نماز جمعہ کے خطبوں کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب اللعالمین، احمدہ و استعینہ و استغفرہ و اتوب الیہ۔ و اصلی و اسلم علی حبیبہ و نحیبہ و خیرتہ فی خلقہ و حافظ سرہ ومبلغ رسالاتہ؛ بشیر رحمتہ ونذیر نقمتہ؛ سیدنا و نبینا، و حبیب قلوبنا وشفیع ذنوبنا، ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین المطھرین المکرمین۔ سیما بقیت اللہ فی الارضین۔ قال اللہ الحکیم فی کتابہ: واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔ فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی لعلھم یرشدون

تمام نمازی بہنوں، بھائیوں اور اپنے نفس کو تقوائے الہی کی رعایت کی دعوت دیتا ہوں۔ عظمت باری تعالی اور اس بات کو کبھی فراموش نہ کریں کہ وہ غفور، ودود، بصیر اور علیم رب، ہرجگہ، حتی ہمارے ذہنوں کی یادوں میں اور ہمارے دلوں میں اور جو ہم دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں، ہمارے اعمال، ہمارے کردار اور ہمارے احساسات میں، ہر جگہ موجود رہتا ہے۔ ان تمام امور میں اللہ، حضرت احدیت اور علم حق تعالی کو فراموش نہ کریں اور اسے محسوس کریں۔ یہی تقوی ہے۔ یہ تقوے کا مہینہ ہے۔ جس کا نصف حصہ گزر چکا ہے۔ اس مدت میں خداوند عالم نے دلوں کو نورانی کر دیا ہے، روح کو عفو و مغرفت کا مستحق بنا دیا ہے اور انسانوں کو اپنے فضل سے نوازا ہے۔ کیا ہم ان لوگوں میں شامل ہیں؟ اگر نہ ہوں تو وقت بہت کم ہے۔ دعا و مناجات اور(خداکے حضور) گریہ و زاری کا بہترین موقع شب قدر کی تاریخیں ہیں جو آنے والی ہیں۔
مجھے اس سال پہلی رمضان سے ہی شبہائے قدر کی فکر لگی ہوئی تھی کیونکہ پہلی رمضان میرے لئے ثابت نہیں ہوئی تھی۔ بدھ کو کیلینڈر کے لحاظ سے پہلی رمضان تھی لیکن منگل کی رات مجھے اطلاع نہیں ملی کہ چاند دیکھا گیا ہے اور رویت ہلال میرے لئے ثابت نہیں تھی۔ مجھے یہ فکر لگی ہوئی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سال ہم ایرانیوں کو شب قدر کا پتہ نہ چل سکے۔ پہلی تاریخ سے ہی ہمارے دفتر میں لوگ اس تحقیق میں لگے ہوئے تھے کہ کوئی مل جائے جس نے منگل کی رات یا بدھ کی رات چاند دیکھا ہو۔ کل رات خداوند عالم نے یہ خوشی ہمیں عطا کی اور ثابت ہو گيا کہ بدھ کو پہلی رمضان تھی۔ بنابریں آج سترہ تاریخ اور آج رات شب اٹھارہ ہے اور کل رات شب انیس رمضان، پہلی شب قدر ہے۔ امید ہے کہ ایرانی قوم ان راتوں اور دنوں اور ان قیمتی گھڑیوں کی قدر کو سمجھے گی اور جہاں تک ممکن ہوگا ان گھڑیوں کی فضیلتوں سے بہرہ مند ہوگی۔
آج میں اس تردد میں تھا کہ پہلے خطبے میں امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام کے بارے میں گفتگو کروں یا دعا کے بارے میں۔ دیکھا کہ امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام خود، دعا و مناجات، خشوع اور تقرب الہی کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ ایرانی قوم ان ایام میں آپ کے بارے میں زیادہ سنے گی۔ دعا کے بارے میں مستقل بحث کی ضرورت ہے۔ مناسب ہوگا کہ اس طویل مدت میں ایک خطبہ دعا سے مخصوص کیا جائے۔ لہذا میں نے آج کچھ باتیں دعا کے بارے میں عرض کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دعا کے بارے میں تقریبا تمام اہم باتیں پہلے خطبے میں ہی عرض کروں گا۔
ایک بات یہ ہے کہ دعا میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تینوں چیزیں، دعا کے فوائد اور نتائج ہیں۔ کوئی دعا ایسی نہیں ہے جو ان تین چیزوں میں سے دو سے عاری ہو۔ چاہے ماثورہ دعائیں ہوں جو آئمہ علیہم السلام سے منقول ہیں چاہے وہ دعائیں ہوں جو انسان خود اپنی ضرورت کے لئے خدا سے کرتا ہے۔ ان میں دو چیزیں یقینا پائی جاتی ہیں۔
لیکن بعض دعاؤوں میں ان دو چيزوں کے علاوہ ایک چیز اور پائی جاتی ہے جو بہت اہم ہے۔ ان تین چیزوں میں سے ایک دعا کا عام مقصود ہے۔ خداوند عالم سے چاہنا اور طلب کرنا۔ ہم انسانوں کی ضروریات بہت زیادہ ہیں اور ہم سراپا احتیاج ہیں۔ اپنے وجود پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ سانس لینے سے لیکر کھانے پینے، راستہ چلنے، سننے، دیکھنے تک سبھی سے ہماری ضرورتوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ یعنی خداوند عالم نے کچھ وسیلے اور قوتیں، ہمیں اور آپ کو عطا کی ہیں کہ جن کے سہارے ہم زندگی گزارتے ہیں اور یہ سب ارادہ پروردگار کے تابع ہیں، ان وسیلوں اور قوتوں میں سے کسی میں بھی کمی آ جائے تو انسان زندگی میں بنیادی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی رگ کام کرنا چھوڑ دے تو ایک عضلے میں مشکل آ جاتی ہے۔ اسی طرح وجود انسان سے باہر کے مسائل ہیں، روحانی اور سماجی مسائل ہیں۔
انسان سر تا پا احتیاج ہے۔ مشکلات کو دور کرنے اور ضرورتوں کو رفع کرنے کے لئے کس کو پکاریں؟ خداوندعالم کو جو ہماری ضرورتوں سے واقف ہے۔ واسئلوا من فضلہ ان اللہ کان بکل شئی علیما خدا جانتا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے، کیا طلب کر رہے ہیں اور کس چیز کا سوال کر رہے ہیں؟ لہذا خدا سے مانگیں۔ دوسری جگہ فرماتا ہے و قال ربکم ادعونی استجب لکم آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہیں جواب دوں گا البتہ اس جواب دینے کا مطلب حاجت پوری کرنا نہیں ہے۔ اللہ کہتا ہے جواب دوں گا اور لبیک کہوں گا استجب لکم۔ مگر یہ استجابت الہی بہت سے مواقع پر حاجت روائی اور اس چیز کی عطا کے ساتھ ہوتی ہے جو آپ نے طلب کیا ہے۔ یہ پہلی بات کہ انسان کی احتیاجات ہیں۔ ان ضرورتوں کو دور کرنے کے لئے خدا کو پکارنا چاہئے۔ خدا کے پاس جانا چاہئے تاکہ دوسروں کے پاس جاکے گڑگڑانے سے بے نیاز ہو جائے۔
