ستائيس رمضان المبارک کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے یوم قدس کے جلوسوں میں عوام کی بھر پور شرکت کو اسلامی انقلاب کے اہداف و مقاصد کے تئیں ملت ایران کے التزام و پابندی کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران کی اس بیداری اور شان و شوکت سے علاقے میں امید کی کرن پیدا ہوتی ہے اور قوموں کے اندر جذبہ استقامت کو تقویت پہنچتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہفتہ حکومت کی مبارک باد پیش کی اور صدر رجائي شہید اور وزیر اعظم باہنر شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اصولوں اور اقدار نیز اہم نعروں جیسے انصاف پسندی، سامراج کی مخالفت اور سچی خدمت گذاری کو عملی جامہ پہنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اقتصادی جہاد ایک بنیادی ضرورت اور ملک کی اقتصادی ترقی اور پیشرفت کے لئے ناگزیر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دشمنوں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کا اتحاد اور حکومت کی بھرپور حمایت دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی کا سبب ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمنوں نے اس سال کے آغاز میں ایران پر نہایت سخت پابندیوں کی بات کی تھی لیکن یہ پابندیاں نہ صرف کمرشکن ثابت نہیں ہوئيں بلکہ حکومت اور عوام کی ہوشیاری سے مختلف میدانوں میں کامیاب کوششوں، خود انحصاری کی طرف پیش قدمی اور عظیم کارناموں کی انجام دہی کا سبب بنیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اللہ کی خوشنودی کے لئے کام کی انجام دہی کو الہی توفیقات کے حصول اور عوام کے دلوں میں جگہ پانے کا راز قرار دیا اور فرمایا کہ اگر کسی بھی وجہ سے حکومت اپنے نعروں پر عمل آوری کے تعلق سے تساہلی برتتی ہے تو الہی توفیقات میں بھی کمی واقع ہوگی بنابریں بے لوث اور مخلصانہ خدمت کا جوش و جذبہ بدستور قائم رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم

آج کی یہ نشست بہت اچھی رہی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی صدق دلی سے کی جانے والی سعی و کوشش اور ہمدردانہ جذبے سے دیئے جانے والے بیانات میں برکت عطا کرے اور یہ نشست ہم سب کے لئے، ہماری قوم کے لئے، ہماری حکومت کے لئے اور ہمارے حکام کے لئے مددگار ثابت ہو اور ہم اس پرافتخار لیکن دشوار راستے پر جو ہمارے سامنے ہے بآسانی گامزن رہ سکیں۔
میں سب سے پہلے دو عظیم شہیدوں کے نام سے مزین ہفتہ حکومت کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا اور محترم حکام کو اس کی مبارک باد پیش کروں گا۔ ہم ان دونوں شہیدوں کی یاد تازہ کرنا چاہیں گے جنہوں نے بڑے دشوار حالات میں واقعی انتہائي اہم کام شروع کئے، جدت عملی کا مظاہرہ کیا اور ایک حد تک کاموں کو آگے لے جانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ ہم اللہ تعالی سے ان دونوں ہستیوں اور تمام شہداء کے لئے بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔
میں اس موقعے پراپنے عزیز عوام کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے جمعے کو یوم قدس کے جلوسوں میں شاندار انداز سے شرکت کی اور بڑا عظیم منظر نامہ پیش کیا۔ واقعی اس سال کا یوم قدس عوامی شراکت اور عوامی جوش و جذبے کا مظہر تھا۔ یہ ایسا منظر تھا جس سے پورے علاقے کی فضا میں جذبہ امید کو تقویت پہنچتی ہے اور قوموں کو استقامت و پائیداری کے لئے حوصلہ ملتا ہے۔
میں حکومت کی جانب سے انجام دی جانے والی خدمات پر اس کا شکریہ ادا کروں گا جن میں بعض کا ذکر آج کی نشست میں کیا گیا۔ جو رپورٹیں آج کی نشست میں پیش کی گئیں ان کے تعلق سے میں اپنے عزیز اور محترم بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ صدر محترم سے میں نے خود درخواست کی کہ وزراء اپنے اپنے شعبے کی رپورٹیں پیش کریں۔ نتیجتا جلسہ بڑا مفید رہا، آپ نے جو رپورٹیں پیش کیں بہت اچھی تھیں، بڑی مدلل اور پختہ رپورٹیں جو اعداد و شمار کے ساتھ تھیں اور بعض رپورٹیں تقابلی اعداد و شمار پر مبنی تھیں۔ یہ ساری چیزیں بہت ضروری تھیں، یہ رپورٹ پیش کی جانی چاہئے تھیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔
میں مزید ایک نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ ملک کے دانشور طبقے اور علمی طبقے سے جس کا تعلق یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز سے ہے میری ملاقاتیں ہوتی ہیں، ان افراد کی ایک شکایت حکام سے یہ ہے کہ حکام ہمارے درمیان آمد و رفت نہیں رکھتے اور ہم سے ان موضوعات کے سلسلے میں بات نہیں کرتے۔ یہ اعتراض بجا ہے۔ چند روز قبل بھی میں نے یونیورسٹی کے اساتذہ سے ملاقات میں یہ بات کہی۔ ان لوگوں نے بارہا یہ بات کہی ہے، اس جلسے میں بھی اس کا اعادہ کیا گيا تو میں نے بھی اس کو بیان کر دینا مناسب جانا۔
آج کی ہماری نشست زیادہ تر اقتصادی مسائل کے ارد گرد گھوم رہی ہے جو واقعی ملک کا محوری اور بنیادی مسئلہ بھی ہے۔ آج مختلف سطح کے حکام کے سامنے جو چیلنج ہے اور جس کی وجہ سے بعض افراد اعتراض اور تنقید کر رہے ہیں وہ یہی اقتصادی مسئلہ ہے۔ آپ اس مسئلے کو دانشوروں کے حلقے میں لے جائیے، اس کی تشریح کیجئے، بیان کیجئے اور اس کا جو جواز آپ کی نظر میں ہے وہ بھی پیش کیجئے۔ مثال کے طور پر محترم وزیر خزانہ یا سنٹرل بینک کے سربراہ یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے درمیان جائیں۔ بہت ممکن ہے کہ جو سوالات آپ سے کئے جائیں گے یا جو اعتراضات سامنے آئیں گے ان میں بہت سے ایسے بھی سوالات ہوں گے جن میں فنی خامیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کوئی بات نہیں، آپ جائیے۔ سو، دو سو یا پانچ سو افراد کے درمیان آپ کی نظر انہی دس افراد تک محدود نہیں ہونا چاہئے جو اس (غیر مدلل) انداز سے سوچنے کے عادی ہیں۔ آپ زیادہ توجہ ان چار سو نوے افراد پر دیجئے اور اپنی بات بیان کیجئے۔ ممکن ہے کہ بہت سی تنقیدیں ایسی ہوں جو آپ کی مشکل کو حل کر دیں۔ یعنی بنیادی تنصیبات سے متعلق امور کے بارے میں، اقتصادی امور کے بارے میں، روزگار اور کام کے بارے میں ہوں۔ اس طرح باہمی کمک کا ماحول پیدا ہوگا۔ میری نظر میں یہ ضروری کام ہے اور میں اس کا سفارش کرتا ہوں۔
میری خواہش یہ ہے کہ یہ نشست پوری تفصیلات کے ساتھ نشر کی جائے۔ یعنی یہ تمام رپورٹیں جو محترم وزراء نے اور صدر محترم کے نائبین نے پیش کیں منعکس کی جائیں تا کہ لوگ انہیں سنیں۔ البتہ میں آپ سے ایک بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اعداد و شمار عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں باقی نہیں رہ پاتے۔ ان اعداد و شمار سے زیادہ تر ماہرین شماریات ہی سروکار رکھتے ہیں اور ان کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتے ہیں۔ آپ ان ماہرین کو تلاش کیجئے ان کے ساتھ بیٹھ کر اس بارے میں تبادلہ خیال کیجئے۔ ممکن ہے کہ اس پر وہ کوئی تبصرہ کریں، کوئی نکتہ چینی کریں جو بجا بھی ہو۔ اس سے آپ کو مدد ملےگی۔ میں اس بات پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا۔ ہمیں اس انتظار میں نہیں رہنا چاہئے کہ صدر محترم یہ کام انجام دیں۔ نہیں، وزراء خود بھی یہ کام شروع کر سکتے ہیں۔ البتہ اگر صدر محترم دانشوروں کے درمیان جائیں اور ان موضوعات پر گفتگو کریں تو اور بھی اچھا ہے۔
میں دو تین باتوں کے سلسلے میں انتباہ بھی دینا چاہوں گا، میں ہمشیہ آپ کو ان باتوں‎ کے سلسلے میں متنبہ کرتا رہتا ہوں اور اس پر میری خاص تاکید ہے۔ نویں اور دسویں حکومت کے جو نعرے تھے اور آج بھی ہیں وہ ہمارے باایمان عوام کے لئے بڑے پر کشش نعرے ہیں۔ مثلا سماجی انصاف کا نعرہ، استکبار کے خلاف جد و جہد کا نعرہ، سادہ زیستی، اشرافیہ کے طرز زندگی سے اجتناب، اقتصادی و غیر اقتصادی امور میں جان پہچان اور تعلقات کو دخیل نہ ہونے دینا اور اخلاص عمل کے ساتھ خدمت۔ یہ بات آپ بھی بخوبی جانتے ہیں۔ سنہ دو ہزار پانچ اور دو ہزار نو (کے صدارتی انتخابات) میں صدر محترم کو ملنے والی مقبولیت کی وجہ یہی نعرے تھے۔ یعنی عوام کو ان نعروں سے لگاؤ ہے اور انہیں ان باتوں کی ضرورت کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا آپ ان نعروں کو نظر انداز نہ ہونے دیجئے۔ انہی بنیادی نعروں میں ان اقدار او اصولوں کی پابندی بھی ہے جنہیں عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ہمارے معاشرے میں متعارف کرایا اور جن کی ترویج کی۔ عالمی سطح پر بھی اسلامی انقلاب سے لوگوں کی دلچسپی کی وجہ یہی نعرے تھے۔ یعنی نہ تو ہمارے پاس تشہیراتی وسائل تھے، نہ ہم تشہیراتی روشوں سے با قاعادہ واقفیت رکھتے تھے لیکن پھر بھی قوموں کے اندر، پوری دنیا میں ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مقبولیت عام ہو گئی۔ یہ انہی نعروں کا نتیجہ تھا، یہ اسی موقف اور رخ کا نتیجہ تھا۔ آپ کا یہی عمل کہ آپ ظاہری طور پرغالب نظر آنے والی استکباری طاقتوں کے مد مقابل آج جس کا اصلی مظہر امریکہ اور عالمی صیہونزم ہے، ڈٹے ہوئے ہیں، اپنے آپ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے مقبولیت بڑھتی ہے، اس سے قوموں کے دلوں میں امید پیدا ہوتی ہے، انہیں حوصلہ ملتا ہے۔ لہذا اس کو کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ بہت محتاط رہئے کہ آپ کے طور طریقے میں، آپ کے بیانوں میں، آپ کے برتاؤ میں، آپ کے طرز عمل میں یہ نعرے کبھی نظر انداز نہ ہونے پائیں۔
اللہ کے لئے کام کیجئے۔ صرف اس لئے کام نہ کیجئے کہ عوام کو یہ کام پسند آئے گا۔ نہیں، اگر آپ نے اپنا نصب العین یہ بنایا کہ صرف لوگوں کا دل جیتنا ہے تو آپ ناکام رہیں گے۔ حدیث قدسی ہے کہ «لأقطعنّ امل كلّ ءامل غيرى» یہ حدیث قدسی ہے جو میری یادداشت کے مطابق معتبر سند کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں یقینی طور پر اس شخص کو مایوسی میں مبتلا کر دوں گا جو میرے علاوہ کسی اور سے آس لگائے گا۔ ہمیں اللہ تعالی سے امید رکھنی چاہئے، اللہ تعالی کے لئے کام کرنا چاہئے، اللہ کے لئے کام کرنے میں خاص کشش ہوتی ہے۔ یہ نعرے الہی نعرے ہیں۔ اگر ان کے تئیں ہماری یہ پابندی باقی نہ رہے گی، ان کے سلسلے میں ہماری سنجیدگی میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی تو توفیقات الہی بھی سلب ہو جائیں گی۔ آج میدان عمل میں آپ کی بے شمار کامیابیاں ہیں، ابتدائے انقلاب سے تا امروز آپ مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توفیقات الہی آپ کے شامل حال رہی ہیں اور یہ نصرت خداوندی کا نتیجہ ہے۔ اگر اللہ کے لئے کام نہیں کیا جائے گا تو یہ کامیابیاں بھی ہم سے چھین لی جائیں گی۔ وہی صادقانہ، مخلصانہ اور بے لوث سعی و جفاکشی اور وہی جوش و جذبہ جاری و ساری رہنا چاہئے۔ یہ بنیادی نکتہ ہے۔
دوسرا اہم نکتہ جس کے بارے میں میں نے ملک کے حکام سے حالیہ ملاقات میں بھی گفتگو کی، یہ ہے کہ خوبیوں کو، کامیابیوں کو بیان کیا جائے اور ساتھ ہی خامیوں کا بھی ذکر کیا جائے۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ اس کا بہت اثر پڑتا ہے۔ آج میں نے بعض حضرات کی رپورٹوں میں دیکھا کہ کمزوریوں کا بھی ذکر کیا گيا لیکن اس جملے کی صورت میں کہ ان کاموں کو انجام دیا جانا چاہئے۔ یہ چاہئے ایسے کام کی طرف اشارہ ہے جو ضروری تھا لیکن انجام نہیں دیا گيا۔ اس بات کو واضح طور پر کہئے کہ ہمیں یہ کام انجام دینا تھا لیکن ہم اب تک اس کو انجام نہیں دے سکے ہیں۔ کوئی کسی کا کام انجام نہ دے سکنے کی بنا پر مواخذہ نہیں کرےگا۔ انسان یہی سوچے گا کہ دس کام انجام دیئے گئے اور دو تین یا پانچ کام انجام نہیں دیئے گئے، انہیں انجام دیا جانا ہے۔ آپ اسے بیان کیجئے۔ اس کو صریحی طور پر کہئے۔ کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس سے نہ گھبرائیے کہ یہ بات بیان کر دینے سے آپ پر تنقید کرنے والے شخص کی بات سچ ثابت ہو جائے گی جو عناد کے جذبے کے تحت آپ پر تنقید کرتا ہے۔ سچ ثابت ہونے دیجئے! اس میں کوئي مضائقہ نہیں ہے۔ آپ خود کہئے کہ ہاں، مجھ پر یہ جو تنقید کی جا رہی ہے بجا ہے۔ اسے آپ بیان کیجئے لیکن ساتھ میں یہ بھی بتائیے کہ آپ اس کوتاہی کو برطرف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، آپ یہ کام بھی انجام دینے والے ہیں۔ آپ کے لئے یہ میری سفارش ہے۔
