قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
خطبہ اول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین الحمد للہ خالق الخلق باسط الرزق فالق الاصباح دیان الدین رب العالمین احمدہ و استعینہ و استغفرہ و اتوکل علیہ و اصلی و اسلم علی حبیبہ و نجیبہ سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین المعصومین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صل علی ائمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔
 
آپ تمام نمازیوں، پوری ایرانی قوم اور مسلمین عالم کو عید الفطر کی مبارکباد دیتا ہوں۔ عظیم دنوں اور عظمت والی راتوں کے بعد یہ بہت عظیم دن آیا ہے۔ امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام عید الفطر کے ایک خطبے میں فرماتے ہیں ایھا الناس ان یومکم ھذا یوم مثاب فیہ المحسنون (1) اے لوگو' آج وہ دن جب نیکوکار اپنے خدا سے اجر پاتے ہیں۔ روزے کا اجر، ماہ رمضان کی عبادتوں کا اجر، بھوک پیاس برداشت کرنے کا اجر، نفس کو قابو میں رکھنے کا اجر۔ یخسر فیہ المبطلون اور جن لوگوں نے غلط کام کیا ہوگا، اس دن اپنی برائیوں کے نتیجے میں ہونے والا گھاٹا دیکھیں گے۔ آج بدلے کا دن ہے۔ و ھو اشبہ یوم بیوم قیامکم آج کا دن روز قیامت سے بہت مشابہ ہے۔ فاذکروا بخروجکم من منازلکم الی مصلیکم خروجکم من الاجداث الی ربکم جب گھروں سے عید گاہ کے لئے نکلیں تو قیامت کے ‏عظیم میدان میں جہاں خدا کی طرف سے ثواب اور عذاب کا اعلان ہوگا، پہنچنے کے لئے روز قیامت قبروں سے نکلنے کا منظر نگاہوں میں مجسم کریں۔ و اذکروا بوقوفکم فی مصلیکم وقوفکم بین یدی ربکم عید گاہ میں نماز کے لئے کھڑے ہوں تو وہ منظر یاد کریں جب روز قیامت حساب کتاب کے لئے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ و اذکروا برجوعکم الی منازلکم فی الحنۃ عید گاہ سے اپنے گھروں کی طرف واپس جائیں تو وہ منظر یاد کریں جب میدان قیامت سے جنت میں اپنے گھروں میں رہنے کے لئے ان کی طرف جا رہے ہوں گے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اے بندگان خدا ان ادنی ما للصائمین الصائمات روزے دار مردوں اور روزے دار عورتوں کو آج کے دن یا ماہ رمضان کے آخری دن اللہ تعالی جو کمترین انعام عطا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان ینادیھم ملک فی آخر یوم من شھر رمضان ایک فرشتہ ماہ رمضان کے آخری دن انہیں آواز دیکر کہتا ہے ابشروا عباد اللہ بشارت ہو تمہیں اے بندگان خدا۔ فقد غفر لکم ما سلف من ذنوبکم تمہارے گناہ معاف کر دیئے گئے۔
یہ ماہ رمضان کا انعام ہے۔ ایک صحیح روزہ، ایک صحیح عمل، ایک مخلصانہ اور خالصانہ عبادت، ماہ رمضان کے آخری لمحات میں اور آخری گھڑیوں میں اس کا انعام اس طرح دیا جاتا ہے کہ فقد غفر لکم ما سلف من ذنوبکم گناہوں کو معاف کیا جانا معمولی انعام نہیں ہے۔ فانظروا کیف تکونوا فی ما تستانفون دیکھو آج سے تم نئی زندگی کیسے شروع کرتے ہو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ گناہ کر لیتے ہیں آئندہ ماہ رمضان میں بخش دیئے جائیں گے۔ کوئی نہیں جانتا ہے کہ آئندہ ماہ رمضان تک زندہ رہے گا یا نہیں۔ گذشتہ سال، اسی نماز عید میں اسی عیدگاہ میں، بہت سے ایسے لوگ تھے جو اس سال نہیں ہیں۔ کیا پتہ آئندہ سال ہم میں سے کون ہوگا کون نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جو گناہ عمدا، نافرمانی اور گستاخی کے ساتھ کیا جائے، وہ انسان کے دل کو سیاہ اور تاریک کر دیتا ہے۔ ایسے انسان سے خالصانہ عبادت آسانی سے نہیں ہوتی کہ اس کی وجہ سے اس کا گناہ بخش دیا جائے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ گناہوں سے اجتناب کریں اور عمل صالح انجام دیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو انسان کو سعادتمند بناتی ہے۔
