آپ کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الہداۃ المہدین المعصومین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین قال اللہ الحکیم فی کتابہ من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضا نحبہ و منہم من ینتظر و ما بدلوا تبدیلا

گفتگو شروع کرنے سے پہلے، چونکہ آج ہمارے امام (رحمت اللہ علیہ) کے فرزند عزیزکا ہفتم ہے اور ہمارا یہ سالانہ جلسہ اس دن پڑ گیا ہے، اس لئے تمام برادران و خواہران سے، چاہے وہ اس صحن میں ہوں یا صحن سے باہر، گزارش ہے کہ ایک سورۂ حمد اور سورۂ توحید ان کی روح کے ایصال ثواب کے لئے پڑھ دیں تاکہ اس جلسے سے انہیں بھی فیض پہنچ جائے۔
سب سے پہلے میں مشہد مقدس کے مومن، وفادار، مخلص عوام، تمام بہنوں اور بھائیوں اور اسی طرح ان زائرین اور مسافرین کو جو ان دنوں یہاں تشریف رکھتے ہیں، اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بہت اچھا موقع ہے کہ نیا سال حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ الصلاۃ والسلام کے روضۂ اقدس کے سائے میں شروع کریں۔ آج جو بات عرض کرنے کے لئے میں نے مد نظر رکھی ہے، وہ دینی معرفت بھی ہے، انقلاب اور ملک کے مسائل اور اسی طرح دنیا کے موجودہ مسائل سے تعلق بھی رکھتی ہے اور ان لوگوں کے لئے راستہ بھی ہموار کرتی ہے جو اسلامی میدانوں میں کام اور تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بات مختصر الفاظ میں، میں عرض کروں گا۔
تمام ادیان اور مذاہب میں بلکہ دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جنہیں لوگوں کو انجام دینا چاہیے اور کچھ صفات ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے۔ یہ اقدار ہیں۔ کچھ کام اور صفات ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے عوام کو دوری اختیار کرنا چاہئے۔ یہ اقدار مخالف (کام اور صفات) ہیں۔ ادیان میں بھی اور دنیوی تہذیبوں میں بھی، ایسے امور اور صفات ہیں جو اقدار مخالف ہیں اور اگر کوئی دین کے ہدف تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کو ان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ دنیا کی بڑی تہذیبوں میں بھی ایسی چیزوں کا تعین کیا جاتا ہے جو ان کے نقطۂ نظر سے اقدار مخالف ہیں۔
عوام، جماعتوں اور دستوں کو اقدار مخالف چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہر جگہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو دین، مکتب یا اس تہذیب و ثقافت کے نقطۂ نگاہ سے منفی اور ناقابل قبول ہوتی ہیں اور ان سے اجتناب ضروری ہوتا ہے۔ دینی اور شرعی زبان میں اقدار مخالف امور کو محرّمات یا مذموم اور بری صفات کہتے ہیں۔ اسی طرح ہر جگہ کچھ اقدار ہوتی ہیں کہ اگر ان پر توجہ نہ دی جائے اور ان کی پابندی نہ کی جائے تو ان اہداف تک نہیں پہنچا جاسکتا جن کی دین، تہذیب اور تمدن دعوت دیتا ہے۔ اگر کچھ لوگ دینی اور ثقافتی اقدار پر عمل کریں، مثال کے طور پر واجبات اور مستحبات کو انجام دیں لیکن محرّمات سے پرہیز نہ کریں تو ان اہداف تک نہیں پہنچیں گے۔ یہ ایسا ہی جیسے کوئی مریض، معالج کی دوا استعمال کرے لیکن ان چیزوں سے جو اس کے لئے مضر ہیں، پرہیز نہ کرے۔ اس صورت میں دوا کا اس پر مثبت یا کم سے کم نمایاں اثر نہیں ہوگا اور اس کو فائدہ نہیں ہوگا۔ لہذا جب ہم اسلامی نقطۂ نگاہ سے کسی مسئلے کو دیکھیں تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کی مقدس شرع نے ہمیں کچھ امور کا حکم دیا اور کچھ باتوں سے روکا ہے۔ دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ اگر ہم اسلامی اہداف تک پہنچنا چاہیں تو ضروری ہے کہ واجبات اور محرّمات دونوں کو مد نظر رکھیں۔ ماضی میں جو لوگ یہ نہیں چاہتے تھے کہ عوام اسلامی اہداف تک پہنچیں، وہ بعض اوقات واجبات کی رعایت کرتے تھے لیکن محرّمات کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، فرض کریں، ظالم شاہی حکومت، کبھی کبھی خود کو مسلمان ظاہر کرنے کے لئے، خدا، اس کے رسول اور امام کا نام لیتی تھی۔ یہ ان امور میں سے ہے جو ضروری اور لازمی ہیں۔ یا کبھی نماز پڑھنے کا دکھاوا کرتے تھے۔ مثلا اگر کسی نے کہیں اتفاقیہ نماز پڑھ لی تھی، تواس کی تصویر تقسیم کرتے تھے کہ ہاں؛ بعض اوقات یہ نماز بھی پڑھتے ہیں۔ یا قرآن طبع کروا کے تقسیم کرتے تھے۔ اس طرح کے چھوٹے موٹے کام ان سے ہوجاتے تھے، لیکن محرّمات کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ یعنی کھلے عام گناہ کرتے تھے حرام کام انجام دیتے تھے۔ کھلے عام خدا کے دشمنوں سے دوستی کرتے تھے اور دوستان خدا پر دباؤ ڈالتے تھے، انہیں ایذائیں دیتے تھے، قتل کرتے تھے اور جیل میں ڈال دیتے تھے۔
ایک روایت میں حضرت امام صادق علیہ الصّلاۃ والسّلام سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا انّ بنی امیّۃ اطلقوا تعلیم الایمان، ولم یطلقوا تعلیم الکفر، لکی اذا حملوھم علیہ لم یعرفوہ یعنی بنی امیہ نے اس بات کی اجازت دی کہ لوگ ایمان کو سیکھ لیں اور سمجھ لیں کہ ایمان کیا ہے لیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ لوگ یہ سمجھیں کہ کفر اور فسق کیا ہے۔ کیوں یہ نہیں ہونے دیا کہ لوگ صحیح طور پر اس کو سمجھ سکیں؟ اس لئے اگر خود انہوں نے کوئی ایسا کام کیا کہ جو لوگوں کے کفر اور فسق کے راستے پر جانے کا باعث ہو تو لوگ یہ نہ سمجھ سکیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ان کی حقیقت لوگوں پر عیاں نہ ہوسکے۔ یہ بنی امیہ کا کردار ہے، اہل طاغوت کا وطیرہ ہے۔ بعض اوقات، لوگوں کا دل رکھنے کے لئے یا عوام کے ساتھ ہم ایمان ہونے کا دکھاوا کرنے کے لئے، خدا کا نام زبان پر لاتے ہیں؛ لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کی زندگی میں، جس طرح اسلام اور خدا چاہتا ہے، محرّمات ذرا سا بھی ختم ہوں۔ ان کی زندگی گناہ آلود ہے۔ بادشاہوں کا یہ کردار، ائمہ علیہم السلام کی تعلیمات کے برعکس ہے۔
دعائے مکارم الاخلاق جس کا ہر جملہ اور ہر فقرہ ایک معرفت عظیم ہے، مومن انسان کے لئے درس زندگی ہے۔ جو لوگ اہل مطالعہ، اہل فکر و تدبر، یا اہل دعا و مناجات ہیں، وہ دعائے مکارم الاخلاق کو پڑھیں اور اس کو سمجھیں۔ اس دعا کے ابتدائي جملوں میں اچھے اور برے کو ایک دوسرے کے مقابلے میں قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور واجر للنّاس علی یدی الخیر۔۔۔ یعنی میرے خدا، لوگوں کے لئے کار خیر کو میرے ہاتھوں پر جاری فرما۔ یہ اچھا کام ہے اور اس کے فورا بعد فرماتے ہیں ۔۔۔ ولاتمحقہ المنّ یعنی جن پر نیکی کی گئی ہے، ان پر احسان جتا کے اس نیک کام کو ضائع نہ کرو۔ لازم لوگوں کے لئے کار خیر ہے۔ ممنوع وہی احسان جتانا ہے۔ یا کہا جاتا ہے کہ وھب لی معالی الاخلاق مجھے اعلا اور بڑا اخلاق عطاکر۔ لیکن واعصمنی من الفخر مجھے فخر میں مبتلا نہ کر کہ میں فخر و مباہات کروں اور کہوں کہ ہاں میرے اندر یہ اچھا اخلاق ہے۔ اس سے پہلے کے جملوں میں کہا جاتا ہے کہ واعزّنی ولا تبتلینی بالکبر یعنی مجھے عزت دے لیکن تکبر میں مبتلا نہ کر۔
عزت اچھی چیز ہے لیکن تکبر بری چیز ہے۔ ائمہ علیہم السلام کی سیرت اور تعلیمات یہ ہیں۔ تو اسلامی تعلیمات اور ثقافت میں معاملہ اس طرح ہے۔ تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں کچھ چیزیں لازمی ہیں اور کچھ چیزیں ممنوع ہیں۔ ہر قوم اپنی ضرورت کے مطابق کچھ چیزوں کا انتخاب کرتی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسری قوم سے کہے کہ تم فلاں چیز کے موافق کیوں ہو؟ یا فلاں چیز کے مخالف کیوں ہو؟ علمی بحث الگ ہے اور اعتقادی بحث الگ ہے لیکن جہاں کوئی قوم دوسری قوم سے گفتگو کرتی ہے وہاں یہ کہنا غلط ہے کہ تم، مثال کے طور پر کھانا کھاتے وقت ہماری طرح عمل کیوں نہیں کرتے؟ ہر قوم کی اپنی خاص تہذیب اور عادت ہوتی ہے، کچھ چیزیں لازمی اور کچھ باتیں ممنوع ہوتی ہیں جو عام طور پر اس قوم کی ضروریات کے مطابق معین کی جاتی ہیں۔ آج دنیا میں، افسوس کہ، یہ بری عادت پائی جاتی ہے کہ دنیا کی اقتصادی اور فوجی طاقتیں اور ان کے سرغنہ یعنی یہی دنیا کی سامراجی طاقتیں، دنیا کی تمام اقوام کی توہین کرتی ہیں کہ تم ہماری طرح کیوں نہیں رہتے ہو اور ہماری طرح عمل کیوں نہیں کرتے ہو؟ ثقافتی یلغار کہ جس پر میں نے بارہا زور دیا ہے، اس کا ایک حصہ اسی مسئلے سے تعلق رکھتا ہے۔
مغرب والوں کی تہذیب صحیح یا غلط، خود ان کے لئے ہے۔ وہ اس بات پر تیار نہیں ہیں کہ دیگر اقوام ان سے یہ کہیں کہ تمہاری تہذیب، تمہاری ہے۔ ہم تم پر اعتراض نہیں کرتے کہ اس طرح کیوں رہتے ہو؟ کپڑے اس طرح کیوں پہنتے ہو؟ یہ کام کیوں کرتے ہو؟ اور تمہارا کردار ایسا کیوں ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ دیگر اقوام کو ہماری طرح رہنا چاہئے اورہماری طرح لباس پہننا چاہیے۔ اگر کوئی فرد عالمی اور سرکاری اجتماعات میں شرکت کرے اور بالفرض گردن میں فلاں چیز نہ باندھے تو مغرب والوں، ان کے حکام اور مغربی تہذیب کے مطابق اس کا کام قابل قبول نہیں ہے۔ جناب آپ یہ کیوں نہیں باندھتے؟ کوئی قوم جواب میں ان سے سوال کرے کہ آپ کیوں باندھتے ہیں؟ جس طرح آپ نے اس طرح پسند کیا، اس طرح چاہا، اس طرح لباس پہنتے ہیں، وہ آپ کا فیشن ہے؛ اسی طرح ہر قوم کی، صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر، اپنی تہذیب ہے، اپنے آداب و رسوم ہیں، اپنے عقائد اور رسومات ہیں۔ اگر صحیح اور غلط کی بات کریں گے تو ظاہر ہے کہ اسلامی تہذیب اور وہ ثقافت جس کا سرچشمہ وحی الہی ہے، یعنی اسلامی اقوام کی ثقافت، صحیح اور محکم ہے۔ بہرحال، اس سے قطع نظر کہ کون سی تہذیب صحیح ہے اور کون سی صحیح نہیں ہے، ہر قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہئے اور تہذیب، عقائد اور آداب و رسوم کا خود انتخاب کرنا چاہیے۔ کسی بھی طاقت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ديگر اقوام سے کہے کہ تم اس طرح کیوں رہتے ہو؟ اس طرح کیوں نہیں رہتے؟ یہ غلط ہے۔
