قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں انیس بہمن کے واقعے کی خصوصیات بیان کیں اور ایران کے اسلامی انقلاب کی انفرادی خصوصیات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس انقلاب کی ماہیت کا اہم ترین عنصر ملت ایران کا حق خود ارادیت و قومی تشخص تھا جو پہلوی حکومت کے پچاس برسوں اور اس سے قبل بھی تقریبا نصف صدی پر محیط قاجاریہ حکومت میں مسلسل کچلا جاتا رہا۔ اتنا بڑا ملک، اتنی با صلاحیت قوم، یہ بے پناہ ذخائر و ثروت، سب کچھ اغیار کی پالیسیوں کا اسیر تھا۔ کبھی برطانیہ و روس کی باہمی مقابلہ آرائی میں تو کبھی اکیلے برطانیہ کے قبضے میں اور آخر کار اس سے بھی طاقتور پنجے یعنی امریکہ کی گرفت میں پھنسی ایرانی قوم خواہ اس کی فرزانہ شخصیات ہوں یا ظلم و استبداد کا سامنا کرنے والے عوام سب کے نزدیک اہم ترین ہدف یہ تھا کہ اس اسیر تشخص کو رہائی دلائیں، اپنی خود مختاری حاصل کریں اور دوسرے ملکوں کی پالیسیوں کے تابعدار نہ رہیں۔ اس وقت اس انقلاب کے ساتھ معاندانہ روئے کی یہی وجہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہر سال انیس بہمن کا دن میرے لئے عشرہ فجر کے ایام کا سب سے شیریں لمحات والا دن ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ دن بڑا با معنی اور انتہائی اہم درس اور یادگار کا حامل دن ہے۔ اس دن کی اہمیت صرف اس بنا پر نہیں ہے کہ کچھ لوگوں نے بڑے مشکل حالات میں ہمارے امام (خمینی رہ) کی بیعت کی تھی۔ البتہ یہ واقعہ بھی اپنے آپ میں بہت اہم ہے لیکن اس دن کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس دن اس عمل سے ثابت ہو گیا کہ ہمارے معاشرے نے جو راستہ چنا ہے اور جو اقدام کیا ہے اس کی بابت اس کے اندر پوری آگہی پائی جاتی ہے۔ بعض خود غرض افراد کے اس تجزئے کے بالکل بر خلاف، جو عظیم تحریک انقلاب کو شعور و آگہی سے عاری ہنگامہ قرار دینے کی کوشش کر رہے تھے، تحریک انقلاب شعور و آگہی پر استوار عوامی تحریک تھی جس کا ایک بین ثبوت یہی انیس بہمن کا واقعہ ہے۔ فضائیہ جس پر طاغوتی شاہی حکومت کی خاص عنایت ہوا کرتی تھی اور جسے حکومت دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ اپنی ملکیت تصور کرتی تھی، اسی فضائیہ کے مومن و شجاع جوانوں نے اپنی فوجی وردی میں اور ہاتھوں میں اپنے شناختی کارڈ لئے، جد و جہد کے حساس ترین موڑ پر میدان عمل میں قدم رکھا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ انہیں اس اقدام کے ممکنہ خطرات کا بھی علم تھا اور وہ اس اقدام کی اہمیت و عظمت سے بھی واقف تھے۔ انہوں نے ملت ایران کی تحریک کے شعور و آگہی کے پہلو کا عملی ثبوت پیش کر دیا۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ عوام کی خواہشات و تشخص کو درخور اعتنا نہ سمجھنے والی سامراجی طاقتوں کے کمند کا اسیر نہیں رہ سکتا، خواہ اغیار کا یہ تسلط داخلی عناصر کے توسط سے ہی جامہ عمل کیوں نہ پہن رہا ہو۔ اس بنا پر یہ یادگار واقعہ بہت اہم، ہمیشہ باقی رہنے والا اور مخصوص پیغام کا حامل واقعہ ہے۔ ملت ایران کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے مخالفتوں کے خوفناک طوفانوں کے مقابلے میں اس شعوری و آگاہانہ تحریک کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اس کی حفاظت و پاسداری کی۔
