عالمی استکبار کی مخالفت کے قومی دن تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی مناسبت سے منعقد ہونے والے اس اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تیرہ آبان مطابق چار نومبر کو انتہائی اہم علامت اور متعدد حقائق اور مفاہیم کی حامل تاریخ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تیرہ آبان کی تاریخ سے ایک اور اہم مناسبت یعنی قم میں سن انیس سو چونسٹھ میں کی گئی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تقریر بھی وابستہ ہے جو آپ نے پارلیمنٹ میں امریکیوں کو عدالتی تحفظ فراہم کرنے والے ظالمانہ قانون کی منظوری کے خلاف کی تھی۔
آپ نے تیرہ آبان سن 1357 ہجری شمسی مطابق 4 نومبر 1978 کو شاہی حکومت کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایرانی طلبہ کے قتل عام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس واقعے کے پیش نظر تیرہ آبان میدان عمل میں نوجوان نسل کی بھرپور موجودگی کی علامت بھی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تیرہ آبان سن 1358 مطابق 4 نومبر 1979 کو تہران میں جاسوسی کے مرکز میں تبدیل ہو جانے والے امریکی سفارت خانے پر ایرانی طلبہ کے قبضے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اقدام امریکی رعب و دبدبے کے مقابلے میں انقلابی نوجوان نسل کی ہمت و شجاعت کا بین ثبوت ہے کیونکہ اس وقت انتہائی طاقتور تصور کئے جانے والے امریکا کے جاسوسی کے مرکز پر قبضہ بہت شجاعانہ قدم تھا جس کے نتیجے میں امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ قارئین کو نذر کیا جا رہا ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ ہمارے ملک کے برگزیدہ نوجوانوں سے اور ہمارے طلبہ سے متعلق ہے۔ آج کا یہ عظیم اجتماع بھی، جو اس سرزمین الہی میں ہر جگہ منعقد ہونے والے نوجوانوں کے عظیم اجتماعات کا ایک نمونہ ہے، معرفت و بصیرت سے سرشار اور انقلاب کے عظیم اہداف و مقاصد کے تئیں جوش و خروش اور اشتیاق کے جذبات سے معمور ہے۔ میرے لئے بھی یہ بہت شیریں لمحہ ہے کہ آپ عزیز نوجوانوں سے اپنے عزیز فرزندوں سے میری ملاقات ہو رہی ہے اور چند معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
تاریخی مناسبتیں عام طور پر علامتی درجہ رکھتی ہیں۔ تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ یوں تو اس سے ایک دن قبل اور ایک دن بعد کی تاریخ سے الگ نہیں ہے، کوئی فرق نہیں ہے لیکن یہ تاریخ کسی چیز کی مظہر ہے۔ مظہر کیا ہوتا ہے؟ مظہر یعنی وہ چیز جس کے پیچھے، جس کے اندر، جس کی گہرائی میں بہت سے معانی و مفاہیم اور رموز و اسرار پوشیدہ ہوں۔ انسان اپنی زبان پر کبھی کبھی ایسا کوئی لفظ لاتا ہے جس کے اندر معانی و مفاہیم کا سمندر پوشیدہ ہوتا ہے تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے۔ یہ دن ایک مظہر ہے، جس کے اندر بڑے اہم اور انتہائی خاص قسم کے مفاہیم اور باتیں پوشیدہ ہیں جو کسی اور تاریخ میں نہیں ہیں۔ یہ مسائل آج بھی ہمارے عصری مسائل میں شمار ہوتے ہیں۔ تو آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں آج کی مناسبتوں پر۔
