انیس بہمن تیرہ سو ستاون ہجری شمسی مطابق آٹھ فروری سنہ انیس سو اناسی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے فضائيہ کے اعلان وفاداری کے شجاعانہ اقدام کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقد ہونے والے اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے فضائیہ کے اس شجاعانہ اور لا زوال اقدام کو دو اہم ترین تغیرات کی تمہید قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ فوج کے ایک نئے تشخص کا تعارف اور اسلامی جمہوریہ کی فورس کے لئے ایک نئي پہچان کی تعمیر آٹھ فروری سنہ انیس سو اناسی کے فضائیہ کے اقدام کا ایک اہم نتیجہ تھا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق اس تاریخی اقدام کا دوسرا اہم نتیجہ ایک نئی شروعات کا سامنے آنا تھا۔ مسلح فورسز کے کمانڈر انچیف آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ فروری کے واقعے کو ملک کی نجات کا مقدمہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ درخشاں ماضی، قدیم ثقافت اور بے پناہ صلاحیتوں سے سرشار ایران، اسلامی انقلاب سے قبل توسیع پسند طاقتوں کا اسیر اور ان کے تحقیر آمیز اقدامات کا نشانہ تھا لیکن گیارہ فروری کے عوامی کارنامے اور اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد یہ تاریک دور ختم ہو گیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

برادران عزیز اور فضائیہ اور فضائی دفاعی سسٹم کے جفاکش اور خدمت گذار کمانڈر حضرات! آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو یہ توفیق عنایت کرے، آپ کی مدد کرے کہ آپ فضائیہ کی شان و شوکت میں جو بڑی محنتوں سے حاصل ہوئی ہے روز بروز اضافہ کرے۔ آج اس حسینیہ میں آپ کی تشریف آوری، محترم کمانڈروں کی تقاریر اور عزیز جوانوں کے ذریعے پیش کیا جانے والا پرکشش اور بامعنی ترانہ ہم سب کے لئے انشاء اللہ یادگار رہے گا۔
انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کا دن جو سنہ تیرہ سو ستاون ہجری شمسی مطابق انیس سو اناسی عیسوی میں فضائیہ کے شجاعانہ اقدام سے یادگار بن گیا، واقعی ایک خاص مفہوم اور خاص مضمون کا حامل دن ہے۔ اس دن (فضائیہ سے تعلق رکھنے والے) جو شجاع برادران، مجاہدت کے میدان میں اترے اور عوام کی صفوں میں شامل ہوکر مصروف کار ہو گئے، انہوں نے در حقیقت دو انتہائی اہم کارنامے انجام دئے ہیں۔ ایک تو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے (نئے) تشخص کی تعمیر کا کرنامہ ہے۔ ایک نئے تشخص کا تعارف جو اس سے قبل تک عوام کے سامنے کبھی نہیں آیا تھا۔ عوام الناس غالبا تنظیموں اور اداروں کے ظاہری روپ کو دیکھتے ہیں اور ان ایام میں یہ ظاہری تصویریں اچھی نہیں تھیں۔ اسلامی جمہوریہ کی فوج کے اندر اور گہرائی میں باایمان، حریت پسند اور آزاد منش لوگ خاصی تعداد میں تھے جو ملت ایران کی انہی امنگوں کو دلوں میں سجائے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے، ان امنگوں کے لئے کوششیں کرتے تھے۔ لیکن انہیں اپنے اس جذبے کی رونمائی کے لئے مواقع کی ضرورت تھی۔ فوج میں بڑی عظیم صلاحیتیں تھیں۔ عوام الناس کو ان صلاحیتوں کا علم نہیں تھا۔ فضائیہ کے جوانوں کے اس دن کے اقدام نے جس کا میں قریب سے مشاہدہ کر رہا تھا فوج کی ایک نئی پہچان پیش کی۔ یہ بہت اہم بات تھی۔ اس کے بعد آنے والے برسوں میں بھی خواہ وہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کا دور ہو، اس کے بعد کے ایام ہوں یا اس سے قبل کے ایام، اس تشخص کو روز بروز مزید تقویت ملتی گئی۔ میں تو کہوں گا کہ بعد کے برسوں میں اس تشخص کی درخشنگی اور تابناکی اور بھی نکھر کر سامنے آئی۔