ذرائع ابلاغ، اخبارات اور بعض قانونی ادارے جو حکومت پر تنقیدیں کرتے ہیں تو ان کے جواب میں دو طرح کا انداز اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ اپنی صفائی پیش کیجئے، اپنی بات بیان کیجئے۔ یہ صحیح روش ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ مخاصمانہ رویہ اختیار کر لیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ اس طرح نہ سوچئے کہ یہ لوگ انتظامیہ کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، مخصوص مقاصد کے تحت تنقیدیں کر رہے ہیں تو ہم بھی جیسے کو تیسا جواب دیں گے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے، آپ بیان کیجئے۔ صفائی پیش کرنا ضروری ہے۔ صفائی پیش کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ آپ عمومی جلسوں میں بیان کیجئے، وضاحت کیجئے۔ آپ پر سوال اٹھائے جائيں تو آپ ان کا جواب دیجئے۔ اس طرح آپ کا موقف سامنے آئے گا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر ہوگا۔ جب بات صحیح طریقے سے بیان کر دی جائے گی تو کینہ توزی کی بنا پر کی جانے والی تنقید بے اثر ہو جائے گی۔
ایک اور اہم نکتہ ان خامیوں اور کمزوریوں کو بیان کرنے کے سلسلے میں عرض کر دوں کہ ایک کمی یہ ہے کہ ہم کاموں میں ترجیحات پر توجہ نہیں دیتے۔ ایک صاحب نے اپنی رپورٹ میں بڑی اچھی بات کی طرف اشارہ کیا کہ ادھورے منصوبوں کو پورا کیا جائے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ میں ہمیشہ اس پر تاکید کرتا ہوں لیکن پہلے آپ اس کا تعین ضرور کر لیں کہ ان ادھورے منصوبوں میں کن منصوبوں کو ترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے ادھورے منصوبوں کی ایک تعداد کا بھی ذکر کیا۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ کس منصوبے کے بارے میں زیادہ باتیں کی گئی ہیں، کس منصوبے کے بارے میں عوام سے وعدے کئے گئے جن کی بنا پر عوام کی توقعات وابستہ ہیں۔ ان چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد آپ اس منصوبے پر کام شروع کیجئے۔ ان منصوبوں کو آپ نئے منصوبوں پر ترجیح دیجئے۔ کتنی اچھی بات ہوگی کہ عوام سے جو بھی وعدے کئے گئے حکومت ان سب پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر کوئی وعدہ کیا گيا اور اس پر عمل نہ ہوا تو اس سے مشکلات پیدا ہوں گی حکومت کے تعلق سے بھی اور اسلامی نظام کے سلسلے میں بھی۔
صدر مملکت نے اشارہ کیا کہ آپ نے عوام کی توقعات بڑھا دی ہیں۔ توقعات اس لئے نہیں بڑھیں کہ آپ نے اپنی خامیوں کو بیان کیا ہے بلکہ توقعات اس لئے بڑھیں کہ آپ نے عوام سے وعدے کئے۔ اب اگر ہم ان وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہی توقعات عوام کے ایمان و ایقان میں تبدیل ہو جائیں گی۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہم نے جو بھی کہا ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہاں وعدہ پورا کر دیا گیا۔ آج میں نے دیکھا کہ آپ نے جو اعداد و شمار بیان کئے وہ تقابلی اعداد و شمار تھے۔ یہ بہت مناسب لگا لیکن یہ موازنہ ہمارے وعدوں اور ان پر عمل آوری کے درمیان بھی ہونا چاہئے۔ اس کا فیصدی نکالئے اور دیکھئے کہ کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ اقتصادی جہاد کا ہے۔ جس کا بار بار ذکر ہوتا رہا ہے۔ آج بھی حضرات نے اسے پیش کیا۔ رواں سال کو اقتصادی جہاد کا سال قرار دینے کی وجوہات اور بنیاد آپ حضرات کو جن کا تعلق حکومت سے ہے بخوبی معلوم ہے۔ یعنی ہم اقتصادی جہاد کو ملک کی اہم ضرورت سمجھتے ہیں۔ یہ محض ایک ترجیح نہیں بلکہ حتمی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ معیشت، معاشی ترقی اور معاشی و اقتصادی رونق کا عوام کی زندگی سے براہ راست تعلق ہے۔ عوام کی معیشت ہمیشہ دنیا بھر میں تمام حکومتوں کا اولین ہدف رہی ہے۔ البتہ ان حکومتوں کی نظرمیں جنہیں عوام سے لگاؤ ہو۔ ہم ان حکومتوں کی بات نہیں کر رہے ہیں جو جابر، توسیع پسند اور استحصال کرنے والی حکومتیں ہیں۔ جو حکومت اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے اس کے سامنے پہلا ہدف عوام کی معیشت ہی ہوتی ہے جس سے عوام کی زندگی چلتی ہے۔ اس سب کا دار و مدار اقتصاد پر ہوتا ہے۔ اچھا، صحتمند، ترقی پذیر اور مضبوط اقصاد لوگوں کی زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ ہمیں اقتصادی کاموں میں مجاہدت کرنا چاہئے۔
