آپ نے عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری اور سامراج کی اسلام دشمنی کو ناقابل انکار حقیقت قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج (17 ربیع الاول) کا دن تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت کا عظیم دن ہے۔ نبی مکرم رسول اللہ الاعظم حضرت محمد ابن عبد اللہ اور امام ناطق بالحق حضرت جعفر بن محمد بن علی ابن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام کی ولادت کا دن ہے۔ یہ دن رسول اللہ اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے نہایت با برکت ہے۔
آج ہم مسلمان اور انسان ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ کے محتاج ہیں۔ یہاں تک کہ نوع بشر یعنی ساری بشریت رسول اللہ کے وجود کی برکت و رحمت کی مرہون منت ہے کیونکہ آپ صرف مسلمانوں کے لئے رحمت نہیں تھے بلکہ رحمۃ للعالمین تھے۔ آپ نے جو چیز رسالت الہی کے عنوان سے انسانیت کو عطا کی ہے اور جو اس رسالت الہی کے تمام امور پر مشتمل ہے قرآن کریم ہے۔ آج یہ قرآن ہمارے پاس ہے اور ہم اس سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انسان کو راہ نجات سے آشنا کیا۔ اسے راہ ہدایت دکھائی۔ انسان کو ایسی راہ پر لگایا جس سے اس کی مشکلات ختم ہو سکتی ہیں، اس کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انسان دیرینہ مسائل میں گرفتار ہے جو کسی ایک زمانے یا دور سے متعلق نہیں ہیں۔ انسانیت عدل و انصاف کی محتاج ہے، ہدایت کی محتاج ہے، اعلی اخلاق کی محتاج ہے، مدد اور رہنمائی کی محتاج ہے، انسانی عقل انبیائے الہی کی مدد کی محتاج ہے۔ رسول اللہ نے یہ راہ الہی، ہدایت کی تمام تر وسعتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ انسان پر کھولی اور انسان جو اس راہ ہدایت الہی کی برکتوں اور الہی عنایات سے بے بہرہ رہ گیا تو یہ اس کی اپنی خطا ہے۔ وہ خود اس کا ذمہ دار ہے کیونکہ اس کا سبب ہمارا جہل ہے، ہماری کوتاہی، کاہلی اور سستی ہے، ہماری نفس پرستی اور ہمارا ہوائے نفسانی کا شکار ہونا ہے۔ انسان اگر آنکھیں کھلی رکھے، اپنی عقل سے کام لے، ہمت کرے، حرکت کرے تو اس کے لئے راہ کھلی ہوئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی تمام دیرینہ مسائل اور مشکلات حل ہو جائیں، اس کے پرانے زخم بھر جائیں۔
اس دعوت کے مقابل دعوت شیطان ہے۔ شیطان نے ہمیشہ اپنے لاؤ لشکر اور اپنے تربیت یافتگان کو انبیائے الہی کے مقابل لا کھڑا کیا ہے جس کے نتیجے میں انسان دوراہے پر کھڑا ہے، اس کو صحیح راہ کا انتخآب کرنا ہے۔
آج اسلامی امت نے تمام اسلامی سرزمینوں میں شریعت و دین اسلام پر نئے ڈھنگ سے دیکھنا شروع کیا ہے، لمبے عرصے تک غفلت میں مبتلا رہنے اور کئی صدیوں تک اسلامی تعلیمات کی حقیقت سے دور رہنے کے بعد آج انسانیت نے آنکھیں کھول دی ہیں۔ عالم اسلام و امت اسلام نے آنکھیں کھولی ہیں اور احکام اسلام و معارف اسلام کی طرف پلٹ کر آ رہی ہے کیونکہ انسان کے بنائے ہوئے مکاتب فکر کی کمزوری و ناتوانی ثابت ہو چکی ہے۔ آج عالم اسلام، شریعت اسلامی، اسلامی تعلیمات کے سہارے انسانیت کی ترقی و کمال کی طرف ہدایت کر سکتا ہے۔ آج دنیا امت اسلامی کی تحریک کی منتظر ہے۔ انسان کی سائنسی ترقی نے دین و معنویت اور اخلاق کو کنارے لگا دیا ہے جبکہ انسان کا علم و دانش اور عالم کون و مکاں کے فطری حقائق کا نئے طریقے سے جائزہ لیا جانا ایک ایسا امر ہے جو امت اسلامی کی تحریک کا باعث بن سکتا ہے۔ عالم اسلام اسلامی معارف کا حامل ہے۔ پیغمبر کی سیرت، آپ کا کلام اور سب سے بڑھ کر قرآن کریم عالم اسلام کے پاس ہے اور اسلامی دنیا آگے بڑھ سکتی ہے۔
دور حاضر میں جو کچھ ہو رہا ہے عالمی سطح پر جو واقعات رونما ہو رہے ہیں اور جس طرح کے حالات نگاہوں کے سامنے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دو یا تین انتہائی بنیادی باتیں ہیں۔