گزشتہ صدیوں میں رونما ہونے والے دنیا کے انقلابوں کی تاریخ کا پہلا عظیم انقلاب ہے جو اس طویل عرصے تک اپنے رخ اور سمت پر ثابت قدم رہنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ پہلا انقلاب ہے جو عوام کے درمیان سے شروع ہوا، عوام ہی کے دوش پر آگے بڑھا اور اس کے پیغام میں کوئی رد و بدل نہیں ہوا، اس نے اپنی راہ نہیں بدلی اور اہداف میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔ حالیہ صدیوں میں دنیا میں آنے والے انقلابوں کی پوری تاریخ میں یہ واحد انقلاب ہے جو اتنی طویل مدت تک اپنی راہ پر اٹل رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب فرانس کے انقلاب کو بمشکل پندرہ سال ہی گزرے ہوں گے، ظلم و استبداد کے خلاف معرض وجود میں آنے والا یہ انقلاب فرانس میں نہایت ظالمانہ نظام کی بنیاد بن گيا۔ عظیم فرانسیسی انقلاب میں اس ملک کے عوام نے ظلم و استبداد کی نفی کے لئے قربانی دی تھی، ان کا ہدف سلطنتی اور شاہی نظام کے خلاف جد و جہد کرنا تھا لیکن پندرہ سال بھی نہیں گزرے تھے کہ بوربن سلسلہ حکومت جس کے ظلم و استبداد کے خلاف انقلاب آیا تھا اس سے کہیں زیادہ ظالمانہ و استبدادی اور طاقتور سلطنتی نظام قائم ہو گیا اور حقیقی معنی میں ایک استبدادی بادشاہت معرض وجود میں آ گئی۔ اس کے بعد نصف صدی یا اس سے کچھ زیادہ عرصے تک فرانس میں تلاطم برپا رہا۔ اقتدار کے لئے رسہ کشی جاری رہی، ایک دوسرے کے مخالف حکومتی سلسلے اقتدار میں آتے رہے اور عوام میں خوف و دہشت پھیلاتے رہے۔ یہ وہ انقلاب تھا جسے دنیا فرانس کے عظیم انقلاب کے نام سے یاد کرتی ہے۔
سویت یونین کا انقلاب پندرہ سال سے بھی بہت کم عرصے میں دگرگوں ہوکر رہ گیا۔ عوامی طاقت سے کامیاب ہونے والا انقلاب اسٹالن کی مطلق العنان حکومت کی تشکیل پر منتج ہوا جو برسوں جاری رہی اور اسٹالن کے بعد آنے والے حکمرانوں کو وراثت میں ملی۔ اس بڑے ملک میں عوام کو اپنی نجی زندگی کے اہم ترین امور کے بارے میں کم ترین اختیارات بھی حاصل نہیں تھے، سماجی، سیاسی، حکومتی اور سلطنتی امور کی تو خیر بات ہی اور تھی۔ دنیا کے انقلابوں کا انجام یہ ہوا ہے۔ دنیا میں جو محدود سطح کے انقلاب آئے ان کا بھی انجام اس سے بہتر نہیں ہوا ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو مطالعے کے دوارن بڑی حیرتناک چیزیں نظر آئیں گی۔
وہ واحد انقلاب جو عوام کے درمیان سے شروع ہوا، عوام کی مدد سے آگے بڑھا اور جس نے اپنی بات بدلی نہ راستہ تبدیل کیا اور نہ ہی اپنے اہداف میں کوئی کمی بیشی کی، ایران کا اسلامی انقلاب ہے۔ یہ انقلاب اللہ تعالی کے نام کے ساتھ، عوام کے لئے، عدل و انصاف کے لئے اور آزادی و خود مختاری کے لئے شروع ہوا اور آج بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ اس کے نعرے اب بھی وہی ہیں اور انشاء اللہ اسی صورت میں باقی رہیں گے۔
اس انقلاب کی ماہیت کا اہم ترین عنصر ملت ایران کا حق خود ارادیت و قومی تشخص تھا جو پہلوی حکومت کے پچاس برسوں اور اس سے قبل بھی تقریبا نصف صدی پر محیط قاجاریہ حکومت میں مسلسل کچلا جاتا رہا۔ اتنا بڑا ملک، اتنی با صلاحیت قوم، یہ بے پناہ ذخائر و ثروت، سب کچھ اغیار کی پالیسیوں کا اسیر تھا۔ کبھی برطانیہ و روس کی باہمی مقابلہ آرائی میں تو کبھی اکیلے برطانیہ کے قبضے میں اور آخر کار اس سے بھی طاقتور پنجے یعنی امریکہ کی گرفت میں پھنسی ایرانی قوم خواہ اس کی فرزانہ شخصیات ہوں یا ظلم و استبداد کا سامنا کرنے والے عوام سب کے نزدیک اہم ترین ہدف یہ تھا کہ اس اسیر تشخص کو رہائی دلائیں، اپنی خود مختاری حاصل کریں اور دوسرے ملکوں کی پالیسیوں کے تابعدار نہ رہیں۔ اس وقت اس انقلاب کے ساتھ معاندانہ روئے کی یہی وجہ ہے۔