اس روز کے اقدام سے ایک اور کارنامہ جو انجام پایا، وہ عبارت ہے ایک نئی شروعات سے۔ بیدار انسان کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اپنے ماحول پر اور اپنے گرد و پیش کے لوگوں پر اپنا اثر ڈالتا ہے اور ایک سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدم دوسروں کو بھی آگے بڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اس دن یہی ہوا۔ بیشک (تہران میں واقع) ایران روڈ کے علوی مدرسے میں انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کے دن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حضور میں جو واقعہ رونما ہوا، بائیس بہمن مطابق گیارہ فروری کے (اسلامی انقلاب کی فتح کے) عظیم واقعے میں بہت موثر واقع ہوا۔ میں نے آٹھ فروری، نو فروری اور دس فروری کی شبوں میں دیکھا اور سنا کہ لوگ امام خمینی کی قیام گاہ کی طرف جانے والی سڑکوں پر آکر نعرے لگاتے تھے تاکہ گھروں میں سو رہے لوگوں کو بیدار کریں۔ وہ نعرے لگاتے تھے کہ فضائیہ کے جوان خطرے میں ہیں، کیونکہ ان پر حملہ ہو گیا تھا۔ تو یہ بہت اہم چیز تھی۔ اس اقدام نے ایک نئی تحریک شروع کر دی، نیا جذبہ پیدا کر دیا، نئی حرکت کا آغاز کر دیا۔
یہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے، بہت بڑے خرمن سے اٹھائی گئی چند بالیاں ہیں، یہ ہمارے معاشرے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جس سے معاشرے کی مجموعی اور عمومی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ملک نجات پا گیا۔ اپنی تمام تر مادی و روحانی صلاحیتوں اور درخشاں تاریخ و ثقافت کے باوجود عظیم ملک اسیر ہوکر رہ گیا تھا۔ یہ ایک بہت ہی تلخ حقیقت ہے جو اختلافات، ٹکراؤ، گوناگوں مسائل اور مختلف افراد کی مداخلت کی وجہ سے اب بھی ہماری تاریخ میں مکمل طور پر سامنے نہیں آ سکی ہے۔ ملک اسیر تھا، تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنا ہوا تھا، دنیا کی توسیع پسند اور جابر طاقتوں کے ہاتھوں توہین کا شکار تھا، بالکل نظر انداز ہوکر رہ گيا تھا۔ عظیم ایران، گہرے اسلامی ایمان کا طرہ امتیاز رکھنے والا ایران بے دست و پا ہوکر رہ گیا تھا کیونکہ اغیار کے تسلط کی صورت میں بد قسمتی و بد بختی میں دب کر رہ گيا تھا۔ ملت ایران نے اس سیاہ چادر کو چاک کر دیا، اس ڈراونے خواب کا خاتمہ کر دیا۔ گیارہ فروری کا ملت ایران کا اقدام اور وہ اقدامات جو گیارہ فروری کے واقعے پر منتج ہوئے، وہ اس طرح کے اقدامات تھے۔
