قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ اسلامی جمہوریہ کے لئے ایک نیا تجربہ ہے کہ الحمدللہ ایک حکومت ایک طویل دور کے اختتام پر- کہ جو دو دور صدارت پر مشتمل ہے- اپنے کام کی ایک واضح اور ابہام سے عاری رپورٹ پیش کر سکتی ہے اور جو کچھ اس نے انجام دیا ہے اس پر ضمیر کے اطمینان اور عوام کی اچھی خدمت پر اطمینان کے احساس کے ساتھ خدمت کا میدان دوسری حکومت کے حوالے کر سکتی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ انشاءاللہ خداوند متعال جناب ہاشمی رفسنجانی اور دیگر افراد- ان کے محترم ساتھیوں- کو اجر کثیر عطا کرے گا۔ میں بھی اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہوں کہ جناب عالی- جناب ہاشمی رفسنجانی- اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں اپنے احساسات بیان کروں۔
یہ آٹھ سالہ دور ملک کے لیے ایک ایسا دور تھا کہ جس میں بہت کام ہوا۔ کوشش کی گئی اور اس کا نتیجہ حاصل ہوا۔ یہ حقیقتا تعمیرنو کا دور تھا۔ تعمیر نو ہمارے لیے ایک آرزو تھی۔
مجھے یہ بات نہیں بھولی ہے کہ جنگ کے بعد کے دنوں میں اس اجلاس میں کہ جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حکم سے تشکیل پایا تھا، کچھ افراد ملک کی تعمیرنو کے اصلی خطوط وضع کرنے کے لیے بیٹھے؛ خود ہماری نظر میں ہم نے ان تحریروں میں عظیم آرزوؤں کا ذکر کیا، بحث کی اور تصور کیا کہ انشاءاللہ چند برسوں میں پوری ہو جائيں گی۔ جو کچھ اس آٹھ سالہ دور صدارت میں رونما ہوا اس سے زیادہ ہے جس کی ہم نے اس دن آرزو کی تھی لہذا حقیقی معنی میں ملک کی تعمیرنو ہوئي ہے۔
وہ ملک کہ جو جنگ کی تباہ کاریوں سے قبل بھی، گزشتہ حکومت سے حقیقتاً کوئي قابل توجہ اور قابل ذکر بنیادی میراث کا حامل نہیں تھا- جو کچھ تھا بھی اور کئی برسوں کے دوران حاصل ہوا تھا، جنگ نے ہم سے چھین لیا۔ جنگ کے بعد ملک کو بنانا اور چلانا، لوگوں کو کام پر لگانا، کام، کوشش، جدت پسندی، تعمیرنو اور نئی تمیر کے احساس کا جذبہ پیدا کرنا، بلند ہمت اور مسلسل کام کا متقاضی تھا، کہ اس حکومت نے یہ فریضہ اپنے ذمہ لیا اور کامیابی سے انجام دیا۔
میں آپ کو ان آٹھ سالہ زحمتوں پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ان تمام بھائیوں کو جو آپ کی حکومت میں ہیں یا تھے- بعض لوگ ایسے تھے جو اس عرصے کے دوران چلے گئے- ان کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے تمام میدانوں میں بہت زحمت اور محنت کی، بہت کام کیا اور حقیقتاً ملک کو آگے لے کر آئے۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہماری تمام آرزوئیں پوری ہو گئی ہیں۔ سماجی انصاف اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مسائل کی مانند مسائل جیسے بہت سے کام باقی ہیں کہ جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمل ہونا چاہیے اور انشاءاللہ بعد میں آنے والی حکومتیں انہیں انجام دیں گی لیکن جو چيز اس حکومت کے ذمہ تھی اور آٹھ برسوں کے دوران تعمیرنو کے میدان میں جو انجام پانا چاہیے تھا وہ الحمدللہ بہترین طریقے سے انجام پایا ہے۔ خداوند عالم آپ سب کو اجر دے اور آپ سے راضی ہو اور آپ کی کوشش اور آپ کے کام کے نتائج میں برکت دے کہ بعد کے کاموں کے لیے ایک اچھی بنیاد بن سکیں۔
میں ضروری سمجھتا ہوں- خصوصاً- اس حکومت کی کامیابی کے بعض علل و اسباب کے بارے میں اپنی رائے بیان کروں۔ یہ لوگوں کے لیے بھی مفید ہے اور ان حکام کے لیے بھی بلاشبہ فائدہ مند ہے کہ جو بعد میں آئيں گے۔
اس کا ایک قابل لحاظ حصہ جناب ہاشمی کی خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے؛ یعنی واقعی ان میں بعض ایسی خصوصیات ہیں کہ جنہوں نے ان کامیابیوں میں بہت گہرا اثر ڈالا ہے؛ جیسے ان میں کام کرنے، زیادہ کام کرنے کا جذبہ ہونا، تخلیقی صلاحیت اور جدت پسندی کا جذبہ، نئے اور جدید میدانوں میں داخل ہونا، تعمیرنو کے کام میں بلند ہمتی سے کام لینا اور بڑے منصوبوں سے نہ گھبرانا، بڑے بڑے کاموں کے سلسلے میں بہادری سے اقدام کرنا اور کھلے ذہن کے ساتھ انتظامی امور چلانا اور یہ ان کے ساتھیوں کو یہ امکان فراہم کرتا تھا کہ وہ اپنی کوشش اور تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لائیں اور ان سے استفادہ کریں۔
اپنی توانائي اور صلاحیت پر پختہ ایقان نے بھی بہت زیادہ کردار ادا کیا۔ اسی طرح مسائل و مشکلات کو پہچاننے اور ان کی راہ حل تلاش کرنے کی استعداد بھی ان خصوصیات کا ایک حصہ ہے کہ جو بلا شبہ مؤثر تھیں۔
کچھ خصوصیات کا تعلق کابینہ سے ہے، یہ بھی قابل توجہ ہیں۔ اس کا ایک حصہ ان افراد کی قابلیت سے تعلق رکھتا ہے کہ جو کابینہ اور حکومت میں موجود تھے۔ چاہے وہ وزیر تھے ان کے معاون تھے یا حکومت سے وابستہ اداروں کے عہدیدار تھے کہ یہ کسی حد تک مختلف ہیں۔
اس کے علاوہ کامیابیوں کے راز میں ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ یہ کابینہ ایک کام کرنے والی کابینہ تھی، نہ کہ ایک سیاسی کابینہ۔ کام کرنے والی کابینہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کابینہ میں جو افراد ہیں وہ اہل سیاست نہیں ہیں یا سیاست میں عمل دخل نہیں رکھتے؛ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کی مشترکہ خصوصیت تھی مسلسل کام کرنا اور ملک کا کام انجام دینے کا بھرپور اہتمام کرنا۔ اس نے بہت کردار ادا کیا اور بہت اچھا تجربہ تھا۔ ہم اس پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔
جناب ہاشمی ہمارے عوام میں ایک انقلابی، قابل، دیندار اور پرہیزگار عالم دین کے طور پر جانے جاتے ہیں اور یہ وہ خصوصیات ہیں جو ان میں بدرجہ اتم پائي جاتی ہیں۔
میں پورے آٹھ سال کے عرصے کے دوران آپ حضرات کے کاموں سے مطلع تھا؛ براہ راست رپورٹوں کے ذریعے بھی اور ان ذریعوں سے بھی جو اطلاع حاصل کرنے کے لیے میری دسترس میں تھے۔ اس کے علاوہ مسلسل طور پر- کم از کم ہفتے میں ایک بار- جناب ہاشمی رفسنجانی مجھ سے ملاقات کرتے تھے۔ ان ملاقاتوں اور میٹنگوں میں کاموں کی رپورٹ اور مسائل و مشکلات کو پیش کیا جاتا تھا اور مختلف امور میں اظہار نظر اور صلاح و مشورہ بھی کیا جاتا تھا۔ یہ میٹنگیں برکت سے معمور میٹنگیں تھیں۔
میں، حکومت جو کام انجام دیتی تھی، کبھی اس سے پوری طرح متفق ہوتا تھا اور اس پر یقین رکھتا تھا اور کبھی حکومت کے پروگرام کے بعض حصوں سے اختلاف کرتا تھا- ایسا بھی ہوا ہے کہ حکومت کے پورے پروگرام میں سے میں اس کے بعض حصوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ ان مقامات پر کہ جہاں میں یقین نہیں رکھتا تھا، کبھی میں ضروری سمجھتا تھا کہ اظہار نظر کروں اور اس میں تبدیلی چاہوں۔ کبھی ایسا نہیں کرتا تھا؛ اس حد تک ضروری نہیں سمجھتا تھا، بلکہ تجویز کے طور پر اپنی نظر دیتا تھا، تجویز دیتا تھا اور اس پر توجہ دی جاتی تھی، اقدام ہوتا تھا یا نہیں ہوتا تھا- ان تمام حالات میں میں اپنے آپ کو اس بات کا پابند سمجھتا تھا کہ میں اس حکومت کی حمایت کروں کہ جو حقیقتاً ایک خدمت گزار، باایمان اور لوگوں کے لیے خدمت گزاری اور رحم دلی کا جذبہ رکھنے والی حکومت تھی۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ لوگوں نے بھی واقعی آپ کی حکومت کی حمایت اور آپ کی قدردانی کی ہے۔
اب، اس حکومت کا دور اسی اچھے احساس کے ساتھ ختم ہو گيا ہے۔ دنیا میں تمام چیزیں اول و آخر کی حامل ہیں۔ ادوار کا ختم ہونا اور نئي چیزوں کا آنا تعجب کی بات نہیں ہے اور اس کے انکار کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم عمر کے اختتام پر خود اپنے کام کا محاسبہ کر سکیں- کہ > انسان کی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ اپنی گزشتہ زندگي کے امور میں چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے- کیا ہمارا ضمیر جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے، اس پر راضی اور خوش ہے یا نہیں؟
