آپ نے تہران ميں مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں، ماہرین کی کونسل کے سربراہ، کابینہ کے ارکان، ارکان پارلیمنٹ، مختلف اداروں کے حکام، ائمہ جمعہ، صوبوں میں ولی امر مسلمین کے نمائندوں اور مسلح فورسز کے سینیئر کمانڈروں کے اجتماع سے خطاب میں علاقے اور دنیا میں پیدا ہونے والے بالکل نئے قسم کے حالات کا حوالہ دیا اور ملک کی صورت حال کی ایک اجمالی تصویر پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بتیس سال گزر جانے کے بعد اسلامی جمہوری نظام کی پوزیشن کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک اس وقت ناقابل تصور پیشرفت اور کامیابیاں حاصل کر چکا ہے جو بلندیوں کی جانب پیش قدمی جاری رکھنے کے سلسلے میں انتہائی حوصلہ افزا اور اچھی بنیاد ہے تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ ترجیحات اور ادھورے کاموں کی ایک طویل فہرست بھی ہے جنہیں انجام دینے کے لئے ہمدلی، اتحاد، مربوط مساعی، اصولوں اور اقدار پر ثابت قدمی کے ساتھ اور نظام پر عوام کے اعتماد اور نوجوانوں کے جذبہ خود اعتمادی کو بروئے کار لاتے ہوئے مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے بعض حکام اور سیاسی شخصیات کے اندر پائی جانے والی منفی سوچ پر نکتہ چینی کی اور ایسی اجتماعی سوچ کو مایوسی و ناامیدی کی وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بعض جرائد اور اخبارات بھی خاص مقاصد کے تحت منفی پیغام کی حامل سرخیاں لگاتے ہیں، یہ روش غلط ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ صرف خوبیوں کو دیکھنا بھی درست نہیں کیونکہ یہ جھوٹے اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ آپ نے یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز سے وابستہ دانشوروں اور حکام کو مثبت اور منفی باتوں کے صحیح اور ماہرانہ مطالعے کی دعوت دی اور فرمایا کہ مثبت نکات ملک کی صلاحیتوں اور توانائيوں کی نشانی ہیں جبکہ منفی نکات سے ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے، لہذا دونوں فہرستوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیشرفت و رفعت کی سمت مناسب انداز میں پیش قدمی کی جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین الصلواۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم محمّد و آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
 
ملک کے زحمت کش اور مخلص حکام کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اللہ اس با شرف مہینے کو آپ تمام لوگوں کے لئے اور پوری ایرانی قوم کے لئے مبارک قرار دے۔ خداوند عالم کا شکرگزار ہوں کہ اس نے اس سال بھی ہمیں یہ موقع عنایت فرمایا کہ خلوص و محبت سے مملو یہ جلسہ تشکیل دیں اور ملک کے اہم مسائل پر تبادلہ خیال کریں۔
میں اپنے معروضات کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بیان کروں گا۔ پہلا حصہ بعض ہدایات و سفارشات پر مشتمل ہے جس کی پہلے درجے میں خود اس حقیر کو ضرورت ہے کہ ان پر توجہ دے، ان شاء اللہ یہ باتیں رمضان المبارک کی خاص معنویت کی دین ہوں گی۔ ایک حصے میں ملک کے مسائل کا مجموعی جائزہ لیا جائے گا اور آخری حصے میں ان شاء اللہ اگر وقت ہوا تو اپنے اطراف اور علاقے کے مسائل کی طرف اشارہ کروں گا۔
مشہور و معروف عارف اور فقیہ الحاج میرزا جواد آقا ملکی تبریزی مرحوم اپنی کتاب المراقبات میں فرماتے ہیں: روزہ ایک خدائی عطیہ ہے جو خداوند عالم نے اپنے بندوں کو عطا کیا ہے آپ کا جملہ یہ ہے کہ الصّوم لیس تکلیفا بل تشریف روزہ کو فرض کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ عطا کئے جانے والے شرف اور بزرگی کے عنوان سے دیکھیں۔ یوجب شکرا بحسبہ روزہ پر یہ توجہ جو خدا کی جانب سے بندوں کو عطا کی جانے والی بزرگی ہے و کرامت ہے، خود شکر کی متقاضی ہے۔ اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ آپ اس بھوک اور پیاس کے، جو مومنین رمضان کے مہینے میں اپنے لئے ضروری قرار دیتے ہیں، متعدد فوائد بیان کرتے ہیں جو روایات اور اس عظیم عالم دین کے نورانی قلب سے ماخوذ ہیں۔ جن میں سے ایک یا ان میں سب سے اہم جسے خود آپ نے بھی سب سے اہم قرار دیا ہے، یہ ہے کہ یہ بھوک اور پیاس دل کو ایسی پاکیزگی عطا کرتی ہے جو تفکر کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے کہ تفکّر ساعۃ خیر من عبادۃ سنۃ(1) یہ تفکر انسان کے اپنے باطن، دل اور روح سے رجوع ہونے سے عبارت ہے۔ جو حقائق کو روشن کر دیتا ہے اور انسان کے لئے باب حکمت کھول دیتا ہے۔ اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔
عمر کے بارے میں ‌‌‌‌‌‌فکر کریں۔ عمر ہر انسان کا اصلی سرمایہ ہے۔ ساری نیکیاں عمر کے وسیلے سے، انہی زود گزر اوقات میں حاصل ہوتی ہیں؛ یہ وہ سرمایہ ہے جو انسان کے لئے ابدی سعادت اور بہشت جاوداں کا انتظام کرتا ہے۔ اس عمر کے بارے میں سوچیں۔ اس کے گزرنے کو دیکھیں۔ زندگی کی گھڑیوں اور اوقات عمر کے روز و شب کی ناپائیداری کا احساس کریں۔ زمانے کے گزرنے پر توجہ دیں۔ عمر برف است و آفتاب تموز ( یعنی عمر برف ہے اور سورج، موسم گرما کا تپتا ہوا سورج ہے) لمحہ بہ لمحہ یہ سرمایہ کم ہو رہا ہے۔ جبکہ اخروی سعادت کے حصول کے لئے یہی سرمایہ ہمارا سب کچھ ہے۔ کس طرح اس سے استفادہ کریں۔ کہاں خرچ کریں اور کس راہ میں خرچ کریں؟
موت، اس عالم فانی سے عبور، بدن سے روح کے نکلنے کے وقت اور جناب ملک الموت سے ملاقات کے بارے میں تفکر۔ یہ منظر سب کو دیکھنا ہے : کلّ نفس ذائقۃ الموت (2) ہم سب یہ مزہ چکھیں گے۔ اس وقت ہمارا حال کیا ہوگا؟ اس وقت ہمارے دل کی حالت کیا ہوگی؟ یہ وہ نکات ہیں جن کے بارے میں غوروفکر کرنا چاہئے۔ اس بارے میں تفکر ضروری، بنیادی اور لازمی تفکرات میں سے ہے۔