البتہ کچھ چیزیں دنیا میں ایسی ہیں جو تمام اقوام کی نگاہ میں بری ہیں۔ ظلم سب کی نظر میں برا ہے۔ بے گناہوں پر جارحیت، ہر صاحب عقل سلیم کی نظر میں غلط اور بری ہے۔ افسوس کہ وہی طاقتیں، جو آج یہ توقع رکھتی ہیں کہ تمام اقوام اور ممالک ان کی تقلید کریں اور ان کی طرح رہیں، ان باتوں کا لحاظ نہیں رکھتیں۔ وہ لوگوں کا قتل، جارحیت اور زیادتی کرتی ہیں اور اقوام کے مال و دولت کی غارتگری کرتی ہیں۔ یہ غلط کام وہ خود کرتی ہیں اور پھر اقوام کی محکم راہ و روش اور صحیح باتوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
تو یہ ایک بنیادی بات تھی اقدار اور اقدار مخالف چیزوں کے بارے میں۔ حرام ممکن ہے کہ دینی اعتبار سے ہو، یعنی دینی اقدار کے خلاف ہو یا قومی اعتبار سے ہو کیونکہ ہر قوم میں کچھ چیزیں اقدار کے منافی سمجھی جاتی ہیں- یا ممکن ہے کہ انسانی بنیادوں پر حرام ہو کیونکہ تمام انسانوں کی نگاہ میں کچھ چیزیں بری اور اقدار مخالف ہوتی ہیں۔ مقدس اسلامی شرع اور قرآنی ثقافت کی نظر میں تمام برائیوں اور اقدار مخالف باتوں کا مظہر وہ ہے، جس کا نام قرآن نے شیطان رکھا ہے۔ قرآن اور اسلام کی منطق میں شیطان ایک عام مفہوم ہے جو تمام برائیوں اور اقدار مخالف باتوں کا مظہر ہے۔ قرآن میں شیطان سے جس چیز کی بھی نسبت دی گئی ہے وہ بری ہے۔ بدعنوانی، تکبر، کاہلی، فتنہ انگیزی، ظلم اور اچھوں اور اچھائیوں سے دشمنی، ان سب کا تعلق شیطان سے ہے ۔
میرے عزیزو! اس نئے سال کے آغاز پر اس سلسلے میں جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارا عظیم انقلاب، ایران، ایرانیوں اور ہر اس فرد کے لئے جس کو اس انقلاب کی معرفت ہے، ایک حیات آفریں تحریک تھی۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، اقوام نے یہی پہچانا، سمجھا اور اس کا رخ کیا۔ اسلامی انقلاب کی طرف جھکاؤ اور جو کچھ ایران میں ہوا اس کی قدردانی اور ستائش، دنیا میں ہنگامہ ہے۔ اسلامی انقلاب، جس نے ایران اور ایرانیوں، بلکہ اسلام اور مسلمین کو اہرمنی اور شیطانی طاقتوں کے چنگل سے نجات دلائی، کچھ چیزوں کو لازمی اور کچھ چیزوں کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ لازمی وہ چیزیں ہیں کہ انقلاب، ایک انقلابی انسان سے، جو انقلاب کے زیر سايہ زندگی گزارتا ہے، کہتا ہے کہ اہداف تک پہنچنے کے لئے، اس کو انجام دو۔ اور ممنوع وہ چیزیں ہیں کہ جن کے لئے کہتا ہے کہ ان کو انجام نہیں دینا چاہیے۔ ان باتوں کی رعایت اور لحاظ کرنا چاہیے تاکہ ایران، انقلاب کی برکت سے اپنے اعلی اہداف تک پہنچ سکے اور وہ برائیاں، بدعنوانیاں، فتنے اور بربادیاں، جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے طویل برسوں کے دوران یہاں پھیلائی ہیں، دور ہوسکیں۔
