آج بین الاقوامی میدان میں ایک طرف عالمی طاقتیں اور حکومتیں ہیں اور دوسری طرف عوام الناس ہیں۔ اچھی خصوصیات بھی ہیں اور بری خصوصیات بھی ہیں۔ مظلوموں کا اٹھ کھڑا ہونا، مسلم اقوام میں اسلام پسندی اور اقوام کی بیداری اچھی خصوصیات ہیں اور ستمگروں کے مظالم، تسلط پسندوں کی زور زبردستی اور اقوام کے بدخواہوں کی سازشیں، بری خصوصیات ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں ناپسندیدہ اور برے نکات میں سے ایک جو میری نظر میں سب سے برا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ایرانی قوم اور ان تمام لوگوں کو جو نظارہ کر رہے ہیں، اس کی طرف متوجہ کروں، یہ ہے کہ ہمیں دنیا میں زور زبردستی کرنے والوں اور تسلط پسندوں کے سدھر جانے یا ظلم چھوڑ دینے کی توقع نہیں ہے، لیکن عالمی اداروں سے آزادی عمل اور انصاف کی توقع ہے۔ اقوام متحدہ در حقیقت اقوام کا مشترکہ ادارہ ہے، یعنی یہ جگہ اقوام سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ عالمی ادارہ نہ کسی کی جاگیر ہے اور نہ ہی تسلط پسند طاقتوں کی ملکیت۔
لیکن افسوس کہ حقیقت کچھ اور ہے اور وہی نقطہ بہت برا ہے۔ البتہ ہم سلامتی کونسل کے کام جو اقوام متحدہ کا فیصلہ کرنے والا بنیادی ادارہ، اس سے پہلے دیکھ چکے تھے اور سمجھ چکے تھے کہ یہ ادارہ اہم مواقع پر سپر طاقتوں کی مٹھی میں رہتا ہے اور اقوام کے بجائے ان کے لئے کام کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال مسلط کردہ جنگ تھی۔ جب مسلط کردہ جنگ شروع ہوئی اور عراق ہماری سرحدوں کو توڑ کر چند صوبوں میں داخل ہو گيا تو ہم نے حسب معمول اقوام متحدہ میں شکایت کی۔ اصولی طور پر اقوام متحدہ کو چند گھنٹے کے اندر قرار داد پاس کرکے، جارح کی حیثیت سے عراق کی مذمت کرنی چاہئے تھی، مگر یہ کام نہیں کیا اور کئی دن تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ جب عراقی فوجی دستوں نے، ہماری اس دور کی بے سروسامانی سے فائدہ اٹھا کر، ہمارے ملک میں اپنے قدم اچھی طرح جما لئے اور کئی ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا تب جاکر کہیں سلامتی کونسل نے لب کشائی کی زحمت گوارا کی۔ ایک قرارداد پاس کی۔ قرار داد کیا تھی؟ کیا قرار داد یہ تھی کہ جارح فوج ایرانی سرزمین سے باہر نکل جائے؟ نہیں۔ قرارداد پاس کی کہ ایران اور عراق جنگ بندی کا اعلان کریں یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ عراقی افواج ایرانی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ اب جو ایرانی قوم کے دفاع کی باری ہے تو اس کے ہاتھ باندھ دیں کہ دفاع نہ کر سکے، جارح کو اپنی سرزمین سے باہر نہ نکال سکے۔ یہ سلامتی کونسل کی قرار داد تھی۔ آپ کو پتہ ہے کہ کتنے سال تک وہ جارح کی مذمت کرنے کے بجائے اسی بات کو دہراتے رہے۔ البتہ ہمارے سپاہیوں نے بہت جلد، تقریبا ڈیڑھ سال میں اپنے اکثر علاقے واپس لے لئے تھے۔
مسلط کردہ جنگ کے دوران ہم سلامتی کونسل کا یہ رویہ دیکھ چکے ہیں۔ اس کے چند سال بعد کویت پر عراق کا حملہ ہوا۔ جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اب کسی مظلوم قوم کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ امریکا اور سپر طاقتوں کے مفاد کا مسئلہ تھا، آپ نے دیکھا کہ چند گھنٹوں کے اند پہلی قرار داد پاس ہو گئی کہ عراق کویت سے نکل جائے۔ یعنی وہی بات جو چند سال قبل ہم سلامتی کونسل سے کہتے تھے کہ جس نے ہمارے خلاف یہ مسلط کردہ جنگ شروع کی ہے اس کے خلاف یہ قرار داد پاس کی جائے، اور وہ نہیں کر رہے تھے، بالکل وہی قرارداد کویت کے مسئلے میں منظور کر لی۔
کویت پر عراق کے حملے کے بعد چند گھنٹے کے اند پہلی قرارداد پاس ہوئی اور پھر یکے بعد دیگرے متعدد قراردادیں منظور ہوئیں اور سرانجام امریکیوں کو خلیج فارس میں آنے کی اجازت دیدی گئی۔ ان کی اجازت مل گئی کہ عراق کو تباہ و برباد کر دیں اور جو چاہیں اس کا حشر کریں۔ آج تک جنگ کویت کی نسبت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل جاری ہے۔
ان مسائل کو ہم نے دیکھا تھا۔ حالیہ مہینوں میں بوسنیا کے قضیے میں سلامتی کونسل کو منصفانہ اقدام کرنا چاہئے تھا لیکن نہیں کیا۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے روضے کے واقعے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ مسلمان اقوام نے اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی فوج کے عنوان سے اپنی افواج بھیجنے کے لئے تیار ہیں جو جاکے بوسنیا کے مسلمانوں اور سربوں کے درمیان حائل ہو جائے۔ سلامتی کونسل نے کہا کہ مسلمان نہیں جا سکتے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مسلمان فریق کی حمایت میں تنازعے میں شامل ہو جائیں یہ بات غلط تھی۔ کیونکہ مسلمان وساطت کے لئے جا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ دونوں فریقوں کے درمیان حائل ہو جائیں۔ جنگ کے لئے نہیں جانا چاہتے تھے۔ سلامتی کونسل نے یہ دعوی کیا۔ لیکن اسی کے ساتھ روسی فوجیوں کو جن کے لئے معلوم تھا کہ سربوں کے ساتھ ان کے روابط بہت قریبی ہیں، اقوام متحدہ کے فوجیوں کے عنوان سے اس علاقے میں جانے کی اجازت دے دی۔
یہاں اس بات کو کیوں ملحوظ نہ کیا کہ روسی فوجی مذہبی اور دیگر کئی لحاظ سے سربوں سے قریبی روابط رکھتے ہیں؟ دنیا نے روسی فوجیوں کے ٹینکوں کی تصویریں نشر کیں جن پر اقوام متحدہ کی علامت موجود تھی۔ ان تصاویر میں دکھایا گیا کہ روسی فوجی علاقے میں داخل ہو رہے ہیں اور سرب خوشیاں منا رہے ہیں نعرے لگا رہے ہیں، تالیاں بجا رہے ہیں۔ اب بھی بوسنیا کے مسلمان مارے جا رہے ہیں اور اقوام متحدہ متحدہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، سلامتی کونسل بھی اپنے فریضے پر عمل نہیں کرنا چاہتی۔
دوسرا واقعہ؛ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے روضے میں قتل عام کا ہے۔ اس قضیے میں اسرائیل کی مذمت ہونی چاہئے تھی۔ اس پر مقدمہ چلنا چاہئے تھا۔ اس کو سزا قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہئے تھا، اقوام متحدہ کو یہ کام کرنا چاہئے تھا مگر اس نے یہ کام نہیں کیا۔ سلامتی کونسل نے بھی اس قضیے میں اپنے فریضے پر عمل نہیں کیا۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پر بڑی طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکا کا اثر و رسوخ ہے۔ یہ ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کا نظریہ ہے۔ ہمیں کسی سے خاص دشمنی نہیں ہے۔ ہم عالمی عہدیداروں کا ان کے مرتبے کی حیثیت سے احترام کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کے سیکریٹری جنرل بارہا ایران آئے۔(2) صدر، اسپیکر اور وزارت خارجہ کے حکام نے ان کا احترام کیا، انہیں عزت دی۔ اگر سیکریٹری جنرل اپنے فریضے پر عمل کریں تو ہم ان کا احترام کریں گے۔ لیکن ہماری نظر میں اور ایرانی قوم کی نظر میں اقوام متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل نے اپنے فریضے پر عمل نہیں کیا ہے۔ یہ ذلیل حرکت جو اقوام متحدہ کے نام نہاد انسانی حقوق کے کمیشن نے کی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام لگایا ہے، شرمناک اقدامات میں شامل ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے، اسرائیلی، سیکڑوں مسلمان نمازیوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتے ہیں، ستر سے زائد نمازیوں کو شہید کر دیتے ہیں، مگر ان کی مذمت نہیں کی جاتی۔
اس علاقے میں کون سی حکومت ہے جو حکومت ایران کی طرح عوامی ہو، آزاد ہو، عوام کے اختیار میں ہو۔ ایسی آزادی کہاں نظر آتی ہے کہ حکام عوام میں سے چنے گئے ہوں اور عوام کے ساتھ ہوں، یہ چیز کہاں نظر آتی ہے؟! ایرانی قوم، اپنی آزادی و خود مختاری کی حفاظت، ظلم کو ختم کرنے، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے، امریکا کے زیر اثر نہ رہنے اور اپنی دلیرانہ روش سے شاہی دور کے شرمناک دھبوں کو صاف کرنے کے لئے تمام تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہے اور ڈٹی رہے گی۔ اس قوم کا مستقبل تابناک ہے۔ اس قوم کی طاقت روز بروز زیادہ ہو رہی ہے اور یہ قوم محکم تر ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں اس قوم کی باتوں کے طرفدار روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ آج ہم دس سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ قوی اور زیادہ باعزت ہیں۔ یہ قوم اسلام اور قرآن کی برکت سے زیادہ محکم شجاع اور اعلا اہداف کے لئے کوشاں ہے۔
گفتگو کے اختتام پر ایک اور نکتہ عرض کروں گا کہ افسوس کہ حج کا مسئلہ اب تک معمول کے حالات پر نہیں آ سکا ہے۔ سعودی حکومت روڑے اٹکا رہی ہے۔ پتہ نہیں کیوں؟ وزارت خارجہ اور انقلابی قیادت کے نمائندہ ادارے اور قائد انقلاب کے مرکزی دفتر نے کافی کوششیں کی ہیں۔ رمضان المبارک کے بعد انہیں دنوں میں حج سے متعلق بہت سے کام ہو جانے چاہیئں لیکن مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ کام کر رہے ہیں؟ البتہ ہم سچ پر محمول کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سعودی حکام خدا نخواستہ ایسا کام نہیں کریں گے کہ ایرانی قوم ان سے برہم ہو۔ ایسا کام نہیں کریں گے کہ مسلمین عالم یہ سوچیں کہ حج بھی امریکا اور بڑی طاقتوں کے ہاتھ کا ایک وسیلہ بن گیا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور امید ہے کہ نہیں ہوگا۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ حج مسلمانوں کا حق اور خانہ خدا مسلمانوں کا ہے۔ ان اول بیت وضع للناس ( 3) خانہ خدا کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ اگر کسی کو یہ فخر حاصل ہوا ہے کہ خانہ خدا کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہو تو اس کو خدا کا شکر ادار کرنا چاہئے۔ اس کو چاہئے کہ اقوام کے لئے خانہ خدا تک پہنچنے کی آسانیاں فراہم کرے نہ کہ روڑے اٹکائے۔ یہ عظیم اور مومن قوم جو خانہ خدا، روضہ نبی اکرم اور آئمہ بقیع علیہم السلام کی زیارت کا اتنا شوق رکھتی ہے، اس بات کی حقدار ہے کہ حج اور طواف خانہ خدا کے لئے اس کو دیگر اقوام پر ترجیح دی جائے۔ میں خداوند عالم سے دعا گو ہوں کہ مناسک حج جو اسلامی ہیں اسلامی و مذہبی ماہیت میں باقی رہیں اور بین الاقوامی سیاستوں کی بھینٹ نہ چڑھیں۔
پالنے والے' مسلم اقوام کو بیدار کر۔ پالنے والے' دنیا کے ستمگروں کو مظلوموں کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچا۔
پالنے والے' صاحب عزت اسلامی، ایرانی قوم کو اس کی عظمت اور اپنی کرامت کی مناسبت سے اجرعطا کر۔
پالنے والے' ہمارے امام اور شہدا کی ارواح مطہرہ کو ہم سے خوشنود کر۔