ایک اور چیز جس پر تفکر کرنا چاہئے، دعائیں ہیں۔ دعاؤں میں جو مضامین بیان کئے گئے ہیں، وہ غیر معمولی ہیں۔ وہ(میرزا جواد آقا ملکی تبریزی) اسی مراقبات میں فرماتے ہیں: معصومین علیہم السلام سے منقول دعاؤں میں ایسے حقائق و معارف پائے جاتے ہیں کہ جن کا دس فیصدی بھی، توحیدی روایات اور توحیدی خطبات کے بجز غیر معصوم سے منقول تمام روایات و خطبات میں نہیں پایا جاتا۔ یہ دعائیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
میں نے ایک دعا کا ایک فقرہ مد نظر رکھا ہے، چند لمحوں بعد یہ فقرہ عرض کروں گا تاکہ جن لوگوں نے اسے سن رکھا ہے ان کے لئے یاد دہانی اور جن لوگوں نے نہیں سنا ہے، ان کے لئے نصیحت ہو۔ صحیفہ سجادیہ کی بیسویں دعا، دعائے مکارم اخلاق۔
اس دعا کے شروع میں (فرزند رسول امام زین العابدین علیہ السلام) فرماتے ہیں: اللھمّ صلّ علی محمّد و آل محمّد و حلّنی بحلیۃ الصّالحین و البسنی زینۃ المتّقین نیک بندوں کی آرائش مجھے عطا کر، مجھے صالحین کی زینت اور متقین کا زیور عنایت فرما۔ یعنی مجھے اپنے صالح، متقی اور پرہیزگار بندوں میں قرار دے۔ اس کے بعد متقین کی خصوصیات بیان کرتے ہیں، یہ جو ہم کہتے ہیں کہ مجھے متقین کا زیور عنایت فرما، مجھے متقین کی زینت عطا فرما، اس کا مطلب کیا ہے؟ کس چیز میں ہمیں متقین اور پرہیزگاروں کا زیور و زینت عطا ہو اور کس چیز میں ہم ان سے نزدیک ہوں؟ عام طور پر جب پرہیزگاری کی بات ہوتی ہے تو انفرادی گناہوں سے اجتناب اور عبادات کی پابندی وغیرہ ہمارے ذہنوں میں آتی ہے۔ یہ چیزیں یقینا ہیں، اس میں شک نہیں، لیکن یہاں امام سجاد (علیہ الصلوات والسلام) اس فقرے کے ضمن میں بائیس تیئیس نکات بیان فرماتے ہیں جو ہمیں تقوا کے نئے معنی، مفاہیم اور مصادیق کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
والبسنی زینۃ المتّقین ان چیزوں میں سب سے پہلے فی بسط العدل عدل کو عام کرنا ہے۔ ہم معاشرے میں عدل قائم کریں۔ انصاف، ملک کے حیاتی اہمیت کے ذخائر کی لوگوں میں منصفانہ تقسیم اور عوام کے درمیان مواقع کی صحیح تقیسیم کے معنی میں عدل ( قائم کریں)۔ ہم سے جس تقوے کی توقع کی جاتی ہے، وہ اس تقوے کی اساس و مبانی کا جز ہے۔
و کظم الغیظ غصے کو پی جانا۔ اگر آپ ایک عام اور معمولی فرد ہیں تو آپ کو کبھی برادر دینی پر غصہ آئے، اپنے خاندان کے کسی فرد پر غصہ آئے، اپنے کسی کارکن پر غصہ آئے تو کظم الغیظ ( غصے کو پی جانا) فضیلت ہے۔ والکاظمین الغیظ والعافین عن النّاس (3)۔ اگر آپ معاشرے میں کسی عہدے پر ہیں، آپ کی پوزیشن اور حیثیت ہے، آپ کی حرکت، آپ کا اقرار و انکار، آپ کا قول و فعل، معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے پو ان صورت حال میں آپ کا غصہ ایک عام انسان کے غصے کی مانند نہیں ہے۔
 
ہم کچھ لوگوں اور کسی تحریک کی نسبت کی غصہ ہوتے ہیں اور بولتے ہیں، اس قسم کے غصے کے اثرات اس غصے کے اثرات سے جو فرض کریں ایک عام انسان کرتا ہے اور کسی کو مارتا ہے، بہت مختلف ہوتے ہیں۔کظم غیظ غصے کو پی جائیں؛ کوئی کام غصے کی وجہ سے انجام نہ دیں۔ ممکن ہے آپ کسی شخص یا کسی تحریک، یا کسی اجتماع سے موافق نہ ہوں؛ یہاں منطق اور استدلال کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ اس منطق اور استدلال میں غصہ شامل ہوجاتا ہے تو کام خراب ہوجاتا ہے۔ حد سے تجاوز ہوجاتا ہے۔زیادتی ہوجاتی ہے۔ ربنا اغفرلناذنوبناواسرافنافی امرنا (4) اسراف یعنی زیادتی۔

و اطفاء النّائرۃ ایک اور کام جو ہمارے تقوا کے لئے ضروری ہے آگ کو بجھانا ہے۔ آگ کے شعلہ ور ہونے سے مراد آتش اختلاف ہے جو جماعتوں میں، گروہوں میں، دستوں میں اور اداروں میں پائی جاتی ہے، یہ آتش ‎سوزاں کی مثالیں ہیں۔ ہم سب کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس کو بجھائیں۔ اس آگ پر تیل نہ ڈالیں۔ آگ کو شعلہ ور نہ کریں۔ یہ جو ہم بار بار اپنے دوستوں سے، حکام سے، ان لوگوں سے جن کے پاس پلیٹ فارم ہے، جن کی بات عام ہوتی ہے اور ملک میں نشر ہوتی ہے، سفارش کرتے ہیں کہ اپنی باتوں کو، اپنے بیانات کو اور اپنے الفاظ کو کنٹرول کریں، اس کی وجہ یہی ہے۔ بعض اوقات کوئی بات نہ صرف یہ کہ اطفاء نائرہ ( آگ بجھانے) کے منافی ہوتی ہے بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ شعلہ ور کرتی تے؛ یہ آگ بجھانا نہیں بلکہ اس کی ضد پر عمل کرنا ہے۔
و ضمّ اہل الفرقۃ جو لوگ جماعت مسلمین سے الگ ہوتے ہیں، ملک کی اصلی دھارے سے دور ہو جاتے ہیں، کوشش کریں کہ انہیں نزدیک لائیں۔ خود میں ضم کریں۔ جو لوگ اعتدال پسند ہیں انہیں منزل مقصود تک پہنچائیں۔ یہ نہ ہونے دیں کہ ہمارے کردار سے، ہمارے عمل سے، ہمارے بیانات سے اور ہماری روش سے وہ لوگ، جن کا ایمان کمزور ہے، پوری طرح ایمان سے کٹ جائیں۔ جن لوگوں کا نظام سے رابطہ آدھورا ہے، وہ نظام سے بالکل ہی الگ ہو جائیں۔ اس کے برعکس عمل کریں؛جو لوگ آدھے راستے پر ہیں انہیں اپنی طرف لائیں۔ یہ تقوا کے مصادیق کی اقسام ہیں۔
و اصلاح ذات البین لوگوں کے درمیان اگر اختلاف ہو تو صلح کرائیں۔ و افشاء العارفۃ و ستر العائبۃ لوگوں کے بارے میں ان کی مثبت اور اچھی باتیں بیان کریں۔ اگر کسی عہدیدار کی اچھی بات معلوم ہو تو اس کو بیان کریں۔ اس کے برعکس، اگر کسی کی منفی بات معلوم ہو تو اس کو بیان نہ کریں۔ بیان نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نہی عن المنکر نہ کریں۔ کیوں نہیں، جس کے کام میں نقص اور کمی ہے، اس سے کہا جائے، اس پر اعتراض کیا جائے لیکن ان باتوں کی تشہیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس بارے میں باتیں بہت زیادہ ہیں۔ یہ اس دعا کا ایک حصہ ہے۔ بائیس تیئیس نکات ہیں جن میں سے چھے سات ہم نے اجمال کے ساتھ عرض کئے۔ اپنے دلوں کو اس سمت میں لے جائیں۔ خداوند عالم سے دعا کریں کہ البسنی زینۃ المتّقین متقین کی زینت ہمیں عنایت فرمائے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ روزہ بھی قرآن میں لعلّکم تتّقون (5) ہے۔ روہ ہمارے لئے واجب فرمایا تاکہ ہم تقوا اختیار کریں۔ یہ باتیں تقوا کے جملہ مصادیق میں سے ہیں۔ یہ پہلا حصہ ہے جو ہم نے عرض کیا۔
دوسرا حصہ ملک کی صورت حال کا اجمالی جائزہ ہے۔ یہ بہت اچھی اور تفصیلی رپورٹ جو محترم صدر مملکت نے پیش کی، واضح ہے۔ اس میں روشن اور نمایاں نکات موجود ہیں۔ کتنا اچھا ہے کہ یہ باتیں عوام کی سماعت تک پہنچیں اور سب کو معلوم ہو کہ کتنی محنت کی گئ اور کیا خدمت انجام پائی ہے۔ میں ایک اور نقطۂ نگاہ سے ملک کی مجموعی صورت حال کو بیان کرتا ہوں اور یہ ہمارے لئے اہم ہے۔ کیوں اہم ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک کی حالت اور اس بات کی اطلاع کہ ہم کہاں ہیں، کہاں پہنچے ہیں اور کدھر جانا چاہئے، بہت اہم ہے۔ یوں تو اس کی ہمیشہ اہمیت رہتی ہے لیکن آج اس کی اہمیت زیادہ ہے اور شاید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے حالات کی وجہ سے اس کی اہمیت دوچنداں ہو گئی ہے۔ اول یہ کہ علاقے کے حالات، بالکل منفرد نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسلامی بیداری اور جو عظیم واقعہ علاقے میں رونما ہوا ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اسلامی انقلاب کی ابتدا سے آج تک، اسلامی جمہوریہ کی حیات میں یہ چیز اور اس کی جیسی کوئی چیز کبھی نظر نہیں آئی۔ بہت بڑا کام انجام پایا ہے۔ عظیم واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ بات کہ ملت مصر جیسی قوم یہ عظیم تحریک چلائے، حکومت کو اقتدار سے ہٹائے، اس کے بعد اسلامی نعرے لگائے، جعلی یہودی و صیہونی حکومت کے وجود کو اس طرح خطرات سے دوچار کر دے، یہ وہ تغیرات ہیں جو معمول کے جائزوں میں نہیں سماتے ہیں۔ بہت بڑی بات ہے۔ جی ہاں، ہم ایسے حالات میں ہیں کہ جو اسلامی جمہوریہ کے لئے حیرت انگیز طور پر انتہائی تابناک افق رقم کر رہے ہیں۔
علاقے سے بالاتر ہوکے دیکھیں تو دنیا کی حالت بھی ایسی نظر آتی ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حیرت انگیز اقتصادی بحران جو مغرب کی سامراجی حکومتوں کے اس طرح گریبان گیر ہے کہ اس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ان کو ہلائے دے رہا ہے، یہ بھی غیر معمولی چیز ہے۔ یہ بھی ایسی تبدیلی ہے جس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحلیل و تجزیئے جو آپ ملاحظہ فرماتے ہیں، مغرب والے، امریکا اور بعض یورپی ملکوں کے اقتصادی بحران کے بارے میں جو کہتے ہیں اور مستقبل کے لئے جن خطرات کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں، یہ تو مشتے از خروارے ہے، ساری باتیں بیان نہیں کی جا رہی ہیں۔ پس پردہ سرگرم پالیسی ساز، تھنک ٹینکس، دنیا کے طاقتور ملکوں میں عالمی مسائل کی منصوبہ بندی کرنے والے، جن کے قبضے میں ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ ہے، یہ نہیں چاہتے کہ یہ بحران پوری طرح دنیا کے عوام پر آشکارا ہو؛ ورنہ بحران کی سنگینی اور گہرائی ان باتوں سے کہیں زیادہ ہے؛ اگران شاء اللہ گفتگو کے آخر میں وقت بچا تو میں (اس سلسلے میں) چند جملے عرض کروں گا۔
ایک اور مسئلہ مغرب بالخصوص یورپ میں انتہا پسندانہ اور دہشتگردانہ تحریکوں کا ہے؛ یورپ کے جدید نازیوں سے لیکر امریکا کے نو قدامت پسند (نیوکانز) تک۔ امریکا کی سابق حکومت انہی عناصر پر مشتمل تھی، یہ صراحت کے ساتھ انتہا پسندی کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکا کے ہلکے دماغ کے سابق صدر نے آشکارا اعلان کیا کہ صلیبی جنگ در پیش ہے۔ انہوں نے صلیبی جنگ کے آغاز کا اعلان کیا۔ اس سے بڑی انتہا پسندی اور کیا ہوگی۔ اس کے بعد دو اسلامی ملکوں پر حملہ کر دیا۔ ان کے منصوبوں میں دوسرے اقدامات بھی تھے لیکن خداوند عالم نے انہیں مہلت نہیں دی اور انہیں شکست ہوئی۔ جی ہاں، یہ اہم مسائل ہیں۔ یہ واقعہ جو ناروے میں رونما ہوا، اس کو ایک اتفاقی حادثہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس قسم کے واقعات زیادہ تر طولانی تحریک کا نتیجہ ہوتے ہیں جو کسی جگہ ظاہر ہوتے ہیں، جو اس وقت یہاں یہ ظاہر ہوئے ہیں۔ اب کس حد تک کنٹرول کرتے ہیں، روکتے ہیں، اس کی روک تھام کرتے ہیں، یہ مستقبل پر منحصر ہے۔ دیکھنے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے، البتہ اس پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ نیو نازیوں نے پہلے یورپ میں ایک جگہ سے اپنی مہم شروع کی، پھر آہستہ آہستہ پھیل گئے اور آج یورپ کے بہت سے ملکوں میں نیونازی ازم کی تحریکیں، تشدد آمیز اور دہشتگردانہ روشوں کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہیں۔
ان حالات میں ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے کہ کس حال میں ہیں۔ دنیا کے حالات اس نہج پر بڑھ رہے ہیں تو ہمارے سامنے بڑے مواقع آ سکتے ہیں۔ اگر ہم نے ان مواقع کو نہ دیکھا، نہ پہچانا اور ان سے صحیح استفادہ نہ کیا، اگر بر وقت ان مواقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو نقصان میں رہیں گے۔ بعض اوقات موقع کھو دینا، خطرناک ہوتا ہے، باعث پسماندگی ہوتا ہے۔ لہذا بہتر ہے کہ اس نقطۂ نگاہ سے ملک کے عام، کلی اور مجموعی مسائل کا ایک جائزہ لیا جائے۔ البتہ اس کلی جائزے میں حقیقت پسندی سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ غلطی اور اشتباہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ معاملے کو یک طرفہ طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ مثبت نقاط بھی ہیں اور منفی نقاط بھی موجود ہیں۔ دونوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ بعض اوقات صرف منفی نقطۂ نگاہ غالب نظر آنے لگتا ہے۔ افسوس کہ اس وقت یہی عالم ہے۔ بعض عہدیداروں اور سیاستدانوں کی عادت سی ہو گئي ہے کہ نقطۂ نگاہ بد گمانی پر استوار ہو؛ منفی ہو؛ مثبت نقاط کو نہ دیکھا جائے؛ منفی نقطے پر ہی توجہ کریں۔ ذرائع ابلاغ میں اور دوسری جگہوں پر تواتر کے ساتھ منفی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اگر کبھی کسی نے ٹوک دیا تو، کہتے ہیں کہ جناب آپ ہمیں حقیقت نہیں بیان کرنے دے رہے ہیں۔ جی نہیں، یہ صرف ایک پہلو کو دیکھنا ہے، اگر فرض کریں کوئی پیداواری یونٹ کوئی غلطی کرتی ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ حقیقت پسندی کے ساتھ اس کو بیان کریں تو ٹھیک ہے بیان کیجئے، اس کے ساتھ ہی مثال کے طور پر دو پیداواری یونٹیں قائم کی گئي ہیں تو انہیں بھی بیان کیجئے۔ اگر اس مثبت انداز سے بات کو بیان کریں گے تو لوگ ملک کے مسائل کو ایک طرح سے سمجھیں گے اور اگر اس مثبت نقطے کو آپ نظر انداز کر دیں گے تو لوگ ملک کے مسائل کو دوسری طرح سے سمجھیں گے۔ یقینا منفی نقاط موجود ہیں لیکن اگر صرف منفی نقاط کو دیکھیں تو یہ فطری طور پر حقیقت پسندی نہیں ہے۔ اس سے ملک کے حالات کا صحیح جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ یہ طریقہ نا امیدی اور مایوسی پر منتج ہوگا اور یہ اس کا معاشرتی نقصان ہے۔