اول عالم اسلام کی بیداری ہے۔ وہ باتیں جو عالم اسلام کے مصلحین، ایک صدی قبل اسلامی دنیا کے مختلف ملکوں، دنیائے اسلام کے مغربی علاقوں اور مشرقی علاقوں میں کہتے ہوئے تنہائی محسوس کرتے تھے، آج مسلمان قوموں کا نعرہ بن گئی ہیں۔ اسلام کی طرف واپسی، قرآنی تعلیمات کا احیاء، امت واحدہ وجود میں لانے کا عزم، امت اسلامی اور عالم اسلام کی عزت و وقارکے جذبات وہ امور ہیں جنہیں مصلحین خاص حلقوں میں پیش کیا کرتے تھے اور ان کا حصول دشوار لگتا تھا لیکن یہی چیزیں آج مسلمان قوموں کے اہداف و مقاصد میں شامل ہیں اور ان کا نعرہ بن چکی ہیں۔
آپ کسی بھی اسلامی ملک کو دیکھ لیں! خاص طور سے نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقے کو دیکھیں! ان نعروں پر زور دیا جا رہا ہے۔ البتہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ایرانی قوم نے اپنی قربانیوں، استقامت اور اسلامی عزت و وقار کا پرچم لہراکر اسلامی قوموں کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ انہیں امید سے سرشار کیا ہے۔ اس امید کے نتائج آپ اسلامی دنیا کے چپے چپے میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
ایک اور ناقابل انکار حقیقت اسلام سے عالمی سامراج کی دشمنی ہے جس میں سامراج سیاسی پروپیگنڈوں، سیاسی سرگرمیوں اور اقتصادی لحاظ سے نہایت منظم، پرعزم اور تمام تر وسائل و ذرائع استعمال کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ عالم اسلام کی بیداری بھی سامراج کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے۔ سامراجی طاقتیں یعنی وہ تسلط پسند ممالک جنہوں نے اپنی طاقت اور مال و دولت کے سہارے دنیا کے ایک بڑے حصے پر تسلط جما رکھا ہے، عالمی صیہونی نیٹ ورک، طاقت کے استعمال پر یقین رکھنے والی امریکی حکومت اور مالی ادارے جو اس تسلط پسند نظام کی حامی و پشت پناہ ہیں وہ اسلامی بیداری سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
مختلف محاذوں سے اسلام کے خلاف آج کل جو کچھ ہو رہا ہے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اسلام کے خلاف جو باتیں امریکہ کا صدر کہتا ہے جو ایک شیطانی سامراجی طاقت کا سرغنہ ہے وہی باتیں دوسرے انداز میں عیسائيت کے اعلی رتبہ مذہبی رہنما کی زبان پر بھی جاری ہوتی ہیں۔ ہم کسی کا مواخذہ کرنا نہیں چاہتے بلکہ مسئلہ کا تجزیہ کر رہے ہیں کہ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ جرائد میں رسول اسلام کی توہین، دین اسلام پر تشدد پسند ہونے کے الزامات کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے اعتراضات، مسلمان قوموں پر طرح طرح کی تہمتیں، اس کے علاوہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے صلیبی جنگ اور مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ مخاصمانہ بیانات، یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ دشمن ملت اسلامی کے خلاف صف آرا ہو چکا ہے اور ہر طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے در پے دکھائی دیتا ہے اور ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اس دشمنی میں اور شدت آئی ہے۔
تیسری حقیقت جو نہایت اہم اور قابل توجہ ہے، یہ ہے ک اس پیکار میں ظاہری اور مادی لحاظ سے کی جانے والی منصوبہ بندیوں کے برخلاف بظاہر زیادہ طاقتور مد مقابل یعنی جو سرمائے، اسلحہ اور اقتصادی ہتھیاروں سے لیس ہے امت مسلمہ اور اس عظیم اسلامی تحریک کے ہاتھوں شکست کھا جاتا ہے، ناکام ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ نہایت توجہ کا طالب ہے کہ مشرق وسطی خاص طور سے مسئلہ فلسطین یا علاقے کے مختلف مسائل جیسے مسئلہ عراق، مسئلہ لبنان میں امریکی سامراج تمام تر وسائل کے ساتھ مداخلت کرتا ہے لیکن اسے شکست ہوتی ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔
فلسطین میں بھی سامراجی طاقتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کون یقین کر سکتا تھا کہ جد و جہد کرنے والا ایک گروہ جس کا شعار صیہونی حکومت سے مقابلہ کرنا ہے فلسطین میں اقتدار حاصل کر لے گا؟ کیا اس بات پر یقین کیا جا سکتا تھا کہ لبنان کا ایک مجاہد و مومن اور سرفروش گروہ اپنے ملک پر فوجی جارحیت کو پسپا کرکے دشمن کو ذلت آمیز شکست کا مزہ چکھا دےگا؟ یہ امر لبنان کی تینتیس روزہ جنگ میں ثابت ہوا ہے۔ کون یقین کر سکتا تھا کہ عراق میں امریکہ بے پناہ کوششوں اور کثیر تعداد میں فوجیں بھیجنے کے باوجود ملت عراق پر اپنے نظریات مسلط کرنے میں ناکام رہا ہے؟ یہی نہیں عراق کے راستے مشرق وسطی کے عرب علاقوں پر قبضہ جمانے اور ان علاقوں کی حکومتوں اور قوموں کو بازیچہ بنانے میں بھی بری طرح ناکام رہا ہے۔ یہ حقائق سامنے آئے ہیں اور ان تمام موقعوں پر سامراجی فریق ہی کو شکست ہوئی ہے جو بظاہر فوجی، اقتصادی اور سیاسی طاقت کا حامل ہے اور جس کے پاس سرمائے کی بھی کمی نہیں ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تشخص اور سامراجی تشخص کی اس جنگ میں غلبہ اسلامی فریق کو حاصل رہا۔ ان حقائق کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ حقائق کو پیش نظر رکھ کر کام کریں، حقیقت پسندی سے کام لیں! حقائق یہی ہیں، ان ہی حقائق کو تجزیوں اور فیصلوں میں مد نظر رکھنا چاہئے۔ یہ ناقابل انکار حقائق ہیں، یہ وہ ناقابل انکار حقائق ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔
اگر عالم اسلام امت اسلامی کی عظیم تحریک کو صحیح طریقے سے کامیابی کی سمت لے جانا چاہتا ہے تو اسے بعض ضروری اقدامات کرنے ہوں گے جن میں سب سے پہلا ضروری امر اتحاد ہے، اسلامی اتحاد اور اسلامی یکجہتی۔
مسلم برادر قوموں کو آپس میں لڑانا سامراج کی پرانی سازش ہے جو بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ لڑاؤ اور حکومت کرو ایک پرانی پالیسی ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے بہت کچھ کہا سنا ہے اور ہم سب کو یہ معلوم ہے لیکن افسوس کہ بعض موقعوں پر ہمارا دشمن یہی پالیسی اپناتا ہے اور ہم غافل ہیں۔ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے، غلط تجزیہ و تحلیل کی وجہ سے، اپنے ذاتی اور کوتاہ مدتی مفادات کو طویل المیعاد مفادات پر ترجیح دینے کی وجہ سے۔
آج حالات پر نگاہ ڈالیں! سامراج کی پالیسی فلسطینی گروہوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانا ہے، عراقی گروہوں کو آپس میں لڑانا ہے، شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانا ہے، عرب و غیر عرب ملکوں میں اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ یہ ساری پالیسیاں جانی پہچانی ہیں، ہم سب کو اس کا سب سے پہلے علاج کرنا چاہئے۔ ہم یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ امت اسلامی کا اتحاد ایک ضرورت ہے۔ اسلامی یکجہتی میں ایک طرح سے سارا عالم اسلام شامل ہے۔ ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔ اسلامی حکومتوں کو بھی اور اسلامی قوموں کو بھی۔ اسلامی حکومتیں اتحاد قائم کرنے کے لئے اسلامی قوموں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرکے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
