خطاب کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر کیا جاتا ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ تمام نوجوانوں کی ملاقات سے میں بہت مسرور ہوں، آپ لوگوں کی صفاۓ قلب، نورانیت اور دل کی پاکیزگی کو انسان ہر ملاقات میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ کسی بھی قوم و ملت کے نوجوان اس قوم کے لئے کافی اہمیت کے حامل رہے ہیں لیکن کبھی کبھی بعض اسباب کی بنا پر یہ اہمیت کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی ملک یا کوئی قوم اپنے دشمنوں سے نبرد آزما ہو تو اس مقام پر نوجوانوں کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے یا اگر کوئی ملک دینی پسماندگی کے اندھیروں سے نکل کر علمی، عملی، تجرباتی، سیاسی و سماجی میدانوں میں ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہو تو ایسی منزل پر نوجوانوں کا کردار دیگر ادوار کی نسبت اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔
درحقیقت ہمارا ملک اور ہمارا معاشرہ اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک مختلف حساس مرحلوں سے گزر چکا ہے جس میں نوجوانوں اور ان کی صلاحیتوں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔
اگرچہ ہم ایسی قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہیں جس میں کافی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں لیکن تقریبا مسلسل دو یا تین صدیوں سے استعماری سازشوں، استبدادی سیاستوں، موروثی سلطنتوں اور غاصب و جابر حکومتوں کی وجہ سے ہم عالمی پیمانے پر علمی قافلے سے بچھڑ گئے ہیں۔
علمی پسماندگی، اقتصادی، ثقافتی، فوجی اور اس طرح کے دیگر شعبوں میں پسماندگی کا بھی سبب بنتی ہے۔ جس ملک کے پاس بہترین صلاحیتیں، بہترین قدرتی و انسانی بنیادیں، بہترین جغرافیائی محل وقوع اور زمینی و آبی ذخائر و منابع ہوں اس ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ اور ثروتمند ممالک میں سے ایک ہونا چاہئے تھا، لیکن یہ ملک قاجاری و پہلوی حکومتوں کے دوران ایک فقیر، کمزور اور پسماندہ ملک میں تبدیل ہو گیا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو ناقابل انکار ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ غلطی کس کے سر جائے؟ قصوروار کون ہے؟ پہلے مرحلے میں یہ گناہ ان فاسد و بے لیاقت حکمرانوں کے سر ہے جو مغرب کی استعماری سازشوں اور سیاستوں کے گام بہ گام رہے، ان کے یہاں نہ ہمت تھی نہ حمیت و غیرت، یہ لوگ صرف اور صرف اپنی عالیشان زندگی و شان و شوکت اور اپنے اقتدار کی حفاظت کی فکر میں تھے۔
ایرانی قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ روز قیامت بارگاہ الٰہی میں ان ستمگروں کے گریبان کو پکڑے اور شکایت کرے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک ایسے ملک کو فقیر، کمزور، بے بضاعت و نا امید بنا دیا جو مختلف صلاحیتوں اور بے نظیر تمدن و ثقافت کا حامل تھا اور جسے دنیا کے صف اول کے ممالک میں بلکہ سب سے پہلے درجہ پر دیکھا جانا چاہئے تھا۔
