قائد انقلاب اسلامی نے بدھ 13 مہر سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 5 ستمبر سنہ 2011 عیسوی کو ملک کے ہزاروں ممتاز نوجوانوں سے ملاقات میں ماضی اور عصری تاریخ کے تجربات کی روشنی میں فرمایا کہ اگر اقتدار کے ساتھ دین نہ ہو تو اس کا نتیجہ ظلم و تشدد کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی قوم موجودہ پرمحن دور میں خود کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے فوجی، ثقافتی، اخلاقی حملوں اور نرم جنگ کا سد باب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے ایسی ممتاز شخصیات کی ضرورت ہے جن کا سارا ہم و غم ملک و قوم کی پیشرفت و ترقی اور عزت و سربلندی ہو جبکہ ایمان وہ اہم ترین عامل ہے جو وجود کی گہرائی میں یہ طرز فکر اور جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علمی بحثوں میں اغیار سے اجتناب اور عناد کو ناقابل قبول قرار دیا اور فرمایا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لئے ہم شاگرد بننے پر تیار ہیں لیکن ہمیں ہمیشہ شاگرد ہی نہیں بنے رہنا چاہئے بلکہ ملت ایران کو اس مقام پر پہنچنا چاہئے کہ دوسرے اس کی شاگردی میں آئیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علم و دانش کے نئے باب کھولنے اور نئی ایجادات و اختراعات پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا اور ملک کے اندر تیار کی جانے وا لی معیاری مصنوعات سے استفادے پر تاکید فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حالیہ تینتیس سال کے دوران ملت ایران کو حاصل ہونے والی ترقی ممتاز شخصیات کے جذبہ حب الوطنی اور قوت ایمانی کا ثمرہ ہے چنانچہ بیرونی طاقتوں کی ہمہ جہتی دباؤ کے باوجود (ایٹمی سائنسداں) شہریاری شہید جیسی ممتاز علمی شخصیات مختلف شعبوں میں پائیدار اور یادگار امور کی انجام دہی اور خالصانہ مساعی میں مصروف ہیں۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
واقعی آپ عزیز نوجوانوں کے لئے تہ دل سے خدا کا شاکر ہوں اور پورے وجود سے اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میری نظر میں ملک سے ہمدردی اور ملک کی تقدیر سے دلچسپی کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے آپ جیسی ہستیوں کو ہمیں عطا کیا ہے۔ میں اس عظیم نعمت پر بہت شکر گزار ہوں۔ الحمد للہ ہمارے پاس اچھے، مومن، بااستعداد، کام کے لئے تیار، پرجوش نوجوان ہیں، کسی بھی قوم کو پیشرفت کے لئے اس سے زیادہ اور کیا چاہئے؟
دوستوں نے جو باتیں یہاں بیان کی ہیں، بہت خوب ہیں۔ واقعی اچھی طرح غور کیا گیا تھا اور اچھی طرح کام کیا گیا تھا۔ البتہ میں یہ عرض کروں گا کہ ہر اقدام میں کچھ ضرر بھی ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ ہر املا لکھنے میں کچھ غلطیاں ہوتی ہیں۔ غلطی نہ ہو اس کا راستہ یہ ہے کہ املا نہ لکھا جائے۔ ہماری قوم آج بہت ہی سخت املا لکھ رہی ہے۔ حکام، حکومت اور قوم بہت ہی دشوار راستہ طے کر رہی ہے۔ کسی جگہ لغزش ہونا اور گرنا فطری ہے۔ کسی جگہ تھوڑا سا تھک جانا، پیچھے رہ جانا، اس سے بالکل نہیں گھبرانا چاہئے کہ ایسا کیوں ہو گيا؟ نہیں، یہ نہیں ہے کہ میں غلطیوں کی نشاندہی اور اعتراض سے ناراض ہو جاؤں گا۔ ہر گز نہیں، اطمینان رکھیں۔ ایک دوست، عذر کے عنوان سے کہہ رہے تھے کہ میں تنقید کرنا نہیں چاہتا بلکہ درد دل بیان کرنا چاہتا ہوں۔ تنقید بھی کریں۔ کوئی حرج نہیں ہے۔ تنقید، نقائص کے بیان اور غلطیوں کی نشاندہی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ خود ہم بھی کہتے ہیں۔ سننے کے لئے بھی تیار ہیں۔ یعنی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ کبھی نہ سوچیں کہ غلطیوں کی نشاندہی میں کوئی حرج ہے لیکن جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اعتراضات ہمارے اندر صحیح راستے پر چلنے میں تردد پیدا نہ کریں، کام کے صحیح ہونے میں ہمارے اندر تزلزل پیدا نہ کریں۔ جیسے ہمارا کوئی ساتھی فرض کریں کہ تھک جائے یا بیٹھ جائے یا تھوڑا سا پانی پینا چاہے، یا اس کو کوئی مسئلہ در پیش ہو جائے تو اس بات کو فراموش نہ کریں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ہمیشہ چوٹی کو اپنے سامنے رکھیں۔ میرا کہنا یہ ہے۔
