اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

الحمد للہ آج کا دن ایرانی قوم کے لیے ایک مبارک دن ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم اپنی برکتیں اس ملت کے تمام طبقوں، حکام اور عزیز صدر پر نازل فرمائے گا کہ جنہوں نے آج باضابطہ طور پر ذمہ داری سنبھالی ہے اور انشاءاللہ ہم سب عنایات الہی کے پرتو اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی نیک دعاؤں سے مستفیض ہوں گے۔ ہم عرض کرتے ہیں یہ عظیم الہی عطیہ انشاءاللہ قوم کے لیے ایک جاوداں اور عظیم برکتوں کا حامل عطیہ ہوگا۔
الحمد للہ اس حساس موڑ پر ملک کے حالات ایسے ہیں کہ یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ ہر ملک و قوم کے ایسے حالات ہوں اور ہر ملک و قوم ایسے سرمائے کی حامل ہو۔ قوم یہ حق رکھتی ہے کہ منطقی اور بجا امید کے ساتھ اپنے مستقبل کو دیکھے۔ پہلی بات یہ ہے کہ تمام حالات و واقعات میں الہی لطف و کرم اور پروردگار کی مدد و اعانت کی نشانیاں صاف طور پر دیکھتا ہوں۔ یہی تین کروڑ رائے دہندگان کی انتخابات میں شرکت، اسلامی جمہوری نظام پر پروردگار کے لطف و کرم کی مظہر ہے۔ ٹھیک اس وقت جب ان ممالک کی جانب سے کہ جو جمہوریت کے دعویدار ہیں، تشہیراتی ہنگامہ آرائیوں میں یہ دعوے کیے جا رہے تھے کہ ملت ایران انقلاب اور نظام سے قطع تعلق کر چکی ہے اور اس نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے کاز اور امنگوں سے منہ موڑ لیا ہے، ملت میدان میں اتری اور اپنے فریضہ اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اتنے پرشکوہ اور باعظمت انتخابات منعقد کیے کہ ابتدائے انقلاب سے اب تک اس جیسے انتخابات بہت کم دیکھے گئے ہیں۔ دیکھئے کہ یہ کتنے عظیم لطف الہی کا مظہر ہے؟! جیسا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا اور میں نے خود بھی اپنی مختلف ذمہ داریوں کے دور میں اس کا تجربہ کیا ہے کہ ہمیشہ مشکلات اور مصائب میں دست قدرت الہی نے ہماری مدد کی ہے۔
میرے عزیزو! یہ جان لیجیے کہ کبھی کبھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ملکی حکام، وہ لوگ کہ جو واقعات سے آگاہ ہیں، پس پردہ حقائق سے مطلع ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان واقعات کا عامل و سبب ایک معمولی اور فطری عامل نہیں ہو سکتا تھا اور عنایت الہی کے سوا کوئي چیز بھی اس واقعہ کے پیچھے کارفرما نہیں ہے۔ ہم اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں۔ قرآن کے ناطق ہونے کا یہی تو مفہوم ہے۔ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس ملت سے زیادہ کس نے دین خدا کی نصرت کی ہے اور خطرات کے میدانوں میں قدم رکھے ہیں؟ بنابریں الہی نصرت ایک فطری اور بدیہی امر ہے۔ یہ نعمت ہمارے پاس تھی؛ اس کے بعد بھی انشاءاللہ ہمارے پاس ہوگی۔ یہ اہم بات ہے کہ ہماری اکثر یا تمام توانائیوں میں یہی چیز شامل ہے۔ ایک اور اہم چیز کہ جس پر توجہ دینی چاہیے، یہ عظیم قوم ہے؛ ایک ایسی قوم جو حکومت کے ساتھ ہے، برسراقتدار نظام کی حامی ہے اور جب بھی ضرورت ہو اس کی راہ میں قربانیاں دیتی ہے۔ باایمان قوم، میدان میں موجود قوم کا ماضی ظاہر کرتا ہے کہ جہاں بھی ضروری ہوا کہ وہ اپنے اسلامی ملک اور اسلام کا دفاع کرے، پوری طاقت و ہمت کے ساتھ میدان میں داخل ہوتی ہے اور دفاع کرتی ہے۔ ماضی میں ایسا تھا آئندہ بھی انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا۔ جنگ کے میدان نے بھی یہ بتایا ہے۔ اس سے قبل انقلاب کے میدان نے بھی بتا دیا تھا۔ تعمیرنو کا میدان بھی اس کا گواہ ہے- ان حالیہ برسوں کے دوران ثابت ہو گيا کہ جہاں بھی لوگوں کی موجودگي ضروری ہوئی، یہ قوم صدق دل اور جوش و جذبے کے ساتھ حاضر ہوتی ہے۔
یہ عوام کسی پر احسان بھی نہیں جتاتے۔ اپنے فریضے اور ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں اور میدان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مستقبل میں بھی اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔ البتہ بعید ہے کہ ہمیں مستقبل میں کسی فوجی مہم جوئي کا سامنا کرنا پڑے؛ لیکن فرض کریں کہ اگر کوئی شخص یا نظام خدانخواستہ اس فکر و سوچ میں پڑ جائے کہ ایرانی عوام کے ساتھ فوجی زورآزمائی کرے، تو ایک بار پھر اس کا سامنا اس قوم، انہی نوجوانوں اور انہی مصروف کار مؤمنین سے ہے کہ جو ہر جگہ اپنے ایمان کا جوہر دکھاتے ہیں۔ قوم نے انتخابات میں دکھا دیا؛ سیاسی میدانوں میں بھی، ریلیوں میں اور فیصلوں میں بھی ثابت کر دیا ہے۔ یہ قوم ایک عظیم سرمایہ ہے۔ یہ قوم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ساتھ ہے؛ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے راستے پر ہے۔ اس وقت بھی اس قوم اور اس کے دلوں میں محبوب ترین انسان ہمارے بزرگوار امام خمینی ہیں۔ دوسرے جو بھی کہنا چاہیں کہیں، جیسا بھی تجزیہ و تحلیل کرنا چاہیں کریں۔
بعض لوگوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ بیٹھ کر یہ دیکھتے ہیں کہ صیہونیوں، سامراجیوں اور سرمایہ داروں سے وابستہ خبررساں ادارے کہ جو اسلام، مسلمانوں اور اسلامی نظام کے مخالف ہیں، ایران کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟! معلوم ہے کہ وہ حقیقت بیان نہیں کر سکتے! حتی حقیقت کا ادراک بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ہماری قوم کو نہیں جانتے ہیں، ہمارے ملک کو نہیں پہچانتے ہیں، ہمارے نظام کو نہیں سمجھتے ہیں، ہمارے حکام کو نہیں جانتے ہیں، ہماری شخصیات کو نہیں جانتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کتنی غلطیاں کرتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہماری شخصیات کے بارے میں کس طرح اظہار خیال کرتے ہیں؟! یہاں تک کہ جو بھی باخبر اور آگاہ افراد ہیں وہ ان کی سادہ لوحی پر ہنستے ہیں۔ وہ اپنی آرزوئیں اپنی زبانوں پر لاتے ہیں: وہی بلی کے خواب میں چھیچھڑے کی داستان ہے! جو بھی ان کے دل میں ہے اور جو وہ چاہتے ہیں وہی تجزیہ و تحلیل کی شکل میں بیان کرتے ہیں۔ یہ ایرانی قوم کی حالت کی عکاسی نہیں ہے۔ ایرانی قوم کی حالت کی عکاسی یہ ہے کہ جو آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ ایرانی قوم کی حالت کا آئینہ آٹھ برسوں کے دوران دفاع مقدس کا میدان ہے۔ ایرانی قوم کی حالت کی عکاسی ان انتخابات میں تین کروڑ افراد کی شرکت ہے۔ ایرانی قوم مسلمان، انقلابی، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر یقین رکھنے والی، اسلامی نظام میں دلچسپی لینے والی اور ان اقدار کے دفاع کے لیے آمادہ قوم ہے کہ جن پر وہ یقین رکھتی ہے اور جن پر کاربند ہے۔ یہ ایک عظیم سرمایہ ہے۔ جس حکومت کے پشت پر ایسی قوم وملت ہو اسے اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید رہنا چاہئے اور قدرت و طاقت کا احساس کرنا چاہیے۔ اسے یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ کام کر سکتی ہے۔ اسے احساس کرنا چاہئے کہ اس کا فریضہ ہے کہ کام کرے۔
میں آئندہ حکومت کے عہدیداروں اور عزیز صدر کو جس بات کی یاددہانی کرانا چاہتا ہوں ویسے الحمدللہ خود ان کی بھی ان نکات کی طرف توجہ ہے، وہ بات یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحلے میں ہماری تمام تر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس قوم کو پہچانیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عوام کی خواہشات اور ضروریات کو پورا کریں۔ یہ قوم ہماری گردن پر بہت زیادہ حق رکھتی ہے۔ یہی قوم ہے کہ جس نے ملک کی حفاظت کی ہے اور یہی قوم ہے کہ جو حقیقت میں قدرت پروردگار کی نشانی ہے۔
میں نے صدارتی حکم کی توثیق کے مواقع کی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی گفتگو پڑھی۔ میں نے دیکھا کہ چاہے سامنے کوئي بھی ہو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) عوام اور قوم کے بارے میں بات کرتے تھے۔ یہ وہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خاص حکمت ہے؛ وہی چیز ہے کہ جس کا کسی بھی زاوئے سے جائزہ لیا جائے، یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بالکل درست حکمت عملی ہے، یہی سب سے بہتر روش ہے۔ خاص طور پر محروم طبقے، غریب طبقے اور عوام میں سے کمزور لوگ ہیں کہ جو انقلاب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور مختلف حکومتوں کے وفادار اور ان کے حامی مددگار تھے، اسی طرح آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ وہ حضرات جو انشاءاللہ مستقبل قریب میں ذمہ داریاں سنبھالیں گے، ان سے جتنا ہو سکے اس دائمی ذخیرے سے استفادہ کریں اور جتنی ان کی طاقت ہے ان کے لیے خدمت اور کام کریں۔ موجودہ صورت حال کا تقاضا یہی ہے۔ یہ وہ ملک ہے کہ جس میں تعمیرنو کے لیے بنیادی اور بڑے قدم اٹھائے جا چکے ہیں۔
