مسلح فورسز کے کمانڈر انچیف آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تقریب کے آغاز میں سب سے پہلے یونیورسٹی کیمپس میں موجود شہیدوں کی یادگار کا معائنہ کیا اور شہدا کے لئے فاتحہ خوانی اور ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کی۔اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے تقریب کے میدان میں موجود دستوں کا معائنہ کیا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام میں قوت و اقتدار کا معیار ایمان باللہ، توکل علی اللہ اور بلند اہداف کی راہ میں پرخلوص سعی و کوشش کو قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج سمیت تمام مسلح فورسز ایمان کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے فوجی ساز و سامان کی پیداوار کے میدان میں قابل لحاظ ترقی کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور اس میدان میں فضائیہ پیش پیش رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی مملکت ایران کی فورسز کی کچھ منفرد خصوصیات کی جانب اشارہ کیا۔ آپ کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں اپنے عزیز طلبہ اور مومن نوجوانوں کو جنہوں نے اپنے باعث فخر تعلیمی دور کو منزل کمال تک پہنچایا اور آج سے اسلامی جمہوریہ کی مسلح فورسز میں خدمت انجام دینے والوں کے زمرے میں شامل ہو رہے ہیں اور ان نوجوانوں کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے آج سے (ڈیفنس یونیورسٹی میں) تعلیمی میدان میں قدم رکھے ہیں اور انشاء اللہ کامیابی کے ساتھ یہ مرحلہ طے کریں گے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ اس وقت ہمارے ملک کی مسلح فورسز اور ہماری فوج مطلوبہ سطح تک پہنچ چکی ہے۔ دنیا کی دیگر افواج پر آپ کو دو وجوہات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ کا ہدف ایک الہی اور انسانی ہدف ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عوام الناس سے آپ کا ایک محکم قلبی رشتہ ہے۔ دنیا کے تمام معاشرے اور ممالک اپنی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے، اپنے وقار کی حفاظت کے لئے اور مادی و معنوی آسائش کے لئے طاقت و قوت کے طالب ہوتے ہیں، ایسی طاقت اور ایسے اقتدار کے طالب ہوتے ہیں جس کا ایک اہم حصہ معاشرے اور ملک کی مسلح فورسز پر موقوف ہوتا ہے۔ بنیادی اور اصلی فرق یہ ہے کہ دنیا میں پھیلے ہوئے مادی نظاموں میں اقتدار کا معیار کچھ اور ہے جبکہ اسلامی جمہوری نظام میں اقتدار کی کسوٹی الگ ہے۔ مادی نظاموں میں اقتدار کی بنیاد مادی طاقت پر ہوتی ہے، پیسے پر، اسلحے پر، عیارانہ بلکہ بسا اوقات منافقانہ تشہیرات پر۔ اقتدار کے اسلامی اور روحانی معیار کی رو سے اقتدار سب سے پہلے معنوی و روحانی عوامل اور الہی و روحانی اقدار پر منحصر ہوتا ہے، ایمان پر استوار ہوتا ہے، توکل علی اللہ پر استوار ہوتا ہے، بلند اہداف کی راہ میں پرخلوص مساعی پر استوار ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلحے سے ہم بالکل بے نیاز ہیں، یا یہ کہ نظم و ضبط، وسائل اور ساز و سامان اور تربیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہ سب ضروری و لازمی ہیں۔ لیکن یہ سب جسم اور پیکر کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ ان کی روح اللہ کی جانب سے دئے گئے فریضے کا احساس ہے، اللہ تعالی پر توکل کا جذبہ ہے۔ یہ چیز فوج کو، مسلح فورسز کے مجموعے کو، قوم کو اس طرح ثابت قدم اور شجاع بنا دیتی ہے کہ مادی طاقتیں اس کا مقابلہ کرنے پر قادر نہیں ہوتیں اور مقابلہ آرائی کی صورت میں آخری فتح اسی کی ہوتی ہے۔
یہ صرف تھیوری اور نظریاتی اصول نہیں ہے، بڑے بڑے خواب نہیں ہیں، یہ عملی طور پر انجام دیا جانے والا تجربہ ہے۔ آپ عزیز نوجوان، ملک کی ماضی قریب کی تاریخ میں ان حقائق کا بغور مطالعہ کر سکتے ہیں۔ طاغوتی محاذ سے لڑائی میں ملت ایران کی فتح و کامرانی، مادی عوامل پر روحانی عوامل کے غلبے اور فتح کی مصداق کامل ہے۔ اس وطن عزیز میں طاغوتی نظام، غیروں پر منحصر نظام اور فاسد و بد عنوان نظام عالمی طاقتوں کی جانب سے فراہم کئے جانے والے مادی طاقت کے گوناگوں وسائل پر منحصر تھا لیکن غیر مسلح تاہم جذبہ ایمانی اور خود اعتمادی سے مالامال قوم کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔
اس کا دوسرا عملی تجربہ ملت ایران نے مقدس دفاع کے دوران کیا۔ اس دور میں دنیا کے مشرق و مغرب کی طاقتیں شرپسند بعثی حکومت کی یاور و مددگار بنی ہوئی تھیں، امریکا اس کا حامی تھا، نیٹو تنظیم اس کی حامی تھی، سوویت یونین اس کا پشتپناہ تھا، علاقے کی رجعت پسند حکومتیں اس کی ناصر و معاون تھیں، پیسے دیتی تھیں، اسلحہ دیتی تھیں، اطلاعات فراہم کرتی تھیں، افرادی قوت فراہم کرتی تھیں تاکہ اسلامی جمہوری نظام کو اور ملت ایران کو زمین بوس کر دیا جائے لیکن ہمہ جہتی پابندیوں، بالخصوص اسلحے اور جنگي ساز و سامان پر عائد پابندیوں کے عالم میں، مکمل تنہائي کے عالم میں اپنی قوت ایمانی پر بھروسہ کرکے، اپنے نوجوانوں کے جذبہ ایمانی پر بھروسہ کرکے، اپنی مسلح فورسز کی دلیری وشجاعت پر اتکاء کرکے ایران نے اسلحے اور جنگي ساز و سامان کے پہاڑ پر بیٹھے اس دشمن کو شکست دے دی اور طاغوتی بعثی حکومت پر صرف کئے جانے والے بجٹ اور پیسے کو بے سود بنا دیا۔
آج بھی یہی عالم ہے۔ آج بھی استکباری طاقتیں اسلامی مملکت ایران کا مقابلہ کرنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے در بدر بھٹک رہی ہیں۔ مادی طاقت پر بھروسہ، اپنے قریبی اور دور کے دوستوں کو اسلحے سے آراستہ کرنا، چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ علاقے میں کتنے جدید اسحلے آ رہے ہیں اور علاقے کی قوموں کا کتنا سرمایہ ان اسلحوں پر صرف ہو رہا ہے اور امریکا اور مغرب کے دیگر ملکوں کی فوجی صنعتوں کے مالکان کی جیب میں منتقل ہو رہا ہے، اس سب کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا؛ «فسينفقونها ثمّ تكون عليهم حسرة» (1) قومیں اپنا سرمایہ خرچ کر رہی ہیں لیکن اس سے انہیں کوئی مدد نہیں ملنے والی ہے، اس سے ان کے کسی بھی درد کا مداوا ہونے والا نہیں ہے۔
اسلامی مملکت ایران قوت ایمانی پر تکیہ کرکے مادی وسائل اور ساز و سامان کے میدان میں بھی دوسروں سے آگے نکل جانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس راہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ اور فضائی فوج سے وابستہ عالی مرتبت شہدا جیسے شہید ستاری، شہید بابائی، شہید خضرائی، شہید دوران اور دوسرے شہدا سب سے پیش پیش رہے ہیں۔ مسلح فورسز کی خود انحصاری کی مساعی کے تحت پہلا ادارہ فضائيہ کے اندر قائم کیا گيا اور پرواز کے کیڈر نے کسی اور انداز سے اور فنی شعبے نے کسی اور انداز سے کارنامے انجام دئے۔ اسلامی جمہوری نظام ان خدمات اور زحمات کو ہرگز فراموش نہیں کرےگا۔ اس میدان میں فوج بھی آگے بڑھی، پاسداران انقلاب فورس بھی آگے آئی، مسلح فورسز کے مختلف حکام اٹھ کھڑے ہوئے، یونیورسٹیوں نے بھی مدد کی، ملک کے سائنسدانوں نے بھی تعاون کیا۔ اس وقت قوم قوت ایمانی، جذبہ روحانی اور اقدار الہی کے بعد ان وسائل اور ساز و سامان پر بھروسہ کرتی ہے جو اس نے خود تیار کئے ہیں، خود ایجاد کئے ہیں۔ یہ مایہ فخر ہے۔ ہم اپنے نوجوانوں میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی توانائیوں اور نصرت پروردگار پر مکمل یقین اور اعتماد رکھ سکتے ہیں، دنیا کے متکبروں اور استکباری طاقتوں سے خود کو مستغنی و بے نیاز بنا سکتے ہیں، ایرانی ذہن و فکر کے نتیجے میں تیار ہونے والی مصنوعات اور ساز و سامان سے آراستہ مسلح فورس کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ آپ ہر چیز کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھئے، تعلیم اس نقطہ نگاہ کے ساتھ حاصل کیجئے، اپنا تحقیقی کام اس سمت اور ہدف کو پیش نظر رکھ کر انجام دیجئے، اپنی توانائیوں پر بھروسہ کیجئے۔ یہ آپ کا تجربہ ہے، یہ آپ کے ملک کا کامیاب تجربہ ہے، اسلامی جمہوریہ کی فوج اور مسلح فورسز میں آپ کے پیشرو افراد کا یہ کامیاب تجربہ ہے۔ اگر آپ اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں پر انحصار کریں گے تو آپ کی توانائیاں اور صلاحیتیں پانی کے چشمے کی مانند ابلتی رہیں گی اور نتائج و ثمرات سے آپ بہرہ مند ہوتے رہیں گے، آپ کے محکمے اور آپ کی قوم اس سے مستفید ہوتے رہے گی۔
