امام علی تربیتی کیمپ میں شریک ہونے والے رضاکاروں سے اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے بسیجی یا رضاکار کو ایثار و فداکاری کی تصویر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ سب کے سب تو یکساں طور پر ملک و قوم کے اعلی اہداف کے راستے میں سرمایہ کاری کرنے اور یا کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کوئی اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور کوئی اپنا مال دے دیتا ہے ، کوئی کچھ وقت دینے کے لیے تیار ہوتا، کوئی محض چند باتیں کرنے کی حامی بھرتا ہے ؛ کوئی صرف تماشائی بن کر واہ واہ کرتا ہے۔ سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔ ساڑھے چھے کروڑ نفوس پر مشتمل عظیم قوم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہیں اگر مال کی ضرورت ہو تو مال اور اگر انکی فزیکل موجودگی کی ضروت ہو تو اسکے لیے بھی تیار رہتےہیں۔ اگر تعمیر و ترقی کی بات ہو تو وہ سب سے آگے ہوتے ہیں اور اگر ملک کے دفاع کی بات ہوتو پیش پیش نظرآتے ہیں؛ اگر قومی امنگوں کی تکمیل کے لیے خود کو علمی لحاظ سے تیار کرنے کی بات ہو تو یہ کام بھی کر ڈالتے ہیں، ان سے جتنے اعلی مقاصد کی بات کی جائے وہ اتنے ہی آمادہ نظر آتے ہیں؛ان تمام خصوصیا ت کے حامل مجموعے کا نام بسیجی (رضاکار) ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على آله الأطيبين الأطهرين‌المنتجبين. الهداة المهديّين المعصومين. سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين.

میں خدا وند متعال کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے آپ نوجوانوں کی پر نشاط محفل میں شرکت کی عظیم توفیق عطا کی ۔ بسیج کے وجود پر ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے ، بسیجی جوانوں کے پرنشاط جذبوں پر ہمیں خدا کا شکر گزار ہونا چاہیےاور بسیج کی کمی کیفی ترقی و پیشرفت پر ہمیں پرور دگار کا اور بھی شکر ادا کرنا چاہیے۔ آج جب دنیا کی سیاسی طاقتیں اور پوری دنیا کےمعاشی اور سیاسی سامراج نے اپنی ساری توانائیاں اس کام میں لگا دی ہیں کہ دنیا بھر کے جوانوں خاص طور سے مسلم ممالک کی جواں نسل کو بے حال اور لاپرواہ قسم کی مخلوق میں تبدیل کر دیں؛ اسلامی ملکوں کے نوجوانوں کو اپنے لیے کم اثر اور بے خطر موجود میں بدل دیں ، اور وہ تیسری دنیا میں خاص طورسے اسلامی ملکوں میں یہ کام کر بھی رہے ہیں ؛ البتہ دنیا کے طاقتور سیاسی ممالک بھی چاہیں یا نہ چاہیں ، فساد اور منشیات کی بلا انکی جواں نسل کے بھی دامن گیر ہے، ایسی دنیا میں انسان دیکھتا ہے کہ ہمارے ملک کی جواں نسل اپنے درمیاں، لڑکیوں اور لڑکوں کا ایک ایسے عظیم گروپ کی پروان چڑھا رہا ہے جو پوری آگاہی کے ساتھ علم کے میدان میں، دین کے میدان میں، جھاد کے میدان میں، سیاسی میدان میں، اور دنیا کے یقین نہ کرنے والے دلوں اور حیران و پریشان نگاہوں کے سامنے طاقت و نشاط کے مظاہر ہ کر رہی ہے تو یہ مقام شکر ہے۔ میں بسیج کی وجود پر ، آپکے وجود پر آپکے نشاط ، طاقت اور ایمان پر، آپ حیسے پیارے سپوتوں کی تیاری پر خدا وند متعال کا شکر بجا لاتا ہوں۔
آج یہ فوجی اور ثقافتی تربیتی کیمپ ایسے حالات میں منعقد ہورہا ہے جب امت مسلمہ کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد نے ، فلسطین میں اور اور قدس شریف میں علم جھاد بلند کیا ہے ہے اور اپنی جان و مال اور سرمایہ حیات ؛ اپنی عزت و ناموس؛ اپنے تشخص اور اپنے وجود کا دفاع اور جھاد کر رہے ہیں، فلسطین سے باہر بھی، دیگر اسلامی ملکوں میں، انکے نام پر انکی یاد میں انکے ساتھ ہمدری کا اظہار کر تے دکھا دے رہے ہیں اور اپنی موجودگی کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ وہ حالات جنکے دوران آپکا یہ تربیتی کیمپ ہورہا ہے۔