فرائض اور ذمہ داریوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ انسان کو اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے وقت، جب اپنے ماضی پر نظر ڈالتا ہے، یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اس نے وہ کام جو خدا اور اس کے ضمیر کو راضی کرے، انجام دیا ہے یا نہیں؟
خوش قسمتی سے آپ حضرات نے اچھا کام کیا؛ اچھی کوشش کی۔ البتہ یہ آپ کے فرائض و ذمہ داریوں اور کام کے دور کا اختتام نہیں ہے۔ اب یہ کام ختم ہوا ہے، لیکن بلاشبہ اسلامی جمہوریہ میں ہر انسان کی ذمہ داری اور فریضہ ہے آخری لمحوں تک۔ اس میں تھوڑی سی بھی توانائی ہے تو اس کو اپنے فرائض پر عمل کرنا چاہیے اور جس میدان میں بھی وہ خدمت کر سکتا ہے، ملک کی خدمت کرے۔
آپ سب کو تیار رہنا چاہیے کہ مختلف جگہوں پر- چاہے آئندہ حکومت میں، چاہے حکومت کے ساتھ رہ کر، چاہے بنیادی کاموں میں کہ جو ملکی امور سے تعلق رکھتے ہیں- آپ خود کو خدمت گزاری کے لیے آمادہ سمجھیے اور تیار رکھیے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔
یہ عہدے، مقام اور رتبے اپنی ذات میں کوئي اہمیت اور قدروقیمت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین نے فرمایا، >؛ مگر یہ کہ انسان ان وسائل سے جو اس کے اختیار میں دیۓ جاتے ہیں، حق کو قائم کر سکے؛ کام انجام دے سکے۔ ہمت اور حوصلہ یہ ہونا چاہیے اور اس سے ہی تسلی و اطمینان ہونا چاہیے۔
میں آپ کے لیے ان برسوں کے دوران مسلسل دعا کرتا رہا ہوں۔ جناب ہاشمی رفسنجانی کا نام لے کر دن میں کم از کم ایک بار- اور اس سے بھی زیادہ- اور آپ کے لیے بھی اسی طرح۔ عام طور پر دعا کرتا تھا۔ آئندہ بھی دعا کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ خداوند عالم آپ کو توفیق عطا کرے گا کہ مستقبل میں آپ کے ذمہ جو کام ہیں آپ انہیں بہترین طریقے سے انجام دے سکیں اور جو لوگ بعد میں آئیں گے وہ ان کاموں کو آگے بڑھا سکیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا، ایک ملک کو چلانا اور ایک ملک کے مسائل کو حل کرنا اور بڑی آرزوؤں کی تکمیل کا کام ایسا نہیں ہے کہ جو قلیل مدت میں انجام پائے۔ ان میں سے بعض کام- مثال کے طور پر یہی تعمیرنو کا کام ہے- بہترین طریقے سے انجام پایا ہے۔ دوسرے مراحل بھی ہمارے سامنے ہیں؛ دوسرے بڑے کام ہمارے سامنے ہیں کہ جنہیں انجام پانا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ جو لوگ بھی اس میدان میں ہوں گے اور ذمہ داریاں سنبھالیں گے، ان فرائض و ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے پورا کریں گے۔ میری نظر آپ کی خدمت اور کام کے اس دور کے بارے میں مثبت ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ عوام کا آپ سے راضی و مطمئن ہونا پروردگار کی خوشنودی اور رضا کا باعث بنے گا اور اگر کاموں میں کوئی کمی بھی رہ گئی تھی تو خداوند متعال اپنے لطف، رحمت اور فضل کے سے اس کو معاف فرمائے اور اپنی رحمت آپ کے شامل حال کرے۔
ایسا دیکھا گيا ہے، بعض اوقات کچھ افراد بعض حکام پر تنقید کرتے ہیں- بعض چیزوں کے بارے میں- تنقیدوں کا مطلب انجام شدہ کاموں اور خدمت کی نفی نہیں ہونا چاہیے۔ تنقید اپنی جگہ پر درست ہے؛ لیکن ان اشخاص کی خدمات کو کہ جنہوں نے مخلصانہ خدمت اور کوشش کی ہے، پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کہیں بھی تنقید کا مطلب خدمات اور بڑے کاموں کو نظرانداز کرنا نہیں ہے۔
ہمیں امید ہے انشاءاللہ خداوند متعال اپنا لطف و کرم ہم سب کے شامل حال کرے اور امام بزرگوار (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر کو آپ سے راضی و خوشنود کرے، اور انشاءاللہ ولی عصر ارواحنا فداہ کا قلب مقدس آپ سے راضی اور خوش رہے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1) ق : 22
2) نہج البلاغہ : خطبہ 33