے میں ماضی کا نظام ہے۔ ہم اتنا آگے آئے ہیں۔ ظاہری حالتیں اتنی بدل چکی ہیں۔ جہتیں اور باطن اتنے بدل چکے ہیں۔ لیکن کامل اسلامی نظام ابھی بھی دور ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ مکمل اسلامی نظام تک پہنچ جائیں۔ ہماری کوشش یہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کیا فائدہ؟ یہ ہدف نہیں پورا ہوگا اس دنیا میں تو ہرگز نہیں ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم مایوس کیوں ہوں؟ ہوگا۔ ہم اسلامی جمہوری نظام میں عدل اسلامی کو اس کے حقیقی معنی میں نافذ کر سکتے ہیں۔ اسلامی نظام ایسا ہو سکتا ہے کہ حقدار کمزور ہونے کے باوجود، بغیر کسی پس و پیش کے اس سے اپنا حق لے لے جس نے اس کا حق غصب کیا ہے چاہے وہ شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ ہم اس مرحلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ یہاں تک پہنچ جائیں۔ ہم نے یہاں تک پہنچنے کا عزم کیا ہے۔ علوی حکومت کا مطلب یہ ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ اسلامی نظام میں ہر اہلکار، جو کہیں بھی اس نظام میں خدمت انجام دے رہا ہے، ایسا عادل ہو کہ اس کے پیچھے نماز پڑھی جا سکے۔ ہم ان باتوں کو بعید کیوں سمجھیں؟ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم ملک کے اداروں کی اس طرح اصلاح کر دیں کہ ناجائز فائدہ اٹھانے اور رشوت کا اشارہ بھی برہمی کا باعث ہو جائے۔ یہ سب ممکن ہے۔ بعض مایوس ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دنیا میں اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا کیوں اس سے زیادہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ جس طرح اسلامی نظام کا قیام بعید تھا، اس کا کمال بھی، چاہے ابھی ہماری دسترس سے دور ہو، اس نظام کی تشکیل کی طرح یہ ہدف بھی حاصل ہونا چاہئے۔ یہ پہلا نکتہ ۔
ایک بات میں خاص طور پر دشمن کی قید سے آزاد ہوکر آنے والے آپ غازیوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میرے بھائیو! میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ آپ کی قید کا ایک ایک لمحہ کار خیر اور صدقہ ہے۔ ایک ایک لمحہ کار خیر اور صدقہ ہے۔ وہ لمحے جو آپ نے قید کی صعوبتوں میں گذارے ہیں ایک سرمایہ ہے۔ یعنی آپ گیارہ سال، دس سال، آٹھ سال، پانچ سال، جتنا بھی قید میں رہے، صعوبتوں کا ذخیرہ آپ کے لئے فراہم ہوا۔ انفرادی لحاظ سے بھی اور اجتماعی لحاظ سے بھی یہ بات قابل غور ہے۔ سخت امتحانات اور تجربات کے نتائج کو دو نقطہ نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ہم سخت قید میں گئے، اتنی زیادہ تکالیف برداشت کیں اور واپس آئے، ہم نے اپنا کام کر دیا۔ اب دوسرے کریں یہ ایک استدلال ہے۔ (میں ایک بار پھر انقلاب سے پہلے کی جانب اشارہ کروں گا۔ بعض لوگ تھے جو یہی استدلال پیش کرتے تھے۔ کوئی جیل سے چھوٹ کر آیا تھا یا فرض کریں کسی کام میں شرکت کی تھی، کسی کاروائی میں، کسی اقدام میں۔ اب تھک گیا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے اپنا کام کر دیا۔ میرے بیوی بچے ہیں، باقی کام دوسرے کریں۔ عام طور پر اس طرح کے لوگ حلقے سے باہر ہو گئے اور چلے گئے۔ قاعدہ بھی یہی ہے کہ جائیں۔ کام کا تقاضا بھی یہی ہے۔ کسی نے اپنی مجاہدت سے جو کچھ جمع کیا جب اس طرح اسے لوگوں کے سامنے عوام کے سامنے پیش کرے تو خداوند عالم اس کے ذخیرے میں برکت نہیں دے گا۔) یہ استدلال اصولی طور پر صحیح نہیں ہے۔ دوسرا استدلال صحیح ہے۔ دوسرا استدلال، کیا ہے؟ دوسرا استدلال یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ کیا میں نے پانچ سال یا دس سال قید کا تجربہ آسانی سے حاصل کیا ہے؟ میں دس قید میں رہا اور اس قوم نے میری دس سال کی قید برداشت کی۔ میرے خاندان والوں نے، ماں باپ نے، میرے شہر اور وطن نے کیا ان سب نے میری قید کا غم نہیں برداشت کیا کہ یہ مفت میں ضائع ہو جائے اور اس سے کوئی استفادہ نہ کیا جائے؟ اگر تکلیفیں اٹھائی گئیں اور فضل خدا کی برکت حاصل ہوئی ہے تو اب یہ انسان جس نے یہ عظیم تجربہ حاصل کیا، امتحان دیا، اس طالب علم کی طرح ہے جو کوئی کورس پورا کرتا ہے۔ جس نے کوئی کورس کیا ہو، وہ اس سے مختلف ہوتا ہے جس نے وہ کورس نہ کیا ہو۔ اب جب کہ آپ کے خاندان اور قوم نے آپ کو راہ خدا میں دیا اور آپ کا فراق برداشت کیا اور آپ نے ایک سخت دور گذارا تو قاعدہ کیا ہے؟ قاعدہ یہ ہے کہ اس دور سے استفادہ کیا جائے۔ اب ان تکالیف کے فائدے سے مستفید ہونے کا وقت ہے۔ اب وہ وقت ہے کہ اس دس سال، گیارہ سال اس سے کچھ کم یا زیادہ کی قید سے حاصل ہونے والے ذخیرے سے استفادہ کریں۔ یعنی جنگی قید کی صعوبتیں برداشت کرنے والے، یہ امتحان دینے والے اور تجربہ کرنے والے وہ عناصر ہیں کہ جو راہ خدا میں خدمت اور انقلاب کے اہداف کی سمت پیشرفت کے لئے مجاہدت پر دوسروں سے زیادہ آمادہ ہیں۔ یہ تکلیفیں برداشت کر چکے ہیں، ان کی روح اور ارادہ قوی ہے اور ان کا ایمان آزمایا جا چکا ہے۔
یہ وہ دوسرا استدلال ہے۔ میں اس دوسرے استدلال کو قبول کرتا ہوں۔ یہی صحیح ہے۔ میں عرض کروں گا کہ آزاد ہوکر آنے والے جنگی قیدی انقلاب کے بہترین سپاہی ہیں۔ یہ قوم کے بہترین فرزند ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام اور انقلاب کے دفاع کے لئے مناسب ترین افراد ہیں۔ اس نظام کے لئے قابل اعتماد ہیں اور نظام کو ان سے امیدیں ہیں۔ مستقبل کے کاموں کے لئے ان سے امید وابستہ ہے کہ اگر کوئی دشمن، انقلاب یا اسلامی جمہوری نظام کے مقابلے میں اٹھے گا تو سب سے پہلے اس کے سینے پر مکا لگانے والے یہی غازی ہیں جو جنگی قید سے آزاد ہوکر آئے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے اس نظام کے تحفظ کے لئے دوسروں سے زیادہ تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ انہوں نے دوسروں سے زیادہ تجربہ حاصل کیا ہے۔ خود کو اچھی طرح پہچانتا ہے اور سختیوں میں اپنی قوت تحمل کو آزما چکا ہے۔
یہ وہ دوسرا استدلال ہے۔ بنابریں ملک کی تعمیر کے میدان میں بھی ان غازیوں پر بھروسہ کرنا چاہئے اور انقلاب کے دفاع کے میدان میں بھی۔ یہ وہ چیز ہے کہ جنگی قید سے آزاد ہونے والے غازی کے عنوان سے، ایک انقلابی مسلمان کی حیثیت سے، خود سے یہ توقع رکھیں کہ دشمنوں، بد خواہوں اور انقلاب کو طعنہ دینے والوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں گے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ چونکہ مبداء انقلاب سے دور ہو گئے ہیں اس لئے، مبداء انقلاب سے جتنا دور ہوں انقلابی جذبہ اتنا ہی کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ انقلاب کسی خاص زمانے سے تعلق نہیں رکھتا کہ اس زمانے سے جتنا دور ہوں گے، انقلابی جذبہ اتنا ہی کمزور ہوگا۔ انقلاب ایمان ہے، اعتقاد ہے، دین ہے، انسان دین سے دور نہیں ہو سکتا۔ زمانے کے لحاظ سے دین سے انسان کا فاصلہ کم یا زیادہ نہیں ہوتا۔