میں نے بارہا عرض کیا ہے اور جمعے کے دن بھی میں نے اس کا اعادہ کیا کہ جب ہم ان بتیس برسوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو اس وقت ہمارے انقلاب کے تعلق سے سب سے اہم چیز جو نظر آتی ہے وہ ثابت قدمی اور استقامت ہے۔ یعنی ہم اپنی بات پر قائم رہے۔ کسی بھی قوم اور کسی بھی جماعت کے لئے اصولوں پر قائم رہنا فخر کی بات ہے۔ اصول ایسی چیز ہے جس پر قائم اور ثابت قدم رہنا چاہئے۔ اقدار کی نگہبانی و پاسداری کی جانی چاہئے۔ ہماری قوم کے لئے سب سے اہم جو قدر تھی، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی وہ ہے اسلام۔ خود مختاری اسلام میں مضمر ہے، آزادی اسلام میں پنہاں ہے، مادی پیشرفت اسلام میں ہے، قومی اتحاد اسلام کے زیر سایہ ممکن ہے، صلاحیتوں کا فروغ اسلام سے ممکن ہے، یہ ساری چیزیں اسلام سے وابستہ ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اسلامی جمہوریت پر اسی لئے تاکید فرمائی۔ جمہوریت پر تاکید اس لئے تھی کہ عوام کو معیار اور میزان قرار دینا سب سے اہم نکتہ ہے۔ اگر معاشرے میں اسلام کی حکمرانی قائم کرنا ہے تو جب تک عمومی ایقان و اعتماد نہ ہوگا یہ چیز ممکن نہیں ہوگی۔ بنابریں عوام کی موجودگي، عوام کی رائے، عوام کے مطالبات اور عوام کی مداخلت و شراکت بنیادی چیز قرار پائی اور (نتیجے میں عوامی رائے کے مطابق) اسلامی جمہوریت کا تعین ہوا۔ ہمیں اس کی حفاظت کرنا چاہئے، اسے ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے، یہ پرچم ہمیشہ بلند رہنا چاہئے۔ ہم خود کو اسلامی جمہوریہ کی گہری پرمغز حقیقت سے جتنا زیادہ قریب کرنے میں کامیاب ہوں گے ہماری کامیابیاں اتنی ہی بڑھتی جائيں گی۔ البتہ اس کے لئے بلند ہمتی اور دگنے عمل کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے اس سال ملک کے مختلف محکموں میں بلند ہمتی اور دگنے عمل کے اثرات واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ اگر یہ چیز مکمل ہو گئی تو ایرانی قوم بن جائے گی نمونہ عمل، اسلامی جمہوریہ قرار پائے گی آئيڈیل۔ ضروری نہیں ہے کہ قومیں زبان سے کہیں کہ ایران ہمارا آئيڈیل ہے، کہنا ضروری نہیں ہے، وہ کہیں یا نہ کہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ روح افزا اور حیات بخش باد صبا دوسرے خطوں میں بھی عطر انگیزی شروع کر دے۔ وہاں کے لوگوں کو بیدار کرکے آگے بڑھنے کی ترغیب دے۔ یہ کام انجام پا چکا ہے۔
یہ جو آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ بعض ملکوں میں یہ عظیم تحریکیں جاری ہیں؛ یہ دفعتا اور یکبارگی معرض وجود میں نہیں آئی ہیں۔ ایک عرصے تک جذبات، خواہشات اور اطلاعات کا ذخیرہ تیار ہوتا رہتا ہے اور پھر کسی مناسب موقعے پر وہ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ آج اس کے سامنے آنے کا دن ہے۔ ان جذبات کی یہ شدت، یہ مطالبات اور یہ ادراک ماضی کے برسوں سے متعلق ہے۔ اس میں آپ ایرانی عوام اور آپ مسلح فورسز کے حکام کا بڑا بنیادی کردار ہے۔ اسے آپ ضرور پیش نظر رکھیں۔
ہم اس وقت بیچ میدان میں کھڑے ہیں، ہم ابھی بیچ راستے تک پہنچے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ ابتدائے سفر میں ہیں، تاہم اگر بلند مدتی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو شاید اسے ابتدائے سفر ہی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ خیر ہم اس وقت راستے میں ہیں۔ ہمیں اس راستے پر سفر جاری رکھنا ہے۔ جو کوئی بھی کسی راستے کو طے کرتا ہے لیکن منزل تک پہنچنے سے قبل رک کر پلٹ جاتا ہے یا وہ شخص بیچ راستے میں جاکر ٹھہر گیا ہے یا گمراہ ہوکر کسی اور سمت میں نکل پڑا ہے، اس میں اور ایسے شخص میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے جو اپنی جگہ سے اٹھا اور نہ ہی اس نے اپنا سفر شروع کیا۔ نتیجہ دیکھا جائے تو دونوں کا یہ عالم ہے کہ منزل پر نہیں پہنچے ہیں، مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سفر کو جاری رکھنا اور آگے بڑھتے رہنا لازمی ہے اور اس کا دارومدار ہے ہمتوں پر، محنتوں پر، ایمان و ایقان پر اور جوانوں کی شراکت پر۔ اس وقت خوش قسمتی سے مسلح فورسز کی گوناگوں کارکردگی اور سرگرمیوں میں آپ جوان حضرات پیش پیش ہیں۔ امور آپ کے ہاتھوں میں ہیں، آپ پر مرکوز ہیں اور نگاہیں بھی آپ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اگر جوان کے اندر توکل علی اللہ اور خدا پر اعتماد کا جذبہ ہو، خود اعتمادی کا جذبہ ہو تو وہ کرشماتی کارکردگی پیش کرتا ہے۔ ہماری زندگی میں انجام پانے والے تمام امور اور بڑے کام، الہی معجزے سے کم نہیں ہیں، لیکن چونکہ یہ چیزیں (اپنی کثرت کے باعث) ہمارے لئے معمول کی بات بن چکی ہیں اس لئے ہم ان کے معجزاتی پہلو کو سمجھ نہیں پاتے۔ یہ معجزاتی کام لوگوں کی شجاعت، بلند ہمتی اور کارکردگی پر منحصر ہیں۔ تو کام کو جاری رکھنا چاہئے۔
ہمیں غور کرنا اور یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سی چیزیں ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ پیشرفت کی راہ کی ان رکاوٹوں میں یقینا ایک ہے اقدار کی عدم پابندی اور ان سے بے اعتنائی۔ اقدار کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
ترقی کی راہ کی ایک اہم ترین رکاوٹ اختلاف اور تفرقہ ہے۔ قوم کے اندر تفرقہ، حکام کے اندر تفرقہ، نظام کے مختلف شعبوں کے درمیان اختلاف، نظام اور عوام کے مابین اختلاف۔ انقلاب نے جو اتحاد و یگانگت ہمیں عطا کر دی ہے، کسی مقدس خزانے کی طرح اس کی حفاظت کرنا چاہئے، پاسداری کرنا چاہئے۔ دشمن کی نرم جنگ میں جو چیز ہمیشہ نظر آتی رہی ہے اور آج بھی نظروں کے سامنے ہے، اس اتحاد کو متزلزل کرنے اور اس یکجہتی میں شگاف پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ دشمن بڑی محنت کر رہا ہے کہ کسی صورت شیعہ سنی فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی جائے۔ فارس، عرب، ترک، کرد اور دیگر قومیتوں کے درمیان نسلی تفرقہ پیدا کیا جائے، علاقائی اختلاف ڈال دیا جائے، محکمہ جاتی اختلافات کو ہوا دی جائے، تنظیمی اور جماعتی تنازعات کی آگ بھڑکائی جائے۔
ان سب چیزوں کا بڑی توجہ اور دقت نظری کے ساتھ، جسے ہم بصیرت کہتے ہیں، مقابلہ کرنا چاہئے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کہاں پہنچے ہیں، جس محاذ میں اس وقت آپ موجود ہیں اسے پہچانئے۔ ایک سپاہی ہے جو کسی حساس اور اہم محاذ پر موجود ہے اور اسے باقاعدہ علم بھی ہے کہ اس کا یہ محاذ کتنا اہم اور حساس ہے؟ دوسرا فوجی ہے جو اسی محاذ پر ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ یہ کتنا اہم اور حساس محاذ ہے؟ دونوں میں بہت فرق ہوگا۔ یہ دوسرا فوجی غفلت کی نیند سو جائے گا، بے توجہی کرےگا، محاذ کو چھوڑ بھی سکتا ہے، محاذ کے اندر اپنے دوسرے ساتھیوں سے لڑائی جھگڑا بھی کر سکتا ہے۔ تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملت ایران کی پوزیشن کتنی اہم اور حساس ہے۔