شاید گزشتہ (شاہی) حکومت کے پورے دور میں، تعمیرنو کے میدان میں اس ملک میں ان حالیہ چند برسوں کے دوران جو کچھ انجام پایا ہے حتی اس کا ایک حصہ بھی انجام نہیں پایا تھا؛ کیونکہ کام کو کیفیت اور مقدار دونوں لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ وہ ملک کے لیے جو کام کرتے تھے وہ مقدار کے لحاظ سے بھی اس سے بہت کم ہے جو اس مختصر مدت میں انجام پایا ہے، کیفیت کے لحاظ سے وہ کام معیاری نہیں تھا۔ کیونکہ اس میں اس قوم کی آزادی و خودمختاری کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ اُس حکومت کی پالیسی کی بنیاد اغیار پر انحصار تھا۔ کچھ نسبتاٌ شجاع اور بہادر حکومتی عہدیدار ایک دن رضا خان کے زمانے میں سامنے آئے اور تیل کا ایک معاہدہ تحریر کیا کہ جس میں ملت ایران کے مفادات کا کسی حد تک لحاظ رکھا گيا تھا۔ انگریزوں کی خاطر رضا خان اپنے فوجی بوٹوں کے ساتھ کابینہ کے کمرے میں داخل ہوا اور ان کی اس تحریر کو لے کر انگیٹھی کی آگ میں ڈال دیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے جلا کر راکھ کر دیا۔ یہ وہ چیز ہے جو خود انہوں نے لکھی ہے۔ تقی زادہ اور ان جیسے دیگر افراد نے یہ واقعہ لکھا ہے۔
ان کی پالیسی اغیار پر انحصار کی پالیسی تھی۔ ریلوے لائن بھی جو بچھاتے تھے وہ ایران اور ایرانی تجارت کے بجائے اتحادیوں کے دو محاذوں کو ملانے کے لیے تھی کیونکہ اس زمانے میں انہیں جرمنی کے خلاف جنگ کرنا تھی۔ ملکی ریلوے لائن کی حقیقت یہ ہے! شمال اورجنوب کی ریلوے لائن اس لیے تھی کہ اس وقت کے سوویت یونین کو جنوب سے، کہ جہاں خلیج فارس میں انگریزوں کا اڈہ تھا، ملا دیا جائے تاکہ وہ ہتھیارمنتقل کر سکیں اور جرمنی اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کے محاذوں پر برطانیہ اور اس کے اتحادی اپنا دفاع کرنے پر قادر ہوں۔ ریلوے لائن بھی اس لیے بچھائی جاتی تھی۔ گزشتہ حکومت کے بچے کھچے افراد اور منحوس حکومت کے حامی و طرفدار پچاس سال گزرنے کے بعد اب بھی شمال و جنوب ریلوے لائن کی بات کرتے ہیں؛ وہ ریلوے لائن جو خیانت پر مبنی منصوبے اور اس قوم کی آزادی و خودمختاری سے بےتوجہی کی بنیاد پر بچھائی گئی اور اس میں اس قوم کی عزت و آبرو کا خیال نہیں رکھا گيا۔
اب آپ ملاحظہ کیجیے! مسلط کردہ جنگ کے بعد ایران میں جو عظیم ریلوے لائن بچھائی گئی، وہی چیز ہے کہ جس کی ملت ایران کو ضرورت ہے۔ ایک مستشرق، کہ جو اسی زمانے میں ایران آیا اور یہاں کی سیاحت کی، کہتا ہے: مجھے تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح ایران کی ریلوے لائن ان شہروں سے نہیں گزری ہے کہ جو ایرانی تجارت کے اہم مراکز ہیں؟ (یہی جگہیں کہ آج الحمد للہ اسلامی جمہوریہ کی برکت سے، ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح رابطوں سے جڑ گئي ہیں)۔
اسلامی جمہوریہ سے قبل اس مملکت میں انجام پانے والے کاموں کا کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے عوامی اور خدائی نظام- اسلامی جمہوریہ- میں انجام پانے والے کاموں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ معنویت اور ایمان سے مربوط نظام کا مطلب یہی ہوتا ہے۔ جس نظام کے پیچھے عوام اور عوامی ووٹوں کی عظیم طاقت ہوتی ہے، اس کے ساتھ عوام کی مدد، حمایت اور ان کے جذبات ہوتے ہیں؛ اگر وہ قوم ایمان معنویت اخوت و بھائی چارے، ہم آہنگي، خدا پر توکل اور غیب پر ایمان کی دولت سے مالامال ہے تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ ان تمام تر مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود کہ جو اس ملت کے ساتھ کی گئيں، مختلف قسم کے سیاسی اقتصادی اور تشہیراتی محاصروں کے باوجود اس قوم نے ہر آنے والی حکومت کی حمایت کی اور حکومتیں بھی اس قسم کے ملک کو تعمیرنو اور ترقی کے لحاظ سے اور سیاسی بین الاقوامی عزت و آبرو اور قومی طاقت و اقتدار کے پہلوؤں سے آگے لے جانے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ وہ اقدار ہیں جن سے ہمارا ملک آراستہ ہے اور الحمدللہ ہماری حکومتیں ان سب کی حامل ہیں اور رہیں گي۔ یہ عظیم الہی نعمتوں کا مظہر اور وہی دست قدرت خداوندی ہے کہ جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ خداوند متعال ہمیشہ اس نظام کا پشتپناہ رہا ہے اور رہے گا۔
البتہ میں نے نصیحت کی ہے اور سفارش و تاکید کرتا ہوں کہ غربت، عدم مساوات اور امتیاز و تفریق کا کہ جو گزشتہ طاغوتوں کی میراث ہے، اس ملک سے خاتمہ کر دیا جائے۔ میں نے اس کے لیے کافی کوشش کی ہے اور کر رہا ہوں اور میری نصیحت یہ ہے کہ دوسرے بھی اسی طرح عمل کریں۔
میرے عزیزو! اسلامی نظام سرمایہ دارانہ نظام نہیں ہے۔ میں نے چار سال قبل، اسی جگہ پر- صدارتی حکم کی توثیق کے دن- اسی بات کو حاضرین کے سامنے عرض کرتے ہوئے کہا تھا:> قومی آمدنی میں اضافہ ہونا چاہیے، دولت زیادہ ہونی چاہیے، اقتصادی کوششوں کی حمایت کی جانی چاہیے؛ قوانین بھی ان کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ انتظامی طاقت کا رخ بھی اسی جانب ہے۔ سرمایہ دار ملک- وہ بھی سب نہیں بلکہ بعض- حداکثر یہ کام کرتے ہیں کہ مظلوم اور محروم طبقات کے لیے بیمہ اور انشورنس وغیرہ رکھ دیتے ہیں تا کہ کم سے کم چیز ان تک بھی پہنچ جائے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔
اسلامی نظام ایسا نہیں ہے۔ اسلامی نظام کہتا ہے:> بنیاد، عدل و انصاف ہے۔ البتہ دولت کی پیداوار ہوتی ہے۔ اسلامی نظام ایک غریب معاشرہ نہیں چاہتا۔ ایک غریب قوم اور معمولی عام آمدنی نہیں چاہتا۔ دولت و ثروت سے استفادہ کرتا ہے؛ علم کو ترقی دیتا ہے، قدرتی ذخائر کو زمین سے باہر نکالتا ہے، انسانوں کو عقل کی پختگی تک پہنچاتا ہے، تجارت کرتا ہے اور صنعت و کارخانے لگاتا ہے۔
تاریخ اسلام نے بتایا ہے کہ اسلام انہی نورانی احکام کی برکت سے، ایک طویل عرصے تک پوری دنیا میں صاحب علم و صنعت رہا ہے لیکن ان سب کی جہت و سمت عدل و انصاف ہے۔ دولت ہے؛ لیکن معاشرے میں عدل و انصاف کی ضمانت ہونی چاہیے۔ عدل و انصاف کے لیے ہم امام زمانہ کے منتظر ہیں۔ پیغمبر آئے؛ سبھی عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے آئے؛ >۔ یہ بہت بامعنی باتیں ہیں کہ جو قرآن نے ہمیں بتائي ہیں، نہج البلاغہ نے ہمیں بتا‏ئی ہیں اور ائمہ کی روایات میں مذکور ہیں۔