ایک اور مسئلہ ترقیاتی منصوبے میں طے شدہ منزل تک خود کو پہنچانے کا ہے۔ اس منزل کا تعین کیا جا چکا ہے، اس کا تعین کرنے والی دستاویز بہت اہم ہے۔ ہمیں اس پر توجہ رکھنا چاہئے۔ جب تک ہم اقتصادی جہاد نہ کریں گے معینہ منزل تک خود کو نہیں پہنچا سکتے۔ اس دستاویز میں ملک کو علاقے کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت میں تبدیل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس میدان میں جو مقابلے کا میدان ہے اگر ہم پیچھے رہ گئے تو ہم پر ضرب پڑ جائے گی۔ میں نے اس سے پہلے بھی ایک نشست میں کہا کہ یہاں دوسروں کی تقلید کرنے کا معاملہ نہیں ہے، یہاں معاملہ یہ ہے کہ عام مقابلے کے اس میدان میں، حکومتوں کے درمیان جاری دوڑ میں اگر کوئی پیچھے رہ گیا تو کچل دیا جائے گا۔ ہماری اقتصادی ترقی اور طے شدہ منزل تک خود کو پہنچانے کی کوشش اسی لئے ہے کہ اگر ہم اس مقام تک نہ پہنچ سکے تو ہماری قوم اور ہمارے ملک کو بڑے سخت نقصانات کا متحمل ہونا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ ہم پر مہلک ضربیں بھی پڑ جائیں۔ لہذا ہمیں اس منزل تک پہنچنا ہے۔ یہ اہم ضرورت ہے۔ ہمارے جو نعرے ہیں، اسلامی انقلاب کے جو اہداف ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ہمارے پاس کوئی اور چارہ ہے بھی نہیں۔ یہ امر واقع ہے کہ اسلامی نظام استکباری دنیا کے لئے، تسلط پسند طاقتوں کے لئے، الحادی مکاتب فکر ہے لئے مسلسل چیلنج بنا ہوا ہے۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو جاری ہے۔ اس میدان میں اگر شسکت ہوئی تو ناقابل تصور نقصان پہنچے گا اور یہ نقصان ہماری قوم تک محدود نہیں رہے گا۔ لہذا اس میدان میں ہمیں ہر حال میں کامیاب ہونا ہے۔ اس فتح کے لئے مختلف وسائل کی ضرورت ہے جن میں ایک اقتصادی ترقی ہے۔
ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ اس وقت اسلامی نظام کے دشمن اور ملت ایران کے دشمن ہمارے خلاف اقتصادی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہی اقتصادی پابندیاں ہیں جن کا ذکر بھی کیا گيا۔ میں یہاں اس ٹیم کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو ان پابندیوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں تمام صحیح، زیرکانہ، عاقلانہ اور منطقی روشوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ پابندیوں کو ناکام بنائیے۔ دشمن کی بظاہر ہیبتناک لیکن درحقیقت کمزور چالوں کو ناکام بنائیے۔ جب ہم اپنے سامنے استکباری طاقتوں کی اس عظیم فوجی اور اقتصادی یلغار کو دیکھتے ہیں تو ٹام اینڈ جیری کارٹون کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اس کی بھاگ دوڑ بہت زیادہ، شور شرابا بے تحاشا اور ہنگامہ بے پناہ ہے لیکن اثر وہ نہیں ہے جس کی اسے توقع ہے یا دیکھنے والے کو جس کی توقع ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ اب یہاں آپ کی دانشمندی اور عقلمندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اسمارٹ اور کمر شکن پابندیوں کی بات کی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ پابندیاں نہ اسمارٹ ہیں اور نہ کمر شکن۔ یہ پابندیاں باعث بنیں کہ ہم بہت سے ایسے امور میں خود کفیل ہو گئے جن میں اب تک خود کفیل نہیں تھے۔ ہم نے علم و دانش کے شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ہم ملک کے اندر فوجی و غیر فوجی اور صنعتی پیداوار کے شعبوں میں کارہائے نمایاں کے شاہد ہیں اور ایسے بہت سے طریقے ہم نے ایجاد کر لئے جن کی مدد سے پابندیوں کو بے اثر بنایا جا سکتا ہے۔
یہ پابندیاں بے اثر بنا دی جائیں گی۔ آپ یقین رکھئے! یہ (مغربی طاقتیں) اس صورت حال کو زیادہ عرصے تک جاری نہیں رکھ سکتیں، یہ ممکن ہی نہیں ہے یعنی دنیا کے حالات اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ آج کی دنیا امریکہ کی فرمانبرداری کرنے والی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ امریکہ کا خصوصی ایلچی کسی خاص ملک میں جائے اور وہاں سوال و جواب کرے، کچھ اور حرکتیں کرے۔ تھوڑے عرصے تک تو یہ سب کچھ جاری رہ سکتا ہے لیکن اسے طول نہیں دیا جا سکتا۔ میں نے چند ماہ قبل یہ بات کہی تھی اور آج آپ خود بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ان لوگوں نے ابتدائے سال میں مفلوج کن پابندیوں کا پروپیگنڈا کیا۔ انہیں توقع تھی کہ تین چار مہینے کے اندر اندر واقعی ہماری معیشت مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔ تین چار مہینے ہی نہیں اور زیادہ وقت گزر چکا ہے اور مفلوج ہونا تو در کنار بحمد اللہ اقتصادی رونق کے مناظر سامنے ہیں۔ بنابریں اقتصادی جہاد کا مقصد یہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی پر توکل کے ساتھ نصرت الہی پر بھرپور یقین و اعتماد کے ساتھ ہمیں دانشمندانہ اور با مقصد مجاہدت انجام دینی ہے۔