آج عید الفطر کی مناسبت سے خطبہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ان نورانی جملوں کے بعد مختصرا ایک اخلاقی نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا میں، صحیفہ ثالثہ سجادیہ میں، ایک دعا کے آخر میں جو نافلہ صبح اور نماز صبح کے درمیان پڑھی جاتی ہے، امام زین العابدین علیہ السلام سے اس طرح منقول ہے اللھم ارزقنی ع‍قلا کاملا و‏ عزما ثابتا و لبا راجحا و قلبا زکیا و علما کثیرا و ادبا بارعا آپ خداوند عالم سے چھے چیزیں طلب کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میرے خدا، مجھے عقل کامل، عزم راسخ، لب راجح، یہ جو تیسری چیز امام سجاد علیہ السلام نے طلب کی ہے اس کے بارے میں میں گفتگو کروں گا، پاکیزہ دل، کافی علم اور درخشاں اورنمایاں ادب عطا فرما۔
اس دعا میں جو تیسری چیز امام زین العابدین علیہ السلام نے طلب کی ہے، وہ لب راجح ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے کام کا باطن اور جوہر، ہمارے کام کی گہرائی اس کی ظاہری شکل سے زیادہ ہو۔ دیکھئے امام سجاد علیہ السلام نے خدا سے کیا طلب کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مومن عوام کے لئے، عظیم ایرانی قوم کے لئے جس نے نور ایمان سے اپنے دلوں کو روشن اور اپنی بات اور عمل سے دنیا کو تابناک بنا دیا ہے، اسی نکتے پر تاکید کروں کہ لبا راجحا
انسان دو طرح کے ہیں۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس جو کچھ ہوتا ہے ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہر بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ بہت پرکشش ہوتا ہے۔ بہت نمایاں ہوتا ہے اور اکثر متاثر کرنے والا بھی ہوتا ہے۔ لیکن کھوکھلا ہوتا ہے۔ باطن میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی بدترین قسم ہے۔ لیکن دوسری قسم کے انسان وہ ہیں کہ جن کا باطن، ظاہر پر غالب ہوتا ہے۔ باطن کو ظاہر پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ باطن پرکشش ہوتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام ہمیں درس دیتے ہیں کہ ہم دوسری قسم کے انسان بنیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ دعائیں صرف خدا سے طلب کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہمارے لئے درس بھی ہیں۔ ریاکاری پہلی قسم کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ رہبانیت پہلی قسم کے انسان کے لئے ہے۔ کھوکھلاپن پہلی قسم کے انسان کے لئے ہے۔ ایسا انسان نہ جنگ کے کام آتا ہے، نہ سختی میں کام آتا ہے، نہ بھاری بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے پاس جو کـچھ ہوتا ہے صرف ظاہر ہوتا ہے۔ مگر اسلامی تعلیمات اس کے برعکس ہیں۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ ظاہر کا خیال رکھنا چاہئے لیکن باطن ظاہر سے بہتر ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ظاہر جیسا بھی ہو، رہے، اصل تو باطن ہے۔ ظاہر کو باطن کا آئینہ ہونا چاہئے۔ الظاھر عنوان الباطن (1) ظاہر بھی صحیح ہونا چاہئے۔ کسی کو بھی غلط کام کا تظاہر نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کسی کے عمل اور شکل سے عبادت کے آثار ظاہر ہوں تو اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اسی کے ساتھ باطن کو ظاہر سے بہتر اور زیادہ باوقار ہونا چاہئے۔
پالنے والے' تجھے عالم امکان کی محبوب ترین ہستی، امام زمانہ کا واسطہ جو تمام فضائل کا مرکز ہیں، ہمارے باطن کو ظاہر سے بہتر کر دے۔
پالنے والے' حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی دعا ہمارے شامل حال کر۔
پالنے والے' آج ہمارے اس اجتماع کا ثواب ہمارے امام خمینی کی روح مطہر، ہمارے شہدا اور ہمارے مرحومین کی ارواح کو پہنچا دے۔
پالنے والے' ہمارے ماہ رمضان کے اعمال قبول فرما اور ہمیں عمل صالح کی توفیق عطا کر۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ہو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفوا احد
 خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلات و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد، و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین، سیما علی امیرالمومنین و الصدیقۃ الطاھرۃ و سبطی نبی الرحمۃ و امام الھدی، الحسن و الحسین و علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد الصادق و موسی بن جعفر الکاظم و علی بن موسی الرضا، و محمد بن علی الجواد، وعلی بن محمد الھادی، و الحسن بن علی العسکری، و الحجت بن الحسن القائم المھدی، حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک صل علی ائمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین، و ھداۃ المومنین۔ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔

آج بین الاقوامی میدان میں ایک طرف عالمی طاقتیں اور حکومتیں ہیں اور دوسری طرف عوام الناس ہیں۔ اچھی خصوصیات بھی ہیں اور بری خصوصیات بھی ہیں۔ مظلوموں کا اٹھ کھڑا ہونا، مسلم اقوام میں اسلام پسندی اور اقوام کی بیداری اچھی خصوصیات ہیں اور ستمگروں کے مظالم، تسلط پسندوں کی زور زبردستی اور اقوام کے بدخواہوں کی سازشیں، بری خصوصیات ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں ناپسندیدہ اور برے نکات میں سے ایک جو میری نظر میں سب سے برا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ایرانی قوم اور ان تمام لوگوں کو جو نظارہ کر رہے ہیں، اس کی طرف متوجہ کروں، یہ ہے کہ ہمیں دنیا میں زور زبردستی کرنے والوں اور تسلط پسندوں کے سدھر جانے یا ظلم چھوڑ دینے کی توقع نہیں ہے، لیکن عالمی اداروں سے آزادی عمل اور انصاف کی توقع ہے۔ اقوام متحدہ در حقیقت اقوام کا مشترکہ ادارہ ہے، یعنی یہ جگہ اقوام سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ عالمی ادارہ نہ کسی کی جاگیر ہے اور نہ ہی تسلط پسند طاقتوں کی ملکیت۔
لیکن افسوس کہ حقیقت کچھ اور ہے اور وہی نقطہ بہت برا ہے۔ البتہ ہم سلامتی کونسل کے کام جو اقوام متحدہ کا فیصلہ کرنے والا بنیادی ادارہ، اس سے پہلے دیکھ چکے تھے اور سمجھ چکے تھے کہ یہ ادارہ اہم مواقع پر سپر طاقتوں کی مٹھی میں رہتا ہے اور اقوام کے بجائے ان کے لئے کام کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال مسلط کردہ جنگ تھی۔ جب مسلط کردہ جنگ شروع ہوئی اور عراق ہماری سرحدوں کو توڑ کر چند صوبوں میں داخل ہو گيا تو ہم نے حسب معمول اقوام متحدہ میں شکایت کی۔ اصولی طور پر اقوام متحدہ کو چند گھنٹے کے اندر قرار داد پاس کرکے، جارح کی حیثیت سے عراق کی مذمت کرنی چاہئے تھی، مگر یہ کام نہیں کیا اور کئی دن تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ جب عراقی فوجی دستوں نے، ہماری اس دور کی بے سروسامانی سے فائدہ اٹھا کر، ہمارے ملک میں اپنے قدم اچھی طرح جما لئے اور کئی ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا تب جاکر کہیں سلامتی کونسل نے لب کشائی کی زحمت گوارا کی۔ ایک قرارداد پاس کی۔ قرار داد کیا تھی؟ کیا قرار داد یہ تھی کہ جارح فوج ایرانی سرزمین سے باہر نکل جائے؟ نہیں۔ قرارداد پاس کی کہ ایران اور عراق جنگ بندی کا اعلان کریں یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ عراقی افواج ایرانی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ اب جو ایرانی قوم کے دفاع کی باری ہے تو اس کے ہاتھ باندھ دیں کہ دفاع نہ کر سکے، جارح کو اپنی سرزمین سے باہر نہ نکال سکے۔ یہ سلامتی کونسل کی قرار داد تھی۔ آپ کو پتہ ہے کہ کتنے سال تک وہ جارح کی مذمت کرنے کے بجائے اسی بات کو دہراتے رہے۔ البتہ ہمارے سپاہیوں نے بہت جلد، تقریبا ڈیڑھ سال میں اپنے اکثر علاقے واپس لے لئے تھے۔
