آپ نے دفاعی، سائنسی اور سیاسی میدانوں میں ملت ایران کی مسلسل پیشرفت کا راز جہاد کی ثقافت سے ملت ایران کی آشنائی اور واقفیت کو قرار دیا اور فرمایا کہ اقتصادی مساعی اور اقتصادی جہاد میں فرق یہ ہے کہ اقتصادی جہاد ملک اور قوم کی ترقی کی راہ میں سد باب بن جانے والے دشمن کی موجودگی کی صورت میں کیا جاتا ہے اور در حقیقت یہ ایسا مقابلہ ہے جس میں عوام اور حکام سب شریک اور دخیل ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملت ایران کی پیشرفت کو روکنے کے لئے تسلط پسند طاقتوں کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جنوبی پارس گیس فیلڈ میں جو عظیم کام انجام پایا وہ ایک طرح کا جہاد فی سبیل اللہ ہے کیونکہ یہ کام اسلام اور کلمہ حق کی سربلندی اور ملت ایران کے عز و وقار میں اضافے کی نیت سے انجام دیا گيا ہے۔
اس ایک روزہ سفر میں جنوبی پارس علاقے کے متعلقہ حکام نے مختلف صنعتوں کے بارے میں نقشے کی مدد سے مکمل تفصیلات بیان کیں۔ حکام کے مطابق اس اہم ترین صنعتی و اقتصادی علاقے میں اب تک دس فیز مکمل طور پر پیداواری منزل تک پہنچ چکے ہیں جبکہ مزید انیس فیز پر کام جاری ہے۔ گيس کے اخراج کے مرحلے تک پہنچ جانے والے دس فیز سے روزانہ اکیس کروڑ مکعب میٹر سی این جی، چالیس ہزار بیرل سیال گیس اور دو سوٹن سلفر کی پیداوار ہوتی ہے۔ جنوبی پارس گیس فیلڈ کی مالیت ایران کی ایک سو بیس سال کی پیٹرولیم برآمدات کے مساوی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دو گھنٹوں تک اس علاقے کی مختلف صنعتی یونٹوں کا معائنہ کیا جس کے دوران متعلقہ ذمہ دار افراد نے اپنی اپنی یونٹوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ اس بریفنگ کے مطابق ہر صنعتی یونٹ کی کھپت کی مقدار میں گیس جنوبی پارس علاقے سے فراہم کی جاتی ہے اور سمندر کے اندر بچھائی گئی سو کلومیٹر طویل پائپ لائن سے ساحل تک لائي جاتی ہے۔ اس پورے عمل کے لئے سمندر میں تقریبا ڈیڑھ ہزار کلومیٹر لمبی پائپ لائنیں بچھائی گئی ہیں۔ جنوبی پارس گیس فیلڈ سے نکالی جانے والی گيس مختلف صنعتی یونٹوں میں ریفائن کی جاتی ہے اور اس سے مختلف پیٹروکیمیکل کامپلیکسوں میں استعمال ہونے والے خام مواد بھی تیار کئے جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم

مجھے بے حد خوشی ہے کہ آج ملک کے اس انتہائی با ارزش اور حساس علاقے کا دورہ منتج ہوا ایک ایسی نشست پر جس میں آپ برادران و خواہران گرامی جو اس اہم صنعتی اور فنی محکمے میں مصروف کار ہیں اور اسی طرح اس علاقے میں رہنے والے عوام تشریف فرما ہیں۔ اس ملاقات کے ساتھ ہی ہمارا یہ دورہ اختتام پذیر ہوگا۔ آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں سے مل کر مجھے بہت خوشی ہے۔
خوشی کا مقام ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں ہر شعبے میں ہماری عزیز قوم کی فکری و عملی پیشرفت کی علامات بالکل نمایاں ہیں۔ صوبہ بوشہر ملک کا انتہائی قدیمی صوبہ ہے جہاں امتحانوں میں ہمیشہ کامیاب رہنے والے عوام آباد ہیں۔ جو بھی اس علاقے کی تاریخ سے واقف ہے اسے بخوبی علم ہے کہ خلیج فارس کی اس طویل ساحلی پٹی پر بسنے والے لوگوں نے اپنے ملک، قومی خود مختاری اور ملت ایران کے عز و وقار کے لئے بڑی جفاکشی کی ہے۔ کسی زمانے میں توسیع پسند و جارح استکباری طاقتوں نے جنہیں دنیا کے خطے کی اہمیت کا بخوبی علم ہے، ذخائر سے مالامال خلیج فارس کے اس خطے کو مستقل بنیادوں پر اپنے قبضے میں کر لینے کا ارادہ کیا۔ وہی استکباری طاقتیں جنہوں نے برصغیر ہند کی درگت بنا دی اور وہاں جاکر مقامی عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، شمالی افریقہ میں کسی اور انداز سے اور مشرقی ایشیا میں کسی الگ انداز سے۔ ان طاقتوں کی حریص نگاہیں اس علاقے سے ہٹتی نہیں تھیں۔ اس زمانے میں اس طویل ساحلی علاقے کے عوام نے خاص طور پر صوبہ بوشہر اور صوبہ ہرمزگان کے باشندوں نے بڑی خدمت کی، استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کیا، شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے اور ملت ایران کے وقار اور جذبہ استقامت کا لوہا منوا لیا۔ یہ اس علاقے کی درخشاں تاریخ ہے جو کبھی بھی فراموش نہیں کی جائے گی۔
اس وقت ایک نیا دور چل رہا ہے۔ دنیا کی جارح سامراجی طاقتیں ایک نئی روش کے ساتھ اس کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ دنیا کے جس خطے میں بھی ممکن ہو پیر جمائیں اور اپنے ناجائز مفادات کی تکمیل کریں، حواہ اس کے لئے قوموں کے تشخص اور وقار کو کچلنا ہی کیوں نہ پڑے۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور خاص طور پر اس خطے میں حالیہ برسوں میں انہوں نے کیا کیا ہے؟!
اب ایران میں جو کچھ رونما ہوا وہ عالمی استکبار کے اہداف و مقاصد کے سراسر خلاف تھا۔ یہاں عوام پر، عوامی خواہشات پر، عوام کے جذبہ ایمانی پر اور ان احساسات پر مبنی نظام قائم ہو چکا ہے جس کے اہداف اسلامی ہیں، جس کے اہداف قرآنی ہیں، جس کا موقف یہ ہے کہ و للَّه العزّة و لرسوله و للمؤمنين (تمام عزت و شان اللہ کے لئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے/ سورہ منافقون 8) اس عقیدے اور یقین کے ساتھ کہ کسی بھی طرح کے دباؤ اور زبردستی سے اس کے پائے ثبات میں تزلزل پیدا نہیں کیا جا سکتا، یہ اسلامی نظام ایسا نظام ہے۔ اغیار کے حرص و طمع کے سامنے مزاحمت سے دنیا کی طاقتیں خشمگیں ہوتی ہیں۔ تیس سال سے یہ طاقتیں کسی نہ کسی شکل میں اپنی برہمی کا اظہار کر رہی ہیں لیکن ملت ایران کے عزم و ارادے کے سامنے جو مرضی پروردگار اور نصرت الہی کی بابت ایمان و ایقان پر استوار ہے، دشمنوں کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے جبکہ ملت ایران روز بروز پیشرفت و کمالات کی منزلیں طے کر رہی ہے۔
میں نے رواں سال کو معاشی جہاد کا سال قرار دیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ زمانے کے اس موڑ پر ملت ایران کا جہاد بنیادی طور پر معاشی شعبے پر مرکوز رہے گا۔ آج ہم نے یہاں آکر اس علاقے کا قریب سے معائنہ کیا۔ یہ ایک صنعتی علاقہ ہے جو پیدوار پر مبنی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کے سلسلے میں پائیدار ترقی کو یقینی بنانے والی اہم ترین چیز پیداوار ہی ہے۔ خاص طور پر وہ اقتصادی پیداوار جو سائنس و ٹکنالوجی پر استوار ہو۔ اس علاقے کی یہی صورت حال ہے۔ یہ اقتصادی علاقہ بھی ہے، پیداواری علاقہ بھی ہے اور سائنسی خطہ بھی ہے۔ یہ ملت ایران کے شایان شان ہے۔ اگر کسی زمانے میں اس علاقے اور ملک کے دیگر خطوں کے عوام کو دنیا کی جارح اور لٹیری طاقتوں کی توسیع پسندی اور زیادتی کا مقابلہ مخصوص ( فوجی) انداز میں کرنا تھا تو آج اس استقامت کی شکل مختلف اور زیادہ حساس و پیچیدہ ہے۔ ایک گہرے اور تہہ در تہہ جہاد کی ضرورت ہے۔