اقتصادی جہاد کا ایک مصداق یہی اقتصادی تبدیلی ہے جس پر حکومت دو تین سال سے کام کر رہی ہے۔ اقتصادی تبدیلی کے منصوبے کا ایک حصہ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم سے متعلق تھا جسے بحمد اللہ منظوری ملی اور اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا۔ البتہ میں پیداواری شعبے کے سلسلے میں ایک سوال پوچھنا چاہوں گا۔ حضرات نے رپورٹوں میں اس بارے میں بتایا لیکن ایسا لگتا ہے کہ پیداواری شعبے کی مدد کے لئے بل میں جس چیز کا ذکر کیا گيا تھا اس پر عمل نہیں ہوا۔ پیداواری شعبے کی مدد کی جانی چاہئے۔ دراز مدت میں یہ پیداواری شعبے انشاء اللہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے اور روز بروز خود کو زیادہ مضبوط بنائیں گے اور ضروریات کی تکمیل میں کامیاب ہوں گے لیکن سر دست انہیں مدد کی ضرورت ہے اور ضروری وسائل فراہم کرنے کی احتیاج ہے۔ ان لوگوں کے خلاف کارروائی بھی کی جانی چاہئے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، بینک سے لون لیتے ہیں کسی پیداواری یونٹ کو چلانے کے لئے لیکن کسی اور کام میں صرف کر دیتے ہیں، بھیڑیا صفت لوگوں پر رحم نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں ضرورت ہے وہاں آپ ضرور مدد کیجئے۔ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے تحت پیداواری شعبے پر ضرور توجہ دیجئے۔
اقتصادی تبدیلی کے دوسرے حصوں پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ اس میں ایک مسئلہ کسٹم کا ہے۔ آج ایک صاحب نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گيا ہے۔ ایک مسئلہ بنکاری اور مالیاتی امور سے متعلق پالیسیوں کا بھی ہے۔ اقتصادی تبدیلی کے منصوبے میں جو پانچ چھے بنیادی امور تھے ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ اس انداز سے کام کیجئے کہ حکومت کی باقی ماندہ مدت میں یہ کام شروع ہو جائیں تا کہ انہیں آگے بڑھایا جا سکے۔ یعنی کام ادھورا نہ چھوڑئے۔ یہ کام دو سال کے اندر پورے تو نہیں ہوں گے۔ اسی سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے کو لے لیجئے! اس کے متعدد مراحل ہیں۔ آپ نے شروعات کر دی، آپ نے قدم اٹھا لیا تو یہ بھی اپنے آپ میں با قاعدہ ایک کام ہے۔ بشرطیکہ شروعات صحیح بنیادوں پر کی گئی ہو۔
درآمدات کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی گئی۔ یہ مسئلہ بھی میرے لئے تشویش کا باعث ہے۔ رپورٹ تو پیش کی گئی لیکن جو چیز آنکھوں کے سامنے ہے وہ کسی حد تک تشویش ناک ہے۔ درست ہے کہ ممکنہ طور پر غیر پیٹرولیم اشیاء کی برآمدات کی نسبت درآمدات کی شرح میں ہونے والا اضافہ کم ہوا ہو جو ایک مثبت چیز ہے لیکن اتنے پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر زراعت اور باغبانی وغیرہ کے سلسلے میں جو باتیں بیان کی گئيں ان کے سلسلے میں ہماری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ درآمدات کو حتی الوسع کم کریں۔ آپ زرعی اشیاء کی پیداوار کو صنعتی سطح تک پہنچانے کی کوشش کریں، جس کا ذکر رپورٹوں میں بھی کیا گيا۔ یہ بہت اہم چیزیں ہیں۔ ان چیزوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔ انشاء اللہ عوام بھی تعاون کریں گے۔
ہمیں درآمدات کی پالیسی پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ان اشیاء کی درآمدات کے سلسلے میں جنہیں ہم خود پیدا کر سکتے ہیں، خواہ صنعتی مصنوعات ہوں یا زرعی اشیاء۔