آپ کو اس طرز فکر کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہئے۔ یہ صعوبتیں جو آپ نے برداشت کیں، یہ امتحان الہی تھا۔ البتہ ممکن ہے کہ بعض اس امتحان میں سربلند اور سرفراز نہ رہے ہوں۔ سب ایک جیسے تو نہیں ہیں۔ مگر آپ مومن بھائی جو اس امتحان الہی میں کامیاب رہے، اس کی قدر کو سمجھیں۔ اس کو ایک ذخیرہ سمجھیں۔ راہ خدا میں اور مجاہدت کریں۔ اسلام میں میری باری ختم ہو گئی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جس دن رحمت الہی، جوار رحمت حق کی طرف گئے، تقریبا نوے سال کے تھے۔ اس وقت تک آپ نے فعالیت اور مجاہدت کی ہے۔ آپ یہ نہیں کہتے تھے کہ میں نے اپنا کام کر دیا اور اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کر دیا اب دوسری زحمتیں دوسرے لوگ برداشت کریں۔ نہیں، عظیم محنتیں اور عظیم غم آپ نے اٹھائے ہیں۔ اس کے بعد بھی ہمارے عظیم ترین کام آپ ہی کرتے تھے۔ جیسے جنگ کا مسئلہ، جنگ کے بارے میں فیصلہ اور ملک کے بہت سے دیگر مسائل کے بارے میں فیصلہ آپ ہی کرتے تھے۔
یہ کہنا کہ کسی نے اپنا کام کر لیا، اب اس کے حصے کا کام ختم ہو گیا غلط ہے۔ آپ عزیزوں سے میری گذارش یہ ہے کہ انقلاب کے میدان میں ثابت قدم رہنا چاہئے۔ خوش رہیں اور اس چیز پر بھروسہ رکھیں جو خدا نے آپ کو عطا کی ہے۔ یعنی ایک اور سخت اور بھاری امتحان ، یعنی مستقبل کے بارے میں پر امید ہونا اور اچھی توقعات رکھنا، اس چیز کی امید رکھنا جو آپ کی اور حکام کی کوششوں سے حاصل ہوگی۔ مختصر یہ کہ انقلاب اور اسلام سے وابستہ ایک حقیقی اور اصلی عنصر کے عنوان سے ہمیشہ میدان میں رہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ اس میدان میں باقی رہیں گے۔ جو آپ کی طرح اس امتحان میں سربلند رہا ہے، اس کی آنکھیں رحمت خدا کے سامنے دوسروں سے زیادہ کھلی ہیں۔ جنگی قید سے آزاد ہوکر آنے والے اپنے ان غازیوں کے درمیان میں نے کتنے اعلا اور باشرف انسانوں کو دیکھا ہے۔ کیسے آزمودہ انسان اور کیسی لطیف روح کے مالک لوگ۔
میں گریہ و زاری کے ساتھ خدا وند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے جو عزیز، ابھی دشمن کی قید میں رہ گئے ہیں ان کی رہائی کے اسباب بھی فراہم کرے۔ انشاءاللہ جو لوگ لاپتہ ہیں ان کے خاندان والوں کو، والدین کو جو اپنے فرزندوں کے منتظر ہیں اچھی خبر ملے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہم سب کو صبر، استقامت و پائیداری اور انقلاب کے تئیں اپنے فرائض کی روشن بصیرت عطا فرمائے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہمارے امام کی روح مطہر پر جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور ہمارے مطہر شہدا کی ارواح پر جو اس راہ میں پیش قدم تھے اور عظیم ترین امتحان دیا، اپنا فضل ورحمت نازل فرمائے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہمارا انجام شہیدوں کا ہو، ہماری موت کو شہادت کے بجز اور کچھ قرار نہ دے، ہمارے کردار کو حضرت ولی عصر امام زمانہ ارواحنا فداہ وعجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مرضی کے مطابق قرار دے ۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

(1) سورہ یوسف کی آیت نمبر ستاسی ولا تیئسوا من روح اللہ اور سورہ زمر کی ترپنویں آیت ولا تقنطوا من رحمت اللہ کے مفہوم کو مد نظر رکھنا۔