دوستوں نے جو باتیں کہیں ان میں بعض کا تعلق ممتاز ذہانت کے مالک افراد کے مسائل سے ہے اور یہ باتیں، ممتاز ذہانت کے مالک افراد کے فاؤنڈیشن سے متعلق ہیں اور بعض باتیں ممتاز ذہانت کے مالک افراد کے مسائل سے بالاتر ہیں۔ میں نے نام لکھ لئے ہیں اور ان شاء اللہ بھائیوں اور بہنوں نے جو باتیں کہی ہیں، ان پر دفتر میں توجہ دی جائے گی اور حکام تک بھی انہیں پہنچایا جائے گا۔ بعض حکومتی ذمہ دار افراد بھی یہاں موجود ہیں، وہ ان باتوں پر توجہ دیں گے۔ ان میں سے بعض باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق صرف نابغہ روزگار ہستیوں سے ہی نہیں ہے۔ علم کے مسئلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ علمی پیشرفت سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ نکات بیان کئے گئے جو میری نظر میں بہت صحیح تھے۔ کچھ باتیں اجرائی پہلو رکھتی ہیں اور سائنسی و علمی امور میں صدر کی مشیر کی حیثیت سے محترمہ سلطان خواہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ البتہ ان کا کہنا صحیح ہے کہ یہ کام ان موضوعات کی مانند ہے جو یونیورسٹی کے موضوعات کے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ موضوعات کے درمیان کا کام ہے اور ایک طرح سے سب سے تعلق رکھتا ہے۔ مختلف اداروں کو ان کی مدد کرنی چاہئے۔ میں نے سنا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے ذریعے نہیں بلکہ غیر سرکاری رپورٹوں سے مجھے اطلاع ملی ہے اور میں نے سنا ہے کہ بہت اچھے کام ہوئے ہیں یا ان شاء اللہ انجام پانے والے ہیں۔ امید ہے کہ ان کا مشاہدہ کریں گے۔
اسی جگہ میں یہ عرض کر دوں کہ یہ منشور جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے بہت اہم کام ہے۔ یہ جو کہا کہ ممتاز ذہانت رکھنے والوں کا قومی منشور تیار ہو گیا ہے یا تیار ہو رہا ہے اور منظوری کے مراحل میں ہے، میرے لئے ایک خوش خبری ہے۔ یہ تمام مشکلات، جن کا ذکر ہوا، اسی منشور کے نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ ہمیں نابغۂ روزگار ہستیوں کی شناخت کا مسئلہ در پیش ہے۔ ممتاز ذہانت رکھنے والوں کی شناخت سے پہلے برتر استعداد کی، جو ممتاز ذہانت میں تبدیل ہوتی ہے، شناخت کا مرحلہ ہے۔ پہلے برتر استعداد کی شناخت ہونی چاہئے۔ اس کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ وہ راستہ کیا ہے جس پر چل کے یہ برتر استعداد کا مالک فرد نابغہ اور ممتاز ذہانت کا مالک بنے گا۔ کیونکہ ہر برتر استعداد رکھنے والا نابغہ اور ممتاز ذہانت رکھنے والا نہیں ہوتا بلکہ تدریجی طور پر نابغہ اور ممتاز ذہانت کا مالک بنتا ہے۔ بنابریں پہلے برتر استعداد کی شناخت ہے، اس کے بعد اس برتر استعداد کے مالک فرد کے نابغہ اور ممتاز ذہانت کے مالک میں تبدیل ہونے کا راستہ ہے، اس کے بعد اس کے ثمر بخش ہونے کا مرحلہ ہے، جو درحقیقت وہی نابغہ اور ممتاز ذہانت کا مالک بن جانے کا مرحلہ ہے اور عموما ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے مرحلے میں یہ چیز سامنے آتی ہے اور وہ نوجوان نابغہ اور ممتاز ذہانت کے مالک فرد میں تبدیل ہوتا ہے اور اس کے بعد ممتاز ذہانت کے کام کا دوام ہے۔