مسلط کردہ جنگ کے دوران ہم سلامتی کونسل کا یہ رویہ دیکھ چکے ہیں۔ اس کے چند سال بعد کویت پر عراق کا حملہ ہوا۔ جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اب کسی مظلوم قوم کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ امریکا اور سپر طاقتوں کے مفاد کا مسئلہ تھا، آپ نے دیکھا کہ چند گھنٹوں کے اند پہلی قرار داد پاس ہو گئی کہ عراق کویت سے نکل جائے۔ یعنی وہی بات جو چند سال قبل ہم سلامتی کونسل سے کہتے تھے کہ جس نے ہمارے خلاف یہ مسلط کردہ جنگ شروع کی ہے اس کے خلاف یہ قرار داد پاس کی جائے، اور وہ نہیں کر رہے تھے، بالکل وہی قرارداد کویت کے مسئلے میں منظور کر لی۔
کویت پر عراق کے حملے کے بعد چند گھنٹے کے اند پہلی قرارداد پاس ہوئی اور پھر یکے بعد دیگرے متعدد قراردادیں منظور ہوئیں اور سرانجام امریکیوں کو خلیج فارس میں آنے کی اجازت دیدی گئی۔ ان کی اجازت مل گئی کہ عراق کو تباہ و برباد کر دیں اور جو چاہیں اس کا حشر کریں۔ آج تک جنگ کویت کی نسبت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل جاری ہے۔
ان مسائل کو ہم نے دیکھا تھا۔ حالیہ مہینوں میں بوسنیا کے قضیے میں سلامتی کونسل کو منصفانہ اقدام کرنا چاہئے تھا لیکن نہیں کیا۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے روضے کے واقعے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ مسلمان اقوام نے اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی فوج کے عنوان سے اپنی افواج بھیجنے کے لئے تیار ہیں جو جاکے بوسنیا کے مسلمانوں اور سربوں کے درمیان حائل ہو جائے۔ سلامتی کونسل نے کہا کہ مسلمان نہیں جا سکتے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مسلمان فریق کی حمایت میں تنازعے میں شامل ہو جائیں یہ بات غلط تھی۔ کیونکہ مسلمان وساطت کے لئے جا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ دونوں فریقوں کے درمیان حائل ہو جائیں۔ جنگ کے لئے نہیں جانا چاہتے تھے۔ سلامتی کونسل نے یہ دعوی کیا۔ لیکن اسی کے ساتھ روسی فوجیوں کو جن کے لئے معلوم تھا کہ سربوں کے ساتھ ان کے روابط بہت قریبی ہیں، اقوام متحدہ کے فوجیوں کے عنوان سے اس علاقے میں جانے کی اجازت دے دی۔
یہاں اس بات کو کیوں ملحوظ نہ کیا کہ روسی فوجی مذہبی اور دیگر کئی لحاظ سے سربوں سے قریبی روابط رکھتے ہیں؟ دنیا نے روسی فوجیوں کے ٹینکوں کی تصویریں نشر کیں جن پر اقوام متحدہ کی علامت موجود تھی۔ ان تصاویر میں دکھایا گیا کہ روسی فوجی علاقے میں داخل ہو رہے ہیں اور سرب خوشیاں منا رہے ہیں نعرے لگا رہے ہیں، تالیاں بجا رہے ہیں۔ اب بھی بوسنیا کے مسلمان مارے جا رہے ہیں اور اقوام متحدہ متحدہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، سلامتی کونسل بھی اپنے فریضے پر عمل نہیں کرنا چاہتی۔
دوسرا واقعہ؛ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے روضے میں قتل عام کا ہے۔ اس قضیے میں اسرائیل کی مذمت ہونی چاہئے تھی۔ اس پر مقدمہ چلنا چاہئے تھا۔ اس کو سزا قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہئے تھا، اقوام متحدہ کو یہ کام کرنا چاہئے تھا مگر اس نے یہ کام نہیں کیا۔ سلامتی کونسل نے بھی اس قضیے میں اپنے فریضے پر عمل نہیں کیا۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پر بڑی طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکا کا اثر و رسوخ ہے۔ یہ ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کا نظریہ ہے۔ ہمیں کسی سے خاص دشمنی نہیں ہے۔ ہم عالمی عہدیداروں کا ان کے مرتبے کی حیثیت سے احترام کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کے سیکریٹری جنرل بارہا ایران آئے۔(2) صدر، اسپیکر اور وزارت خارجہ کے حکام نے ان کا احترام کیا، انہیں عزت دی۔ اگر سیکریٹری جنرل اپنے فریضے پر عمل کریں تو ہم ان کا احترام کریں گے۔ لیکن ہماری نظر میں اور ایرانی قوم کی نظر میں اقوام متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل نے اپنے فریضے پر عمل نہیں کیا ہے۔ یہ ذلیل حرکت جو اقوام متحدہ کے نام نہاد انسانی حقوق کے کمیشن نے کی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام لگایا ہے، شرمناک اقدامات میں شامل ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے، اسرائیلی، سیکڑوں مسلمان نمازیوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتے ہیں، ستر سے زائد نمازیوں کو شہید کر دیتے ہیں، مگر ان کی مذمت نہیں کی جاتی۔
