اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں تمام خواتین و حضرات کو جو تہران اور بعض دیگر علاقوں سے تشریف لائے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ محرم سے پہلے کی سالانہ ملاقات درحقیقت امت اسلامیہ کے لئے عاشورا کی اہم اور پر برکت وادی میں قدم رکھنے اور ماہ محرم کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کی شروعات ہے۔
اگرچہ محرم اور عاشورا نیز اس واقعۂ عظیم کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور بہت سے مفید باتیں پیش کی گئی ہیں جنہیں ہم سب نے سنا ہے اور ان سے استفادہ کیا ہے، لیکن زمانہ جتنا گزررہا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ اس خورشید منور کا لازوال روئے انور، جس کو خورشید شہادت اور خورشید جہاد مظلومانہ و بے کسی کہا جاسکتا ہے، جس کو حسین بن علی علیہ السلام اور ان کے یاران باوفا نے روشن کیا ہے، زیادہ آشکارا ہورہا ہے اور عاشورا کی برکتیں زیادہ واضح ہو رہی ہیں۔ جس دن یہ واقعہ رونما ہوا، اسی دن سے اس کے اثرات نمایاں ہونے لگے۔ انہیں دنوں کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے کچھ فرائض ہیں۔ توابین کا ماجرا پیش آیا۔ بنی ہاشم اور بنی حسن علیہما الصلاۃ و السلام کی طولانی مجاہدت کے واقعات رونما ہوئے۔ اس کے بعد حتی بنی امیہ کے خلاف بنی عباس کی تحریک ( سامنے آئی) جس کے تحت دوسری صدی ہجری کے اواسط میں عالم اسلام میں ہرجگہ بالخصوص ایران، ایران کے مشرق میں اور خراسان وغیرہ میں مبلغین کو بھیج کر ظالم، مستکبر اور نسل پرست اموی حکومت کے خاتمے کے اسباب فراہم کئے گئے۔ حتی عباسیوں کی تحریک بھی، جو سرانجام کامیاب ہوئی، امام حسین علیہ السلام کے نام سے شروع ہوئی۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ بنی عباس کے مبلغ جب اطراف عالم میں جاتے تھے تو خون حسین بن علی علیہ السلام، آپ کی شہادت، فرزند رسول اور جگر گوشۂ حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کے خون کے انتقام کی باتیں کرتے تھے۔ لوگ اس کو قبول بھی کرتے تھے۔ حتی جیسا کہ میرے ذہن میں ہے، سیاہ لباس جو بنی عباس پہنتے تھے، امام حسین علیہ السلام کی عزا کے لباس کے عنوان سے منتخب کیا گیا تھا اور اس کے بعد بنی عباس کی حکومت کے پانچ سو برسوں کے دوران ہمیشہ سیاہ لباس ان کا سرکاری لباس رہا ہے۔ سیاہ لباس پہلی بار امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی مناسبت سے پہنا گیا تھا۔ وہ کہتے تھے ھذا حداد آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ۔ یعنی یہ آل رسول کی عزاداری کا لباس ہے۔ اس طرح انہوں نے شروع کیا اور تبدیلی لائے لیکن منحرف ہوگئے اور خود بھی بنی امیہ کے کام میں لگ گئے۔
