آپ نے فرمایا کہ پاسداران انقلاب فورس اس ملک کی تاریخ کے انتہائی نازک اور پیچیدہ حالات اور غبار آلود فضا میں معرض وجود میں آئی، اس کی تشکیل کا عمل آسان نہیں تھا۔ اس مبارک ادارے کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے دوش پر سنگین ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا۔ پاسداران انقلاب فورس کے پاس ان ابتدائی ایام میں ایمان اور انقلابی جوش و جذبے کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں تھا۔ جوانوں میں گوناگوں صلاحیتیں تھیں، یونیورسٹیوں سے آئے تھے، بعض فوجی مراکز سے آئے تھے، ذاتی صلاحیتیں تھیں۔ لیکن سختیوں سے بھرے اس میدان کے لئے ان کے پاس تجربات تھے نہ وسائل و آلات۔ ان کے پاس سب سے قیمتی سرمایہ ان کا ایمان تھا، ان کا انقلابی جذبہ تھا، مجاہدت کے لئے ان کی بھرپور آمادگی تھی اور دشوار گزار میدان میں جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل پڑنے کا حوصلہ تھا۔ انہیں کامیابی بھی ملی۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه الرّحمن الرّحيم‌

تہہ دل سے آپ عزیز جوانوں کو ان کامیابیوں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو آپ نے اس عنفوان شباب میں حاصل کر لیں۔ اس مایہ ناز یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کو بھی اور آج سے ڈیفنس یونیورسٹی میں تعلیم کا آغاز کرنے والے طلبہ کو بھی۔ میں اللہ تعالی سے آپ سب کی توفیقات میں اضافے کا طلبگار ہوں۔
پاسداران انقلاب فورس کا جذبہ ایمانی سب سے اہم سرمایہ
آج کی تقریب بڑی پرکشش، انتہائی با شکوہ، با معنی اور پرمغز تھی۔ پاسداروں ( پاسداران انقلاب فورس کے جوانوں) سے یہی توقع بھی ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی روز بروز آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ پاسداران انقلاب فورس اس ملک کی تاریخ کے انتہائی نازک اور پیچیدہ حالات اور غبار آلود فضا میں معرض وجود میں آئی، اس کی تشکیل کا عمل آسان نہیں تھا۔ اس مبارک ادارے کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے دوش پر سنگین ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا۔ پاسداران انقلاب فورس کے پاس ان ابتدائی ایام میں ایمان اور انقلابی جوش و جذبے کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں تھا۔ جوانوں میں گوناگوں صلاحیتیں تھیں، یونیورسٹیوں سے آئے تھے، بعض فوجی مراکز سے آئے تھے، ذاتی صلاحیتیں تھیں۔ لیکن سختیوں سے بھرے اس میدان کے لئے ان کے پاس تجربات تھے نہ وسائل و آلات۔ ان کے پاس سب سے قیمتی سرمایہ ان کا ایمان تھا، ان کا انقلابی جذبہ تھا، مجاہدت کے لئے ان کی بھرپور آمادگی تھی اور دشوار گزار میدان میں جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل پڑنے کا حوصلہ تھا۔ انہیں کامیابی بھی ملی۔ پاسداران انقلاب فورس کو معرض وجود میں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ کٹھن لڑائی شروع ہو گئی۔ با ایمان نوجوانوں کو ملک کے مختلف خطوں میں اور خود تہران کے اندر با قاعدہ جنگ لڑنا پڑی۔ پاسداران انقلاب فورس کی پہلی جنگ واقعی سخت جنگ تھی۔ انہیں واقعی سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترنا پڑا اور انہوں نے ایسا کیا۔
اسی انقلابی جذبے کی برکت دیکھئے کہ تمام ضروری عناصر دستیاب ہوتے گئے۔ انہیں تجربہ بھی حاصل ہو گیا، ان میں اختراعی توانائیاں بھی پروان چڑھیں، ہر ضروری مہارت کے حصول کے نتیجے میں ان کے اندر عظیم علمی رونق پیدا ہو گئی۔ جو بھی ضروری ہوا انہوں نے سیکھا اور حاصل کیا۔ مادی و معنوی میدانوں میں مجاہدت کے لئے جو کچھ بھی ضروری تھا انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے پیدا کیا اور میدان کارزار میں انہوں نے اپنی روشنی پھیلائی۔ جارح دشمنوں سے سرحد پر جنگ میں بھی اور معاشرے کے اندر انتہائی غبار آلود اور غیر واضح ماحول میں انقلاب کی لڑائی میں بھی وہ کامیاب ہوئے۔
میرے عزیز جوانو! جن پاکیزہ اور صدق دل افراد نے پاسداران انقلاب فورس کی بنیاد رکھی اور اس مبارک ادارے کی بنیادوں اور ستونوں کی تعمیر کی، وہ ان صفات کے حامل افراد تھے۔ انہی کی برکت سے پاسداران انقلاب فورس ملک میں ایک فعال، اختراعی صلاحیتوں سے سرشار اور دیگر اداروں کو ماہر افرادی قوت فراہم کرنے والے ادارے کی حیثیت سے خود کو متعارف کرانے میں کامیاب ہوئی۔ ان تیس بتیس برسوں کے طویل عرصے میں انہی مستحکم ستونوں اور بنیادوں کی وجہ سے جن کی تعمیر ان مومن انسانوں کے ہاتھوں انجام پائی، پاسداران انقلاب فورس مختلف میدانوں میں سرگرم عمل ہوئی، اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور معاشرے کی انقلابی اور ترقی پذیر پیش قدمی کے عمل میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔ ان میں سے بعض جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، شہادت کے بلند درجے پر فائز ہوئے جبکہ ان میں بہت سے افراد بحمد اللہ بقید حیات رہے اور انہوں نے بعد میں بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ملک کے مسائل اور بصیرت و آگاہی پر مبنی جوش و جذبے سے سرشار اور خلاقانہ جہاد کی توانائي رکھنے والی ماہر افرادی قوت کی ضرورت بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ پاسداران انقلاب فورس کی روزانہ کی بنیاد پر جدیدکاری کا عمل گوناگوں واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں تربیتی مراکز اور اسی یونیورسٹی میں انجام دیا جانا ہے۔ آج ادارے کے ستون آپ حضرات ہیں۔ پاسداران انقلاب فورس کے مستقبل کے معمار آپ ہیں۔ آپ وہ مبارک پودے ہیں جو آئندہ عشروں میں، آئندہ برسوں میں اس مستحکم عمارت کو گوناگوں آزمائشوں کا سامنا ہونے کی صورت میں تناور درخت بن کر اسے سہارا دیں گے۔ آپ خود کو اس اہم اور دشوار ذمہ داری کے لئے تیار کیجئے!
اگر بنیادیں اور ستون محکم اور محفوظ نہ ہوں تو ان پر جو عمارت تعمیر کی جائے گی وہ اطمینان بخش نہیں ہوگی۔ پاسداران انقلاب فورس کی شکل میں اس عمارت کی مضبوطی ان جوانوں کی مجاہدانہ کاوشوں اور جذبہ ایمانی کی برکت سے تھی جنہوں نے ادارے کی بنیاد ڈالی۔ اللہ تعالی نے بھی ان کی خوب مدد فرمائی، مقدس دفاع کا میدان ان کی آزمائش اور امتحان کا میدان ثابت ہوا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا وجود مبارک اور آپ کے بیانات کی برکتیں ہمیشہ مشعل راہ بنیں، نتیجتا یہ ادارہ اپنے فرائض کی بخوبی ادائیگی میں کامیاب ہوا۔ آپ کو بھی چاہئے کہ مستقبل کی تعمیر کے لئے آمادہ ہوئیے۔
اسلامی جمہوری نظام کے عصری تقاضے
میں یہ بھی عرض کر دوں کہ معاشرے کی ترقی کے ساتھ ہی ساتھ، دنیائے بشر میں علوم و فنون کے ارتقاء کے ساتھ ہی ساتھ اور کمال کی جانب انسان کی فطری پیشرفت کے ساتھ ہی ساتھ آج آپ کا کام تیس سال قبل آپ کے پیشروؤں کے کام سے زیادہ اہم، زیادہ پیچیدہ، زیادہ ظریف ہے جس کے لئے دقت نظری اور خاص ذاتی صلاحیتوں اور اختراعی توانائیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آج ہمارا یہ انقلاب اور اس انقلاب کے بطن سے پیدا ہونے والا اسلامی نظام تیس سال قبل کی نسبت زیادہ مستحکم پوزیشن میں پہنچ چکا ہے۔ اس نظام کے افراد، اس نظام کے مجاہد موجدین اور اس نظام کے ہراول دستے میں شامل افراد کو بھی اسی اعتبار سے زیادہ آگے، زیادہ شجاع، زیادہ عالم، زیادہ با بصیرت اور زیادہ شائستہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ ایسا ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آج ہمارا با ایمان اور با بصیرت نوجوان ہماری قوم کی تاریخی حرکت اور دنیا کی تاریخی حرکت میں مخصوص حالات و تغیرات کا بغور جائزہ لے رہا ہے لہذا اوائل انقلاب کے نوجوانوں سے وہ زیادہ آگے ہے۔ ابتدائے انقلاب میں جو لوگ میدان میں جانفشانی کر رہے تھے جذبہ ایمانی اور روشن مستقبل پر عقیدے کے ساتھ محو کارزار تھے لیکن آج وہ متوقع مستقبل نوجوان کی آنکھوں کے سامنے آ چکا ہے۔ اللہ تعالی نے اس قوم کے سلسلے میں اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر آپ نے سعی و مجاہدت کے میدان میں جذبہ ایمانی کے ساتھ قدم آگے بڑھائے تو وہ آپ کی مدد کرے گا، آپ کی نصرت کرے گا؛ ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو تم پر کوئی غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا) جب اللہ آپ کی مدد کر رہا ہے، آپ کی نصرت کر رہا ہے تو کوئی بھی طاقت آپ کو مغلوب نہیں کر سکتی۔ یہ وعدہ الہی ہے۔ ہماری قوم اور ہمارے نوجوان آج اپنی آنکھوں اسے اس وعدے کے ایفاء کا منظر دیکھ رہے ہیں۔
دنیا پر مسلط فوجی، مالیاتی، تشہیراتی اور سیاسی طاقت یعنی شیطان بزرگ امریکہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور اپنے تمام لاؤ لشکر کے ہمراہ اسلامی جمہوریہ کے مقابلے پر آیا، انقلاب کے خلاف نبرد آزما ہوا۔ اسے یقین کامل تھا کہ انقلاب کو زمین بوس کر دے گا۔ لیکن آج تیس سال کے بعد آپ دیکھئے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ دشمن خود گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ امریکہ کی انتہائی حساس اور فیصلہ کن مشرق وسطی اسٹریٹیجی ناکامی سے دوچار ہو گئی۔ یہ تو سب دیکھ رہے ہیں، سب اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ انہیں فلسطین میں شکست ہوئی۔ وہ اپنے قریبی ہمنواؤں، دوستوں اور مہروں کو گنوا چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ انہیں طاغوتی اور بد عنوان پہلوی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا لیکن آج کئی حکومتیں ختم ہو چکی ہیں یا ختم ہونے کے قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر لرزہ طاری ہے۔ آج شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے نام سے مشہور علاقے میں امریکہ تنہا ہو چکا ہے۔ آج اس علاقے میں اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے۔ آج نوجوان اسلامی نعروں کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں۔ تیس سال قبل، چالیس سال قبل ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ اسی شمالی افریقہ کے علاقے میں اگر کوئی قومی جذبات اور انقلابی احساسات کی بات کرنا چاہتا تھا تو اسے بائیں بازو کے محاذ کا جز بننا پڑتا تھا۔ آج یہ باتیں تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو چکی ہیں۔ آج علاقے میں اسلام کا بول بالا ہے، اسلام کا سکہ چل رہا ہے، قرآن کا سکہ چل رہا ہے۔ کیا یہ معمولی کامیابی ہے؟ جب اسلامی انقلاب فتحیاب ہوا اور اسلام و قرآن کے نام پر اسلامی جمہوریہ کا پرچم لہرانے لگا تو یہ خوف انہیں ستانے لگا کہ کہیں یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے۔ لہذا انہوں نے اپنا کام شروع کر دیا کہ اس سلسلے کو یہیں دبا دیا جائے لیکن اس سب کے باوجود آج یہ سلسلہ آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ آج ہمارا نوجوان ان چیزوں کو اپنی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
وعدہ الہی کا ایفاء
جب حضرت موسی کی مادر گرامی نے آپ کو پانی کے سپرد کیا تو اللہ تعالی نے ان سے دو وعدے کئے۔ فرمایا کہ «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين»؛( ہم اسے تمہارے پاس لوٹائيں گے اور اسے رسولوں میں قرار دیں گے) ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ بچہ ماں کو واپس مل گیا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد اللَّه حقّ»؛(ہم نے اسے اس کی ماں کو لوٹا دیا کہ ماں کی آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ جائے اور وہ رنجیدہ خاطر نہ رہے اور اسے یہ بھی علم ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے) ہم نے دو وعدے کئے تھے چنانچہ پہلا وعدہ ہم نے پورا بھی کر دیا۔ تو اے مادر موسی! یاد رکھو کہ دوسرا وعدہ بھی برحق ہے۔ وہ نبی مرسل ہے جو آکر فرعون کی بساط لپیٹ دے گا۔ اللہ تعالی نے اپنے وعدے کا ایک حصہ پورا کرکے مادر موسی کو وعدے کے ایفاء کی بابت یقین دلا دیا۔
اللہ تعالی نے ملت ایران کے لئے فوری طور پر جس وعدے کو پورا کیا ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ فلسطینی نوجوان اسلام کے نام پر جمع ہوں، اسلام کے نعرے لگائیں اور اسلام کا نام لیکر بے رحم، غاصب و ظالم صیہونی فوجیوں پر ٹوٹ پڑیں؟ لیکن آج یہ عملا ثابت ہو گیا۔ دو ہفتے قبل یوم نکبہ کے موقعہ پر نوجوانوں نے اسرائیل کی سرحد توڑ دی جو گزشتہ ساٹھ برسوں کا بے مثال واقعہ ہے۔ یہ سب و لتعلم ان وعدہ اللہ حق (تاکہ اسے پتہ چلے کی اللہ کا وعدہ سچا ہے) کی عملی تصویر ہے۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وعدہ الہی برحق ہے جس نے فرمایا ہے کہ لیظھرہ علی الدین کلہ اللہ تعالی اس دین کو دنیا کے تمام دینی و فکری مکاتب پر غالب کر دے گا۔ اللہ تعالی اپنے وعدوں کے ایک حصے کی فوری تکمیل کر رہا ہے تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ ہم اور آپ جو اس عصری حرکت کے ہراول دستے میں شامل ہیں، اپنے قدموں میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہونے دیں اور بے توجہی نہ برتیں۔
سب سے بڑا گناہ
ملت ایران کی عظیم انقلابی تحریک کے دوران جو لوگ روگرداں ہو گئے، جو لوگ اپنے ذاتی امور میں، خواہشات کی تکمیل اور جاہ طلبی میں پڑ گئے، جنہیں یاد نہیں رہا کہ اس قوم نے کس مقصد کے حصول کے لئے انقلاب برپا کیا ہے اور یہ کہ اس تحریک کا مطلب کیا ہے؟ ان کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے قدموں میں تزلزل پیدا کیا۔ البتہ بحمد اللہ قوم ان کے نقش قدم پر نہیں چلی اور ہرگز نہیں چلے گی۔ بہرحال ہم سب کو بہت محتاط رہنا چاہئے۔ تیزی سے جاری اس عظیم حرکت میں جس کے سلسلے میں اللہ تعالی بھی بار بار کامیابی و کامرانی کے آثار ہماری نگاہوں کے سامنے پیش کر رہا ہے، کسی کے بھی قدم ڈھیلے نہیں پڑنے چاہئے۔
میرے عزیز جوانوں! اس حرکت میں آپ منتخب افراد میں شامل ہیں۔ خود کو آمادہ کیجئے۔ آپ کو علم کی ضرورت ہے، علم حاصل کیجئے، آپ کو تہذیب نفس کی ضرورت ہے، آپ اس پر توجہ دیجئے۔ اگر ہم نے خود تہذیب نفس اور تزکیہ نفس پر توجہ نہ کی تو دنیا کے گمراہ کن جلوے ہمیں الجھا لیں گے۔ اگر دوران سفر مسافروں کو یہ یاد نہ رہے کہ ان کی منزل اور ان کا مقصد کیا ہے تو راستے میں کسی چائے خانے میں بیٹھ رہیں گے اور انہیں یاد بھی نہیں آئے گا کہ کہاں جانا ہے۔ یہ ان کے لئے بہت بڑے خطرے کی بات ہے۔ تو آپ بہت محتاط رہئے۔ علم، تہذیب نفس، تجربہ اور فوجی ماحول میں نظم و ضبط بہت ضروری ہے۔ ایسا نظم و ضبط جو روحانی جذبات پر استوار ہو اس کے اثرات ظاہری نظم و ضبط سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ آج مختلف سیکورٹی اداروں کے اندر، فوج میں، پاسداران انقلاب فورس میں، پولیس میں اور اسی طرح رضکار فورس بسیج میں یہ معنوی و روحانی سرمایہ موجود ہے۔
آج مسلح فورسز کے اندر ہمارے نوجوان معنویت و روحانیت کے بارے میں غور کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم پیشرفت ہے جو باشکوہ مستقبل کی نوید دے رہی ہے۔
پروردگارا! ان عزیز نوجوانوں کو اسلام اور قرآن کا حقیقی سپاہی قرار دے۔ پروردگارا! انہیں اس راستے پر مسلسل گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما اور حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی دعائیں ان کے شامل حال رکھ۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه‌