دہشت گردی کو جنم خود انہوں نے دیا، یہی افراد جن کے نام دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کے طور پر امریکی حکام کے بیانوں کے عنوان بنے ہوئے ہیں براہ راست یا بالواسطہ امریکہ کی جاسوسی کی تنظیم کے ہی پروردہ ہیں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو دنیا کے سیاسی ماہرین کی نظروں سے پوشیدہ رہ جائے۔ یہ تو سب جانتے ہیں۔ آپ دنیا کے سیاسی حالات کا جائزہ لیجئے اور دنیا میں سامراجی پالیسیوں کی ترجمانی کرنے والے عناصر کے بیانوں کو سنئے اور غور کیجئے کہ ان کی توجہات کا مرکز کیا چیز ہے؟ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انسانی حقوق کے نعرے تو ضرور لگاتے ہیں، ایران کے سلسلے میں ان سب باتوں کے ساتھ ہی ایٹم بم تیار کرنے اور جنگ کے لئے ایٹمی توانائی حاصل کرنے پر اظہار تشویش بھی کرتے ہیں تاہم حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ وہ ظلم و استبداد کے مخالف نہیں۔ وہ تو ان حکومتوں کی آج بھی مدد کر رہے ہیں جن میں عوام کی آزادی اور انتخاب کے لئے کوئی بھی دریچہ وا نہیں ہوا ہے۔ ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ انہیں ظلم و استبداد سے کوئی بیر نہیں ہے۔ امریکی حکومت نے باغی حکومتوں کی کتنے وسیع پیمانے پر حمایت کی اور ان کو تحفظ بخشا، معلوم ہوا کہ اس بات کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ دہشت گردی کا آغاز تو خود انہوں نے کیا۔ لہذا وہ اس مسئلے کو کیوں اٹھانے لگے؟! یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو سیاسی ماہرین کی نظروں سے پوشیدہ ہو، اس سے سب واقف ہیں۔ ایک زمانے میں وہ اس خام خیالی میں تھے کہ ہماری مشرقی سرحدوں پر ان عناصر کی موجودگی سے وہ اسلامی جمہوریہ کو کمزور کر لے جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے پیسے خرچ کئے، ٹریننگ دی، اسلحہ فراہم کیا۔ دو تین سال قبل یہی جلاد شیرون، یہی بھیڑیا صفت شخص جب اقتدار میں پہنچا تو اس نے صریحی طور پر کہا کہ میں اتنے فلسطینیوں کا قتل عام کروں گا۔ اس نے قتل کا لفظ استعمال کیا تھا اور امریکیوں نے اس کی حمایت کی۔ اس وقت یہ کہنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ دہشت گردی خاص طور پر ریاستی دہشت گردی بری چیز ہے۔ بنا بریں یہ لوگ قتل و غارت گری کے مخالف نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے تو اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ کچھ اور ہی ہے۔ اب تو خود امریکیوں نے قبول کیا ہے۔ چند روز قبل امریکی حکام نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کی پالیسیوں کو تسلیم نہیں کرتا، وہ ہماری پالیسیوں کا مخالف ہے۔ بنابریں ہم ایسی حکومت کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔ لہذا واضح ہو گيا کہ معاملہ کیا ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ آج اس ملک میں جو برسہا برس تک امریکی پالیسیوں کے سامنے ہمیشہ بچھا رہتا تھا ایک ایسی قوم ابھر کر سامنے آئی ہے جس نے امریکہ کی تمام حریصانہ خواہشات اور دنیا کی دوسری سامراجی طاقتوں کے مطالبات کا جواب نفی میں دیا ہے اور اب اس نے اپنی قوت و توانائی، شجاعت و بہادری، استقامت و پائیداری اور مظلومیت و بے گناہی سے اور اسی طرح اپنے وا شگاف نعروں سے عالم اسلام میں بھی (اپنی راہ کی بابت) ایمان و ایقان پیدا کر دیا ہے۔ ان (دشمن طاقتوں) کا ایران سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ امریکا کی تابعدار بن کر رہے اور دنیا کی سامراجی طاقتوں یعنی عالمی استبداد کے سامنے سر تسلیم خم رکھے۔