یہ عاشورا کے اثرات ہیں۔ پوری تاریخ میں یہ اثرات نظر آتے رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں جو ہوا ہے وہ ان سب سے بالاتر ہے۔ یعنی پوری دنیا میں ظلم، کفر اور الحاد کے تسلط کے زمانے میں، اس زمانے میں جب عدل و انصاف خلاف قانون اور ظلم بین الاقوامی قانون بن چکا ہے، حق اقتدار میں پہنچا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتیں زور زبردستی سے کام لے رہی ہیں اور دنیا پر نیا نظام مسلط کرنا چاہتی ہیں، البتہ اس سے پہلے کا نظام بھی جو دنیا پر سپر طاقتوں کے تسلط کا نظام تھا، ظلم کے تسلط کا ہی نظام رہا ہے۔ دنیا میں جو بھی ظلم، حق کی پامالی اور امتیازی سلوک ہورہا ہے، اس کو کسی نہ کسی قانون جیسےانسانی حقوق ،انسانی اقدار کے دفاع وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔ ظلم کے تسلط کی بدترین قسم یہ ہے کہ ظلم، عدل کے نام پر اور ناحق، حق کے نام پر دنیا پر مسلط کردیا جائے۔ ایسے زمانے میں ناگہاں عاشورا کی برکت سے ظلم کا پردہ چاک ہوا اور خورشید حقیقت سامنے آیا۔ حق، اقتدار اور حکومت میں پہنچ گیا۔ اسلام جس کو کنارے لگانے کی سبھی کوشش کررہے تھے، میدان میں آگیا اور دنیا اسلامی حکومت کی شکل میں حقیقی اور اصلی اسلام کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی۔ پانچ جون بمطابق پندرہ خرداد کی تحریک بھی عاشورا کی برکت سے شروع ہوئی تھی۔آج پانچ جون کے واقعے کو بتیس سال گزرجانے کے بعد ایک بار پھر محرم اور خرداد (اکیس مارچ سے شروع ہونے والے ہجری شمسی سال کا تیسرا مہینہ) ایک ساتھ پڑا ہے۔
پندرہ خرداد سن بیالیس ہجری شمسی ( پانچ جون انیس سو ترسٹھ عیسوی ) بارہ محرم سن تیرہ سو تراسی ہجری قمری کو پڑی تھی۔ ہمارے امام رضوان للہ تعالی علیہ نے عاشورا کے ماحول میں محرم اور عاشورا سے بہترین استفادہ کرتے ہوئے، پیغام حق اور اپنے دل کی فریاد لوگوں تک پہنچائی اور لوگوں کو منقلب کردیا۔ پانچ جون (انیس سو ترسٹھ ) کے پہلے شہداء، تہران، ورامین اور بعض دوسری جگہوں کے حسینی عزادار تھے جو دشمن عاشورا کے حملوں کا نشانہ بنے۔ سن تیرہ سو ستاون (ہجری شمسی مطابق انیس سو اٹھہتر عیسوی ) کوبھی اس دن اور اس مہینے کے واقعے کا مشاہدہ کیا گیا جس میں تلوار پر خون کی فتح ہوتی ہے۔ ہمارے امام بزرگوار نے یہ نام محرم کے تمام واقعات سے نکالا اور پیش کیا ہے۔ ایسا ہی ہوا بھی۔ یعنی ایرانی عوام نے حسین بن علی علیہ السلام کی پیروی کی، عاشورا کو سرمشق قرار دیا اور نتیجے کے طور پر خون نے تلوار پرفتح پائی۔ امام حسین علیہ السلام کے ماجرے کا یہ موضوع عجیب ہے۔
اب ہم اور آپ اس تاریخی حقیقت کے وارث اور امانتدار ہیں۔ آج ایسے لوگ ہیں جو علماء، واعظین اور مبلغین وغیرہ کی زبان سے عاشورا کے واقعے کو ایک درس کے عنوان سے اور ایک یاد اور واقعے کی تشریح کی حیثیت سے سننا چاہتے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں کیا کریں گے؟ یہاں ہم تبلیغ کے بہت اہم مسئلے تک پہنچتے ہیں۔ اگر کسی دن یہ نوجوان طلبا، حوزہ علمیہ کے فضلاء، مبلغین، واعظین، ذاکرین اور مرثیہ خوانی و نوحہ خوانی کرنے والے، عاشورا کے واقعے سے بنی نوع انسان کی زندگی پر سایہ فگن ظلم کے خلاف ایک حربے کے طور پر کام لے سکے ، تو اس تیز دھار شمشیر الہی سے ظلم کے پردے چاک کر کے، خورشید حقیقت کو حاکمیت اسلام کی شکل میں واضح اور آشکارا کرسکیں گے۔ یہ حقیقت ہمارے زمانے میں رونما ہوئی ہے۔ یہ توقع کیوں نہ رکھی جائے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں، چاہے اس دور میں دشمن کے پروپیگنڈے کتنے ہی سخت اور ہمہ گیر اور تاریکی کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، مبلغین، علمائے دین اور ذاکرین ہر باطل کے خلاف شمشیر حق اور ذوالفقار علوی اور ولایتی کو اپنے ہاتھ میں لے کے اس سے کام لے سکتے ہیں؟ ہم اس کام کو ناممکن کیوں سمجھیں؟ صحیح ہے کہ آج دشمن کے پروپیگنڈوں نے فکر و ذہن بشر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس میں شک نہیں ہے، صحیح ہے کہ اسلام بالخصوص تشیع کی شبیہ بگاڑنے کے لئے کافی مال ودولت خرچ کیا جارہا ہے، صحیح ہے کہ جس کے بھی، اقوام کی زندگی اور ملکوں میں غیر قانونی و ناجائز مفادات ہیں، وہ اپنے لئے اسلام اور اسلامی حکومت کے خلاف سرگرمیوں کو ضروری سمجھتا ہے، صحیح ہے کہ کفر اپنے تمام اختلاف و تفرقے کے باوجود ایک بات پر متفق ہے اور وہ حقیقی اسلام کی مخالفت ہے اور وہ حتی تحریف شدہ اسلام کو بھی حقیقی اسلام سے جنگ کے میدان میں لے آیا ہے، یہ سب صحیح ہے؛ لیکن کیا جماعت حق اور حقیقی اسلامی محاذ ان دشمنانہ اور خبیثانہ پروپیگنڈوں کے مقابلے میں، روح و پیغام عاشورا نیز پیغام محرم کی برکت سے ایک بار پھر اسی معجزے کی تکرار نہیں کرسکتا؟ کیوں نہیں کرسکتا؟ سخت ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ہمت اور فدا کاری کی ضرورت ہے۔ راستہ کھلا ہوا ہے، بند نہیں ہے۔
ہماری اور آپ کی ذمہ داری یہ ہے۔ آج دنیا تشنۂ حقیقت ہے۔ یہ ایک عالم یا ایک متعصب اسلامی شخصیت کی بات نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کا کہنا ہے جو برسوں مغربی ثقافت سے رابطے میں رہے ہیں، وہاں رفت و آمد کرتے رہے ہیں، لین دین کرتے رہے ہیں اور حتی اس کی نسبت حسن ظن بھی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج مغربی دنیا اپنی حساس سطح پر تشنۂ اسلام ہے۔ حساس سطح کیا ہے؟ کوئی عام اور غافل جماعت یا فرض کریں، وہ جماعتیں جن کے مفادات کا مسئلہ درپیش ہے، جیسے حکام، سرمایہ دار، دولت و ثروت جمع کرنے والے، زور زبردستی کرنے والے، مغربی معاشروں اور مغربی ثقافت کے پیکر کے سخت اور دیر میں احساس کرنے والے حصے ہیں، دانشور، پڑھے لکھے، مفکر، زندہ ضمیر، روشنفکر حضرات اور نوجوان، مغربی معاشروں کے پیکر کے حساس حصے ہیں۔ یہ حساس حصے، آج زندگی میں ایسے درس اور مکتب کے متلاشی ہیں جو انہیں زندگی کی ہزاروں حقیقی مشکلات سے نجات دلاسکے۔ زندگی کی بہت سی مشکلات حقیقی نہیں ہیں۔ حقیقی مشکل، روحانی عدم تحفظ کا احساس ، اکیلاپن، افسردگی، تزلزل، عدم اطمینان، اور روحانی سکون کا فقدان ہے۔ یہ انسان کی حقیقی مشکلات ہیں جو دولت و ثروت کی فراوانی میں بھی انسان کو خود کشی کی طرف لے جاتی ہیں۔ایک نوجوان دولت و ثروت اور زندگی کی تمام نعمتوں اور سہولتوں سے بہرہ مند ہونے کے باوجود خودکشی کرلیتا ہے۔ کیوں؟ اس کو تکلیف کیا ہے؟ اس کا درد کیا ہے جو غربت و ناداری اور جسمانی و جنسی لذات کی سہولتوں کے فقدان سے بھی زیادہ سخت ہے؟ یہ وہ درد ہے جس میں مغربی تمدن اور مادی معاشرے مبتلا ہیں۔ اطمینان و سکون کا فقدان، روحانی توکل کے کسی نقطے کا نہ ہونا، انسانوں کے درمیان انس و محبت کا ناپید ہونا، تنہائی اور پستی کا احساس۔ معاشرے کے حساس حصے ان مشکلات کو زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ کسی دست نجات کے منتظر ہیں جو آکے انہیں اس حالت سے نجات دلائے۔ جہاں آگہی ہے وہیں نگاہیں اسلام پر لگی ہوئی ہیں۔ البتہ ان میں سے کچھ، آگاہ نہیں ہیں، وہ اسلام کو نہیں پہچانتے لیکن اسلام کی طرف ان کے جھکنے کا امکان ہے۔ جو اسلام کو پہنچانتے ہیں، وہ واضح طور پر اسلام پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ایک ایرانی دانشور نے خود مجھ سے کہا تھا، میں نے سنا ہے، کہ وہ مرحوم ہوگئے، کہ آج مغرب شیخ انصاری اور ملا صدرا جیسی ہستیوں کا متلاشی ہے۔ ان کی زندگی، ان کی روحانیت اور ان کی اقدار آج مغربی شخصیات اور مفکرین کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ معرفت عاشورا، ان حقائق، اقدار اور اسلامی تعلیمات کا عظیم منبع اور بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کی قدر کو سمجھنا چاہئے۔ ہم ان تعلیمات اور اقدار کو دنیا کی آنکھوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ میں یہاں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے گذشتہ سال میری درخواست قبول کی اور عاشورا کی عزاداری سے ایک تحریف شدہ اقدام کو ختم کیا، ایک بار پھر چاہوں گا کہ اسی مسئلے پر زور دیں۔ میرے عزیزو!حسین بن علی علیہ الصلوۃ و السلام کے مومنین! آج حسین بن علی دنیا کو نجات دلاسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ تحریف کرکے ان کی شبیہ بگاڑی نہ جائے۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ غلط اور تحریف آمیز کام اور باتیں، آنکھوں اور دلوں کو حضرت سید الشہداء کے روئے مبارک سے ہٹاسکیں۔تحریف کی مخالفت کریں۔
میں اختصار کے ساتھ دو باتیں عرض کروں گا۔ ایک یہ کہ عاشورا اور حسین بن علی علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعہ منبر سے روایتی انداز میں بیان کیاجائے لیکن قدامت پرستی کے لئے نہیں بلکہ واقعہ بیانی کی جائے، یعنی یہ کہ شب عاشورا یہ ہوا، عاشورا کے دن یہ واقعہ رونما ہوا، عاشور کی صبح یہ ہوا۔ آپ دیکھیں کہ بڑے سے بڑا واقعہ زمانہ گزرنے کے ساتھ فراموش ہوجاتا ہے لیکن واقعۂ عاشورا اسی ذاکری اور واقعہ بیانی کی برکت سے اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ آج بھی باقی ہے۔ وہ اس طرح آئے اور امام سے رخصت ہوئے، اس طرح میدان میں گئے، اس طرح جنگ کی، اس طرح شہید ہوئے، اور ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے۔
