قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے 24/8/1383 ہجری شمسی مطابق 14/11/2004 عیسوی برابر پہلی شوال سنہ 1425 ہجری قمری کو ملک کے حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف عوامی طبقات کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ عید کے دن ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد بین المسلمین کے تعلق سے عید کی اہمیت و افادیت کو بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی روز افزوں کمزوری کا سبب ان کے اختلافات ہیں۔ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی بیماری در پیش رہی ہے۔ اس دور میں سب سے بڑی بیماری اتحاد بین المسلمین کا فقدان ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ عالمی سامراج اعلانیہ اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہے، اسلام کے مد مقابل آن کھڑا ہوا ہے، اسلام کی دشمنی پر اتر آیا ہے۔ چونکہ اسے معلوم ہے کہ دنیا کی آبادی میں بیس فیصدی مسلمان ہیں، دنیا کے حساس ترین اور اہم ترین خطے میں مسلمانوں کا آباد ہونا، بے پناہ ذخائر و ثروت، قدیم علمی و روحانی میراث پر مسلمانوں کی مالکیت وہ سرمایہ ہے کہ اگر اسلام ان تمام وسائل کو یکجا کرکے بروئے کار لائے تو ایک بڑی طاقتور، دولمند اور آزاد یونین کی تشکیل عمل میں آ جائے گی اور آج عالمی سامراج کے لئے ایک آزاد، طاقتور اور دولتمند یونین کا وجود قابل برداشت نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

میں عالم اسلام، ایثار پیشہ اور ذی شعور ملت ایران، آپ جملہ حاضرین، ملک کے اعلی عہدہ داروں، سفیروں اور اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کو عید الفطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ہم نماز عید کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے ہیں؛ «اسألك بحقّ هذا اليوم الّذى جعلته للمسلمين عيدا» یعنی اس دن کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے عید قرار دیا ہے یعنی وہ دن جو مسلمانوں کے لئے ہمیشہ یادگار دن ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا، ایک دوسرے سے آشنائی اور نئے انداز سے دن اور زندگی کا آغاز۔ (دعائے قنوت کے) اس فقرے کے بعد ہم پڑھتے ہیں؛ «و لمحمّد صلى‏ اللَّه ‏عليه ‏و آله ذخراً و شرفاً و كرامتاً و مزيدا» پیغمر اسلام کے لئے (اے اللہ تونے اس دن کو) ذخیرہ، شرف، عز و شان اور کثرت قرار دیا ہے۔ یہ پیغمبر اسلام کی معنوی و روحانی میراث میں اضافے اور اس کی ہمہ گیری کا باعث ہے۔ ہم مسلمان کیونکر اس دن کو اپنے لئے حقیقی معنی میں عید کا دن اور اپنے رسول کے لئے مایہ عز و شرف بنا سکتے ہیں؟ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم پیغمبر اکرم کی منشا پر توجہ دیں اور آپ ہی کے اشارے پر آگے بڑھیں۔ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کر رکھا ہے اور انسانی زندگی کے ہر اہم شعبے کے لئے اسلام نے کارگر نسخے، راہ علاج و گشائش کی نشاندہی کر دی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے گوناگوں مسائل اور آلام میں سب سے بڑا الم اور درد جو دیگر امراض اور آلام کے مقابلے میں ام الامراض کا درجہ رکھتا ہے، تفرقہ ہے۔ ہم مسلمان اپنے پیغمبر کی نصحیت؛ «ولا تكونوا كالّذين تفرّقوا واختلفوا» اور اس وصیت؛ «واعتصموا بحبل‏اللَّه جميعاً ولاتفرّقوا» پر عمل نہیں کر رہے ہیں اور اسی تفرقے کا نتیجہ آج عالم اسلام کی کمزوری و اضمحلال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
مسلمانوں کی روز افزوں کمزوری کا سبب ان کے اختلافات ہیں۔ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی بیماری در پیش رہی ہے۔ اس دور میں سب سے بڑی بیماری اتحاد بین المسلمین کا فقدان ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ عالمی سامراج اعلانیہ اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہے، اسلام کے مد مقابل آن کھڑا ہوا ہے، اسلام کی دشمنی پر اتر آیا ہے۔ چونکہ اسے معلوم ہے کہ دنیا کی آبادی میں بیس فیصدی مسلمان ہیں، دنیا کے حساس ترین اور اہم ترین خطے میں مسلمانوں کا آباد ہونا، بے پناہ ذخائر و ثروت، قدیم علمی و روحانی میراث پر مسلمانوں کی مالکیت وہ سرمایہ ہے کہ اگر اسلام ان تمام وسائل کو یکجا کرکے بروئے کار لائے تو ایک بڑی طاقتور، دولمند اور آزاد یونین کی تشکیل عمل میں آ جائے گی اور آج عالمی سامراج کے لئے ایک آزاد، طاقتور اور دولتمند یونین کا وجود قابل برداشت نہیں ہے۔
اگر امت مسلمہ اپنی تیل کی دولت، اپنی افرادی قوت، اپنے بازاروں، اپنی سائنس و ٹکنالوجی اور اپنے گوناگوں روحانی و مادی ذخائر سے کما حقہ استفادہ کرے تو دنیا کی بڑا طاقتوں اور تسلط پسند ممالک کی مجال نہیں ہوگی کہ اسے آنکھیں دکھائیں۔ آپ ملاحظہ فرمایئے کہ آج ملت فلسطین کے سلسلے میں سامراج کی غنڈہ گردی کس بے شرمی کے ساتھ آشکارا جاری ہے۔ ایک قوم اپنی ہی سرزمین پر غاصبوں کے نرغے میں ہے۔ وہ بھی ایسا نرغہ جس میں اتنے بھیانک اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں، انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں، اس سرزمین کے باشندوں سے حق زندگی سلب کر لیا گیا ہے، ان کے گھر مسمار کئے جا رہے ہیں، ان کی کھیتیاں برباد کی جا رہی ہیں، ان کی تجارت نیست و نابود کر دی گئی ہے، ان کی صلاحیتوں اور مہارتوں کا گلا گھونٹ دیا گيا ہے، انہیں نشو نما کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے، جوانوں، بچوں مردوں اور عورتوں کو تواتر سے قتل کیا جا رہا ہے۔ سامراجی دنیا کے بعض عناصر اس کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں اور بعض دیگر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ عالم اسلام بھی اس طرح خاموش ہے کہ گویا وہ غیر جانبدار تماشائی ہو، یہ عالم اسلام کا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس کی وجہ عالم اسلام کی یہی کمزوری اور اس کے اندر پھیلا تفرقہ ہے۔
ہمیں اپنے آپ کو یقین دلا دینا چاہئے کہ ہماری قوت و طاقت کا سر چشمہ مسلمانوں کی یہی عظیم آبادی اور یہی امت مسلمہ ہے۔ اس پر ہمارا ایمان و ایقان ہونا چاہئے۔ ہمیں ایک دوسرے سے لڑوایا جا رہا ہے۔ ہمیں مختلف باتوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے بد ظن کر دیا گيا ہے۔ فرقہ وارانہ اشتعال کو ہوا دی جاتی ہے، نسلی اختلافات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے، علاقوں پر مالکیت کے جھگڑے پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے دست بگریباں کرکے ہمارے اختلافات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ آج کے دور میں یہ ہماری سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑا المیہ ہے۔
عراق پر قبضہ کر لیا گيا ہے، عراقی عوام، مردوں اور عورتوں کی توہین کی جا رہی ہے، ان کے وقار کو پامال کیا جا رہا ہے، عراقیوں کی غیرت قومی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، ان کے دین و دنیا کو نقصان پہچایا جا رہا ہے۔ آپ دیکھئے! فلوجہ، موصل، نجف و کربلا اور دیگر علاقوں میں کیا کچھ نہیں کیا گيا؟! لیکن عالم اسلام ہے کہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، اس پر سکوت طاری ہے! کیوں؟! اس لئے کہ خوف ہے، حکومتیں اللہ تعالی سے خو‌فزدہ ہونے اور اپنے داخلی اختلافات سے ڈرنے کے بجائے تسلط پسند طاقتوں سے ہراساں ہیں! حالانکہ ہمارے اندر طاقت و قوت ہے اور ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
