تیرہ آبان مطابق چار نومبر کو ایران میں منائے جانے والے عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے بدھ کی صبح ہزاروں طلباء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے خلاف امریکہ اور صیہونیت کی سرکردگی میں استکبار کی مختلف سازشوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ امریکی حکومت ایسے عالم میں جب روز افزوں مشکلات سے دوچار ہے اور وسیع پیمانے پر جاری عوام کی وال اسٹریٹ تحریک اپنے شباب پر پہنچ چکی ہے، مضحکہ خیز سناریو کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک مہمل، لا یعنی اور غیر منطقی دہشت گردانہ کارروائی کے لئے مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دنیا کے تمام باشعور اور اہل فکر افراد نے اس مضحکہ خیز سناریو کو دیکھتے ہی مسترد کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے لبرل ڈیموکریسی کے خلاف امریکہ اور دنیا کے اسی ممالک میں عوام کی تحریک کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی شکست کا ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ ممکن ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ان تحریکوں کو دبانے میں کامیاب ہو جائيں لیکن یہ آگ بجھنے والی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم  

آپ تمام عزیز نوجوانوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا اور محترم عہدیداروں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ تیرہ آبان کی سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جس کو سامراج کے خلاف مجاہدت کے دن کا نام دیا گیا ہے۔ در حقیقت اس کو امریکی سامراج کی ہیبت کے خاتمے کے آغاز کا دن کہنا چاہئے۔
یہ ماہ ذی الحجہ کے (پہلے) عشرے کے ایام ہیں۔ آپ عزیز نوجوان، نورانی قلوب اور پر نشاط جذبات سے سرشار میرے عزیز بچے توجہ رکھیں کہ خدا سے قلبی رابطے کے امکان اور فضیلت کے لحاظ سے یہ سال کے بہترین ایام ہیں۔ تمام بڑی اور کامیاب تحریکوں کے استحکام کا اصل سرچشمہ اور بنیاد، ذکر الہی؛ خدا کو یاد رکھنا اور خدا سے رابطہ رکھنا ہے۔ خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہےو اذکرو اسم اللہ فی ایّام معلومات (1) حدیث میں ہے کہ ایام معلومات جن میں خدا نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے، ذالحجہ کے یہی پہلے دس دن ہیں۔
ان دس دنوں میں یوم عرفہ ہے جو دعا، استغفار اور خدا کی جانب توجہ مرکوز کرنے کا دن ہے۔عشق، شوق اور سوز سے مملو دعائے عرفہ جو سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نے عرفات میں تعلیم فرمائی ہے، اس جذبہ فریفتگی اور عشق کی نشاندہی کرتی ہے جو ان ایام میں پیروان اہلبیت ( علیہم السلام ) کے اندر ہونا چاہئے۔ ان ایام کی قدر و قیمت کو سمجھیں۔ آپ کے پاس موقع ہے۔ جس طرح آج آپ کے پاس پیشرفت، صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور عظیم سیاسی، انقلابی اور سماجی تحریکوں کا موقع ہے اسی طرح یہ آپ کے لئے خدا پر توجہ دینے، ذکر الہی اور خدا سے قلبی رابطے کو مستحکم کرنے کا موقع ہے۔ بہترین وسیلہ جو آپ نوجوانوں اور ہماری زندگی میں ذکر الہی کو زندہ کر سکتا ہے، ترک گناہ ہے۔ یہ کام سن رسیدہ لوگوں کی نسبت آپ کے لئے زیادہ آ‎سان ہے۔ آپ نوجوانوں کے دل نورانی ہیں، آپ کے اندر آمادگی پائی جاتی ہے، خدا سے مدد مانگیں۔ نوجوانی کے اس درخشاں زمانے کی قدر کریں۔ خدا سے اپنا رابطہ مستحکم کریں اور اس پرافتخار راہ میں جس کا ایرانی قوم نے آغاز کیا ہے اور آپ آج جس راہ میں عروج کی منزلوں پر پہنچ چکے ہیں، لطف پروردگار سے پورے وجود سے، پوری توانائی کے ساتھ گامزن رہیں اور آگے بڑھیں۔
تیرہ آبان (چار نومبر) جو دو دن بعد ہے، درحقیقت حقیقی معنی میں ایام اللہ میں سے ایک ہے۔ یہ سوچنے، نتیجہ حاصل کرنے اور اس نتیجے کی اساس پر مستقبل سنوارنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا موقع ہے کیونکہ مستقبل آپ کا ہے۔ کس طرح آگے بڑھیں کہ خود کو، اپنی قوم کو، اپنی تاریخ کو بلکہ پوری امت اسلامیہ کو اوج پر پہنچا سکیں؟ راستہ کیا ہے؟ اس کو ان عبرت آموز واقعات پر غور و فکر اور تدبر کے ذریعے معلوم کریں۔ انہی عبرت آموز واقعات میں سے ایک تیرہ آبان (چارنومبر) کا واقعہ ہے۔ ایک طرف قدرت الہی نے ظاہر ہے کہ تمام چیزیں اسی ایک لفظ قدرت الہی میں جمع ہیں، اور اس کے بعد ارادۂ مجاہدت اور راہ مجاہدت میں کی جانے والی استقامت نے، جو قدرت الہی اور توفیق الہی پر استوار ہے، تیرہ آبان ( چار نومبر) کو نمایاں خصوصیات عطا کر دی ہیں۔
ہمارے عزیز امام (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) ہماری تاریخ کی یہ بے مثال ہستی، امریکیوں کو، کہ ان دنوں امریکی سب کچھ تھے، عدالتی تحفظ دینے کے کیپچولیشن بل کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اس اعتراض کی وجہ سے تیرہ آبان ( چار نومبر) کو تنہائی اور غربت کے عالم میں، امریکی کارندوں کے ذریعے ایران سے جلاوطن کر دیئے گئے۔ اس دن اور اس جلاوطنی میں کوئی بھی امام ( امام خمینی) کے پاس نہیں تھا۔ البتہ عوام کے دل امام کے ساتھ تھے۔ امام ( امام خمینی) کو گھر سے اغوا کیا اور مکمل عالم تنہائی میں آپ کو تیرہ آبان سن تیرہ سو تینتالیس (ہجری شمسی مطابق چار نومبر انیس سو پینسٹھ ) کو ایران سے جلاوطن کر دیا۔ پندرہ سال بعد، پندرہ سال، بہت لمبا عرصہ نہیں ہے، برق رفتاری سے گزر جاتا ہے، فرزندان امام (خمینی) یعنی نوجوان انقلابی یونیورسٹی طلبا تیرہ آبان کے ہی دن گئے اور انہوں نے تہران میں امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کر لیا اور امریکا کو ایران سے نکال باہر کیا۔ دیکھئے، قدرت و ارادہ الہی پر استوار عوامی تحریک کیا کرتی ہے۔ امام نے عالم غربت میں استقامت سے کام لیا۔ پائیداری کے ساتھ اپنے راستے کو طے کیا اور عوام کو آہستہ آہستہ تدریجی طور پر میدان میں لائے۔ امام نے عوام کو بیدار کیا۔ لوگوں میں آزادی اور اپنی امنگوں کے لئے اس مجاہدت کا جذبہ زندہ کیا جس میں کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ عوام میدان میں آئے اور انقلاب کامیاب ہو گیا۔ عوام نے انقلاب میں شاہ کو ایران سے بھگایا اور تیرہ آبان (چارنومبر) کو امریکا کو ایران سے نکال دیا۔ بنابریں امام نے فرمایا کہ یہ پہلے انقلاب سے بڑا انقلاب ہے۔ یہ ایک عبرت ہے۔ یعنی کوئی قوم جب صحیح راستے میں، صحیح ہدایت اور بصیرت کے ساتھ استقامت اور پامردی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس کے مقابلے میں دنیا کی کسی بھی طاقت میں تاب مقاومت نہیں رہتی۔ تمام رکاوٹیں ہٹ جاتی ہیں۔ یہ بات محال نظر آتی تھی۔ ڈھائی ہزار سالہ شاہی حکومت، وہ بھی اس حال میں کہ اس کو دنیا کی تمام مادی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی، ایران سے ختم ہو جائے! کیا یہ بات قابل یقین تھی؟ لیکن امام (خمینی) کی قیادت میں ملت ایران کے اسلامی اور ایمانی ارادے نے اس امر محال کو ممکن بنا دیا۔ یہ نہ ہونے والا واقعہ، ہو گیا۔ سب نے اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھا اور محسوس کیا اور اس سے بھی بالاتر یہ کہ بام ایران سے امریکا کے متکبرانہ اور ظالمانہ تسلط کا پرچم اتار دیا گیا اور ہمارے مومن نوجوانوں نے اس کو اپنے پیروں تلے روندا۔ یہ بھی نہ ہونے والا کام نظر آتا تھا۔ یہ بھی ایک ناممکن کام دکھائی دیتا تھا۔ تجزیہ کر رہے تھے، کہہ رہے تھے اور لکھ رہے تھے کہ چونکہ اسلامی مملکت ایران امریکا کے مقابلے پر اٹھا ہے اس لئے اس کو یقینا شکست ہوگی اور پسپائی پر مجبور ہوگا۔ مادی تجزیوں میں یہ کہا جا رہا تھا۔ اس کی نشاندہی کی جا رہی تھی۔ ہمارے بہت سے روشنفکر نما حضرات جو خود کو سیاسی تجزیئے اور واقعات کا گہرائی سے جائزہ لینے اور نتائج اخذ کرنے کا ماہر سمجھتے تھے، یہ تجزیہ کر رہے تھے لیکن اس کے برعکس ہوا۔ اسلام کامیاب ہوا۔ اسلامی جمہوریہ کامیاب ہوا۔ امریکا پسپائی پر مجبور ہوا۔
اس دن سے آج تک بتیس سال کا عرصہ گزر گيا۔ میرے عزیز نوجوانو' ان بتیس برسوں میں کوئی سال بھی ایسا نہیں تھا جس میں انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے امریکا اور صیہونزم کی قیادت میں سامراج کی طرف سے سازشیں یا کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو۔ خدا کے فضل اور قدرت الہی کے سائے میں ہمارے عزیز عوام کی ہمت اور پیشرفت کے لئے ہمارے عزیز نوجوانوں کی سعی و کوشش سے ان تمام سازشوں کے مقابلے میں ایران کامیاب رہا اور امریکا کو شکست ہوئی۔ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ صحیح تجزیہ یہ ہے۔ مستقبل کے بارے میں صحیح نقطۂ نگاہ یہ ہے۔ آپ کے سامنے ان شاء اللہ عمر کے پچاس سال، ساٹھ سال، ستر سال ہیں۔ اس طولانی عمر کے لئے، جو ان شاء اللہ خداوند عالم، اپنی برکت، رحمت اور فضل سے آپ کو عنایت فرما‏ئےگا، منصوبہ بندی کریں۔ منصوبہ بندی کی بنیاد یہ ہے کہ صحیح فیصلہ کریں، صحیح ہدف کا انتخاب کریں اور اس ہدف کے حصول کے لئے استقامت کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اس صورت میں کسی بھی طاقت میں آپ کے سامنے تاب مقابلہ نہیں رہے گی۔ آپ کے مطلوبہ اہداف، علمی، اقتصادی، سماجی اور اخلاقی میدانوں میں اور دنیا میں تفکر اسلامی اور اسلامی بیداری کے فروغ میں ہیں۔ یہ آپ کی عظیم امنگیں ہیں۔ راہ صرف یہ ہے۔ صحیح تشخیص دیں، محکم فیصلہ کریں، قدم اٹھائیں، آگے بڑھیں خدا پر بھروسہ اور توکل سے کام لیں؛ نتیجہ حاصل ہوکے رہے گا۔ آپ کا دشمن جو بھی ہو، دنیا میں اس کی کتنی ہی طاقت کیوں نہ ہو، پسپائی پر مجبور ہوگا چنانچہ انقلاب میں، تیرہ آبان( چار نومبر) کے واقعے میں، مسلط کردہ جنگ میں، اقتصادی محاصرے میں ایسا ہی ہوا۔
ہمارے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، ( ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں) ہمارے پاس صحیح فکر ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے دنیا کے سامنے ایک نئی سیاسی فکر پیش کی۔ دینی جمہوریت کی فکر۔ یہ نئی سیاسی فکر صحیح فلسفے اور محکم فکری و اعتقادی مبانی پر استوار ہے اور علمی لحاظ سے قابل نفاذ اور آگے لے جانے والی ہے۔ یہ فکر، یہ راہ، یہ فلسفہ اور یہ تجزیہ جو بتیس سال سے ملت ایران کے پاس ہے، اس نے ہمارا دامن بھر دیا ہے۔