میں عرض کرتاہوں کہ ہم نے انقلاب کے آغاز سے اور انقلاب کے پہلے سے، ملک کے ہر گوشہ و کنار میں، تمام معاملات اور واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اگر کوئی مجھ سے، انقلاب جن باتوں کو لازمی قرار دیتا ہے، ان کے تعلق سے عظیم الشان ایرانی قوم کے بارے میں گواہی طلب کرے تو میں گواہی دوں گا کہ یقینا ایرانی قوم نے، انقلاب نے جن چیزوں کو لازمی اور واجب قرار دیا ہے، ان پر احسن طریقے سے عمل کیا ہے۔ کون سا انقلابی واجب ہے جس کو ہماری قوم نے انجام نہیں دیا؟ انقلاب کے لئے اس قوم نے اعلی ترین مجاہدت کی۔ کیا آٹھ سال تک جنگ آسان ہے؟ وہ آٹھ سالہ جنگ کہ جس میں دنیا کی اول درجے کی تمام فوجی طاقتوں نے متحد ہو کر ایک شخص، ایک محاذ اور ایک فریق کی حمایت کی۔ سابق سوویت یونین، امریکا، نیٹو اور رجعت پسند عرب ممالک، جس کے پاس جو بھی تھا، اس سے کسی نہ کسی شکل میں اس کی مدد کر رہا تھا۔ بعض ایران سے دشمنی کے سبب، بعض اسلحے کی تجارت کے لیے اور خلیج فارس کی حکومتیں زیادہ دولت کی وجہ سے جو ان کے پاس تھی اور تمام منڈیوں کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے تھے، جارح کی ہر طرح سے فوجی اور اسلحہ جاتی مدد کررہی تھیں اور اس جنگ میں ایک فریق ایرانی قوم تھی جس نے اکیلے، خدا پر توکل اور خود اعتمادی کے ساتھ عظیم ترین مجاہدت کی۔ اس سے بڑھ کے اور کیا ہوسکتا ہے؟
سیاسی میدانوں میں موجودگی بھی ان چیزوں میں سے ہے جن کو انقلاب لازمی قرار دیتا ہے۔ ہماری قوم کے افراد، عورت، مرد، سب انقلاب کی کامیابی کے پہلے سال سے آج تک، تمام سیاسی میدانوں میں، جہاں انقلاب نے ان سے توقع رکھی اور جہاں بھی ایرانی قوم کی موجودگی کا ثابت ہونا ضروری تھا، موجود رہے۔ لیکن بیرونی ریڈیو اسٹیشنوں کے لئے جھوٹ بولنا آسان ہے۔ ان کے نیوز ریڈر کے گلے میں جھوٹ، ہڈی کی طرح پھنستا نہیں ہے۔ سامراجی اور صیہونی ذرائع ابلاغ عامہ مستقل طور پر اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ان کا ایک بڑا پروپیگنڈہ یہ تھا کہ ایرانی قوم اسلام اور اسلامی انقلاب سے اوب چکی ہے۔ اسے کون جھوٹ ثابت کرسکتاہے؟ فرض کیجیے کہ ایران کے ریڈیو جواب دیں کہ نہیں، یہ قوم انقلاب سے اوبی نہیں ہے۔ کیا اس سے ثابت ہوگا؟ کیسے ثابت ہوگا کہ ایرانی قوم، انقلاب، اسلام اور اعلی اہداف و اقدار سے اسی طرح متمسک ہے اور ان کے لئے اپنی ہستی، اپنا جسم و جان، سب کچھ دینے کے لئے تیار ہے اور میدان میں موجود ہے؟ یہ ہوگا عوام کی موجودگی سے، خاص مواقع پر اور مطلوبہ میدانوں میں، سڑکوں اور اجتماعات کے مراکز میں ان کی موجودگی ان تمام تہمتوں کو ناکام بناسکتی ہے۔
مومن، وفادار، ذہین، سیاسی شعور رکھنے والے اور آگاہ عوام، جہاں بھی ضروری ہوا، بائیس بہمن، (گیارہ فروری، یوم آزادی) یوم قدس، فرزند امام کے جنازے اور بڑے مراجع تقلید کے جنازے میں شریک اور موجود رہے۔ عوام نے ملک کے حکام، سرائیوو، فلسطین، لبنان ، دنیا کے مختلف علاقوں، زلزلے سے متاثر ہونے والوں، جنگ کے مہاجرین اور دوسرے ملکوں کے پناہ گزینوں کی مالی مدد کی۔ ہمارے عوام نے جانی، مالی اور سیاسی واجبات پر بہت اچھی طرح عمل کیا ہے۔ جہاں بھی انقلاب نے قوم کو بلایا، اس قوم نے لبیک کہا۔ انتخابات میں شرکت ضروری تھی، اس نے شرکت کی، مخلص عہدیدار کی حمایت ضروری تھی، اس نے حمایت کی۔
