قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں تمام عزیز بہنوں اور بھائیوں، بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان، بزرگوں اور ان عزیز حضرات کا جو دور دراز سے زحمت اٹھا کر تشریف لائے ہیں، خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ دن سال کے اہم ایام میں ہیں۔ ذالحجہ کا پہلا عشرہ، آئمہ علیہ السلام سے متعلق اہم واقعات کی مناسبت سے بھی اور عیدا لاضحی کی مناسبت سے بھی جو مسلمانوں کی بہت بڑی عید ہے اور اس دن قربانی کرنا دینی لحاظ سے بہت اہم ہے اور خاص طور پر عرفہ کی دعا و توسل اور مناجات کی مناسبت سے بھی بہت مبارک عشرہ ہے۔ اگرچہ عرفہ کے روز حضرت مسلم علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے یہ مصیبت اور عزاداری کا دن بھی ہے لیکن یوم عرفہ کی عظیم برکات درحقیقت اس دن کو خداوند عالم کی برکتوں اور رحمتوں کا دن قرار دیتی ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ تمام بہنوں اور بھائیوں سے جو یہاں تشریف لائے ہیں اور پوری ملت ایران سے عرض کروں کہ خداوندعالم کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنے کے لئے اس موقع کو غنیمت سمجھیں۔
کوئی یہ نہ سوچے کہ اس قوم کی زندگی میں جو اپنی تعمیر کر رہی ہے، دعا و مناجات کا کوئی کردار نہیں ہے۔ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔ جس ملت کے سامنے دشوار راستہ ہے اور وہ عظیم کام کرنا چاہتی ہے، اس کے لئے کام، محنت، کوشش اور مجاہدت کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ پروردگار پر توجہ دے۔ اس سے دعا و مناجات اور طلب نصرت کرے۔ آپ تاریخ اسلام میں دیکھیں کہ معصومین علیہم السلام منجملہ خود نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام جنگ کے میدانوں میں پرخطر حالات میں، عظیم کاموں کے وقت توسل اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے نظر آتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صدر اسلام کے مسلمان کام اور محنت و کوشش نہیں کرتے تھے۔ ان کی کوششوں سے بالاتر کوئی کوشش نہیں ہو ہی سکتی۔ وہ دس برس جن میں اسلامی معاشرے کی حکومت پیغمبر صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک میں تھی، محنت مشقت اور جفاکشی سے مملو ہیں۔ مگر تمام محنت و مشقت کے ساتھ خدا کے حضور گریہ و زاری، دعا، استغفار اور اس سے مدد اور نصرت طلب کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کوئی قوم اگر کامیابی چاہتی ہو تو اس کو خدا سے اپنے رابطے کو مستحکم بنانا چاہئے۔ اگر بڑے کام کرنا چاہتی ہو تو اس کو خدا سے مدد مانگنی چاہئے۔ انسان اگر اپنے دل سے دشمن کا خوف نکالنا چاہے تو اس کو بڑی طاقتوں سے نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ قوموں کی بدبختی اس وقت آتی ہے جب وہ بڑی طاقتوں، بین الاقوامی غنڈوں اور ظالموں سے ڈرنے لگیں۔ قوم اس وقت بد قسمتی، بد بختی اور زوال کے راستے پر چلتی ہے جب دنیا کی منہ زور طاقتوں سے ڈرنے لگے۔ اقوام اگر ظالم طاقتوں سے ڈرنے لگیں تو بد بخت ہو جائیں گی۔ اسی طرح اگر ملکوں کی حکومتوں، صدور، حکام، منہ زور اور خود سر بین الاقوامی طاقتوں سے ڈرنے لگیں تو ان کے ہاتھ پیر بندھ جائیں گے۔ ایک قوم کا صحیح راستہ، جو قوم اپنے وسائل اور طاقت سے صحیح استفادہ کرنا چاہے اس کا راستہ یہ ہے کہ بین الاقوامی لٹیروں،غنڈوں اور خود سر ظالم طاقتوں سے نہ ڈرے۔
طاقتوں سے نہ ڈرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا سے ڈرے۔ جس دل میں خدا کا خوف، اس کی محبت اور اس کی طرف توجہ ہوگی، اس میں کسی بھی طاقت کا خوف نہیں آ سکتا۔ دعا کا فائدہ یہ ہے۔ ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جو پہاڑ کی مانند محکم نظر آتے تھے، آپ کی یہ استقامت خدا سے گہرے رابطے کا نتیجہ تھی۔ یہ فائدہ ہے۔ یہ جو میں کبھی کبھی خاص طور پر آپ نوجوانوں کے لئے دعا و مناجات پر تاکید کرتا ہوں، اس لئے ہے کہ ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس ملت کی سرنوشت نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور نوجوانوں کے دلوں میں خود سر بیرونی طاقتوں کا خوف اور ان کی طرف رجحان نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بے لوثی اور بے خوفی خدا سے محبت، اس سے دعا اور گریہ و زاری سے حاصل ہوتی ہے۔ عرفہ کا دن جو آنے والا ہے، خدا سے محبت اور اس سے دعا و مناجات کا دن ہے۔