سب اس بات پر توجہ رکھیں اور شاید آپ سب کی توجہ ہے کہ جب کسی کو نابغہ اور ممتاز ذہانت کا لقب دیا جاتا ہے تو اس کا اصل کام شروع ہوتا ہے۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ اب جب کہ وہ نابغہ ہو گیا ہے تو بس اب وہ آسودہ خاطر ہو گیا، اس کا ایک امتیاز ہے اور شہرت بھی ہے۔ جی نہیں، نابغہ ہوئے تو یہ ابتدائے راہ ہے۔ اب اگر ہم ان تمام مراحل کو دیکھنا، صحیح طور پر طے کرنا اور مرتب کرنا چاہیں تو اسی منشور کی ضرورت ہے جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا۔ بنابریں یہ منشور اہم ہے۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ اب جبکہ اس منشور کی تدوین ہو گئی ہے تو ان شاء اللہ جلد سے جلد اس کی تکمیل ہویا اصلاح ہو یا منظور ہو، جو کام بھی ہونا ہے ہو اور یہ نفاذ اور عمل کے مرحلے میں آئے۔
چند باتیں جو دوستوں نے بیان کی ہیں، ان کی طرف اشارہ کروں گا۔ اس ثقافتی اشرافیہ اور کلچرل ارسٹوکریٹ خاندانوں کی اولادوں کی جو بات اس عزیز بیٹی نے کی ہے، اس بارے میں حقیقت یہ ہے کہ میں نے کچھ نہیں سنا ہے۔ اگرچہ میرا خیال ہے کہ مختلف مسائل میں رپورٹیں مجھے ملتی ہیں لیکن یہ بات میرے لئے بالکل نئی تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ مصادیق بھی وہ جانتی ہیں، مجھے ان سے ضرور مطلع کیا جائے۔ یعنی رپورٹ لکھیں۔ اگر واقعی ایسی بات ہے تو بہت بری ہے۔ میں نے اس سلسلے میں قابل توجہ بات نہیں سنی ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں کسی کی بیٹی یا بیٹا فخریہ بیان کرے کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں لیکن یہ چیز تعلیمی عمل کا حصہ ہو، مضمون کے انتخاب اور زیادہ علم کے حصول میں موثر ہو، وغیرہ وغیرہ، تو بہت بری ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہے تو اس کی روک تھا ہونی چاہئے۔ میں محترم خاتون سے جنہوں نے یہ بات بیان کی ہے، چاہتا ہوں کہ ان باتوں کو لکھیں اور تحریری شکل میں میرے حوالے کریں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک دوست نے کہا کہ نوجوان اچھے کام کر رہے ہیں، گوناگوں مسائل میں فکر کرتے ہیں، لیکن ان کے لئے سامنے آنے اور موثر واقع ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ فرض کریں کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یا انہیں اسٹریٹیجک اجلاسوں میں جن کی طرف اشارہ کیا، جو ان شاء اللہ جاری رہیں گے، نوجوان بھی شرکت کریں۔ یہ بات منطقی ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ یقینا بعض شعبوں میں نوجوانوں کی موجودگی موثر ہوتی ہے۔ یہ بات میں بھی کہتا ہوں؛ دیکھئے! آپ سب نوجوان ہیں، میں آپ عزیزوں کے سامنے، البتہ آپ سب میرے بچے ہیں، میری اولاد ہیں، میں دوستانہ اور پدرانہ شفقت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ تمام شعبوں میں نوجوانوں کی موجودگی مثبت ہو۔ ایک خاتون نے اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ نوجوان ججوں کو لانا، عدلیہ کے نظام کے ناکارآمد ہونے پر منتج ہوگا۔ جج کو پختہ کار ہونا چاہئے۔ بہت خوب، یہ بہت اچھی بات تھی میں نے اس کو لکھ لیا ہے۔ بعض جگہوں پر ایسا ہی ہے۔ البتہ بعض شعبوں میں جو محدود اور کم بھی نہیں ہیں، نوجونوں کی موجودگی بہت مثبت، تعمیری اور مفید ہے۔ آنکھوں کے سامنے نئی فضا اور نئے افق کھولتی ہے لیکن سب جگہ ایسا نہیں ہے۔ بہرحال نوجوانوں سے لازمی طور پر استفادہ کرنا چاہئے۔ لیکن میں یہ بات کہوں گا کہ میرے عزیزو! دیکھئے، آپ کی فکر، آپ کے کام ، آپ کی دکھائی ہوئی راہ نو اور آپ کی پیش کردہ تجاویز کی تاثیر صرف یہ نہیں ہے کہ فورا انہیں اجرائی شعبے کو منتقل کر دیا جائے، ان پر عمل درآمد کا اہتمام کیا جائے اورنفاذ کے مرحلے میں پہنچا دیا جائے۔ نہیں، صرف یہ تاثیر نہیں ہے۔ ایک اہم ترین اثر یہی فکر کرنا ہے جس کی فضا آپ کھولتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ نتیجے میں صدر مملکت بھی فکری یا عملی بنا پر یقین کی فضا میں، اسی طرح فکر کرتا ہے۔ وزیر بھی اسی طرح سوچتا ہے۔ ادارے کا سربراہ بھی اسی طرح سوچتا ہے۔ کارکن بھی اسی طرح فکر کرتے ہیں۔ یہ اچھا ہے۔ آپ یہ کام انجام دیتے ہیں۔ فکر کرتے ہیں، کہتے ہیں، لکھتے ہیں، اپنے اجتماعات میں بیان کرتے ہیں۔ آزادانہ فکر کے پلیٹ فارم کو جن پر میں نے کم وبیش سو بار تاکید کی ہے، شروع کریں اور ان باتوں کو وہاں بیان کریں، یہ ایک اچھی فضا ہوگی۔ جب بیان کی ایک فضا وجود میں آ جائے گی تو سبھی اس فضا میں فکر کریں گے، سبھی اس فضا میں سمت کا تعین کریں گے، سبھی اس فضا میں کام کریں گے اور یہ وہی چیز ہے جو آپ چاہتے ہیں۔ بنابریں اگر آپ نے کسی جلسے میں، طلبا کی کسی ایسوسی ایشن میں کوئی کام کیا، فکر پیش کی لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔ اس نے قانون اور دستور العمل کی شکل اختیار نہ کی تو آپ مایوس نہ ہوں، یہ نہ کہیں کہ ہمارا کام بے فائدہ تھا؛ ایسا نہیں ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ان پندرہ سولہ برسوں میں یہی علمی تحریک جو شروع ہوئی اور اسی طرح آج علم کی اہمیت ہے؛ چند سال قبل ایسا نہیں تھا۔ ہم اسی طرح روز بروز آگے بڑھے ہیں۔
ایک دن ایسا بھی تھا کہ کچھ چیزیں کہی جاتی تھیں تو سماعت پر گراں گزرتی تھیں۔ میں نے ایک دن علم کی پیداوار کا مسئلہ پیش کیا، بعد میں دیکھا کہ کچھ لوگ علم کی پیداوار کی اصطلاح پراعتراض کر رہے ہیں۔ ایک لفظی بحث کہ علم کی پیداوار نہیں ہوتی۔ لیکن آج یہ ایک محکم اور مسلمہ اصطلاح بن چکی ہے۔ آپ کو شکایت ہے کہ یہ کام اپنے خاص وقت میں آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ یہ بہت اچھی پیشرفت ہے۔ بنابریں کام کرنا چاہئے۔ کام کریں، فکر کریں، یقینا اثر انداز ہوگی۔
مجھ سے سوال کیا گیا کہ بنیادی علوم (فزیکس اور ریاضیات) کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟ میں بنیادی علوم کے بارے میں کئی بار گفتگو کر چکا ہوں۔ میں بنیادی علوم کو بہت اہم سمجھتا ہوں۔ میں نے ایک بار کہا ہے کہ بنیادی علوم ان علوم کے مقابلے میں جن سے ہم کام لیتے ہیں ایسے ہی ہیں جیسے اس پیسے کے مقابلے میں جو آپ جیب میں رکھتے ہیں بینک میں موجود سرمایہ ہوتا ہے۔
آپ کا کچھ پیسہ بینک میں جمع ہوتا ہے جو محفوظ ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر آپ کرتے ہیں، اس سے آپ کی امید بندھی ہوتی ہے اور یہ سرمایہ آپ کی آمدنی کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ کچھ پیسہ آپ اپنی جیب میں رکھتے اور خرچ کرتے ہیں۔ میں مبالغہ نہیں کرنا چاہتا۔ حقیقت واقعہ یہی ہے ۔ یہ جو تجرباتی علوم (کیمسٹری، انجینیئرنگ وغیرہ) آج ہمارے پاس ہیں یہ سب وہ رقم ہے جو ہم خرچ کر رہے ہیں۔ ایک قوم کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس انجینئر ہوں، شہری تعمیرات ہوں، صنعتیں ہوں، میڈیکل سائنس ہو، صحت عامہ اور علاج معالجہ ہو، یہ ہمارے روز مرہ کے خرچ کی رقم ہے۔ لیکن ان علوم کا اصلی سرمایہ اور سرچشمہ بنیادی علوم (فزکس اور ریاضیات) ہیں۔
میں نے اس سال رمضان میں انہیں انسانی علوم (عمرانیات، ادبیات، تاریخ وغیرہ) کے بارے میں یونیورسٹی طلبا اور نوجوانوں سے گفتگو کی تھی۔ اس سے پہلے بھی اس سلسلے میں گفتگو ہو چکی ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی ہیومن سائنس کے بارے میں آپ جیسے نوجوانوں اور اصحاب فکر و نظر کے ساتھ جلسہ ہوگا۔ ہیومن سائنس روح دانش ہے۔ درحقیقت تمام علوم ، معاشرے میں انجام پانے والے تمام اعلی کام ایک جسم کی مانند ہیں جس کی روح ہیومن سائنس ہے۔ ہیومن سائنس جہت دیتی ہے ۔اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہمارا علم کس چیز کی جستجو میں ہے۔ جب ہیومن سائنس میں انحراف آ جائے اور وہ غلط بنیادوں اور عالم ہستی کے بارے میں غلط نظریات پر استوار ہو جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام امور غلط سمت میں چل پڑتے ہیں۔ آج مغرب کے پاس جو علم و دانش ہے وہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے، چھوٹی چیز نہیں ہے، مغرب کا علم تاریخ میں بے نظیر ہے لیکن طویل برسوں تک اس علم سے استعماری اہداف کی راہ میں کام لیا گیا، غلامی کو رواج دینے اور دوسروں کو غلام بنانے کے لئے کام لیا گیا، ظلم کی راہ میں کام لیا گیا، اقوام کی دولت و ثروت ہڑپ کرنے کے لئے کام لیا گیا۔ آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟! یہ اسی غلط فکر، غلط جہت اور غلط نظریئے کا نتیجہ ہے کہ اتنا عظیم علم، علم بذات خود ایک بڑا شرف ہے، بہت ہی عظیم اور با‏عزت چیز ہے،(لیکن) اس سے ان اہداف کی راہ میں کام لیا جا رہا ہے۔ ہیومن سائنس کے بارے میں یہاں موجود دوستوں میں سے ایک نے بہت اچھے نکات بیان کئے۔