بہت سی چیزیں اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان میں اہم ترین بعض غلط فہمیاں اور جہالت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ہم ایک دوسرے کے سلسلے میں توہمات کا شکار ہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد و افکار کے بارے میں غلطیوں کا شکار ہیں۔ شیعہ سنی کے بارے میں، سنی شیعہ کے تعلق سے، ایک قوم دوسری قوم کے تعلق سے، اپنے ہمسائے کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور دشمن بھی غلط فہمیوں کو پوری طرح سے ہوا دے رہا ہے اور افسوس کہ کچھ لوگ ان غلط فہمیوں کے زیر اثر غلط تجزئے کرتے ہیں، دشمن کی جامع سازش کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اس کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتے ہیں اور دشمن ان سےغلط فائدہ اٹھاتا ہے۔ کبھی کبھی ایک چھوٹا سا محرک انسان کو بیانات دینے اور موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ دشمن اس سے اپنی سازش کے حق میں استفادہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔
عصر حاضر میں عالم اسلام کے مسائل کا بنیادی حل اتحاد ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں متحد ہونا ہوگا، علما اور دانشور حضرات مل بیٹھ کر اسلامی اتحاد کا منشور تیار کریں۔ ایسا منشور تیار کریں کہ کج فہم و متعصب اور اغیار پر منحصر افراد مسلمانوں کی بڑی جماعت کو آسانی سے اسلام سے خارج قرار نہ دے سکیں اور ان کے خلاف کفر کا فتوی نہ دے سکیں۔ آج تاریخ اسلام علما و دانشوروں سے تقاضہ کر رہی ہے کہ اس طرح کا منشور تیار کیا جائے۔ اگر آپ نے یہ کام انجام نہ دیا تو آئندہ آنے والی نسلیں آپ کا مواخذہ کریں گی۔ آپ دشمن کے اقدامات کو دیکھ رہے ہیں، اسلامی تشخص کو نابود کرنے اور اسلامی امت میں اختلافات ڈالنے کے لئے اس کی کوششوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور علاج تلاش کریں! اصول دین کو فروع دین پر ترجیح دیں! فروع دین میں ممکن ہے ایک مذہب کے پیروکاروں کے درمیان اختلاف موجود ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مسلمانوں کے درمیان بہت سے اشتراکات پائے جاتے ہیں۔ ان اشتراکات کے محور پر سب اکٹھا ہوں۔ دشمن کی سازشوں اور چالوں سے ہوشیار رہیں۔ خواص ( اہل علم) آپس میں مذہبی امور پر بحث و گفتگو کریں لیکن عوام میں یہ بحثیں نہ لے جائیں۔ ایک دوسرے کی نسبت دلوں میں کدورت پیدا نہ کریں۔ اسلامی فرقوں، اسلامی قوموں اور ایک قوم کے مختلف گرہوں کے درمیان دشمنیوں میں اضافہ نہ کریں۔
سامراج اسلام کو نابود کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ ہم سب کو یہ بات سمجھنی ہوگی۔ سامراج کی نظر میں شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سامراج ہر اس قوم، گروہ اور شخصیت سے خطرہ محسوس کرتا ہے جو اسلام پر زیادہ عمل کرے کیونکہ اسلام در حقیقت سامراج کے تسلط پسندانہ اہداف و مقاصد کے لئے خطرہ ہے، غیر مسلم قوموں کے لئے نہیں۔ سامراج اس کے برخلاف پروپیگنڈا کرتا ہے۔ سامراج فنون لطیفہ، تشہیراتی ہتھکنڈوں، سیاست اور ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ اسلام دوسری قوموں اور ادیان کے لئے خطرہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اسلام دیگر ادیان کا مخالف نہیں ہے۔ اسلام وہی دین ہے کہ جب اسلامی سپاہ نے غیر مسلم سرزمینیں فتح کیں تو دیگر ادیان کے پیروکاروں نے اسلامی رحمت و مہربانی پر شکر و امتنان کا اظہار کیا اور مسلمانوں سے کہا کہ آپ ہم پر ہمارے سابق حکمرانوں سے زیادہ مہربان ہیں۔ اسی شام کے علاقے میں جب مسلمان فاتحین داخل ہوئے تو یہاں بسنے والے یہودیوں اور عیسائيوں نے مسلمانوں سے کہا کہ آپ لوگ بڑی مہربانی سے ہمارے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ مسلمانوں نے عوام کے ساتھ نرم رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ اسلام دین رافت و رحمت ہے۔ رحمۃ للعالمین ہے۔ اسلام عیسائيت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم ان کے ساتھ اشتراکات کا جائزہ لیتا ہے۔ اسلام دیگر قوموں کا مخالف نہیں ہے۔ دیگر ادیان کا مخالفت نہیں ہے بلکہ ظلم کا مخالف ہے، سامراج کا مخالف ہے، تسلط پسندی کا مخالف ہے، تسلط پسند ظالموں اور مستکبرین نے اس حقیقت کو توڑ مروڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ تمام تر وسائل سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہالیوڈ سے لیکر تشہیراتی وسائل و ذرائع نیز ہتھیاروں اور فوجی طاقت تک سب سے استفادہ کرتے ہیں تاکہ اس حقیقت کو دنیا کے سامنے توڑ مروڑ کر پیش کر سکیں۔