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں بھی اصلی قصوروار امریکی ہیں کوئی اور اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ الزام لگاتے ہیں کہ ایران مشرق وسطی کے معاملے کو حل نہیں ہونے دیتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ خود اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دینا چاہتے۔ کسی قوم کو یکسر نظر انداز کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ کئی ہزار سالہ تاریخ کی مالک فلسطینی قوم کو علاقائی اور سیاسی امور سے حذف کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ کی شکست و ناکامی کی یہی وجہ ہے۔ آپ اس خونخوار کتے کی پرورش اور تقویت کر رہے ہیں جو ہر پیر و جواں، مرد و عورت اور فوجی و عام شہری پر حملہ کرتا ہے۔ اس طرح تو بالکل واضح ہے کہ آپ مشرق وسطی کے معاملے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ تو نہایت سادہ لوحی کی بات ہے کہ جس قوم کو آپ نے کچل کر رکھ دیا ہے اس سے آپ یہ توقع رکھیں کہ وہ اس ظلم و استبداد پر صدائے احتجاج بلند نہ کرے۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کئی سال سے فلسطین میں تحریک انتفاضہ چل رہی ہے۔ نوجوان نسل اور جن جوانوں نے اس تحریک کی باگڈور اپنے ہاتھ میں سنبھال رکھی ہے وہ ایسے نوجوان نہیں ہیں جنہیں مال و دولت اور مقام و شہرت کے لالچ سے ورغلایا جا سکے۔ اس جد و جہد کو کیونکر روکا جا سکتا ہے؟!
بس یہی راستہ ہے کہ آپ ملت فلسطین کی مزاج کو سمجھئے اور اسی راہ حل کی جانب بڑھنے کی کوشش کیجئے جس کی نشاندہی ہم نے مشرق وسطی اور فلسطین کے مسئلے کے سلسلے میں کی ہے، وہ راہ حل یہ ہے کہ اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے تمام فلسطینیوں کو فلسطین کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے ریفرنڈم میں شرکت کا موقع فراہم کیا جائے اور اسی ریفرنڈم کی بنیاد پر حکومت تشکیل پائے اور یہ حکومت ان افراد کے بارے میں فیصلہ کرے جو فلسطینی نہیں ہیں مگر اس سرزمین میں داخل ہو گئے ہیں۔
اس وقت انسانی معاشرہ اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اسے عالمی استبداد کے معنی بخوبی سمجھ میں آ رہے ہیں۔ عظیم ملت ایران اور مشرق وسطی کی بہت سی قوموں اسی طرح تمام مسلم اقوام کا یہی عالم ہے۔ امریکہ کا یہ نیا تجربہ پہلے ہی ناکام ہو گيا ہے۔ یہ لوگ پورے مشرق وسطی کو اپنے قبضے میں کر لینا چاہتے ہیں یعنی وہ مشرق وسطی کو فلسطین کے غاصبوں کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ وہ جتنا آگے بڑھیں گے اتنا ہی دلدل میں پھنستے جائیں گے۔
عراق کے انتخابات، جنہیں وہ اپنی فتح کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، دنیا کے باخبر افراد کی نظروں میں علاقے میں امریکی پالیسیوں کی شکست کا پیش خیمہ ہیں۔ ان انتخابات میں جن افراد کو فتح ملی ہے وہ ایسے افراد ہیں کہ کسی بھی مسلم ملک میں ریفرنڈم میں انہیں فتح ملے گی، یعنی امریکہ مخالف افراد، قومی تشخص کے حامی اور اسلام کے یاور و مددگار افراد۔