چونکہ جمعہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ اطہارعلیہم السلام کے کلام پر توجہ اور معرفت کا دن ہے، اس لئے چند مختصر احادیث پڑھوں گا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ افضل العبادت الدعاء بہترین عبادت دعا ہے۔ ایک اور حدیث رسول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ھل ادلکم علی سلاح ینجیکم من اعدائکم و یدر ارزاقکم کیا تم چاہتے ہو کہ ایسے اسلحے کی نشاندہی کر دوں کہ جو دشمنوں سے تمہاری حفاظت بھی کرے تمہیں نجات بھی دلائے اور تمھاری روزی بھی بڑھائے؟ قالوا بلی یارسول اللہ کہا ہاں یا رسول اللہ، قال، فرمایا تدعون ربکم خدا کو پکارو، خدا سے دعا کرو باللیل والنھار شب و روز، فان سلاح المومن الدعا مومن کا اسلحہ دعا ہے۔ یعنی دعا کے اسلحے سے حاجتوں کو بھی طلب کریں اور دعا کے ہی اسلحے سے دشمن، حوادث اور بلاؤں کا مقابلہ کریں۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ایک روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ دعا سے وہ بلائیں بھی دور ہوتی ہیں جو نازل ہو چکی ہیں اور وہ بلائیں بھی ٹل جاتی ہیں جو ابھی نازل نہیں ہوئی ہیں۔ یعنی اگر دعا نہ کریں تو وہ بلا نازل ہو جائے گی۔
بہت اہم مسئلہ ہے۔ خداوند عالم نے انسان کو ایسا وسیلہ دیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے، کچھ خاص مواقع کو چھوڑ کر جن کی طرف میں اشارہ کروں گا، اپنی حاجتیں پوری کر سکتا ہے۔ وہ وسیلہ کیا ہے؟ خداوند عالم سے دعا کرنا۔
امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ثم جعل فی یدک مفاتیح خزائنہ، بما اذن فیہ من مسئلتہ خداوند عالم نے تمہیں اس بات کی اجازت دیکر کہ اس سے طلب کرو، اپنے تمام خزانوں کی کنجی تمہیں دے دی ہے۔ بنابریں خداوند عالم کا یہ اذن کہ اس سے جو چاہو مانگو، تمام الہی خزانوں کی کنجی ہے۔ انسان اس کنجی سے اگر صحیح کام لے، خدا سے طلب کرے تو یقینا وہ انسان کو عطا کرے گا۔ فمتی شئت استفتحت بالدعاء ابواب خزائنہ جب چاہو دعا سے اس کے خزانوں کا دروازہ کھول لو۔ دیکھئے یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ انسان اس اہم وسیلے سے خود کو محروم کیوں کرے؟
یہاں چند سوال ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اگر دعا ایسی معجز نما تاثیر رکھتی ہے تو پھر ان دنیاوی وسائل، آلات، سائنس، صنعت وغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟ جواب یہ ہے کہ دعا مادی آلات و وسائل کے مقابلے میں نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان مسافرت پر جانا چاہتا ہے تو یا موٹر، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز سے سفر کرے یا دعا سے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہے کہ انسان کوئی چیز حاصل کرنا چاہتا ہے تو یا پیسہ خرچ کرے اور اگر پیسہ نہ ہو تو، دعا کا سہارا لے اور وہ چیز حاصل کرے۔ دعا کا مطلب یہ ہے کہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کے لئے وسائل فراہم کرے۔ پھر مادی اسباب فراہم ہوں گے۔ دعا اس طرح مستجاب ہوتی ہے۔
جب آپ خدا سے کسی حاجت کے لئے دعا کرتے ہیں تو خداوندعالم دعا اس طرح مستجاب کرتا ہے کہ وہ مادی اور معمول کے اسباب و وسائل فراہم کر دیتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ ضرورت پوری ہو۔ فرض کریں کوئی آپ کا قرضہ واپس نہیں کر رہا ہے۔ کبھی اس کے دل میں آ جاتا ہے کہ آپ کا قرضہ واپس کر دے۔ یہ ایک وسیلہ ہے۔ کیا مشکل ہے کہ دعا یہ وسیلہ فراہم کر دے؟
دنیا کے تمام وسائل اسی طرح ہیں۔ بنابریں ایسا نہ ہو کہ دعا کاہلی کا باعث ہو جائے۔ دعا اس بات کا موجب نہ ہو کہ کوئی علم و دانش اور مادی وسائل اور فطری اسباب سے ہاتھ کھینچ لے۔ دعا ان کے مقابلے میں نہیں ہے۔ بلکہ ان کے ساتھ ہے۔ دعا یہ اسباب فراہم کرتی ہے۔
البتہ اکثر اس طرح ہے۔ بعض اوقات خداوند عالم معجزہ بھی دکھاتا ہے۔ وہ الگ بحث ہے۔ معجزہ استثنائی مواقع پر رونما ہوتا ہے اور غیر استثنائی مواقع پر دعا اسباب فراہم کرتی ہے۔ جب آپ خدا سے چاہتے ہیں کہ کوئی کام ہو جائے تو دعا کے ساتھ اپنی توانائی سے کام لیں۔ مثال کے طور پر اپنے اندر کاہلی کا احساس کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ کاہلی دور ہو جائے تو دعا کے ساتھ ہی ارادے اور ہمت سے بھی کام لیں۔ یعنی یہاں مادی اور فطری وسیلہ ہمت اور ارادہ ہے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ گھر میں بیٹھ جائیں، کوشش اور کام نہ کریں، ارادہ بھی نہ کریں صرف دعا میں مشغول رہیں، خدا ہماری حاجت پوری کر دے گا۔ جی نہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔ بنابریں دعا کام اور کوشش کے ساتھ ہے۔ بعض اوقات بہت کوشش کی جاتی ہے مگر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ دعا کریں تو نتیجہ حاصل ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ کبھی انسان کتنی ہی دعائیں کر لے مستجاب نہیں ہوتی۔ وجہ کیا ہے؟ معصومین سے منقول روایات نے یہ مسئلہ ہمارے لئے حل کر دیا ہے۔ مثلا روایات میں آیا ہے کہ دعا کی شرائط پوری نہ ہوں تو دعا مستجاب نہیں ہوتی۔ آخر دعا کے لئے بھی شرائط ہیں۔ بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ ناممکن کام خدا سے نہ طلب کریں۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی نے پیغمبر کی موجودگی میں دعا کی اور کہا اللھم لا تحتجنی علی احدا من خلقک یعنی خدایا مجھے اپنی کسی مخلوق کا محتاج نہ بنا۔ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؛ لا تقولنھا کذا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہرگز نہ کہو۔ فلیس من احد الا وھو محتاج الی الناس کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو؟ یہ نہ کہو کہ خدایا مجھے کسی کا محتاج نہ بنا یہ خلاف فطرت ہے۔ یہ سنت الہی کے خلاف ہے۔ انسان کی فطرت میں اللہ نے جو قرار دیا ہے یہ اس کے خلاف ہے۔ کیوں کہتے ہو کہ خدایا مجھے کسی کا محتاج نہ بنا؟ یہ دعا قبول نہیں ہوگی۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ، پھر کس طرح دعا کروں؟ فرمایا قل اللھم لاتحتجنی علی شرار خلقک کہو کہ خدایا مجھے اپنے برے بندوں کا محتاج نہ بنا۔ مجھے برے لوگوں کا محتاج نہ بنا۔ لئیم لوگوں کا محتاج نہ بنا۔ یہ صحیح ہے۔ یہ خدا سے طلب کرو۔ بنابریں اگر ہم نے خدا سے وہ چیز طلب کی جو ناممکن ہو، سنت الہی اور فطرت کے خلاف ہو تو پوری نہیں ہوگی۔
دعا کے مستجاب ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ دعا توجہ کے ساتھ کی جائے۔ کبھی صرف زبان سے یہ جملے نکلتے ہیں میرے خدا مجھے معاف کر دے، میرے خدا میرے رزق میں وستعت دے، میرے خدا میرا قرض ادا کر دے دس سال بھی اس طرح دعا کرتے رہیں، مستجاب نہیں ہوگی۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ معصوم کے بقول دعا کے مستجاب ہونے کی ایک شرط یہ ہے اعلموا ان اللہ لن یقبل الدعاء عن قلب غافل یعنی خداوند عالم غفلت میں مبتلا دل کی، اس دل کی جو متوجہ نہیں ہے کہ کیا طلب کر رہا ہے یا کس سے گفتگو کر رہا ہے، دعا قبول نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ اس انداز کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ گڑگڑائیں، سنجیدگی سے مانگیں۔ خدا سے التماس اور اصرار کے ساتھ مانگیں۔ اس صورت میں یقینا دعائیں مستجاب ہوں گی۔
دعا کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی حاجت کو اتنا بڑا نہ سمجھیں کہ آپ کے ذہن میں یہ تصور پیدا ہو جائے کہ یہ حاجت خدا سے نہیں طلب کی جا سکتی اس لئے کہ بہت بڑی ہے نہیں، اگر حاجت فطرت اور خلقت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو، محال نہ ہو تو جتنی بڑی بھی ہو، کوئی مسئلہ نہیں ہے، خدا سے مانگی جا سکتی ہے۔ آپ رمضان میں ہر روز، معصوم سے منقول ہونے کی بناء پر یہ کہتے کہ اللھم ادخل علی اھل القبور السرور، اللھم اغن کل فقیر خدا سے چاہتے ہیں کہ تمام غریبوں کو غنی کر دے۔ صرف ایران کے غریبوں کو نہیں بلکہ اغن کل فقیر یعنی تمام غریب مسلمان امیر ہو جائیں، یہ بہت اہم ہے۔ (میں دوسرے حصے میں ان شاء اللہ اس موضوع کی طرف آؤں گا) یہ بڑی حاجت اور خواہش ہے۔ جب آپ کہتے ہیں خداوندا' تمام غریبوں کو امیر بنادے اچھا ہے، خدا سے طلب کرتے ہیں۔ کیوں نہیں طلب کیا جا سکتا؟ اگر غنی ہونے کی راہ سے رکاوٹیں دور ہو جائیں تو کیوں نہیں ہو سکتا؟ معاشرے میں غربت کوئی فطری امر نہیں ہے۔ انسانی معاشرے میں غربت مسلط کردہ امر ہے۔ دنیا کی ظالم، ستمگر اور کثرت طلب طاقتیں افراد اور معاشرے پر مسلط کرتی ہیں۔ اگر یہ طاقتیں ختم ہو جائیں، تو دعائے اللھم اغن کل فقیر مستجاب کیوں نہیں ہوگي؟ یہ حاجت پوری ہوسکتی ہے۔
اس دعا میں آگے چل کر کہتے ہیں اللھم اشبع کل جائع، اللھم اکس کل عریان انسان اتنی بڑی حاجت خدا سے طلب کرتا ہے۔ روز جمعہ وقت سحر اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے، مختصر مگر بہت اچھی دعا ہے، اگر توفیق ہو تو اس دعا کو ضرور پڑھیں، پہلے خداوند عالم سے کچھ درخواستیں کی جاتی ہیں پھر یہ عبارت آتی ہے کہ الھی طموح الامال قد خابت الا لدیک و معاکف اللھم قد تعطلت الا علیک میرے خدا، بڑی اور سرکش آرزوئیں اور عظیم خواہشات، ناامیدیوں میں بدل جاتی ہیں الا یہ کہ تجھ سے طلب کی جائیں۔ ہماری حاجتوں کے کارواں (بیچ میں ہی) رک جاتے ہیں الایہ کہ تیری طرف آئیں۔
خدا کو انسان کی بڑی حاجت سے کوئی باک نہیں ہے۔ خدا سے جتنی بڑی حاجت چاہیں طلب کریں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسان خود سے کہے کہ میں خدا سے یہ چیز اگر اپنے لئے طلب کروں تو ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر سب کے لئے عافیت طلب کروں تو یہ بہت بڑی ہے۔ خدا سے یہ دعا کیسے مانگ سکتے ہیں؟ نہیں، مانگیں، پوری نوع بشر کے لئے مانگیں۔ تمام انسانوں کے لئے مانگیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو تمام مسلمین کے لئے مانگنی چاہئے۔ اسی دعا میں، یہ عبارت کہ اللھم اصلح کل فاسد من امور المسلمین مسلمانوں کے لئے ہے۔ مخصوص دعا ہے جو اہل اسلام کے لئے ہے۔ البتہ اس کی بھی وجہ ہے کہ کیوں؟ شاید غیر اہل اسلام کے لئے ممکن نہ ہو۔ شاید حاکمیت اسلام کے بغیر ممکن نہ ہو کہ خداوند عالم تمام برائیوں کو برطرف کر دے۔ ہو نہیں سکتا۔ اس کی شرط اسلام ہے۔ یہ ایک مسئلہ۔
اس کے ساتھ ہی چھوٹی حاجت طلب کرنے میں بھی نہ ہچکچائیں۔ چھوٹی چھوٹی حاجتیں بھی خدا سے طلب کریں۔ روایت میں ہے کہ حتی جوتے کا فیتا بھی جو بہت معمولی چيز ہے، خدا سے طلب کریں۔ روایت میں ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا لا تحقروا صغیرا من حوائجکم فان احب المومنین الی اللہ اسئلھم چھوٹی حاجتوں کو حقیر نہ سمجھیں اور خدا سے طلب کریں۔
انسان کو جوتے کے فیتے کی ضرورت ہے۔ دوکان پر جاتا ہے اور خرید لیتا ہے۔ اس کے لئے بھی دعا کی ضرورت ہے؟ جی ہاں، جیسے ہی احساس ہو کہ آپ کو جوتے کے فیتے یا کسی اور چھوٹی چیز کی ضرورت ہے، دل کو خدا کی طرف متوجہ کریں اور کہیں میرے پروردگار اس کو بھی مجھ تک پہنچا دے۔ کس طرح پہنچائے گا۔ اس طرح کہ ہم پیسہ جیب میں رکھیں، سڑک تک جائيں، دوکان سے خریدیں اور پھر استعمال کریں۔ بہرحال خدا سے طلب کریں۔ اگرچہ دوکان تک گئے، پیسے دیۓ ، جوتے کا فیتا خریدا، مگر خدا نے آپ کو دیا۔ خدا کے علاوہ کسی اور طریقے سے بندے کو کچھ مل نہیں سکتا۔ جو بھی ہم تک پہنچتا ہے خدا ہمیں دیتا ہے۔