دشمن اپنی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ دشمن اپنے کاموں سے منصرف ہو گیا ہے۔ نہیں آپ دیکھ رہے ہیں۔ انہی دنوں میں، امریکا کی مشکلات کے اوج کے زمانے میں، نیویارک اور دیگر تمام امریکی شہروں اور ریاستوں میں عوام کی وال اسٹریٹ مخالف وسیع تحریک میں شدت کے زمانے میں، حکومت امریکا نے اپنے خیال خام کے تحت دل ہی دل میں منصوبہ بنایا کہ ایک اور چال چلی جائے۔ انہوں نےایران پر دہشتگردانہ اقدام کا غلط، غیر منطقی اور مہمل الزام لگانے کا ایک ایسا مضحکہ خیز سناریو تیار کیا کہ شناخت اور معرفت رکھنے والے دنیا کے ہر فرد نے اس کو دیکھتے ہی مسترد کر دیا اور اس کی مذمت کی۔ وہ خود کو ان مشکلات سے نکالنے اور لوگوں کی توجہ ان مسائل سے ہٹانے کے لئے ان چیزوں کا سہارا لے رہے ہیں تا کہ شاید اسلامی جموریہ پر دباؤ ڈال سکیں۔ وہ اس مسئلے کو آگے بڑھائیں گے۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے باشرف ترین مجاہد افراد پر دہشتگردی کا الزام لگانا چاہتے ہیں۔ وہ خود دہشتگرد ہیں۔ آج دنیا میں امریکی حکومت سب سے بڑی دہشتگرد ہے۔
اس معاملے میں بھی ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ایسے سو محکم اور ناقابل انکار دستاویزات ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ ایران اور علاقے میں رونما ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کے پیچھے حکومت امریکا رہی ہے۔ ہم ان سو دستاویزات کے ذریعے دنیا میں امریکا کی (رہی سہی) آبرو (بھی) ختم کر دیں گے۔ دنیا میں انسانی حقوق کے دفاع اور دہشتگردی کے خلاف مہم کے ان دعویداروں کو لوگوں کی نگاہ میں رسوا کر دیں گے۔ اگرچہ آج بھی ان کی کوئی عزت نہیں ہے۔
امریکا شکست کھا چکا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں شکست کھائی ہے۔ امریکا افغان قوم کے مقابلے میں اپنے جھوٹے دعووں کو ثابت نہ کر سکا اور اپنی عزت و آبرو نہ بچا سکا۔ عراقی قوم کے مقابلے میں بھی آمریکا کو شکست ہوئی۔ ابھی چند دنوں قبل عراق کے سیاستدانوں اور اراکین پارلیمنٹ نے امریکی فوجیوں کے لئے قانون سے استثنی کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ امریکا کو مکمل طور پر عراق سے نکل جانا چاہئے۔ امریکا عراق سے نکلے گا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ امریکا برسوں کی کوششوں اور بے انتہا انسانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے بعد عراق سے نکلنے پر مجبور ہے۔ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہے۔ وہ اپنی شکست قبول کرنے پر مجبور ہے۔
انہیں شمالی افریقا میں شکست ہوئی ہے۔ حسنی مبارک کو نہ بچا سکے۔ بن علی کو (تیونس میں) نہ بچا سکے۔ یہ سب امریکی کارندے تھے، لیکن اقوام ان پر غالب آئیں۔ لیبیا میں اپنے دوست قذافی کو نہ بچا سکے۔ ابھی آخری دنوں تک، قذافی کی ذلت آمیز موت سے پہلے تک اس سے ان کا رابطہ تھا کہ شاید افہام و تفہیم ہو سکے۔ اقوام نے سامراج کی منافقت کو، امریکیوں کو، مغرب والوں کی منافقت کو، مصر کے معاملے میں بھی دیکھا، تیونس کے معاملے میں بھی دیکھا اور لیبیا کے معاملے میں بھی دیکھا ہے اور دیگر معاملات میں بھی دیکھیں گی۔ یہ منافق ہیں، یہ دو چہرے والے ہیں۔
آج خود امریکا میں، خود مغربی ملکوں میں خود سرمایہ دارانہ نظام میں اور نام نہاد لبرل ڈیموکریسی میں بھی، کہ اس میں لبرلزم بھی سراسر جھوٹ ہے اور ڈیموکریسی بھی، ان کو شکست ہوئی ہے۔ آج تمام امریکی ریاستوں میں امریکی عوام اور دنیا کے اسی ملکوں میں عوام اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ عوام کو کچل دیں لیکن یہ آگ ٹھنڈی ہونے والی نہیں ہے۔ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ ان کے ہاتھ خالی ہیں۔ دنیا میں ایک اور ہی تحریک شروع ہو چکی ہے اور جان لیں کہ قدرت الہی پر توکل کے ساتھ ایرانی قوم کی قیادت میں، پرچم اسلام کے سائے میں، باطل، طاغوتوں، فرعونوں اور سامراج کے خلاف جو حق کی جدوجہد شروع ہوئی ہے وہ سامراج کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