اب مشرق وسطی بیدار ہو چکا ہے، عالم اسلام میں بیداری کا اجالا پھیل چکا ہے۔ یہ ایک زمینی سچائی ہے کہ اس علاقے سے باہر کی تسلط پسند طاقتوں کا دور ختم ہونے کے قریب ہے جنہوں نے اس علاقے کے عظیم ذخائر کی خاطر حملہ کیا اور استعمار، ماڈرن استعمار اور الٹرا ماڈرن استعمار تینوں کو اس علاقے میں آزمایا۔ ایک دن وہ تھا کہ جب زمانے کی دونوں بڑی طاقتیں یعنی امریکہ اور سویت یونین اس علاقے کے تمام سیاسی امور پر مسلط ہو گئی تھیں۔ ایک حصہ دائیں بازو کے غلبے میں اور دوسرا حصہ بائيں بازو کے اختیار میں تھا۔ کبھی (علاقے کے یہ دونوں حصے) آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے اور کبھی مفاہمت کر لیتے تھے کیونکہ ان پر غلبہ رکھنے والے امریکا اور سوویت یونین کی آپس میں مفاہمت ہو چکی ہوتی تھی۔ کبھی اچانک دیکھنے میں آیا کہ انہوں نے مصر کو فروخت کر دیا! ایک زمانے میں اسے واقعی بیچ دیا گيا تھا۔ تو جنگ دونوں بلاکوں کے درمیان ہوتی تھی بعد میں انہوں نے اوپر ہی اوپر پس پردہ بیٹھ کر آپس میں مذاکرات کر لئے اور قوموں، ان کے حکام اور ان کے مفادات سب کو کچل کر رکھ دیا۔
اب ایسا نہیں رہا۔ اب علاقے کی قومیں بڑی طاقتوں کے تدریجی زوال کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔ ملت ایران اپنی عظیم ثقافتی و علمی دولت اور وسیع پیمانے پر دستیاب وسائل کے ساتھ اس وقت سب سے آگے ہے۔ یہ اسلام پر مبنی ایران ہے، اس قوم اور اس آبادی کی روح و فکر میں اسلام بسا ہوا ہے۔ اس کی حفاظت کرنا چاہئے، یہ بہت قیمتی چیز ہے۔ اس سلسلے میں ہر شعبے اور محکمے کا کردار ہے۔ فوج کا اپنا ایک کردار ہے اور فضائیہ کا بہت خاص کردار ہے۔
میں نے پیغمبر اسلام کی اس حدیث کو بارہا بیان کیا ہے کہ رحم اللہ امرءا عمل عملا فاتقنہ اللہ کی رحمت نازل ہو اس انسان پر جو کوئی کام اپنے ذمے لیتا ہے تو پورے استحکام اور مضبوطی کے ساتھ اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ فضائيہ کے بارے میں مجھے جو رپورٹ ملی، رپورٹیں آتی رہتی ہیں، اسی طرح فضائیہ کے محترم کمانڈر نے جو رپورٹ پیش کی وہ بہت اچھی رپورٹ ہے، تاہم میں یہی کہوں گا کہ آپ اس پر بھی اکتفاء نہ کیجئے۔ کل پرزوں کی تعمیر، (ساز وسامان کی) پیداوار اور مختلف تربیتیں اور مشقیں بیشک بہت اہم ہیں، لیکن اس پر اکتفاء نہ کیجئے۔ ہمیشہ غور کرتے رہئے کہ کہاں خامی رہ گئي ہے؟ اگر کوئی پہلوان صرف اپنی ابھری ہوئی مچھلیوں کو دیکھتا رہے جو کسرت کے نتیجے میں مضبوط ہو گئی ہیں اور کمزور جگہوں اور اپنی خامیوں پر نظر نہ ڈالے تو کسی نازک موقع پر زمیں بوس ہو جائے گا۔ جائزہ لیتے رہئے کہ نقص کہاں ہے؟ دیکھئے کہ مشکل کہاں ہے؟ پھر اسے رفع کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہر شخص اپنے شعبے اور محکمے میں (یہ کام کرے)۔ پیشرفت اور کمال کی کوئی حد نہیں ہوتی، جتنا آگے بڑھئے آپ دیکھیں گے کہ مزید آگے جانے کی ابھی گنجائش ہے۔