خوش قسمتی سے ہماری قوم مجاہدت کے آداب سے آگاہ ہے۔ ہم مجاہدت کی ثقافت سے بیگانہ نہیں ہیں۔ ہماری قوم جہاد کے میدانوں میں، فوجی جہاد کے میدان میں آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اور اس پورے عرصے میں سیاسی جہاد کے میدان میں اور اقتصادی و سائنسی مجاہدت کے میدان میں پیش آنے والے تمام امتحانوں میں پوری اتری ہے۔ ہم جہاد سے بخوبی آشنا ہیں۔ آج ہمیں جو اقتصادی جہاد کرنا ہے وہ ملت ایران کے ان جہادوں سے زیادہ مشکل نہیں ہے جو وہ آج تک کرتی آ رہی ہے لیکن ہمیں اس کا پورا علم ہونا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔
جہاد اقتصادی صرف معاشی محنت و جفاکشی نہیں ہے۔ جہاد کے اپنے مخصوص معنی ہیں۔ ہر محنت و جفاکشی کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ جہاد میں دشمن سے مقابلہ آرائی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ کبھی انسان محنت کرتا ہے لیکن اس کے مقابل کوئی دشمن نہیں ہوتا، اسے جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ آپ محنت کر رہے ہیں اور آپ کے سامنے آپ کا دشمن سینہ تانے کھڑا ہے، اب آپ کی اس محنت پر جہاد کا اطلاق ہوگا۔ خواہ اس جہاد میں خون بہے، یا وہ مالی جہاد ہو یا سائنسی جہاد ہو یا پھر فنی جہاد ہو۔ یہ سب کے سب جہاد ہیں۔ یہ جہاد کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ جہاد عبارت ہے جد و جہد سے۔ بنابریں اقتصادی جہاد سے مراد ہے اقتصادی جد و جہد۔
ذمہ داریاں سب کے دوش پر ہیں۔ یہ باایمان افراد جنہیں آج میں نے دیکھا، آپ میں سے بہت سے افراد جو اس محکمے میں مصروف کار ہیں، اس کا جز ہیں، در حقیقت جہاد میں مصروف ہیں۔ اس عظیم صنعتی و اقتصادی علاقے میں جو کام انجام دیا جا رہا ہے وہ جہاد ہے۔ نیت اگر اطاعت پروردگار کی ہو تو عمل، جہاد فی سبیل اللہ بن جاتا ہے۔ جب انسان حق کی سربلندی کے لئے، اسلام کا نام اونچا کرنے کے لئے، امت اسلامیہ کے عز و وقار کے لئے اور ملت ایران کی شان و شوکت کے لئے محنت کرتا ہے تو اس کا عمل جہاد فی سبیل اللہ کا مصداق قرار پاتا ہے۔ اس محنت و جفاکشی میں جہاد فی سبیل اللہ کی شان و عظمت اور برکت پیدا ہو جاتی ہے۔
میں اس شعبے کے تمام ماہرین اور اہلکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے کام کو جہاد فی سبیل اللہ سمجھئے، کبھی تھکن کے احساس کو اپنے پاس نہ آنے دیجئے اور پورا یقین رکھئے کہ حتمی وعدہ الہی کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ میں فتح یقینی ہے۔ جب آپ اللہ کے لئے اور راہ خدا میں آگے بڑھیں گے تو آپ کی کامیابی یقینی ہوگی۔ اس سال قوم کی ہر صنف کو، ملک کے حکام کو، پورے ملک کے مختلف شعبوں کے ذمہ داران کو اور معاشرے کی ہر فرد کو چاہئے کہ خوشنودی خدا کے لئے محنت کریں تو اللہ تعالی بھی برکت دے گا۔ اللہ اس محنت میں، اس عمل میں، اس نیت اور اس عزم میں یقینا برکت دے گا اور کامیابی عطا کرے گا جو اس سمت میں مرکوز ہوگی۔ چنانچہ ان بتیس برسوں میں اللہ تعالی نے ہماری مدد فرمائی ہے۔ اگر نصرت الہی نہ ہوتی تو ممکن ہی نہیں تھا کہ ایک قوم پوری دنیا کی سامراجی طاقتوں کا اس طرح مقابلہ کرے۔
گیس کے ذخائر سے مالامال اس علاقے میں ہمارے شرکائے کار بھی ہیں، میں انہیں حریف نہیں کہنا چاہوں گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو لوگ ملت ایران کی پیشرفت سے ناخوش ہیں وہ سب اس قوم کے خلاف متحد ہو گئے ہیں،لام بند ہو گئے ہیں۔ اس محاذ کی جہاں تک ممکن ہو مدد کی جا رہی ہے اور ایران کے سلسلے میں خلاف ورزیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ یہاں پر جہاد کا صحیح تصور سامنے آتا ہے۔ سامنے دشمن کا کینہ و عناد واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔ آپ اس شعبے میں یا کسی اور شعبے میں جیسے جیسے قدم بڑھائيں گے دشمن اور آگ بگولہ ہوگا اور اس سے جہاں تک بن پڑے گا خلاف ورزیاں کرے گا۔ اگر اس ترقی کے لئے آپ کو کسی چیز کی احتیاج ہے تو دشمن اس پر خاص نظر رکھے گا اور اس چیز تک آپ کی رسائی کو مشکل سے مشکل تر بنانے کی کوشش کرےگا۔
سوال یہ ہے کہ اس کا کیا حل نکالا جائے؟ اس کا حل اپنی توانائیوں پر توجہ دینا اور اس پر تکیہ کرنا ہے، اپنی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہے۔ وطن عزیز میں انسانی قوت ارادی کا یہ لا زوال چشمہ جاریہ اور یہ صلاحیت و لیاقت ہمارے عوام اور ہماری نوجوان نسل میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں۔ آج اس شعبے کے معائنے کے دوران حکام نے بعض باتیں بیان کیں اور ہم نے بھی کچھ سفارشات کیں۔ ایک بات تمام ملت ایران کو مخاطب کرکے کہنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ اس معاشی جہاد میں سب کے سب شریک ہیں۔ کسی بھی قوم کی معیشت کے سلسلے میں استعمال اور مصرف بھی بہت اہم چیز ہوتی ہے۔ صحیح استعمال، اسراف اور فضول خرچی سے، سرمائے کے ضیاع سے اجتناب کے ساتھ کیا جانے والا استعمال۔ وہی بات جس کی ہمیشہ سفارش کی جاتی ہے۔
فی سبیل اللہ کام کرنے کا رواج۔ آپ کلاس کے بچوں کو تعلیم دینے والے استاد ہیں تو بھی اس معاشی جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ آپ بچوں کو، آئندہ کی اس افرادی قوت کو اس ثقافت سے آشنا کیجئے۔ یہ آپ کا معاشی جہاد ہوگا۔ آپ کا تعلق خواہ کسی بھی شعبے سے ہو، آپ اس جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔
انصاف و مساوات کی ترویج میں مدد۔ یہ دس سال (اسلامی انقلاب کا تیسرا عشرہ) ہمارے لئے پیشرفت و مساوات کے دس سال ہیں۔ انصاف و مساوات کے بغیر ترقی اسلام کی نگاہ میں پیشرفت نہیں ہے۔
اسی عسلویہ کے علاقے میں۔ عسلویہ اور نخل تقی میں واقع ان دونوں اہم مراکز میں لوگوں کی بہت سی ضروریات ہیں۔ ان ضروریات کی تکمیل میں مدد اور تعاون اقتصادی جہاد ہے، یہ ایک بڑا کام ہے۔ آج ہم نے مختلف محکموں کے حکام سے ماحولیات کے بارے میں، فضا کی آلودگی کے بارے میں، گوناگوں مشکلات کے بارے میں، ان عوام کے بارے میں، کچھ باتیں کیں۔ یہ مسائل حل کرنے کے لئے کوشش کی جانی چاہئے۔ عوام کی مشکلات برطرف کی جانی چاہئے۔ یہ سب ہمہ گیر اور عظیم جہاد کے اجزاء ہیں۔ باہمی تعاون، ہمدلی، جذبہ اخوت، اللہ کے لئے کام کرنے کی نیت کے ساتھ یہ قوم اپنا حقیقی مقام حاصل کر سکتی ہے۔
ضدی دشمنوں کا تو یہ عالم ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو ملت ایران پر ضرب لگانے کی کوشش کریں گے۔ حق کی طرفداری کے جرم میں، خود مختاری کے جرم میں، تسلط پسند دشمنوں کے مقابلے میں گھٹنے نہ ٹیکنے کے جرم میں۔ وہ ملت ایران پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں، اس پر وار کرنا چاہتے ہیں۔ ان دشمنوں کے مقابلے میں ہم باہمی اتحاد، باہمی ہمدلی، باہمی تعاون اور عمومی مجاہدت کے ذریعے پائیداری کے جوہر دکھا سکتے ہیں اور دشمن کو مغلوب کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ آج تک ملت ایران اپنے دشمنوں کو دھول چٹاتی رہی ہے اور عزت و سربلندی کی منزلیں طے کرتی رہی ہے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ ہم ملک کے مختلف شعبوں کے حکام اور آج کے دورے کی مناسبت سے اس محکمے کے عہدہ داروں سے جو اہم سفارش کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ذاتی اور اندرونی صلاحیتوں پر اعتماد اور اغیار سے بے نیازی کے دانشمندانہ راستے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں اور یہ یقین رکھیں کہ ان کی اس محنت و جفاکشی پر خداوند عالم کی نظر التفات ہے اور یہ عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اگر فعل، خوشنودی خدا کی نیت کے ساتھ ہو تو اللہ تعالی اس جہاد کو کامیاب کرتا ہے۔ عوام کی خدمت اور ملک کی خدمت بھی خوشنودی پروردگار کی کا باعث بننے والے افعال میں شامل ہے۔ لہذا اس راستے اور اس ہدف کو اپنی نگاہ سے ہٹنے نہ دیں بلکہ اسی راستے پر گامزن رہیں۔ آج میں نے یہاں جو کچھ دیکھا وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ البتہ کچھ نقائص بھی پائے جاتے ہیں جنہیں دور کرنے کی فکر میں لگ جانا چاہئے اور اس فکر میں لوگ لگے ہوئے بھی ہیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود جو کچھ انجام دیا جا چکا ہے وہ اپنی جگہ پر بہت عظیم کام ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت ایران جس کام کا تہیہ کر لے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے۔ کسی بھی قوم میں اس لیاقت اور صلاحیت کا احساس پیدا ہونا اس قوم کا بہت عظیم معنوی سرمایہ ہے۔ ہماری قوم کے اندر یہ جذبہ بیدار ہو چکا ہے اور اس کے شواہد بھی تمام شعبوں میں نمایاں ہیں۔
اس شعبے میں بھی بہت سے حصے ہیں جن کے بارے میں علمی انداز سے کام انجام دیا جانا چاہئے۔ ہمیں تیل اور گیس کے شعبے میں فنی و تکنیکی امور کی انجام دہی کے ساتھ ہی قانونی اور اقتصادی امور پر یعنی گیس اور تیل سے متعلق قانونی اور معاشی امور پر بھی کام کرنا چاہئے، ہمیں تحقیق کرنا چاہئے اور اس شعبے کی مکمل اسٹڈی کرنا چاہئے۔ ہمارے نوجوان ان شعبوں میں کام کر سکتے ہیں اور انشاء اللہ وہ ترقی کریں گے۔ (تیل اور گیس کا) یہ سرمایہ ملت ایران سے تعلق رکھتا ہے۔ گیس سرمایہ ہے، تیل سرمایہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا سرمایہ با صلاحیت افرادی قوت ہے جس میں کام کی رغبت اور بھرپور توانائی موجود ہے۔ ہمارے پاس یہ بہت بڑی دولت ہے، اصلی سرمایہ یہی ہے۔ اگر کسی قوم کے پاس یہ سرمایہ ہو تو اپنی قدرتی دولت سے بھی بھرپور استفادہ کر سکتی ہے۔ اگر یہ سرمایہ نہ ہو تو اس کے قدرتی ذخائر دوسرے استعمال کریں گے، زیادہ منافع دوسرے لے جائیں گے۔ بحمد اللہ ہمارے پاس یہ سرمایہ موجود ہے۔ خوش قسمتی سے ملک کا عمومی ماحول کام کرنے اور محنت کا ماحول ہے، ہمدلی کا ماحول ہے۔ یہ ان مجاہدتوں کا ثمرہ ہے جو پہلے انجام دی گئی ہیں۔ اس نشست میں علاقے کے شہیدوں کے اہل خانہ بھی تشریف فرما ہیں۔ ہم سب کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ آج ہمیں جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں وہ شہیدوں کی مجاہدت اور ان کے ایثار و قربانی کی برکتیں ہیں۔ بعض جیالے میدان جنگ میں گئے، جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترے اور ایثار فی سبیل اللہ کا اجر انہیں حاصل ہوا، اللہ تعالی نے ان کی حفاظت کی اور آج وہ ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اسی مجاہدت اور اسی ایثار و قربانی کے نتیجے میں آج ملت ایران کو یہ سربلندی اور یہ مضبوطی حاصل ہوئی ہے اور اسے یہ موقعہ ملا ہے کہ یہ عظیم کام انجام دے سکے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ملت ایران کی عزت و قوت میں روز افزوں اضافہ کرے اور ہماری قوم کو یہ توفیق دے کہ اس عظیم عمومی مہم میں ہم سب اپنا اپنا فریضہ ادا کریں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