واقعہ بیانی، حتی الامکان ، یقینی ہونی چاہئے۔ یعنی وہ واقعات بیان کئے جائیں جو لہوف ابن طاؤس یا ارشاد شیخ مفید وغیرہ میں ہیں۔ گڑھی ہوئی باتیں بیان نہ کی جائیں۔بلکہ ذاکری اور واقعہ بیانی ہو۔ مجلس میں، خطابت، فضائل و مصائب کا بیان، نوحہ خوانی و سینہ زنی ہو اور خطابت ایسی ہو کہ لوگ اس سے کچھ سیکھیں، امام حسین علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعہ اور ہدف بیان کیا جائے، یعنی وہی ہدف جو خود آپ کے کلمات میں بیان کیا گیا ہے کہ وانی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا ظالما ولا مفسدا، وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی یہ بیان کیا جائے۔ یہ ایک باب ہے۔ایہا الناس، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، قال من رائ سلطانا جائرا مستحلا، لحرام اللہ ناکثا لعہد اللہ فلم یغیر علیہ یفعل ولا قول، کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ اور من کان بادلا فینا مھجتہ و موطنا علی لقاء اللہ نفسہ فلیرحل معنا ان عبارتوں میں سے ہر ایک، ایک درس اور ایک باب ہے۔
لقاء اللہ یعنی خدا سے ملاقات کی بحث ہے۔ خلقت بشر اور انک کادح الی ربک کدحا ان تمام کوششوں اور جد و جہد کا ہدف یہی ہے کہ فملاقیہ کہ اس سے ملاقات ہو۔ اگر کوئی لقاء اللہ کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے اور اس نے لقاء اللہ کو ہی اپنے نفس کا وطن منتخب کیا ہے تو فلیرحل معنا تو اس کو حسین بن علی کے ساتھ چلنا چاہئے۔
یہ چیز گھر میں بیٹھ کے، دنیا اور دنیوی لذات میں ڈوب کے اور راہ حسین سے غافل ہوکے، نہیں مل سکتی بلکہ راہ حسین پر چلنا پڑے گا اور اس راہ پر چلنے کا آغاز اپنے باطن سے، نفس سے ہونا چاہئے اور پھر معاشرے اور عالم کی سطح تک اس کو پھیلانا چاہئے۔
یہ باتیں بیان ہونی چاہئے۔ یہ امام حسین (علیہ السلام ) کے اہداف ہیں۔ یہ تحریک حسینی کا خلاصہ اور اس سے نتیجہ اخذ کرنا ہے۔ تحریک حسینی کا خلاصہ یہ ہے کہ اس زمانے میں جب پوری دنیا ظلم و جور کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی، ظلم و جور اس پر مسلط تھا، کوئی بھی حقیقت بیان کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا، فضا اور زمین و زمان، سب سیاہ اندھیرے میں غرق تھے، اس وقت امام حسین نے قیام کیا۔ آپ دیکھیں کہ ابن عباس امام حسین کے ساتھ نہیں آئے۔ عبداللہ بن جعفر امام حسین کے ساتھ نہیں آئے۔
میرے عزیزو! اس کا مطلب کیا ہے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کس حال میں تھی؟ اس حالت میں امام حسین اکیلے تھے۔ البتہ تھوڑے سے لوگ آپ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ اگر وہ بھی نہ رہتے تو بھی آپ قیام کرتے۔کیا یہ غلط ہے؟ فرض کریں شب عاشورا جب حضرت نے فرمایا کہ میں نے تم سے بیعت اٹھالی، جاؤ اور سب چلے جاتے، حضرت ابوالفضل اور علی اکبر بھی چلے جاتے اور حضرت اکیلے رہ جاتے، تو عاشورا کے دن کیا ہوتا؟ حضرت واپس ہوجاتے؟ یا رک کے جنگ کرتے؟ ہمارے زمانے میں ایک فرد ایسی ملی جس نے کہا اگر میں اکیلا رہ جاؤں اور پوری دنیا میرے مقابلے پر آجائے تو بھی اس راہ سے نہیں پلٹوں گا۔ یہ ہمارے امام تھے جنہوں نے عمل کیا اور سچ کہا۔ صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ زبانی دعوے تو سب کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ ایک حسینی اور عاشورا کے شیدائی انسان نے کیا کیا؟ اگر ہم سب عاشورا والے ہوں، تو دنیا بہت تیزی سے بھلائی کی سمت چلنے لگے اور ولی مطلق (حضرت امام زمانہ) کے ظہور کے لئے حالات ساز گار ہوجائیں۔ یہ باتیں عوام کے درمیان بیان ہونی چاہیے۔ فراموش نہ کریں کہ امام حسین کا ہدف بیان ہونا چاہئے۔ اب ممکن ہے کہ کوئی، مثال کے طور پر ایک اخلاقی حدیث بھی پڑھے، یا ملک اور دنیا کی سیاست کی تشریح کرے، یہ بھی ضروری ہے، لیکن ضروری ہے کہ گفتگو اس طرح ہو کہ تقریر کے دوران، وضاحت کے ساتھ، اشارتا، الگ سے یا ضمنی طور پرعاشورا کا واقعہ ضرور بیان ہو، یہ بیان ہونے سے رہ نہ جائے۔ یہ پہلی بات۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور جس طرح کہ خود حسین بن علی علیہ السلام نے اپنے جہاد کی برکت سے اسلام کو زندہ کیا (اسلام درحقیقت حسین بن علی کے قیام اور خون سے زندہ اور آزاد ہوا ہے) آج آپ بھی، ان کی یاد کے ساتھ ان کے نام اور ان کے ذکر کے ساتھ حقائق اسلامی کو بیان کریں۔ قرآن و حدیث کو متعارف کرائیں۔ لوگوں کو نہج البلاغہ سے آگاہ کریں۔ اسلامی حقائق منجملہ یہی مبارک حقیقت جو آج حکومت حق میں یعنی اسلامی جمہوریہ کے علوی، ولایتی اور نبوی نظام میں متجلی ہوئی ہے، عوام کے لئے بیان کریں۔ یہ اعلی ترین اسلامی باتوں میں ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اس اسلامی حاکمیت سے جو آج یہاں وجود میں آئی ہے، چشم پوشی کرکے، اسلام بیان ہوسکتا ہے۔ یہ آپ سے ہماری سفارش ہے۔
الحمد للہ محترم حضرات، بزرگوں اور بالخصوص جوش و جذبے سے سرشار، مومن اور فاضل طلباء کے وجود میں تمام برکتیں موجود ہیں۔ پہلے دن جب اسی طبقے نے اس حدیث شریف سے استفادہ کرکے جس میں حضور نے اپنے اصحاب کو شہد کی مکھی سے تشبیہ دی ہے، اس تحریک کو وسعت دی تو یہ آیۂ مبارکہ آنکھوں کے سامنے مجسم ہوگئی واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا و من الشجر ومما یعرشون۔ ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک حقائق کو چوستے تھے اور تشنگان حقیقت کو شہد دیتے تھے کہفیہ شفاء للناس۔ آج بھی اسی طرح ہے۔ آج بھی طلباء، نوجوان فضلاء و مبلغین ان فنون کے بزرگوں اور اساتذہ کے تجربات سے استفادہ کرکے، خود کو تیار کریں، اور خدا کی امید پر، خدا کے لئے، راہ خدا میں، قربت خدا کی نیت کے ساتھ جائیں اور ملک میں ہرجگہ، ہر گوشے میں اور پوری دنیا میں ان حقائق کو مناسب زبان میں بیان کریں۔ ان شاء اللہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کا لطف و کرم آپ کے شامل حال رہے گا۔ ان شاء اللہ ہم اس محرم سے جس میں حضرت امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کے انتقال کی تاریخ پڑ رہی ہے، زیادہ سے زیادہ استفاد کرسکیں گے۔ ان شاء اللہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی پاکیزہ دعائیں سبھی کے شامل حال ہوں۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