آپ نے عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے راستے اور مکتب فکر کی پذیرائی اور بھرپور پابندی کو عظیم الشان امام خمینی سے ملت ایران کی حقیقی عقیدت و الفت کی علامت قرار دیا اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے منظم کثیر الجوانب مکتب فکر کی اہم ترین خصوصیات کے طور پر روحانیت، معقولیت اور انصاف کا نام لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی اس گرانقدر میراث کے تئيں اس جذبہ وفاداری کی برکت سے ملت ایران کو ماضی کے ایام کی طرح آئندہ بھی عزت و پیشرفت اور بلندی و رفعت حاصل ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم ‌اللَّه ‌الرّحمن‌ الرّحيم‌

الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين‌.

درود و سلام ہو عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور اسلامی انقلاب کے شہدا کی ارواح مطہرہ پر۔ آج ملت ایران ایک بار پھر اپنے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی سالگرہ مناتے ہوئے، یادوں کو تازہ کرکے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی معین کردہ سمت میں اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے راستے پر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہر سال چودہ خرداد (مطابق چار جون) کی تاریخ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی پاکیزہ زندگی کے کچھ حصوں اور پہلوؤں اور اس عظیم ہستی کے مکتب فکر کے تذکرے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس سال یہ دن رجب المرجب کے مبارک مہینے کی پہلی تاریخ کو پڑا ہے۔ رجب کا مہینہ رحمت و برکت الہی کا مہینہ ہے۔ پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا؛«اللّهمّ بارك لنا فى رجب و شعبان» (بار الہا رجب و شعبان میں ہمیں برکتیں عطا فرما) یہ مہینہ اور اسی طرح ماہ شعبان ضیافت الہی کے مہینے، ماہ مبارک رمضان کی جانب آگے بڑھنے کے لئے مومنین کی گزرگاہ ہے۔
اسلامی بیداری، امام خمینی کی پیشین گوئی
اس سال امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی برسی ایک اور عظیم تبدیلی کے ساتھ آئی ہے اور وہ تبدیلی ہے اسلامی بیداری۔ وہی واقعہ اور انقلابی تبدیلی جس کا ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو شدت سے انتظار تھا، آپ کی یہ دلی تمنا تھی اور آپ نے اس کی پیشین گوئی بھی کر دی تھی۔ عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) مسلمان قوموں میں بیداری کی لہر پیدا ہونے کی پیشین گوئی کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے کرم فرمایا اور اس پیشین گوئی نے عملی جامہ پہن لیا۔ اسی طرح آپ نے سوویت یونین کی حکومت کے سقوط کی پیشین گوئی کی تھی جو صحیح ثابت ہوئی۔
آج میرے معروضات دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ اس مختصر وقت میں ان دونوں حصوں پر روشنی ڈال سکوں۔ پہلے حصے میں میں ایک نظر ڈالوں گا عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے عظیم درس پر، آپ کے لا زوال مکتب فکر پر جو ملت ایران کے پاس ایک عظیم سرمائے کے طور پر موجود ہے۔ ایسا سرمایہ کہ ملت ایران جس پر تکیہ کرکے، جسے اپنے سینے سے لگاکر، دشوار گزار راستوں سے، جو ملت ایران جیسی امنگیں رکھنے والی قوموں کو عموما در پیش ہوتے ہیں، کامیابی کے ساتھ گزری ہے۔ دوسرے حصے میں علاقے کے تغیرات پر نظر ڈالوں گا۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے سلسلے میں عزیز ملت ایران کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے ملت ایران کی عقیدت و محبت صرف احساساتی و جذباتی رابطہ نہیں ہے۔ بیشک احساسات و جذبات کے لحاظ سے بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی محبت دلوں میں موجزن ہے لیکن یہ لگاؤ یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے عوام کی الفت و عقیدت ایرانی قوم کی عمومی حرکت کے واضح اور روشن لائحہ عمل کا درجہ رکھنے والے آپ کے مکتب فکر کو بدل و جان تسلیم کرنے سے عبارت ہے۔ یہ ایک فکری اور عملی منارہ نور کا درجہ رکھتا ہے جو ملک اور قوم کو عزت و پیشرفت و انصاف کی منزل سے روشناس کراتا ہے۔ ان گزشتہ بتیس برسوں میں عملی طور پر یہی ہوا ہے۔ یعنی ہم جہاں جہاں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جہاں جہاں ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ہمیں بے شمار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ عوام امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے راستے، آپ کی معین کردہ سمت اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے دائمی ورثے کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان تیس برسوں میں ہماری قوم نے خطرناک سازشوں کا کامیابی سے سامنا کیا ہے۔ ایرانی قوم کے خلاف فوجی سازش کی گئی، سیکورٹی کے شعبے میں سازشیں رچی گئیں، اقتصادی سازشیں ہوئیں، ان تیس برسوں کے دوران اقتصادی پابندیاں جاری رہیں، تشہیراتی سازشیں ہوئیں، میڈیا کا سامراج ملت ایران کے خلاف پوری قوت سے اشتعال انگیزیوں اور مخصوص اقدامات میں مصروف رہا، سیاسی سازشیں کی گئيں۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن ملت ایران امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر اور آپ کے راستے کی برکت سے ان سازشوں کو یکے بعد دیگرے ناکام بناتی رہی۔
امام خمینی کا مکتب فکر ایک مکمل مجموعہ