میں نے چند نکات یہاں لکھے ہیں جو آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ملک کو ایسے سائنسدانوں کی ضرورت ہے جو اپنے ملک سے محبت کرتے ہوں، اپنے عوام سے محبت کرتے ہوں اور انہیں اپنا تشخص اور اپنی قوم کی تقدیر عزیز ہو۔ اس لگاؤ کے احساس کے بغیر کام آگے نہیں بڑھتا۔ وہ دانشور اور سائنسداں جس کے لئے علم پیسہ وغیرہ کمانے کا ذریعہ ہے وہ ملک کی تقدیر سنوارنے میں مدد نہیں کر سکتا۔ میں آپ سے عرض کر دوں کہ زمانے میں، البتہ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے لیکن آج زیادہ ہے، دنیا میں تصادم اور ٹکراؤ رہا ہے۔ ایک زمانے میں انسانوں کے درمیان لڑائی اور تصادم انسانوں کی فطرت کے سبب رہا ہے۔ جس نے بھی خود کو طاقتور دیکھا، کمزور پر ہاتھ ڈال دیا۔ رحم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ الا یہ کہ دین اور دینی اعتقاد کی مہار اور لگام موجود ہو۔ سرداران صدر اسلام (اسلام کے ابتدائی دور کے سردار) جس ملک میں بھی جاتے تھے، وہاں مغلوب اقوام ان سے بہت سختی سے پیش آتی تھیں لیکن یہ جب وہاں پہنچتے تھے تو اخلاق سے پیش آتے تھے اور دین کے مطابق عمل کرتے تھے۔ حتی صلیبی جنگوں کے زمانے میں، اسلام آنے کے کئی سو سال بعد بھی یہ بات موجود تھی۔ عیسائی جو یورپ سے آتے تھے، بیت المقدس میں داخل ہوتے تھے تو مسلمانوں کا قتل عام کرتے تھے ، آپ جانتے ہیں کہ صلیبی جنگیں تقریبا دوسو سال تک جاری رہیں، کبھی ایک فریق کو شکست ہوتی تھی اور کبھی دوسرے کو، جب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوتا تھا تو ان کے برعکس ان سے مہربانی سے پیش آتے تھے۔ صدر اسلام میں اسی شام کے علاقوں میں جو اس زمانے میں مشرقی روم کی سلطنت میں تھا، تھوڑے سے یہودی رہتے تھے۔ جب مسلمان آئے تو وہ قسم کھاتے تھے، ان کی قسم کے وہی الفاظ جو وہ کہتے تھے، تاریخ میں موجود ہیں۔ کہتے تھے کہ توریت کی قسم یہاں اب تک ہم پر حکومت کرنے والے آپ بہترین لوگ ہیں۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ یہ دین کی مہار کے سبب تھا۔ دین نہیں ہوتا تھا تو غالب قوم مغلوب قوم کو دباتی تھی۔ اس کے دین کو، اس کے اخلاق کو، اس کی عزت و آبرو کو، اس کی غیرت کو اور اس کے افتخارات کو نابود کر دیتی تھی۔ میں یہاں بعض غالب اقوام کا نام لینا نہیں چاہتا۔ امریکا اور مغرب ظلم اور جرم کرتے تھے لیکن یہ بات انہی سے مخصوص نہیں تھی بعض دیگر ممالک بھی اسی طرح تھے۔ کہیں غلبہ حاصل ہوا تو وہاں ایسی درندگی دکھائی کہ زمانہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی درندگی کے واقعات پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اب ایک قوم ہے جو اپنی طاقت کی حفاظت کرنا چاہتی ہے۔ اس بات کی روک تھام کرنا چاہتی ہے کہ اس پر یلغار ہو، چاہے وہ یلغار، ظاہری، مادی فوجی اور سلامتی سے متعلق ہو، چاہے سائبر حملے ہوں، چاہے اخلاقی اور ثقافتی یلغار ہو اور چاہے تہذیبوں کی تحقیر کی یلغار ہو جو حالیہ عشروں میں دنیا میں رائج ہوئی ہے، ایسی صورت میں وہ کیا کرے؟ ضروری ہے کہ اس کے سیاستداں اور سائنسداں ، دونوں فداکاری کا ثبوت دیں۔ میری مراد یہ نہیں ہے کہ آپ جو نابغہ اور ممتاز ذہانت کے مالک ہیں اور نوجوان ہیں، فداکاری کیجئے، کوئی مادی توقع نہ رکھئے۔ نہیں، ہم اتنی زیادہ توقع نہیں رکھتے لیکن دینی، روحانی اور قلبی لگاؤ کے بغیر ممتاز سیاسی اور علمی ہستیاں ملک کی حفاظت نہیں کر سکتیں اور نہ ہی اس کو طاقتور بنا سکتی ہیں۔