اس دن کی سب سے پہلی مناسبت یہ ہے کہ سن تیرہ سو تینتالیس ہجری شمسی مطابق 1964 عیسوی میں آج ہی کے دن ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو جلا وطن کیا گيا۔ کیوں جلا وطن کیا گیا؟ اس لئے کہ چند روز قبل امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے قم میں بڑی شعلہ بیانی کے ساتھ ایک تقریر کی تھی جو کیسٹوں اور مکتوب شکل میں فورا ملک بھر میں پھیل گئی۔ آپ نے ایک قومی حق کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ قومی حق کا مطالبہ کیپیچولیوشن سے موسوم ظالمانہ قانون کو کالعدم قرار دئے جانے کا مطالبہ تھا۔ بہتر ہے کہ ہماری نوجوان نسل ان باتوں کو بخوبی سمجھے۔ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کن گذرگاہوں سے گذرے ہیں، تب کہیں جاکر یہاں پہنچ سکے ہیں۔
ایران میں امریکا کے دسیوں ہزار نمائندے موجود تھے۔ ان کی صحیح تعداد پچاس ہزار تھی یا ساٹھ ہزار یا اس سے بھی زیادہ، اس سے بحث نہیں ہے۔ یہ لوگ سیاسی شعبے میں، سیکورٹی کے شعبے میں اور فوجی شعبے میں موجود تھے۔ ایران کے انتظامی اداروں میں خواہ وہ فوج سے متعلق ہوں، انٹیلیجنس سے متعلق ہوں، منصوبہ سازی سے متعلق ہوں یا دوسرے شعبوں سے تعلق رکھتے ہوں، مینیجمنٹ کے اداروں میں امریکی بیٹھے ہوئے تھے۔ حکومت ایران سے جتنی چاہتے تھے تنخواہ لیتے تھے لیکن کام امریکا کے لئے کرتے تھے۔ ہمارے ملک میں یہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ امریکا پر پوری طرح منحصر اور امریکا کی جی حضوری کرنے والی پہلوی حکومت چند برسوں کے دوران ان لوگوں کو اپنے ملک میں لائی تھی۔ یہاں تک جو کچھ ہوا وہ بہت برا تھا لیکن اس کے بعد تو غضب ہی ہو گیا! ایک نئی افتاد یہ آن پڑی کہ قومی اسمبلی میں اور اس زمانے کی سینیٹ میں یہ قانون منظور ہوا کہ امریکی اہلکار ایران کی عدلیہ اور سیکورٹی سسٹم کی دسترسی سے بالاتر ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر اگر ان میں سے کوئی امریکی ایران میں کوئی بڑا جرم کرتا تو ہماری کسی بھی عدالت کو یہ اختیار نہیں تھا کہ اسے طلب کرتی، اس پر مقدمہ چلاتی اور اسے سزا سناتی۔ اسی قانون کا نام تھا کیپیچولیوشن قانون۔ یہ تو کسی بھی قوم کی بے بسی اور غلامی کی انتہا ہے کہ اغیار آکر اس ملک میں جو چاہیں کریں اور ملک کی عدالتوں کو، محکمہ پولیس کو چوں کرنے کی اجازت نہ ہو۔ امریکیوں نے طاغوتی (شاہی) حکومت سے اس کا مطالبہ کیا اور اس حکومت نے ہنسی خوشی یہ مطالبہ مان بھی لیا۔
البتہ یہ کام بڑے رازدارانہ انداز میں انجام دیا جا رہا تھا اور اخبارات و جرائد میں اس سلسلے میں کوئی رپورٹ نہیں جانے دی گئی تھی لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو کسی صورت سے اس کا علم ہو گیا تھا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے تیرہ آبان مطابق چار نومبر سے چند روز قبل قم کے عوام اور طلاب کے اجتماع سے خطاب میں زبردست احتجاج کیا کہ یہ کیسا قانون ہے؟! امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے یہ الفاظ تھے کہ اگر دو ٹکے کا ایک امریکی اہلکار ہمارے ملک کے اندر ایک بزرگ عالم دین کی توہین کر دے، گاڑی سے کچل دے یا کسی اور جرم کا مرتکب ہو جائے تو اس امریکی اہلکار کے سامنے ایران کے سارے قوانین بونے ہیں، بے دست و پا ہیں۔ کوئی اس اہلکار کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ یہ امریکیوں کی صواب دید پر منحصر ہوگا کہ اس کے سلسلے میں کیا اقدام کیا جائے اور یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ وہ کریں گے؟! امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس قانون کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) حال ہی میں جیل سے رہا ہوئے تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی چند مہینوں کی قید ابھی کچھ ہی مہینوں قبل پوری ہوئی تھی۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ملت ایران کی دبی ہوئی صدائے احتجاج کو سب کے کانوں تک پہنچا دیا۔ عوام الناس میں بہت سے لوگوں کو خبر بھی نہیں تھی کہ انہیں کس طرح سے رسوا کیا جا رہا؟ لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو معلوم ہو گيا تھا۔ ملک کے حقوق اور مفادات کا نگہبان ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب اسے سراغ مل جاتا ہے کہ قوم کے ساتھ کیا زیادتی ہو رہی ہے، عوام کو کس طرح ذلیل کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور ملت کی شان و شوکت اور عز و وقار کو کس انداز سے پامال کیا جا رہا ہے تو خاموش نہیں رہتا، صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ اس دن صدائے احتجاج بلند کرنا بڑے جوکھم کا کام تھا۔ چنانچہ اس واقعے کے فورا بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو گرفتار کرکے تہران منتقل کر دیا گیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو ایران میں بھی نہیں رہنے دیا گیا بلکہ جلا وطن کرکے ترکی بھیج دیا گیا۔ یہ تو رہا پہلا واقعہ۔ بنابریں تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ دو اہم حقائق کی مظہر بن گئی۔ دو انتہائی حساس اور خطرناک حقائق کی علامت۔ ایک حقیقت تھی امریکیوں کی طمع و لالچ۔ اگر کوئی قوم اپنے حق اور اپنے وقار کا دفاع کرنے میں ذرا سا چوک جائے تو استکباری طاقتیں یہاں تک بڑھ جاتی ہیں کہ قوم پر کیپیچولیوشن جیسا ظالمانہ قانون مسلط کر دیتی ہیں۔ استکباری تسلط کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ امریکی حکومت کے تعلقات کسی ایسی حکومت سے جو اس کی جتنی طاقتور نہیں ہے دو ملکوں کے معمول کے تعلقات جیسے ہوں۔ ہرگز نہیں، امریکیوں کے نقطہ نگاہ کے مطابق امریکا ان ملکوں سے جنہیں وہ تیسری دنیا کے ممالک کا نام دیتا ہے حاکم و محکوم کے روابط رکھنا پسند کرتا ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ ان ملکوں میں وہ مالک و مختار بن کر رہیں۔ وہاں سے تیل نکال کر لے جائیں، گیس نکال کر لے جائیں، ذخائر پر قبضہ کر لیں، دولت و سرمایہ ہڑپ لیں، تب کہیں جاکر امریکا کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے اور دوسری طرف قوم کی اس طرح سے توہین اور تحقیر کرتے ہیں۔
ایک امریکی رنگروٹ ایران کی فوج کے ایک اعلی افسر کو اگر طمانچہ رسید کر دے تو کوئی اس کے لئے جوابدہ نہیں تھا! ملک کی انہی چھاونیوں میں جب بھی نچلے درجے کا کوئی بھی امریکی افسر کسی اعلی ایرانی افسر سے بات کرتا تھا تو اس کا انداز تحکمانہ ہوتا تھا۔ (ایرانی) فوجی شدید ناراض تھے لیکن ان کی ہمت نہیں پڑتی تھی، وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ یہ رہی پہلی بات کہ تیرہ آبان چار نومبر امریکی سامراج کا مظہر ہے۔ ملت ایران سمیت دنیا کی قوموں کے خلاف استکبار کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی علامت ہے۔
اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد مختلف ادوار کے امریکی صدور نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، بڑی میٹھی میٹھی باتیں بھی کیں کہ کسی صورت یہ بند دروازہ دوبارہ کھل جائے، بظاہر تو بڑی نرمی سے باتیں کرتے ہیں لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، حقیقت میں وہ اپنے آہنی پنجے پر مخملیں دستانہ چڑھائے ہوئے ہیں۔