خدا جو چیز ہمیں دیتا ہے، ہم کو چاہئے کہ پہلے اس کو طلب کریں۔ کیوں طلب کریں؟ یہ جو کہا جاتا ہے کہ چھوٹی حاجتیں بھی خدا سے طلب کریں اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی ضروریات، عاجزی، حقارت، تہی دستی پر توجہ دیں اور دیکھیں کہ ہم کتنے تہی دست ہیں۔ اگر خداوند عالم مدد نہ کرے، ممکن نہ بنائے، قوت نہ دے، فکر نہ دے، خلاقیت نہ دے، اسباب فراہم نہ کرے تو جوتے کا فیتا بھی ہم کو نہیں ملے گا۔ آپ جوتے کا فیتا خریدنے کے لئے گھر سے نکلے، راستے میں جیب کٹ گئی، یا آپ کا پیسہ گم ہو گیا، یا دوکان بند تھی، یا راستے میں کوئی بڑا حادثہ پیش آ گیا اور آپ واپسی پر مجبور ہو گئے۔ جوتے کا فیتا نہ ملا۔ بنابریں ہر چیز خدا سے طلب کریں۔ یہاں تک کہ جوتے کا فیتا بھی خدا سے طلب کریں۔ معمولی تریں چیز، ایک وقت کا کھانا بھی خدا سے طلب کریں۔ یہ ہمارے سینے میں میں کی جو جھوٹی شان ہے اس کو ختم ہو جانے دیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ تمام قوتوں کا مرکز ہم ہیں۔ یہ میں انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔ بہرحال یہ دعا کی بات ہے کہ انسان اپنی حاجتیں دعا کے ذریعے طلب کرے۔
اب ایک نظر اپنی حاجتوں پر ڈالیں۔ مسلمانوں کی حاجتوں، اپنے ملک کی ضرورتوں، اپنے مومن بھائیوں کی حاجتوں، بیماروں، بیماروں کی دیکھ بھال کرنے والوں، معذوروں، غمزدہ لوگوں، غمگین دلوں اور بے چین نگاہوں کی حاجتوں، اپنے اطراف میں، اپنی چھت کے نیچے، اپنے ملک میں، دنیائے اسلام میں، کرہ ارض پر، ہر جگہ کی ضرورتوں کو، ان قدر کی راتوں میں، خداوند عالم سے طلب کریں۔ البتہ بعد کی گفتگو میں اس سلسلے میں بھی تفصیل سے بیان کروں گا۔
دوسری چیز جو دعا میں پائی جاتی ہے، معارف ہیں۔ یہ ان دعاؤوں سے مخصوص ہیں جو معصوم سے ہم تک پہنچی ہیں۔ امام سجاد علیہ الصلاۃ و السلام نے صحیفہ سجادیہ کو دعا کی شکل میں مرتب فرمایا ہے۔ آپ نے اصل میں دعائیں پڑھی ہیں مگر یہ کتاب الہی اور اسلامی معارف سے پر ہے۔ توحید خالص صحیفہ سجادیہ میں ہے۔ نبوت اور نبی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عشق صحیفہ سجادیہ میں ہے۔ دیگر ماثورہ دعاؤں کی طرح خلقت کی معرفت اس کتاب میں ہے۔ یہ دعائے ابوحمزہ ثمالی، جو سحر کے لئے مخصوص ہے، کوشش کریں کہ اس کو پڑھیں اور اس کے معنی و مفہوم پر توجہ دیں، دعائے کمیل جو شب جمعہ میں پڑھی جاتی ہے۔ ان دعاؤں میں سے ہیں جو معارف اسلامی سے مملو ہیں۔ ان میں حقائق دعا کی زبان میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ آپ - امام سجاد علیہ الصلاۃ و السلام - دعا کرنا نہیں چاہتے تھے اور دعا کی آڑ لی ہے۔ نہیں آپ دعا کرتے تھے۔ مناجات کرتے تھے۔ خدا سے گفتگو کرتے تھے۔ لیکن جس انسان کا قلب خدا اور الہی معارف سے آشنا ہے، اس کی گفتگو اسی طرح کی ہوتی ہے۔ اس سے نہر حکمت جاری ہوتی ہے اور اس کی دعا عین حکمت ہوتی ہے۔
جو دعائیں ہم پڑھتے ہیں، حکمت سے بھری ہوئی ہیں۔ آئمہ علیہم السلام سے ماثورہ دعائیں جو ہم تک پہنچی ہیں، معرفت کے ایسے نکات ان میں موجود ہیں کہ جن کی انسان کو ضرورت ہے۔ آپ، دعاؤوں میں یہ نکات بیان کرکے، ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہمیں خدا سے کیا طلب کرنا چاہئے۔
دعائے ابوحمزہ ثمالی کے چند جملے آپ کے لئے پڑھوں گا۔ یہ طولانی دعا عجیب مناجات کی کیفیت رکھتی ہے جس کو تیسرے حصے میں بیان کروں گا۔ اس مناجات میں انسان کی حقیقی ضرورت نہفتہ ہے۔ انسان کی حقیقی ضرورتیں آپ نے خدا سے طلب کی ہیں۔ مثلا ایک جگہ خدا سے عرض کرتے ہیں کہ ارغد عیشی میری زندگی کو گوارا بنا دے زندگی کا گوارا ہونا، نہ پیسے سے ہے، نہ اقتدار سے اور نہ ہی زور و زر سے ہے۔ کیونکہ ان تمام چیزوں کے باوجود ممکن ہے کہ کسی کی زندگی گوارا نہ ہو۔ اس کو ایسی پریشانی لاحق ہو کہ زندگی گوارا نہ ہو۔ خاندانی مسائل ہوں کہ جن کی بناء پر زندگی اس کے لئے گوارا نہ ہو۔ اولاد کو کوئی پریشانی ہو۔ نعوذ باللہ، اس کی کسی اولاد میں بری عادتیں ہوں تو زندگی گوارا نہیں ہوگی۔ کوئی بری خبر انسان کو ملتی ہے اور زندگی اس کے لئے تلخ ہو جاتی ہے۔ اس کے پاس پیسہ بھی ہے، اقتدار بھی ہے، وسائل بھی ہیں، سب کچھ ہے مگر زندگی گوارا نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی غریب انسان جس کی زندگی بہت معمولی ہو، ایک معمولی سے کمرے میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہو اور نہیایت تنگدست ہو مگر زندگی اس کے لئے گوارا ہو، اس فرد سے زیادہ گوارا ہو جس کے پاس سب کچھ ہے۔
دیکھئے امام سجاد علیہ الصلاۃ و السلام کس طرح اصلی نقطے پر توجہ فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں۔ ارغد عیشی و اظھر مروتی میری زندگی کو گوارا اور سخاوت کو آشکارا کر دے۔ بظاہر دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوں کہ جس میں میں اپنی سخاوت ظاہر کروں، نہ یہ کہ لوگ دیکھیں کہ میں سخی ہوں۔ نہیں بلکہ اس لئے کہ اگر سخاوت کو ظاہر کرنا چاہیں تو سخاوت کریں۔ انسان کے اندر سخاوت کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انسان کو سخاوت پر عمل بھی کرنا چاہئے، لوگوں کے ساتھ سخاوت کرنا چاہئے۔ یہ ہوگا اظھر مروتی آگے چل کے فرماتے ہیں و اصلح جمیع احوالی میرے تمام کاموں اور احوال کی اصلاح فرما۔ میری دعا کی حالت کی اصلاح کر، میری اور میرے خاندان کی معمول کی زندگی کی حالت کی اصلاح کر، میرے کام کی حالت کی اصلاح کر، میری تمام خصوصیات کی اصلاح کر۔ ہر امر کی اصلاح بذات خود ایک مکمل اور جامع دعا ہے۔ و اجعلنی ممن اطلت عمرہ و حسنت عملہ و اتممت علیہ نعمتک و رضیت عنہ واحییتہ حیاۃ طیبۃ فرماتے ہیں مجھے ان لوگوں میں قرار دے، جنہیں تونے، نیک عمل، کامل الہی نعمت، رضائے پروردگار اور پاکیزہ زندگی کے ساتھ طولانی عمر عطا کی ہے۔ کیا اس سے بہتر کوئی چیز ہو سکتی ہے؟
معصومین علیہم السلام بتاتے ہیں کہ خدا سے کیا مانگیں۔ جوچیزیں خدا سے مانگنی چاہئے، وہ وہی ہیں جو یہ ہستیاں دعاؤوں میں بیان کرتی ہیں۔ بعض لوگ دنیا میں کثرت طلبی کی زندگی چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ معاملہ ٹھیک ہو جائے، اس سفر کا انتظام ہو جائے، فلاں کام مجھے مل جائے، وغیرہ، انسان اصلی چیزیں خدا سے کیوں نہ مانگے؟ ہمارے پیشوایان دین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس طرح دعا کرو اور یہ چیزیں خدا سے مانگو البتہ جو دعائیں معصومین علیہم السلام نے ہمیں سکھائی ہیں، وہ الگ ایک طویل بحث کی متقاضی ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ ہستیاں مذکورہ دعاؤں میں وہ معنوی پہلو بھی ہمیں بتاتی ہیں جن کو زک پہنچ سکتی ہے اور خبر دار کرتی ہیں کہ ممکن ہے کہ اس نقطے سے تمہیں زک اور نقصان پہنچ جائے۔ اسی دعائے ابوحمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں اللھم خصنی منک بخاصۃ ذکرک و لا تجعل شیئا مما اتقرب بہ فی اناء اللیل و اطراف النھار ریاء و لاسمعۃ و لا اشرا و لا بطرا میرے خدا ایسا کر کہ جو کام میں نے کیا ہے وہ ریاکاری اور دکھاوے کے لئے نہ ہو۔ اس لئے نہ ہو کہ لوگ اس کا چرچا کریں اور ایک دوسرے سے کہیں کہ معلوم ہے اس نے کتنا اچھا کام کیا ہے اور کیا اچھی عبادتیں کی ہیں؟! ناز اور غرور کے ساتھ نہ ہو۔ بعض اوقات انسان ناز اور غرور کے ساتھ کام کرتا ہے، خود پر فخر کرتا اور کہتا ہے ہاں ہم تھے جس نے یہ کام کیا ہے یہ نہ ہو۔ یہ وہ نقاط ہیں جن سے نقصان اور زک پہنچ سکتی ہے۔ انسان بہت اچھا کام کرتا ہے، لیکن معمولی سی ریاکاری سے ان کاموں کو ہباء منثورا بنا دیتا ہے۔ دور پھینک دیتا ہے، ہوا میں اڑا دیتا ہے۔ معصومین علیہم السلام ہمیں متوجہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں خیال رکھو ایسا نہ ہو و اجعلنی لک من الخاشعین بنابریں دوسرا نکتہ یہ کہ ان دعاؤں میں کافی معرفتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلا دعائے کمیل کے ابتدائی جملوں میں ہم پڑھتے ہیں اللھم اغفرلی الذنوب التی تھتک العصم۔ اللھم اغفر لی الذنوب التی تنزل النقم۔ اللھم اغفر لی الذنوب التی تغیر النعم۔ بعض گناہ ایسے ہیں جو حجاب ختم کر دیتے ہیں۔ بعض گناہ ایسے ہیں جو نزول بلا کا باعث ہوتے ہیں۔ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو انسان سے نعمتیں لے لیتے ہیں۔ اللھم اغفر لی الذنوب التی تحبس الدعاء بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو جو دعا کو محبوس کر دیتے ہیں۔
خدا کی پناہ ' ممکن ہے کہ انسان سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہو جائے کہ کتنی ہی دعا کریں بے اثر اور بے فائدہ ہو۔ دعاؤں کا بے اثر ہونا کیسے سمجھا جائے؟ اس طرح کہ دعا کی کیفیت انسان سے سلب ہو جائے۔
اس سلسلے میں ایک بزرگ سے ایک عبارت نقل کی گئی ہے۔ پتہ نہیں معصوم سے روایت ہے یا غیر معصوم کی عبارت ہے۔ مگر عبارت حکمت آمیز ہے۔ کہتے ہیں انا من ان اسلب الدعا اخوف من ان اسلب الاجابۃ میں اجابت دعا سلب ہونے سے زیادہ خود دعا کے سلب ہونے سے ڈرتا ہوں۔ بعض اوقات انسان سے دعا کی کیفیت سلب ہو جاتی ہے۔ یہ بری علامت ہے۔ اگر یہ دیکھیں کہ دعا کے وقت، گریہ، توجہ، تقرب، نشاط اور دعا کا حوصلہ نہیں ہے تو یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ البتہ یہ حالت ٹھیک ہو سکتی ہے۔ انسان توجہ، التماس اور طلب کے ذریعے، خدا سے دعا کی حالت اور کیفیت حاصل کر سکتا ہے۔ بنابریں ہم نے دیکھا کہ دعائے کمیل میں بھی معارف ہیں۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔
دعا میں پایا جانے والا تیسرا اور آخری نکتہ، جو دعا کا اصل مفہوم ہے۔ وہ دو نکات بھی جو بیان کئے گئے، اس آخری نکتے سے چھوٹے ہیں۔ وہ کیا ہے؟ پروردگار کے حضور خشوع۔ دعا کی اصل یہ ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا الدعا ء مخ العبادۃ مغز عبادت دعا ہے یہ اس لئے ہے کہ دعا میں ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ جس کو پروردگار سے مطلق وابستگی اور اس کے حضور حشوع سے تعبیر کرتے ہیں۔ عبادت کی جان یہی ہے۔ اسی بنا پر اس آيہ شریفہ کے بعد کہ و قال ربکم ادعونی استجب لکم اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین اصل دعا یہ ہے کہ انسان خدا کے سامنے خود کو جھوٹی انسانی انانیت سے دور کر لے۔ اصل دعا خدا کے سامنے خاکساری ہے۔
میرے عزیزو' جہاں بھی آپ نگاہ دوڑائیں ، اپنے ماحول میں، ملک میں، یا پوری دنیا میں، کسی میں برائیاں اور فتنہ و فساد دیکھیں، اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس برائی اور فتنہ و فساد کی جڑ انانیت، استکبار، تکبر اور غرور ہے۔ دعا کو چاہئے کہ یہ چیز ختم کر دے۔ میں اس سلسلے میں قرآن کے نقطہ نگاہ سے بحث کرنا چاہتا تھا مگر فی الحال وقت نہیں ہے۔ قرآن کی ایک بحث حضرت موسی علیہ السلام کے ماجرے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تاریخ کے عجیب و غریب اور عبرتناک واقعات میں سے ہے۔ اس واقعے کے بارے میں جتنا بھی کہیں کم ہے۔ واقعی قرآن کریم، موسی علیہ السلام کے تعلق سے واقعات کا خزانہ ہے۔ اس عجیب و غریب واقعے کا نمایاں پہلو، حضرت موسی علیہ السلام کے ان ساتھیوں کا خراب اور فاسد ہو جانا ہے جنہوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں اس کو بیان کروں گا تاکہ جو لوگ قرآن کی آیات پر غور و فکر کرنے والے ہیں، وہ اس پر غورکریں۔
قرآن میں اس طرح کے متعدد واقعات ہیں۔ ان میں سے ایک سامری کا واقعہ ہے۔ ایک کا تعلق قارون سے ہے اور ایک ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے سرزمین مقدس میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ رجعت پسندی اور مرتد ہونے کے مصادیق ہیں۔ میں نے ایک دو مہینے قبل، رجعت اور مرتد ہونے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ مثال کے طور پر قارون ملعون، مبغوض اور خبیث اتنا برا آدمی تھا کہ قرآن کریم کے ایک حصے میں اس کا بیان ہے۔ قارون کا مسئلہ یہ ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اس سے فرماتے ہیں جو دولت تو نے حاصل کی ہے، زینت ہے اور اس کو نصیحت کرتے ہیں تو وہ آپ کے جواب میں کہتا ہے کہ انما اوتیتہ علی علم میں باخبر، عالم اور توانا تھا، میرے پاس ذہانت اور ہوشیاری تھی، سیاست جانتا تھا، محنت کی اور ان راستوں سے یہ دولت جمع کی، کسی سے تعلق نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ دولت خدا نے دی ہے۔ جس طرح انسان کو حیات خدا دیتا ہے۔ انسان کو دین خدا دیتا ہے اور سب کچھ خدا کا ہے۔
اے نادان انسان سرکشی کیوں کرتا ہے؟ غلطی کیوں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ دولت میں نے جمع کی ہے؟ میں کون ہے؟ خداوند عالم ان فداکار مجاہدین کے بارے میں جو میدان جنگ میں گئے اور دشمن کے تیروں کے مقابلے میں اپنی سینے کو سپر کر دیا۔ جنگ کی، دشمن کی ناک زمین پر رگڑ دی اور سرانجام اس کو شکست دی، ان کے بارے میں کہتا ہے و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی یہ تیر جس کو تم نے چلانا سیکھا، پھر نشانہ لیا، توجہ کی اور مارا، تیر جاکے نشانے پر لگا تو یہ تمہارا کام نہیں تھا۔ تم نے یہ تیر نشانے پر نہیں مارا، بلکہ خدا نے مارا ہے۔ ہماری طاقت بھی خدا کی ہے۔ ہمارا ارادہ بھی خدا کا ہے۔ ہماری دقت نظر بھی خدا کی ہے۔ ہمارے پاس جو بھی ہے سب خدا کا ہے اور پھر ہم اس مدبر مالک کی قدرت کے سامنے، جس کے قـبضہ قدرت میں ہمارا سب کچھ ہے، گردن اٹھائیں اور کہیں میں یہ وہی انسانی برائیوں کا نقطہ ہے۔ یہ جہاں بھی ہو برا ہے اور برائی کا باعث ہوتا ہے۔
کسی کثیر القومی کمپنی کا صیہونی سربراہ اگر کہے میں اور خیال کرے، دنیا کی سیاست وہ چلا رہا ہے، یا جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہٹلر، یا امریکا کا کوئی سرکش صدر، یا دنیا کے کسی خطے کا کوئی لٹیرا، یا کوئی ایسا شخص جو دین کے لباس میں نفس پرستی کی دعوت دیتا ہو، یا میں اور آپ جن کا شمار ان میں سے کسی میں نہ ہو مگر زندگی میں خود کو ہر چیز پر ترجیح دیں اپنے آپ کو بڑا کہیں، اپنی بڑائی کریں، یہ سب برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ البتہ انسان جتنا بڑا ہوگا، اس کی طاقت جتنی زیادہ ہوگی، اس کی انانیت اور برائیاں اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ لیکن اگر چھوٹا ہے تو اس کی انانیت صرف اسی کو نقصان پہنچاتی ہے اور دوسروں کے لئے اس کی برائی کم ہوتی۔ دعا کی خاصیت یہ ہے کہ نفسانیت کو ختم کر دیتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ حتی چھوٹی چیزیں بھی خدا سے مانگو تاکہ یہ سمجھو کہ تم حقیر ہو۔ جان لو کہ بعض اوقات، ایک مچھر یا مکھی انسان کا ناطقہ بند کر دیتی ہے۔ اس کی آسائش سلب کر لیتی ہے۔ و ان یسلبھم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ، ضعف الطالب و المطلوب دعا خدا کے سامنے گڑگڑانے کے لئے ہے۔ خدا کے سامنے اپنی حاجت بیان کرنے کے لئے ہے۔ خاکساری کے لئے ہے۔ جھوٹی شان اور استکبار کے خول سے باہر نکلنے کے لئے ہے۔ خداوند عالم بعض اوقات ہمارے اور آپ کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے تاکہ ہمیں اپنے سامنے گڑگڑانے اور خضوع و خشوع پر مجبور کرے۔ جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے و لقد ارسلنا الی امم من قبلک فاخذناھم بالباساء و الضراء لعلھم یتضرعون۔ فلولا اذ جائھم بئسنا تضرعوا و لکن قست قلوبھم و زین لھم الشیطان ما کانوا یعلمون یہ گڑگڑانا اور خضوع و خشوع خدا کے لئے نہیں بلکہ خود ہمارے لئے ہے۔ خدا کو ہمارے اور آپ کے خضوع وخشوع کی ضرورت نہیں ہے۔
تیشہ زان بر ہر رگوبندم زنند تاکہ با مہرتو پیوندم زنند
حالت خضوع یہ ہے کہ دل کو عشق خدا سے مملو کر دیتی ہے۔ انسان کو خدا کی معرفت عطا کرتی ہے۔ انسان کو خود پسندی سے جوبرائیوں کی جڑ ہے، پاک کرتی ہے۔ اس کو پروردگار کے نور مقدس اور لطف الہی سے سرشار کرتی ہے۔ اس کی قدر کو سمجھیں، یہ سب سے بالاتر ہے۔
یہ دعا کے بارے میں ہماری گفتگو تھی۔ البتہ بہت کم باتیں بیان ہو پائیں، زیادہ حصہ رہ گیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفوا احد۔

اس خطبے کے اختتام پر چند دعائیں کرنا چاہتا ہوں۔ توجہ فرمائیں اور آمین کہیں۔ ظہر کا وقت ہے۔ جمعے کا دن ہے۔ اجتماع بہت عظیم ہے۔ سب روزہ دار ہیں۔ امید ہے کہ انشاءاللہ یہ دعائیں مستجاب ہوں گی۔
نسئلک اللھم و ندعوک، باسمک العظیم الاعظم الاعز الاجل الاکرم و بالقرآن المستحکم و بولیک وحجتک یا اللہ