جو رپورٹ اس ڈیفنس یونیورسٹی کی انتظامیہ کے سربراہ نے پیش کی وہ بہت اطمینان بخش رپورٹ ہے۔ مختلف شعبوں کی کارکردگی اور کامیابیوں کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی گئی وہ قابل تعریف ہے۔ تاہم اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ راہ کمال کبھی نہ ختم ہونے والا راستہ ہے، آپ جتنا آگے بڑھئے کمالات کی لذتوں سے اتنا ہی زیادہ محظوظ ہوں گے۔ روحانی کمالات کا بھی یہی عالم ہے۔ قرب الہی، ارتکاز الی اللہ، عشق خداوندی، روحانیت و معنویت اور عالم ملکوت کی سیر میں یہی خصوصیت ہے اور مادی امور میں بھی یہی صورت حال ہے کہ آپ جتنا آگے بڑھئے، اتنا ہی احساس فرحت کریں گے، اتنا ہی احساس عزت کریں گے، اتنا ہی احساس اقتدار کریں گے۔ یہ راستہ آپ نوجوانوں کا راستہ ہے۔ ملک آپ کا ہے، فوج آپ کی ہے، مستقبل آپ سے متعلق ہے۔ خوب تعلیم حاصل کیجئے، تحقیق کیجئے اور خوب تجربات کیجئے۔
اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ اگر آپ اس کے دین کی، اس کے راستے کی، الہی اہداف کی نصرت و مدد کریں گے تو وہ بھی آپ کی مدد کرے گا۔ اللہ کی جانب سے نصرت و مدد کا مطلب ہے اس فطرت میں موجود تمام طاقتوں کی مدد یعنی ساری کی ساری چیزیں آپ کی مدد کے لئے آگے آئيں گی۔ ماورائی طاقتیں بھی آپ کی مدد کے لئے آئيں گی، آپ کو مدد ملے گی، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی، جیسا کہ اب تک آپ کو پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔
آپ یاد رکھئے کہ آج آپ کا ملک دس سال قبل کے مقابلے میں بالکل الگ ہے، بہت آگے پہنچ چکا ہے۔ بیس سال قبل کے مقابلے میں تو اور بھی زیادہ ترقی کر چکا ہے اور اوائل انقلاب یعنی تیس سال قبل کے دور کی بنسبت تو بہت ہی آگے نکل چکا ہے۔ یہ ہماری قوم کی بلند ہمتی، ہمارے عوام کی بلند ہمتی، ہمارے نوجوانوں کی بلند ہمتی، اللہ تعالی پر ان کے توکل اور اس مقدس راہ میں ان کی بے تکان اور بلا وقفہ مساعی کے ثمرات ہیں، آپ اس کوشش کو جاری رکھئے۔
ہمارے علمی اور سماجی اداروں میں مسلح فورسز کی یونیورسٹیاں ہماری امید اور توقعات کا مرکز ہیں۔ آپ کی اس یونیورسٹی کا نام شہید ستاری کے نام پر رکھا گيا ہے، اس محنتی، فعال، خلاقی صلاحیتوں سے مالامال، جذبہ ایمانی سے آراستہ اور مجاہدانہ اوصاف سے متصف عزیز شہید کے نام پر۔ مقدس دفاع کے دوران کمانڈر کے فرائض سنبھالنے سے قبل بھی انہوں نے انتہائی خاموشی سے بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں اور کمانڈر کی حیثیت سے بھی قابل قدر کارنامے رقم کئے۔ اسی طرح ہمارے دیگر عزیز شہیدوں نے جن کا تعلق بری فوج، بحری فوج، فضائيہ اور مسلح فورسز کے کسی اور شعبے سے تھا، ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ آپ ان یونیورسٹیوں کی قدر کیجئے۔ ہمیشہ عصری تقاضوں کے مطابق جدید ترین منصوبے تیار کیجئے، مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے واضح منصوبے بنائیے۔ محترم اساتذہ بھی بھرپور محنت کریں اور عزیز طلبہ بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ، فورسز کے کمانڈر پابندی سے یونیورسٹیوں میں آمد و رفت رکھیں، ان نوجوانوں سے قریب سے ملیں، بات چیت کریں۔ یہ ان ک لئے بھی اور ان نوجوانوں کے لئے بھی بہت مفید ہے۔ ہم آپ نوجوانوں کو دیکھ کر ہمت و حوصلہ پاتے ہیں اور آپ نوجوان اپنے سینیئر لوگوں سے ملکر ان کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
پروردگارا! بحق محمد و آل محمد ان نوجوانوں پر اپنے فضل و کرم کا سایہ کر۔ یا اللہ ہماری مسلح فورسز کو، سپاہ پاسداران انقلاب کو، اسلامی جمہوریہ ایران کی افواج کو، پولیس اور بسیج کو اپنی نصرت و مدد کا مستحق قرار دے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

(1) انفال: 36