پھر کیا پیش آیا؟ اس آخری سو سال یا ایک سو بیس برسوں کے سخت ایام کے دوران بہت سے بیدار ضمیر اور بزرگ افراد ظاہر ہوئے اور انہوں نے قوم کو بھی بیدار کرنے کی کوشش کی۔ اس ملک کی تاریک و مایوس کن فضا میں امید کی کرنیں روشن کیں جس کے نتیجہ میں عوام میں کچھ بیداری ایک بار پھر پیدا ہوئی۔ جس کا ایک نمونہ مرزا شیرازی کا مشہور تمباکو کمپنی کے خلاف موقف اختیار کرنا ہے جو پورے ملک کی تباہی و بربادی کے درپے تھی اور ہندوستان کی طرح ایران کو بھی استعمار کا شکار بنانا چاہتی تھی۔ دوسرا نمونہ پارلیمنٹ میں رضا خان اور اس کے طرفداروں کے خلاف آیۃ اللہ مدرس کے وہ احتجاجات تھے جو انہوں نے اس معاہدہ کے خلاف کئے تھے جس کے ذریعہ وہ افراد پورے ملک کو برطانیہ کے سپرد کرنا چاہتے تھے۔ ان آوازوں نے تاریک فضا میں امید کی کرن پیدا کی، سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کیا اور ارادوں کو استحکام بخشا۔ یہ بیداری ایسے ہی افراد کی کوششوں کی بدولت وجود میں آئی۔ یہاں تک کہ یہ الٰہی رہبری لطف خدا کے ذریعہ حضرت امام خمینی کے عزم و استقلال سے جا ملی اور ایران کو بے نظیر قیادت نصیب ہوئی۔ اس مرحلہ پر بھی انہی نوجوانوں نے تحریک شروع کی اور وہ ایک عظیم اور بنیادی انقلاب کا باعث بنے۔ وہ آہنی سلاخیں ٹوٹ گئیں جن میں ایرانی قوم کو مقید کیا گیا تھا لیکن انقلاب کے نقطہ آغاز سے منزل مقصود تک جہاں ایرانی قوم کو پہنچنا ہے راستہ کافی طولانی ہے۔ یہ طویل راستہ نشیب وفراز اور گوناگوں دشواریوں سے بھرا ہے جس کے لئے ہمت، قدرت، نشاط اور سعی و کوشش کی ضرورت ہے اور خود ان تمام چیزوں تک رسائی کے لئے نوجوانوں کے عزم و استقلال کی ضرورت ہے۔
عموما ایران عراق جنگ کے زمانے میں ایرانی نوجوانوں کی فداکاریوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو ضروری بھی ہے۔ یہ نوجوان اپنے پورے اختیار کے ساتھ میدان جنگ میں حاضر ہوئے۔ ان کی تعداد آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی۔ ان شجاع نوجوانوں کی پوری کوشش اور دلی خواہش یہ ہوا کرتی تھی کہ سرحد کی آخری منزل پر جا کر اپنے ملک کی آزادی کا دفاع کریں۔
لیکن میں اس مقام پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دوسرے مراحل کی ظریف دشواریاں بھی زمانہ جنگ سے کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ ایرانی عوام نے معنوی و دینی حاکمیت کے پرچم کو بلند کر رکھا ہے جو بہت اہم ہے۔ صحیح ہے کہ آج پوری دنیا کے انسان اور بالخصوص مغربی ممالک کے لوگ مادیت اور مادہ پرستی سے تنگ آ چکے ہیں اور اس معنویت کی تلاش میں ہیں جس کی انہیں ابھی شناخت بھی نہیں ہے۔ دنیا بھر کے نوجوان اس مادیت کو چھوڑ کر جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں، ایک ایسی معنویت کی تلاش میں ہیں جو ان کی روحوں کو سیراب کر سکے لیکن دنیا کو چلانے والی طاقتیں، اقتصادی طاقتیں، یعنی یہی جنہیں آپ عالمی استکبار کہتے ہیں، قوموں کو معنویت سے نزدیک نہیں ہونے دیتیں۔ اقوام و ملل میں شوق و اشتیاق پایا جاتا ہے تو دوسری طرف موانع اور رکاوٹیں بھی کم نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں اپنے نوجوانوں اور اپنے مادی و معنوی سرمایوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک عظیم ملک یعنی اسلامی جمہوریہ ایران نے پرچم معرفت کو بلند کیا ہے اور اس کا دعوٰی یہ ہے کہ ہم انسانوں کو معنویت کے زیر سایہ سعادت و خوشبختی، آرام و آسائش، امن و امان، علم و ہنر اور آزادی و خود مختاری کی شاہراہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ وہ اس لیاقت و شائستگی کا حامل ہے۔ یہ استکبار کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے جس نے اس کے تمام فلسفوں اور طریقہ کار کو یکسر باطل کر دیا ہے۔
اگر یہ قوم اپنے آپ کو علم و ترقی کی بلند بام چوٹیوں تک پہنچاۓ تو دیگر اقوام کے لئے معنویت کی طرف کھلنے والا ایک عظیم باب وا ہو جائیگا۔ دشمن اسی سے خائف ہے لہذا رکاوٹیں ڈالتا ہے، مخالفت کرتا ہے، پروپیگنڈے کرتا ہے، گستاخیاں کرتاہے، سیاسی و اقتصادی پابندیاں عائد کرتا ہے تاکہ یہ قوم اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل نہ کر پائے لیکن ہمارا اور ہماری قوم کا عزم و ارادہ مستحکم ہے اور یہ بہترین مرحلہ ہے جہاں نوجوانوں کی طاقت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایک ایسا نوجوان جو مؤمن ہے، امید سے مالا مال ہے، اپنے نفس پر اعتماد رکھتا ہے اپنی صلاحیتوں اور خلاقیت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے انہیں بے نظیر جذبوں کی بدولت اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے اور آگے بڑھنے میں عظیم کردار ادا کر سکتا ہے۔
دشمنوں کی پوری کوشش یہی ہے کہ ہمارے نوجوانوں سے ان کے حوصلوں اور ان کے عزم و استقلال کو سلب کر لیں۔ جیسا کہ انقلاب سے پہلے وہ اپنی اس کوشش میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اس لئے کہ اس دور میں ہمارے نوجوانوں کو خود اپنے اوپر بھروسہ نہیں تھا، وہ اپنے آپ کو یورپ کے نوجوانوں سے کمتر سمجھتے تھے۔ یورپ کے نوجوان میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں؟ وہ کیا ہے؟ کیا وہ ایک ایسے انسانی مجسمے سے زیادہ کچھ ہے جو روحی و نفسانی مشکلات اور مادی و معنوی مصیبتوں کا مجموعہ ہے؟ لیکن دشمن کی سازشوں نے ہمارے نوجوان کو ایسی شکل دے دی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہمیشہ حقیر سمجھتا رہا اور جس کے منفی اثرات آج بھی اس زمانہ کے نوجوانوں یعنی دور حاضر کے بہت سے ان بوڑھوں میں دیکھے جا سکتے ہیں جن کو انقلاب سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ عالم شباب کی غلط تربیت اس بات کا سبب بنی کہ وہ خود اعتمادی سے محروم تھے۔
دشمن اپنے حربوں کے ذریعہ چاہتا ہے کہ آج کے نوجوان سے اس کی خود اعتمادی، ایمان، صلاحیت، خلاقیت، عزم و حوصلہ اور شوق و اشتیاق چھین لے اور اس کے ذہن کو دوسری مشکلات اور مشغلوں میں مصروف کر دے۔ کسی کو شہوت پرستی، کسی کو لغویات، کسی کو بیہودگی تو کسی کو جنگ و جدال میں مصروف کر دے۔