ایک اور اہم مسئلہ ثقافت کا ہے جو اقتصادیات سے الگ بحث ہے اور جس کی آج رپورٹ پیش نہیں کی جا سکی بلکہ آئندہ پیش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں میں دوستوں سے یہ سفارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ثقافتی مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لیجئے۔ اگر ہم اقتصادی امور کو اسی طرح جس طرح ہمارا منصوبہ ہے اور جو ہماری تمنا ہے انجام دینے میں کامیاب ہو گئے اور ثقافتی شعبے میں پیچھے رہ گئے تو یقین جانیئے کہ ملک کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ دشمنوں کی مخاصمانہ سرگرمیاں ایک طرف اقتصادیات پر مرکوز ہیں تو دوسری طرف ثقافتی امور پر بھی ان کی نظر لگی ہوئی ہے۔ دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے کہ اس مسئلے کو چھیڑا جائے لہذا اختصار سے بس اتنا کہنا ہے کہ ثقافتی امور پر آپ توجہ رکھئے، اسلامی اور انقلابی رخ کے مطابق، یہ بہت اہم ہے۔ ثقافتی مسئلے میں کسی رواداری میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمام ثقافتی شعبوں میں، خواہ وہ کتابوں کا معاملہ ہو، آرٹ کا مسئلہ ہو یا ثقافتی اداروں کی بات ہو، رخ انقلابی اور اسلامی ہونا چاہئے۔ اس شعبے میں بھی ترجیحات کو مد نظر رکھئے کیونکہ وسائل و امکانات محدود ہیں۔ ویسے حکومت نے جو ثقافتی بجٹ منظور کیا ہے وہ بہت مناسب ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس بل کی بعض رقوم کی تخصیص ابھی عمل میں نہیں آئی ہے۔ یہ مراحل طے پا جائیں تب بھی تمام ثقافتی سرگرمیوں کے لئے بجٹ پورا نہیں پڑے گا۔ بہرحال وسائل محدود ہیں۔ وسائل کی محدودیت کے پیش نظر آپ ترجیحات کے تعین کی کوشش کیجئے۔ البتہ میں نے کچھ امور کی تجویز حکومت کو پیش کی ہے جن پر ثقافتی سرگرمیوں میں اگر توجہ دی جائے تو ثقافتی شعبے پر ہماری جو نظر ہے اس کے مطابق یہ امور ترجیحات کا جز قرار پائيں گے۔ یعنی ان امور کا اثر زیادہ ہوگا۔ ان چیزوں پر کام کیجئے تاکہ یہ مرحلہ طے پائے۔
ایک اور اہم مسئلہ جو موضوع گفتگو بنا ہوا ہے اور میں کلی طور پر اس کا ذکر کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ حکومت کے سامنے چونکہ اتنے سارے کام ہیں لہذا آپ مسائل کھڑے کرنے والی فروعی باتوں میں نہ الجھئے۔ حکومت کام کر رہی ہے، محنت کر رہی ہے، کام کے لئے میدان بھی ہموار ہے اور کام کی شدید ضرورت بھی ہے۔ کام کے لئے میدان بھی کھلا ہوا ہے، کام کرنے کی شدید ضرورت بھی ہے اور حکومت نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ جوکھم اٹھا کر میدان میں اتر جانے والی اور ایڑی چوٹی کا زور لگاکر کام کرنے والی حکومت ہے تو ان حالات میں بالکل مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ فروعی باتوں میں الجھا جائے۔ خواہ وہ فروعی مسائل ہوں جو بعض اوقات آپ بے توجہی میں پیدا کر دیتے ہیں یا وہ جزوی باتیں جو دوسرے وجود میں لاتے ہیں اور آپ اس میں الجھ جاتے ہیں۔ ان فروعی باتوں سے پرہیز کیجئے۔ آپ ملک کے اندر، حکومت اور عوام کے درمیان کسی طرح کی چپقلش پیدا نہ ہونے دیجئے جو آپ کو کام سے روک دے۔
بہت سے مسائل اٹھائے جاتے ہیں۔ میری سفارش یہ ہے کہ ایران سے محبت کے سلسلے میں، ملک سے الفت کے سلسلے میں، ایران سے لگاؤ کے بارے میں بعض نکات پر توجہ ضروری ہے۔ ایک چیز یہ ہے کہ ملت سے متعلق بہت اہم چیز زبان اور ادب ہے۔ ایران سے محبت کا ایک اہم تقاضا اسی طریقے سے پورا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی زبانیں ہیں لیکن سرکاری زبان فارسی ہے۔ بہت سے افراد جن کا تعلق دوسری زبانو‎ں ہے وہ بھی فارسی کے بہترین مروجین میں شامل ہیں۔ فارسی ادب کے بہترین مقالے ترکی زبان بولنے والوں نے لکھے ہیں۔ یہ بات میں باقاعدہ مصدقہ اطلاعات کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ انشاء اللہ کردی زبان کے لوگ بھی ایسے مقالے لکھیں گے، اس میں کیا مضائقہ ہے، ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔ گزشتہ عشروں کے دوران ترکی زبان والے محققین نے فارسی زبان کے بہترین اور انتہائی معیاری مقالے لکھے ہیں۔ بنابریں یہ تصور پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ فارسی زبان ایرانی قومیت کی علامت نہیں ہے، بالکل ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ (1)
اسی ایران میں اسلام کی آمد کے بعد کے دور پر خاص توجہ دینا چاہئے کیونکہ اسلامی دور میں ایران کے اندر جو قابل فخر کارنامے انجام دیئے گئے کسی اور دور میں اتنے افتخارات ہمیں نظر نہیں آتے۔ اس کی میرے پاس دلیل ہے، اسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی توسیع، ملک کی بڑی فوجی کامیابیاں، مختلف شعبوں میں انجام پانے والے علمی کارنامے سب کا تعلق اسلامی دور سے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام آنے سے قبل اس سمت میں کوئی کام نہیں کیا گیا، کیوں نہیں، کام ہوا لیکن اسلامی دور میں انجام پانے والے کارناموں کی نسبت وہ ادھورا تھا، بہت محدود تھا۔ کچھ چیزیں بیان ضرور کی جاتی ہیں لیکن ان کی کوئی سند نہیں ہے۔ لہذا انہیں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ان چیزوں کی دلیل نہیں ہے۔ لیکن اسلامی دور میں جو کارہائے نمایاں انجام پائے انہیں ثابت کیا جا سکتا ہے، وہ بالکل سامنے کی باتیں ہیں۔ آپ مطالعہ کیجئے کہ دیلمی دور حکومت میں، سلجوقی دور میں، بعد کے ادوار میں، صفوی دور میں اسی طرح مغلیہ زمانے میں جو علمی، ثقافتی اور فوجی کامیابیاں ملی ہیں وہ کیا ہیں؟! مغل ایران آئے تو ایرانی تہذیب و ثقافت سے ایسے متاثر ہوئے کہ ایرانی بن گئے، اسی طرح وہ ہندوستان گئے تو ہندوستانی ہوکر رہ گئے۔ اس دور میں کتنے عظیم اور نمایاں علمی، ثقافتی اور فنی کارنامے انجام پائے۔ اگر کوئی ایرانیت کی بہت حمایت کرنا چاہتا ہے تو دیکھے کہ اسلامی دور کا ایران زیادہ پیشرفتہ ہے اس سلسلے میں زیادہ معتبر اور قابل قبول دستاویزات موجود ہیں۔ ساری چیزیں آنکھوں کے سامنے ہیں، اس دور کی کتابیں موجود ہیں، اس دور کا فن تعمیر نگاہوں کے سامنے ہے، علمی تخلیقات آنکھوں کے سامنے ہیں، اس کی تاریخ بھی مدون اور بالکل واضح ہے۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ (تینوں) شعبوں (مقننہ، مجریہ، عدلیہ) کے درمیان تعاون کے مسئلے کو حل کیجئے۔ میں سبھی شعبوں سے سفارش کرتا رہتا ہوں اور اس وقت آپ جو مجریہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں موجود ہیں تو آپ سے بھی میں یہ سفارش کروں گا۔ جہاں جس قدر ممکن ہے نرمی دکھائیے! اس میں کیا مضائقہ ہے؟ جہاں بات کی وضاحت کرنا ممکن ہے، وضاحت کیجئے، جہاں ممکن ہے کہ دوستانہ ماحول میں بات چیت کرکے مسئلے کو حل کر لیا جائے، اسی انداز سے حل کر ڈاليئے۔ میں تینوں شعبوں کے سربراہوں کے باہمی اجلاس پر اتنی تاکید کیوں کرتا ہوں؟ اس لئے کہ جب تینوں شعبوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوگا تو بہت سے مسائل دوستانہ انداز سے حل کر لئے جائیں گے۔ نشستوں میں روبرو بیٹھیں گے، ایک دوسرے سے بات کریں گے تو اس سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے، ماضی میں ہم اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ میں نے مانا کہ بعض دوستوں نے اس کے لئے مختلف طریقوں سے کوشش کی لیکن نتیجہ خیز ثبات نہیں ہوئی۔ کوئي بات نہیں، دوسرے راستے موجود ہیں۔ بہرحال پسند ناپسند کے اختلاف کو حل کرنا ضروری ہے۔ آپ کوشش کیجئے کہ یہ باہمی رابطہ دوستانہ رابطہ ہو۔ اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ دوسرا شعبہ جو طرز عمل اختیار کر رہا ہے وہ آپ کو پسند نہیں ہے تو ہم اپنے طرز عمل کا بھی تو جائزہ لیں کہ ہم نے اپنے طرز عمل سے ان امور میں کس طرح کا اثر ڈالا ہے؟ ہمیں دھیان دینا چاہئے، اگر ہماری وجہ سے کچھ منفی اثر پڑ گیا ہے تو اس کے ازالے کی کوشش کریں۔
میں محترم حکام کے لئے، آپ تمام حضرات کے لئے، تینوں شعبوں کے سربراہوں اور ملک کے مختلف امور کے ذمہ دار کارکنوں کے لئے دعا گو ہوں۔ اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے تاکہ جن کاموں کی آپ سے توقع ہے آپ انہیں بنحو احسن سرانجام دیں۔ اپنی نیتوں کو پاکیزہ بنائیے، اخلاص اور صدق دلی کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھئے اور آپ کی جس محنت و جفا کشی کی شہرت ہے اس میں ذرہ برابر کوئی کمی نہ آنے دیجئے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

(1) ایک عہدیدار نے اپنی رپورٹ پیش کرتے وقت کہا کہ فارسی زبان و ادب کی خدمت کے سلسلے میں کرد قوم بھی ترک قوم کی مانند ہے، جس پر قائد انقلاب اسلامی نے یہ تبصرہ فرمایا۔