یہ انقلاب کے واجبات ہیں۔ میں آپ برادران و خواہران عزیز اور قوم سے عرض کرتا ہوں کہ ہر موقع پر آپ کی موجودگی ہے جس نے آج تک اس عظیم انقلاب کو ان تمام دشمنوں کے باوجود، محفوظ رکھا اور دشمن کو شکست دی۔ دشمن کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ایک قوم کے ساتھ وہ کیا کرسکتے ہیں؟ اس حکومت کےخلاف، جو عوام سے نہ جڑی ہوئی ہو اور اس کی کوئی بنیاد نہ ہو، وہ ہزاروں کام کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ حکومتیں جو عوام سے جڑی ہوئی نہیں ہیں اور انہیں اپنے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے، بہت آسانی سے امریکا اور دوسروں کے دباؤ میں آجاتی ہیں اور ڈر کر ان کی باتیں مان لیتی ہیں لیکن دسیوں لاکھ کی قوم کے ساتھ اور وہ بھی آگاہ، مجاہد، نڈر، خدا والی، خدا پر توکل کرنے والی، امتحان میں کامیاب اور سربلند رہنے والی قوم کے ساتھ وہ کیا کرسکتے ہیں؟ یہی وہ مقام ہے کہ ہمارے عظیم امام (رحمت اللہ علیہ) نے امریکا کی دشمنیوں کے مقابلے میں بارہا فرمایا ہے کہ امریکا ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، اس لئے کہ اس کے سامنے ایک ‏عظیم قوم ہے۔
انقلاب کے واجبات کے تعلق سے اس قوم کا عمل بہت اچھا رہا۔ انقلاب کچھ چیزوں کو ممنوع اور حرام بھی قرار دیتا ہے۔ انقلاب کے محرمات کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔ ان دو تین برسوں کے دوران جب بھی موقع ملا ہے میں نے نوجوانوں سے، انقلاب کے اہداف میں دلچسپی رکھنے والے دستوں اور گروہوں سے، عام لوگوں سے اور دسیوں لاکھ کے اجتماع میں بھی انقلاب کے محرمات اور ممنوعات کے بارے میں گفتگو کی ہے اور اس وقت بھی اس طرف اشارہ کروں گا۔
انقلاب کے محرمات کا بھی عوام اچھی طرح خیال رکھتے ہیں لیکن بعض اوقات عوام کے درمیان ایسی چیزیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو نہ ہوں تو بہتر ہے۔ ان میں سے ایک تو وہی چیز ہے جسے میں نے اس سال کے پہلے پیغام میں آپ سے عرض کیا۔ یہ اسراف اور فضول خرچی ان باتوں میں سے ہے جن سے روکا گیا ہے۔ البتہ میں جانتا ہوں کہ عوام کی بڑی تعداد بالخصوص متوسط طبقے کے لوگ اس کی رعایت کرتے ہیں، بعض رعایت نہیں کرتے۔ اسراف ایک دلدل ہے، مالی فضول خرچی شیطانی وسوسہ ہے۔ جب آپ ہدایت الہی کی برکت سے، دشمنوں کی جانب سے کھڑی کی جانے والی تمام رکاوٹوں کے باوجود، فعال، سرگرم، اور پرجوش جوان کی طرح زندگی کی تجدید کے لئے اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ہیں تاکہ اس ملک کے عظیم ذخائر سے استفادہ کرسکیں، تو آپ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جو چیز آپ کو معمولی سا بھی ضرر پہنچا سکتی ہے، اس کو انجام نہ دیں۔اسراف، فضول خرچی اور غلط آمدنی کے لئے بعض طبقات کا لالچ محرمات اور ان چیزوں میں سے ہے جن سے روکا گیا ہے، یہ باتیں نہیں ہونی چاہیے۔
پیغمبر اکرم حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ابتدائے اسلام میں، جو ہمارے انقلاب کے آج کا ہی دوسرا منظر تھا، انہیں حالات سے دوچار تھے، جدوجہد اور جنگ کررہے تھے۔ البتہ پیغمبر کے پیش نظر صرف ایک خاص دور نہیں تھا بلکہ آپ پوری تاریخ کو نظر میں رکھ کر بولتے تھے اور جدوجہد کرتے تھے۔ اس طرح کے ہر واقعے پر وحی الہی نازل ہوتی تھی؛ خود پیغمبر کی حیات بھی ملکوتی تھی اور پھر نبی اکرم لوگوں کے لئے کچھ بیان کرتے تھے۔ لہذاآپ قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ولاتسرفوا اسراف نہ کرو۔ علماء کے نزدیک یہ بات تقریبا مسلمہ ہے کہ ہر وہ گناہ جس پر قرآن میں عذاب کا اعلان کیا گیا ہو، وہ گناہ کبیرہ ہے۔ اگر اس نقطۂ نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایسے بہت سے کام جو نگاہوں میں نہیں آتے ہیں، گناہان کبیرہ میں شامل ہیں اور ہم اس طرف متوجہ نہیں ہیں۔