عرفہ کی اہمیت کو سجمھیں۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ عرفہ اور عرفات کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ دن اور یہ جگہ ایسی ہے جہاں پروردگار کے حضور اپنے گناہوں کے اعترا ف کا موقع ملتا ہے۔ اسلام بندوں کے سامنے گناہ کے اعتراف کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس نے جو گناہ کیا ہے، اس کو زبان پر لائے اور کسی کے سامنے اس کا اعتراف کرے۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ خدا کے حضور، اپنے اور خدا کے درمیان، خدا سے تنہائی میں اپنی خطاؤں، اپنے قصور، اپنی تقصیروں اور اپنے گناہوں کا جو ہماری روسیاہی، بال و پر کے بندھ جانے اور پرواز میں رکاوٹیں پیدا ہو جانے کا باعث ہیں، اعتراف کریں اور توبہ کریں۔ جو لوگ خود کو تمام عیوب اور خطاؤں سے پاک سمجھتے ہیں ان کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی قوم اگر چاہے کہ خدا کے سیدھے راستے پر رہے تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ اس کی خطا کیا ہے؟ اسے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہۓ۔ آج اگر امت اسلامیہ کے تمام افراد یہ قبول کریں کہ اسلام کے سلسلے میں انہوں نے کوتاہی کی ہے، اگر مسلمین عالم اس بات کو قبول کریں اور اعتراف کریں کہ طاقتوں کی پیروی میں غلط راستے پر چلے ہیں اور مغرب کی فاسد اور پرفریب تہذیب قبول کرکے ان سے غلطی ہوئی ہے، تو انہیں دوبارہ راستہ مل جائے گا اور وہ اپنی اصلاح کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ عالمی تشہیرات کی کوشش ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ طریقہ اور راستہ کیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ دنیاوی زرق برق تشہیرات، یہ بیرونی طاقتوں کے ریڈیو، سیاسی میدان میں بھی، اقتصادی میدان میں بھی اور اشیائے صرف کے استعمال کے پروپیگنڈے میں بھی کیا کر رہے ہیں؟! ملت ایران ایک دنیاوی قیامت لانے میں کامیاب ہوئی، اس نے دنیا کو بیدار کیا اور ایک عظیم انقلاب لائی، اس کا راز یہ ہے کہ اس نے غلط راستے کو تبدیل کر دیا۔ وہ یہ بات سمجھ گئی کہ ظلم کی پیروی کر رہی ہے اور طاغوتی سلاطین اور ستمگروں کے مقابلے میں خاموشی بہت بڑی غلطی ہے۔ بنابریں وہ اس غلطی سے پلٹ گئی اور اس غلط راستے سے پلٹنے کے نتیجے میں اس کو نجات اور سعادت کا راستہ مل گیا۔ آپ، ملت ایران نے دنیا کے سامنے راستہ کھول دیا اور اس راستے پر خود چلے کہ آج اسلامی دنیا کے تمام روشنفکر مسلمان اور بیدار ضمیر اسی راستے کی آرزو اور پیروی چاہتے ہیں۔ سعادت کا راستہ، سامراجی طاقتوں کے تسلط سے نجات حاصل کرنے میں ہے۔ افسوس کہ بعض اسلامی ممالک اس طرح نہیں ہیں اور بعض اسلامی اقوام کو ابھی اس راستے پر چلنے کی توفیق حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
فاسد اور خائن حکام نے اقوام کو اپنا راستہ تلاش نہیں کرنے دیا۔ میں ان مسائل کے بارے میں جو اس سال حجاج کرام کو پیش آئے ہیں، فی الحال صرف یہ عرض کر سکتا ہوں کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ کچھ لوگوں نے خانہ خدا اور مرکز توحید کے نزدیک فریاد توحید نہیں بلند کرنے دی۔ فی الحال میں حجاز کے حکام کے طرز عمل کے بارے میں گفتگو نہیں کروں گا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے عازمین حج کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ آج ہمارے ہزاروں لوگ وہاں ہیں اور ہم پروردگار کے فضل سے ان کے تمام امور کو دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ پوری آسائش اور سلامتی کے ساتھ اپنا دینی فریضہ انجام دیں اور واپس آ جائیں۔ وہاں کے حکام کا فریضہ ہے کہ ایرانی عازمین حج کو اعمال حج کی انجام دہی کے لئے تمام وسائل، سہولتیں، آسائش اور تحفظ فراہم کریں۔ یہ ان کا فریضہ ہے جو انہیں انجام دینا ہے اور ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ایرانی عازمین حج کے سلسلے میں اپنے فریضے پر صحیح طور پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
امید ہے کہ خداوند عالم ذوالحجہ کے پہلے عشرے کو، ان بابرکت ایام کو تمام مسلمانوں بالخصوص ہمارے مومن، عزیز اور عظیم عوام کے لئے مبارک قرار دے گا۔ مجھے امید ہے کہ خدا وند عالم آپ مومن عوام کو یہ توفیق عنایت فرمائے گا کہ آپ عرفے کے دن سے، اپنے دلوں کو خدا کے زیادہ سے زیادہ قریب کرنے کے لئے استفادہ کریں اور اس دن کی اہمیت کو سمجھیں۔ عرفہ عظیم دن ہے۔ روح کی طہارت اور نفس کی پاکیزگی ہم میں سے ہر ایک کے لئے، چاہے ہم کہیں بھی ہوں، بنیادی اور اہم مسئلہ ہے۔ ان مواقع کو معمولی نہ سمجھیں۔ ان مسائل کو چھوٹا نہ سمجھیں۔ ایرانی قوم کی عظیم تحریک کی راہ میں، دشمنوں پر کامیابی اور تعمیر و ترقی کے لئے، خود سر طاقتوں کے مقابلے میں استقامت کے لئے اور اسلامی نظام کے اعلا اہداف تک پہنچنے کے لئے، خدا سے رابطے، اس پرتوجہ، اس سے توسل اور اس سے مناجات کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کا موقع بھی یہی اوقات ہیں جو معین ہیں اور ان میں سے اہم ترین یا اہم ترین میں سے ایک یہ عرفے کا دن ہے۔ دعا ہے کہ خداوندعالم اپنی برکتیں اور رحمتیں آپ سب کے شامل حال کرے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ ۔