تیرہ آبان مطابق چار نومبر ایک تلخ اور انتہائی اہم حقیقت کی یاد دلاتی ہے، وہ ہے استکباری قوتوں کی توسیع پسندانہ خو اور تسلط پسندانہ اقدامات۔ دنیا کے ملکوں کے عوام اور ہماری اپنی قوم کو یہ حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جو (سامراجی طاقتوں کا) چہرا ان کی نظروں کے سامنے ہے ایک جارح کا چہرا، ایک جابر طاقت کا چہرا ہے۔ اس کے اندر اس حد تک تسلط پسندانہ عزائم ہیں کہ وہ کسی بھی قوم کے وقار کو پامال کر سکتی ہے، عزت و آبرو کو مٹی میں ملا سکتی ہے، جان و مال کو تاراج کر سکتی ہے۔ وہ کسی کو کوئی وضاحت پیش کرنے اور کوئی جواب دینے کی بھی روادار نہیں ہے۔
تیرہ آبان مطابق چار نومبر ایک اور اہم حقیقت کا آئنیہ بھی ہے، یہ حقیقت ہے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی اثر انگیز آواز۔ یہ آواز پاکیزہ ترین آواز تھی جو پاکیزہ ترین زبان سے بلند ہوئی۔ بعض افراد گوشہ و کنار میں کبھی کوئي اعتراض کر دیتے ہیں، کچھ کہہ دیتے ہیں، کوئی نکتہ چینی کر دیتے ہیں لیکن وہ زبان جس سے تیرہ آبان سن تیرہ سو تینتالیس ہجری شمسی مطابق چار جون سنہ انیس سو چونسٹھ کو صدائے احتجاج بلند ہوئی وہ پاکیزہ ترین زبان تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آواز دینی جذبے سے متاثر تھے، دوسرے یہ کہ اس کے پیچھے ایک مسلمان کا پاکیزہ قومی جذبہ کارفرما تھا جو قوم پر دشمن کے تسلط کو برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تیسرے یہ کہ اس آواز کو عوامی حمایت حاصل تھی۔ میں نے عرض کیا کہ پہلے تو لوگوں کو اطلاع نہیں تھی لیکن جب امام نے آواز بلند کی تو عوام نے بھی اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ یہی حمایت تھی جو چودہ سال بعد اسلامی انقلاب کی فتح پر منتج ہوئی۔ یہ پاکیزہ آواز امتوں کے درمیان بلند ہونے والی پیغمبروں کی اس آواز کے مانند تھی، جسے سن کر لوگوں کے دل کھنچے چلے آتے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ملک کے اندر اس طرح کا عظیم کارنامہ انجام دیا اور پھر اس کی قیمت بھی چکائی۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو گھر، خاندان، دوست احباب، رشتہ دار سب سے جدا کر کرکے دنیا کے ایک گوشے میں بھیج دیا گيا۔ تو تیرہ آبان مطابق چار نومبر ایک ایسی آواز کی آئينہ دار بھی ہے۔
اس اہم ترین تاریخ سے ایک تیسری مناسبت جو وابستہ ہے وہ ہے سنہ تیرہ سو ستاون ہجری شمسی مطابق انیس سو اٹھہتر عیسوی میں پیش آنے والے طلبہ کا واقعہ۔ (امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی صدائے احتجاج بلند ہونے کے) چودہ سال بعد سنہ تیرہ سوستاون ہجری شمسی مطابق انیس سو اٹھہتر عیسوی میں ہمارے نوجوان، اسکول اور کالج کے طلبہ جو معاشرے کے پاکیزہ ترین اور ہر طرح کی آلودگي سے پاک طبقے سے تعلق رکھتے ہیں میدان میں آئے اور قتل کر دئے گئے۔ تیرہ آبان مطابق چار نومبر تہران کی انہی سڑکوں پر اسکول اور کالج کے طلبہ کے قتل عام کا دن بھی ہے۔ جب یہ نوجوان اور بچے باہر نکلے اور انہوں نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی چودہ سال قبل بلند ہونے والی آواز دہرائی تو امریکہ کے ہاتھوں بکے ہوئے جلادوں نے ان سے انتقام لینا شروع کر دیا، ان پر گولیوں کی بارش کر دی، تہران کی انہی سڑکوں پر ان کا خون جاری ہو گيا اور سڑکیں رنگین ہو گئیں۔ یہ بھی بہت اہم واقعہ ہے۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ کچھ نوجوان اور بچے شہید ہو گئے، یہ بھی اپنی جگہ پر بہت بڑی بات ہے تاہم اس سے بھی اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جو تحریک امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے چودہ پندرہ سال قبل شروع کی وہ (اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی) اتنی اثر بخش ہے کہ پاکیزہ دل طلبہ کی ایک تعداد میدان میں آتی ہے، اپنے فریضے کا احساس کرتے ہوئے، اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے جابر و طاغوتی نظام کی گولیوں کی بوچھار کا سامنا کرتی ہے۔ دنیا میں یہ چیزیں عدیم المثال ہیں۔
یہ چیز آج بھی ہے۔ آج بھی یونیورسٹی طلبہ کے ساتھ ہمارے اسکولی بچے بھی دوسرے دیگر طبقات کے شانہ بشانہ، بسیج (رضاکار فورس) کے ساتھ سب سے پیش پیش رہنے والوں میں ہیں۔ مقدس دفاع کے دوران بھی طلبہ ہراول دستے میں شمار کئے جاتے تھے۔ آپ اگر شہداء کے خاندانوں سے جاکر ملیں، میرا ان خاندانوں سے رابطہ ہے اور میں ملتا رہتا ہوں، آپ ان سے سوال کریں کہ آپ کا (شہید) نوجوان کتنے سال کا تھا؟ جواب ملےگا کہ سولہ سال کا، سترہ سال کا،چودہ سالہ۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے فرض شناسی، انقلابی جذبہ بصیرت و روشن خیالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فرض شناسی کا جذبہ اب ایسے مقام پر پہچ چکا ہے کہ اس قوم کا اسکولی بچہ بھی میدان میں نکل کر سینہ سپر ہو جاتا ہے، لڑکپن کی اپنی تمام امنگوں اور ارمانوں کو قربان کر دیتا ہے کہ معاشرے میں اعلی اسلامی اہداف اور تعلیمات کو جامہ عمل پہنانے میں کردار ادا کر سکے۔ تو انیس سو اٹھہتر میں رونما ہونے والا یہ دوسرا اہم واقعہ تھا۔ تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ سے وابستہ یہ دوسری عظیم یادگار ہے جس کی عکاسی یہ تاریخ کرتی ہے۔
تیرہ آبان مطابق چار نومبر کو رونما ہونے والا آخری واقعہ جاسوسی کے مرکز (امریکی سفارت خانے) پر قبضہ تھا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلا وطنی اور اسکولی طلبہ کے قتل عام کے بعد تیرہ آبان سنہ تیرہ سو اٹھاون ہجری شمسی (مطابق چار جون سنہ انیس سو نواسی عیسوی) کو طلبہ نے ایک بار پھر وہ کارنامہ انجام دیا جسے دیکھ کر دنیا ششدر رہ گئی اور امریکہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ عین حقیقت ہے، محض نعرے بازی نہیں۔ آپ اس نکتے پر توجہ رکھئے کہ جب جاسوسی کے مرکز پر قبضہ ہوا تو امریکہ کا وقار اور رعب و دبدبہ آج کی نسبت کئی گنا زیادہ تھا۔ آج کے امریکہ کو آپ نہ دیکھئے جو فرومایہ ہو چکا ہے، حقیر ہوکر رہ گیا ہے۔ قومیں آشکارا اسے دشنام دیتی ہیں، لعنت ملامت کرتی ہیں۔ اس زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ اس وقت امریکہ دنیا میں سپر پاور کا رعب و دبدبہ رکھتا ہے۔ ملت ایران کی استقامت کی تیز دھار کی حیثیت سے ہمارے نوجوان طلبہ نے شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس امریکہ کے سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے نرمی دکھائی اور رحمدلی کا مظاہرہ کیا، آپ نے کچھ دنوں بعد فرمایا کہ ان افراد کی بیویاں وغیرہ جیسے افراد امریکہ لوٹ سکتے ہیں لیکن اصلی عناصر کو کافی دنوں تک یہیں رکھا گيا۔ یہ ایسا عظیم اقدام تھا کہ دنیا میں امریکہ لرز کر رہ گیا۔ رعونت میں ڈوبا ہوا امریکہ دنیا کی قوموں کی نگاہوں کے سامنے ٹھنڈا پڑ گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کی امریکی صدر نے ان یرغمالوں کو نجات دلانے کے لئے شبخون مارنے اور خفیہ فوجی کارروائی کا منصوبہ تیار کیا۔ انہوں نے ایران میں اپنے جاسوسوں کو منظم کیا اور وسیع پیمانے پر اس کی تیاریاں ہوئیں۔ لوگوں کو چنا گیا، جگہوں کا انتخاب ہوا اور ہیلی کاپٹر اور طیاروں سے حملہ شروع کیا گیا۔ وہ لوگ طبس میں آکر اترے کہ وہاں سے آئیں اور بخیال خود یرغمالوں کو آزاد کراکے لے جائیں۔ لیکن طبس کا وہ (ریت کے شدید طوفان کا) معروف واقعہ رونما ہو گیا۔ اللہ نے انہیں رسوا کر دیا۔ ان کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں میں آگ لگ گئی اور وہ وہیں طبس سے الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ تو تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی تاریخ ان واقعات کا آئینہ ہے۔
تیرہ آبان مطابق چار جون کی تاریخ ایک مظہر ہے۔ اس کے اندر، اس کے پس پردہ بڑے اہم مفاہیم پوشیدہ ہیں جو ہم سب کے لئے اہم درس ہیں۔ ہمیں یہ درس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ امریکہ کی طمع، طاغوتی (شاہی) حکومت کا امریکہ پر انحصار اور اس کی بد عنوانیاں، عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور قوم کی مومنانہ استقامت و پائيداری، نوجوان نسل کا تعاون، امریکہ کی رعونت اور خول چڑھے ہوئے چہرے کے سامنے انقلابی نوجوانوں کی شجاعت و دلیری، یہ ساری چیزیں تیرہ آبان مطابق چار نومبر میں مضمر ہیں۔ لہذا تیرہ آبان کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔
اب آپ ذرا غور کیجئے! گزشتہ سال سنہ دو ہزار نو میں تیرہ آبان کے دن مٹھی بھر نگوں بخت عناصر تہران کی سڑکوں پر آئے اور انہوں نے تیرہ آبان مطابق چار نومبر کی یادگار کے خلاف نعرے بازی کی کہ شاید اس اہم ترین مناسبت کو بدنام کر دیں، انہیں شکست ہوئی اور ان کی شکست پہلے ہی یقینی تھی، بالکل واضح تھی لیکن آپ یہ دیکھئے کہ ان کی اس حرکت کی پشت پر کون سی شئے کارفرما تھی؟ وہ کس چیز کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے؟ اس عظیم مظہر، کا جس سے یہ عظیم واقعات وابستہ ہیں، مقابلہ کرنا چاہتے تھے؟! وہ ان حقائق کو چیلنج دینا چاہتے تھے، امریکی رعب و دبدبے کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے تھے، وہ امریکہ کی تسلط پسندی اور مداخلت پسندی پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے۔ وہ ان عظیم مظالم کے خلاف شروع ہونے والی ملت ایران کی تحریک پر سوالیہ نشان لگا دینا چاہتے تھے۔
جب انسان تیرہ آبان مطابق چار جون کی تاریخ کے ان مضمرات سے واقف ہو تو اسے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کہ اس یادگار دن کی عظمت کو پامال کرنے والے کون لوگ تھے اور ان کا ہدف کیا تھا؟ ہم جس بصیرت پر بار بار تاکید کرتے ہیں، وہ یہی چیز ہے۔ غور کرنے اور حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