ایک بات بسیج کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا اور ایک بات فلسطین کے بارے میں عرض کروں گا۔ بسیج کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اس صدی کے اوئل سے لیکر آج تک طاقت کے عالمی ایوانوں کے پالیسی یہ رہی کے کہ قوموں کو طاقت کے تبادلے سے دور رکھیں، مطلب یہ کہ جس دن یورپی ملکوں نے اور اسکے بعد امریکا نے یہ منصوبہ بندی کی تھی کہ اس خطے کے اسلامی ملکوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لے اور ان کے تیل سے فائدہ اٹھائے؛ انکی سوق الجیشی پوزیشن کو استعمال کریں اور انکی منڈیون پر قبضہ جمائیں اور انکی سستی افرادی قوت سے فائدہ اٹھائی تو اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک اور حیاتی فیصلہ بھی کیا تھا اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ اس خطے کے عوام کو طاقت کے توازن سے دور کردیاجائے، کیونکہ اگر قومیں طاقت کے توازن میں شامل ہونگی تو پھر سامراج کے طاقت کے طلبگار اداروں کو ناکامی کا منہ دکھنا پڑے گا۔ قوموں کو کس طرح سے کنارے لگایا جاتا ہے؟ طریقہ یہ ہے کہ قوموں کے پاس اس خطے کے معاملات کے بارے میں کچھ کہنے، اور کچھ کرنے کی ہمت ہو اور نہ حوصلہ باقی چھوڑا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ان ملکوں کی حکومتوں اپنے پٹھؤں کو لایا گیا جنکا اپنی قوم سے کوئی تعلق تھا اور نا ہی انہیں اپنی قوموں میں مقبولیت حاصل تھی۔ ہمارے ایران میں اسکی مثال، رضا خان جیسا آدمی تھا؛ اور اسکے بعد رضا خان کا بیٹا تھا۔ انکا عوام سے کوئی ربط وضبط تھا ہی نہیں۔ جب کسی ملک میں ایران کی طرح یا شمالی افریقہ کے بعض ملکوں یا اس خطے کے دیگر ملکوں کی طرح کسی قوم کو ایسی طاقتوں یا حکومتوں کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ہرگز انکی حمایت نہیں کرتیں اور جب قومیں حکومت کی حمایت کرتیں تو پھر ان حکمرانوں کی ڈوریا بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ کہتے ہیں یہ کرو اور کرنے پر مجبور ہوتے ، وہ کہتے ہیں یہ نہ کرو، مجبور ہے نہ کرے؛ کہتے ہیں مشرق وسطی امن منصوبے کو تسلیم کرو ، مجبور ہے کہ تسلیم کرے؛ وہ کہتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں اس قدر نیچے لے آؤ، مجبور ہیں نیچے لانے پر ؛ کہتے فلاں شخص کو اپنی کابینہ سے نکال دو ، فلاں کو حکومت میں فلاں عہدہ دے دو؛ مجبور ہے ایسا کرنے پر! اتنے مجبور کیوں؟ کیونکہ اگر نہیں کرنیگے تو انہیں عالمی طاقت کے مرکز کے غصے کا سامنا کرنا پڑیگا اور قوم بھی انکے ساتھ نہیں ہوتی جو انکی حمایت کرے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں بدعنوان اور خود فروختہ حکمرانو کے ذریعے کئے جانے والے تمام فیصلے ان ہی طاقتور عالمی اداروں کے فیصلے ہوتے جسے ہم آغاز انقلاب سے اسکتبار کہتے چلے آئے ہیں ؛ یہ وہی ہیں جو قوموں کو چھوٹا سمجھتے ہیں اور قوموں کے حقوق کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، جو قوموں کے مفادات کو خاطرمیں ہی نہیں لاتے۔ یہ استکبار کی پالیسی رہی ہے اور وہ یہی کرتے بھی رہے ہیں ۔ ہمارے پیارےملک ایران میں بھی انقلاب سے قبل برسوں تک یہ پالیسی چلتی رہی ہے۔ دیگر ملکوں کو بھی اگر دکھا جائے تو - میں نام نہیں لونگا ، وقت کا تعین بھی نہیں کرونگا- آپ اسکی متعدد مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں کیا ہونا چاہیے؟ اس میں مقابلے یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی ملک کے عوام طاقت کے توازن میں شریک ہوں؛ ((ہاں)) اور ((نہیں)) کے مالک ہوں؛ اپنی خواہشات کو بیان کر یں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں۔ اپنے ملک کے معاملات میں آنکھیں کھول کر ، عزم راسخ کے ساتھ ، ثابت قدمی سے شریک ہوں۔ یہ کام ہمارے عظیم اسلامی انقلاب اور ہمارے بے مثال قائد نے اس ملک میں کرکے دکھایا اور اس سحر کو توڑ ڈالا۔ انقلاب سے قبل،اس ملک میں دسیوں برس سے پارلمنٹ اور انتخابات اور اس جیسے دوسرے نام کی چیزیں تھیں ، ہمارے عوام اس دور میں کسی بھی انتخابات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ انتخابات کو جانتے بھی نہیں تھے؛ انہیں تو حکومت کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں تھا؛ فیصلوں کا علم نہیں ہوتا تھا؛ ہر کام عوام کے یغیر ہی ہوتا ، فیصلے ہوتے اور ان پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔ انقلاب کے بعد سے یہ قوم ہے جسکے ہاتھ میں میدان ہے۔ اگر آج ملکی عہدیدار کوئی فیصلہ کرتے ہیں، اگر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اگر پائیدار اقداما کررہے ہیں تو یہ سب قومی حمایت ہی کے سبب ہے۔ جب کسی ملک میں قوم میدان عمل میں ہو ، حکومت میں شریک اور حصہ دار ہو تو پھر منہ زور عالمی طاقتیں کوئی بات ان پر مسلط نہیں کرسکتیں اور ناہی ان پر سواری کرسکتی ہیں؛ نا ہی انکے حکمراں کمزوری کا شکار ہوکر بیرونی طاقتوں کی حواہشات کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہیں، کیونکہ قوم یہ قوم کا مطالبہ ہوتا۔
اسلامی ایران کا ایک ایک فرد جانتا ہے ، البتہ ہر ایک کی فکر ایک جیسی نہیں ہوتی؛عزم و ارادے میں فرق ہوتا ہے؛ سب کے سب تو یکساں طور پر ملک و قوم کے اعلی اہداف کے راستے میں سرمایہ کاری کرنے اور یا کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کوئی اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور کوئی اپنا مال دے دیتا ہے ، کوئی کچھ وقت دینے کے لیے تیار ہوتا، کوئی محض چند باتیں کرنے کی حامی بھرتا ہے ؛ کوئی صرف تماشائی بن کر واہ واہ کرتا ہے۔ سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔ ساڑھے چھے کروڑ نفوس پر مشتمل عظیم قوم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہیں اگر مال کی ضرورت ہو تو مال اور اگر انکی فزیکل موجودگی کی ضروت ہو تو اسکے لیے بھی تیار رہتےہیں۔ اگر تعمیر و ترقی کی بات ہو تو وہ سب سے آگے ہوتے ہیں اور اگر ملک کے دفاع کی بات ہوتو پیش پیش نظرآتے ہیں؛ اگر قومی امنگوں کی تکمیل کے لیے خود کو علمی لحاظ سے تیار کرنے کی بات ہو تو یہ کام بھی کر ڈالتے ہیں، ان سے جتنے اعلی مقاصد کی بات کی جائے وہ اتنے ہی آمادہ نظر آتے ہیں؛ان تمام خصوصیا ت کے حامل مجموعے کا نام بسیجی (رضاکار) ہے۔ بسیج کے معنی ہی یہ ہیں۔ بسیج یعنی اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق قومی اہداف ومقاصد کے حصول کے راستے میں قوم کی مومن و پرعزم اور بہترین افرادی قوت کو میدان عمل میں لانا۔ مخلص، غیور اور قابل فخر انسانوں میں ہمیشہ یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ کیسی بھی ملک میں بسیج سے مراد وہ لوگ ہیں جو قوم کی سربلندی کا پرچم اٹھانے کے لیے تیار ہیں اور اسکے لیے سب کچھ لٹا دیتے ہیں؛ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ انقلاب کے آغاز سے لیکر آج تک عوام کی خود جوش توانائیاں تمام میدانوں میں نظرآتی ہیں اور امام ان توانائیوں کی قدرو قیمت جانتے تھے اور قوم بھی اپنے درمیان پیدا ہونے والے والی اس پرجوش توانائی کی اہمیت کو سمجھتے تھے، وہ لوگ جو خود تیار نہیں تھے اور یا خطرے کے میدانوں میں اترنے کے لیے تیار نہیں تھے وہ ہرگھڑی تیار جوانوں اور جانثاروں کی تعریف اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔ یہی بات طاقت کے عالمی مراکز کو ، استکباری اداروں کو اور ان لوگوں کو جو دیگرملکوں کے مستقبل پر ناجائز قبضہ جمانے کے خواہش مند تھے، سخت پریشان کرتی ہے۔