یہ جہت اور سمت کو واضح کرتی ہیں۔ قسط (عدل و انصاف کا قیام) یعنی یہی۔ ہم نہیں کہتے کہ سب یکساں ہوں، کیونکہ یکساں ہونے کا امکان نہیں ہے۔ بالآخر کوششیں، ہمتیں اور طاقتیں مختلف ہیں۔ بعض زیادہ کوشش کرتے ہیں؛ بعض کم کرتے ہیں۔ بعض میں تخلیقی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ استعداد ایک جیسی نہیں ہے۔ > لوگ صلاحیت و استعداد میں مختلف ہوتے ہیں۔ بحث اس پر نہیں ہے کہ یکساں ہوں۔ بحث اس پر ہے کہ اپنی استعداد کے مطابق کام کریں اور اپنی ہمت کے مطابق کوشش کریں اور سب اپنی قدرت و طاقت کے مطابق نتیجہ حاصل کریں۔ کوئی محروم نہ رہے، کوئی مظلوم نہ رہے؛ کوئی کچلا ہوا نہ رہے۔ یہی اصلی ہدف و مقصد ہے۔
ہم جو برسراقتدار آئے ہیں- جب جدوجہد کا وقت تھا ہم نے کوشش کی، جب ذمہ داری سنبھالنے کی پیشکش کی گئی، بہرصورت اسے قبول کیا تو اسی مقصد کے حصول کے لیے تھا۔ جو لوگ ہماری ثقافت سے آشنا نہیں ہیں انہیں بھی باور کر لینا چاہئے اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یقین نہیں کریں گے کہ ہمارے لیے ان عہدوں میں کوئی کشش نہیں ہے۔ ہمارے اپنے جانتے ہیں۔ جو لوگ قریب سے اس ثقافت اور ان اشخاص سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں۔ یہ ذمہ داریاں صرف عدل و انصاف قائم کرنے، اللہ کا حکم نافذ کرنے اور لوگوں کے سامنے حق کا راستہ ہموار کرنے کے لیے قدروقیمت، محبوبیت اور کشش رکھتی ہیں۔ کوشش اسی کے لیے ہونی چاہیے۔
البتہ اس سلسلے میں کام ہوا ہے۔ میں اگر نہ کہوں کہ ہمارے عزیز بھائیوں نے گزشتہ ادوار میں مختلف ذمہ داریوں میں اس کام کے لیے کتنی کوشش کی ہے، توکفران نعمت ہوگا۔ لیکن ہم نے اب تک جو راستہ طے کیا ہے اس سے طویل راستہ ابھی در پیش ہے۔ اب تک ہم نے جو کام انجام دیا ہے اس سے زیادہ کام انجام دینا باقی۔ یہ اہم مسئلہ ہے۔ حکومت کے کام کی بنیاد اس پر استوار ہونی چاہیے۔ چاہے ثقافتی میدان ہو، چاہے اقتصادی میدان ہو اور چاہے تعمیرنو کا میدان ہو، سمت یہی ہونی چاہیے؛ فعالیت اور کام مختلف قسم کے ہیں۔
خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انتخابات اچھے اور انتہائی نیک نتیجے کے ساتھ منعقد ہوئے اور لوگ بھی خوش تھے۔ آج انسان محسوس کرتا ہے کہ ہماری قوم اور ملک کی عمومی فضا کے لیے یہ عید کے ایک دن کی مانند ہے اور یہ بھی پروردگار کا لطف و کرم ہے۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اس دن اور اس واقعہ کو مبارک و مسعود اور اپنی برکات و الطاف میں شامل قرار دے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اس قوم سے ہر شر و بلا کو دور کرے گا؛ اس قوم کے دشمنوں کو سرنگوں فرمائے گا اور اس قوم کو اس کی عظیم آرزوؤں تک پہنچائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ عزیز صدر اور ان کے حکام کو کہ جن کا انتخاب ہو گا در پیش اہم کاموں میں کامیاب فرمائے گا؛ خداوند عالم حضرت ولی عصر کے قلب مقدس کو ہم سب سے راضی و خوشنود کرے؛ امام بزرگوار (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مبارک کو جو یقینا ان واقعات اور تقریبات سے خوش ہے ہمیشہ خوش اور شاد رکھے اور ہمارے عظیم الشان شہدا کی پاک ارواح کو پیغمبر اور ان کی آل کے ساتھ محشور فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