در حقیقت پچیس آبان مطابق سولہ نومبر کی تاریخ اہل اصفہان کے ایثار و قربانی کے مظہر کے طور جانی جاتی ہے۔ مقدس دفاع کے دوران اس دن اہل اصفہان نے اپنے تین سو ستر شہیدں کے جنازوں کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔ اسی مناسبت سے عید قربان کے دن اہل اصفہان نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اجتماع سے اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے پچیس آبان تیرہ سو اکسٹھ ہجری شمسی (مطابق سولہ نومبر انیس سو بیاسی ) کے اصفہان کے عوام کے ایثار وفداکاری کے کارنامے کو امتحانات الہی میں کامیابی و سرفرافرازی کا ایک اور نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس عظیم دن اصفہان کے عوام نے تین سو ستر شہیدوں کا جنازہ اٹھانے کے ساتھ ہی اپنے مزید ہزاروں نوجوانوں کو محاذوں پر روانہ کیا اور اس طرح ایثارو فداکاری اور سرافرازی کا عظیم کارنامہ رقم کیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انقلاب سے پہلے، انقلاب کے دوران، مسلط کردہ جنگ اور ملک کی پیشرفت و ترقی کے مختلف میدانوں میں اصفہان کے مہذب ، انقلابی اور مومن عوام کی موجودگی کو اس صوبے کے عوام کے ایمان وایثار اور جذبہ جہاد کی تجلی قرار دیا اور فرمایا کہ ان قابل فخر کارناموں پر غور و فکر سے اصفہان کے عوام کی باطنی صلاحیتوں اور تشخص کا ادراک ہوتا ہے اور ان کے شرف، پیشرفت اور پیشقدم رہنے کا راستہ آشکارا ہو جاتا ہے۔
بسم‌اللَّه الرّحمن الرّحيم‌

سب سے پہلے تو میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ نے یہ طویل سفر طے کرکے عید کے اس مبارک دن حسینیہ (امام خمینی) کی فضا کو اپنے جذبات و احساسات اور ایمان و عقیدے کی خوشبو سے معطر کر دیا۔ میں عید الاضحی کی مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں تمام حاضرین محترم کو، اہل اصفہان کو، تمام ملت ایران اور جملہ مسلمانان عالم کو۔ عید الاضحی کا یہ موقع بھی بڑی مناسبت سے آيا ہے کیونکہ آبان مہینے کی پچیس تاریخ (مطابق 16 نومبر) بھی اہل اصفہان کے ایثار و قربانی کی آئینہ دار ہے جو اس سال عید الاضحی کے دن پڑی ہے۔
اگر عید الاضحی کے فلسفے پر توجہ دی جائے تو ہمارے لئے بہت سے راستے کھل جائیں گے۔ عید قربان میں حق تعالی کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ تعالی کی جانب سے قدردانی مضمر ہے۔ جنہوں نے اس وقت ایثار کی ایک مثال قائم کر دی تھی۔ بیشتر مواقع پر اپنی جان کی قربانی سے زیادہ دشوار اور بالاتر اپنے عزیزوں کی قربانی ہوتی ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں اپنے ہاتھ سے اپنے ایک عزیز کی قربانی پیش کر رہے تھے۔ اس بیٹے کی قربانی جسے طویل انتظار کے بعد اللہ تعالی نے انہیں بڑھاپے کے ایام میں عطا کیا تھا۔ «الحمد للَّه الّذى وهب لى على الكبر اسماعيل و اسحاق» (1) اللہ تعالی نے بڑھاپے میں ایک طویل انتظار اور تمناؤں کے بعد یہ دونوں بیٹے عطا کئے تھے اور اب مزید کسی اولاد کی کوئی امید بھی نہیں تھی۔
شہدائے کائنات کے سید و سردار حضرت ابو عبد اللہ الحسین علیہ السلام جو خود بھی مظہر ایثار و شہادت ہیں، مقدس دعائے عرفہ میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛ «و ممسك يدى ابراهيم عن ذبح ابنه بعد كبر سنّه و فناء عمره» ( پیری کے ایام میں اور عمر کے اختتام پرحضرت ابراہیم کے ہاتھوں کو بیٹے کو ذبح کرنے سے روک دینے والے) یہ جملہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی با برکت دعائے عرفہ میں موجود ہے جسے مومنین نے کل پڑھا۔