میں فضائيہ اور دیگر فورسز کے عزیز کمانڈروں سے بار بار عرض کرتا رہتا ہوں کہ مختلف شعبوں میں محدودیتیں اور رکاوٹیں یقینا ہیں، پابندیاں ہیں، مالی محدودیتیں ہیں، دوسری بہت سی باتیں ہیں لیکن آپ ان سے گزر جائيے۔ بہترین اور عقلمند ترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو حالات کو پرکھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیتیں اور توانائیاں کہاں ہیں، وہ انہی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ورنہ اگر انسان ایک نظر ڈالے اور کہہ دے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا، فلاں چیز تو ہمارے پاس ہے ہی نہیں، تو پھر چھوڑو، ہٹاؤ! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کمیوں اور محدودیتوں سے ہماری پیش قدمی رکنا نہیں چاہئے۔ کچھ رکاوٹیں اور مشکلات ہوں تو ہمیں اور زیادہ جستجو کرنا چاہئے اور اپنی نئی صلاحیتوں کا انکشاف کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر بیس سال قبل فضائیہ کے بارے میں کون یہ گمان کر سکتا تھا کہ وہ اپنے لئے اتنے وسیع پیمانے پر ساز و سامان تیار کر لیگی، ان کی پیداوار کرنے پر قادر ہوگی؟ دوسرے محکموں میں بھی یہی عالم ہے۔ خلائی شعبے میں، طبی شعبے میں، ٹکنالوجی کے میدان میں، دو تین عشرے قبل کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ اتنے بڑے بڑے کام انجام دئے جائیں گے؟ لیکن نوجوانوں نے بلند ہمتی سے کام لیا اور کامیابی ملی۔ ایسی ایسی کامیابیاں ملی ہیں کہ آج ہمارے دشمن بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ البتہ وہ بغض و عناد کے باعث ان کامیابیوں کو ایران کا خوف پھیلانے، ایران کے خلاف جذبات بر انگیختہ کرنے، اسلام سے لوگوں کو ہراساں کرنے اور اسلام دشمنی عام کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال وہ ان چیزوں کے معترف ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کر دوں کہ بعض شعبوں میں محدودیتیں نظر آئیں تو ہرگز ہمت نہ ہارئے۔ آپ اپنے وجود کے اندر نئی صلاحیتوں کے انکشاف کی کوشش کیجئے، اپنے ذہن و دماغ کی اور اپنی ماہر انگلیوں کی نئی توانائیوں اور استعداد کو نکھارنے اور اس کی مدد سے محدودیتوں کو بے اثر بنانے کی کوشش کیجئے! یہ چیز ممکن ہے، یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں ملک کے بعض صنعتی شعبوں میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پابندیاں عائد کرنے والے اس زعم میں تھے کہ ان کی پابندیوں کے نتیجے میں ہماری صنعت کے متعلقہ شعبے کام کرنا بند کر دیں گے۔ لیکن اس کا الٹا ہوا۔ پابندیوں کی وجہ سے ہمارے نوجوان ان چیزوں کی مقامی طور پر پیداوار کی فکر میں لگ گئے جو دشمن ہم تک نہیں پہنچنے دینا چاہتا تھا۔ انہوں نے یہ چیزیں خود ہی بنا لیں اور بعض مواقع پر تو زیادہ بہتر کیفیت کی چیزیں تیار ہوئيں۔ ان پر خرچ بھی کم آیا، ہلکی بھی تھیں اور زیادہ کارآمد بھی تھیں۔ فورس کے اندر آپ اسی انداز سے کام کیجئے۔ یہ کام محترم کمانڈر حضرات، مختلف شعبوں کے حکام، اہلکاروں، کارکنوں اور جوانوں سب کا ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کی توفیقات کے لئے دعا گو ہوں۔ خداوند عالم ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو، جنہوں نے اس تحریک کا آغاز کیا اور ہمیں اس نئے راستے سے روشناس کرایا، ہمارے عزیز شہداء کی ارواح طیبہ کو جنہوں نے اس راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا شاد اور ہم آپ سب سے راضی و خوشنود رکھے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں ہمارے شامل حال کر دے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