چونکہ آپ حضرات اسلامی انجمن سے تعلق رکھتے ہیں لہذا آپ کی ذمہ داریاں بھی دوگنی ہو جاتی ہیں۔ یعنی اس دور کے نوجوانوں کی ذمہ داری، کہ جو اپنے آپ میں ایک عظیم اور قابل افتخار ذمہ داری ہے، یعنی وہ دور جس میں آپ زندگی بسر کر رہے ہیں حسّاسیت کے اعتبار سے تاریخ میں کم گذرا ہے اور مستقبل میں بھی کم گزرے گا۔ یہ دور جو ایک پسماندہ قوم کو ترقی یافتہ قوم میں تبدیل کرنے والا ہے۔ آپ کی ایک دوسری ذمہ داری اسلامی انجمن کی ہے، یعنی ایک نوجوان دوسرے نوجوانوں کے درمیاں پیغام رسانی کی ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔
ممکن ہے کہ کوئی نوجوان خطا کا مرتکب ہو جائے، ممکن ہے کہ غلط احساسات و ادراکات اور نادرست افکار اس پر اثر انداز ہوں تو ایسی صورت میں آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس کی نجات کے لئے کوشاں ہوں۔ آپ پر ضروری ہے کہ اس کی نجات کا سامان فراہم کریں۔ ظاہر سی بات ہے کہ نوجوانی کے بحر بیکراں میں کوئی بھی غرق ہو سکتا ہے لہذا ڈوبنے والے کو نجات دلانا لازم ہے۔ اسلامی انجمن بلند بانگ دعوؤں اور اظہار غرور کے بغیر جو بھی اچھی چیز نہیں ہے، خود کو ڈوبتے کو نجات دینے والا بنائے۔
گفت آن گليم خويش به در مى‏برد ز موج وين سعى مى‏كند كه بگيرد غريق را
یعنی ایک وہ ہے جو موجوں کے بیچ سے اپنا گلیم نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایک وہ ہے جو سب کچھ بھول کر ڈوبنے والے کو نجات دینے میں مصروف ہے۔
آپ حضرات ایک ایسے نجات دہندہ گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی سعی و کوشش یہ ہے کہ کوئی غرق نہ ہو لہذا کسی کو خطا کا مرتکب نہ ہونے دیجئے کسی کو پیچھے نہ ہونے دیجئے، برائی صرف کج روی نہیں ہے بلکہ آگے نہ بڑھنا اور قافلہ سے پیچھے رہ جانا بھی بہت بری شے ہے۔ اسلامی انجمن کا نصب العین کچھ ایسا ہی ہونا چاہیے اور اس میں اس طرح کا جذبہ موجود ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ڈوبتے کو نجات دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تیراکی دوسروں کے مقابلے میں کافی بہتر ہو، ورنہ نہ صرف یہ کہ وہ ڈوبتے کو نجات نہیں دے پائے گا بلکہ خود بھی غرق ہو جائیگا لہذا ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ کو قوی سے قوی تر کیجئے اور اپنے اعتقادی و اخلاقی پہلوؤں کو مضبوط و مستحکم بنایئے۔
میں نے دو یا تین سال قبل بظاہر آپ حضرات یا آپ جیسے ہی دیگر نوجوانوں کی خدمت میں عرض کیا تھا، میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ طلب علم، تہذیب نفس کیجئے اور ورزش و تفریح انجام دیجئے یعنی آپ کے اندر عقل، فکر، مغز اور علم کو مستحکم ہونا چاہیئے۔ الحمد للہ موصولہ اطلاع کے مطابق وہ طلاب جو اسلامی انجمن سے وابستہ ہیں ان کی تعلیمی صلاحیت دیگر طلاب کی نسبت کافی بہتر ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ ہر جگہ ایسا نہ ہو لیکن یہ اپنے آپ میں بہت اچھی بات ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے،علمی لحاظ سے رشد و نمو کیجئے لیکن صرف اس لیے نہیں کہ آپ کی بات دوسروں پر اثر انداز ہو بلکہ اس لئے کہ آپ ہی وہ ستون ہیں جن پر ایرانی قوم کی ترقی کا بے نظیر و بے بدیل قصر تعمیر ہونا ہے۔