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا مکتب فکر ایک مکمل مجموعہ ہے۔ یہ متعدد پہلوؤں پر مشتمل ہے، ان پہلوؤں کو ایک ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، ان پر ایک ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے دو نمایاں پہلو معنویت و معقولیت کے پہلو ہیں۔ معنویت کے پہلو کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے عظیم الشان امام صرف مادی عوامل اور مادی ظواہر کو بنیاد بنا کر اقدام نہیں کرتے تھے۔ آپ ایک خدا رسیدہ، اہل سیر و سلوک، اہل ذکر و مناجات اور اہل خضوع و خشوع انسان تھے، تائید غیبی پر یقین رکھتے تھے، اللہ تعالی سے آپ کی امید لا متناہی اور لا زوال تھی۔ اس کے ساتھ ہی معقولیت کے پہلو کے تحت فکر و تدبر اور اندازوں اور تخمینوں کو بھی آپ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر میں نمایاں طور پر دیکھیں گے۔ میں ان کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔
ایک تیسرا اہم پہلو بھی ہے اور معنویت و معقولیت کی مانند یہ پہلو بھی اسلام سے ماخوذ ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی معقولیت بھی اسلام سے ماخوذ ہے، آپ کی روحانیت و معنویت بھی قرآنی و اسلامی ہے۔ اسی طرح یہ پہلو بھی جوہر دین اور متن قرآن سے اخذ کیا گيا ہے۔ یہ پہلو عدل و مساوات کا پہلو ہے۔ ان پہلوؤں کو ایک ساتھ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک پہلو کو مرکز توجہ قرار دیکر دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جائے تو معاشرہ غلط راستے پر پہنچ جائے گا، انحراف کا شکار ہو جائے گا۔ یہ مجموعہ یہ مکمل پیکیج امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا فکری و معنوی ورثہ ہے۔ خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بھی اپنے طریق کار میں معقولیت کو مد نظر رکھتے تھے اور روحانیت پر بھی بھرپور توجہ دیتے تھے ساتھ ہی پورے وجود سے انصاف و مساوات کو ملحوظ رکھتے تھے۔
روحانیت کے ساتھ تدبر
میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی عقل پسندی اور معقولیت کے مظاہر میں سے چند مثالیں بطور نمونہ پیش کروں گا۔ پہلا نمونہ ملک کے سیاسی نظام کے لئے جمہوریت کا انتخاب تھا۔ یعنی عوامی ووٹوں اور خواہشات کو بنیاد قرار دینا۔ جمہوریت کا انتخاب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نجات بخش و حیات آفریں مکتب فکر کے معقولیت کے پہلوں کی واضح مثال ہے۔ صدیوں سے ہمارے ملک پر شخصی حکومتیں رہی ہیں، اس دور میں بھی جب ملک میں آئینی انقلاب کی تحریک چلی اور بظاہر قانون کی بالادستی قائم ہوئی، عملی طور پر پہلوی آمریت اور استبداد ماضی کے استبداد سے زیادہ سخت اور افسوس ناک شکل میں موجود تھا۔ اس طرح کے ماضی والے ملک میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ کار عظیم انجام دیا کہ عوام کی شراکت اور انتخابات کو ایک اٹل حقیقت میں تبدیل کر دیا۔ آئینی تحریک کے اوائل میں ایک چھوٹی سے مدت کے علاوہ ہمارے عوام کو کبھی بھی آزادانہ انتخابات کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ ایسے ملک میں، ایسے ماحول میں، ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے پہلے ہی مرحلے میں انتخابات کی بنیاد رکھی۔ آپ نے بارہا سنا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ان بتیس برسوں کے دوران ملک میں بتیس یا تینتیس انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ عوام پوری آزادی کے ساتھ پولنگ مراکز پر جمع ہوئے اور انہوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ پارلیمنٹ، حکومت، ماہرین کی کونسل، بلدیاتی کونسلوں وغیرہ کی تشکیل کی بنیاد عوام کے ووٹ قرار پائے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی معقولیت اور دانشمندی کا واضح ترین نمونہ ہے۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے تدبر اور دانشمندی کی ایک اور واضح مثال جارح دشمنوں کے سلسلے میں کوئی نرمی نہ دکھانا اور ان سے سختی کے ساتھ پیش آنا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) دشمن پر کبھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔ یعنی جب آپ نے ملت ایران کے دشمنوں کو اور اسلامی انقلاب کے دشمنوں کو صحیح طریقے سے پہچان لیا تو پھر ان کے سامنے پہاڑ کی مانند ڈٹ گئے۔ جو لوگ یہ سوچتے تھے اور آج خیال کرتے ہیں کہ مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کبھی کبھی دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کر لینا چاہئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس کے بالکل برخلاف عمل کرتے تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی عقلی پختگی نے اس مرد خدا رسیدہ کی بصیرت نے انہیں اس نتیجے پر پہنچا دیا تھا کہ دشمن کے مقابلے میں ذرہ برابر نرمی اور پسپائی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن آپ پر چڑھ دوڑے گا۔ مقابلے کے میدان میں دشمن اپنے حریف کو پسپائی اختیار کرتے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں رحم پیدا نہیں ہوتا۔ دشمنوں کے مقابلے میں مجاہد قوم کی ایک قدم کی پسپائی دشمن کی اسی مقدار میں پیش قدمی اور تسلط کے مترادف ہوتی ہے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دانشمندی کی ایک مثال ہے۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دانشمندی اور تدبر کی ایک اور مثال قوم کے اندر خود اعتمادی اور خود انحصاری کا جذبہ بیدار کرنا تھا۔ برسہا برس سے، اس ملک میں مغربی ممالک کی آمد اور تسلط کی شروعات کے وقت سے یعنی انیسویں صدی کے اوائل سے جب مغرب والوں نے ایران کی سرزمین پر پہلی دفعہ قدم رکھا، ملت ایران کو ہمیشہ مخصوص مہروں اور کارندوں کے ذریعے، مختلف تجزیوں اور تبصروں کے ذریعے تحقیر کا نشانہ بنایا گیا، اس کی توہین کی گئی۔ ایرانی قوم کو یہ باور کرایا گيا کہ اس کے اندر علمی کام کرنے، سائنسی میدان میں ترقی و پیشرفت حاصل کرنے کی توانائی نہیں ہے، اس کے اندر کام انجام دینے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پہلوی حکومت کے عمائدین اور اس سے قبل کی حکومتیں ایرانی عوام کی تذلیل کرتی رہتی تھیں۔ ایسا ظاہر کیا جاتا تھا کہ اگر کہیں کوئی بڑا کام انجام دیا جانا ہے، اگر ترقی حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے مغرب والوں کی مدد ضروری ہے۔ ایرانی عوام میں اس کی توانائي نہیں ہے۔ ایسی قوم کے اندر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا اور یہ ملت ایران میں عظیم تبدیلی کی بنیاد ثابت ہوا۔ سائنسی شعبے میں، صنعتی شعبے میں زندگی کے مختلف شعبوں میں ہماری زبردست ترقی اسی خود اعتمادی کا نتیجہ ہے۔ آج ہمارے ایرانی نوجوان، ایرانی فنکار، ایرانی سائنسداں، ایرانی سیاستداں اور ایرانی مبلغین خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ہم کر سکتے ہیں کا نعرہ امام ‎(خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام کے دلوں میں بٹھایا۔ یہ بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دانشمندی اور تدبر کی ایک علامت ہے۔
اس کا ایک اور اہم نمونہ آئین کی تدوین ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے انتخابات کے ذریعے ماہرین کو معین کرکے انہیں آئین کی تدوین پر مامور کر دیا۔ آئین کی تدوین کرنے والے یہ افراد عوامی انتخابات کے ذریعے معین کئے گئے تھے۔ ایسا نہیں ہوا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اپنے طور پر کسی گروہ کو آئين کی تدوین پر مامور کر دیا ہو۔ یہ کام بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے قوم کے سپرد کیا۔ عوام نے اپنی شناخت کی بنیاد پر ماہرین کا انتخاب کیا اور ان ماہرین نے آئین لکھا۔ اس کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اسی آئین کو پھر عوام کے سامنے پیش کیا اور ملک میں اس نئے آئین پر ریفرنڈم کرایا گیا۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دانشمندی اور تدبر کی علامت ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کس طرح نظام کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے قانونی لحاظ سے بھی، سیاسی لحاظ سے بھی، سماجی سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی اور علمی ترقی کے اعتبار سے بھی ایک مستحکم بنیاد قائم کی اور اسی مستحکم بنیاد پر عظیم اسلامی تمدن کی عمارت کھڑی کی۔
ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دانشمندی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آپ نے عوام کو یہ باور کرایا کہ اس ملک کے مالک وہ خود ہیں۔ عوام ملک کے مالک ہیں۔ استبدادی حکومتوں کے زمانے میں یہ مقولہ سننے میں آتا تھا کہ مملکت صاحب دارد۔ اس سے مراد یہ لیا جاتا تھا کہ ملک کے مالک ڈکٹیٹر اور جابر بادشاہ ہیں جو ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام کو یہ سمجھایا کہ ملک کا مالک ہے اور وہ مالک خود عوام ہیں۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی معنویت و روحانیت کی بات کی جائے تو آپ کی معنویت کی سب سے پہلی علامت آپ کا اخلاص عمل تھا۔ شروع ہی سے آپ وہی کام انجام دیتے تھے جس کے بارے میں محسوس کر لیتے تھے کہ ان کا شرعی فریضہ ہے۔ اس راہ میں فداکاری و قربانی سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کبھی نہیں ہچکچائے۔ سنہ انیس سو باسٹھ عیسوی میں انقلابی جد و جہد کے آغاز سے ہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اسی انداز سے عمل کیا۔ شرعی فریضے کے احساس کے تحت کام کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام اور حکام کو بھی یہ درس دیا اور بار بار اس کا اعادہ فرمایا کہ سب سے اہم چیز شرعی فریضہ ہے۔ ہم شرعی فریضہ پر عمل کریں، اس کے نتائج اور ثمرات کا دار و مدار خداوند عالم پر ہے۔ بنابریں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے طریق کار میں اخلاص عمل آپ کی روحانیت و معنویت کا مظہر تھا۔ کبھی کسی کی اور کبھی کسی دوسرے کی بلا وجہ تعریف و تحسین کے لئے نہ کوئی بات کی، نہ کوئی اقدام کیا اور نہ کوئی کام انجام دیا۔ سب کچھ اللہ تعالی کے لئے کیا اور اللہ تعالی نے بھی ان کاموں میں برکت دی، انہیں دوام عطا کیا۔ یہ اخلاص عمل کی خاصیت ہوتی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ملکی حکام کو بھی اس کی نصیحت کرتے تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہمیں ہدایت کرتے تھے کہ اللہ پر توکل کرنے والے بنیں، اللہ پر اعتماد رکھنے والے بنیں، اللہ تعالی سے امید اور حسن ظن رکھنے والے بنیں، اللہ کے لئے کام کریں۔ خود آپ اہل توکل، اہل خضوع و خشوع، اہل توسل انسان اور اللہ تعالی سے ہمیشہ مدد مانگنے والے، اس کی عبادت میں مصروف رہنے والے شخص تھے۔ ماہ رمضان کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو دیکھنے والا انسان واضح طور پر آپ کے اندر خاص نورانیت کا مشاہدہ کر سکتا تھا۔ وہ زندگی کے لمحات کو قرب الہی حاصل کرنے کے لئے، اپنے پاکیزہ دل و جان کو مزید پاکیزہ بنانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ وہ دوسروں سے بھی کہتے تھے کہ ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہیں، یہ دنیا بارگاہ خداوندی ہے۔ کائنات جلوہ ہائے الہی کا آئینہ ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سب کو اس سمت میں لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ اخلاقیات کا خاص خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت کرتے رہتے تھے۔ اسلام میں معنویت کا سب سے بڑا پہلو ہے اخلاق، گناہوں سے دوری، تہمت لگانے سے دوری، بد گمانی سے اجتناب، غیبت سے پرہیز، بدخواہی سے اجتناب اور لوگوں میں نفاق ڈالنے سے گریز۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے باتوں کا خاص خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی سفارش کرتے تھے، مسئولیت کو متنبہ کیا کرتے تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہمیں ہدایت دیتے تھے کہ کبھی غرور میں نہ پڑیں، خود کو عوام سے بالاتر تصور نہ کریں، خود کو تنقید اور نکتہ چینی سے ماوراء نہ سمجھیں، خود کو بے عیب نہ سمجھ بیٹھیں۔ یہ بات ملک کے تمام اعلی حکام نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی زبانی سنی ہے کہ ہمیں تیار رہنا چاہئے! اگر لوگوں نے ہم پر اعتراض کیا تو یہ نہ کہیں کہ ہم ہر عیب و نقص سے بالاتر ہیں، ہم تنقید اور نکتہ چینی سے بالاتر ہیں۔ خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بھی ایسے ہی تھے۔ خود آپ نے بھی اپنی تحریروں میں خاص طور پر اپنی عمر مبارک کے آخری ایام میں، اپنے بیانوں میں بارہا فرمایا کہ فلاں مسئلے میں مجھ سے غلطی ہوئی۔ آپ نے اقرار کیا کہ فلاں قضیئے میں مجھ سے غلطی ہوئی۔ اس کے لئے بڑی اعلی ظرفی اور عظمت کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی انسان کی روح رفعتوں کو طے کرتی ہے جو اس طرح کا طریق کار رکھتا ہو۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روحانی خصوصیت تھی، یہ آپ کا اخلاق تھا۔ یہ ہمارے لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا ایک اہم ترین درس ہے۔
امام خمینی کے مکتب فکر میں انصاف کی اہمیت
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر میں انصاف کا باب بہت نمایاں اہمیت کا حامل تھا۔ اگرچہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو انصاف بھی اسی خردمندی اور معنویت سے ہی ماخوذ ہے لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر میں انصاف کے موضوع پر خاص تاکید ہمارے سامنے اسے زیادہ واضح طور پر پیش کرتی ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی ایام سے ہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کمزور اور مستضعف طبقات پر تکیہ کئے جانے پر بار بار تاکید فرمائی، سفارش کی۔ پا برہنگان (انتہائی غریب طبقات) کی اصطلاح امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بیانوں میں بار بار دوہرائی گئی ہے۔ آپ حکام پر زور ڈالتے تھے کہ محروم طبقات پر توجہ کی جائے۔ حکام کے لئے آپ کی یہ تاکید ہوتی تھی کہ رئیسانہ زندگی سے خود کو دور رکھیں۔ یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی اہم ترین سفارشات کا جز ہوا کرتی تھی۔ ہمیں یہ باتیں ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ایک ایسے نظام حکومت کے اندر جو عوام کے ووٹوں اور قوم کے جذبہ ایمانی پر استوار ہو، حکام کے لئے سب سے بڑا المیہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ذاتی عیش و آرام کی فکر میں لگ جائیں، اپنے لئے زراندوزی کرنے لگیں، اشرافیہ کے طرز کی زندگی بسر کرنے کی خاطر در بدر بھٹکنا شروع کر دیں، یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے خود کو ہمیشہ اس بیماری سے کوسوں دور رکھا اور ملکی حکام کو بھی بار بار سفارش کرتے رہتے تھے کہ اشرافیہ کے طرز زندگی اور قصر نشینی کی رغبت اپنے اندر پیدا نہ ہونے دیں، زراندوزی میں نہ پڑیں، عوام سے قریبی رابطہ رکھیں۔ ہم لوگ اس وقت عہدیداروں میں شامل تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہم سے یہ خواہش ہوتی تھی کہ عوام سے ہم خود کو قریب رکھیں، ان کو خود سے مانوس بنائیں۔ آپ کی خاص تاکید یہ ہوتی تھی کہ سروسز کو ملک کے دور افتادہ علاقوں تک پہنچایا جائے، دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے بھی ملک کی عام سروسز اور سہولیات سے بہرہ مند ہوں۔ یہ چیزیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے سماجی انصاف سے متعلق نقطہ نگاہ کے تحت تھیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی یہ بھی تاکید ہوتی تھی کہ عہدیداروں کا انتخاب عوام کے درمیان سے کیا جائے، وہ خود بھی عوام کا حصہ ہوں، لگاؤ اور رشتہ داری عہدوں کی تفویض کا معیار نہ بنے۔ بڑی شخصیات سے رشتہ داری، بڑے خاندانوں سے رشتہ داری۔ ملک پر قاجاریہ اور پہلوی دور میں ایک ہزار خاندانوں والی مصیبت جو ٹوٹی تھی اس کے باعث امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بہت محتاط ہو گئے تھے۔ آپ کبھی کبھی کسی عہدیدار کی تعریف میں فرماتے تھے کہ یہ عوامی حلقوں کے اندر سے منتخب ہوئے ہیں۔ آپ کی نظر میں یہ اہم معیار تھا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نقطہ نگاہ سے عہدوں کے حصول کے لئے طاقت کا استعمال اور دولت کا استعمال ملک اور انقلاب کے لئے سنگین خطرات کا باعث تھا۔ تو یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے اہم پہلو ہیں۔
میرے بھائیو اور بہنو! اس مکتب فکر نے ہمیں ان بتیس برسوں میں بار بار خطرناک مراحل سے بحفاظت گزرنے میں کامیاب کیا ہے، ہمارے قومی وقار اور عالمی شان و شوکت کو چار چاند لگائے ہیں۔ اس راستے پر گامزن رہنے کے نتیجے میں ملک پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے، اپنی امنگوں کے قریب پہنچا ہے۔ ہمیں مکتب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ البتہ اس کے تمام پہلوؤں کو۔ اگر کوئی شخص یا جماعت خردمندی اور حقیقت پسندی کے نام پر اسلامی اور انقلابی اقدار سے عدول کرنا چاہے تو یہ سراسر انحراف ہے۔ اگر کوئی شخص خردمندی اور حقیقت پسندی کے نام پر دشمن کے آگے اپنے تقوے کو خیرباد کہتا ہے یا اغیار پر انحصار کو قبول کرتا ہے تو یہ گمراہی ہے، یہ خیانت بھی ہے۔ جس خردمندی اور حقیقت پسندی پر ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر میں تاکید کی گئی ہے اس کا ہرگز یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم دشمن کے فریب اور عیاری کی طرف سے غافل ہو جائیں، اس کی گہری سازشوں کی طرف سے بے خبر رہیں، اس پر اعتماد کر بیٹھیں اور اس کے سامنے پسپائی اختیار کر لیں۔ دشمن کے مقابلے میں اگر پسپائی اختیار کی گئی تو ملک اور قوم کے اندر موجود عظیم معنوی سرمایہ اسی مقدار میں ضائع ہو جائے گا۔