اس علاقے میں کون سی حکومت ہے جو حکومت ایران کی طرح عوامی ہو، آزاد ہو، عوام کے اختیار میں ہو۔ ایسی آزادی کہاں نظر آتی ہے کہ حکام عوام میں سے چنے گئے ہوں اور عوام کے ساتھ ہوں، یہ چیز کہاں نظر آتی ہے؟! ایرانی قوم، اپنی آزادی و خود مختاری کی حفاظت، ظلم کو ختم کرنے، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے، امریکا کے زیر اثر نہ رہنے اور اپنی دلیرانہ روش سے شاہی دور کے شرمناک دھبوں کو صاف کرنے کے لئے تمام تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہے اور ڈٹی رہے گی۔ اس قوم کا مستقبل تابناک ہے۔ اس قوم کی طاقت روز بروز زیادہ ہو رہی ہے اور یہ قوم محکم تر ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں اس قوم کی باتوں کے طرفدار روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ آج ہم دس سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ قوی اور زیادہ باعزت ہیں۔ یہ قوم اسلام اور قرآن کی برکت سے زیادہ محکم شجاع اور اعلا اہداف کے لئے کوشاں ہے۔
گفتگو کے اختتام پر ایک اور نکتہ عرض کروں گا کہ افسوس کہ حج کا مسئلہ اب تک معمول کے حالات پر نہیں آ سکا ہے۔ سعودی حکومت روڑے اٹکا رہی ہے۔ پتہ نہیں کیوں؟ وزارت خارجہ اور انقلابی قیادت کے نمائندہ ادارے اور قائد انقلاب کے مرکزی دفتر نے کافی کوششیں کی ہیں۔ رمضان المبارک کے بعد انہیں دنوں میں حج سے متعلق بہت سے کام ہو جانے چاہیئں لیکن مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ کام کر رہے ہیں؟ البتہ ہم ‎سچ پر محمول کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سعودی حکام خدا نخواستہ ایسا کام نہیں کریں گے کہ ایرانی قوم ان سے برہم ہو۔ ایسا کام نہیں کریں گے کہ مسلمین عالم یہ سوچیں کہ حج بھی امریکا اور بڑی طاقتوں کے ہاتھ کا ایک وسیلہ بن گیا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور امید ہے کہ نہیں ہوگا۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ حج مسلمانوں کا حق اور خانہ خدا مسلمانوں کا ہے۔ ان اول بیت وضع للناس ( 3) خانہ خدا کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ اگر کسی کو یہ فخر حاصل ہوا ہے کہ خانہ خدا کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہو تو اس کو خدا کا شکر ادار کرنا چاہئے۔ اس کو چاہئے کہ اقوام کے لئے خانہ خدا تک پہنچنے کی آسانیاں فراہم کرے نہ کہ روڑے اٹکائے۔ یہ عظیم اور مومن قوم جو خانہ خدا، روضہ نبی اکرم اور آئمہ بقیع علیہم السلام کی زیارت کا اتنا شوق رکھتی ہے، اس بات کی حقدار ہے کہ حج اور طواف خانہ خدا کے لئے اس کو دیگر اقوام پر ترجیح دی جائے۔ میں خداوند عالم سے دعا گو ہوں کہ مناسک حج جو اسلامی ہیں اسلامی و مذہبی ماہیت میں باقی رہیں اور بین الاقوامی سیاستوں کی بھینٹ نہ چڑھیں۔
پالنے والے' مسلم اقوام کو بیدار کر۔ پالنے والے' دنیا کے ستمگروں کو مظلوموں کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچا۔
پالنے والے' صاحب عزت اسلامی، ایرانی قوم کو اس کی عظمت اور اپنی کرامت کی مناسبت سے اجرعطا کر۔
پالنے والے' ہمارے امام اور شہدا کی ارواح مطہرہ کو ہم سے خوشنود کر۔

 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والعصر ان الانسان لفی خسر۔ الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر۔
 
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
 
1- بحار الانوار ؛ ج 66 ص 365
2- جیوئر پیرز ڈی کیولر
3- آل عمران ؛ 96