میں ہر روز، دس بیس اخبارات پر ایک سرسری نظر ڈالتا ہوں۔ بعض اخبارات ہر روز چار پانچ سرخیاں ایسی لگاتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک، کسی کمزور انسان کے دل کو دہلانے کے لئے کافی ہے۔ منفی، منفی، منفی،منفی، یہ ان کا پسندیدہ طریقہ ہے۔ اب اس کا مقصد سیاسی ہے یا اپنے خریداروں کی تعداد بڑھانا ہے؛ جو بھی ہو، میں نہیں جانتا، میں کسی کو الزام نہیں دیتا؛ لیکن ایسا ہو رہا ہے جو غلط ہے۔ منفی نقطۂ نگاہ کو اپنے اوپر طاری کر لینا حقیقت پسندی کے خلاف ہے، ناامیدی و مایوسی پیدا کرنا ہے۔
اس کے بر عکس طریق کار اپنانا بھی غلط ہے۔ یعنی منفی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کرکے صرف مثبت باتوں کو ہی دیکھنا بھی گمراہ کن طریقہ ہے۔ اس سے انسان کے اندر ایسا اطمینان پیدا ہوتا ہے جو کسی سراب سے کم نہیں۔ یہ بھی درست نہیں ہے۔ مثبت نقاط کے ساتھ ہی منفی نقاط کو بھی دیکھنا چاہئے۔ ملک اور نظام یہ کام انجام دینے میں کامیاب ہوا اور فلاں کام پورا نہیں کر سکا۔ ان دونوں کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں۔ القصہ یہ کہ اگر ملک کے حالات کا صحیح جائزہ لینا چاہتے ہیں تو مثبت اور منفی نقاط کو ایک ساتھ دیکھیں۔
یہ طولانی بحث ضروری ہے۔ ملک کے حکام، دانشوروں اور یونیورسٹیوں نیز دینی تعلیمی مراکز کے اساتذہ سے میری درخواست ہے کہ اس موضوع پر کام کریں۔ میں آج اختصار کے ساتھ اس کا صرف ایک گوشہ بیان کر رہا ہوں،ویسے یہ بحث طولانی اور ساتھ ہی بہت ضروری ہے۔ ایک فہرست مثبت نقاط کی اور ایک فہرست منفی نقاط کی تیار کریں۔ مثبت نقاط سے ہمیں اپنی صلاحتیوں کا اندازہ ہوگا کہ ملک میں کتنے وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں؟ منفی نقاط کی فہرست ترجیحات کی نشاندہی کرنے میں ہماری مدد کرے گی کہ کون سے کام ہمیں پہلے کرنے ہیں۔ جب ان دونوں کو ایک ساتھ ملا کے دیکھیں گے تو راستہ واضح ہو جائے گا اور ہم سمجھ لیں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔
میں نے یہاں پانچ چھے نکات لکھے ہیں جو گزشتہ بتیس سال کے دوران اسلامی جمہوری نظام کی پیشرفت کے جائزے کا نتیجہ ہیں۔ البتہ ان بتیس برسوں میں نشیب و فراز کا سامنا رہا ہے۔ یعنی بعض سال، بعض ادوار اور بعض حکومتیں بہتر تھیں اور بعض پیچھے رہی ہیں لیکن مجموعی طور پر اس مدت میں یہ مثبت پہلو سامنے آئے ہیں۔
پہلا مثبت نقطہ، نظام کا قوی ہونا ہے۔ نظام نے ثابت کیا ہے کہ اس میں خطرات پر غلبہ پانے کی توانائی ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ ان بتیس برسوں میں ہمیں بہت سے خطرات کا سامنا ہوا۔ سیاسی خطرات، سیکورٹی کے خطرات، فوجی خطرات، اقتصادی خطرات، ان خطرات کا لازمہ تھا کہ نظام کو زک پہنچے، البتہ وہ تو نظام کو ہی ختم کرنا چاہتے تھے لیکن یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا، لہذا انہوں نے چاہا کہ نظام کو آگے نہ بڑھنے نہ دیں، ملک کو پسماندہ رکھیں۔ نظام نے ان تمام خطرات پر غلبہ حاصل کیا۔ اس کا ایک نمونہ، مسلط کردہ جنگ تھی،ایک نمونہ امریکیوں کے اقدامات تھے، ایک نمونہ انواع و اقسام کی پابندیاں تھیں۔ ان میں سے بعض براہ راست دشمنوں کی جانب سے تھے، جیسے پابندیاں ہیں۔ پابندیاں تو خیر برسوں سے جاری ہیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے ان میں شدت آئی ہے۔ انہوں نے خود کہا ہے کہ یہ مفلوج کر دینے والی پابندیاں ہیں۔ انہوں نے خود براہ راست بھی اور اقوام متحدہ کی مدد سے بھی، جو انہی کے اختیار میں رہتی ہے، یہ پابندیاں مسلط کیں۔ یہ دشمنوں کا کام ہے جو انہوں نے براہ راست کیا ہے۔ بعض خطرات اندر سے بھی تھے۔ اگرچہ دشمن بھی ان سے استفادہ کر سکتا تھا، جیسے ملک میں قومیتوں کا مسئلہ ہے، نظام نے ان سب پر قابو حاصل کیا۔ آج ہمارے ملک میں مختلف اقوام برادرانہ انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارت رہی ہیں۔ نظام سے رابطہ اور قلبی وابستگی، ان سب میں نمایاں ہے۔ میری نظر میں یہ اہم ترین قوی نقاط میں سے ایک ہے۔ ہمیں نظام کی قوت و طاقت کے جائزے میں اس نقطے کو ضرور نظر میں رکھنا چاہئے۔ ایک نظام اکیلے، کسی بین الاقوامی پشتپناہی کے بغیر، دنیا کی قوی ترین طاقتوں کی دشمنی سے گزشتہ بتیس برسوں کے دوران مسلسل دوچار رہا لیکن تمام خطرات پر اس نے غلبہ حاصل کر لیا۔ یہ بہت اہم نقطہ ہے۔ میری نظر میں یہ اس نظام کا قوی ترین نقطہ اور اہم ترین پہلو ہے۔