یہی چیز دیگر امور کے سلسل میں بھی ہے۔ اگر ہم انصاف پسندی کے نام پر یا انقلابی ہونے کے نام پر اخلاقیات کو پامال کرنے کی کوشش کریں تو ہم نے نقصان اٹھایا ہے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر سے ہم منحرف ہو گئے ہیں۔ اگر ہم انصاف پسندی کے نام پر اور انقلابی ہونے کے نام پر اپنے برادران ایمانی کی، مومن انسانوں کی، ایسے افراد کی توہین کریں یا انہیں ایذا رسانی کا نشانہ بنائیں، جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ طرز فکر کے لحاظ سے ہم سے عدم اتفاق رکھتے ہیں لیکن اسلامی نظام پر ان کا ایقان و اعتقاد ہے، اسلام پر ایمان ہے، تو ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر سے دور ہو گئے ہیں۔ اگر ہم انقلابی طرز عمل کے نام پر معاشرے اور ملک کے عوام کی ایک تعداد کا امن و سکون سلب کر لیں تو ہم مکتب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے منحرف ہو گئے ہیں۔ ملک کے اندر مختلف النوع نظریات اور افکار پائے جاتے ہیں۔ اگر کسی اقدام اور عمل پر جرم کا اطلاق ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس مجرمانہ عمل کے سلسلے میں کارروائی ہوگی۔ متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ اس مسئلے پر توجہ دیں اور اپنا فریضہ سرانجام دیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ بشرطیکہ وہ عمل جرم کے دائرے میں نہ آتا ہو۔ کوئی شخص ہے جو نظام کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، بد دیانتی نہیں کرنا چاہتا، ملک کے اندر دشمن کے لائحہ عمل کو نافذ کرنے کے در پے نہیں ہے لیکن ہمارے سیاسی طر‌ز فکر اور سیاسی سوچ کے خلاف ہے تو ہم اس کے امن و سلامتی کے سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کر سکتے، اس کے سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ «و لايجرمنّكم شنئان قوم على الّا تعدلوا» قرآن ہمیں حکم دے رہا ہے، ہم سے کہہ رہا ہے کہ کسی قوم سے آپ کا اختلاف نظر اس کا باعث نہ بنے کہ آپ انصاف کو بالائے طاق رکھ دیں، نظر انداز کر دیں۔ اعدلوا اپنے مخالف کے سلسلے میں بھی انصاف سے کام لیجئے! «هو اقرب للتّقوى» یہ انصاف تقوا کے بہت قریب ہوتا ہے۔ ہرگز یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہئے کہ تقوا یہ ہے کہ انسان اپنے مخالف کو کچل کر رکھ دے۔ ہرگز نہیں، انصاف تقوا کے ساتھ ساتھ ہے۔ ہم سب کو محتاط رہنا چاہئے، اس پہلو کے سلسلے میں بھی یہ دھیان رہے کہ دوسرے پہلو نظر انداز نہ ہونے پائیں۔
معنویت و روحانیت کے پہلو کے سلسلے میں بھی یہ احتیاط ضروری ہے۔ ہم اہل ذکر و توسل و مناجات ہیں، ہم اہل روحانیت و معنویت ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ماحول ذکر الہی سے معمور ہے۔ ہمارے ملک میں منایا جانے والا ماہ رمضان دیدنی ہوتا ہے، معنویت کے شباب کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ ہمارے یہ عزیز نوجوان قرآن کے جلسوں میں، ذکر و دعا کی نشستوں میں، توسل و مناجات کی تقاریب میں اپنے نورانی حضور کا ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ انسان دیکھ کر عش عش کرتا ہے۔ آئندہ دنوں میں ہمارے نوجوان اعتکاف کے اعمال میں جس انداز سے شرکت کرنے والے ہیں وہ بہت حیران کن ہوتا ہے۔ ہماری نوجوانی کے ایام میں قم کے دینی علوم کے مرکز میں وسط رجب کے دنوں میں جو اعتکاف کے لئے معروف ہیں اس وقت کی مسجد امام میں دس، پندرہ یا بیس دینی طالب علم وہ بھی قم کے دینی علوم کے مرکز میں اعتکاف کرتے تھے۔ یہ عمل عام نہیں تھا، لوگوں کو واقفیت نہیں تھی۔ آج یہ عالم ہے کہ ملک کی یونیورسٹیوں میں ہزاروں طلبہ و طالبات کیمپس کی مساجد میں اعتکاف کرتے ہیں، تین شب و روز عبادت میں بسر کرتے ہیں، ہر چیز سے توجہ ہٹا کر اللہ سے سرگوشیاں کرتے ہیں۔ بڑی مساجد اور بڑے دینی مراکز کی تو بات ہی الگ ہے۔ یہ روحانیت و معنویت ہے۔ ہمارا ملک روحانیت کا ملک ہے۔ تاہم ہمارے یہاں روحانیت احساس ذمہ داری اور فرض شناسی سے بھی وابستہ ہے۔ یہ معنویت ہمیں ہماری عظیم انقلابی ذمہ داریوں سے بے اعتنا نہیں بناتی بلکہ انقلابی حرکت میں اس سے اور مدد ملتی ہے۔ جو لوگ دینداری کا سہارا لیکر، دینداری کے نام پر معاشرے کو سیاست سے الگ کرنا چاہتے ہیں، نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، نوجوانوں کو ملک کے مختلف میدانوں سے لا تعلق بنانا چاہتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں، وہ غلط سمت میں بڑھ رہے ہیں، انحراف کا شکار ہیں۔ یہ سارے پہلو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہاں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس روضہ مطہرہ میں، بہشت زہرا (تہران کے نواح میں واقع قبرستان) کے اس معنوی گلشن میں شہدا کی پاکیزہ ارواح کے جوار میں جو یہاں سپرد خاک کئے گئے، میں گواہی دیتا ہوں کہ ہماری قوم اس راستے پر قابل تحسین انداز سے آگے بڑھی ہے، اس نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس راستے کی حفاظت کی ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ پرے وثوق سے گواہی دیتا ہوں کہ اس وقت کے ہمارے انقلابی نوجوان آغاز انقلاب کے انقلابی نوجوانوں سے ایمان و تقوا و عقیدتی استحکم کے لحاظ سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے اور پورے وجود سے گواہی دیتا ہوں اور اس پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ بہترین کردار عوام نے ادا کیا ہے، انہوں نے اقدار کی حفاظت کی ہے، انہیں قائم رکھا ہے اور ان پر استقامت کے ساتھ عمل کیا ہے۔ عوام نے ہی دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کیا۔