اسی بات سے بسیج کے خلاف پروپیکنڈا حملوں کے پس پردہ عوامل کو سمجھا جاسکتا ہے۔ عالمی ریڈیو کے پروپکنڈوں میں بسیج کی توہین کیوں کی جارہی ہے؟ وہ لوگ جو اغیار کے کی جانب نگاہیں لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ کب انکے منہ سے کوئی بات نکلے اور وہ اسی کا راگ الاپنا شروع کریں،کیوں بسیج کے خلاف زبان کھولے پھرتے ہیں اور بسیج جسکی تعظیم ،احترام اور حوصلہ افزائی کی جانا چاہیے ، اسکی توہین و اہانت کرتے ہیں؟ کیوں کہ انہیں قومی خودمختاری دفاع، ملی وقار کے تحفظ ، قومی غیرت کی حفاظت، قومی مفادات کے حصول اور اس بھی بڑھ کر اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے پرچم کی سربلندی میں بسیج کے کردار کو اچھی طرح جانتے ہیں ؛ لیھذا پوری طرح بسیج کی دشمنی پو اتر آئے ہیں لیکن انکی دشمنی لا حاصل ہے۔
الحمداللہ آج مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ہمارے جوان، بسیج میں رہ کر زندگی اور نشاط محسوس کرتے ہیں، ہماری جواں نسل قدر شناس ہے۔ آج بسیجی جوانوں کے ٹھاٹے مارتے ہوئے سمندر میں، حوزہ(دینی جامعات) اور یونیورسٹیوں کے نمایاں افراد، فاضل و ممتاز دینی طلباء، فرسٹ کلاس پوزیشن رکھے والے یونیورسٹی کے طالبعلم ، عالمی سائنسی مقابلوں میں اعلی میڈل حاصل کرنےوالے ، اسکولوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباء، کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کش ملازمین، مختلف شعبوں کے سرکردہ افراد، صف اول کے قاری قران، بہترین فنکار، ماہر اساتذہ اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات شامل ہیں۔ کیا دشمن اپنے مخاصمانہ پروپیکنڈے کے ذریعے، قوم کی نظر میں اس عظیم سرمائے کی قدروقیمت کم کرسکتا ہے؟
میں آپ محترم جوانوں کی، مومن بسیجی لڑکے اور لڑکیوں کی، جس طبقے سے بھی آپکا تعلق ہو، عرض کرنا چاہوں گا : عزیزان من! یہ ملک آپکی ملکیت ہے؛ یہ ملک جوانوں کا ملک ہے؛ آپ ہی اس ملک کو سنواریے؛ آپ ہی اس انقلاب اور معمار انقلاب کے دست توانا کے ذریعے رکھی جانے والی سربلندی اور عظمت کی بنیادوں کی حفاظت کیجئے اور اسے اوپر لے جائيے؛ آپ اپنی توانائیوں کے ذریعے، اپنے عزم وارادے کے ذریعے، اپنے علم کے اور اپنے ایمان کے ذریعے انقلاب سے پہلے کے کئی عشروں پر محیط پسماندگی کا ازالہ کیجئے۔ ہر ہو جوان جو انپے اندر اس ذمہ داری کو محسوس کرتا ہے اور ان اہداف کی جانب اس رجحان کو خلوص کے ساتھ اپنے پورے وجود میں اتار لیتا ہے وہ بسیجی ہے۔ چاہیے وہ اس فورس میں شامل ہو یا نہ ہو۔ اس نے بسیج میں باضابطہ شمولیت اختیارکی ہو یا نہیں ۔ ہر باایمان اور اعلی اہداف و مقاصد کی تکمیل کی تگ و دو کرنے والا، ہر وہ شخص جو اپنے پورے وجود کے ساتھ ملک کے لیے، اسلام کے لیے، اسلامی نظام کے لیے اور قوم کے فرد فرد کی خاطر، اپنی زندگی، اپنی صلاحیتں اور اپنا تن من دھن لٹا دے وہ بسیجی ہے؛ چاہیے وہ کہیں بھی ہو۔ بسیج کے مخصوص بریگیڈوں، رضاکار فورس کے عاشورا بریگیڈ اوریا الزہراء بریگیڈ اور یا بسیج کے دیگر شعبوں کے، ہمارے بسیجی جوانوں کو فخر کرنا چاہیے کہ انہوں نے بسیج جیسی تنظیم میں شمولیت کے ذریعے اس احساس کو انپے اندر پوری طرح سمولیا ہے۔