دوسرے نظام اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد۔ دنیا میں بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں نظام حکومت پر عوام اس طرح اعتماد کرتے ہوں گے جس طرح ایران میں اسلامی جمہوری نظام پر عوام اعتماد کرتے ہیں۔ اس اعتماد کی وجہ یہی واضح اور روشن باتیں ہیں جو سب کے سامنے ہیں لیکن پھر بھی کچھ لوگ یہ نہیں دیکھتے، لوگوں میں بے اعتمادی پھیلنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جی نہیں، نظام پر لوگوں کا اعتماد ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہی دو سال پہلے ہونے والا الیکشن ہے جس میں اسّی فیصد سے زیادہ لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، ووٹ دینے کا انہیں حق تھا اور انہوں نے اس حق کا بھرپور استعمال کیا۔ دنیا میں کہاں اس کی کوئی اور مثال ہے؟ اس اعتماد کا ایک اور نمونہ، یہ دو جلوس ہیں جو ہر سال نکلتے ہیں۔ بائیس بہمن (مطابق گیارہ فروری، یوم آزادی) کے جلوس اور یوم قدس کے جلوس۔ ان جلوسوں کا تعلق نظام سے ہے۔ ان کا تعلق کسی حکومت اور کسی خاص جماعت اور پارٹی سے نہیں ہے۔ یہ نظام سے متعلق ہیں۔ آپ دیکھیں کہ عوام ان عظیم جلوسوں میں کس طرح شرکت کرتے ہیں۔ بائیس بہمن(گیارہ فروری) کی سردی میں، رمضان المبارک میں، اس وقت بھی جب سردی ہوتی تھی اور اب بھی جبکہ گرمیوں کا موسم ہے۔ ان شاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ یوم قدس پر عوام کیسی عظمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ نظام سے عوام کے لگاؤ اور قلبی وابستگی کی علامت ہے۔ نظام پر اعتماد کا اظہار اس سے زیادہ واضح اور روشن نہیں ہو سکتا۔ یہ زبردست شراکت خاص معنی و مفاہیم کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ دیگر خاص مواقع پر جیسے نو دی ماہ ( تیرہ سو) اٹھاسی ( ہجری شمسی مطابق تیس دسمبر دو ہزار نو) کو جیسے ہی لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہ تحریک جو شروع ہوئی ہے یہ کسی خاص فرد یا حکومت کے خلاف نہیں بلکہ یہ نظام کے خلاف ہے، انقلاب کے خلاف ہے تو عوام نے ایک بار پھر عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ایسا نہیں تھا کہ صرف پر جوش نوجوان میدان میں آئے ہوں، بلکہ سبھی میدان میں آ گئے۔ نو دی ماہ( تیس دسمبر) کا واقعہ عجیب واقعہ ہے۔ یہ نظام سے عوام کے قلبی لگاؤ کی وجہ سے رونما ہوا۔ یہ باتیں عوام کے اعتماد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم سنتے ہیں کہ بعض لوگ مصلحتا، مسلسل کہتے ہیں کہ جناب عوام کا اعتماد ختم ہو گیا ہے، اس کو بحال کریں۔ اعتماد کہاں ختم ہو گیا ہے؟ نظام پر لوگوں کا اعتماد قائم ہے۔ لوگ نظام کو پسند کرتے ہیں۔ نظام کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کے نمونے یہی ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا۔
تیسرے پابندی کے عالم میں پیشرفت۔ ملک کا ایک قوی نقطہ یہ بھی ہے۔ سخت ترین پابندی کے عالم میں ملک نے پیشرفت کی ہے۔ کس چیز میں پیشرفت کی ہے؟ سائنس و ٹکنالوجی میں، جس کی طرف جناب صدر جمہوریہ نے اپنی رپورٹ میں اشارہ کیا ہے۔ ہم نے ایٹمی شعبے میں ترقی کی ہے۔ بایو ٹکنالوجی میں ترقی کی ہے۔ نینو ٹکنالوجی میں ترقی کی ہے۔ جدید توانائیوں، ماڈرن انرجی کی ٹکنالوجی میں ترقی کی ہے، ایرو اسپیس ٹکنالوجی میں ترقی کی ہے، سپر کمپیوٹر کی ساخت میں ترقی کی ہے، اسٹم سیلز کے شعبے میں ترقی کی ہے جو بہت نمایاں ہے، کلوننگ کے میدان میں ترقی کی ہے، نیوکلئر دوائیں بنانے میں ترقی کی ہے۔ اسی طرح کینسر کے علاج کے لئے نینو میڈیسن کی تیاری میں ترقی کی ہے۔ یہ دنیا کے اعلی سطح کے علوم ہیں۔ یہ چند شعبے جو میں نے بیان کئے اور بعض دیگر شعبے ہیں جو دنیا کے اعلی سطح کے علوم میں شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پانچ دس ملکوں سے زیادہ کے پاس نہیں ہیں۔ ہم نے ان میں پیشرفت کی ہے۔ یہ ترقی ہم نے ایسے عالم میں حاصل کی ہے کہ ہمارے اوپر دوسری جگہوں سے علم و دانش کی منتقلی کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔
میں نے ایک مقالے میں پڑھا ہے، جو یہی دو تین دن پہلے چھپا ہے، اس میں ایک امریکی روزنامے کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ایران ایٹمی مسئلے میں ایک انفرادی ملک ہے۔ چین نے ایٹمی توانائی حاصل کی، کس سے حاصل کی؟ پاکستان نے ایٹمی توانائی تک دسترسی حاصل کی، کس سے حاصل کی؟ ہندوستان ایٹمی توانائی تک پہنچا؛ کس کی مدد سے پہنچا؟ ایران نے یہ ٹکنالوجی کس سے حاصل کی؟ مقالہ نگار لکھتا ہے کہ کسی سے بھی نہیں۔ یہ ٹکنالوجی ایسی حالت میں حاصل ہوئی کہ پابندیاں عائد تھیں اور ایران کو ایٹمی ترقی کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ اس کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی، رکاوٹ ڈالتے تھے، مثال کے طور پر یہی کمپیوٹر وائرس جو ہمارے سسٹم میں بھیجا گیا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں، ہمارے نوجوانوں نے اس کا مقابلہ کیا، پیشرفت کی اور دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ مقالہ نویس نے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ یہ وہ باتیں جو ہمارے دشمن بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں چھپا ہے۔ یہ سائنس و ٹکنالوجی میں ہماری پیشرفت ہے۔
ملک کے بنیادی ڈھانچے، انفرا اسٹرکچر میں پیشرفت۔ یہی اعداد و شمار جو آپ نے سماعت فرمائے، شاہراہوں، ہائی وے، ڈیموں، کولڈ اسٹوریج کی تعمیر، کارخانوں کی تعمیر، اہم صنعتی مصنوعات جیسے اسٹیل اور سیمنٹ وغیرہ کی تیاری، بے شمار بنیادی تنصیبات کی تعمیر، مختلف صنعتی شعبوں میں فنی اور تکنیکی توانائی، یہ سب پیشرفت ہے۔
قومی خود اعتمادی میں پیشرفت۔ آج ہمارے نوجوانوں میں خود اعتمادی دس سال اور بیس سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے صحیح کہا ہے، مجھے بھی معلوم ہے؛ سائنسی شعبے میں، جس کام کی بھی بنیاد ملک میں موجود ہے، ہمارے نوجوان اس کو کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یعنی کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ ہم اپنے نوجوان سائنسدانوں سے کہیں کہ اس پر کام کریں اور وہ نہ کر سکیں، شرط یہ ہے کہ بنیادی سہولیات موجود ہوں۔ الحمد للہ ہماری حالت یہ ہے۔ ترقیاتی کام ملک میں بہت وسیع سطح پر انجام پائے ہیں۔ یہ ترقی ہے۔ ان شعبوں میں ہم نے بہت زیادہ پیشرفت کی ہے۔