آج ملک تعمیر نو کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ منحوس پہلوی اور قاجاری سلطنت کے دور میں بالخصوص قاجاری سلطنت کے دوسرے نصف حصے میں، اس ملک کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔ اس ملک کے حیاتی ذخائر کو جہاں تک ممکن تھا لے گئے، کچھ کو ضائع کردیا اور کچھ ان کے ہاتھ نہیں لگے۔ وہ ریلوے لائن جس کو اسلامی جمہوریہ کی حکومت نے شروع کیا اور چند دنوں قبل خدا کے فضل سے اس کا افتتاح ہوا، ملک کے لئے ضروری تھی جبکہ اس ملک میں ریلوے آئے ہوئے سو سال سے زیادہ ہو رہے ہیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس ریلوے لائن پر کام کیا گيا جس کی روسیوں اور انگریزوں کو ضرورت تھی۔ رضا خان نے ملک میں ریلوے لائن انگریزوں کے زیر اثر علاقوں، عراق اور جنوبی ایران، اور روسیوں کے زیر اثر ملک کے شمالی علاقوں کو ملانے کے لئے بچھائی تھی۔ یہ ریلوے لائن ملک کے لئے ضروری نہیں تھی۔ اس ملک کے لئے ضروری وہی ریلوے لائن ہے جس کو اسلامی جمہوریہ ایران نے بچھایا ہے، جو خلیج فارس میں ملک کے پہلے اہم ساحلی شہر، بندر عباس کو مرکز اور پورے ملک سے متصل کرتی ہے۔ یہ کام گذشتہ سو برسوں میں انجام نہیں پایا تھا۔
اس طرح کے ضروری کام، جو انجام نہیں دیئے گئے، بہت ہیں۔ ملک میں یہ تباہیاں دشمنوں، کٹھ پتلی سلاطین اور رضا خان اور محمد رضا نیز احمق، جاہل، بے غیرت، بیرونی طاقتوں کے مطیع اور عیاش حکام کی بدعنوانیوں سے وجود میں آئی ہیں۔آج انقلاب ان کودور کرکے ملک کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ انقلاب کی عمر کے سولہ سال گزر رہے ہیں کہ جن میں سے آٹھ سال ہم جنگ میں مصروف رہے۔اب آپ دیکھیں کہ ملک کی تعمیر نو کتنا مشکل کام ہے۔اس ملک کی تعمیر کیسے ہوگی؟ حکومت کے ذمہ دار، مخلص اور کام کرنے والے ہیں۔ عوام بھی خدا کے فضل سے میدان میں موجود ہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ اس ملک میں افراط زر ہو۔ اسی لئے جعلی ایرانی تومان چھاپتے ہیں تاکہ اس ملک کی کرنسی کی قدر کو انہیں اقتصادی روشوں اور فارمولوں سے، جو عام طور پر رائج ہیں، ختم کردیں۔
اس حد تک وہ اس ملک، اس قوم اور اس کے اقتصاد کے خلاف اقدام کرتے ہیں۔ سب ہوشیار رہیں۔ میں آپ سے عرض کرتاہوں۔ وہ شیطان جس کو قرآن نے دین کی منطق میں برائیوں اور شر کا مظہر قرار دیا ہے، انقلاب کی منطق میں بھی (برائیوں اور شر کا مظہر) ہے۔ یہ شیطان استکبار اور سامراج ہے جو دشمن انقلاب ہے۔ تمام شیطانوں میں سب سے زیادہ پست اور خبیث ریاستہائے متحدہ امریکا ہے۔ ایرانی مرد، خواتین اور ملک کے تمام افراد قوم جان لیں کہ آج ان کا کوئی دشمن امریکی حکام سے زیادہ بدتر، خبیث اور خطرناک نہیں ہے۔ وہ مستقل اسلامی جمہوریہ ایران اور اس قوم کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ البتہ مستقل ناکامی سے ہی دوچار ہوتے ہیں لیکن سدھر نہیں رہے ہیں۔ ایک امریکی صدر نے اس ملک میں ہیلی کاپٹر بھیجے اور اس کو طبس کا طوفان لے ڈوبا۔ یعنی خدا کی غیبی فوج اس پر ٹوٹ پڑی۔ وہ کیا کہتے ہیں؟ وہ سمجھ رہے ہیں کہ کیا کررہے ہیں؟ سمجھتے ہیں کہ کیوں؟ کس سے روبروہیں؟ یہ بڑ جو ہانکتے ہیں وہ کس کے خلاف ہے؟ اس کا جواب کون دے گا؟ ایرانی قوم عظیم اور طاقتور قوم ہے۔ ایرانی قوم متحد اور مہذب قوم ہے۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف سے اور ان سولہ برسوں سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے؟ مستقل اسلامی جمہوریہ، اس قوم اور ایران کے حکام کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں اور بکواس کرتے ہیں۔ ان کے بڑے اور ان کے حکام مستقل خلیج فارس کے جزیروں، ایران کے ہتھیاروں، ایٹمی توانائی اور کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ اگر اخبارات لکھیں تو انسان سوچے گا کہ یہ اخبار والے ہیں، روٹی کے لئے دروغ بیانی پر مجبور ہیں۔ ان کی پارلیمنٹ کا اسپیکر، ان کا صدر کہتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی نظام اس حد تک اخلاقی پستی میں کیوں گر جاتا ہے کہ اس کے کوڑے سے جھوٹ کے پودے اگتے ہیں۔
میں ان سے اور ایران نیز اسلامی جمہوریہ کے تمام دشمنوں سے کہتا ہوں کہ یہ قوم خدا پر ایمان رکھتی ہے، اپنے آپ پر بھروسہ کرتی ہے اور اسلام نیز اسلامی جمہوریہ سے وابستہ ہے۔ یہ انقلابی اور متحد قوم، امام (خمینی رحمت اللہ) کی امت اور ملک کے مخلص حکام کی حامی ہے۔ دنیا میں جو بھی اس قوم اور اس کے حکام کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائےگا۔
پالنے والے! اس قوم کے دشمنوں کو کچل دے۔
پالنے والے! اس قوم پر اپنے فضل و کرم کے نزول میں روز بروز اضافہ فرما۔
پالنے والے! اس قوم کے دلوں کو نور امید سے روز بروز زیادہ منور فرما۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، دشمنوں کو آپس میں لڑائے رکھ۔
اس قوم کے لئے مستقبل قریب میں زیادہ اچھے، زیادہ شیریں اور زیادہ خوشی کے ایام مقدر فرما۔
پالنے والے! ہمارے شہدائے عزیز کے درجات کو، جنہوں نے اس راہ کو اس قوم کے لئے ہموار اور محکم کیا، روز بروز بلند تر فرما۔
پالنے والے! دنیا کی تمام کمزور اور مظلوم اقوام کو اپنی نصرت اور فتح سے سرفراز فرما۔
پالنے والے! صیہونیوں کو تاریخ کے کوڑے دان کی نذر کردے۔
پالنے والے! فلسطین، لبنان، بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، کشمیر، تاجیکستان اور تمام مسلم اقوام پر وہ جہاں بھی ہوں، اپنا فضل و کرم نازل فرما۔
پالنے والے! حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہمارے لئے مہربان اور آپ کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔
پالنے والے! تجھے محمد وآل محمد کا واسطہ، آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال فرما۔
پالنے والے! ہمیں آپ کے ساتھیوں اور سپاہیوں میں قرار دے۔
پالنے والے! ہماری، ہمارے والدین کی اور ہمارے مرحومین کی مغفرت فرما۔ اس قوم کو روز بروز پہلے سے زیادہ، اپنے فضل و کرم اور رحمت کا مستحق قرار دے۔ ہمارے امام اور آپ کے فرزند رضوان اللہ علیہما کی روح مطہر کو اعلی درجات عطا فرما۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