اب میں اس دور کے ایک اہم ترین مسلہ پر بات کرنا چاہتا ہوں، اور وہ فلسطین کا مسلہ ہے۔ عزیزان من! فلسطین میں بھی بسیج ہے؛ فلسطینی بسیج نے آج ساری دینا کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔ اگر فلسطین کا معاملہ چند سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہو تو ، جوانوں کا اس میں کوئی کردار نہ ہو، تو نتیجہ وہی ہوگا جو آپے نے دیکھا: ایک بعد ایک رسوائی، پسپائی کے پیچھے ایک اور پسپائی؛ دشمن کے لیے میدان خالی کرنا، ایک کے بعدایک مورچہ منہ زور، جارح، بے غیرت اور ذلیل دشمن کے حق میں چھوڑتے جانا۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب عوام میدان نہ ہوں۔ عوام کو چھوڑدیا گیا، عوام کو متحد کرنے والے افکار یعنی ایمانی افکار کو بھلادیا اور مسلہ فلسطین کو دسیوں برس پیچھے لے گئے۔ میں نے اوائل انقلاب میں یہاں (ایران) آنے والے ایک سرکردہ فلسطینی رہنماء سے کہا تھا کہ آپ اسلامی امنگوں کا نعرہ کیوں نہیں لگاتے؟ تو انہوں نے عذر لنگ پیش کیا۔ وہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے؛ انکو دل سے اسلام پر ایمان ہی نہیں تھا۔ آج دس بارہ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں کہ فسطین کے مسلمان عوام اسلام کے نام پر اور اسلام کے نعرے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ دشمن نے فورا ہی سمجھ لیا کا قصہ کیا ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران جت فلسطین میں تحریک انتفاضہ شروع ہوا تو دشمن یعنی صہیونیوں اور انکے امریکی یاروں نے سب سے پہلے خطرے کا احساس کیا۔ انہوں نے اسے نابود کرنے کا سوچ لیا کیونکہ یہ (تحریک انتفاضہ) اسلام کا نام پر تھی۔ اس کے مقابلے پر اتر آئے؛ لیکن اسکا مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ فطرتا منہ زور ہیں۔ مقبوضہ فلسطین علاقے پر قائم صہیونی حکومت ایک نسل پرست حکومت ہے ۔ کیا کسی نسل پرست حکومت سے انصاف کی توقع کی جاسکتی ہے؟! دنیا کے سیاسی اور اقتصادی زور آزماؤں کے ہاتھوں قائم ہونے والی کوئی بھی حکومت قائم ہی اس لیے ہوتی ہے کہ عالم اسلام کو متحد نہ ہونے دیا جائے؛ عزت و وقار پاسکے؛ مسلمانوں کو ایک عظیم اکائی نہ بننے دیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ خطرہ بن جائیں۔ (صہیونی حکومت) اسی لیے قائم ہوئی ہے۔ اس سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟! انتہائی سادہ لوح ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس حکومت سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ صہیونی حکومت کے ساتھ کی جانے والی کوئی بھی بات چیت اسے آگے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنے مترادف ہے۔ کل اسکے ساتھ بات چیت میں مدد کی، اور آج وہ مسجد الاقصی کے دعویدار بن بیٹھے! جب انسان کو پتہ نہ کہ وہ اس منہ زور شئے سے کس طرج نمٹے اور امریکا یا دنیا کے مالدار صہیونیوں کے دباؤ میں آکر کوئی فیصلہ کریگا تو پھر تو ہونا ہی ہے؛ آخر کار قوم کو میدان میں اترنا ہی پڑا۔ تین ہفتوں قبل نجس اور قابل نفرت صہیونی عنصر کی مسجدالاقصی موجودگی نے عوام کو طیش دلادیا۔ آگر اسی دن، مسلہ فلسطین کے دعویدار یا عرب ممالک احتجاج کرتے تو لوگوں میں احساس پیدا ہوتا کوئی تو ہے انکی آواز اٹھانے والا؛ شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ لیکن عوام نے دیکھا کہ انہیں خود ہی میدان مارنا پڑیگا اور وہ میدان میں کود پڑے۔ آج تین ہفتوں سے تحریک مزاحمت کے شعلے سرزمین فلسطین میں بھڑک رہے ہیں۔ میں ان فلسطینی جوانوں سے کہتا ہوں کہ آپکو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پوری ایک نسل بیدار ہوچکی ہے۔ پوری ایک نسل میدان میں اترآئی ہے؛ کیا اسکی آواز کو دبایا جاسکتا ہے؟ کچھ لوگ مجرمانہ اقدامات اور دھونس کے ذریعے بہت سے مظلوم جوانوں کو قتل کررہے ہیں؛ لیکن انکا خون شجر تحریک فلسطین اور انقلاب فلسطین کی آبیاری کررہا ہے۔ معاملہ اس طرح کا نہیں ہے جس طرح امریکا کی استکباری طاقت یا اسکی لے پالک صہیونی حکومت اسکا علاج کرسکے؛ اسکا علاج نہیں ہوسکتا۔ ایک قوم کو اسکے گھر سے، اسکے وطن سے، اسکے ملک سے باہر نکال دیا گيا ہے اور جو لوگ باقی رہ بھی گئے ہیں وہ ایسے بیگانوں کے رحم وکرم پر ہیں جنہیں وہاں لاکر بسا دیا گيا ہے؛ کیا ایسی قوم کو دبایا جاسکتا ہے؟ سامراجی ادارے اسلامی ایران سے گلہ کرتے ہیں تم امن عمل کے مخالف ہو۔ البتہ ہم مخالف تو ہیں لیکن تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران مخالف نہ بھی ہوتا، اگر دنیا کی کوئی بھی قوم اور ملک (فلسطینوں) کی مدد نہ کرتا تب بھی یہ تمہاری خام خیالی ہے کہ کسی قوم کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا جاسکتاہے اور اسکے بجائے کسی جعلی قوم کو پیدا کیا جاسکتاہے! فلسطینی قوم ثقافت رکھتی ہے، تاریخ کی حامل ہے، اسکا ماضی ہے ، اسکی اپنی تہذیب ہے۔ ہزاروں سال سے یہ قوم اس ملک میں رہتی چلی آئی ہے؛ اسکے باوجود تم لوگ اس قوم کو اسکے گھروں سے ، اسکے شہروں سے ، اسکی تاریخ سے اسکو جدا کرنے کی کوشش کررہے ہو اور اسے باہر نکالکر اسکی جگہ کچھ مہاجروں کو، آواراگردوں کو، بھانت بھانت کے لوگوں کو ، مفاد پرستوں کو دنیا کے دیگر ملکوں سے بٹور کر ایک جعلی قوم وجود میں لانا چاہتے ہو؟! کیا یہ کام ممکن ہے؟! کچھ دن تو طاقت کے بل بوتے پر یہ کام کرسکتے ہو؛ لیکن کیا یہ کام آگے چل سکتا ہے؟! آگے نہیں چل سکتا اور آج اسکی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔
فلسطین کے حوالے سے سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت آزادی سرزمین فلسطین کی آزادی اور اسکی اصلی مالکوں کو واپسی کی فکر، مسلم اقوام اور خاص طور سے فلسطینوں ذہن سے نہیں نکال سکتی۔ لیھذا اسکا علاج صرف ایک ہے۔ میں ان تمام لوگوں سے جو مسلہ فلسطین کو دنیا کا ایک بحران سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مشرق وسطی کا بحران ختم ہونا چاہیے ،یہ کہنا چاہوں گا اس بحران پر قابو پانے کا واحد راستہ اور یا مشرق وسطی کے بحران کے خاتمے کا راستہ یہ ہے کہ اس مسلہ کی جڑوں کو کاٹ دیا جائے۔ اس بحران کی جڑیں کہاں ہیں؟! یہی مسلط کردہ صہیونی حکومت تو ہے۔ جب تک بحران کی جڑیں موجود ہیں، بحران بھی باقی رہیگا۔ اسکے حل کاراستہ یہ ہے کہ فلسطینی مہاجرین ، لبنان اور دنیا کے تمام علاقوں سے فلسطین واپس آنے دیا جائے۔ کئی لاکھ فلسطینی جو فلسطین سے باہر رہ رہے ہیں وہ فلسطین واپس آجائیں۔ فلسطینی عوام ، چاہے مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، یا یہودی، ریفرنڈم میں حصہ لیں اور فیصلہ کریں کہ انکے ملک میں کیسا نظام حکومت ہونا چاہیے۔ واضح اکثریت مسلمانوں کی ہے کچھ عیسائی اور یہودی بھی ہیں جو سرزمین فلسطین کے اصل باسی ہیں اور انکے آباؤ اجداد یہاں رہتے چلے آئے ہیں۔ یہ لوگ جو نظام چاہیں اسے حکومت میں لے آئیں ؛ پھر وہ حکومت فیصلہ کرے کہ وہ لوگ جو گزشتہ چالیس، پینتالیس اور پچاس برسوں کے دوران فلسطین آئے ہیں ان کے ساتھ کیا جائے۔ انکو رکھا جائے یا واپس بھیج دیاجائے، کسی خاص مقام پر انہیں بسایا جائے، یہ سارے معاملات فلسطینی حکومت طے کرے،یہ ہے بحران کے حل کا واحد راستہ۔ جب تک اس راہ حل پر عملدارمد نہیں کیا جاتا کوئی اور راہ حل کارگر ثابت نہیں ہوگا؛ امریکی بھی اپنا پور زور لگانے کے باوجود کچھ نہیں کرسکیں گے۔ وہ جو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کرکے دیکھ لیا، نتیجہ آپکے سامنے ہے۔ البتہ وہ لوگ مقبوضہ فلسطین ان تین ہفتوں کی صورتحال، جوانوں کی تحریک، عورتوں اور مردوں کی دلیری، اور اس خطے کے مظلوم اور عضناک لوگوں کے عزم وارادے سے سخت نالاں ہیں اور مسلسل اپنے گناہوں کو ایک دوسرے کی گردن پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نہیں جناب! فلسطین کی تحریک کا ذمہ داراسلامی جمہوریہ (ایران) نہیں ہے؛ فلسطینی عوام کی تحریک کا ذمہ دار لبنان بھی نہیں ہے،تحریک فلسطین کے ذمہ دار خود فلسطینی ہیں، فلسطین کی تحریک انتفاضہ کی اصل وجہ امید و نشاط کے ساتھ میدان میں اترنے والی اس جواں نسل کے روح میں پیوست، رنج والم کے گہرے گھاؤ ہیں۔ ہم ان( فلسطینوں )کو داد ضرور دیتے ہیں ؛ انکو اپنا سمجھتے ہیں ؛ ہم فلسطین کو فلسطین کو اسلام کا ٹکڑا تصور کرتےہیں اور فلسطینی قوم کے ساتھ، فلسطینی جوانوں کے ساتھ برادری اور رشتہ داری کا احساس رکھتے ہیں ؛ لیکن یہ انتفاضہ خود انہوں نے شروع کیا ہے۔