طلب علم کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس و تہذیب نفس بھی بہت ضروری ہے۔ آپ تمام نوجوانوں کے قلوب نورانی ہیں، آپ کے اندر الہی فطرت زندہ و درخشاں ہے۔ اگر آپ ابھی سے اپنے آپ کو نیک رفتار و گفتار کی عادت ڈالیں تو آپ کی انسانی شخصیت بھی اسی طرح تشکیل پائے گی اور زندگی کے آخری لمحات تک یہ عظیم سرمایہ آپ کے وجود میں محفوظ رہے گا۔ بالخصوص عمر کے اس حصہ میں جو آپ کی کتاب زندگی کا زرین و طلائی ورق ہے۔ اس سن و سال میں اپنی شخصیت کو کمال بخشنے کے لئے بہت سے اہم کام انجام دئے جا سکتے ہیں۔ خود سازی۔ آپ خدا سے اپنے رابطہ کو محکم سے محکم تر بنائیے۔ دین کے منطقی پہلو اور مسائل کی باریکی کی طرف زیادہ توجہ دیجیئے اور ماہر استادوں سے اس سلسلہ میں استفادہ کیجئے۔ دین، جذبات کا حامل بھی ہے لیکن ان جذبات کا انحصارعمیق معنویات، گہری فکر پر ہے۔ اس فکر کو سیکھنا چاہیے اور دین کے بنیادی مسائل سے آشنا ہونا چاہیئے۔ اس کے ذریعہ اپنی شخصیت اور اپنے قلب و روح کو سیراب کرنا چاہئے۔ آپ اپنے دل کو متاثر کیجئے، ہم سبھی کو چاہیئے کہ اکثر اپنے دل سے باتیں کریں۔
کسی اہل دل اور اہل عرفان نے کیا خوب کہا کہ میں نے ہر روز چند ہزار بار فلاں ذکر کو اپنے سوۓ ہوۓ اور غافل دل پر پڑھا؛ کتنی اچھی تعبیر ہے! نماز وہی ذکر اور وہی آب حیات ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے دل کو سیراب کرتا ہے۔ توجہ کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز، اس توجہ کے ساتھ کہ ہم خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہیں اور اس سے ہم کلام ہیں، پڑھی جانی چاہئے۔ پوری نماز کے دوران کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ یہ حالت و کیفیت قائم رہے۔ اس وقت یہ نماز اثردار ثابت ہوگی اور انسانی قلب کو اکسیر کے مانند بدل دیگی۔ اکسیر ایک ایسا کیمیاوی مادہ ہے جو، کہتے ہیں کہ تانبے کو سونے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ہمارا دل اگر تانبے کی طرح بھی ہو اکسیر نماز اسے سونے میں تبدیل کر دےگی۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔
تہذیب نفس کا اہم حصہ نیک سلوک ہے، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ، اپنے والدین سے محبت کیجئے اور پھر محبت کا اظہار بھی کیجئے، ان کا احترام اور ان کی اطاعت کیجئے۔
گھر کے اندر آپ کی خوش اخلاقی و نیک سیرت ایک بہترین کنبے کی تعمیر کا سبب بن سکتی ہے۔ اکثر مشاھدہ کیا گیا ہے کہ ایک نوجوان اپنے کردار کے ذریعہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ میں کبھی کبھی جب شھدا کے گھر والوں سے ملاقات کرتا ہوں تو اس شہید کے والدین بیان کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ، ہمارا شہید بیٹا اپنی نیک سیرت کے سبب ہمارا معلم و استاد تھا۔ اس کی نماز ہماری نمازوں کے لئے مثالی تھی، اس کی تلاوت قرآن ہماری تلاوت کے لئے نمونہ تھی، اس کے اندر موجود فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ہمارے لیے درس کا درجہ رکھتی تھی۔ ایک مؤمن اور مہذب نوجوان، چراغ کی مانند خاندان کے ماحول کو روشن کرتا ہے اور بھائی بہن اس سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنے محلے اور اپنی زندگی کے ماحول اور کام کرنے کی جگہ کو بھی متاثرکرتا ہے۔
