قائد انقلاب اسلامی نے عراق کے حالات کا تفصیل سے جائزہ لیا اور مشرق وسطی کے سلسلے میں امریکہ کے منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ کے منصوبوں کی ناکامی کے مثالیں پیش کیں اور علاقے کی قوموں کو انتہائي کارساز مشورے دئے۔

خُطبہ اوّل
بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ ربِّ العالمين نحمدہ و نستعینہ و نومن بہ ونستغفرہ ونصلّي و نسلّم عليٰ حبيبہ و نجيبہ و خيرۃ في خلقہ و حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ بشير رحمتہ ونذير نقمتہ سيِّدنا ونبيّنا ابي القاسم المصطفيٰ محمّد و عليٰ آلہ الآطيبين الآطہرين المنتجبين سيّما بقيّۃ اللہ الآعظم في الارضين

رحمت و برکت کا مہينہ
آپ تمام محترم نماز گذار بہن بھائيوں اور اپنے آپ کو تقويٰ الہی کي دعوت دیتا ہوں کہ جو ماہ مبارک کي عبادتوں، رياضتوں اور روزہ رکھنے کا بہترين نتيجہ ہے۔ ماہِ مبارک رمضان اپني تمام برکتوں اور معنوي وروحاني خصوصیات کے ساتھ ايک مرتبہ پھر ہمارے اوپرسایہ فگن ہوا ہے۔ ماہِ مبارک کي آمد سے قبل پيغمبر اسلام (ص) لوگوں کو اِس عظيم مہينے ميں اِس عظيم الشان مہینے کی برکتوں اور رحمتوں سے بہرہ ور ہونے اور اس کا بھرپور استفادہ کرنے کیلئےآمادہ کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے؛''قد اقبل اِليکم شہرُ اللّٰہ بالبرکۃ والرحمۃ‘‘،يعني ''اے بندگانِ خدا!اللہ تعالی کا مہینہ اپنی برکتوں اور رحتوں کے ہمراہ تمھہار قریب آن پہنچا ہے‘‘۔

ماہ مبار ک رمضان ايک سنہری موقع
ايک روايت میں ہے کہ، ماہ ِ شعبان کے آخري جمعہ کو آنحضرتۖ نے ايک نہايت فصيح و بليغ خطبہ ميں لوگوں کو ماہِ مبارک رمضان کی آمد، اُس کي فضيلتوں، برکتوں اور اللہ تعالی کی خاص رحمت و مغفرت کي خبر دي۔ اگر ہم ايک جملے ميں ماہِ مبارک رمضان کي تعريف کرنا چاہيں تو ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ مہينہ ميرے اور آپ کيلئے مواقع لے کر آیا ہے۔ اگر ہم اِن لمحات سے صحيح معنيٰ ميں استفادہ کر سکيں تو يہ ہمارے لئے ايک بہت قيمتي اور بيش بہا خزانہ ثابت ہوگا۔ اِس نکتے کی میں تھوڑي سي وضاحت کرنا چاہوں گا، لہذا پہلا خطبہ، ماہِ مبارک رمضان کی معنوي خصوصیات اور اس مہینے کے قیمتی لمحات کی وضاحت سے مخصوص ہے۔

ماہِ رمضان ؛ ماہِ ضيافت ِالٰہي
ماہ ِشعبان کے اِسي خطبے ميں رسول اکرمۖ نے ارشاد فرمايا کہ شَھر دُعِيتُم اِليٰ ضِيَافَۃِ اللّٰہِ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ سب کو اللہ تعاليٰ کی مہماني (ضيا فت ) کي دعوت دي گئي ہے۔ خود يہ جملہ قابل غور ہے۔ يعني خداوند عالم کي مہماني کی دعوت۔ اللہ تعالی اور اُس کے رسولۖ نے لوگوں کو اس دعوت سے استفادہ کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے۔ ايسا نہيں ہے، اِس کو واجب قرار دے ديا ہے، اب يہ اللہ تعالی کا مہمان بننا يا نہ بننا ہمارے اپنے اختيار ميں ہے۔

ماہِ رمضان سے غافل افراد
بہت سے افراد ايسے بھي ہيں کہ جنہيں اِس عظيم الشان ضيافت کے سلسلے میں اِس بات کي بھی فرصت نہيں ملتي کہ وہ دعوت نامے پر ایک نظر ہی ڈال لیں۔ دنیاوی امور میں وہ اس طرح غرق ہیں اور وہ ایسی غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں کہ نہ انہیں ماہِ مبارک رمضان کی آمد کی خبر ہوتی ہے اورنہ ہي اُس کي رخصتي کا کوئي غم ہوتا ہے۔ بالکل ايسا ہي ہے کہ جيسے کسي شخص کو کسی انتہائی اہم، پر شکوہ موقع پر مدعو کیا جائے لیکن اسے وہاں جانے کا موقع ہی نہ ملے۔ وہ اتنا غافل ہو جائے کہ دعوت نامے پر ایک نظر ڈالنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے۔ يہ وہ افراد ہيں کہ جو اِس قسم کي محافل کي خير و برکت سے محروم رہتے ہيں۔
بعض ايسے افراد بھي ہيں کہ جو يہ تو سمجھتے ہيں کہ يہ ايک غير معمولي دعوت اور مہماني ہے ليکن وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایسے تمام افراد جو بغير کسي عذر کے اِس مہینے ميں روزے نہیں رکھتے، تلاوتِ کلام پاک نہیں کرتے اور ماہِ مبارک رمضان کي بہتريں دعائيں نہیں پڑھتے، خداوند عالم کے لطف و کرم سے محروم رہتے ہیں، اللہ تعالی کی توفیقات اور عطائے خاص میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ بہت سے ايسے بھي افراد ہيں کہ جو اِس دعوت و مہماني ميں نہيں جاتے اور اِس دعوت کي طرف توجہ بھي نہيں کرتے۔ يہ وہ لوگ ہيں جن کا حساب کتاب دوسروں سے بالکل مختلف ہے۔
مسلمانوں کي ايک بڑی تعداد اِس مہماني و دعوت سے بہرہ مند ہوتي ہے ليکن سب ضیافت الہی سے یکساں استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بعض افراد اِس دعوت سے زيادہ فائدہ حاصل کرتے ہيں اور بعض کم۔

ضيافت ِالٰہي کے معنوي تحفے؛ روزہ اور تلاوتِ قرآن
اِس مہماني اور دعوت کي ایک رياضت ہے روزہ رکھنا اور بھوک و پياس کو برداشت کرنا، جو شايد اِس ضيا فتِ الٰہي کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ اِس روزے کی برکتيں انسان کے قلب ميں اس طرح روحانيت و معنويت پيدا کرتی ہیں کہ يہ کہا جا سکتا ہے کہ اِس ماہِ مبارک کي سب سے بڑي برکت يہي روزہ ہے۔ جولوگ روزہ رکھتے ہيں وہ اِس مہماني ميں داخل ہو جاتے ہيں اور اِ س ضيا فت سے بہرہ مند بھي ہو تے ہيں۔ روزے رکھنے کے علاوہ کہ جو ایک معنوی اور روحانی ریاضت ہے یہ لوگ کلام پاک سے بھی آگاہی حاصل کرتے ہیں، غور و فکر اور تدبر کے ساتھ تلاوت کے ذریعے۔

ماہِ رمضان ميں تلاوتِ قرآن کي برکتيں اوردعاؤں کے فوائد
روزے کے عالم میں اور روزے سے پیدا ہونے والی روحانی فضا میں، ماہِ مبارک کي راتوں میں یا نصفِ شب کے وقت قرآنِ کريم کي تلاوت، قرآن میں ڈوب جانے اور خالق حقیقی سے گفتگو کی الگ ہی لذت ہے۔ اس کا بالکل مختلف مقام ہے۔ غور و فکر اور تدبر والي تلاوتِ قرآن سے انسان جو چيز حاصل کرتا ہے، عام حالات اور دوسرے مہينوں ميں اِسي تلاوت قرآن سے اُس کا حاصل کرنا ممکن نہيں۔ ضيا فت الہی کا شرف حاصل کرنے والے يہ لوگ تلاوت ِ قرآن سے بھي بہرہ مند اور مستفيد ہوتے ہيں۔ اِس کے علاوہ اللہ کی اس دعوت پر لبيک کہنے اور اِس ميں داخل ہونے والے لوگ قرآن کريم کي تلاوت، دعاؤں اور مناجات کے ذريعے خداوند عالم سے ہم کلام ہونے، ربّ ِدو جہاں کا مخاطَب قرار پانے، اپنے پالنے والے سے عاشقانہ راز و نياز اور مناجات کرنے اور اِنہي دعاؤں کے توسط سے اپنے دل اور دل کي باتوں اور اسرار و رموزکو خدا کيلئے اپني زبان پر لانے سے بھي پورا پورا استفادہ کرتے ہيں۔ يہي امام زين العابدين کي دعائے ابو حمزہ ثمالي، ماہِ رمضان المبارک کے دنوں، راتوں اور سحري کي دعائيں دراصل خدا سے گفتگو کرنا، اپنے مالک سے چاہنا اور اپنے دل کو خداوند عالم کي بارگاہِ جلال و جمال سے نزديک کرنا ہے؛ ضيافت ِالٰہي اور خدائي دعوت ميں آنے والے يہ روزے دار اِس مہماني اور اِس کي تمام نعمتوں اور روحاني دسترخوان اور اِن تمام لمحات سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہيں۔

ترکِ گناہ؛ ماہِ رمضان ميں افضل ترين کام
اِن سب ثواب و فضيلت سے زيادہ اہميت والا کام اور اِن سب پر مقدّم اور شايد ايک جہت سے اِن تمام کاموں سے بالاتر، گناہوں کا ترک کرنا ہے؛ خدائي دعوت ميں شامل ہو نے والے يہ مہمان اِس عظيم ماہ ميں گناہ بھي انجام نہيں ديتے ہيں۔ خطبہ شعبانيہ کي اُسي روايت ميں ہے کہ امير المومنين حضرت علي(ع) نے رسول اکرم(ص) سے عرض کيا کہ''اِس ماہ ميں سب سے زيادہ افضل عمل کون سا ہے؟‘‘پيغمبر اسلام (ص) نے جواب ميں ارشاد فرمايا کہ ''اَلوَرَعُ عَن مَحَارِمِ اللّٰہِ‘‘؛ آپ نے فرمايا کہ ''اِس ماہ ميں سب سے افضل عمل گناہوں سے دوري اور معصيت ِ خدا سے اجتناب ہے‘۔ خداوند عالم کي حرام کردہ چيزوں سے دوري اور گناہوں سے اجتناب، نيک اور صالح کاموں کي انجام دہي پرمقدّم ہے اور روح و دل سے گناہوں کے زنگ و ميل کو مٹانا اور اُسے دھونا اور معصيت ِالٰہي کي آلودگي سے دل کو پا ک کرنا، نيک اعمال بجا لانے پر مقدّم اور اَوليٰ ہے۔ چنانچہ خداوند عالم کي دعوت و مہماني پر لبيک کہنے والے گناہوں سے بھي اجتناب کرتے ہيں۔

ماہِ رمضان کا روحاني تحفہ
اِس عظيم ماہ ميں روزہ داري بھي ہے، تلاوت قرآن کي نورانيت بھي ہے، دعا اور ذکر خدا کا نور بھي ہے اور گناہوں کي آلودگي اور پليدگي سے اپني جان و روح کی حفاظت بھي ہے۔ ماہِ مبارک رمضان کا يہ ''روحاني تحفہ‘‘ انسان کو اسلام کے پسنديدہ اخلاق اور کردار و عمل سے نزديک کرتا ہے۔ جب انسان ماہِ رمضان کي اِس روحاني تربيت گاہ ميں قدم رکھتا ہے تو اُس کا دل کينہ و حسد سے خالي ہو جاتا ہے۔ ايثار و فداکاري کا جذبہ اُس ميں بیدار ہو جاتا ہے۔ روزے کي بھوک و پياس کے احساس سے معاشرے کے فقير و مفلس افراد کي مدد کرنا اُس کيلئے سہل و آسان ہو جاتا ہے اور دوسرے انسانوں کو نفع اور فائدہ پہنچانے کيلئے اپنے مادي نقصان و زياں کو برداشت کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ آپ ديکھتے ہيں کہ اِس عظيم مہينے ميں جرائم کي شرح کم ہو جاتي ہے، کار خير زيادہ انجام دئے جاتے ہيں، دوسرے مہينوں کي نسبت اِس ماہ ميں معاشرے کے افراد کے درميان پيار و محبت کا رشتہ زيادہ قائم ہوتا ہے۔ يہ سب اِس ضيا فت ِالٰہي کي بر کتيں ہيں۔

گناہوں سے توبہ اور طلبِ مغفرت
بعض لوگ جو اِس ماہِ مبارک سے بطور کامل فائدہ حاصل کرتے ہيں ليکن بعض لوگ نہيں؛ ايک چيز سے فائدہ حاصل کرتے ہيں اور دوسري چيز کي نورانيت سے خود کو محروم کر ديتے ہيں۔ اِس عظيم مہينے ميں ايک مسلمان کو اِس بات کي کوشش اور سعي کرني چاہيے کہ وہ اِس ضيافت ِ الٰہي سے حتي الوسع استفادہ کرے اور خداوند عالم کي رحمت و مغفرت کے حصول کيلئے بھرپور کوشش کرے۔ ميں آپ سب سے گناہوں سے استغفار کرنے کي سفارش کرتا ہوں، گناہوں سے توبہ، خطاوں سے طلب مغفرت؛ لغزشوں سے عذر خواہي، يہ گناہ خواہ چھوٹے ہوں يابڑے، صغيرہ ہوں يا کبيرہ، سب سے معافي طلب کرنا چاہيے۔ يہ بہت ہي اہم بات ہے کہ اِس ماہ ميں ہم اپنے آپ اور اپني جان و روح کو گناہوں کے زنگ سے پا ک کريں اور اپني روح سے معصيت ِ خدا کي آلودگي اور پليدگي کو دھو ڈاليں، اُسے نوراني بنائيں اور اہم بات تو يہ ہے کہ يہ توبہ و استغفار سب کيلئے امکان پذير اور سب کيلئے قابل دسترسي ہے۔

توبہ و استغفار کے درجات
متعدد روايات ميں آيا ہے کہ اِس ماہ ميں سب سے بہترين دعا، اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں پر طلبِ مغفرت اور خدا سے معافي کا سوال کرنا ہے۔ يہ استغفار اور توبہ ہر کوئی کر سکتا ہے، خود پيغمبر اسلام (ص) استغفار کرتے تھے۔ البتہ رسول اکرم (ص) کا استغفار کرنا کسي اور نوعيت کا تھا اور ہمارا اور نوعیت کا ہے۔ ہم جيسے انسانوں کي توبہ و استغفار ايک دوسرے ہي گناہوں کيلئے ہوتی ہے؛ ہمارے گناہ ہمارے اعضا و جوارح کے يہي جانے پہچانے گناہ ہيں جو ہمارے اندر حيواني رجحانات اور نفساني خواہشات سے جنم ليتے ہيں اور ہم اِنہي گناہوں کو ظاہري اور آشکار و واضح گناہ کہتے ہيں۔ بعض لوگ ہيں کہ جو اِس قسم کے گناہوں سے استغفار نہيں کرتے، اُن کي توبہ ''ترکِ اَوليٰ‘‘ کيلئے ہوتي ہے؛ بعض افراد ترکِ اَوليٰ کا بھي گناہ انجام نہيں ديتے ہيں ليکن پھر بھي خداوند عالم سے طلبِ مغفرت کرتے ہيں، اُن کي اِس توبہ و استغفار کا مقصد، خداوند عالم (واجب الوجود) کي باعظمت ذات کے مقابلے ميں ممکن الوجود(انسان) کے ذاتي اور فطري نقص وعيب کا اعتراف ہے؛ يعني انسان کا اپني ذاتي خامی و کوتاہي اور نقص و عيب کي وجہ سے اپنے رب کي کامل معرفت نہ رکھنے پر توبہ کرنا اور مغفرت طلب کرنا صرف اوليائے الٰہي اور بزرگانِ دين کاخاصّہ ہے۔

استغفار کا فائدہ؛غفلت سے نجات
ہميں اپنے گناہوں پر اپنے رب سے مغفرت طلب کرني چاہيے؛ اِس مغفرت کا سب سے بڑا فائدہ يہ ہے کہ يہ ہميں اپني ذات کي نسبت غفلت سے باہر نکال ديتي ہے، کيونکہ بعض اوقات ہم خود اپنے متعلق غلط فہمی و اشتباہ کا شکار ہو جاتے ہيں ليکن جب توبہ و استغفار کرتے ہيں تو ہمارے انجام دئے گئے گناہ، بارگاہِ خداوندي ميں ہماري بے شرمي ، ڈھٹائي ،ہماري خطائيں اور لغزشيں، خواہشاتِ نفساني کي تکمیل، حدودِ الٰہي سے تجاوز، اپنے نفس اور دوسروں پر کيا گيا ظلم و ستم خود ہماري آنکھوں کے سامنے زندہ اور مجسم ہو جاتا ہے۔ اُس وقت ہميں ياد آتا ہے کہ ہم نے کيسے کيسے افعال اور حرکتيں انجام دي ہيں تو ہم غرور و تکبر اور اپني ذات کي بابت غفلت کا شکار نہيں ہوتے؛ يہ ہے توبہ کا فائدہ!

توبہ؛خدا کي طرف بازگشت
خود خداوند عالم نے بھي ارشاد فرمايا ہے کہ ميرا جو بندہ بھي مجھ سے اپنے گناہوں پر توبہ اور مغفرت طلب کرتا ہے يعني ايک حقيقي اور سچي دعا کرتے ہوئے صدقِ دل سے حقيقتاً اپنے گناہوں پر توبہ کرتا ہے،''لَوَجَدُ اللّٰہَ تَوَّاباً رَّحِيماً‘‘،''تو وہ خداوند متعال کو بہت زيادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحيم پائے گا‘‘؛ اور خداوند عالم اُس کي توبہ کو قبول کر لےگا۔ يہ توبہ و استغفار در حقيقت (گناہوں کي آلودگي سے اپني جان و روح کو سنگين کرنے اور باطني طور پر تھک کر چُور ہو جانے کے بعد) اپنے مہربان اور رحيم پروردگار (کي رحمت و مغفرت کے نور ) کي طرف واپسي اور باز گشت ہے۔ اپنے گناہوں پر طلبِ مغفرت در اصل اپنے گناہوں اور خطاؤں کي طرف پشت کرکے اپنے رب کي طرف منہ کرنا ہے۔ اگر گناہگار انسان کي توبہ، حقيقي توبہ و استغفار ہو تو خداوند عالم اُس کي توبہ کو قبول کرتا ہے۔

صدقِ دل سے گناہوں پر مغفرت چاہنا
آپ توجہ فرمائيے کہ ايک انسان صرف اپنی زبان سے ''اَستَغفِرُاللّٰہَ، اَستَغفِرُاللّٰہَ، اَستَغفِرُاللّٰہَ‘‘ تو کہے ليکن اُس کا دل اور توجہ کسي اور طرف ہو تو اِس زباني استغفار کا کوئي فائدہ نہيں ہے اور نہ ہي يہ حقيقي استغفار کہلائے جانے کي مستحق ہے۔ ''استغفار ‘‘ اپنے پروردگار سے سچے دل کي ايک ''التجا ‘‘ اور اپنے رب سے کی جانے والی ''درخواست اور گزارش‘‘ ہے؛ انسان کو چاہيے کہ وہ اپنے پالنے والے سے صدقِ دل سے چاہے اور گناہوں کي انجام دہي کے باعث اپنے گلزارِ حيات کے ايک تپتے ہوئے صحرا ميں تبديل ہو جانے اور خطاوں اور معصيت کے ارتکاب کے نتيجہ ميں اپني ويران اور ترستي ہوئي انسانيت پر اُس کي مغفرت و درگذشت کی بارانِ بے پایان کے برسنے کي اِس طرح درخواست کرے ؛''خداوندا! ميں تيرا وہ بندہ ہوں کہ جس نے يہ گناہ و معصيت انجام دي ہے، اے پالنے والے! مجھ پر رحم فرما اور ميرے اِس گناہ اور اپني بارگاہ ميں ميري اِس بے شرمي اور بے حيائي پر قلمِ عفو چلا دے‘‘۔ اپنے تمام گناہوں پر اِس طرح توبہ کرنا مسلّمہ طور پر رحمت و مغفرتِ الٰہي کو اپنے ہمراہ لائے گا؛ توبہ کا يہ دروازہ خود خداوند عالم نے کھولا ہے۔

دوسروں کے سامنے اپنے گناہوں کو فاش کرنا اور اُنہيں بيان کرنا منع ہے!
البتہ اِس نکتہ کي طرف بھي توجہ لازمي رہے کہ دين اسلام ميں دوسروں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرنا يا اُنہيں بيان کرنا منع ہے۔ يہ جو بعض اديان ميں معمول و رسم ہے کہ اُس مذہب کے ماننے والے اپني عبادت گاہ و معبد ميں جائيں اور اپنے عالم دين اور پادري کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کريں، يہ چيز اسلام ميں ہرگز وجود نہيں رکھتي اور ہمارے مذہب ميں يہ بات ممنوع ہے۔ دوسروں کے سامنے اپنے گناہوں سے پردہ اٹھانا ، اپني باطني برائيوں اور خدا کي معصيت کو بيان کرنا منع ہے اور اِس کا کوئي فائدہ نہيں ہے۔ يہ جو خيالي اور کھوکھلي نصيحت کرنے والے تحريف شدہ اديان ميں اِس طرح ذکر کيا جاتا ہے کہ اُس مذہب کا عالم يا پادري اپنے گناہوں کے اعتراف کرنے پر تمہارے سارے گناہوں کو بخش دے گا تو يہ بات درست نہيں ہے!

گناہ بخشنے والي ذات صرف خدا کي ہے!
اسلام ميں گناہ بخشنے والي ذات صرف اور صرف خدا کی ہے، حتيٰ کہ پيغمبر (ص) بھي گناہ نہيں بخش سکتے۔ خود قرآن کہتا ہے کہ ''وَلَو اَنَّھُم اِذ ظَلَمُوا اَنفُسَھُم جَاؤوکَ فَاستَغفرُو اللّٰہَ وَ استَغفَرَ لَھُم الرَّسُولُ لَوَجَدُ اللّٰہَ تَوَّاباً رَّحِيماً‘‘؛''وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کيا ہے، اے رسول! آپ کے پاس آتے اور اللہ سے طلب ِ مغفرت کرتے اور اللہ کا رسول بھي اُن کيلئے استغفار طلب کرتا تو بہ تحقيق يہ لوگ اللہ کو بہت زيادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحيم پاتے‘‘۔ جب اُنہوں نے گناہ انجام ديے اور اپنے نفسوں پر ظلم کيا تو اے رسول! اگر يہ لوگ آپ کے پاس آئيں کہ آپ ہمارے بھيجے ہوئے رسول ہيں اور خداوند عالم سے طلبِ مغفرت کريں اور اے رسول! آپ بھي اُن کيلئے مغفرت کي دعا کريں تو خدا اُن کي توبہ کو قبول کر لےگا۔ يعني پيغمبر اسلام (ص) اُن کيلئے طلبِ بخشش کريں گے، خود ہي اُن کے گناہ نہيں بخش سکتے کيونکہ گناہ بخشنا اور بندوں کو معاف کرنا صرف اور صرف خداوند عالم کا کام ہے۔
يہ ہے حقيقي توبہ و استغفار کہ جسے اِن خصوصيات اور شرائط کے ساتھ انجام دیا جانا چاہيے اور يہي استغفار ہے کہ جو اہميت کا حامل ہے اور عظيم مرتبہ رکھتا ہے۔ توبہ و استغفار اور رحمت و برکت کے اِس ماہ ميں استغفار سے غفلت نہيں کرنا چاہيے۔ خاص طور پر ماہِ مبارک کي راتوں اور سحري کے اوقات ميں۔ آپ کو چاہئے کہ اِس عظيم ماہِ مبارک کي تمام دعاوں کو معاني اور ترجمہ کي طرف توجہ کے ساتھ پڑھیں۔

ماہِ رمضان ميں بہترین مواقع!
الحمد للہ ہمارا معاشرہ معنوي اور روحاني اقدار کا مالک معاشرہ ہے، ہماري عوام ميں خداوند عالم سے دعا و مناجات، راز و نياز، اُس کي طرف توجہ و توسُّل اور ''اِبتِھَالِ اِلَي اللّٰہِ‘‘ تمام مادي اسباب وسہولیات سے کٹ کر خدا کا ہو جانے کا کا في رجحان پايا جا تا ہے۔ ہمارے عوام اِن باتوں کو پسند کرتے ہيں اور ہمارے نوجوانوں کے پاک اور نوراني قلوب، ذکرِ خدا کي طرف مائل ہيں۔ يہ سب بہترين مواقع ہيں۔ ماہِ مبارک رمضان خداوند عالم کا عطا کیا ہوا ايک عظيم موقع ہے کہ جو آج ہمارے اختيا ر ميں ہے اور ہم سب کو ان مواقع کو غنيمت سمجھتے ہوئے اِن سے بھر پور استفادہ کرنا چاہيے۔ اِس عظيم موقع اور وقت کو استعمال کرتے ہوئے ہميں چاہيے کہ اپنے قلوب کو خداوند عالم سے نزديک کريں اور خدا کي معرفت حاصل کريں، توبہ و استغفار کے ذريعہ اپنے دلوں کو پاکيزہ بنائيں اور اپني حاجات کو اپنے خالق کي با رگاہ ميں پيش کريں۔ خداوند عالم سے روحاني رشتہ مضبوط ہونے کي وجہ سے ہماري قوم نے کارہائے نماياں انجام ديئے ہيں؛ يہي وجہ ہے کہ ماہِ مبارک رمضان ايسے کاموں کو انجام دينے کيلئے ايک بہت اہم ترين موقع ہے لہذا اِس موقع سے بھر پور انداز ميں استفادہ کرنا چاہيے۔
اِن شَاء اللہ خداوند عالم سے ہمیں یہ توفیق حاصل ہوگی کہ ہم اِس مبارک مہینے ميں اپنے وجود کي ملکوتی صفات اور پہلوؤں کو اپنی حيواني عادات و صفات پر غالب کر سکيں۔ ہمارے باطن و روح ميں ايک پہلو، مُلکوتي اور روحاني ہے جبکہ دوسرا پہلو مادي اور حيواني ہے، نفساني خواہشات کي پيروي مادي اور حيواني خواہشات کو ہمارے نوراني اور روحاني پہلوؤں پر غالب کر ديتي ہے۔ خداوند عالم کي مدد و نصرت سے ہم اِن شاء اللہ اپنے باطن کي روحانيت و نورانيت کو اپنے مادي پہلو پر غلبہ دلانے ميں کامياب ہو جائيں گے، اِس کاميابي کو ايک ذخيرے کي حيثيت سے باقي رکھيں گے اور اِس کي حفاظت کريں گے اور ماہِ مبارک رمضان سے ايک تربيت گاہ کے عنوان سے استفادہ کريں گے کہ جس کي تربيت پورے سال ہمارے کام آئے گي۔
 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم۔
وَالعَصرِ اِنَّ الاِنسَانَ لَفِي خُسرٍ اِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوا بِالحَقِّ وَ تَوَاصَوا بِاالصَّبرِ۔

 

خُطبہ دُوّم
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
الحمد للہ ربِّ العالمين والصلاۃ والسلام عليٰ سيِّدنا ونبيّنا ابي القاسم المصطفيٰ محمّد
و عليٰ آلہ الاطيبين الاطھرين المنتجبين سيّماعليٍّ امير المومنين وسيّدۃ نساء العالمين و الحسن
و الحسين سَيِّدَي شبابِ اھلِ الجنۃ وعليّ بن الحسين و محمد بن عليّ و جعفربن محمّد و موسيٰ بن
جعفر و عليّ بن موسيٰ و محمّد بن عليّ و عليّ بن محمّد و الحسن بن عليّ و الخلفِ القائم المھدي
حُجَجِکَ عليٰ عِبَادِکَ و اُ مَنَائِکَ في بِلادِکَ و صَلِّ عليٰ اَئِمّۃِ المسلمين وحُماۃِ المُستَضعَفِين
وھُداۃِ المُومنين واَستَغفِرُ اللّٰہَ لِي وَ لَکُم۔

تہران کے پہلے امام جمعہ آيت اللہ طالقاني کي خدمات کا تذکرہ
اِس دوسرے خطبے ميں سب سے پہلے آيت اللہ طالقاني کی خدمات کا تذکرہ کروں گا۔ تہران ميں سب سے پہلي نماز جمعہ، امام خميني رحمت اللہ علیہ کے حکم سے آيت اللہ طالقاني کي امامت و اقتدا ميں ادا کي گئي۔ يہ عالم دين ايک متقي اور پارسا انسان تھے۔ وہ ایک مجاہد اور راہِ خداميں ثابت قدم رہنے والے شخص تھے، وہ اپنی زندگي کے امتحان و آزمائش ميں کامياب ہوئے۔ اُنہوں نے اسلامي انقلاب کي کا ميابي سے قبل بھي اور انقلاب کي کاميابي کے بعد بھي، سخت اور پيچيدہ ترين سياسي حالات اور امن و امان کے لحاظ سے دشوار ترين دنوں ميں بھي ايک کامياب انسان بن کر ايک نئي مثال قائم کي۔

نماز جمعہ ايک عبادی اور سياسي عمل
تہران ميں نماز جمعہ کا قائم کیا جانا ايک مبارک قدم تھا، اِس کے بعد يہ نماز جمعہ دوسرے چھوٹے بڑے شہروں ميں معنويت و روحانيت کا مرکز بن کر اُبھري اور استقامت و پامردی کی درسگاہ بن گئی۔ نمازِ جمعہ کے لئے عبادی اور سياسي عمل کا عنوان سب سے پہلے حضرت امام خميني کي زبانِ مبارک سے استعمال کیا گيا۔ اِس کے معنيٰ يہي ہیں کہ نمازِ جمعہ، مرکز ِ عبادت ہے، عوام کو تقويٰ و پاکدامني کا درس دینے کے ساتھ ہی ديني احکام و تعليمات کا سرچشمہ بھی ہے۔ روحاني، معنوي اور سياسي شعور پیدا کرنے کا مرکز بھی ہے۔ يہ عمل دراصل ايک قوم کو لغزش، کج روی اور گمراہی سے محفوظ رہنے اور دشمن کے سامنے سرتسليم خم نہ کرنے کا درس دیتی ہے۔

لا علمي اور غفلت، قوموں کي شکست کے بنيادي اسباب
آپ سياسي ميدان ميں جن قوموں کي شکست کے مناظر ديکھتے ہيں ان کی شکست اور ناکاميوں کا سبب ان کی غفلت و لاعلمی ہوتی ہے جس کے نتیجےمیں اُن قوموں پر مختلف زاویوں سے ضربيں لگتی ہيں۔ آگاہي اور بیداری، ايک قوم کو اِن ضربوں اور حملوں سے نجات ديتی ہے اور ثبات قدم عطا کرتی ہے۔ لہذا نمازِ جمعہ روحاني مرکز بھي ہے اور سياسي اجتماع بھي ہے۔ عوام کو چاہيے کہ اِس نماز کي اہميت اور قدر و قيمت کو پہچانيں، خاص طور پر نوجوان اور علما حضرات کيونکہ نماز جمعہ ايک ايسا پلیٹ فارم ہے کہ جس کا کوئي نعم البدل نہیں ہے۔ آپ کوچاہيے کہ آپ ايسا کا م انجام ديں جس سے نماز جمعہ کي کشش و جاذبيت نوجوانوں، پاکيزہ دلوں اور مشتاق افراد کو اپنی جانب متوجہ کرے اور عبادت و سياست کا يہ مرکز ہميشہ آباد نظر آئے۔

اسلامي جمہوريہ ايران پر حملے کے مقاصد
ايک اور نکتے کو آپ نماز گذاروں کي خدمت ميں عرض کروں کہ جسے ميں بعد ميں بيان کيے جانے والے اپنے اصلي نکتہ کا مقدمہ قرار دے رہا ہو ں اور وہ ''ہفتہ دفاع‘‘ ہے کہ جو چند ہی دنوں میں منايا جائے گا۔ ١٩٨� ميں اسلامي جمہوريہ ايران کے خلاف لڑي جانے والي جنگ کي شروعات اگر چہ عقل و شعور سے عاري صدام نے کي تھيں ليکن اِس کے پيچھے اسلامي انقلاب اور اسلامي تحريک کو زمين بوس کرنے اور اُسے نابود کرنے کيلئے عالمي استکبار کي پوري جماعت سر گرم عمل تھي۔

اسلامي انقلاب کے حيات بخش اثرات
مغربي ممالک کے سياستدانوں نے تجزيہ و تحليل کي اور اس نتیجے پر پہنچے اور بالکل صحيح پہنچے کہ يہ انقلاب ايسا نہيں ہے کہ جس نے صرف ايران ميں ايک مقتدر حکومت کو نابود کر ديا ہے اور اِس عظيم اور قدرتي ذرائع سے مالا مال ملک کو استکباري پنجوں سے نجات دلا دي ہے بلکہ يہ انقلاب در حقيقت دوسروں کو آگاہي اور شعور عطا کرے گا، دنيائے اسلام ميں ايک نئي روح پھونک دے گا اوراقوام عالم کے خوابيدہ ضميروں کو بيدار کر دے گا اور ايسا ہي ہوا۔ فلسطين ميں انتفاضہ نے جنم ليا، شمالي افريقہ کے ممالک ميں بيداري کي ايک نئي روح پیدا ہوئي اور پوري ملتِ اسلاميہ ميں ايک جوش و خروش پيدا ہوا اور اسلامي اور مذہبي تشخص کو دوبارہ حاصل کرنے کا جذبہ بيدار ہوا جو آج تک مسلسل مضبوط اور مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ اُنہوں نے يہ بات اچھي طرح سمجھ لي تھي کہ ايران کا اسلامي انقلاب، اقوام عالم کيلئے بيداري اور جوش و جذبہ بيدار کرنے کا مرکز بن جا ئے گا اس لئے اُنہوں نے يہ فيصلہ کيا کہ اسلامي جمہوريہ کو ہر صورت ميں صفحہ ہستي سے نابود کر ديا جائے۔

اسلامي جمہوريہ ايران کے خلاف صدام اور استکباري طا قتوں کے عزائم
يہ خطّہ اپنے جغرافيائي محل وقوع اور سوق الجیشی اہمیت کے لحاظ سے اور ساتھ ہی تيل کي دولت سے مالامال ہو نے کي بنا پر بہت اہميت کا حامل ہے۔ مغربي سياستداں اور حکومتيں تيل اور مشرق وسطيٰ کو بہت زيادہ اہميت ديتي ہيں اور يہاں کا امن و امان اُن کيلئے زندگي اور موت کا مسئلہ ہے، انہیں چیزوں کی وجہ سے وہ واردِ ميدان ہوئیں، صدام کي مدد کي اور اُسے ہر قسم کے جديد اسلحے سے ليس کيا بلکہ اُس کي بھر پور پشت پناہي کي کہ وہ جنگ کا آغاز کرے۔ صدام نے بھي اقتدار کی ہوس اور عالمي استکبار کي نيت سے ناواقفیت اور اپنی حماقت کي بنا پر يہ خيال کیا کہ وہ آئے گا اور دو تين روز يا چند ہفتوں ميں سارا قصّہ تمام کر دےگا اور ايرا ن کي اينٹ سے اينٹ بجاکر دوبارہ بغداد لوٹ جا ئےگا۔ اس طرح صدام سميت يہ تمام طاقتيں جنگ ميں کود پڑيں۔

اسلامي نظام کو صفحہ ہستي سے مٹانے کيلئے استکبار کي سازشيں
اِس دوران ايران نے دنيا کي تمام بڑي طاقتوں کي جانب سے ہر قسم کے دباؤ کو اِس جنگ کي صورت ميں آٹھ سال تک برداشت کيا، بذاتِ خود يہ بات بہت اہميت کی حامل ہے۔ سابق سويت يونين نے بھي اِسي راستے سے ايران پر دباو ڈالا، امريکا نے بھي يہي چينل استعمال کرتے ہوئے ايران پر پابندياں لگائيں، يورپ اور نيٹو نے بھي ہم کو جھکانے کيلئے ہر ممکن طريقہ استعمال کيا، ساتھ ہي اِس خطے کي کوتاہ فکر اور اسلامي انقلاب سے خوفزدہ حکومتوں نے بھي انواع واقسام کے ہتھکنڈوں کے ذريعہ ہمارے نوتشکیل یافتہ اسلامي نظام اور اسلامي جمہوريہ کو صفحہ ہستي سے مٹانے کي پوري کوشش کي۔ اِن آٹھ برسوں ميں ايران کے خلاف استعمال کيے جانے والے ہتھکنڈے، سازش، دباو اور پابندي دنيا کے کسی بھی انقلا ب اور حکومت کو جھکانے اور اُس کا شيرازہ بکھيرنے کيلئے کافي تھي، ليکن اِن تمام سازشوں، ہتھکنڈوں، پابنديوں اور سياسي اور اقتصادي دباو اور بائيکاٹ نے نہ صرف يہ کہ ايران کا بال بيکا نہيں کيا بلکہ ايراني عوام کوپہلے سے زيادہ مضبوط، آگاہ و ہوشيار اور اُس کے عزم و ارادے کو راسخ و پختہ کر ديا۔ نيز اسلامي جمہوريہ کو روز بروز اسلامي طاقت و قدرت کي طر ف پيشقدمي کرنے ميں مدد ملي۔ يہ سب ميدانِ دفاع ميں ثابت قدمي اور استقامت کا نتيجہ ہے۔

صدام کي شکست کے بعد امريکا کا نيا منصوبہ
اِسي آٹھ سالہ دفاع ميں مد مقابل دشمن پر کاري ضربيں بھي لگيں اور يہي وہ مقام ہے کہ جہاں صدام اور اُس کي بعثي حکومت کو منہ کي کھا ني پڑي۔ يہي وجہ ہے کہ اِس ذلت و ہزيمت کے بعد امريکا کو يہ فکر لاحق ہوئي کہ وہ صدام کي بساط لپيٹ دے۔ يعني جب اُنہوں نے يہ ديکھا کہ صدامي حکومت ''دور کے ڈھول سہانے‘‘ کا مصداق ہے اور عوام ميں اُس کي جڑيں مضبوط نہيں ہيں تو اُنہوں نے اُسے نابود کرنے کي ٹھان لي۔ اِس تمام ماجرا کي حقيقت تو يہ ہے کہ ايراني عوام اور اسلامي نظام نے سب سے زيادہ کاري ضرب اِس ظالم و جارح پر لگائی کہ جس کا آخري نتيجہ آپ نے اپني آنکھوں سے خود ديکھا جبکہ اسلامي جمہوريہ روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گيا۔

سخت اور کٹھن حالات ميں اسلامي جمہوريہ کي ترقي!
اب صورتحال يہ ہے کہ آپ کو اقتصادي بائيکاٹ، محاصرے اور دھمکيوں کي گدڑ بھبکيوں سے ڈرا رہے ہيں۔ حقيقت تو يہ ہے کہ اِن محاصروں، پابندیوں اور سياسي دباو سے زيادہ بد تر، شديد اور سخت و کٹھن صورتحال جنگ کے دوران تھي، اُنہي تمام محاصروں اور دباو ميں رہتے ہوئے ہماري فوج خالي ہاتھ آج اِس مقام تک پہنچي ہے اور آج ہم فوجي طاقت و قدرت کے لحاظ سے اِس خطے ميں سب سے آگے ہيں۔ اسلامي جمہوريہ نے اپني مدد آپ کے تحت، اپني قدرت و توانائي اور تخليقي صلاحيتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپني محنت و لگن کے ذريعہ تمام قدرت و توانائي کو حاصل کيا اور اِس نے اپني محيّر العقول پيش رفت سے اہل دنيا کي آنکھوں کو خيرہ کر ديا۔ سائنس و ٹيکنالوجي کے مختلف شعبوں ميں کي جانے والي ترقي کي اہميت و افاديت اپني جگہ ہے ليکن اِس کی ايک واضح اور نمایاں مثال ايٹمي تونائي کا حصول ہے کہ يہ سب ترقي و پيش رفت تمام تر سياسي دباؤ اور اقتصادي بائيکاٹ کے زمانے ميں ہم نے حاصل کي ہے۔ اِن اقتصادي محاصروں نے نہ صرف يہ کہ ايران پرکوئي اثر نہيں کيا بلکہ اُس کے برعکس اُس کي اندروني صلاحيتوں کو پروان چڑھانے ميں مدد دي۔

اسلامي انقلاب کے ہاتھوں امريکا اور اُس کے حواريوں کي ہزيمت!
اب ميں آپ کي خدمت ميں وہ اصلي نکتہ مختصرالفاظ ميں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ يہ ہے کہ عالمي استکبار کا ايک منصوبہ جو ''اسلامي انقلاب کي سرکوبي اور شکست ‘‘سے عبارت تھا، اِس خطے ميں شديد ترين شکست سے دوچار ہو گيا ہے اور اِس کے برعکس اسلامي انقلاب پر حملہ آور طاقتيں حتيٰ امريکا جيسي بڑي حکومتيں بھي اپني شکست اور عالمي سياست ميں اپني تنہائي و ہزيمت سے قريب ہو رہي ہيں۔
آج ہم اِس خطے ميں امريکي سياست اور منصوبوں کي شکست کي علامتوں اور نشانيوں کو واضح طور سے ديکھ رہے ہيں۔ يہ ہماري قوم، نوجوان نسل اور تجزيہ و تحليل کرنے والے دانشوروں کيلئے بہت زيادہ اہم بات ہے کہ جس پر اُنہيں تدبر اور غور و فکر کرنا چاہيے؛ يعني ايماني قوت اور معنويت و روحانيت پر بھروسہ کرنے والي عوامي طاقت کا مادي اسباب و وسائل اور ظلم و زيادتي پر تکيہ کرنے والي قدرت کے مد مقابل آ جانا دراصل ايک بہت اہم اور نئي بحث ہے کہ جسے عمرانیات، قوموں کي نفسيات اور اُن کے اجتماعي کردار کي مباحث ميں زيرغور لانا چاہيے۔ يہ قوموں کي سماجی زندگی اور معاشرتي نفسيات کا وہ پہلو ہے کہ جس پر آج بھي پردہ پڑا ہوا ہے اور دنيا اِس سے غافل ہے۔ ہماري قوم کہ جس کے پاس نہ ايٹم بم ہے اور نہ ہي گذشتہ سو سالوں ميں اُسے يہ موقع ديا گيا کہ وہ دنيا کے علمي قافلے کے ساتھ ساتھ ہم قدم ہوکر چل سکے بلکہ جسے عمداً پسماندگي ميں رکھا گيا۔ نيز يہ قوم، مادي ثروت و دولت کے لحاظ سے بھي اِن بڑي طاقتوں تک نہيں پہنچ سکتي ليکن اِن سب کے باوجود اِس ملک و ملت نے اسلحہ و ٹيکنالوجي، مادي ثروت و دولت اور ميڈيا سے ليس بڑي بڑي طاقتوں کو زندگي کے مختلف ميدانوں ميں عقب نشيني کرنے پر مجبور اور اُنہيں شکست سے دوچار کر ديا ہے۔ آخر اِس کي کيا وجہ ہے؟ خود اِس بات پر غور و فکر اور تدبر ہونا چاہيے، سياسي اور سماجی علوم کے ماہرين اِس بات پر تحقيق کريں اور ديکھيں کہ اِس مقام پر ايمان کي طاقت، روحانيت کي قدرت اور خدائے وحدہ لا شريک کي ذات پر توکل کا کيا کردار ہے کہ جس نے عصر حاضر ميں ايران ميں کھل کر جلوہ افروزی کی ہے؟ چنانچہ اِس حقيقت پر نظر ڈالنا دراصل باعث عبرت اور درس ہے، اِس لئے کہ يہ امريکا جيسي استکباري اور طاغوتي حکومت کي شکست کا معاملہ ہے۔ ہم نہيں چاہتے کہ کھوکھلے دعوے کريں؛ نہيں، يہ وہ حقائق ہيں کہ جس کا وہ خود بھي اپني زبان سے اعتراف کرتے ہيں۔

نئے مشرق وسطيٰ کي تعميرکے امريکي منصوبوں ميں تيزي اور عراق پر حملہ!
امريکيوں نے ١١ ستمبر کے واقعہ کو جواز بناتے ہوئے اپنے لئے يہ بہانہ فراہم کيا کہ وہ مشرق وسطيٰ ميں اپنے مادي مفادات اور خواہشات کو عملي جامہ پہنائيں۔ اُن کا اصلي مقصد ''اسرائيلي مفادات ‘‘ کو استحکام بخشنے اور اُنہيں محفوظ بنانے والے نئے مشرق وسطيٰ کا قيام تھا۔ يعني ''اسرائيلي دارالحکومت‘‘ پر مرکوز''نئے مشرق وسطيٰ‘‘ کو دنيا کے نقشے پر وجود ميں لانا۔ يہ تھا اُن کا مطمح نظر۔ عراق پر حملہ اور اُس پر قبضہ بھي اِسي منصوبے کا حصہ تھا۔ عراق، عرب ممالک اور اِس خطے ميں سب سے زيادہ ثروت مندترين ممالک ميں سے ايک ملک ہے۔ افسوس ہے کہ اِسي ملک کے عوام آج نہايت غربت و افلاس ميں زندگي بسر کر رہے ہيں۔ امريکيوں کي خواہش تھي کہ اِس ملک کو اپني مٹھي ميں لے ليں۔ چنانچہ اِس کام کيلئے صدام نہ تو موزوں تھا اور نہ ہي حالات سازگار تھے۔ امريکي چاہتے تھے کہ وہاں ايسي حکومت بر سر اقتدار لے آئيں کہ جو''ظاہراً عوام کي منتخب کردہ جمہوري حکومت ‘‘بھي ہو اور (بباطن) اُن کي'' مکمل گرفت‘‘ ميں بھي ہو۔ يہ اسرائيلي مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے نئے مشرق وسطيٰ کو وجود ميں لانے کا ايک نہايت اہم اور بنیادی قدم تھا۔ اِن حالات ميں ''اسرائيلي محوريت پر قائم ہو نے والے نئے مشرق وسطيٰ‘‘ کا وجود''اسلامي جمہوريہ ايران ‘‘کا محاصرہ کر کے اُس کي فعاليت کا دائرہ کا ر تنگ کر ديتا، يہ تھا اُ ن کا ہدف!

فلسطين ميں حماس کے ہاتھوں امريکي منصوبے کي نا کامي!
اب آپ اِس منصبوبے کے ايک ايک حصے پر غور و فکر کيجئے؛ فلسطين ميں بھي يہ منصوبہ ناکام ہوا، فلسطين تو اِس منصوبے کا اصلي اور بنيا دي محور ومرکز تھا۔ يہ نقشہ وہاں شکست سے دوچار کيوں ہوا؟ اِس کي بنيادي وجہ يہ ہے کہ فلسطين ميں ''حماس‘‘ نامي گروہ اسرائيل کا جاني دشمن اور اُس کے مقابلے ميں استقامت و ثابت قدمي کي ايک زندہ علامت ہے، اِس گروہ نے ايک عوامي حکومت تشکيل دي اور اُسے بر سراقتدار پہنچايا۔ امريکا و اسرائيل کي اِس سے بھي بڑھ کر اور کيا شکست و ہزيمت ہو سکتي ہے؟! جب سے فلسطين ميں يہ حکومت بر سراقتدار آئي ہے امريکا اور اسرائيل مسلسل پيمان شکني اور اُس کي مخالفت کر رہے ہيں تاکہ اُسے ميدانِ عمل سے خارج کر ديں ليکن يہ طاقتيں آج تک کامياب نہيں ہوئی ہيں۔ افسوسناک بات يہ ہے کہ اِنہوں نے اپنے مذموم مقاصد ميں کاميابي اور فلسطيني حکومت کي شکست و ناکامي کيلئے فلسطيني باشندوں سے بھي مدد لي ہے؛ الحمد للہ اِنہيں آج تک کاميابي نصيب نہيں ہوئي ہے اور ہميں اُميد ہے کہ اِس کے بعد بھي شکست و ناکامي اِن کامقدر بنی رہےگي(اِن شاء اللہ)۔

لبنان ميں حزبُ اللہ کے ہاتھوں اسرائيل کي تاريخي شکست و ذلت!
امريکي حکومت کے منصوبوں کا ايک حصہ، صہيوني حکومت کي تقويت ہے، جو شکست سے دوچار ہوا اور امريکيوں کو اِس معاملے ميں بھي ذلت و رسوائي کا سامنا کرنا پڑا۔ يہ ذلت و رسوائي اور شکست کيسے اِن کا مقدر بني؟ گذشتہ سال جولائي کے اواخر ميں اسرائيل کي مضبوط و مستحکم فوج اپنے تمام تر ساز و سامان اور فوجي اسلحہ اور ساز و سامان کے ساتھ لبنان کے خلاف جنگ کيلئے کود پڑي، اسرائيل کيلئے يہ دعويٰ کيا جاتا تھا کہ وہ اِس خطہ کي مضبوط ترين فوجي طاقت ہے۔ اسرائيل کي يہ جنگ کسي ايک ملک و حکومت کے ساتھ نہيں تھي بلکہ اس جنگ ميں اُس کا سامنا ''اسلامي مزاحمتی تحریک حزبُ اللہ‘‘کے چند ہزار سپاہيوں پر مشتمل ايک منظم گروہ سے تھا۔ ٣٣ روز تک یہ جنگ جاری رہی کہ جس کي اِس خطہ ميں کوئي مثال نہيں ملتي۔ اسرائيل اور عربوں کے درميان کئي جنگيں لڑي گئي ہيں جو چند دنوں اور زيادہ سے زيادہ دو ہفتوں سے آگے نہيں بڑھيں، ليکن يہ جنگ ٣٣ ايام پر مشتمل تھي جو اسرائيل کي کامل شکست اور اسرائيلي فوج کي تاريخي ذلت و رسوائي پر اختتام پذير ہوئي۔ کون اِس شکست کا گمان بھي کر سکتا تھا؟ امريکيوں نے تو خوابوں ميں بھي يہ منظر نہيں ديکھا ہوگا ليکن يہ حقيقت ظہور پذير ہو کر رہي۔ يہ تھي ايک بڑی ذلت و رسوائي اور شکست و ناکامي ۔ اِن کي خواہش تھي کہ لبنان ميں اِس جنگ اور لبنان کي داخلي سياست ميں دباو ڈال کر حزبُ اللہ سے اسلحہ چھين ليں گے ليکن حزبُ اللہ نے نہ صرف اپنا اسلحہ زمين پر نہ رکھا بلکہ اتني زيادہ مضبوط و مستحکم ہو گئي کہ اُس نے اسرائيلي فوج کے ايک افسانوي بہادري اور طاقت و غرورکے نشے کو خاک ميں ملا کر اُسے تاريخي شکست سے دوچار کر ديا۔
بنابریں امريکي حکومت کے منصوبے فلسطين ميں بھي شکست سے دو چار ہوئے اور اسرائيل کي جعلي اور نا جائز صہيوني حکومت کے معاملے ميں بھي اُنہيں ناکامي کا منہ ديکھنا پڑا، نيز فلسطين کي مدد کرنے والے جواں عزم لبناني نوجوانوں کي سرگرمیوں کو روکنے ميں بھي ذلت اِن کا مقدر بني اور عراق ميں بھي اِن کے منصبوبے مسلسل شکست سے دو چار ہوکر اِن کي ناکامي اور خام خيالي کا کھلے عام مذاق اڑا رہے ہيں۔

عراق کے سياسي دلدل ميں امريکا کي زور آزمائی!
عراق ميں آکر وہ سب سے پہلے اُس پر قابض ہوئے اور اپني فوجي فتح کے جھنڈے گاڑے، يہ اُن کا پہلا قدم تھا اور اُن کے منصوبے کا آسان مر حلہ تھا، آج عراق پر امريکي اور اُس کے اتحادیوں کے قبضے کو چار سال سے زيادہ ہو رہے ہيں مگر يہ پوري دنيا کا متفقہ فيصلہ ہے کہ امريکا، عراق ميں اپني شکست کے دلدل ميں پھنس کر رہ گيا ہے اور اُسے زبردست ناکامي کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنيا کے تجزيہ و تحليل کرنے والے ادارے اور شخصيات يہ بات اچھي طرح جانتے ہيں کہ آج امريکا کھسيانے انداز ميں ايک ايسے راستے کي تلاش ميں ہے کہ جس کے ذريعہ وہ عزت بچاکر عراق سے نکل جائے، اِس لئے کہ سب جانتے ہيں کہ امريکا، عراق کيلئے تيار کي ہوئي اپني ہي دلدل ميں پھنس گيا ہے۔ يہ تھا امريکيوں کا ہدف کہ جس کے ذريعہ وہ ايک کٹھ پُتلي حکومت کو وجود ميں لانا چاہتے تھے۔ عراقي عوام نے اپنے ملک کيلئے جس حکومت کا انتخاب کيا ہے وہ امريکي حکومت کے اہداف سے بہت زيادہ فاصلہ رکھتي ہے، جو امريکيوں سے مقابلے ميں استقامت دکھاتي ہے، اُن کي غلام اور پٹھوحکومت نہيں ہے اور نہ ہي اُن کی خواہشات کے سامنے سرتسليم خم کرتي ہے۔ امريکيوں نے ايڑي چوٹی کا زور لگا ديا کہ کسي طرح اِس عوامي حکومت کو نابود کر ديں اور اُس کي جگہ اپني پسنديدہ حکومت لے آئيں، ليکن وہ آج تک اپنے مقاصد ميں کامياب نہيں ہو پائے۔ اگر عراقي قوم اپني بيداري اور ہو شياري کي حفاظت کرے توامريکي اِس کے بعد بھي کامياب نہيں ہو سکتے۔

گذشتہ پانچ سالوں ميں اسلامي انقلاب کي پيشقدمي اور ترقي!
اسلامي جمہوريہ ايران اور اُس کے اسلامي نظام کو کمزور بنانے اور اُس کا محاصرہ کرنے کي امريکي سازش نہ صرف يہ کہ ناکام ہو گئي بلکہ اُس کا نتيجہ برعکس نکلا۔ ايراني قوم کي ہمت و حوصلے اور خداوند عالم کي توفيق و نصرت سے ہم نے مسلسل ترقي اور پيش رفت کي منزلیں طے کيں اور بلندي کي طرف اپنا سفر جاري رکھا ہے۔ آج سے چار پانچ سال قبل سياسي ميدان ميں ہمارے خلاف امريکيوں نے اپنی جس مہم کا آغاز کيا تھا ہم سياسي حالات و تغیرات کے لحاظ سے اُس کی پہنچ سے بہت آگے جا چکے ہيں۔ ہم نے علمي ميدان ميں بھي بڑے بڑے مقامات حاصل کيے ہيں، مالي وسائل اور مادي ذرائع کے لحاظ سے بھي ہم نے اِن چار پانچ برسوں ميں اُن سے زيادہ ترقي کي ہے اور ہمار ي قوم جوش و جذبے اور ذہني آمادگي کے لحاظ سے بھي اُن سے زيادہ آگے ہے۔ ہمارے عوام انقلابي اقدار اور حضرت امام خميني کے دئے ہوئے اُصولوں کي حاکميت ميں ماضي کي نسبت بہت آگے جا چکے ہیں۔

گذشتہ پانچ سالوں ميں امريکي ذلت و رُسوائي ميں اضافہ
اِن گذشتہ چار پانچ سالوں ميں اُنہوں نے ہماري قوم کے خلاف جتني کوششيں کيں وہ نقش بر آب ثابت ہوئيں اور نتيجہ ايراني قوم کے پہلے سے زيادہ ہوشياري، آگاہي، جوش و جذبے اور سياسي مسائل ميں ہمارے فہم و فراست میں اضافے کي شکل ميں نکلا اور کوئي ايسا مسئلہ نہيں کہ جس ميں ہماري قوم نے خاموشي اختيار کي ہو جبکہ حالت تو يہ ہے کہ دنيا ميں سکہ اُن کا چلتا ہے۔ اِس ترقي و پيش رفت اور روز افزوں عزت و سر بلندي کے نتيجے ميں ''امريکا بہادر‘‘ کو کيا ملا؟ صرف اپنے اہداف کو عملي جامہ پہنانے ميں مکمل شکست! آج امريکي حکومت و سياستداں، امت مسلمہ کي طرف سے کيے جانے والے سوالات کي زد میں ہيں اور اُن سے اُن کے افعال و سياست کے بارے ميں وضاحت طلب کي جا رہي ہے۔ آج امريکا دنيائے اسلام کي نظروں ميں قيدي اور مجرم کي حيثيت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ دنيائے اسلام کے گوشہ و کنار سے سامنے آنے والی آراء و نظريات اور رپورٹيں امت مسلمہ کے درميان امریکہ کے خلاف روز بروز بڑھنے والي نفرت و دشمني کي عکاسي کرتي ہيں!

عراق پر قابض امريکيوں سے چند اہم سوالات!
مجھے کامل يقين ہے کہ ايک دن ايسا بھي آئے گا کہ جب امريکا کا موجودہ صدر اور ديگر اعليٰ عہديدار و حکام عراق ميں قتل عام اور بربريت کے جرم ميں ايک بين الاقوامي عدالت کے کٹہرے ميں مجرم کي حيثيت سے کھڑے کيے جائيں گے۔ اِن کا گريبان پکڑ کر انہیں گھسيٹا جائےگا اور اُن پر انساني خون کو بے وقعت سمجھنے اور مسلمان خون کي ہولي کھيلنے کامقدمہ چلے گا۔ امريکيوں کو جواب دينا چاہئے کہ آخر کيا وجہ ہے کہ وہ عراق سے اپنا قبضہ ختم نہيں کر رہے ہيں؟ اُنہيں جوابدہ ہونا چاہيے کہ عراق ميں بدامني اور دہشت گردي کا طوفان کيوں اٹھا ہوا ہے؟ عراق ميں ہونے والي دہشت گردي دراصل امريکي لے کر آئے ہيں کہ جسے ايک سازش کے تحت عراق پر تھوپا جا رہا ہے۔ کیا امريکيوں کے پاس اِس بات کا کوئي جواب ہے کہ اِس ثروت مند ملک کي پچاس فيصد آبادي بے روزگار او ر ملازمت سے محروم کیوں ہے؟ آج يہ ملک اپني عوام کو زندگي کي بنيادي سہوليات بھي دينے سے قاصر ہے؟! بجلي کي شديد قلت نے عراقي عوام کي زندگي اجيرن بنا دي ہے، تيل کي کمي اور اُس کي نامنظم ترسيل نے اُن کي اقتصادي کمر توڑ کر رکھ دي ہے، پينے کا صاف ستھرا پاني اُنہيں صحيح طرح ميسر نہيں! اسکول تباہ و برباد اور يونيورسٹياں ويران ہيں۔ امريکي حکومت کے عراق پر قبضے کے بعد نہ تو وہاں کوئي نيا اسکول تعمير کيا گيا ہے اور نہ ہي ہسپتالوں کي حالت بہتر ہوئي ہے، اِن حالات ميں بيمار ہونے والے عراقيوں کو ہسپتالوں کي اشد ضرورت ہے؛ عراق کو صدام کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کا نعرہ لگانے والے امريکيوں نے قابض ہوکر کون سا نيا ہسپتال تعمير کر ديا؟ کون سي يونيورسٹي کا سنگ بنياد رکھا یا کس کي حالت بہتر کي؟ کون سے راستوں، سڑکوں اور ہائي وے کو صحيح کيا ؟ کون سي نئي پائپ لائن ڈالي يا صاف پاني گھر گھر پہنچانے کا کون سا خاطر خواہ انتظام کيا؟ اِن کا کوئي مدلل اور اطمینان بخش جواب ہونا چاہيے جو امريکيوں کے پاس نہيں ہے! اُنہيں ہر صورت ميں جوابدہ ہونا چاہيے اور وہ ذمہ داريوں سے اِس طرح اپنا دامن بچا نہیں سکتے۔ ممکن ہے کہ وہ چند دنوں تک ان مسائل کي جوابدہي ميں ٹال مٹول سے کام ليں مگر وہ ہميشہ ايسا نہيں کر سکتے۔

ظلم و ظالم کي بساط لپيٹي جائےگي!
دنيا کے عوام اِن کا گريبان ضرور پکڑيں گے جيسا کہ دنيا کے کئي بڑے اور عالمي مجرموں کا گريبان پکڑا جا چکا ہے اور اُن کي تعداد کم نہيں ہے! ايک دن ہٹلر کا مواخذہ کيا گيا تھا، ايک وقت ايسا بھي آيا کہ صدام کے برسوں پر محيط ظلم و ستم اور آمريت کي بساط لپيٹي گئي اور اُسے تختہ دار پر لٹکا يا گيا اور بہت سے يورپي سربراہانِ مملکت کے منحوس وجود سے زمين کو پاک کيا گيا! اقوام عالم، ظلم و ستم اور من ماني کے اِس طرزِ حکمراني کي مخالف ہيں؛ خود امريکي عوام اِس کي مخالفت کرتي ہے، خود بر طانوي عوام نے عراق ميں بر طانوي فوجوں کي موجودگي پر اپني نا راضگي اور غم و غصہ کا اظہار کيا ہے کہ جس کي وجہ سے برطانوي حکومت نے اپني افواج کو بصرہ سے خارج کر ديا؛ اِسي طرح اسپين اور اٹلي کے عوام نے بھي عراق جنگ ميں اپني حکومت کي امريکي امداد پر اپني اپني حکومتوں کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکال دیا اور اپنے لئے ايک نئي حکومت کا انتخاب کيا! دنيا کے عوام اِس تمام صورتحال سے نالاں اور نا راض ہيں، دنيا ميں اقوام عالم کے ارادوں اور فيصلوں کا سکہ چلتا ہے۔ اقتدار کے بھوکے اور ظالم و ستمگر افراد کے ظلم و بربريت کا سورج زيادہ دير قائم نہيں رہ سکتا۔ يہي وجہ ہے کہ امريکا شکست سے دوچار ہوا ہے؛ چند سال قبل اِس خطہ ميں چلائي جانے والي تحريک کا مقصد نئے مشرق وسطيٰ کا قيام تھا اور ہماری نظر ميں اِس کا اصل نشانہ اسلامي جمہوريہ تھا، نہ يہ لوگ مشرق وسطيٰ کا کنٹرول سنبھال سکے اور نہ ہي اسلامي جمہوريہ ايران کا بال بيکا کر سکے اور اِن کے ہاتھوں سے نکلنے والي عراقي باگ ڈور کي صورتحال کا تو آپ اپني آنکھوں سے خود مشاہدہ کر رہے ہيں۔

اپني سياسي ساکھ بحال کرنے کيلئے ميڈيا کے جھوٹے پروپيگنڈے کا سہارا
آج امريکي شديد ترين مشکلات کا شکار ہيں، اپني اِس شکست و ہزيمت کو چھپانے اور اپني سياسي ساکھ بحال کرنے کيلئے ميڈيا اور ذرائع ابلاغ کے جھوٹے پروپيگنڈے کا سہارا لينا اور اقوام عالم کے نزديک اپنے منفور ترين چہرے پر سياسي ملمع چڑھانا اِن کيلئے کوئي نئي بات نہيں ہے اور نہ ہي اِس کو کوئي اہميت دیتا ہے! '' کھسياني بلي کھمبا نوچے‘‘ کا مصداق بن کر اب اگر ايران يا کسي اور ملک پر الزام تراشي کريں تو اِس کا کوئی فائد ہونے والا نہیں ہے۔ سچائي تو يہ ہے کہ خود اِ ن کي رپورٹوں ميں اِن کی ناتوانی و کمزوري، بے چارگي اور دلدل ميں مسلسل دھنسنے والے قدموں کا ذکر آشکارا طور پرموجود ہے!

عراق، امريکي اسلحہ کي فروخت کا ايک بازار بن گيا ہے!
عراق ميں امريکا کي انہي سياسي اور فوجي شخصيات نے امريکا ميں ہونے والي کانفرنس ميں جب عراقي جنگ کي رپورٹ پيش کي توجس چيز کو اُنہوں نے نتيجہ کے طور پر پيش کيا وہ يہ تھي کہ''عراق اب امريکي اسلحے کی فروخت کا ايک بازار بن چکاہے! ‘‘ وائے ہو تم لوگوں پر! ايک ملک پر قابض ہوئے، اُس کي قوم کي اِس بري طرح تذليل و اہانت کي، اُس کا استحصال کيا، اُن کے ذخائر ہڑپے، تم وہ ہو کہ جنہوں نے خود اپني قوم سے جھوٹ بولا کہ ہمارا مقصد دہشت گردي کا خاتمہ اور بڑے پيمانے پر تباہي پھيلانے والے ہتھياروں کي نابودي ہے ليکن اب تمہاري اِس تمام تگ و دو کا نتيجہ يہ نکلا کہ آج عراق ميں امريکي اسلحہ فرخت کيا جا رہا ہے! يہ سب تمہاري کمزوري و ضعف اور ذہني پستي کي علامت ہے اور یہ اِس بات کي عکاسي کرتا ہے کہ تم لوگ حقيقت ميں نا کام ہو گئے ہو!
ميرے محترم بھائيو اور بہنو!اپني اور اِس راہ کي قدر و قيمت کو جانيے، اِس صراط مستقيم کي قدر و قيمت کو پہچانيے کہ جس نے آپ کو قدرتمند بنايا اور آپ کوعز ت دي۔ آپ کے دشمن کو آپ کے سامنے حقير اور چھوٹا کر ديا؛ يہ خدا کا راستہ، خدا کے انبياء کا راستہ اور حاکميتِ اسلام کا راستہ ہے۔
آخري نکتہ يہ ہے کہ اِ س ماہ کے آخري جمعہ کو يوم القدس ہے اور اِس بات کا امکان ہے کہ يہ يوم القدس ايک ہفتہ پہلے منايا جائے تا کہ بہت سے ممالک (رويت ہلال کے باعث چاند کي تاريخوں کے اختلاف کے باوجود) ايک مشترکہ يوم القدس ميں شرکت کر سکيں۔ آپ کو چاہئے کہ يوم القدس کو فراموش نہ کريں۔ ان شاء اللہ ہم سب اِس ماہ کے سنہری لمحات سے حد اکثر استفادہ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

بسم اللہ الرحمن الرحيم
اذا جآء نصرُ اللہ و الفتح و رآيتَ الناس يد خلون في دين اللہ افواجاً فسبح بحمد ربک و استغفرہ اِنہ کان توّاباً