چوتھا مثبت نقطہ، بین الاقومی اعتبار ہے۔ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آج ہماری پوزیشن بین الاقوامی لحاظ سے خراب ہے۔ ہرگز نہیں۔ حالانکہ بعض اوقات بیانات میں سنا جاتا ہے، کہا جاتا ہے۔ لیکن نہیں، آج بین الاقوامی سطح پر ہماری پوزیشن بہت اچھی ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی سیاست کے لحاظ سے دنیا میں قابل احترام، موثر، معتبر اور با اثر ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس بین الاقوامی عزت و وقار کو جو اس کے اپنے خاص عوامل ہیں جیسے عوام کی میدان عمل میں موجودگی اور پائیداری نیز انقلاب کے واضح اور روشن نعرے اور سلوگن، جو عوام اور حکام کے رفتار و گفتار میں نمایاں ہیں۔ دنیا کے کسی گوشے میں کسی حکومت کا کوئی اقدام، جو بے بنیاد باتیں کرتی ہے کسی کی شبیہ کو مخدوش نہیں کر سکتا۔ یہ حرکتیں ہمیشہ کی گئی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آج یورپ یا کہیں اور کی کوئی سامراجی حکومت، اسلامی جمہوریہ کے بارے میں کچھ کہتی ہے، کوئی بات کرتی ہے، کوئی توہین آمیز بیان دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا رتبہ کم ہو گیا ہے؛ جی نہیں، جب بھی ان کا بس چلا انہوں نے یہی کیا ہے۔ حتی اس وقت بھی جس کے بارے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم دشمن کے مقابلے میں تھوڑی سی پسپائی اختیار کر رہے تھے، وہ یہ کام کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب جبکہ ہم نے استقامت و پائیداری دکھائی ہے اور ان کے مقابلے پر ڈٹ گئے ہیں تو ان کے اندر ہم نے ضد پیدا کر دی ہے۔ جی نہیں، ایک وقت ہمارے ملک کے حکام کے خطاب میں امریکا کی تعریف ہوتی تھی، اسی زمانے میں امریکا کے اس وقت کے صدر نے پورے تکبر کے ساتھ ایران کو بدی کا محور قرار دیا۔ ایک زمانے میں ایک یورپی حکومت اسلامی جمہوریہ سے لگاؤ اور تعلق کا اظہار کرتی تھی؛ سر انجام اسی حکومت نے میکونس کافی شاپ کے معاملےمیں عدالت تشکیل دی اور ہمارے ملک کے اعلی رتبہ حکام پر الزام لگایا، یورپی حکومتیں اس کے ساتھ متحد ہو گئیں اور سب نے تہران سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔ یہ ہم نہیں بھولے ہیں۔ وہ ہم پر وار لگانا چاہتے تھے لیکن خود انہیں سخت وار لگا۔ اسی حسینیہ سے ان پر ایسا وار لگا کہ بعد میں مدتوں اپنا علاج کرتے رہے۔ جب بھی انہیں موقع ملا انہوں نے وار لگانے کی کوشش کی ہے۔ جب بھی ہم نے پسپائی کی، تھوڑی سی سستی دکھائی، وہ زیادہ جری ہوئے۔ جی نہیں، اسلامی جمہوریہ کی استقامت، انقلاب کے نعروں اور انقلاب کی بنیادوں پر ہماری ثابت قدمی نے دنیا میں ہماری عزت بڑھائی ہے۔
آج الحمد للہ ہمارا بین الاقوامی اعتبار بہت اچھا ہے۔ اس کے برعکس حکومت امریکا جو ہماری کھلی دشمن ہے، آج اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ منفور ہے۔ دنیا میں سروے کرکے، اس کا وہ خود اعلان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اسلامی ملکوں میں آمریکا کا اعتبار و وقار روز بروز گرتا جا رہا ہے، کم ہو رہا ہے۔ اگر یورپی اقوام سمجھ لیں کہ ان کی مشکلات بھی امریکا کی دین اور ان کے ملکوں کی پالیسیوں پر صیہونی حکومت کے تسلط کا نتیجہ ہیں تو یورپ میں بھی امریکا کی مقبولیت میں کمی اس سے کہیں زیادہ ہوگی اور تمام تحریکیں امریکا کے خلاف سمت میں مرکوز ہو جائيں گی اور یہ وہ چیز ہے جو مستقبل قریب میں رونما ہوگی۔
ایک اور مثبت نقطہ ملک کا ثبات ہے۔ ان تمام ‎سازشوں کے باوجود ملک میں ثبات ہے۔ ثبات، جمود نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں جمود نہیں ہے، جنبش ہے، پیشرفت ہے، جوش و جذبہ ہے لیکن نظام میں ثبات و استحکام پایا جاتا ہے۔ یہ ہمارے مثبت نقاط ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے مثبت نقاط بھی بہت ہیں؛ ہمارا دوسروں کو فکر دینا، دوسروں کے لئے مثال بننا، بین الاقوامی میدانوں میں ہمارے دشمنوں کا کمزور ہونا، انقلاب کو کمزور کرنے کی جانب سے ہمارے دشمنوں کا مایوس ہوجانا- اگرچہ دشمنوں کی روشیں زیادہ پیچیدہ ہوگئی ہیں، ان کے وسائل زیادہ ہو گئے ہیں، یہ انٹرنیٹ اور دنیا میں پائے جانے والے یہ گوناگوں وسائل اور دنیا پر حکمفرما نیٹ ورک- اس کے باوجود وہ اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کی جانب سے مایوس ہو چکے ہیں۔
قانون سازی اور نفاذ قانون کا مسلسل تجربہ بھی ملک کے درخشاں نقاط میں شامل ہے۔ ملک کی آبادی پچہتر ملین ہو گئی ہے۔ البتہ میں یہیں عرض کر دوں کہ میرا نظریہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو وسائل ہیں ان کے پیش نظر اس ملک میں ڈیڑھ سو ملین( پندرہ کروڑ ) کی آبادی کی گنجائش ہے۔ میں زیادہ آبادی پر یقین رکھتا ہوں۔ میرا نظریہ ہے کہ آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے جو بھی اقدام اور تدبیر ہو، وہ ملک کی آبادی پندرہ کروڑ ہونے کے بعد کی جائے۔
یہ مثبت اور درخشاں نقاط ہیں، جو الحمد للہ موجود ہیں۔ ہمارے مثبت نقاط اس سے زیادہ ہیں۔ البتہ کمزوری کے نقاط بھی ہیں۔ اگر ہم نے منفی نقاط کو نہ دیکھا اور اپنی کمزوریوں کو نہ پہچانا تو یقینا نقصان اٹھائیں گے۔ کمزوری کے نقاط اقتصادی شعبوں میں بھی ہیں اور ثقافتی شعبوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں، ہمارے اندر کمزوریاں ہیں، ہم بعض مسائل پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے۔ حتی دشمن کی طرف سے جو خطرات ہمیں براہ راست لاحق ہیں، اگر ان سے ہمیں کوئی نقصان پہنچا ہے تو اس کی وجہ بھی خود ہماری غلطی رہی ہے۔ کوتاہی خود ہماری طرف سے ہوئی ہے۔ قرآن کریم جنگ احد کے بارے میں فرماتا ہے؛ او لمّا اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انّی ھذا قل من عند انفسکم(6) جنگ احد میں یہ تلخ واقعہ رونما ہوا کہ مسلمانوں کو پہلے کامیابی ملی، بعد میں کچھ لوگوں نے اپنا فریضہ فراموش کر دیا اور اس درے سے ہٹ گئے جس کی حفاظت کی ذمہ داری انہیں دی گئی تھی اور مال غنیمت لوٹنے میں لگ گئے۔ دشمن گھوم کے اس درے سے آیا اور مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، بہت سے لوگوں کو تہہ تیغ کر دیا اور انہیں ایسی شکست دی کہ مسلمان ڈر کے پہاڑ پر بھاگ گئے۔ پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جان مبارک خطرے میں پڑ گئی۔ حضور زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے کہا۔ یہ کیوں ہوا؟ خدا نے ہمیں فتح عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ خداوند عالم فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں کامیابی عطا کی، خدا کا وعدہ پورا ہوا لیکن تم نے خود ہی اپنا کام خراب کیا۔ پہلی بات یہ کہ اگر دشمن نے تم پر وار کیا تو تم نے بھی اس پر وار کئے۔ (قد اصبتم مثلیھا) تعجب نہ کرو، جنگ میں وار کھانا اور وار لگانا، دونوں ہوتا ہے۔ عالمی اقتصاد و سیاست کے وسیع میدان میں بھی انسان وار لگاتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے۔ اس کے برعکس کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ لیکن (قلتم انّی ہذا) کہتے ہو کہ یہ وار ہم پر کہاں سے لگا۔ تو قرآن فرماتا ہے؛ (قل ھو من عند انفسکم) یہ وار خود تمہاری وجہ سے تم پر لگا ہے۔ تم نے خود غلطی کی۔ ہم نے کچھ جگہوں پر غلطیاں کی ہیں۔ انّ اللہ علی کلّ شئی قدیر (7) کچھ جگہوں پر ہم نے اپنے فریضے کے مطابق عمل نہیں کیا۔ بعض جگہوں پر ہمیں جس طرح دھیان رکھنا چاہئے تھا، نہیں رکھا۔ بعض جگہوں پر ہم نے اپنی خواہش کو نہیں دبایا۔ یہ باتیں اعتراضات اور غلطیاں پکڑے جانے پر منتج ہوئیں۔ ان باتوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ ہم ان چیزوں میں پڑ گئے جن سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے تھا۔ سیاسی تنازعات اور اختلافات میں الجھ گئے۔ آرام و آسائش کی فکر میں پڑ گئے۔ امیر بننے کی فکر میں لگ گئے۔ یہ کمزوری کے نقاط ہیں۔ جب ہم اور آپ آرام و آسائش اور اشرافیہ طبقے کی زندگی گزار نے لگيں تو عوام بھی ہم سے یہی بات سیکھیں گے۔ کچھ لوگ تو اس تاک میں ہیں کہ ان کے ہاتھ بہانہ لگے۔ ہمیں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب دیکھئے یہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایسی ہی زندگی گزاریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی (اس قسم کی زندگی تک) دسترسی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا نظریہ ہے کہ کفایت شعاری سے کام لینا چاہئے اور اسراف نہیں کرنا چاہئے۔ فضول خرچی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ جب ہم پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہم اسراف کر رہے ہیں، ہم ان سے بالاتر تو نہیں ہیں، یہ ہمارے سربراہ ہیں۔ یہ کام خطرناک ہیں۔ انقلاب اور انقلابیوں کی روش، اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے لئے رفاہ و آسائش سے دوری کی روش تھی۔عوام کے لئے جتنا ممکن ہو، رفاہ و آسائش فراہم کریں۔ جہاں تک ممکن ہو قومی آمدنی بڑھائیں۔ ملک کی دولت میں اضافہ کریں، لیکن خود اپنے لئے نہیں۔ حکام کم سے کم اس وقت تک، جب تک کہ عہدوں پر ہیں، رفاہ و آسائش کی زندگی نہ گزاریں۔ مجاہدت و فداکاری کے جذبے سے غفلت، دشمن کی ثقافتی یلغار کی طرف سے غفلت، اس بات سے غفلت کہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، ملک کے ذرائع ابلاغ میں دشمن کے نفوذ کی جانب سے غفلت اور بیت المال کی حفاظت کی فکر نہ کرنا، یہ ہمارے گناہ ہیں، یہ ہماری کمزوریاں ہیں۔
سیاست اور اقتصاد کے میدان میں قبائلی روش کی جانب رجحان، ہماری دیگر کمزوریوں میں سے ہے۔ قبائلی روش کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے کام کو غلط یا صحیح قرار دینے کا انحصار اس عمل کی ماہیت کے بجائے اس کے ساتھ تعلق کی نوعیت پر ہو۔ اگر ہمارے قبیلے کے کسی فرد نے کوئی خطا کی تو آسانی سے چشم پوشی کر لی جائے لیکن اگر حریف گروہ سے وہی کام سرزد ہو تو اس پرکاروائی شروع کر دی جائے، تحقیق کی جائے۔ ہمارے قبیلے کے کسی فرد نے اگر اچھا کام کیا تو اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی ہو اور اگر دوسرے قبیلے کے کسی شخص نے کوئی اچھا کام کیا تو کوئی تعریف نہ کی جائے۔ یہ روش اسلامی نہیں ہے۔ انقلابی نہیں ہے۔ افسوس کہ ہمارے درمیان یہ روش رائج ہو گئی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ روش عام ہے، عام نہیں ہے لیکن موجود ہے۔
اقتصادی میدان میں بہت کام ہوئے ہیں، جو بہت اہم بھی ہیں لیکن روزگار کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ افراط زر کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ کام کے کلچر کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ مفید کام کے گھنٹوں ( یعنی اداروں میں شفٹ کے دوران انجام پانے والے خالص کام کی مقدار) کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ کام کا کلچر ملک میں ایسا ہونا چاہئے کہ لوگ کام کو عبادت جانیں۔ کام کی مدت اور کام کی مقدار میں ذوق و شوق کے ساتھ اضافہ کریں۔ کام کرنا چاہئے۔ بیکار بیٹھنے، کام میں دل نہ لگانے، کاہلی برتنے اور کام چھوڑ دینے سے ملک آگے نہیں بڑھے گا۔
ث‍قافت کے میدان میں، اخلاقیات کے با قاعدہ رائج نہ ہو پانے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ہمارے درمیان اخلاقی فضائل میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ ہمارے صبر و تحمل، ہماری شکرگزاری، ذکرخدا، ہماری نیکیوں، دوسروں کی نسبت ہماری مہربانی، دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے پرہیز، اور دوسروں کی خدمت کے شوق میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ یہ صفات خود بخود پیدا نہیں ہوتے۔ ان کے لئے سعی و کوشش اور محنت کی ضرورت ہے۔ اس میں بھی ہم سے کوتاہی ہوئی ہے۔ معاشرے میں شان و شوکت کی زندگی اور فضول خرچی کی ثقافت کا رواج اور ملک کے نوجوانوں کے بعض طبقات میں، تشدد میں اضافہ یا تشدد کے رجحان میں کمی نہ ہونا بھی مضر ہے۔ ہم وہ فلمیں دکھاتے ہیں کہ خود وہ لوگ جنہوں نے یہ فلمیں بنائی ہیں ان سے بہت محتاط رہتے ہیں۔ ان فلموں سے جو معاشرے میں تشدد پھیلاتی ہیں پیدا ہونے والے خطرات کو خود سے دور رکھنا چاہتے ہیں، لیکن ہم انہی فلوں کو دکھانے میں نہیں ہچکچاتے۔ یہ مضر ہے۔ ہمارے بچے شروع سے ہی خنجر، قرولی یا آتشیں اسلحے سے آشنا ہو جائیں اور ان کا استعمال سیکھ لیں تو یہ خطرناک ہے۔ اس کے برے نتائج مرتب ہوں گے۔ معاشرے میں اس کے آثار بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری کمزوریاں ہیں۔
چند سال قبل میں نے ایک امریکی جریدے میں پڑھا کہ وہاں کے مصلحین نے تجویز پیش کی تھی کہ ہالیوڈ کی وہ فلمیں جن میں یا تشدد ہوتا ہے یا جنسی ہیجان، دھیرے دھیرے کم کی جائیں اور خاندانی نیز صاف ستھری فلموں کو رواج دیا جائے۔ وہ تو اس طرح سوچ رہے ہیں اور ہم نے ان سے یہ سیکھا ہے۔
منطقی اور صحیح رقابت کا نہ ہونا اور نوجوان نسل کی تباہی، ہمارے سامنے موجود دیگر مسائل میں سے ہے۔ نوجوان نسل کو تباہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ جس کو ناکام بنانے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور اس کے مقابلے کے لئے ہم نے کوئی موثر کام نہیں کیا ہے۔ اسی طرح صنعتی منشیات اور جنسی ہیجان پیدا کرنے والی اشیاء کا مسئلہ ہے۔ اعتقادی اصولوں کا صحیح بیان، چاہے وہ اعتقادی اصول اسلام کے ہوں یا انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے، ہم نے عرض کیا کہ استحکام کے نقاط اور امیدوں میں اضافہ کرتا ہے۔ صلاحیتں اجاگر کرتا ہے۔ منفی نقاط اور ترجیحات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
میرے خیال میں اب وقت ختم ہو گیا، اذان کا وقت قریب ہے۔ علاقے کے حالات کے بارے میں ایک جملہ میں عرض کروں گا کہ علاقے کے حالات امریکا، مغربی طاقتوں اور بین الاقوامی صیہونزم کی پالیسیوں کے بالکل برعکس جا رہے ہیں۔ انہوں نے ایران کے بارے میں منصوبے تیار کئے تھے لیکن جو وہ چاہتے تھے، خداوند عالم نے حالات کے اس کے بر عکس موڑ دیا اور وہی ہو رہا ہے۔ انہوں نے ایران کا بائیکاٹ کیا لیکن اقتصادی بحران خود انہیں کے گریباں گیر ہوا۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ کو گرانے کے لئے دو ہزار نو کے فتنہ کی تقویت کی، خود یہ فتنہ تیار کیا، یا کم سے کم اس کی حمایت اور تقویت کی لیکن ان سے وابستہ نظام اور حکومتیں یکے بعد از دیگرے گر رہی ہیں اور متزلزل ہو رہی ہیں۔ انہوں نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا تاکہ ایران کا محاصرہ کریں، ان کے بڑوں نے کہا کہ یہ ایران کے محاصرے کے لئے ہے، لیکن خود محاصرے میں آ گئے۔ ان کے پیر دلدل میں پھنس گئے اور وہ خود جال میں آ گئے۔ انہوں نے ہمارے خلاف جو تدبیر اور کام بھی کیا خداوند عالم نے اس کے برعکس حالات کو موڑا اور ان کا منصوبہ ناکام رہا۔
علاقے کا جہاں تک سوال ہے، یہ حوادث، جیسا کہ میں نے کہا، غیر معمولی ہیں۔ واقعی اس وقت مصر، تیونس یمن اور بعض دیگر علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے پہلووں کا اندازہ سر دست ممکن نہیں ہے۔اس کے پہلو بہت وسیع ہیں۔ مصر کے نامبارک ،( سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک) کو پنجرے میں بند کرکے عدالت میں لانا، عجیب و غریب واقعہ ہے۔ بات صرف یہ نہیں ہے کہ ایک حکومت گئی اور دوسری اس کی جگہ آ رہی ہے۔ مسئلہ بہت عمیق ہے۔ آج بیت المقدس پرقابض حکومت، ان ملکوں کے محاصرے میں ہے، جن کے اندر اس سے مقابلہ کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یہ واقعات عجیب وغریب ہیں۔ البتہ وہ مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحران کی لہروں کو اپنے قابو میں کر لیں اور بیداری کو اپنے کنٹرول میں لے لیں لیکن ایسا نہیں کر سکے اور ان شاء اللہ اقوام کی بیداری کی وجہ سے آئندہ بھی نہیں کر سکیں گے؛ جیسا کہ ابھی مصر میں یہی جو اسلامی نعرے لگائے گئے، ان سے ان کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔
البتہ لیبیا کے تعلق سے مجھے تشویش ہے۔ لیبیا میں مغرب انتہائی پست اور موذیانہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ انہوں نے عوام کے انقلاب سے غلط فائدہ اٹھایا۔ لیبیا میں اپنی جگہ بنانا اور رہنا، (ان کے لئے) بہت اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ لیبیا کا تیل ان کے لئے بہت اہم ہے، دوسرے اس ملک کا وسیع رقبہ ہے، کہ جہاں وہ مختلف جگہوں پر اڈے بنا سکتے ہیں۔ تیسرے یہاں سے وہ مصر اور تیونس پر بھی نظر رکھ سکتے ہیں۔ دو انقلابی ممالک، لیبیا کے مشرق میں ہیں اور مغرب میں تیونس ہے۔ اس کے علاوہ وہاں سے سوڈان، الجزائر اور علاقے کے تمام ممالک پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ وہاں وہ اپنے قدم جمانا چاہتے ہیں۔ وہ اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کر دینا چاہتے ہیں تاکہ اگر بعد میں دوسرے راستوں سے ممکن نہ ہو تو اس راستے سے لیبیا میں اپنے قدم جما سکیں۔ اس وقت اس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہے ہیں۔ عوام کی حمایت کے نام پر سڑکوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ تیل کی ریفائنریاں منہدم کی جا رہی ہیں۔ جو تھوڑے بہت کارخانے ہیں، انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ان کی تعمیر کی ضرورت ہوگی۔ لیبیا کے عوام میں اس کی توانائی نہیں ہے۔ یہ تعمیرنو کے بہانے وہاں آئیں گے۔ مجھے لیبیا کے مسئلے میں تشویش ہے۔
پالنے والے' لیبیا کے عوام کو نجات دلا؛ یمن کے عوام کو نجات دلا؛ بحرین کے عوام کو نجات دلا؛ علاقے کے عوام اور علاقے کے مسلمانوں کو روز بروز پہلے سے زیادہ بیداری اور استحکام عطا فرما۔ پالنے والے' اپنی رضا ہمارے شامل حال فرما ۔ جو کچھ ہم نے کیا، جو کہا، جو سنا، وہ ہم سے قبول فرما اور ہمیں اپنی رضا و خوشنودی عطا فرما۔ پالنے والے' حضرت ولی عصر( امام مہدی علیہ السلام) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ ہماری زندگی اور موت کو اسلام کے لئے اور اسلام کی راہ میں قرار دے۔

 
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 
1- مستدرک، جلد 11 صفحہ 183
2- سورۂ آل عمران، آيت 185
3- سورۂ آل عمران، آيت 134
4- سورۂ آل عمران، آيت 147
5- سورۂ بقرہ، آيت 183
6-سورۂ آل عمران، آيت 165
7-سورۂ  آل عمران، آيت 165