پالنے والے' ہماری سب سے بڑی حاجت تیری رضا اور مغفرت ہے۔ یہ ہماری سب سے بڑی دعا ہے جو ہر چیز سے بالاتر ہے۔ پالنے والے! تجھے قسم ہے تیرے عزیزوں میں سب سے عزیز ہستی کی، اپنی رضا، مغفرت اور رحمت ہمیں عطا فرما۔
پالنے والے' روزے کے اس مہینے میں، ہمیں اس الہی ضیافت سے بحد کافی مستفیض فرما۔
پالنے والے' بری عادتوں، بری خصوصیات اور برے حالات نے، ہمارے دل و جان میں، تاریکیاں اور سیاہیاں پیدا کر دی ہیں، تجھے واسطہ ہے تیرے عظیم نبی کا جن کا نام، زیارت آل یاسین کے بعد کی دعا میں، کلمۃ نورک کلمہ نور بتایا گیا ہے اور آپ کا نام لیا گیا ہے، تجھے واسطہ ہے، تیرے ارادہ قدرت سے ساطع ہونے والے اعلاترین نور کا، جو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وجود مقدس ہے تجھے قسم ہے، ہمارے دلوں کو نور معرفت اور اپنی محبت سے نورانی فرما۔
پالنے والے! ہمارے دلوں سے تاریکیاں اور سیاہیاں دور کردے۔
پالنے والے تجھے واسطہ ہے، تیرے ولی و حجت برحق، حضرت مہدی موعود کا کہ اگر قبول فرمائیں تو ہم سب ان کے سپاہی اور خدمت گزارہیں، تجھے تیرے اولیاء کے حق کی قسم، قرآن سے، دین سے، ذکر سے، توسل سے، شفا طلب کرنے سے ہمارا رابطہ روز بروز محکم تر فرما۔
پالنے والے! تجھے قسم ہے قرآن کی، ایران اسلامی پر، جو قرآن کے دوبارہ عروج پانے کا مرکز ہے، اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔
میرے خدا' ایرانی قوم کو سرفراز کر۔
میرے خدا' ایرانی قوم کو کامیاب کر۔
میرے خدا' ایرانی قوم کے دشمنوں کو وہ دنیا میں جہاں بھی ہوں، سرنگوں کر۔
میرے خدا' ملت ایران کے قلوب کو اپنی وفا و لطف سے سرشار کر۔
پالنے والے تجھے تیرے اولیاء کے حق کی قسم، ان کی محبت ہماری قوم کے دلوں میں روزبروز زیادہ کر۔
پالنے والے' کچھ لوگ دنیا کے گوشہ و کنار میں اس قوم، اس ملک اور حکومت قرآن کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، اور تو ان سازشوں سے ہم سے بہتر واقف ہے، اپنی طاقت اور قدرت قاہرہ سے، ان کی تمام سازشوں کو نقش بر آب کر دے۔
پالنے والے' ہمارے دشمنوں کو خود ان کی مشکلات کی طرف پلٹا دے۔
پالنے والے! انسانیت کے دشمنوں کو جو یہی بڑی طاقتیں اور بعض ملکوں کے سربراہ ہیں اور حقائق و فضائل سے بے اعتنا اور رذائل کے طرفدار ہیں، روزبروز انہیں خود ان کی مشکلات میں الجھا دے۔
پالنے والے' اس قوم کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما۔
پالنے والے' اس قوم کی حق بات کو جسے دنیا میں تشہیراتی ہنگاموں کے ذریعے انسانوں تک نہیں پہنچنے دے رہے ہیں، پورے عالم میں عام کر دے۔
پالنے والے' ہمارے دشمنوں کو اس قوم سے پوری طرح مایوس کر دے۔
میرے خدا' ہمیں شب قدر کے حصول کی توفیق عنایت فرما اور شب قدر کی فضیلتوں سے ہمیں محروم نہ کر۔
پالنے والے' ایرانی قوم کی مشکلات کو دور کر دے ہمارے عوام کی، جہاں بھی ہوں، حاجات کو پورا کر۔
پالنے والے' ان پاک انسانوں کو جنہوں نے اس ملک میں تیرے لئے زحمتیں اٹھائیں ہیں، سعی و کوشش کی ہے، وافر اجر عنایت فرما۔
پالنے والے' تجھے تیرے اولیاء کے حق کا واسطہ، تجھے خاندان رسالت کے گوہر بے بہا صدیقہ طاہرہ، حضرت فاطمہ زہرا کے حق کی قسم، ہمارے تمام معذور جانبازوں(مقدس دفاع کے زخمیوں) کو شفاعت عطا کر۔
پالنے والے' ہمارے دلوں سے استجابت دعا کی امید ختم نہ کر اور ہمارے درمیان ایرانی قوم میں، مسلمانوں اور تمام انسانوں میں جو مغموم اور غمزدہ دل ہیں، انہیں شاد کر۔
پالنے والے' تجھے محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ، تمام مریضوں کو شفا عنایت فرما، مشکلات میں گرفتار تمام لوگوں کی مشکلات کو دور کر، تمام حاجتمندوں کی حاجتوں کو پورا کر، مسلمانوں کے درمیان سے تمام دشمنی اور کینے کو ختم کر دے اور اسلامی ملکوں کی پریشانیاں دور کر دے۔
پالنے والے ہمارے دل، فلسطین کے لئے، مظلوم فلسطینی عوام کے لئے، بوسنیا ہرزے گووینا کے مسلمانوں کے لئے اور چیچنیا کے مسلمانوں کے لئے خون ہیں، یہ وہ مظلوم انسان ہیں کہ دنیا نے جن کی مدد نہیں کی، دنیا کہیں بھی مسلمانوں کی مدد نہیں کرتی، میرے خدا اطراف و اکناف عالم میں، کشمیر میں، مغربی علاقوں میں، یورپی علاقوں میں، براعظم امریکا میں اور دنیا کے دیگر علاقوں میں مشکلات اور پریشانیوں میں گرفتار ہیں، تجھے شب قدر کا واسطہ، تجھے شب قدر کے شہید کے حق کا واسطہ، تجھے تمام مومنوں کے حق کا واسطہ، شب قدر میں ان کی دعاؤوں کو مستجاب کر، تجھے معصومین علیہم السلام کے حق کی قسم ان کی مشکلات کو دور کر اور انہیں دشمنوں پر کامیابی عطا کر۔
پالنےوالے' اپنے لطف و کرم سے ان دعاؤوں کو مستجاب کر اور ہم سے حالت دعا کو سلب نہ کر۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین۔ والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا، ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین۔ سیما علی امیرالمومنین و صدیقۃ الطاہرۃ سیدۃ النساء العالمین و الحسن و الحسین و سبطی الرحمۃ و امامی الھدی و علی علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی الباقر، و جعفر بن محمد الصادق و موسی بن جعفر الکاظم و علی بن موسی الرضا، و محمد بن علی الجواد، و علی بن محمد الھادی و الحسن بن علی العسکری والحجت القائم المھدی ؛ حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک، و صل علی ائمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین وھداۃ المومنین۔ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔

اس خطبے میں صرف ایک بہت ہی مختصر بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے انقلاب کا سب سے بڑا خاصہ یہ ہے کہ اس کا تکیہ عوام پر ہے۔ مشکلات کا حل بھی جیسی بھی ہوں، قوم کی حمایت کے سائے میں ہی ممکن ہوگا۔ اس بات کی وجہ بھی کہ دشمن اب تک اس ملک اور اس تحریک کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا یہ ہے کہ عوام انقلاب کے حقیقی پشت پناہ ہیں۔
اس سال ایرانی قوم نے بائیس بہمن ( گیارہ فروری) کو کارنامہ انجام دیا ہے، وہ ایک معجزنما اقدام تھا جس نے بہت سی دشمنیوں اور سازشوں پر کاری وار لگا کے، دشمنوں اور سازش کرنے والوں کو ناکام بنا دیا۔ ہمیشہ اسی طرح ہوا ہے اور اس کے بعد انشاء اللہ اسی طرح ہوگا۔ آپ نے اپنے اس اقدام سے گذشتہ سال کے بائیس بہمن ( گیارہ فروری) اور یوم قدس سے اس سال تک کے دشمن کے ایک سال کے پروپیگنڈوں پر پانی پھیر دیا۔ کسی بھی نظام کے لئے عوامی حمایت کا ختم ہو جانا بہت بڑا نقصان اور ناقابل بیان خسارہ ہے۔ درحقیقت تمام عیوب سے بڑا عیب یہ ہے کہ نظام کو عوام کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ آج مشرق وسطی کے ممالک میں اور ان ملکوں میں جنہیں امریکا اپنا دوست کہتا ہے، بہت سے نظام ایسے ہیں جنہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ دنیا کی سطح پر دیکھیں تو محتلف نظاموں کے ساتھ ایسے ممالک بہت ملیں گے اور بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اسلامی ملک نے، اس قرآنی ملک نے اور اس عوامی ملک نے دشمنوں کو اندھا کر دیا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے پروپیگنڈوں میں مسلسل کہتے ہیں کہ عوام اسلام سے، نظام سے اور اسلامی جمہوری حکومت سے پلٹ گئے ہیں اور اب اس کو نہیں مانتے ہیں اس بات کو اپنے ریڈیو سے بھی نشر کرتے تھے۔
اس سال بائیس بہمن (گیارہ فروری) کا عجیب منظر تھا جو آپ ملت ایران نے دنیا کے سامنے پیش کیا، درحقیقت یہ بے بنیاد باتیں کرنے والوں کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ تھا۔ میں اگر ایک جملے میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ امید ہے کہ آپ کے اس اقدام سے حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا قلب مقدس شاد ہو گیا ہوگا۔ انشاء اللہ آپ کا یہ کام آنجناب کی خوشنودی کا مستحق ہوگا۔ تمام معاملات میں اس علاج کو مد نظر رکھیں۔
اگر کسی نے بائیس بہمن کے بعد غیر ملکی ریڈیو نشریات کو سنا ہو تو دیکھا ہوگا کہ وہ اس پر کتنا چراغ پا تھے۔ کیوں، کس وجہ سے؟ اس وجہ سے کہ آپ کے ناقابل بیان عظیم اقدام سے دوچار تھے۔ واقعی یہ عظیم تحریک، لوگوں کا پرجوش استقبال اور تہران اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر جو دیکھنے کو ملا وہ ناقابل بیان ہے۔ مگر انہوں نے اس عظیم تحریک کو معمولی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ بے عقلو' تم کس کو متاثر کرنا چاہتے ہو؟ کس سے بات کرتے ہو؟ ان لوگوں سے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حقیقت کیا تھی؟ ان سے کہتے ہو کچھ نہیں تھا؟ تہران میں عوام کے دسیوں لاکھ کے مجمعے کو کہتے ہیں دسیوں ہزار اور بعض کہتے ہیں ہزاروں یہ بے نظیر دسیوں لاکھ کا مجمع، ہزاروں کا مجمع تھا؟!
میں نے بائیس بہمن کی لوگوں کی عظیم شرکت دیکھی۔ میں نے اپنے ذہن میں کہا کہ آج دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کی حکومت کسی بھی نعرے کے ساتھ اتنا بڑا مجمع سڑکوں پر لا سکتی ہو ۔ نہ امریکی حکومت میں یہ توانائی ہے اور نہ ہی یورپی حکومتوں یا تیسری دنیا کے کسی ملک کی حکومت میں یہ صلاحیت ہے۔ کوئی بھی ملک اتنی عظیم تحریک کی نمائش نہیں کر سکتا۔ البتہ ایران میں بھی کوئی بھی عوام کو سڑکوں پر نہیں لایا ہے۔ عوام خود سے اٹھے ہیں۔ ایران میں کوئی بھی عوام ہی ہیں، حکومت بھی عوام ہیں اور حکام بھی عوام ہی ہیں۔ حکومت عوام کے ہاتھ میں ہے، نظام عوام کا ہے۔ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
آخری بات یہ ہے کہ امریکی کوشش کر رہے ہیں، کڑھ رہے ہیں، گریبان پھاڑ رہے ہیں، ان تمام لوگوں اور حکومتوں کے سامنے، جن تک ان کا ہاتھ پہنچ رہا ہے یا پہنچ سکتا ہے، نشان کھینچ رہے ہیں ( پالیسیاں ڈکٹیٹ کر رہے ہیں) تاکہ حکومت ایران کو جھکنے پر مجبور کر سکیں۔
میں اس عظیم مجمع کے سامنے، جو آج تہران کی نماز جمعہ میں آیا ہے اور تمام عوام کے سامنے، خود ایرانی عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہوں ملت ایران کے دشمنو' جان لو کہ ان حربوں یا کسی بھی دوسرے حربے سے، ملت ایران کو ہرگز نہیں جھکا سکوگے
پالنے والے' اس جوش وخروش کو جو تیرے لطف، تیرے فضل اور تیری نظر کرم کے بغیرکسی بھی قوم میں پیدا نہیں ہو سکتا، اس عظیم قوم اور ان برگزیدہ بندگان خدا کے لئے اپنی توفیقات میں روز بروز زیادہ کر۔
پالنے والے' تجھے محمد و آل محمد کے حق کا واسطہ، ان دنوں اور قدر کی راتوں میں اپنی رحمت، فضل اور مغفرت ہمارے عظیم شہدا اور ان عظیم المرتبت انسانوں کے شامل حال فرما، جنہوں نے اپنی جان دیکر ایران اور ایرانی قوم کو اس عظمت و کمال کی منزل تک پہنچایا۔
پالنے والے' تحریک شہدا کے قائد، وہ عظیم انسان کہ جس کی بلند ہمتی اور پختہ ارادے سے ایران میں یہ عظیم تحریک چلی، یعنی ہمارے عظیم امام خمینی کو اپنے انوار رحمت و فضل میں جگہ دے، آپ کو اور ہمارے شہیدوں کو اپنے پیغمبر اور اولیاء کے ساتھ محشورفرما اور ان کے قلب مقدس کو ہم سے راضی کر۔  

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انا اعطیناک الکوثر۔ فصل لربک والنحر۔ ان شانئک ھو الابتر۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