یہ جذبہ ایثار و قربانی، ان مومنین کے لئے منارہ نور ہے جو حق کے راستے، سرفرازی کے راستے اور اعلی درجات تک لے جانے والے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔ وہ سارے امتحان اور آزمائشیں جن کا ہم سامنا کرتے ہیں، در حقیقت ان کا بنیادہ نکتہ یہی حقیقت ہے، یعنی اس میں کوئي ایثار پنہاں ہوتا ہے، کوئي قربانی ہوتی ہے۔ کبھی جان کی قربانی ہوتی ہے، کبھی مال کی قربانی ہوتی ہے، کبھی انسان دوسرے شخص کی غلط بات کو درگذر کرکے ایثار کا ثبوت دیتا ہے جو اپنی غلط بات پر بیجا اصرار کر رہا ہے، کبھی قرابت داروں کی قربانی ہوتی ہے، اولاد کی قربانی ہوتی ہے یا دوسرے لوگوں کی قربانی ہوتی ہے۔ امتحان یعنی وادی مشقت سے گزرنا۔ ایک انسان یا ایک قوم کے سامنے ایک مشقت آتی ہے جسے برداشت کرنا ہوتا ہے، یہی امتحان ہے۔ اگر وہ قوم یا انسان اس مشقت کو برداشت کر لے گیا تو منزل مقصود اسے مل جائے گی اور اگر ناکام رہا، اپنے وجود میں پنہاں صلاحیتوں کو بروئے کار نہ لا سکا اور اپنی خواہشات نفس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکا تو اپنی پہلی جگہ پر ہی ٹھہرا رہے گا، اسے کہتے ہیں امتحان۔ امتحان الہی اس لئے نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی ہمیں پرکھے اور ہمیں پہچانے یا یہ دیکھے کہ ہمارے اندر کتنی صلاحیت ہے اور ہم کس مقام پر ہیں۔ امتحان در حقیقت منزل مقصود تک پہنچنے کا ایک مقدمہ ہے۔ ہمارا اور آپ کا امتحان لیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم اس سختی کو برداشت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمیں ایک نئي زندگی، ایک نیا مرحلہ اور ایک نئي صورت حال تک دسترسی حاصل ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں فرد واحد اور قوم کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔
گزشتہ سال (سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی، مطابق دو ہزار نو عیسوی میں) ملت ایران کو ایک امتحان سے گزرنا پڑا، ایک فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اب سب کو معلوم ہو گیا کہ ملت ایران بہت قوی و توانا ہے بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملت ایران اپنی اس توانائی اور فتنے اور سختیوں سے گزرنے کی اپنی طاقت و قدرت کی بنا پر ایک نئی منزل تک پہنچ گئی ہے، اس کے اندر ایک نئی توانائی پیدا ہو گئی ہے۔ انسان کی پوری زندگی میں بار بار امتحان آتے ہیں۔ اگر ہم اپنے نفس پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے، اگر اپنی قوت بصیرت کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہوئے، اگر ہم موقعے کی شناخت میں کامیاب رہے، اگر ہمیں صحیح اقدام کا علم ہو گیا اور ہم وہ اقدام کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے نتیجے میں ہماری زندگی میں ایک نیا باب وا ہوگا، یہ ایک ترقی ہے، ایک سربلندی ہے۔ اسی طرح پچیس آبان (مطابق سولہ جون) کی تاریخ جس نے اصفہان کے عوام کو ایک ایسے ہی موڑ پر پہنچایا۔
یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اصفہان کے وصف میں، اصفہانی کے عوام کے وصف میں چند جملے عرض کرتا چلوں کیونکہ یہ صفات ان غیور و مومن اور سخت کوش عوام کی شناخت ہیں۔ اصفہان کے عوام نے ایک دن کے اندر تین سو ستر شہداء کے جنازے اٹھائے لیکن اپنی پیشانی پر شکن نہیں پڑنے دی، یہی نہیں دوسری جانب انہیں محاذ جنگ کے لئے بھی جوانوں کو بھیجنا تھا، کمک بھیجنی تھی اور انہوں نے یہ کام بھی کیا، یہ بہت بڑی بات ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا (2) امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اصفہان کے عوام کے اس شجاعانہ اقدام کو سراہا۔ سن انیس سو اکسٹھ ہجری شمسی کے آبان مہینے (نومبر انیس سو بیاسی) میں جب ایک ہی دن کے اندر اصفہان میں تین سو ستر شہیدوں کے جنازے اٹھائے گئے، مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افراد نے جام شہادت نوش کیا! ایک مہینے کے اندر ایک ہزار سے زائد شہید؟! شہید کون ہوتا ہے؟ وہی جو میدان جنگ میں ہوتا ہے، جو خطرات کا سامنا کرتا ہے، جو پیش پیش رہتا ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل بھی اصفہان مختلف معاملات میں نمایاں کردار کا حامل نظر آیا، انقلاب سے متعلق واقعات میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور مقدس دفاع کے دوران بھی یہی صورت حال رہی۔ اصفہان میں موجود فوجی مراکز خواہ ان کا تعلق سپاہ پاسداران انقلاب سے ہو جیسے اصفہان کی مرکزیت والی امام حسین بٹالین، (صوبہ اصفہان کے شہر) نجف آباد کی مرکزیت والی نجف بٹالین اور قمر بنی ہاشم بٹالین یا پھر ان کا تعلق فوج سے رہا ہو جیسے آٹھویں شکاری چھاونی جہاں سے بہت اہم اور عظیم سرگرمیاں انجام دی جا رہی تھیں اور میں نے اصفہان میں اس چھاونی کا قریب سے معائنہ بھی کیا تھا، اللہ اپنی رحمت نازل کرے (کمانڈر) شہید بابائي پر، یا پھر اصفہان کا توپخانہ رہا ہو، ان تمام مراکز کی مجموعی کارکردگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انقلاب کے بعد آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اور آٹھ سالہ مقدس دفاع کے بعد بھی ملک کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل حساس میدانوں میں اہل اصفہان پیش پیش رہے، ملک کی پیشرفت و ترقی میں، ملک کے علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں۔ ہماری مسلح فورسز کی بعض اہم فوجی گتھیاں اصفہان کے علمی و تحقیقاتی مراکز میں حل ہوئيں۔ یہ مایہ افتخار ہے، اس لئے نہیں کہ اس کی بنا پر خود ستائی کی جا سکتی ہے بلکہ اس لئے کہ اپنی حقیقی شناخت سے واقفیت حاصل کی جائے، اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو سمجھا جائے اور اس کو بنیاد قرار دیکر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔
آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اپنے ان فوجی مراکز اور مختلف بٹالینوں کے ذریعے اصفہان کے لوگ صف اول میں سرگرم عمل رہے، اس سے سب واقف ہیں۔ جس سے بہت سے افراد آگاہ نہیں ہیں وہ گمنام اور بے لوث انسانوں کا کلیدی کردار ہے، جنہوں نے ان برسوں کے دوران کمک کی ترسیل میں جانفشانی کی۔ وہ عورتیں جو گھروں میں تھیں، وہ اہل تجارت جو بازاروں میں تھے، وہ افراد جو دفاتر میں مصروف کار تھے، وہ مجاہدین جو محاذ جنگ کے لئے ضروری ساز و سامان کی ترسیل کے عمل میں مصروف تھے۔ ان میں سے بہت سے افراد نے اپنے عزیزوں کو شہادت کے لئے بھیجا ہے، انہوں نے نہ تو اس وقت کوئي دعوا کیا اور نہ اب کوئي دعوا کرنے کو تیار ہیں، ان کا کہیں نام بھی نہیں آتا۔ تاہم یہ لوگ آسمانوں میں شہرت یافتہ افراد ہیں، عالم ملکوت میں وہ جانے پہچانے افراد ہیں۔ الہی محاسبے میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز نظر انداز نہیں ہوتی۔ اصفہان سے اتنے وسیع پیمانے پر کمک کی ترسیل، یہ شجاعتیں اور اس وقت شہیدوں کے لواحقین کے یہ جذبات۔ شہیدوں نے تو سختی کی ایک گھڑی کا سامنا کیا اور پرواز کر گئے، اب انہیں کوئی رنج و غم نہیں ہے۔ لا خوف علیھم و لاھم یحزنون (3) سختیاں تو ان کے لواحقین کے لئے پیش آتی ہیں۔ ماں باپ کے لئے، شریکہ حیات کے لئے، اولاد کے لئے، بھائيوں اور بہنوں کے لئے، سوگوار افراد کے لئے، صبر کا امتحان ان لوگوں نے دیا، انہوں نے اس (شہادت) پر افتخار کیا۔ اصفہان میں کچھ خاندان ایسے ہیں جنوں نے تین-تین شہیدوں کا داغ اٹھایا۔ ایسے بھی خاندان ہیں کہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا اور اسے بھی انہوں نے شہادت کے لئے پیش کر دیا، یہ اپنے زمانے کے ابراہیم ہیں۔ یہ چیزیں قوم کے تشخص کی تعمیر کرتی ہیں، عزت و سربلندی عطا کرتی ہیں۔
بیٹھے رہنے، کھانے پینے میں مصروف رہنے، دوسروں پر منحصر بنے رہنے، زندگی پر خواہشات نفس کی حکمرانی کی صورت میں کوئي بھی قوم کسی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ جو لوگ مقدس دفاع کا موضوع آنے پر مایوس کن اور منفی باتیں کرنے لگتے ہیں، جب شہادت کا ذکر آتا ہے تو فقرے کستے ہیں، جب محاذ جنگ پر جاکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جانبازوں اور میدان جہاد میں شجاعت کے جوہر دکھانے والے ایثار پیشہ جوانوں کی بات آتی ہے تو منہ بنانے لگتے ہیں، جب سائنسی ترقی اور علم و دانش کے شعبے میں حدوں سے گزر جانے کا موضوع آتا ہے تو تمسخرانہ ہنسی ہنستے ہیں۔ جب ایٹمی مراکز میں یورینیم کی افزودگی کے سسٹم میں سنٹری فیوج مشینوں کی بات ہوتی ہے تو سر نفی میں ہلاکر کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، یہ لوگ کسی قوم کی حرکت کیا ہوتی ہیں، یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جس کی تربیت میں خامی ہے اور جس کا اخلاق طاغوتی ہے وہ ایمان، اقدام اور جہاد کی تاثیر کا ادراک نہیں کر سکتا۔
ایک قوم میں جب جہاد کا عقیدہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ تمام میدانوں میں آگے نکل جاتی ہے۔ جہاد صرف ہاتھوں میں بندوق اٹھا لینے کا نام نہیں ہے۔ جہاد کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہمیشہ رکاوٹوں اور مشکلات سے لڑتا ہوا اور جد و جہد کرتا ہوا پائے، اپنے فریضے کا احساس کرے، اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے، اسے کہتے ہیں جہاد اور یہی ہے جہاد اسلامی۔ جہاد کبھی جان کی بازی لگاکر کیا جاتا ہے، کبھی مال کے ذریعے ہوتا ہے، کبھی فکر و دانش کے ذریعے ہوتا ہے، کبھی نعروں کے ذریعے ہوتا ہے، کبھی سڑکوں پر نکلنے کی صورت میں ہوتا ہے، کبھی پولنگ مراکز پر جاکر ووٹنگ کرنے سے ہوتا ہے، یہ ہے جہاد فی سبیل اللہ اور یہی جہاد قوم کو بلندیوں پر لے جاتا ہے، اس میں شادابی پیدا کرتا ہے، نئی روح عطا کرتا ہے، امید پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں قوم پیش قدمی کرتی ہے۔