تجزیہ نگار، خود ان کے بقول، تھنک ٹینکس میں بیٹھتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں، جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس تحریک کا مرکزی نقطہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اس لئے وہ آپ کا رخ کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ہمارے حکام پر توجہ دیتے ہیں جو استحکام کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں اور دلیری کے ساتھ، خدا پر توکل کے ساتھ، مستقبل کے بارے میں قوی امید کے ساتھ، مکمل امید کے ساتھ، پوری قوت سے اپنے راستے پر گامزن ہیں۔ اس کے باوجود وہ اب بھی ملت ایران کے خلاف سازش کرتے ہیں، تو کریں۔ بتیس سال سے ایرانی قوم کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ہر سازش میں انہوں نے ایرانی قوم کی زحمتیں بڑھائی ہیں لیکن ملت ایران کامیاب رہی ہے۔ ان کی ہر سازش کے ناکام ہونے کے بعد ایرانی قوم ایک زینہ اوپر گئی ہے۔ وہ ہمارا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بائیکاٹ سے دباؤ پڑے لیکن ہر دباؤ ملت ایران کو ایک زینہ اوپر لے جاتا ہے۔ اس کی توانائی میں اضافہ کرتا ہے۔ اپنے خیال میں انہوں نے ایرانی نوجوانوں پر سائنس و ٹکنالوجی کا راستہ بند کر دیا لیکن ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتیں ان کے اندر سے ابھریں اور آج سائنس و ٹکنالوجی میں ہماری پیشرفت ماضی سے دو گنا، تین گنا نہیں بلکہ دسیوں گنا زیادہ ہے۔ ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ ایک صاحب بصیرت، صابر، باخبر اور ایسی قوم کے خلاف کوششیں جس کے نوجوان خدا پر بھروسے کے ساتھ اپنے راستے پر قائم ہوں، کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ انہیں شکست ہوگی اور ملت ایران کامیاب ہوگی۔
آپ نوجوانوں کو چاہئے کہ مستقبل کے لئے اس ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے کندھوں پر لیں اور اپنی تعمیر کریں۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ دشمن دروغگوئي کی مہم اور تشہیراتی سازشوں کے ذریعے دلوں میں موجود امید کو ختم کر دے۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے درمیان اختلاف ڈالے۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ قوم اور حکومت کے درمیان اختلاف اور جدائی ڈال سکے۔ وہ یہ چاہتے ہیں۔ وہ اس یکجہتی سے ڈرتے ہیں۔ وہ آپ کے ان محکم نعروں سے ڈرتے ہیں۔ وہ حکام کے محکم عزم و ارادے سے ڈرتے ہیں۔ وہ اس عزم و ارادے کو متزلزل کرنا چاہتے ہیں۔ جب قوم حکام کے ساتھ کھڑی ہے تو کوئی عہدیدار تردد کا احساس نہیں کرے گا، کمزوری کا احساس نہیں کرے گا بلکہ آگے بڑھے گا۔ یہ ہمارے ملک کے لئے ضروری ہے۔ آج تک ایسا ہی رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ یقینا ملت ایران، ان تمام چیلنجوں میں جن کا آج اس کو سامنا ہے اور مستقبل میں جن کا سامنا ہو سکتا ہے، دشمن کو شکست دے گی۔
ہمارے شہیدوں پر خدا کی رحمت نازل ہو۔ ہماری قوم کے صبر پر خدا کی رحمت نازل ہو۔ ان صابر والدین پر خدا کی رحمت نازل ہو جنہوں نے سختیاں برداشت کیں، اپنے نوجوانوں کی جدائی برداشت کی، پائیدار رہے اور بعد کی نسلوں کو درس دیا۔ خدا کی رحمت ہو ہمارے عظیم امام پر کہ یہ راستہ انہوں نے ہمارے لئے کھولا، آگے بڑھے اور ڈٹ گئے یہاں تک کہ ہمارا حوصلہ بڑھا اور ہم ان کی قیادت میں چل پڑے اور اس طولانی راستے کو ہم نے طے کیا۔ ہماری دعا ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ(امام مہدی علیہ السلام ) کی پاکیزہ دعائيں آپ سب کے شامل حال ہوں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- حج؛ 28