اب گرمی کی چھٹیاں نزدیک ہیں ان شاءاللہ امتحانات کے بعد اسلامی انجمن کے نوجوان دوسروں سے زیادہ اس فکر میں رہیں کہ اس فرصت سے مطالعہ، تعلیم وتعلم، صحت و ورزش، والدین کی مدد و نصرت اور تہذیب نفس کے لئے بخوبی استفادہ کریں۔ ان تینوں اصلی عناصر کی طرف آپ تمام نوجوانوں کی توجہ مرکوز رہے تاکہ بہتر طور پر اپنے کردار کے ذریعہ دوسروں پر اثر انداز ہو سکیں۔
نوجوانی ایک عظیم نعمت ہے جو صرف ایک بار ہر انسان کو دی جاتی ہے اور جس کا ایک خاص دورانیہ ہوتا ہے۔ نوجوانی کے دور سے گذرنے کے بعد انسان نوجوانی کے دور کی برکتوں سے بہرہ مند ہو سکتا ہے۔ بہت سے ضعیف العمر اشخاص کے روحی و باطنی سکون، روشن فکری اور منظم زندگی کی اصلی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنی نوجوانی کو مذکورہ خصوصیات کے ساتھ بسر کیا ہے اور بہت سے بوڑھے لوگ ایسے بھی ہیں جو سست، آزردہ خاطر، بے حوصلہ اور نا امید نظر آتے ہیں، ایسے لوگوں نے ایام نوجوانی میں اپنے لئے کوئی ذخیرہ فراہم نہیں کیا تھا ۔
وہ سن رسیدہ مرد اور عورتیں جو اپنے خدا سے بآسانی انس پیدا کر لیتی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نوجوانی کے دوران اپنے نفس کو خدا سے مانوس رکھا۔ یہ فکر بالکل غلط ہوگی کہ نوجوانی کو غفلت کی نذر کرنے کے بعد بڑھاپے میں خدا کا ذاکر و شاکر بندہ بنا جا سکتا ہے۔ نہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ممکن ہے کہ کوئی کوشش کرے لیکن اپنے مقصد تک نہیں پہنچ پائیگا۔ جو ذخیرہ آپ دوران نوجوانی میں اپنے لئے جمع کرتے ہیں یہ آپ کی پوری زندگی کا ذخیرہ ہے۔ خواہ وہ ذخیرہ جسم سے متعلق ہو یا فکر سے یا پھر قلب و روح سے۔ یہ آپ کے آخری لمحات تک کا ذخیرہ ہے، ایک ابدی ذخیرہ، اس ابدی زندگی کے لئے جو حقیقی حیات سے عبارت ہے۔
نوجوانی کے اس دور کی اہمیت کو سمجھئے اور اسلامی انجمن کی ممبری کی فضیلت کو بھی درک کیجئے۔ یہ ملک آپ کے توانا بازوؤں کے ذریعے ہی تعمیر ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک کا نوجوان معاشرہ بہترین معاشرہ ہے۔ ملک میں صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور حرکت و نشاط و سعی و کوشش کا مظاہرہ کرنے کے لۓ زمیں ہموار ہے۔ البتہ دوسری طرف دشمن مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو بے عمل و بے ہدف بنا دے۔
بعض مقامات پر مایوس کن اطلاعات حاصل ہوتی ہیں لیکن حوصلہ افزا اطلاعات ان بری اطلاعات سے کہیں زیادہ موصول ہوتی ہیں اور مسلسل بہتری کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں۔
ان شاءاللہ آپ ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک وقت ایسا آئےگا کہ جب ممکن ہے کہ میں اور میرے ہم عمر افراد اس دنیا میں نہ ہوں اس وقت آپ اپنی اس عالی دنیا کو دیکھیں گے جو آپ کی نوجوانی کی محنتوں کا بہترین نتیجہ بن کر رونما ہوگی اور ان شاءاللہ دوبارہ اس سے بہتر مستقبل کے لئے چارہ اندیشی میں مشغول ہوں گے۔
امید ہے کہ خداوند منان آپ کے نورانی قلوب اور پاکیزہ باطن کو ہمیشہ نورانی و پاکیزہ رکھے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