اسلام و اسلامی بیداری سامراج کے لئے خطرہ ہے اور سامراج جہاں بھی اس خطرے سے روبرو ہوتا ہے وہاں حملے شروع کر دیتا ہے۔ خواہ سنی ہوں یا شیعہ ہوں۔ سامراج فلسطین میں تحریک حماس کو جس نگاہ سے دیکھتا ہے اسی نگاہ سے حزب اللہ لبنان کو بھی دیکھتا ہے۔ سامراج کی نظر میں اسلام کے پابند مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ ہوں۔ کیا یہ عقلمندی ہے کہ ہم اپنے درمیان قوم پرستانہ رویہ اختیار کریں؟ مذہب و فرقے کی نظر سے ایک دوسرے کو دیکھیں؟ ایک دوسرے سے دست بگریباں ہو جائیں؟ یہ بھول جائیں کہ مشترکہ دشمن ہمیں نابود کرنے کے در پے ہے، کیا اپنی صلاحیتوں کو اس طرح ضائع کرنا عقلمندی ہے؟
عالم اسلام کو اپنی عزت و وقار کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی خود مختاری کے لئے جد و جہد کرنی چاہئے۔ علمی ترقی اور روحانی کمال حاصل کرنے یعنی دین پر قائم رہنے، خدا پر توکل کرنے اور خدا کی امداد پر یقین کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ و عداتک لعبادک منجزۃ یہ خدا کا وعدہ ہے جو ضرور پورا ہوکر رہے گا کیونکہ ولینصرن اللہ من ینصرہ اس پر تاکید ہے۔ اس وعدہ الہی پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیں میدان عمل میں اترنا چاہئے۔ عمل سے مراد صرف بندوق اٹھانا نہیں ہے۔ عمل سے مراد فکری سرگرمی بھی ہے۔ عقلی، علمی، سماجی اور سیاسی عمل بھی ہے۔ سب کو راہ خدا میں اور اتحاد کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس سے قوموں کو بھی فائدہ ہوگا اور اسلامی حکومتوں کو بھی۔ اسلامی حکومتیں اگر اسلامی امت کے بحر بیکراں سے متصل ہو جائیں تو طاقتور ہو جائيں گی لیکن امریکی سفیر یا کسی امریکی سیاسی رہنما سے وابستگی انہیں طاقت عطا نہیں کرے گی۔
امتیں عالم اسلام اور امت اسلامی کے عظیم ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے متصل ہو جائیں۔ ایک دوسرے سے نزدیک ہو جائیں تو کیا سامراج کسی اسلامی حکومت کو نشانہ بناکر اسے عالم اسلام سے جدا کرنے اور اس پر تسلط جمانے کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو نشانہ بنانے کی جرئت کر سکتا ہے؟ ہم سب کو اس مسئلے پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ اسلامی حکومتوں کو متحد ہونا چاہئے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ یہ کام کر سکتی ہیں۔
ہم نے اسلامی امت کو اس تجربے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملت ایران نے استقامت، خدا پر توکل اور خود اعتمادی کے اپنے تجربے عالم اسلام کے سامنے رکھے ہیں۔ عالم اسلام دیکھ سکتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو 28 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان 28 برسوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گيا کہ سامراج نے ہماری قوم کے خلاف کوشش نہ کی ہو اور ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے پیشرفت نہ کی ہو، ترقی نہ کی ہو اور مزید طاقتور نہ ہوئے ہوں۔
خدایا! امت اسلامی کو اپنی رحمت و عنایت و امداد میں شامل کر۔ حاضرین اور امت اسلامی کو اس عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روح مطہر کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں یہ راہ دکھائی۔ خدا ہمارے شہیدوں کو اعلی درجات عطا کرے جو اس راہ پر گامزن رہے اور اس راہ میں جد و جہد کی۔ امید ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی دعائیں تمام مسلمان قوموں کے شامل حال ہوں گی۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