دشمنوں کے ادھورے خواب
اس موضوع کے سلسلے میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ وقت بھی نہیں ہے اور اس بات کے لئے غالبا یہ مناسب موقع بھی نہیں ہے، تاہم اجمالی طور پر اور اشارتا یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے دشمن اس خیال میں تھے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے ساتھ ہی اس مقدس نظام کے سقوط کا عمل شروع ہو جائے گا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے جاتے ہی یہ شمع خاموش ہو جائے گی، یہ چراغ گل ہو جائے گا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تشییع جنازہ کے بعد (اسلامی انقلاب کے قائد کا انتخاب اور اس کی کارکردگی کی نگرانی کرنے والی) ماہرین کی کونسل کے فیصلے کی عوام نے جس انداز سے حمایت کی اور اس پر جس انداز سے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا اس سے دشمنوں پر مایوسی طاری ہو گئی۔ انہوں نے دس سالہ منصوبہ تیار کیا۔ یہ میرا تجزیہ ہے، یہ کوئی رپورٹ نہیں بلکہ ایک تجزیہ ہے جو ہماری نگاہ میں قرائن سے ثابت ہو چکا ہے۔ انہیں امید تھی کہ دس سال بعد اس کا نتیجہ حاصل ہو جائے گا۔ انیس سو نناوے میں واقعات رونما ہوئے تاہم ان واقعات پر عوام نے قابو کر کیا۔ چودہ جولائی سنہ انیس سو نناوے کو عوام سڑکوں پر آئے اور انہوں نے دشمن کے منصوبے کو جس کے لئے اس نے برسوں تیاریاں کی تھیں ایک دن میں ناکام کر دیا۔ وہ دن گزر گیا۔ اس کے بعد پھر ایک دس سالہ منصوبہ تیار کیا گيا سنہ دو ہزار نو کے لئے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک موقعہ ہاتھ آ جائے گا۔ انہوں نے بخیال خود زمین بھی ہموار کر لی تھی۔ نظام سے وابستہ اور نظام کے وفادار عوام کے بھی کچھ مطالبات تھے۔ بد خواہوں نے یہ سوچا کہ عوام کے ان مطالبات کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نتیجے میں سنہ دو ہزار نو کے واقعات پیش آئے۔ انہوں نے دو تین مہینے تہران کو تلاطم سے دوچار رکھا البتہ صرف تہران کو۔ دو تین مہینوں تک وہ لوگوں کو اذہان کو اپنی جانب مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ اس موقعے پر بھی عوام میدان میں نکلے۔ جب حقیقت سے پردے ہٹ گئے، یوم قدس پر عوام نے دیکھ لیا کہ ان عناصر کی دلی خواہش کیا ہے؟! یوم عاشور کو واضح ہو گیا کہ ان عناصر کا اصلی منشا کیا ہے تو ہمارے عزیز عوام میدان میں آئے اور تیس دسمبر کی شجاعانہ داستان رقم کی گئی۔ صرف تہران میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں تیس دسمبر کو اور پھر گیارہ فروری کو عوام میدان میں آئے۔ اس طرح اس فتنے کو دبا دیا گيا۔ یہ عوام کا کارنامہ ہے۔ سلام ہو ایرانی عوام پر! سلام ہو ایران کی بابصیرت، باایمان اور آگاہ و مجاہد قوم پر! انشاء اللہ توفیق خداوندی سے عوام اسی راستے، اسی رخ، انہی امنگوں اور اسی عزم و حوصلے کو آخر تک قائم رکھیں گے۔
خوش قسمتی سے عوام کی اس عظیم حرکت کے ثمرات بھی حاصل ہوئے ہیں۔ عوام نے ملک کے حکام پر جو اعتماد کیا، اس کی برکت سے، ملک بھر میں عوام کے تعاون سے جس طرح کا امن و استحکام ہے اس کی برکت سے حکام خدمات بہم پہنچانے اور ان کا دائرہ وسیع تر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ بڑے کام سرانجام دینے میں کامیاب ہوئے، ملک میں بنیادی انفراسٹرکچر کے کام انجام پائے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی ملک کی پیش رفت کی اولیں شرط ان بنیادی کاموں کی تکمیل ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے مکمل ہو رہے ہیں۔ عوام اسے دیکھ رہے ہیں اور انشاء اللہ کوتاہ مدت اور دراز مدت میں ان کاموں کے ثمرات کا بھی مشاہدہ کریں گے۔ عوام کی شراکت سے جو سیکورٹی حاصل ہوئی ہے اس سے دشمنوں کے سیکورٹی کے منصوبے ناکام ہو رہے ہیں، تشہیراتی منصوبے بے اثر ثابت ہو رہے ہیں، عوام کے تعاون کا ہی نتیجہ ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں ملک کی پیشرفت کی سطح بہترین ہے۔ اس وقت عالمی اعداد و شمار کے مطابق، ہمارے اعداد و شمار کے مطابق نہیں، عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق جو رسمی طور پر ان کا اعلان بھی کرتے ہیں ہمارے ملک کی علمی پیشرفت کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے گیارہ یا بارہ گنا زیادہ ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے مخالف بھی کہہ رہے ہیں، ہمارے دشمن بھی اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ کے نوجوان سائنسداں سائنس و ٹکنالوجی کے دس انتہائی اہم شعبوں میں اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ عالمی سطح کی رینکنگ میں اوپر کے دس نمبروں میں انہیں جگہ حاصل ہوئی ہے۔ یہ عوام کی شراکت اور تعاون کا نتیجہ ہے۔ یہ تعاون، یہ باہمی اعتماد اور یہ عمومی احساس ذمہ داری جب تک قائم رہے گا ملک زیادہ سے زیادہ ترقی کرتا جائے گا۔ یہ ہے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی برکت۔
علاقے کے تغیرات کا جائزہ