یہ سمجھوتے جو کبھی شرم الشیخ میں اور دنیا کے دیگر علاقوں میں مسلہ فلسطین کے غیر متعلقہ فریقوں کے درمیان ہوتے رہے ہیں انکا کوئی فائدہ نہیں۔ ان معاہدوں کو کرنے والوں کو شرمندہ ہوناچاہیے۔ انکا کوئی فائدہ ہے اور ناہی انکا کوئی اثر ہونے والا ہے۔
عنقریب عرب سربراہی اجلاس بھی ہونے والا ہے۔ میں یہاں عرب ملکوں کےسربراہوں کو، جن پر آج بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایک یاد آوری کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ آج مسلم امہ کو عرب سربراہوں سے توقعات ہیں۔ امریکیوں نے اجلاس کے ذریعے عرب سربراہی اجلاس پر اثرانداز ہونے کی پوری پوری کوشش کی ہے ۔ (عرب سربراہوں کو) متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔ آج عرب سربراہی اجلاس میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا تاریخ اسکے بارے میں اپنا فیصلہ ضرور سنائے گی ۔ عرب سربراہان اس اجلاس میں صحیح فیصلے کرکے اپنے لیے ابدی سربلندی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگرچہ مسلہ فلسطین ان اجلاسوں سے حل نہیں ہوگا لیکن اس قسم کے اجلاس فلسطینی عوام کے مطالبات کو دنیا والوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ فلسطینی قوم کا اولین اور فوری مطالبہ یہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں کے دوران فلسطینوں کا قتل عام کرنے والوں پرایک اسلامی یا عربی عدالت میں مقدمہ چلاکر انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ قدس شریف اور بیت القدس شہر شہر کو صہیونیوں کے وجود سے مکمل پاک کیا جائے؛ اور اجازت دی جائے کہ فلسطینی قوم پوری آزادی کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ یہ ایسے فوری مطالبات ہیں جنہیں عرب سربراہ اٹھا سکتے ہیں۔ میں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں سے کہتا ہوں: اپنا جہاد جاری رکھیں۔ میدان میں ڈٹے رہیں۔ یاد رکھیں کوئی بھی قوم اسقامت و پائیداری کے بغیر عزت ، تشخص اور خود مختاری نہیں پاسکتی۔ دشمن کسی بھی قوم کو التماس کرنے سے کچھ نہی دیتا۔ کوئی بھی قوم اپنی کمزوری اور دشمن کے سامنے سرجھکا کر کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ دنیا میں کوئی بھی قوم اگر کسی مقام پر پہنچی ہے تو محض اپنے عزم و ارادے، استقامت و پائیداری، سینہ سپر ہوکر اس مقام پر پہنچی ہے۔ بغض قوموں کے پاس یہ توانائی نہیں ہے؛ لیکن جو قوم اسلام پر یقین رکھتی ہو، جو قوم قران پر ایمان رکھتی ہو، جو قوم خدا کے وعدے پر بھروسہ کرتی ہو، جس قوم کو اس بات پر پورا یقین ہو کہ«لينصرنّ اللَّه من ينصره(63)» جوکوئی بھی خدا اور دین خدا کی مدد کریگا خدا بھی ضرور اسکی مدد کریگا، وہ قوم اس کی پوری طاقت رکھتی ہے۔
میرا ایک اور مشورہ یہ ہے کہ آج دشمن کی پوری کوشش یہ ہے کہ فلسطینیوں کی صفوں میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ یہاں تک کہ دشمن کے ساتھ تعاون کرنے والے غدار فلسطینی عناصر بھی اختلافات ڈالنے کی پر اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ دشمن کی ان سازشوں کے سامنے نہ جھکیے۔ حماس، جہاد اسلامی، فتح اور جوانان قتح جو تازہ تازہ میدان میں اترے ہیں ۔ اس میدان کو خالی نہ کریں اور سب مل کر کام کریں۔ اگر انکے سربراہان اور سرکردہ عہدیدار دشمن کے حق میں کوئی بات کریں تو وہ انکی باتوں پر دیہان نہ دیں۔ سارے فلسطینی خلوص ایمان اور ایثار کے محور پر ایک مرکز پر اکھٹے ہوجائين۔ فلسطینی قوم جو آج ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ، یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ پوری مسلم امہ اسے داد تحسین پیش کرتی ہے اور اسکے لیے دعاگو ہے؛ اور اگر مدد کے لیے راستہ کھلا ہوتا تو آج مسلم امہ اپنی امداد بھی انکے لیے ضرور روانہ کرتی ؛ چاہیے حکومتیں اسکی جامی ہوں یا نہ ہوں۔ مسلم امہ فلسطین کو نہیں چھوڑ سکتی، فلسطینوں کو بھی نہیں چھوڑ سکتی اور فلسطینی نوجوانوں کو کبھی نظرانداز نہیں کرسکتی۔
میں اپنی قوم کی خدمت بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ فلسطینی بھائیوں کی حمایت اور انکے لیے فداکاری کی قدر کیجیے۔ اگرچہ بحمداللہ پورے عالم اسلام فلسطینی بھائیون کے لیے آپکی بھرپور حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہمارا پیارا اسلامی ملک ایران ، ہماری قوم اور حکومت، عوام کا ایک ایک فرد، مرد عورت سب ہی مسلہ فلسطین کے بارے میں انتہائی حساس پرعزم ٹھوس موقف رکھتے ہیں اور اگر ہوسکے تو مدد بھی کرتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ مخیر حضرات کی مالی امداد جمع کی جائے اور جو لوگ مالی لحاظ سے مدد کرسکتے ہیں مدد کریں۔ اگر ہم اسلحہ نہیں پہنچاسکتے؛ اگر ہم افرادی قوت فراہم نہیں کرسکتے اور یہ امکان ہمارے لیے میسرنہیں ہے کہ ہماری قوم اور جوانان ملت وہاں جاسکیں تو مالی لحاظ سے تو مدد کی جاسکتی ہے؛ اگرچہ انکے (فلسطینیوں) بہت سے دکھوں کا مداوا کیا جاسکتا، بعض زخموں پر مرہم تو رکھا جاسکتا ہے، انکے ماں باپ کے دلوں کو تسلی تو دی جاسکتی ہے۔ آپنے دیکھا ہوگا کہ ایک بچے کو اسکے باپ کی آغوش میں قتل کردیا گیا؟! یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ اس تحریک کی عظمت اس قدر زیادہ ہے کہ ایثار و قربانی کا یہ منظر خود انکی (فلسطینیوں) کی آنکھوں میں ہیچ ہے۔ جیسا کہ مسلط کردہ جنگ کے دوران آپ لوگوں نے اس قدر فداکاری کا مظاہرہ کیا کہ جسکا خود آپ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن آپکی قربانیوں نے دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا۔ آج فلسطینی قوم بھی ایسا ہی کررہی ہے جو خود انکے تصور سے باہر ہے لیکن دنیا حیران ہے۔ اس بچے کی اپنے باپ کی آغوش میں شہادت جیسی ایک شہادت نے قوموں کے دلوں میں زبردست طوفان برپا کردیا ہے، یہ بات انتہائی قیمتی ہے۔
پروردگار! نماز جمعہ کے پہلے کی ان ساعتوں میں ، اس دن جو تیرے ولی اور تیرے صالح بندے ، حضرت حجۃ بن الحسن ارواحنافدا کا دن ہے، تجھے اس عظیم ہستی اور خاندان پیغمبر، نبی اکرم کے وجود مقدس اور تمام اولیا کا واسطہ دیتے ہیں، کہ تو اپنی نصرت کو فلسطینی عوام اور تمام مجاہد مسلمانوں پر نازل فرما۔
پروردگار! ایرانی عوام کو سربلند اور کامیاب فرما۔
پروردگار! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمارے بسیجی جوانوں کو ہر میدان میں کامیاب و کامران فرما۔ پروردگار! اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کونابود کر۔ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد میں روزبروز ا‌ضافہ فرما۔ حضرت ولی عصر ارواحنا فدا کے قلب مطہر کو ہم سے، اس مجمعے سے اور پوری ایرانی قوم سے اور خاص طور سے محترم بسیجیوں سے راضی وخوشنود فرما۔ پروردگار! امام خمینی کی روح پاک کو اس ملک کے جوانوں کی کاکردگی سے راضی فرما اور انکی دعاؤں کو ہمارے شامل حال کر۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