قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
انّا اعطینک الکوثر۔ فصل لربّک وانحر۔انّ شانئک ھوالابتر۔ (1)

خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اتنے اچھے، مبارک اور باعظمت دن آپ، مداحان اہلیبیب عصمت و طہارت سے ملاقات نصیب ہوئی ہے۔ ہم سیدۂ دو عالم کی معرفت اور آپ سے محبت و عقیدت کے دعویدارہیں اور ہم نے خود اپنی زندگی کے تمام ایام میں اور زندگی کے مختلف جلووں میں حضرت فاطمۂ زہرا( سلام اللہ علیہا) کی برکات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان شاء اللہ زندگی میں ہمیشہ اور مرنے کے بعد بھی ان برکتوں اور رحمتوں کا مشاہدہ اور احساس کریں اور ان انوار مطہرہ کے تمام چاہنے والے ان سے مستفیض ہوں۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے فیوضات ایک چھوٹے سے مجموعے میں جو پوری انسانیت کے مجموعے کے مقابلے میں چھوٹا شمار ہوتا ہے، محدود نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک حقیقت پسندانہ اور منطقی نگاہ ڈالیں تو پوری بشریت حضرت فاطمہ زہرا کی ممنون احسان نظر آئے گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ حقیقت ہے۔ بشریت جس طرح اسلام کی مرہون منت ہے، قرآن کی مرہون منت ہے، انبیااور پیغمبران خدا اور خاتم الانبیاء ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مرہون منت ہے اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا کی مرہون منت ہے۔ آج بھی اسی طرح ہے اورحضرت فاطمہ زہرا کی معنویت و نورانیت روز بروز آشکارا تر ہوگی اور بشریت اس کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرے گی۔
بھائیو' جو ہمارا فریضہ ہے وہ یہ ہے کہ خود کو اس خاندان کے ( محب ہونے کے) لائق بنائیں۔ یقینا خاندان رسالت اور اس خاندان سے وابستہ افراد سے منسوب ہونا اور ان کے عقیدت مند کے طور پر معروف ہونا دشوار ہے۔ ہم زیارت میں پڑھتے ہیں کہ ہم آپ سے محبت اور آپ کی دوستی سے پہچانے جاتے ہیں۔ (2) اس سے ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں زیادہ ہو جاتی ہے۔
یہ خیر کثیر جس کی خوش خبری خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس سورہ مبارکہ میں دی اور فرمایا کہ انّا اعطینک الکوثر جس سے مراد حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں، درحقیقت تمام نیکیوں اور خیر کا مجموعہ ہے کہ دین نبوی کے سرچشمے سے پوری بشریت اور تمام خلائق کے لئے جاری ہے۔ بہت سوں نے اس کو چھپانے اور اس کی نفی کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (4)
ہمیں خود کو اس مرکز نور سے قریب کرنا چاہئے اور مرکز نور سے قریب ہونے کے لئے نورانی ہونا شرط ہے۔ صرف محبت کے دعوے سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعےخود کو نورانی بنائیں۔ وہ عمل جو محبت، ولایت اور ایمان کا لازمہ اور تقاضا ہے۔ اپنے عمل کے ذریعے اس خاندان سے خود کو وابستہ کریں۔ علی (علیہ السلام ) کے گھر کا غلام بننا، قنبر بننا آسان نہیں ہے۔ سلمان منا اہل البیت (5) بننا آسان نہیں ہے۔ ہم اہلبیت اطہار(علیہم السلام) کے محب اور شیعہ ان ہستیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں خود سے وابستہ اور اپنے مقربین میں شامل کر لیں۔ فلان زگوشہ نشینان خاک درگہ ماست (6) ہمارا دل چاہتا ہے کہ اہل بیت ہمارے بارے میں یہ فیصلہ کریں۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔ یہ چیز صرف زبانی دعوے سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لئے عمل، فداکاری، ایثار اور ان ہستیوں جیسا بننے اور ان کے اخلاق و کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ عظیم ہستی جن کے فضائل تھوڑی دیر ہم نے سنے اور جو کچھ کہا گیا وہ آپ کے فضائل کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ آپ کو کس عمر میں یہ تمام فضائل ملے ؟ آپ نے اپنی عمر کے کتنے عرصے میں یہ درخشندگی حاصل کی؟ آپ کی عمر بہت مختصر، اٹھارہ سال، بیس سال یا پچیس سال ہے۔ مختلف روایتیں ہیں۔ یہ تمام فضائل یونہی حاصل نہیں ہوجاتے۔ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرہ (7) خدا وند عالم نے زہرائے اطہر، اپنی اس برگزیدہ کنیز کا امتحان لیا۔ خدا وند عالم کا نظام حساب کتاب کا نظام ہے۔ جو کچھ عطا کرتا ہے حساب کتاب کے ساتھ ہے۔ وہ اپنی کنیز خاص کے ایثار، فداکاری، معرفت اور اہداف الہی کے لئے خود کو فدا کردینے کی خصوصیات سے واقف ہے۔ اس لئے وہ آپ کو ان تمام فیوضات کا مرکز قرار دیتا ہے۔