اس وقت عالمی سامراج کی اسٹریٹیجی عالم اسلام کے ممالک سے ایک ایک کرکے نمٹنے کی ہے۔ جو اسلامی ملک بھی کمزور نظر آیا اسے نگل لیا جائے گا، نابود کر دیا جائے گا۔ (عالمی طاقتیں) انسانی حقوق کا رونا رو رہی ہیں، سیاسی مسئلے اٹھا رہی ہیں، ایٹمی ٹکنالوجی جیسے مسائل کو موضوع بحث بنا رہی ہیں۔
اگر ایٹمی مسئلے پر آج انہوں نے ایران کے خلاف لام بندی کی ہے تو کل اسی بہانے یا اس جیسے کسی دوسرے بہانے سے دوسرے اسلامی ممالک کے سر پر سوار نظر آئيں گی۔ ملت ایران نے تو استقامت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ زندہ و بیدار قوم ہے، یہ اللہ تعالی کی شکر گزار قوم ہے۔ ہمارا یہ دعوا نہیں کہ ہمارا شعار زندگی پوری طرح اسلامی ہے اور ہم نے اسلام پر مکمل طریقے سے عمل کیا ہے۔ نہیں، یہ بہت بڑا دعوا ہے لیکن اتنا تو ہے کہ ہم نے اسلام کی سمت قدم بڑھایا ہے اور اسلام ہماری نصرت کو آیا ہے۔ اسلام نے ہمیں جذبہ شجاعت عطا کیا ہے، اسلام نے ہمیں اتحاد کی دولت دی ہے، اسلام نے ہمیں طاقت دی ہے، اسلام نے ہماری قوم کو جوش و ولولہ دیا ہے، لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے، ان میں قوت و استقامت پیدا کی ہے، ان میں وقار اور حمیت کا احساس جگایا ہے۔ اب ہماری قوم ذلت گوارا نہیں کر سکتی۔ دشمن کے مقابلے میں انہی ستونوں پر تکیہ کرکے اسی انداز سے ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں دعا کرنا چاہئے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجاء کرنا چاہئے کہ ہمارے دلوں اور امت مسلمہ کے قلوب کو ایک دوسرے کے نزدیک کر دے، ہمیں ایک دوسرے سے بد ظن و بد گماں کرنے کی دشمنوں کی سازشوں کو اپنے لطف و کرم سے نقش بر آب کر دے، ہمیں بیدار کر دے۔ اگر ہم اس پہلو پر کام کریں تو عالم اسلام کو اس کی عظمت رفتہ دوبارہ مل جائے گی۔ ہمارے پاس بے پناہ وسائل ہیں، یہی عید فطر بہت اہم وسیلہ و ذریعہ ہے، حج ایک سنہری موقع ہے، عید الاضحی اہم وسیلہ ہے، یہ عظیم اجتماعات، تلاوت کی جانی والی یہ قرآنی آیات، پورے عالم اسلام میں پھیلے اہم وسائل ہیں، ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کے اعلی عہدہ داروں سے میری گزارش ہے کہ آپ اس قوم کی قدر کیجئے! ہماری قوم بڑی عظیم قوم ہے۔ ہم سب کی گردن پر اس قوم کا بڑا حق ہے۔ ہمارے شانے اس قوم کی خدمت کے سلسلے میں ذمہ داریوں اور وعدوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے ہیں۔ آپ پورے اخلاص، اپنی پوری توانائی اور فکری و عملی صلاحیتوں کے ذریعے عوام کے لئے کام کیجئے، ان کی خدمت کیجئے! یہ قوم بڑی عزیز قوم ہے، بڑی عظیم قوم ہے۔ یہ تاریخ ساز قوم ہے۔ تاریخ کی اس انتہائی اہم ڈگر پر اور اس نہایت حساس مرحلے میں یہی قوم ہے جو آگے لے جا رہی ہے۔
پروردگارا! ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما جنہوں نے ہمیں اس راستے سے روشناس کرایا اور ہمیں اس راہ پر گامزن کر دیا۔ پروردگارا! ہمارے شہدا، ہمارے ایثار پیشہ بہادروں اور راہ خدا میں اس طولانی جدوجہد کے دوران اپنی جان اور توانائيوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہمارے مجاہد و فداکار عوام کو اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھ۔ ہمارا درود و سلام ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور ہمیں ان کے سپاہیوں میں قرار دے۔

والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‏