اب ایسی قوم سے کون ٹکر لے سکتا ہے؟ دنیا میں جو اسلام کے خلاف، اسلامی انقلاب کے خلاف اور اسلامی نظام کے خلاف محاذ قائم ہوا ہے وہ اس عظیم طاقت سے لڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اس قوم کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ جنگ کے ذریعے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ دشمنوں نے اس کا بھی تجربہ کرکے دیکھ لیا، لشکر کشی کی دھمکی سے بھی ممکن نہیں ہے، پابندیاں عائد کرکے بھی ممکن نہیں ہے۔ جو لوگ اس خام خیالی میں ہیں پابندیوں کے ذریعے ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لے جائيں گے وہ در حقیقت کار محال انجام دینے کی عبث کوشش کر رہے ہیں۔ جو قوم امید کے جذبے اور قوت ایمانی سے سرشار ہے اسے خوب پتہ ہے کہ کیا کرنا ہے۔ اس قوم کو دھمکیوں کے ذریعے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
یہ دشمن طاقتیں ایسی قوم کا مقابلہ کرنے کے لئے اسی نکتے پر توجہات مرکوز کرتی ہیں جن کی جانب آپ نے اشارہ کیا۔ (4) جس سے آپ اصفہانیوں کی فراست و زیرکی کا اندازہ ہوتا ہے۔ قوم کے اندر اختلافات کے بیج بونا، ایک دوسرے کے دل میں دشمنی ڈال دینا، حکام اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنا، بد گمانیاں پھیلانا، معمولی قضیوں کے سلسلے میں بہت زیادہ قیاس آرائیاں کرنا، اسلامی انقلاب کے دشمنوں کا ایک اہم ترین مخاصمانہ اور معاندانہ حربہ ہے جس کی جانب سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
خیر، اہل اصفہان پوری طرح محتاط رہے۔ پچھلے قضیئے (دو ہزار نو کے صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے آشوب) میں انہوں نے بڑی سمجھداری کا ثبوت دیا۔ سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی (مطابق دو ہزار نو عیسوی) کے فتنے کے سلسلے میں، نو دی (مطابق تیس دسمبر دو ہزار نو کو یعنی اسلامی نظام کی حمایت اور فتنہ پرور عناصر کی مذمت میں نکلنے والے عوامی جلوسوں) کے دن رضاکارانہ عوامی اقدام کے ذریعے بڑی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سارے لوگ انتظامیہ کے خلاف پھیلائي جانے والی بد گمانیوں کی طرف سے ہوشیار رہیں۔ وہ افراد جو آپ کو کہیں کہیں نظر آتے ہیں جو بڑی دریدہ دہنی کے ساتھ، بغیر کسی چیز کا لحاظ کئے ہوئے، اسلامی نظام کے خلاف اور اسلامی جمہوری انتظامیہ کے خلاف لن ترانیاں کرتے پھرتے ہیں، جو منہ میں آتا ہے بولتے ہیں، وہ فی الواقع دشمن کی ترجمانی کر رہے ہیں اور اگر اسلام دشمن محاذ، امریکیوں اور صیہونیوں کے تشہراتی اداروں کی آواز کسی شخص کے کانوں تک نہیں پہنچی ہے تو یہ آواز ان کے کانوں تک پہنچانے کا کام یہ عناصر کرتے ہیں، ان کی باتوں کو لوگوں کے کانوں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ قوم کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں۔ یہ کھلی ہوئي دغابازی ہے۔ عوام کو ایک دوسرے سے، حکام کی جانب سے خدمت گار عہدہ داروں کی طرف سے بد ظن کرتے ہیں، اس کے لئے ایک طریقہ ہے مایوسی پھیلانا۔
ایک اور طریقہ ہے معاشرے میں سماجی برائیوں کی ترویج۔ سارے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو اس بابت بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ سماجی برائياں اور اخلاقی انحطاط سامراج کے سیاسی اہداف کی تکمیل کا ایک حربہ بن گيا ہے۔ اسی طرح بہت سے عالمی مراکز میں کسی بھی قوم کو بدنام اور نابود کرنے کے لئے اور ساتھ ہی اپنی جیبیں بھرنے کے مقصد کے تحت منشیات کو بھی ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے عوام کو، ہمارے نوجوانوں کو اور ہمارے حکام کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔
اصفہان میں بڑی نمایاں صلاحیتیں ہیں، ماضی میں بھی یہی صورت حال تھی، ان صلاحیتوں کی آپ قدر کیجئے۔ اصفہان مرکز علم و دانش ہے۔ دینی علوم اور دیگر گوناگوں علوم کا مرکز۔ ماضی میں بھی ایسا ہی تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اس وقت اصفہان میں بحمد اللہ دینی علوم کا بہت اچھا مرکز قائم ہے اور ملک کی کئي مشہور اور اہم یونیورسٹیاں بھی اصفہان میں ہیں۔ اصفہان کی علمی تاریخ بہت درخشاں ہے۔ اصفہان کے علماء، دانشوروں اور محققین کی توجہ اصفہان کی ماضی کی علمی مرکزیت پر رہنی چاہئے۔ ایک زمانہ تھا کہ اصفہان پورے ملک ہی نہیں پورے عالم اسلام میں علم و دانش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ آپ دوبارہ وہی شان اور مقام و منزلت حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ اصفہان فن و ہنر، فنون لطیفہ اور دستکاری کی صنعتوں میں بہت شہرت یافتہ علاقہ ہے۔ یہ سب روشن پہلو ہیں اور اصفہان کے باشندوں کا دینی عقیدہ اور جذبہ ایمانی ان تمام خصوصیات میں روح رواں کا درجہ رکھتا ہے جو اصفہان کے عوام میں انقلاب سے پہلے بھی موجود تھا لیکن اسلامی انقلاب کے بعد ہر شعبہ بہت زیادہ وسیع تر ہو گيا۔ ان دنوں بھی میری اصفہان آمد و رفت کافی ہوا کرتی تھی اور میں لوگوں کی دینداری اور شعائر دینی کی پابندی کا قریب سے شاہد تھا، البتہ اس وقت یہ جذبہ دسیوں گنا بلکہ سیکڑوں گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ بہرحال یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ دین کی جانب توجہ اور اس پر توکل کی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ یہ دین و دنیا میں ترقی و پیشرفت کا سرمایہ ہے۔
جب ایک قوم کے پاس ایمان کی دولت ہے تو اس کا کوئی بھی عمل ضائع نہیں ہوتا، رائیگاں نہیں جاتا، باطل نہیں ہوتا۔ ایمان کی برکت سے انسان کے ہر عمل میں معنی و مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ اس ایمان کی حفاظت کرنا چاہئے۔ اس وقت ملت ایران بحمد اللہ گوناگوں مخاصمتوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے اسلام دشمن محاذ کی دشمنی اور عناد کی وجہ اس نظام اور اس جمہوریہ کا ایمان ہے۔ یہ ایرانی قوم الہی اقدار کی پابند ہے جسے مادہ پرست طاقتیں برداشت نہیں کر سکتیں۔ یہ تو ہے قضیئے کا ایک رخ۔ قضیئے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ان بتیس برسوں میں ملت ایران کی پیشرفت، اللہ تعالی پر ایمان اور الہی اقدار کی پابندی کا نتیجہ رہی ہے چنانچہ ہمیں ان اقدار کی پابندی کبھی ترک نہیں کرنا چاہئے۔ آپ یاد رکھئے کہ پیشرفت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد کے باعث دشمنیوں کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور ملت ایران تمام مراحل میں فاتح رہے گی۔
پروردگارا! اس قوم پر اور اصفہان کے عزیز عوام پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود فرما اور ان کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال قرار دے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) سوره ابراهيم؛ آیه 39
2) اصفہان کے امام جمعہ و جماعت اور ولی امر مسلمین کے نمائندے حجةالاسلام والمسلمين طباطبائى‌نژاد
3) سوره يونس؛ آیه 62
4) حاضرین کے « فتنہ پرور منافقین مردہ باد» کے نعرے کی جانب اشارہ