میں آپ نوجوانوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج آپ ملت ایران کا ہراول دستہ ہیں۔ ملت ایران کی نگاہیں بلند چوٹیوں پر مرکوز ہیں اور وہ ان کی سمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ دوست، دشمن سبھی اس کے معترف ہیں کہ ملت ایران تیزی سے بلندیوں کی سمت پیش قدمی کر رہی ہے۔ البتہ ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے، اس لئے اسے معمولی نمہیں سمجھنا چاہئے۔ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں یہ ایک سال اور دو سال میں طے ہو جانے والا راستہ نہیں ہے۔ اس کے لئے طویل مدت درکار ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر حرکت بند ہو جائے تو چوٹی پر پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ بیٹھ کر جمہائیاں لینے اور خیالات کا محل تعمیر کرنے سے کوئی بھی ہدف تک نہیں پہنچ سکتا۔ راستے پر قدم رکھنا ضروری ہے، عزم راسخ کے ساتھ آگے بڑھنا لازمی ہے اور ملت ایران یہی کر رہی ہے۔
سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں، سیاسی اور گوناگوں سروسز کے میدان میں، ملک کی تعمیر و ترقی کے میدان میں ہم نے قابل لحاظ پیشرفت حاصل کی ہے۔ اس وقت خوش قسمتی سے پورا ملک ایک عظیم ورکشاپ بنا ہوا ہے جس کے ہر گوشے میں کام انجام پا رہا ہے، خدمات انجام دی جا رہی ہیں۔ تعمیراتی کام پایہ تکمیل کو پہچائے جا رہے ہیں۔ ایرانی افرادی قوت کو مہارت اور تجربہ بھی حاصل ہو رہا ہے، عوام الناس کے لئے آسائش بھی فراہم ہو رہی ہے اور ہم غیروں سے بے نیاز بھی ہوتے جا رہے ہیں۔
ماضی میں اگر اس شہر میں ایک پل کی تعمیر مقصود ہوتی تھی تو کوئی انگریز انجینیئر بلانا پڑتا تھا۔ کوئی ڈیم تعمیر کرنا ہو تو کئی ملکوں کا ممنون کرم ہونا پڑتا تھا، پیچیدہ تکنیکی کاموں کی تو خیر بات ہی الگ تھی۔ لیکن آج ملت ایران اس لحاظ سے خود کفیل بن چکی ہے۔ اس کے پاس بڑی تعداد میں ماہر، تجربہ کار اور با صلاحیت افرادی قوت موجود ہے، دلچسپی اور جذبہ ہمدردی سے سرشار ڈائریکٹر موجود ہیں۔ قوم ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ اس عظیم پیش قدمی کے عمل میں جو طبقہ سب سے پیش پیش ہے اس میں کون لوگ ہیں؟ اس میں ہمارے نوجوان ہیں، ہمارے طلبہ، اسکولی بچے اور دینی طالب علم ہیں۔ اس پیش قدمی کا تسلسل انہی نوجوانوں کے دم سے ہے۔ اس عظیم عمل کی روح رواں اور اس ریل گاڑی کا انجن یہی نوجوان نسل ہے۔
البتہ تجربہ کار اور کہنہ مشق ڈائریکٹروں کی بھی ضرورت ہے۔ نوجوانوں پر تکیہ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم سرد و گرم کشیدہ تجربہ کار افراد کی شان میں کوئی گستاخی کرنا چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں، ان کا تعاون بھی لازمی ہے لیکن اگر نوجوان موجود نہ ہوں تو پیش قدمی کا یہ عمل جاری نہیں رہ سکتا۔ الحمد للہ آج نوجوان نسل میدان عمل میں موجود ہے، یہ بہت اہم اور بڑی بات ہے۔ آپ نوجوان سیاسی میدانوں میں بھی، اقتصادی میدانوں میں بھی اور علم و دانش کے شعبے میں بھی سب سے پیش پیش ہیں۔
سیاسی میدان میں دیکھئے تو ہمارے نوجوانوں نے سنہ دو ہزار نو کے (صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے منصوبہ بند) فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا کام کیا۔ دوسرے تمام وسائل سے بڑھ کر انہی نوجوانوں نے، آپ طلبہ نے موثر کردار ادا کیا ورنہ یہ فتنہ بہت بڑا فتنہ تھا۔ چند سال گزرنے دیجئے پھر آپ دیکھئے گا کہ عالمی امور کے ماہرین کے رکے ہوئے قلم کس طرح حقائق بیان کریں گے اور کیا کیا لکھیں گے؟ ممکن ہے میں اس وقت نہ رہوں لیکن آپ ہوں گے، آپ سنیں گے، آپ پڑھیں گے کہ سنہ دو ہزار نو کے فتنے کے پس پردہ کتنی بڑی سازش کارفرما تھا۔ یہ بہت بڑا فتنہ تھا، اس کے پیچھے بڑے عجیب و غریب عزائم کارفرما تھے۔ پورے ایران پر قابض ہو جانے کا منصوبہ تھا۔ یہ جو سڑکوں پر آشوب پھیلا رہے تھے یا جو ان کی ترجمانی کا کام کرتے تھے ان میں اکثر و بیشتر نادانستہ طور پر باہر نکل آئے تھے۔ کچھ خفیہ ہاتھ تھے جو انہیں اکسا رہے تھے اور یہ لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ یہ چیز کہ کیسے بعض لوگ میدان میں آ گئے اور کس طرح انہوں نے نادانستہ طور پر دشمن کی مدد کی، نفسیاتی جائزے کا مستقل ایک موضوع ہے۔ امر واقعہ یہی ہے جو میں نے عرض کیا۔ یہ بہت اہم مرحلہ تھا جسے آپ نوجوانوں نے بحسن و خوبی طے کیا۔
آپ اسی طرح میدان میں ڈٹے رہئے! یہ ملک آپ کا ہے۔ یہ بلندیاں جن کی جانب میں نے اشارہ کیا آپ کا مقدر ہیں، جب آپ پختہ عمر تک پہنچیں گے تو انشاء اللہ ان بلندیوں کو قریب سے دیکھیں گے اور آپ اپنی قوم کے لئے قابل فخر کارنامے انجام دیں گے۔ البتہ پیشرفت کا عمل کبھی بھی رکنے والا نہیں ہے۔ بلندیوں کی سمت پیشرفت ہمیشہ جاری رہتی ہے اور یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ قوم اس کا ادراک کرے، اپنی عادت ڈالے اور ہمیشہ بلندیوں اور کمالات کی سمت گامزن رہنے کے لئے پرعزم رہے۔ اس عزم میں کبھی کوئی تزلزل پیدا نہیں ہونا چاہئے۔
اس وقت خوش قسمتی سے اسلامی جمہوریہ اور عزیز عوام، جو اس جمہوریہ کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور اس کے محافظ بنے ہوئے ہیں، ہمیشہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہیں۔ آج ہمارا راستہ ماضی سے زیادہ عیاں اور واضح ہے، ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس طرف بڑھ رہے ہیں؟ ہم اپنے دوستوں کو پہچانتے ہیں اور دشمنوں سے بھی باخبر ہیں۔ ملت ایران کے دشمن آج ماضی کی نسبت بہت کمزور، نفرت انگیز اور مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہیں اقتصادی مسائل درپیش ہیں، سیاسی بحران کا سامنا ہے اور گوناگوں مشکلات و مسائل ان کے دامنگیر ہیں۔ البتہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں، نرم تکئے پر سر رکھ کر غفلت کی نیند سو جائیں۔ ہرگز نہیں، دشمن کو کبھی بھی کمزور اور حقیر نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رکھنی چاہئے کہ دشمن گھات میں ہے، نظر رکھے ہوئے ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ دشمن اب ماضی والے حربے استعمال کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس وقت ملت ایران پوری طرح ہوشیار ہے اور ہمارے نوجوان بیدار ہیں، آگاہ ہیں۔ ملک کے بیشتر نوجوان یونیورسٹیوں میں بھی، معیشت کے میدان میں بھی، اسکولوں میں بھی اور علم دین کے میدان میں بھی انہی بلند اہداف کے لئے سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔
پروردگارا! ان نوجوانوں پر اپنے لطف و کرم کا سایہ کر۔ خدایا! اس ملک میں بھلائی عام کر دے۔ پروردگارا! ہماری، معاشرے کے مختلف طبقات کی ایسی تربیت فرما جسے اسلام پسند کرتا ہے اور جس کا حکم دیتا ہے۔ پالنے والے! مسلسل کامیابیاں حاصل کرنے میں ملت ایران کی مدد فرما۔ پروردگارا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں اس قوم کے شامل حال کر اور یہ ان دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرما۔
و السّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته