قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ انتہائی حساس حالات میں حکام اور سیاستدانوں کے دوش پر عائد سنگین ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے تمام طبقات اور خاص طور پر نوجوان نسل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرا پیغام ہے کہ کسی بھی طرح کی بے حرمتی، غیر اخلاقی اور توہین آمیز اقدام خلاف شریعت فعل، سیاسی شعور کے منافی اقدام اور اسلامی جمہوریہ پر ضرب ہے جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے۔
ایران میں ماہرین کی کونسل ایک اہم منتخب ادارہ ہے جس کے ارکان عوام کے ذریعے آٹھ سالہ دور کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کونسل کو قائد انقلاب اسلامی کے منصوب یا معزول کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ کونسل قائد انقلاب اسلامی کی کارکردگی کی نگراں بھی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کونسل کے ارکان کا تشکر کیا اور کونسل کی صدارتی کمیٹی کے انتخاب کے مسئلے میں دشمنوں کی ناکامی کی جانب اشارہ کیا اور آيت اللہ ہاشمی رفسنجانی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمنوں کو توقع تھی کہ ماہرین کونسل کے ارکان میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور خدمت کے جذبے کی جگہ عہدے اور مقام کے حصول کے لئے غیر تعمیری رقابت لے لیگی لیکن کونسل کے ارکان کے اخلاص عمل اور تدبر و دانشمندی کے باعث جو ان کی رفتار و گفتار میں ہمیشہ ہویدا رہتی ہے، یہ معاملہ بفضل الہی اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے حق میں اختتام پذیر ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس قضیئے میں آيت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جناب عالی کا جو تدبر اور احساس ذمہ داری ہمیشہ نظروں کے سامنے رہا اس کی بنا پر ان سے ایسی ہی روش کی توقع تھی۔
قائد انقلاب اسلامی نے آیت اللہ مہدوی کنی کے ماہرین کونسل کے صدر کی حیثیت سے انتخاب کو بالکل بجا انتخاب قرار دیا اور فرمایا کہ ابتدائے انقلاب سے آج تک آپ نے سیاست، ملکی امور، مذہبی تعلیمی شعبے، یونیورسٹی سمیت تمام میدانوں میں نمایاں اور ممتاز شخصیت کی حیثیت سے کردار ادا کیا ہے۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

محترم حاضرین اور قوم کے ماہرین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ برادران عزیز اور محترم حضرات کی زحمتوں پر اظہار تشکر کرتا ہوں جنہوں نے اس جاری نشست میں بھی اور پورے سال کے دوران مختلف کمیشنوں میں بھی خدمات انجام دیں۔ خداوند عالم سے آپ کے لئے یہی دعا کروں گا کہ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے، آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے اور آپ کو ثبات عطا کرے۔
تمام حضرات کا شکریہ ادا کروں گا اور خاص طور پر جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب کا اس بات پر کہ اس اجلاس میں دشمنوں کی معاندانہ توقعات پر پانی پھیر دیا۔ انہی توقع تھی کہ قوم کے ان ماہرین میں اختلاف پیدا ہو جائے۔ یہاں بھی وہی مادی دنیا والی رسہ کشی شروع ہو جائے اور خدمت گزاری میں گوئے سبقت لے جانے کی مساعی عہدوں اور مقامات کے حصول کی غیر تعمیری رقابت میں بدل جائے۔ بحمد اللہ ایسا نہیں ہوا۔ جناب ہاشمی صاحب کی اس فرض شناسی اور فراست کے مد نظر جس کا ہم نے آپ کے ہاں ہمیشہ مشاہدہ کیا، آپ سے یہی توقع بھی تھی۔ آپ حضرات نے جو انتخاب کیا وہ بھی بالکل درست اور بجا انتخاب ہے۔ جناب مہدوی انقلاب کے آغاز سے تا حال اہم اور نمایاں شخصیت کے طور پر پہچانے گئے ہیں مذہبی حلقوں میں بھی، سیاسی حلقوں میں بھی، ملک کے عصری مسائل کے سلسلے میں بھی اور یونیورسٹی اور دینی علوم کے مراکز میں بھی۔ آپ حضرات کے اخلاص عمل، بے لوثی اور شعور و تدبر کی برکت سے جو آپ کی رفتار و گفتار میں عیاں ہے، انشاء اللہ جو چیز عمل میں آئی ہے اسلام و مسلمین کے لئے سبب خیر قرار پائے گی۔ یہی توقع بھی تھی۔
علاقائی مسائل کے پیش نظر ملک کے موجودہ حالات بہت اہم اور حساس ہیں۔ علاقے کے مسائل اس قبیل کے ہیں کہ ان کے پہلو معمول کے مسائل سے کہیں زیادہ وسیع تر ہیں۔ جو کچھ رونما ہو رہا ہے، اس کے بڑے گہرے اور وسیع پہلو ہیں۔ اب یہ کہ دشمن، عالمی موقع پرست عناصر، سامراجی طاقتیں اور مفاد پرست لوگ کیا منصوبہ بنا رہے ہیں اور کیا کرنے والے ہیں؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جو چیز رونما ہو رہی ہے اس کی دو بڑی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ایسی خصوصیات جن کی تمنا اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور دنیا کے گوشہ و کنار سے تعلق رکھنے والے ہر سچے مسلمان اور مفکرین ہمیشہ کرتے رہے۔ یہ دونوں خصوصیات بہت اہم ہیں۔
(ان خصوصیات میں ایک ہے) عوام کی شراکت، جس کا مطلب یہ ہے کہ قومیں بذات خود، بنفس نفیس خود مجاہدت کے میدان میں اتریں اور خطرات کا مقالبہ کریں، بالکل اسی طرح جس طرح ایران میں دیکھا گیا۔ اگر یہ چیز حاصل ہو گئی تو کوئی بھی طاقت ٹک نہیں پائے گی۔ پھر امریکہ وغیرہ ہیچ ہیں۔ اگر پوری دنیا کی طاقتیں متحد ہوکر ایسی قوم کا مقابلہ کرنا چاہیں جو اپنے پورے وجود سے میدان میں اتر پڑی ہے تو وہ مقابلہ نہیں کر سکتیں، ٹک نہیں سکتیں۔ بیشک لوگوں کو ماریں گی، قتل کریں گی، خوںریزی ہوگی لیکن انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جیسا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے (انقلاب کے) ان برسوں میں فرمایا تھا کہ خون، شمشیر کو شکست دے گا، مغلوب کر لےگا۔ یہی ہو رہا ہے۔ عوام الناس بذات خود میدان میں اتر پڑے ہیں، انہوں نے نمائندے نہیں بھیجے، صرف بیان پر اکتفا نہیں کیا۔ وہ بھی کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ کئی ملکوں میں جبکہ بعض دیگر ملکوں میں بھی اس کی زمین ہموار ہو چکی ہے۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے۔ دست قدرت خداوندی کے علاوہ کوئی طاقت یہ صورت حال پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ زمین ہموار ہوتی ہے، لوگ اٹھ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے لیکن دلوں پر حکمرانی دست قدرت الہی کی ہوتی ہے۔ قلب المرء بین اصبعی الرحمن (انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے بیچ ہوتا ہے) وہی ہے جو دلوں کو عزم عطا کرتا ہے، استحکام بخشتا ہے، ارادوں کو منظم کرتا ہے۔ آج یہی ہو رہا ہے۔ ان واقعات میں دست قدرت الہی کے آثار بالکل نمایاں ہیں۔ چونکہ دست قدرت الہی کارفرما ہے اس لئے فتح بھی یقینی ہے۔
ان واقعات کی دوسری خصوصیت اسلامی نعروں کی ہے۔ ان ملکوں میں اور دوسرے بھی ممالک میں عوام الناس مسلمان ہیں، امت اسلامیہ کا جز ہیں۔ حتی ان خطوں میں بھی جہاں اسلامی مظاہر پر روک لگائی جاتی تھی، شدید دباؤ کا عالم تھا، عوام اہل ایمان اور مسلمان ہیں، وہاں اسلام کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ بھی اسلام کا ایک کرشمہ ہے۔ جن ملکوں میں کمیونسٹوں نے ستر سال تک اسلام کا نام و نشان مٹا دینے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کی، وہاں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرتے ہی لوگ باہر نکل پڑے، ان نوجوانوں نے بھی اسلام نواز نعرے لگائے جنہوں نے (ان ملکوں میں) اسلام کا دور کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ یہ دلوں کی گہرائيوں میں پیوست ہو جانے والے اسلام کا کرشمہ ہے۔
اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ البتہ کچھ اور جذبات بھی کارفرما تھے، اب بھی کارفرما ہیں، کسی حد تک لبرلزم کے نظریات، سوشلیسٹ افکار، قومیتی جذبہ وغیرہ بھی ہے لیکن عوام الناس کا مجموعی پیکر اسلامی ہے اور ان کے نعروں میں اسلام کی جھلک ہے۔ خاص طور پر مصر جیسے ممالک میں جہاں اسلام کی جڑیں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں، وہاں قرآن کی حکمرانی ہے، اہلبیت رسول سے عقیدت کا جذبہ حکمفرما ہے۔
بنابریں یہ واقعہ، بڑا حیرت انگیز واقعہ ہے جو رونما ہو رہا ہے۔ یہ واقعہ ہنوز ابتدائی مرحلے میں ہے۔ لہذا اسلامی جمہوریہ ہونے کی حیثیت سے اور یہاں اس نشست میں موجود اسلامی جمہوریہ کے حکام کی حیثیت سے ہماری اور دیگر حکام کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ہمیں اپنے فرائض پر توجہ دینا چاہئے اور اس خاص دور سے سادہ لوحی کے ساتھ گزر نہیں جانا چاہئے۔
ان مسائل میں جو چیز یقینی طور پر موثر واقع ہوئی ہے وہ اسلامی انقلاب کو آئیڈیل اور مشعل راہ قرار دیا جانا ہے۔ اسلامی انقلاب مسلمانوں کے لئے نمونہ بن گیا۔ ایک تو اپنی کامیابی کے ذریعے، دوسرے اسلامی جمہوری نظام کی کامیاب تشکیل کی وجہ سے۔ اس نے ایک کامل آئین کے ساتھ نیا نظام متعارف کرایا اور پھر اسے جامہ عمل پہنا کر دکھایا۔ اس کے علاوہ ان بتیس برسوں میں اس نظام کا ایسا دوام اور بقاء کہ کوئی اسے زک نہ پہنچا سکا، اس کے بعد اس نظام میں روز افزوں استحکام اور قوت، ظاہر ہے آج گہری اور عمیق بنیادوں کے لحاظ سے اسلامی جمہوری نظام دس سال قبل، بیس سال قبل اور تیس سال قبل کی صورت حال سے بالکل مختلف ہے، اس کے علاوہ اس نظام میں حاصل ہونے والی والی گوناگوں ترقیاں، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان کی ترقی، صنعتی میدان کی پیشرفت، گوناگوں سماجی فلاح و بہبودی، افکار کی پختگی، نئے افکار و نظریات کا متعارف کرایا جانا، ملک کی عظیم علمی کامیابیاں اور گوناگوں سرگرمیاں، ملک میں انجام پانے والے تعمیراتی کام جن کے باعث ملک بعض شعبوں میں دنیا کے درجہ اول کے معدودے چند ممالک میں شمار ہونے لگا ہے۔ یہ ساری چیزیں رونما ہوئی ہیں۔ مسلمان قومیں ان چیزوں کو محسوس کر رہی ہیں، وہ دیکھ رہی ہیں، مشاہدہ کر رہی ہیں۔ انقلاب نے آکر اس نظام کی تشکیل کر دی، اس نظام کو دوام ملا اور روز بروز اس کی قوت و طاقت میں اضافہ ہوتا گیا، اسے نئی نئی ترقیاں ملتی رہیں۔ اس طرح یہ مثالی بن گیا۔ یہ نمونہ ایک پیغام کو معرض وجود میں لایا اور وہ تھا اسلامی تشخص اور اسلامی وقار کی بازیابی کا پیغام۔ آج دنیا کی اقوام میں اسلامی شناخت کا جو جذبہ موجود ہے اس کا تیس سال قبل کی صورت حال سے کوئي مقابلہ نہیں ہے۔ آج اسلامی وقار کا جو احساس اور اس وقار کے تعلق سے جو شدید میلان دیکھنے میں آ رہا ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ہے۔ یہ چیز آج سامنے ہے۔
اب اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ مد مقابل محاذ کو، مخالف فریق کو شکست ہوگی۔ ( یہ مخالف فریق) وہ بد عنوان، غیروں کے غلام، جابر حکام تھے جو بعض خطوں میں اقتدار میں پہنچ گئے تھے۔ اللہ نے خبردار کیا ہے کہ «سيصيب الّذين اجرموا صغار عند اللَّه و عذاب شديد بما كانوا يمكرون» (1) انہیں مکر و حیلے سے کوئي فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ اسی مکر و حیلے کے باعث اللہ تعالی انہیں ذلت و خواری میں مبتلا کر دے گا۔ یہ چیز رونما ہو چکی ہے، یہ چیز آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
یہ بھی انہیں مثالوں میں سے ایک ہے جن میں ہم نے اپنی آنکھوں سے آیات قرآنی کو مجسم ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ ہمارے اس زمانے کی چیز ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں جس چیز کا وعدہ کیا ہے آج ہم اس کی عملی تصویر کا مشاہدہ کر رہے ہیں، ہمیں اس کا تجربہ ہو رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ کے خلاف جاری پروپیگنڈا مہم کا بڑا حصہ اسی ہدف پر مرکوز ہے کہ اسے آئیڈیل اور نمونہ نہ بننے دیا جائے۔ مسلمان قوموں کی نگاہوں میں اسلامی جمہوریہ ایک مثالی نظام کی حیثیت حاصل نہ کر سکے۔ میری نظر میں یہ بڑا حیاتی نکتہ ہے جس پر ہم سب کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ، قوموں کی نگاہوں میں نمونہ عمل قرار نہ پا سکے۔ کیونکہ اگر نمونہ عمل مل گیا تو لوگ اس کی جانب بڑھنے کی کوشش کریں گے، اس نمونے کی کامیابی کا علم ہو گیا تو اس سے لوگوں کی رغبت اور شدید ہوگی۔
پچاس ساٹھ سال قلب ایک مصری مصنف نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ اگر ہم دنیا کے کسی گوشے کا نظم و نسق اسلامی حکومت کے ذریعے چلانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ اسلام کی پیشرفت کے سلسلے میں ہزاروں کتابوں اور تبلیغی اقدامات سے زیادہ نتیجہ خیز ہوگا۔ بالکل صحیح لکھا ہے۔ بیشک ہمارا یہ آئیڈیل اسلام سے اس طرح ہم آہنگی اور مطابقت نہیں رکھتا جیسی ہم چاہتے ہیں اور اسلام کو رو بہ عمل لانے کی مطلوبہ صورت حال سے ہم بد قسمتی سے ابھی بہت پیچھے ہیں لیکن اسی مقدار میں جو ہم معاشرے اور اپنی زندگی میں اسلام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کے ثمرات آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اس اس کا وقار دیکھ رہے ہیں، اس کی توانائی دیکھ رہے ہیں، ترقی و پیشرفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں، خود مختاری و آزادی کا نظارہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ چیز عوام کی نظروں کے سامنے موجود ہے۔ تو ان کی کوشش یہ ہے کہ نمونہ اور آئیڈیل سامنے نہ آنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ نظروں میں اس آئیڈیل کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابتدائے انقلاب سے تاحال جاری رہنے والا ایک کام یہ بھی ہے۔ اس پر توجہ رکھنا ضروری ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈے کے تحت دشمن کے بنیادی اقدامات میں اس چیز کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور اس کے لئے مساعی جاری ہیں۔
اس نمونے کو کمزور بنانے میں دو طرح کے عوامل ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بعض اندرونی عوامل ہیں جیسے ہماری کوتاہیاں، خامیاں، کام چوری، سستی، پیشرفت کو نقصان پہنچانے والی باتوں جیسے اختلافات، گوناگوں غلط کاموں، دنیا پرستی، دنیاوی باتوں میں غرق ہو جانا، اقتدار کی بھوک، سیاسی غلطیوں وغیرہ میں مبتلا ہو جانا۔ یہ وہ چیزیں جو خود ہمارے اندر پیدا ہوتی ہیں، یہ عیوب ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ یہ اندرونی عوامل ہیں جو اس نمونے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
دوسری قسم کے عوامل کا تعلق دشمن سے ہے۔ جو ہمارے انہی عیوب کو سو گنا بڑھا چڑھا کر اور نمک مرچ لگاکر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور بعض ایسے عیوب بھی ہم سے منسوب کر دیتا ہے جو ہم میں نہیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ سب سے پہلے ہمیں ان اندرونی عوامل پر دھیان دینا ہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالی دوسری قسم کے عوامل سے ہماری حفاظت خود کرےگا۔ یعنی خداوند عالم دشمن کے پروپیگنڈے کو بے اثر بنا دےگا۔
فرزند رسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے منسوب مناجات الشاکین میں اس عظیم ہستی نے سب سے پہلی شکایت خود اپنے نفس کے سلسلے میں کی ہے۔ «الهى اليك اشكو نفسا بالسّوء امّارة و الى الخطيئة مبادرة» (بار الہا میں تیری بارگاہ میں اس نفس کی شکایت کر رہا ہوں جو برائی کا بہت زیادہ حکم دینے والا اور خطاؤں کی سمت جھپٹنے والا ہے) پہلے اپنے نفس کی خوب شکایت کر لینے کے بعد اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں ؛«الهى اشكو اليك عدوّا يضلّنى» (خدایا میں تیری بارگاہ میں اس دشمن کی شکایت لیکر آیا ہوں جو مجھے گمراہ کر دیتا ہے) پہلے اپنے نفس کی شکایت پھر دشمن کا شکوہ۔ اس چیز کا خیال رکھنا چاہئے۔
اب سوال یہ ہے کہ کون خیال رکھے؟ کس طرح خیال رکھے؟ جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحلے میں حکام، ممتاز شخصیات، نمایاں ہستیاں، روشن خیال افراد، دانشور، علما اور وہ افراد جو دوسرے لوگوں کے درمیان اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اپنے اعمال کے سلسلے میں محتاط ہوں۔ اقتدار کی بھوک کے سلسلے میں، دنیا پرستی کے سلسلے میں، اختلافات میں پڑنے کے سلسلے میں، ہنگامہ کھڑا کرنے کے سلسلے میں، اخلاقیات کے برخلاف عمل کرنے کے سلسلے میں۔ میں اخلاقیات کے خلاف عمل کرنے کے نکتے پر خاص تاکید کروں گا۔
معاشرے میں دوسرے کی توہین اور بے حرمتی کا ماحول ایسی چیز ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ایک دوسرے کی توہین اور بے حرمتی کا ماحول شریعت کے بھی خلاف ہے، اخلاقیات کے بھی منافی ہے اور سیاسی شعور بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بیباک تنقید، مخالفت اور دو ٹوک اظہار خیال میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس میں توہین، گستاخی، بد کلامی اور فحشیات کا پہلو نہیں ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں سب پر ذمہ داری ہے۔ اس حرکت سے ماحول آشفتہ ہوتا ہے اور معاشرے کا چین و سکون چھن جاتا ہے جبکہ آج پر سکون ماحول کی شدید ضرورت ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالی غضبناک ہوتا ہے۔ جو لوگ بیان دے رہے ہیں یا اخبارات، ویبلاگ وغیرہ میں مقالے لکھ رہے ہیں ان سب کے لئے میرا یہ پیغام ہے، وہ یاد رکھیں کہ جو کام کر رہے ہیں ٹھیک نہیں ہے۔ مخالفت کرنا، دلائل پیش کرنا، کسی غلط سیاسی نظرئے یا غلط دینی فکر کو مسترد کرنا الگ چیز ہے اور خلاف اخلاقیات، خلاف شریعت اور سیاسی سوجھ بوجھ کے منافی حرکت کا مرتکب ہونا ایک الگ شئے۔ ہم اس آخر الذکر کی سختی سے مخالفت اور نفی کرتے ہیں۔ یہ کام ہرگز انجام نہیں دیا جانا چاہئے۔ بد قسمتی سے بعض لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔ میری خاص سفارش نوجوانوں سے ہے۔ بعض نوجوان جو مخلص، با ایمان اور اچھے عادات و اطوار کے مالک ہیں وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ اس طرح کے کام انجام دینا ان کا فریضہ ہے۔ بالکل نہیں، میرا ماننا ہے کہ یہ عمل ان کے فرائض کے بالکل منافی ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس عمل کرنا ان کا فریضہ ہے۔
البتہ دراندازی کرنے والے بیگانوں، دشمنوں کے شیطانی وسوسوں اور بد خواہوں کی دخل اندازی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے فرمایا کہ بعض اوقات اس طرح کے عناصر با اخلاص اور با ایمان افراد کے درمیان داخل ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی خاص سمت میں موڑنے اورگھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا اسے بھی خارج از امکان نہیں سمجھنا چاہئے۔ بہت زیادہ جذبات میں آ جانے سے بھی اور دشمن کے ہاتھوں کو نہ دیکھ پانے کی وجہ سے بھی غفلتیں سرزد ہوتی ہیں۔ بنابریں میں خاص طور پر نوجوانوں کو یہ تاکید کروں گا کہ وہ غیبت، تہمت، فحشیات، گستاخی اور بے حرمتی کا یہ سلسلہ آگے نہ بڑھنے دیں۔ کیونکہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو متعدی بیماری کی طرح دوسروں میں بھی سرایت کرے گا اور پھر ناگہاں آپ کو نظر آئے گا کہ مثلا نماز جمعہ میں بھی جو ذکر و مناجات اور خضوع و خشوع کا اجتماع ہے اس میں بھی یہ چیزیں گاہے بگاہے پیش آنے لگیں۔ یہ اور بھی زیادہ غلط بات ہے۔ اگر کوئي شخص کسی امام جمعہ کو (عادل) نہیں مانتا تو اس کا خطبہ نہیں سنتا، اس کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھتا، باہر چلا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات یہ چیز درس میں علمی اور تعلیمی مقامات پر بھی نظر آتی ہے جو سراسر غلط ہے۔ یہ مصلحت انقلاب کے خلاف اور ضرررساں ہے۔ اسی کو خلیج پیدا کرنا، ضرب لگانا اور اسلامی نظام کے شکوہ و عظمت کو جو پوری قدرت اور رفتار سے آگے جا رہا ہے، مخدوش بنانا کہتے ہیں۔
میں بزرگوں کو بھی ایک نصیحت کروں گا۔ یہ نصیحت نوجوانوں کے لئے تھی، بزرگوں کو بھی نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں بھی توجہ دینا چاہئے۔ صحیح موقف اختیار کرنا، صحیح بات بیان کرنا، جھوٹی خبروں سے متاثر نہ ہونا، یہ سب فرائض میں شامل ہیں۔ اسلامی نظام کے اندر ہزاروں افراد ایسے ہیں جو صرف اور صرف رضا و خوشنودی پروردگار کے لئے زحمتیں برداشت کر رہے ہیں، خدمات انجام دے رہے ہیں، شب و روز خود کو ہلکان کئے ڈالتے ہیں کہ اسلامی تقاضوں کے مطابق ایک کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے، ملک کا نظم و نسق چلے، سنگین فرائض انجام پا جائیں۔ اب ایک انسان کوئی جھوٹی خبر سنے اور اسی کو بنیاد بناکر تمام چیزوں کو سرکاری حکام کو، فلاں کو اور فلاں کو سب کو کٹہرے میں کھڑا دے، تو یہ چیز درست نہیں ہے، یہ بھی ایک غلطی ہے۔ نوجوان بھی محتاط رہیں، سن رسیدہ افراد بھی ہوشیار رہیں۔ ہمیں نوجوانی کے ایام میں بھی نصیحت اور ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے اور ایام پیری میں بھی ہمیں اس کی احتیاج ہوتی ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کی مدد فرمائے کہ اسلامی جمہوری نظام کی شکل میں موجود اس کامیاب، عظیم اور پرشکوہ نمونے کی حفاظت کریں اور اسے من و عن آئندہ نسلوں کے حوالے کر دیں تاکہ بارگاہ خداوندی میں سرخرو و سربلند ہوں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) انعام: 124