چند جملے علاقے کے مسائل کے تعلق سے بھی عرض کروں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شمالی افریقہ اور ہمارے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات انتہائی اہم اور تاریخ ساز واقعات ہیں۔ جو تبدیلی مصر میں ہوئی، جو واقعات تیونس میں رونما ہوئے، اسلامی ممالک میں یہ جو اسلامی بیداری کی لہر پھیلی ہے، یہ ایسے واقعات ہیں کہ اس طرح کا کوئی ایک واقعہ دو تین صدیاں گزر جانے کے بعد رونما ہوتا ہے۔ اس وقت کے یہ واقعات اس طرح کے انتہائی اہم، دور رس اثرات کے حامل اور تاریخ رقم کرنے والے واقعات ہیں۔ مصری قوم کامیاب ہو گئی، تیونس کے عوام کامیاب ہو گئے۔ خاص طور پر مصر کے انقلاب کی کامیابی بڑا عظیم کارنامہ اور بڑی درخشاں فتح ہے۔ بعض دیگر ممالک میں، جیسے لیبیا میں، جیسے یمن میں، جیسے بحرین میں عوامی جد و جہد جاری ہے۔ ان میں ہر ایک کی اپنی الگ حیثیت ہے۔ ان ممالک میں بھی عوام کی فتح یقینی ہے۔ ممکن ہے تاخیر ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ فتح حاصل نہ ہو۔ جب عوام بیدار ہو جاتے ہیں، جب ایک قوم اپنی قوت و توانائی سے واقف ہو جاتی ہے تو کوئی بھی شئے اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بیشک مسلمان قوموں کے دشمن یعنی تسلط پسندانہ نطام، شیطان بزرگ امریکہ اور درندہ صفت عیار صیہونی عناصر اپنے کاموں میں مصروف ہیں، کوششیں کر رہے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ عوام ان کامیابیوں کی لذت سے محظوظ ہوں اور انہیں حقیقی معنی میں مکمل فتح حاصل ہو، لیکن اگر ہم مسلمان بیدار رہیں، ہم قرآن کی آواز پر، جو صبر و استقامت اور ثابت قدمی کی تلقین کرتی ہے اور ہماری امید بندھاتی ہے، توجہ دیں، اللہ تعالی کے سلسلے میں بد گمانی اپنے ذہن میں نہ آنے دیں، وعدہ الہی پر پورا یقین و اطمینان رکھیں اور اس کے لئے محنت کریں، کام کریں تو قوموں کی فتح یقینی ہے۔ لیبیا میں مغربی ممالک کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ اس ملک کو کمزور کر دیں، ناتواں بنا دیں۔ ان کی پالیسی یہ ہے کہ خانہ جنگی جاری رہے تاکہ ملک میں کوئی رمق باقی نہ رہے اور بعد میں وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر وارد ہوں اور اس حساس ملک کے امور کو اپنے قبضے میں کر لیں۔ لیبیا میں ایک تو تیل کے ذخائر ہیں اور دوسرے یہ ملک یورپ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ بنابریں عالمی استکباری طاقتوں کے لئے، امریکہ کے لئے اور مغربی یورپ کے مستکبر ممالک کے لئے اس کی خاص اہمیت ہے۔ اس سے آسانی سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے، اسے کمزور بنا دینا چاہتے ہیں۔ اگر اس ملک کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو عوام غلبہ حاصل کرکے عوامی اور اسلامی حکومت تشکیل دیتے جو ان (استکباری ممالک) کے لئے خطرہ بن جاتی۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔
یمن میں بھی یہی سلسلہ ہے۔ یمن کی سوق الجیشی اہمیت ہے۔ امریکہ سے وابستہ بعض ممالک کے پڑوس میں واقع ہونے کے لحاظ سے اور جیو پولیٹیکل نقطہ نگاہ سے یہ ملک بہت اہم ہے۔ اسی لئے اس ملک میں بھی وہ عوام کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ان دونوں ممالک میں امریکہ اور مغرب کی پالیسی یہی ہے کہ عوام کامیاب نہ ہونے پائیں۔
بحرین کی حالت یہ ہے کہ عوام انتہائی مظلومیت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس ملک میں اس وجہ سے کہ عوام کی اکثریت شیعہ ہے (یہ استکباری ممالک) عوامی تحریک کو فرقہ واریت کا رنگ دے رہے ہیں۔ جبکہ امر واقعہ یہ نہیں ہے۔ بیشک بحرین کے عوام شیعہ ہیں، وہ ہمیشہ سے شیعہ تھے، اکثریت شیعوں کی رہی ہے لیکن یہ معاملہ شیعہ اور سنی کا نہیں ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ یہ قوم انتہائی مظلوم واقع ہوئي ہے۔ لوگ اپنے ملک میں، اپنے وطن میں، اپنی سرزمین پر ایک شہری کے ابتدائی حقوق سے محروم ہیں۔ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں، اپنا حق رائے دہی مانگ رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ حق رائے دہی دیا جائے، حکومت کی تشکیل میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ یہ تو کوئي جرم نہیں ہے! یہ تو مسلمہ حق ہے۔ لیکن جھوٹے، مکار اور ریاکار امریکی جو انسانی حقوق اور جمہوریت نوازی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے بحرین کے مسئلے میں کس بے رحمی سے عمل کر رہے ہیں؟! یوں تو وہ انکار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمارا کام نہیں ہے، یہ کام سعودی عرب والے کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے گرین سگنل کے بغیر بحرین میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا اور یہ تلخ و خونیں واقعات رقم کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ بنابریں امریکی بھی ذمہ دار ہیں۔
اہم نکتے
یہاں دو تین نکتے عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ ان ممالک میں عوامی تحریک کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔ ایک ہے ان کا اسلامی ہونا، دوسرے امریکہ و صیہونیت مخالف ہونا اور تیسرے عوامی ہونا۔ یہ خصوصیات ان تمام ممالک میں یکساں طور پر نظر آتی ہیں۔ مصری قوم کو دنیائے عرب اور عالم اسلام میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ اس قوم نے یہ تحریک شروع کی اور اپنے ملک میں انقلاب برپا کیا جو اسلامی بھی ہے اور عوامی بھی ہے اور ساتھ ہی واضح طور پر امریکہ اور صیہونیت مخالف بھی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی یہی صورت حال دوہرائی جا رہی ہے۔