ہمیں اس راستے کو طے کرنا چاہئے۔ ہمیں بھی ایثار کرنا چاہئے۔ خدا کی اطاعت کرنی چاہئے۔ اس کی عبادت کرنی چاہئے۔ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ حتی تورم قدماھا ؟ (8)عبادت خدا کے محراب میں اس حدتک قیام کیا۔ ہمیں بھی محراب عبادت میں قیام کرنا چاہئے۔ ہمیں بھی ذکر خدا کرنا چاہئے۔ ہمیں بھی اپنے دل میں محبت الہی کو بڑھانا چاہئے۔ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ ناتوانی کی حالت میں مسجد میں تشریف لے گئيں تاکہ احقاق حق فرمائيں؟ ہمیں بھی تمام حالات میں احقاق حق کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں بھی کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ تن تنہا اپنے زمانے کے بڑے سماج کے مقابلے میں ڈٹ گئيں؟ ہمیں بھی اسی طرح جیسا کہ آپ کے شریک حیات ( امیرالمومنین علیہ السلام ) نے فرمایا ہے لا تستوحشوا فی طریق الہدی لقلۃ اہلہ (9) ظلم و سامراج کی دنیا کے مقابلے میں اپنی تعداد کے کم ہونے سے نہیں ڈرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔ کیا ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ آپ نے وہ کام کیا کہ آپ کے بارے میں اور آپ کے شوہر اور بچوں کے بارے میں سورۂ دہر نازل ہوا؟ غریبوں اور محروموں کے لئے بھوکے رہ کے ایثار کرنا ویؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصہ (10) ہمیں بھی یہی کام کرنا چاہئے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علیہا) کی محبت کا دم بھریں جبکہ آپ نے بھوکوں کے لئے، اپنے سامنے، اپنے عزیزوں، حسن اور حسین ( علیہما السلام ) اور ان کے والد ماجد، ( علی علیہ السلام ) کے سامنے کی روٹی اٹھا کے فقیر کو دیدی اور وہ بھی ایک دن نہیں دو دن نہیں بلکہ مسلسل تین دن۔ ہم خود کو ایسی ہستی کا پیرو بتاتے ہیں لیکن نہ صرف یہ کہ ہم اپنے سامنے کی روٹی فقیروں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اگر ممکن ہو تو فقیروں کی روٹی چھیننے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
اصول کافی اور بعض دیگر شیعہ کتب میں شیعہ ہونے کی علامتوں کے بارے میں جو روایات ہیں وہ یہی بیان کرتی ہیں۔ یعنی شیعوں کو اس طرح عمل کرنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی زندگی میں ان کی زندگی کا، کمزور ہی صحیح، پرتو دکھائیں۔ ہم اور ہم سے بڑے کہاں اور وہ آستانہ کہاں ؟ ظاہر ہے کہ ہم اس کی دور ترین حدود تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن اپنی زندگی کو ان کی زندگی کے مشابہ تو بنائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اہلبیت کی زندگی کی مخالف سمت میں حرکت کریں اور یہ دعوا کریں کہ ہم اہلبیت کے محب اور چاہنے والے ہیں۔ کیایہ چیز ممکن ہے؟ فرض کریں کوئی ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے زمانے میں اس قو م کے دشمنوں کی جن کے بارے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) مسلسل بولتے تھے، پیروی کررہا ہوتا تو کیا وہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی اطاعت کا دعوا کرسکتا تھا؟ اگر کوئی ایسا فرد زبان سے یہ دعوا کرتا تو کیا آپ اس پر نہ ہنستے؟ یہ صورتحال اہلبیت (علیہم السلام ) کے معاملے میں بھی ہے۔
ہمیں اپنی لیاقت ثابت کرنی ہے۔ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کا جہیز ایسا تھا کہ سن کے آنکھوں سے اشک جاری ہوجاتے ہیں؟ کیا ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ یہ اعلا رتبہ خاتون دنیا اور دنیا وی شان و شوکت کے لئے کسی اہمیت کی قائل نہیں تھیں۔؟ تو کیا ہم اپنی دنیاوی شان و شوکت، دولت و ثروت اور زندگی کی کھوکھلی چیزوں کو روز بروز بڑھاتے رہیں اور اپنی بیٹیوں کا مہر زیادہ رکھیں؟