سیاستدانوں کے بارے میں بھی یہی ہے۔ اگر سیاستداں صرف اپنی فکر میں ہو، اپنے آرام کی فکر میں ہو، اپنی جیب بھرنے کی فکر میں ہو، اپنی خواہشات کی تکمیل کی فکر میں ہو، ان بنیادی اور اساسی امور پر توجہ نہ دے جن کے لئے فطری طور پر اپنے آرام و آسائش کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو ملک کو شکست ہو جائے گی۔ اس کا ثبوت یکے بعد دیگرے طویل شاہی سلسلے ہے۔ صفویوں کی حکومت طاقتور تھی۔ طاقت کے ساتھ بر سر اقتدار آئے، ایمان کے ساتھ اقتدار میں آئے، بعد میں انہی کمزوریوں کے سبب ، انہی خصوصیات کے غلبے کے سبب، نوبت وہ آ گئی جو آپ جانتے ہیں۔ قاجاری ان سے بدتر تھے اور پہلوی سب سے بد تر۔
علم کے میدان میں بھی ایسا ہی ہے۔ اگرکسی ملک میں دانشور اور سائنسداں کو اپنے ملک کی فکر ہوئی، اس کے لئے، اس کے اندر، اپنے لحاظ سے فداکاری کا جذبہ ہوا تو ملک ترقی کرے گا۔ جو چیزیں یہ جذبہ اور یہ پیشرفت وجود میں لا سکتی ہیں ان میں سب سے بہتر ایمان ہے۔ اگر ایمان ہو تو ملک ترقی کرتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں جو سائنسی ترقیات ہیں، البتہ ہم ان پر قانع نہیں ہیں، ان کی قدر و منزلت اور اہمیت، دنیا میں رائج علمی اور سائنسی ترقیات سے بہت زیادہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم دوسروں کے ساتھ علمی تبادلے، ان سے علمی استفادے اور ان کے علمی تعاون سے محروم رہے ہیں۔ ہم دباؤ میں رہے ہیں۔ ہمارے اوپر دروازے بند رہے ہیں۔ اس کے باوجود ممتاز سائنسداں وجود میں آئے، شہید شہریاری (اسرائیل کی سازش سے قتل کر دئے جانے والے ایران کی ایٹمی سائنسداں) جیسی ہستیاں پیدا ہوئیں۔ ان کے جیسی دسیوں ہستیاں ہمارے درمیان تھیں اور الحمد للہ اب بھی ہیں۔ مختلف شعبوں میں ماہر، دسیوں اور سیکڑوں افراد پیدا ہوئے جنہوں نے نمایاں کارنامے انجام دیئے۔ جبکہ انہوں نے مغربی یونیورسٹیوں، مغربی اساتید اور مغربی تحقیقاتی مراکز سے کوئی استفادہ نہیں کیا۔ البتہ مغربی تحقیقات سے یقینا فائدہ اٹھایا اور اٹھانا بھی چاہئے۔
ایک دوست نے صحیح بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ غیروں سے اجتناب اور لڑائی ہمیں کہیں نہیں پہنچائے گی۔ ہاں ایسا ہی ہے لیکن اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ یہ جو ہم بعض اوقات غیروں سے اجتناب کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے علم و دانش سے خود کو محروم رکھیں۔ ہرگز نہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم شاگردی کرنے اور سیکھنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ لیکن ہمیشہ شاگرد باقی نہیں رہنا چاہئے۔ نکتہ یہ ہے کہ ہماری قوم اس منزل تک پہنچ سکتی ہے کہ دوسرے آئیں اور اس کی شاگردی کریں۔ میرے پیش نظر وہ بلند چوٹی ہے۔ اس کی طرف ہمیں بڑھنا چاہئے۔ بنابریں دانشوروں اور سائنسدانوں کے لئے پرخلوص اور مخلصانہ سعی و کوشش ضروری ہے تاکہ وہ کام کر سکیں۔ الحمد للہ آپ کے اندر یہ صلاحیت اور یہ استعداد موجود ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ اس قوم کی عظمت رفتہ اس کو لوٹا سکتے ہیں۔
میرے عزیزو' دسیوں سال تک ہماری قوم کی عزت و عظمت، ہماری قوم کی غیرت وحمیت اور ہماری قوم کا افتخار پامال ہوا۔ انقلاب نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہمارے ملک کی تاریخ، علم و دانش سے مالا مال ہمارا ماضی، ہمارے پاس عظیم علمی و فکری ذخائر تھے، دنیا کی جہالت و غفلت کے دور میں ہمارے ملک کے پاس کتنی عظیم علمی ہستیاں تھیں، ابن سینا، محمد زکریا، فارابی، خواجہ نصیر جیسی عظیم ہستیاں تھیں۔ یہ جہالت بشریت کا دور تھا۔ یہ قرون وسطی کا زمانہ تھا جب دنیا میں علم و دانش کی روشنی کی کوئی خبر نہ تھی۔ یہ ملک جس میں ایسی علمی ہستیاں موجود تھیں، وہ اس حالت کو پہنچ گيا کہ اپنی زندگی کی ابتدائی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی ہم دوسروں کے محتاج ہو گئے۔ ہمارے سیاستداں، جو نالائق اور پسماندہ تھے، کہتے تھے ایرانی ایک بدھنا بھی نہیں بنا سکتے۔ بدھنا مٹی کا لوٹا ہوتا تھا۔ وائے ہو اس سیاستداں پر جو اپنی قوم کے بارے میں اس طرح بولے۔ ایک اور کہتا تھا کہ ہمیں آگے بڑھنے کے لئے سرتا پا فرنگی ہونا چاہئے۔ یہ نالائقی کی باتیں ہیں۔ یہ پسماندگی ہے کہ کچھ لوگ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ان کمزوریوں کو قوم پر مسلط کر دیں اور قوم کی تذلیل کریں۔ انقلاب نے انہیں ختم کیا۔ ہم ہوش میں آئے، خوش قسمتی سے اچھے کام انجام پائے، صلاحیتیں بھی اچھی طرح ابھر کے سامنے آئیں، ہم نے ترقی کی اور الحمد للہ مزید پیشرفت کریں گے۔
میں ملک کے حکومتی عہدیداروں سے کہنا چاہتاہوں کہ علم کی پیداوار اور سائنسی ایجادات میں سرمایہ کاری ہمارے ملک و قوم کے لئے بہت مفید رہی ہے اس کو ختم نہ کریں۔علم کی پیداوار، علمی جدت و ایجادات اور علمی پیشرفت کے لئے سرمایہ کاری میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ کمی نہیں آنی چاہئے۔ آج ہم حتی اتنی بھی سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں جو مثال کے طور پر برطانیہ، اٹلی اور فرانس سائنس و ٹکنالوجی کی دنیا میں داخل ہونے کے اوآئل میں کرتے تھے، ہماری سرمایہ کاری کم ہے۔ جتنا ممکن ہو، علمی سرمایہ کاری میں اضافہ ہونا چاہئے۔
البتہ یہ سرمایہ کاری مینجمنٹ میں بہتری کے ساتھ ہونی چاہئے، میں خاص طور پر حکومتی عہدیداروں سے اس کی تاکید کرتا ہوں۔ اگر مالی ذخائر بڑھا دیں، تقسیم بھی کر دیں، پہنچا دیں اور جاری کر دیں لیکن اس شعبے میں مینجمنٹ کی کیفیت اچھی نہ ہو تو مالی ذخائر ضائع ہو جائيں گے۔ یونیورسٹیوں، ملک کے علمی مراکز یہی صدر مملکت کے علمی مشیر کے دفتر میں مینجمنٹ کی کیفیت میں بہتری ضروری ہے۔ جو سرکاری مراکز یونیورسٹیوں اور علمی مسائل سے سروکار رکھتے ہیں ان میں مینجمنٹ کو بہتر کرنا ضروری ہے البتہ سرمایہ کاری بھی ہونی چاہئے۔
ایک اور نکتہ یونیورسٹی اور صنعت کے رابطے کا ہے جو پرانا کافی مسئلہ ہے۔ پندرہ سولہ سال پہلے، بہتر ہے کہ اس کا تاریخچہ بیان نہ کریں، یہ مسئلہ اٹھا اس پر کام کیا گیا اور سرانجام اس نے ایک رائج فکر کی شکل اختیار کی اور یہ سب کی خواہش قرار پائی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کام کس طرح کیا جائے؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صنعتیں بازار کی رقابت میں پیچھے نہ رہیں تو علمی اور ایجادات و اختراعات کے میدان میں پیشرفت ضروری ہے۔ اس جدت کی فضا ہماری یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں پوری طرح موجود ہے۔ یہ تحقیقاتی مراکز جن کے لئے کئی بار سفارش کی گئ ہے کہ یہ یونیورسٹیوں کے ساتھ قائم کئے جائیں اور یونیورسٹیوں سے وابستہ رہیں، ایک شعبہ صنعتوں کے اختیار میں دے سکتے ہیں کہ وہ بھی ان تحقیقاتی مراکز میں حصہ لیں اور اپنی ضروریات وہاں سے پوری کریں۔ اس کام کی ہم آہنگی اسی سرکاری شعبے میں ممکن ہے۔ اس پر غور و فکر اور اس کام کی منصوبہ بندی کریں۔ یہ بات صنعتی شعبے کے لئے بھی مفید ہے اور یونیورسٹیوں کے لئے بھی۔ یونیورسٹی کی نگاہ جب معاشرے کی ضرورت اور کام اور بازار کی ضرورت پر ہوگی تو وہ صحیح جہت اختیار کرے گی اور اس میں جوش و جذبہ بڑھے گا۔ اس سے یونیورسٹی کی آمدنی بھی ہوگی۔ صنعت بھی جب نئے نقطۂ نگاہ ، نئی فکر اور سائنس و ٹکنالوجی کی پیداوار پر استوار ہوگی اور یہ کام یونیورسٹیوں میں ہوگا، تو فطری طور پر پیشرفت کرے گی۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ یہ کام بھی ضرور ہونا چاہئے۔