ان عوامی تحریکوں کے سلسلے میں ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ جہاں بھی اسلامی، عوامی اور امریکہ مخالف تحریک ہے ہم اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور اگر کہیں ہم نے محسوس کیا کہ امریکیوں کی ترغیب سے اور صیہونیوں کے اکساوے کی بنا پر کوئی مہم شروع ہوئی ہے تو ہم اس مہم کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ہم امریکہ مخالف اور صیہونیت مخالف تحریکوں کے ساتھ ہیں۔ جہاں امریکی اور صیہونی عناصر وارد میدان ہوکر حکومت کو گراتے ہیں اور ملک پر قبضہ کرتے ہیں وہا ہم امریکیوں کی مہم کے مخالف محاذ کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ اس علاقے کے عوام کی منافع اور مفادات کے بارے میں کبھی سوچے گا نہ کوئی کام کرے گا۔ وہ جو کچھ بھی کرے گا اور آج تک جو کچھ کرتا رہا ہے وہ اس علاقے کی اقوام کے مفادات کے خلاف واقع ہوا ہے۔ یہ ہمارا موقف ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ ممالک جہاں بحمد اللہ تحریکیں کامیاب ہو گئی ہیں، خاص طور پر مصر جو ایک بڑا اور گراں بہا اسلامی، روحانی اور ثقافتی ورثے کا مالک ملک ہے، بہت احتیاط سے کام لے کہ جس دشمن کو دروازے سے باہر نکالا ہے کسی عقبی راستے سے دراندازی کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ یہ جو خبریں ہیں کہ امریکہ مصر کی یا دیگر ممالک کی امداد کرنا چاہتا ہے یہ ایک جال ہے۔ امریکی انہی امدادوں کے ذریعے انہی ڈالروں کی مدد سے ملکوں پر تسلط قائم کرتے ہیں، اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں، جس قوم نے آزادی حاصل کر لی ہے اسے دوبارہ اپنے ظالمانہ اقتدار کے چنگل میں دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب کو چاہئے کہ بیدار رہیں۔ مصری عوام بیدار ہیں۔ مصر کے عوام نے فلسطین کے سلسلے میں، غزہ کے اور رفح گزرگاہ کے تعلق سے سابقہ حکومت کی پالیسی کے خلاف جو عظیم اقدام کیا ہے وہ بہت اہم ہے، یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ مصر دنیائے عرب کا ایک بااثر ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو طاقتیں عرب ممالک کو غاصب صیہونیوں کے سامنے جھکانا چاہتی تھیں انہوں نے مصر کا رخ کیا۔ شرمناک کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا طوق مصر کے گلے میں ڈال دیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی مصر کی جانب سے پذیرائی کے بعد دوسرے عرب ممالک نے بھی سرتسلیم خم کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ کے سامنے جھکتے چلے گئے اور فلسطین کا مسئلہ عرب ممالک کے ایجنڈے سے نکل گیا۔ تو (مصر کے عوام کو) بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ (استکباری طاقتیں) مصر کے سلسلے میں بہت حساس ہیں۔ جمال عبد الناصر کے دور میں بے دخل کر دئے جانے والے مغربی ممالک اور استکباری طاقتیں یہ دور ختم ہوتے ہی دوبارہ لوٹ آئیں۔ یہ تجربہ مصر میں پھر دوہرایا نہیں جانا چاہئے۔ مصر کے عوام بیدار ہیں، ہوشیار ہیں اور ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی مدد فرمائے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ (تحریکوں کو) کچلنے کی یہ کوششیں عبث ہیں۔ جب قومیں بیدار ہو گئیں اور انہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہو گیا تو انہیں ان کے راستے سے کوئی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ انشاء اللہ علاقے کی قوموں کی تحریکیں، ان ممالک میں بھی جہاں یہ تحریکیں نمایاں ہو چکی ہیں اور ان ممالک میں بھی جہاں تحریک موجود ہے لیکن ابھی سامنے نہیں آئي ہے، فتح سے ہم کنار ہوں گی۔ ان ملکوں میں عوام فتحیاب ہوں گے لیکن انہیں دشمنوں کی تفرقہ انگیز سرگرمیوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ اس وقت مصر میں، تیونس میں، شمالی افریقہ اور دیگر اسلامی ممالک میں دشمن اختلافات کی آگ بھڑکانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران چونکہ استکبار مخالف مہم کا مرکز ہے اس لئے ایران اور دیگر ممالک کے درمیان خلیج پیدا کر دینا چاہتے ہیں، قومیتی خلیج، فرقہ وارانہ خلیج۔ خود ان ممالک کے اندر بھی پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت مصر میں انتہا پسند وہابی گروہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے عوامی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس تفرقہ انگیزی کی طرف سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
فلسطین کے مسئلے میں بھی ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ فلسطینی سرزمین، فلسطینی ملک پورا کا پورا فلسطینی عوام کا ہے۔ جن لوگوں نے جغرافیا کے صفحے سے فلسطین کا نقشہ مٹانے کی کوشش کی انہوں نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ فلسطین باقی ہے۔ چند عشروں سے اس پر غاصبوں کا قبضہ ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سرزمین دوبارہ فلسطینی عوام اور عالم اسلام کی آغوش میں لوٹے گی۔ ایسا ہوکر رہے گا۔ فلسطینی عوام بھی پوری طرح بیدار ہیں۔ فلسطین کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ پورا فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے کئی سال قبل مسئلہ فلسطین کا حل تجویز کر دیا تھا۔ مسئلہ فلسطین کا حل امریکی منصوبوں اور اس جیسی دیگر تجاویز سے ممکن نہیں ہے۔ ان سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ واحد حل یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے درمیان استصواب رائے کرایا جائے۔ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں جو حکومت بھی تشکیل پائے اسے پوری فلسطینی ریاست کا انتظام سونپا جائے۔ اس کے بعد یہ لوگ خود فیصلہ کریں گے کہ غیر ممالک سے آکر فلسطین میں داخل ہونے والے صیہونیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہئے۔ اس کا انحصار اس حکومت کے فیصلے پر ہوگا جو فلسطینی عوام کے ووٹوں سے تشکیل پائے گی۔
پروردگارا! مسلمان اقوام، ملت مصر، ملت تیونس، ملت لیبیا، ملت یمن، ملت بحرین اور مظلوم ملت فلسطین کو اپنی عنایات کے زیر سایہ فتح و کامرانی سے ہمکنار فرما۔ عزیز ملت ایران پر اپنی برکتوں میں روز افزوں اضافہ فرما۔ پروردگارا! ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ اور ہمارے شہداء کی ارواح طیبہ کو بلند ترین مقامات سے بہرہ مند فرما۔ حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال رکھ۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