شروع میں جب کچھ لوگ مہر تھوڑا زیادہ رکھتے تھے تو ہم مذاق میں کہتے تھے کہ آپ اتنے ( سونے کے ) سکے مہر رکھنا چاہتے ہیں تو ایک بار کہدیجئے (سونے کے ) بہتر سکے۔ لیکن اب دیکھتے ہیں کہ بھاری مہر رکھنا حقیقت میں رائج ہوچکا ہے۔ واقعی کیا بات ہے؟ آپ اس بیٹی کے باپ ہیں، کیا دعوا کرسکتے ہیں کہ آپ حضرت فاطمہ ( سلام اللہ علیہا) کے والد کے پیرو ہیں؟ ایسے نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے بارے میں سوچنا چاہئے۔
یہ باتیں میں نے آپ سے کیوں کہیں ؟ اس لئے کہ آپ مداح ہیں، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی محفلوں میں، اپنی مداحی کے دوران لوگوں سے یہ بات کہیں۔ ورنہ آپ کے بارے میں تو معلوم ہے کہ آپ کے حالات کیا ہیں؟ حضرت فاطہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بارے میں لوگوں کو یہ باتیں بتائیں۔ اپنے اس ذوق، فن اور خوش الحانی اور پرکشش قصیدہ خوانی کے ساتھ ایسا کام کریں کہ سامعین کے دل ان حقائق سے نزدیک ہوں۔ فرض کریں کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علیہا) کے معنوی درجے اور مرتبے کے بارے میں ایسے اشعار پڑھیں کہ سننے والے انہیں سمجھ نہ سکیں، تو پتہ نہیں یہ اشعار انہیں حضرت فاطمہ زہرا سے نزدیک کرسکیں گے یا نہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اس خاندان سے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہوں۔ ہماری قوم اس طریقے سے اپنے فریضے پر عمل کرسکے گی۔ یہ قوم اس طرح دنیا تک وہ عظیم پیغام پہنچا سکتی ہے۔
آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی حالت کیا ہے۔ یہ بلند و بالا قصر، جن کی چمک دمک بہت زیادہ ہے مگر بنیادیں دفتی کی ہیں ( بہت کمزور ہیں)یکے بعد دیگرے زمیں بوس ہورہے ہیں۔ یہ سوویت یونین، نام نہاد گریٹ سوشلسٹ اور لیبر حکومت تھی۔ لیکن اس طرح زمیں بوس ہوئی اور ریزہ ریزہ ہوئی ہے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ گر گئي بلکہ فنا اور نابود ہو گئی۔ بالکل یہی عمل دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی جاری ہے۔ البتہ اس کے آشکارا ہونے میں ابھی تھوڑا وقت لگے گا۔ یہ حق مخالف ثقافتیں اور ان کی شان و شوکت ختم ہورہی ہے۔
حق کی عمارت بلند ہونی چاہئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اگر باطل زوال پذیر اور ختم ہوگيا تو دنیا میں حق خود بخود بغیر کسی کوشش کے سر بلند ہوجائے گا۔ یہ نہیں ہوگا بلکہ اس باطل کی جگہ دوسرا باطل آجائےگا۔ الا یہ کہ جیسا ہے اس شکل میں خود کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ یہ باطل یکے بعد دیگرے آتے جاتے رہتے ہیں۔ مسلسل وجود میں آتے ہیں اور ختم ہوتے ہیں۔ باطل کی سرشت زائل ہونا اور ختم ہونا ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ اگر باطل ختم ہوگیا تو ممکن ہے کہ حق اور اسلام بغیر کسی کوشش اور مجاہدت کے، بغیر پہچنوائے اور بیان کئے اور دنیا میں ہماری اورآپ کی محنت اور سعی و کوشش کے بغیر باطل کی جگہ پر آجائے گا۔ نہیں، اس کا انحصار اس بات پرہے کہ ہم اور آپ کیا کرتے ہیں۔
بنابریں اہل بیت ( علیہم السلام) سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہئے اور اسی طرح عوام تک یہ درس پہنچانا چاہئے۔ ان کی تربیت کرنی چاہئے۔ تاکہ ان کوششوں کے نتیجے میں باطلوں کی جگہ پر حق آ سکے۔
پالنے والے ' تجھے واسطہ ہے محمد وآل محمد کا، اپنے ولی ( امام زمانہ) کا ظہور نزدیک کر۔ آپ تک ہمارے مبارکباد کے پیغام کو پہنچا دے۔ پالنےوالے' حضرت امام زمانہ کے قلب مقدس کو ہم سے خوشنود فرما۔ پالنےوالے' ہمیں آپ کے ساتھیوں، قریبی لوگوں، آپ کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور آپ کے حضور میں اپنے خون میں غلطاں ہونے والوں میں قرار دے۔ تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں روز بروز محمد و آل محمد کی زیادہ معرفت عطا فرما۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- سورہ کوثر
2- ومعروفین بتصدیقناایّاکم۔ مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ کبیرہ۔
3- کوثر؛ 1
4- صف ؛ 8
5- بحار الانوار، ج 22، ص 326
6- بہ حاجب درخلوت سرای خاص بگو زگوشہ نشینان خاک درگہ ماست۔ حافظ
7- مفاتیح الجنان، زیارت حضرت زہرا( سلام اللہ علیہا)
8- مناقب ج 3 ص 341
9- نہج البلاغہ، خطبۂ 201
10-حشر؛9