یہیں پر میں ملک کے مصنوعات کے بارے میں جن کی طرف ایک دوست نے اشارہ کیا اور میں نے بھی اس کو لکھ لیا ہے، ایک نکتہ عرض کروں گا۔ خوش قسمتی سے ملک میں، مختلف شعبوں میں ہماری مصنوعات کی کیفیت اچھی ہوئی ہے۔ ملک کی مصنوعات کا بڑا حصہ سرکاری اداروں میں استعمال ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں یہ عزم راسخ ہونا چاہئے کہ ملکی مصنوعات ہی استعمال کریں گے، جن شعبوں میں ملکی مصنوعات ہیں، ان میں اپنی ملکی مصنوعات سے ہی کام لیں گے۔ یعنی وہ مصنوعات جن کی مشابہ اشیاء ملک کے اندر تیار ہو رہی ہے، ان کی درآمد پر بالکل پابندی ہونی چاہئے۔ یہ مطالبہ کریں، حکومت میں اس بات کو پیش کریں، جناب صدر حکومتی اداروں کے لئے حکم صادر کریں، یہ کام ہو سکتا ہے۔ ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ بعض معاملات میں کسی ادارے سے سخت انداز میں کہا گیا کہ یہ کام جو ہورہا ہے، اس میں کوئی بھی غیر ایرانی چیز استعمال نہ ہو اور یہ ہوا اور بہترین انداز میں ہوا۔ اگر ہمارے اداروں کے سربراہ یہ طے کر لیں کہ ایرانی پیداوار اور ایرانی مصنوعات سے ہی جو اچھی کوالٹی کی بھی ہیں کام لیں گے تو ملک کی مصنوعات کی کیفیت اور بڑھے گی۔ یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔
میں نے سنا ہے کہ اداروں اور بینکوں وغیرہ کی جانب سے داخلی پیداوار کی حمایت کم ہے۔ بعض اوقات حمایت نہ ہونے کی وجہ سے داخلی مصنوعات تیار کرنے والے دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ خود حکومت کے اندر اس سے نمٹنا ضروری ہے یعنی حکم صادر کیا جائے۔
ایک بات اور کہی گئی جو اتفاق سے میں نے بھی یہاں لکھ رکھی ہے کہ بعض اوقات داخلی مصنوعات تیار کرنے والوں کے ساتھ لین دین میں حکومتی اداروں کا حساب کتاب صحیح نہیں ہوتا (ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے) جبکہ یہی معاملہ کسی غیر ملکی صنعتکار سے ہوتا ہے تو نقد ادائیگی ہوتی ہے، لیکن ( ملکی صنعتکاروں کی ادائیگی) ٹالتے رہتے ہیں، ایک سال، دوسال، اس کے واجبات ادا نہیں کرتے۔ اس کی روک تھام ہونی چاہئے۔
ایک اور مسئلہ علمی مقالات کا ہے۔ خوش قسمتی سے علمی و سائنسی مقالات میں حجم اور کیفیت دونوں لحاظ سے پیشرفت ہوئی ہے۔ لیکن ایک نکتہ اہم ہے جس کو میں اب تک کئی بار عرض کرچکا ہوں اور خوش قسمتی سے دیکھا کہ آج بعض دوستوں کی باتوں میں بھی اس کو پیش کیا گیا ہے، وہ نکتہ یہ ہے کہ مقالہ لکھنا ہدف نہیں ہے۔ سب سے پہلے مقالہ کی کیفیت اہم ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم مقالے کی جہت اور زاویہ ہے۔ ہم یہ مقالہ کس لئے لکھتے ہیں؟ مقالات کی تعداد میں یہ اضافہ، ہمارے کام کے بازار، ہماری پیداوار اور ہماری حقیقی زندگی میں اس کے اثرات نمایاں ہونے چاہئیں۔ اسی کے ساتھ مقالہ ملک کی ضرورت کے مطابق لکھا جائے۔ یہ بہت اہم ہے۔ بنابریں مقالوں کی کیفیت بھی اہم ہے اور یہ بات بھی اہم ہے کہ مقالہ ملک کی کوئی ضرورت دور کرنے کے لئے لکھا جائے۔ اگر یہ ہو جائے، اب فرض کریں کہ کسی نے کوئی مقالہ لکھا اور دوسرے کو فروخت کیا۔ کہا: جیسا چاہو، ہم دیں گے۔ ہم اس طرح نہ کہیں۔ مقالہ اگر ملک کے فائدے میں ہے، کسی جہت اور زاویئے کے لئے مفید ہے تو جس شکل میں بھی ہو، اچھا ہے۔ لیکن صرف یہ بات کہ مقالہ لکھا جائے ، ہدف نہیں ہے۔ مقالے کی تعداد میں اضافہ ہدف نہیں ہے؛ بلکہ صعنتوں اور بازار میں اس کے اثرات کے ظاہر ہوں ۔
زراعت کا مسئلہ بھی جو بیان کیا گیا، بہت اہم ہے اور سچی بات ہے کہ زراعت ایسا شعبہ ہے کہ پوری دنیا میں حکومتیں اس پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ اس شعبے پر ضروری توجہ ہونی چاہئے ۔
بہرحال آج کا جلسہ بہت اچھا تھا۔ میں ان شاء اللہ دوستوں کی یہ تحریریں لوں گا مطالعہ کروں گا اور ان کو آگے بڑھاؤں گا۔ دعا ہے کہ خداوندعالم آپ کو توفیق عنایت فرمائے، آپ کی نصرت کرے اور کل ملک آپ عزیز نوجوانوں کے ہاتھوں میں آئے تو ان شاء اللہ اس انقلاب کے اعلی اہداف کے اور بھی قریب پہنچے۔
 
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