ملت ایران بلند ہمتی اور ثبات قدم کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔ بائیس بہمن (مطابق گیارہ فروری، اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کے جلوس اور مظاہرے قومی طاقت کا مظہر اور ایرانی قوم کے عمومی عزم و ارادے کے آئینہ دار ہیں۔ یہ اسی جذبے کا مظہر ہے جو کسی بھی سطح کی سیاسی، تشہیراتی اور فوجی قوت و توانائی کے مالک دشمن کو لرزہ بر اندار کر دیتا ہے۔ ملت ایران ہر سال بائيس بہمن کو اپنے شاندار عمل سے دشمن کی پیش قدمی کا سد باب کرتی ہے اور اسے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس سال بھی انشاء اللہ وہ ایسا ہی کرے گی۔
ملت ایران نے انقلاب کی راہ پر، جو آزادی وخود مختاری اور اعلی اسلامی اہداف تک رسائی کی راہ ہے، گامزن رہے گی۔ یہ قوم اب تک اسی راستے پر چلی ہے اور آئندہ بھی اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے اسی پر آگے بڑھتی رہے گی۔ آپ بھی فضائیہ کے اندر، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے ایک بازو کی حیثیت سے مسلح فورسز کے خاندان کے رکن کی حیثیت سے اس استقامت کا مظہر بن سکتے ہیں۔
بحمد اللہ اب تک فضائیہ ہر امتحان سے سرخرو ہوکر نکلی ہے۔ انقلاب کی کامیابی سے قبل فضائيہ کو اپنا جوہر دکھانے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ اہلکار، ملازمین، افسران اور اعلی عہدہ داران اس فورس کے اندر گمنام تھے۔ صرف چند کمانڈر تھے جن کے چہرے اعلی حکام کے لئے آشنا تھے اور ان کی آپس میں ساز باز تھی اور وہ ایک دوسرے کا کام کرتے تھے۔
آج اسلامی انقلاب کی برکت دیکھئے کہ گزشتہ برسوں بالخصوص مقدس دفاع کے برسوں کے دوران فضائيہ نے اپنے ہر رکن اور پہلو کو قوم کے سامنے پیش کیا۔ آج ملت ایران فضائيہ کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتی ہے۔
وہ پرواز کا شعبہ ہو یا اینٹی ایئرکرافٹ توپوں کے عملے کی کارکردگی، کمک اور مدد کی بات ہو یا دفتری نظم و نسق کا مسئلہ یا پھر مختلف مصنوعات کی تیاری کا مرحلہ آپ نے جو خدمات انجام دی ہیں قوم انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی۔ فضائیہ نے ایسے کارنامے کئے کہ ان کے اثرات کا مشاہدہ عوام نے خود کیا۔ آج بھی عوام اسی نگاہ سے فضائيہ کو دیکھتے ہیں۔
آپ جہاں تک ممکن ہے خود کو سنوارئے اور آگے بڑھئے! بالکل زندگی سے سرشار اس مخلوق کی مانند جو مختلف شعبوں میں الگ الگ فرائض کے تحت اپنے اعضا کا استعمال ایک ہی روح و جان اور ایک ہی ارادے کے ساتھ کرتی ہے۔ ہر شعبے میں خلاقیت کے جوہر دکھائیے، نئے افکار کی تخلیق کیجئے، نئی مصنوعات کی پیداور کیجئے، نئی ایجادات سامنے لائیے اور جذبہ ایمانی مظاہرہ کیجئے! بالکل اس جاندار کی مانند جس کے جسم کے ہر حصے میں زندگی دھڑکن ہوتی ہے اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔
مستقبل آپ کا ہے۔ ملت ایران نے بڑے دشوار گزار راستے طے کئے ہیں۔ بڑے مشکل موڑ عبور کئے ہیں اور چوٹی تک رسائی کے لئے راہ کا بیشتر حصہ طے کر لیا ہے اور اب اس چوٹی تک اس کی رسائی قریب ہے۔ یہ اس قوم کا حتمی اور یقینی انجام ہے جو سعی و کوشش کی خوگر اور اس بات سے واقف ہے کہ اس کی منزل کہاں ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا کردار بہت اہم ہے۔
میں آج کی مناسبت سے فضائيہ کے اہلکاروں اور عہدہ داروں سے اپنی ملاقات پر بہت خوش ہوں۔ آج کا یہ جلسہ بھی بڑا اچھا جلسہ رہا۔ جو ترانہ پیش کیا گيا وہ بھی بہت اچھا تھا۔ اس کے اشعار بھی بڑے فصیح و بلیغ اور با معنی تھے اور اسے بڑی خوش اسلوبی سے پیش بھی کیا گیا۔ اللہ تعالی کی توفیقات آپ سب کے شامل حال ہوں اور آپ کو اس کی تائید حاصل ہو۔

و السّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته