اس سے قبل پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے اور انصاف جیسے دو موضوعات پر اسٹریٹیجک نظریہ سازی کے دو اجلاس منقعد ہو چکے ہیں، ان نشستوں کے انعقاد کا مقصد ملک کی ضرورت کے اہم ترین اور حیاتی موضوعات پر علمی کد و کاوش اور بحث و مباحثے کے بعد صائب فیصلے تک پہنچنا ہے۔ بدھ کی شب چار گھنٹے تک جاری رہنے والی نشست میں دس محققین نے جن کے مقالے نشست کے سکریٹریئیٹ کو موصول ہونے والے ایک سو اٹھاسی تحقیقاتی مقالوں میں ممتاز قرار دیئے گئے تھے، اپنے نظریات بیان کئے۔ علمی مقالے پڑھے جانے کے بعد قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے محققین اور دانشوروں کی شرکت سے اسٹریٹیجک نظریات اجلاس کے انعقاد کے مقاصد پر روشنی ڈالی، آپ نے فرمایا کہ ان نشستوں کا مقصد عالمانہ تبادلہ افکار ہے تاکہ مختلف علمی نظریات سے استفادے کی زمین ہموار ہو اور منصوبہ بندی و اجراء کے لئے جامع اور صحیح فکر تک رسائی حاصل ہو سکے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بنیادی اور حیاتی موضوعات پر بحث و مباحثے کے لئے جاری ان نشستوں کے ثمرات کا یقینی، فکری گہرائی سے آراستہ، پائیدار اور منظر عام پر پیش کئے جانے کے قابل ہونا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورت اور خاندان کا مسئلہ ملک کا بنیادی ترین مسئلہ ہے، عورت اور خاندان کے موضوع پر مستند اور نمایاں اسلامی تعلیمات اور مآخذ موجود ہیں جنہیں قابل عمل نظریات کی شکل میں متعارف کرایا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام میں عورتوں کے کردار اور ان کی شراکت کو بے مثال قرار دیا اور فرمایا کہ انقلابی تحریک کے دوران اور اسلامی انقلاب کے کامیاب ہو جانے کے بعد کے ادوار بالخصوص مقدس دفاع کے سخت ترین دور میں مختلف میدانوں میں عورتوں کا کردار بہت موثر، ممتاز اور بے بدیل رہا ہے جس کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‌ الله‌الرّحمن‌ الرّحيم‌
اللّهمّ سدّد السنتنا بالصّواب و الحكمة

تمام برادران و خواہران عزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس انتہائی گراں قدر اجتماعی کاوش میں شرکت کے لئے حاضرین محترم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں مقررین کا خاص طور پر مشکور ہوں جن میں بعض نے کچھ باتیں پیش کیں اور بعض نے کچھ چیزوں کا تنقیدی جائزہ لیا۔ اس پروگرام کے مہتمم جناب ڈاکٹر واعظ زادہ کا بھی تہہ دل سے شکرگزار ہوں، اس نشست کی بنحو احسن نظامت کی وجہ سے بھی اور ایک ٹیم کی مدد سے چند مہینے کے دوران اس نشست کے ڈھانچے اور مضمون کے تعلق سے مقدماتی امور انجام دینے کی وجہ سے بھی۔
اس نشست اور ان اجلاسوں کا مقصد ملک کے بنیادی امور پر ممتاز علمی شخصیات کے درمیان عالمانہ و ماہرانہ تبادلہ خیال کروانا ہے۔ اگر اسٹریٹیجک نظریہ سازی کی بات کی جاتی ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ ایک متفق علیہ نظرئے تک رسائی حاصل ہو۔ اب اس کی تقسیم بندی کی جا سکتی ہے کہ عدل و انصاف سے متعلق نظریہ ہے یا عورت اور خاندان سے متعلق نظریہ ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس بیس سے زائد موضوعات کی ایک فہرست ہے اور ہر موضوع کو نظرئے کا عنوان دیا گيا ہے اور اسی لحاظ سے اسے نظریہ کہا جا رہا ہے ورنہ ہماری کوشش یہ ہے کہ ممتاز علمی شخصیات کا یہ مجموعہ فکری و معنوی کاوشوں سے ہر موضوع کے بارے میں نئے سرے سے متحدہ اور متفق علیہ نظریہ قائم کرے۔
ان نشستوں میں ہمارا ارادہ یہ نہیں ہے کہ کسی موضوع کا شروع سے آخر تک سو فیصدی جائزہ لیں اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ یہاں ہمارا مقصد مختلف موضوعات کے تعلق سے ملک کو در پیش یا ممکنہ طور پر مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فکری و نظری سطح پر حل سامنے آ جائے تا کہ ملک کی ممتاز شخصیات، ملک کے بہترین فعال اذہان اور اجرائی امور انجام دینے والے عہدیدار ہر شعبے میں ایک صحیح فکر کے تعین، متعلقہ منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کے تعلق سے اپنے حصے کی ذمہ داریاں اٹھائیں۔ ہمارا ہدف یہ ہے۔ فکری و نظری سطح پر کچھ خامیاں بھی ہیں اور کچھ اہم خوبیاں بھی ہیں۔ اسی طرح اجرائی سطح پر بھی خامیاں اور خوبیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔ ان نشستوں میں انہیں خامیوں اور خوبیوں کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ اپنی صلاحیتوں کی نشاندہی بھی کرنا ہے اور کمزوریوں کا تعین کرکے انہیں برطرف کرنے کا طریقہ بھی سوچنا ہے، اپنی خامیوں کو دور کرنا ہے، کمزوریوں کی اصلاح کرنا ہے۔
ہمیں یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ نظریہ پردازی کے میدان میں ہم کہاں آگے ہیں اور کہاں پیچھے رہ گئے ہیں۔ عورت کے مسئلے میں ہی آپ دیکھئے کہ ہماری دسترسی میں کتنے اسلامی منابع و مآخذ اور اسلامی تعلیمات ہیں، قرآن کریم کی آیتیں ہیں، ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا براہ راست اس موضوع سے تعلق ہے اور کچھ آیتوں میں عمومی طور پر بات کی گئی ہے جس میں یہ مسئلہ بھی شامل ہے اور یہ سب ہمارے پاس ہیں۔ ان کی بنیاد پر ہمیں نظریہ اور تھیوری قائم کرنا چاہئے۔ اسے باقاعدہ ایک ایسے نظریئے کی شکل میں ڈھالنا چاہئے جس کی تقسیم بندی کی جا سکتی ہو، جسے باقاعدہ استعمال کیا جائے، اس سے نتائج اخذ کئے جائیں اور سب کے لئے قابل استفادہ ہو۔ اسے ہم خود بھی حاصل کریں منصوبہ بندی کے لئے، مخالفین کو بھی دیں اور استفسار کرنے والوں کو بھی اس سے روشناس کرائيں۔ آج دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران سے جس کے پاس تیس سال کا گراں بہا تجربہ ہے، سوال کرنے والے اور استفسار کرنے والے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس کی اطلاع آپ کو بھی ہے اور کلی طور پر میں بھی اس حقیقت سے واقف ہوں۔ لوگ رجوع کرتے ہیں، سوال کرتے ہیں، مختلف موضوعات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا کیا نقطہ نظر ہے؟ اس کا جواب دیا جانا چاہئے۔ اس سے قبل دو نشستیں منعقد ہو چکی ہیں، ایک نشست پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کے موضوع پر تھی اور دوسری میں انصاف کے موضوع کا جائزہ لیا گيا تھا۔ یہ دونوں حالانکہ کے ایک دوسرے سے الگ موضوعات ہیں لیکن یہ ایک ہی سلسلے سے جڑی ہوئی کڑیاں بھی ہیں۔ اس ضمن میں بڑی اطمینان بخش کوششیں انجام دی گئی ہیں۔ برادران و خواہران عزیز کو اس کا علم ہونا چاہئے کیونکہ آج رات کے موضوع کے تعلق سے ہم جو کام اور کاوشیں انجام دینے والے ہیں ان پر اس کا اچھا اثر پڑے گا۔ آپ یہ جان لیجئے کہ پوری سنجیدگی سے کام انجام دیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر واعظ زادہ صاحب نے اشارہ کیا۔ آپ نے اپنی رپورٹ میں کچھ چیزیں بیان کیں لیکن چونکہ اختصار کو مد نظر رکھا تھا لہذا حقیقت میں جو کام انجام پائے ہیں وہ اس سے زیادہ ہیں جس کا ذکر رپورٹ میں ہوا۔ بڑی سنجیدگی سے کام ہوا ہے۔ خاص طور پر ترقی کے اسلامی و ایرانی ماڈل کی تدوین کے لئے جو مرکز قائم کیا گيا ہے وہ محققین کی مدد سے بڑے اچھے کاموں کی انجام دہی میں مشغول ہے۔ ان نشستوں میں سے ہر ایک، حقیقت میں ایک زرخیز زمین میں ایک پودا لگانے کی مانند ہے۔ اب اس پودے کی آبیاری ایسے عوامل کی ذمہ داری ہے جن میں بعض دستیاب ہو چکے ہیں اور بقیہ کے لئے ہم کوشاں ہیں۔ ویسے معاشرے کی عمومی فضا بھی اس پودے کی نشونما میں مدد کرتی ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں کوئی عجلت نہیں ہے۔ بیشک ہم چاہتے ہیں کہ کام تیزی سے انجام پائیں یعنی ہم سستی اور تساہلی کے بالکل قائل نہیں ہیں تاہم اس کام میں عجلت پسندی بھی مناسب نہیں ہے۔ ہم جلدبازی میں یہ کام نہیں انجام دینا چاہتے۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ کام پوری پختگی، مضبوطی، گہرائی اور پائیداری کے ساتھ انجام دیا جائے جو دنیا میں کہیں بھی پیش کئے جانے کے قابل ہو اور مدلل انداز میں اس کا دفاع کیا جا سکے۔ انشاء اللہ یہ نشستیں، آج کی نشست بھی اور گزشتہ دو نشستیں بھی ایسا ہی کردار ادا کریں گی۔ مجھے اس کی بابت اطمینان ہے۔
عورت اور خاندان کا مسئلہ ہمارے ملک کے لئے بنیادی ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ جن احباب اور خواتین و حضرات نے یہاں اپنے نظریات پیش کئے، اس حقیقت کو ثابت کر دیا۔ چنانچہ اس نکتے پر جسے آپ نے تفصیل کے ساتھ اور بنحو احسن بیان کیا مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کی گفتگو سے ثابت ہو گیا کہ یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک کے نظام میں عورتوں کا کردار اور ان کی شراکت غیر معمولی اور ممتاز ہے، بالکل اسی طرح جیسے خود انقلاب میں عورتوں نے ممتاز اور بنیادی کردار ادا کیا۔ اس نشست میں جو عزیز نوجوان تشریف رکھتے ہیں، جو جنگ کے زمانے میں اور انقلاب کی تحریک کے دوران نہیں تھے، شاید ان کے علم میں نہ ہو کہ کیا واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان کے پاس اس کا واحد ذریعہ وہ رپورٹیں ہیں جو انقلاب اور مقدس دفاع کے موضوع پر تیار کی گئی ہیں تاہم یہ سب ناقص اور بہت مجمل ہیں۔ اس تعلق سے بھی ہمارے سامنے ایک بڑا کام ہے جو انجام دیا جانا ہے۔ ویسے یہ اسٹریٹیجک نظریہ سازی کے موضوعات کی فہرست میں تو شامل نہیں ہے تاہم انتہائی اہم کاموں میں اس کا شمار ہوتا ہے جس پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں کے پاس ماضی کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ عورتوں نے دفاعی جدوجہد کے دوران بھی موثر رول ادا کیا اور انقلابی مہم کے دوران یعنی ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں جس میں انقلابی تحریک ملک گیر سطح پر پہنچی عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ عورتوں کا کردار بے بدل کردار تھا۔ اگر ان اجتماعات اور ریلیوں میں عورتیں شامل نہ ہوتیں تو طے ہے کہ ان ریلیوں میں وہ اثر پیدا نہ ہو پاتا۔ بعض جگہوں پر جیسے ہمارے شہر مشہد وغیرہ میں تو مظاہروں کی شروعات عورتوں کے ہاتھوں سے ہوئی۔ یعنی عمومی سطح پر تحریک کا آغاز عورتوں نے کیا۔ احتجاجی عورتوں کو پولیس کے تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے بعد مردوں کی مہم نے زور پکڑا۔ جدوجہد کے دوران بھی یہی عالم رہا اور اسلامی نظام کی تشکیل کے عمل میں بھی یہی صورت حال رہی۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد تیزی سے رونما ہونے والے تغیرات یعنی آٹھ سالہ جنگ میں، اس پرمحن دور میں، ان کٹھن حالات میں بھی یہی صورت حال رہی۔ حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت (1) جنگ کے دوران حالات بہت دشوار ہو گئے۔ کچھ لوگ تو جنگ کو ٹیلی ویزن اور ریڈیو سے دیکھتے اور سنتے تھے لیکن کچھ لوگ جسم و جان کے ساتھ میدان کارزار میں موجود تھے۔ جنگ کے زمانے کی جو پرجوش اور ولولہ انگیز رپورٹیں تیار کی گئي ہیں وہ بالکل درست ہیں۔ میں مجاہدین کی یادوں پر مشتمل کتابیں بہت پڑھتا ہوں لہذا مجھے معلوم ہے کہ یہ سب بالکل درست ہیں۔ مجاہدت کا وہ شوق، وہ جوش و جذبہ، شہادت کا وہ عشق، موت سے وہ بے خوفی جس کی عکاسی رپورٹوں میں کی جاتی ہیں بالکل درست ہے۔ تاہم جنگ کو مجموعی طور پر دیکھئے تو یہ ایک سخت دور تھا۔ جو بٹالین فرنٹ لائن پر محو پیکار ہے اور جوش و جذبے کے ساتھ جنگ کر رہی ہے، اسے یہ علم تو نہیں ہے کہ سنٹرل کمانڈ میں پورے محاذ جنگ کے تعلق سے کیا پوزیشن ہے، مرکزی چھاونی کے پیچھے ملک کی سطح پر کیا اندیشے ہیں اور کیا دشواریاں ہیں؟ یہ بہت سخت دور تھا۔ ان دشوار حالات میں عورتوں نے جو کردار ادا کیا وہ غیر معمولی تھا۔ شہیدوں کی ماؤوں کا کردار، شہیدوں کی ازواج کا کردار، میدان جنگ میں براہ راست شامل عورتوں کا کردار، لاجسٹک سپورٹ اور کبھی کبھار فوجی آپریشن میں عورتوں کا کردار، لاجسٹک سپورٹ میں میں نے عورتوں کی کارکردگی کا خود بھی مشاہدہ کیا ہے، یہ کردار انتہائي غیر معمولی کردار تھا۔ یہ ایسے کارنامے ہیں جنہیں کسی بھی ترازو پر تولا نہیں جا سکتا اور جن کی قیمت کا کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ماں کا کردار، شہید کی والدہ کا کردار، دو شہیدوں کی ماں کا کردار، تین شہیدوں اور چار شہیدوں کی ماؤں کا جو کردار سامنے آیا ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان چیزوں کو زبانی بیان کر دینا آسان ہے۔ بچہ اگر سردی کھا جاتا ہے، دو چار کھانسیاں آ جاتی ہیں تو ہم کتنے بے چین ہو جاتے ہیں؟! لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ کسی کا ایک بیٹا جاتا ہے اور قتل کر دیا جاتا ہے، دوسرا جاتا ہے وہ بھی شہید ہو جاتا ہے، تیسرا جاتا ہے اور وہ بھی مارا جاتا ہے!! یہ کوئی معمولی بات ہے؟! اس پر بھی ماں کا یہ عالم ہے کہ مادرانہ شفقت و الفت کے جذبات کے ساتھ ایسا کردار پیش کرتی ہے کہ سیکڑوں ماؤں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان میں اپنے بیٹوں کو محاذ جنگ پر بھیجنے کی ہمت بڑھتی ہے!! اگر یہ مائیں اس وقت جب ان کے پارہ جگر کے جنازے آتے تھے اور کبھی جنازہ بھی نہیں صرف خبر شہادت آتی تھی، آہ و زاری کرتیں گلے شکوے کرتیں، امام خمینی اور دفاعی اسٹریٹیجی پر اعتراض کرتیں تو یقینا دفاع ابتدائی برسوں میں ہی، شروعاتی مراحل میں ہی زمیں بوس ہو جاتا۔ تو شہدا کی ماؤں کے کردار کی یہ اہمیت اور کلیدی حیثیت ہے۔
شہدا کی صابر ازواج، وہ نوجوان عورتیں جن کے نوجوان شوہر شیریں ازدواجی زندگی کی شروعات میں ہی ان سے جدا ہو گئے! پہلے تو ان کا اس بات پر راضی ہونا کہ شوہر ایسی جگہ جائے جہاں سے ممکن ہے کہ اس کی واپسی نہ ہو، پھر اس کے بعد شوہر کی شہادت کا داغ اٹھانا اور اس پر فخر کرنا، یہ وہ کردار ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو سلسلہ شروع ہوا اور جاری ہے، جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سپاہیوں کی زوجیت میں جانے کا سلسلہ ہے، بہت سی خواتین نے جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سپاہیوں سے شادیاں کیں۔ کوئی عورت ایک ایسے شخص سے جو جسمانی طور پر معذور ہے اور بعض اوقات اس جسمانی حالت کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے، پوری ذمہ داری کے ساتھ، رضاکارانہ طور پر اور بغیر کسی اجبار کے شادی کرتی ہے اور اس کی تیمارداری کی ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھاتی ہے تو وہ یقینا بہت بڑا ایثار کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ آپ کہیں کہ میں روزانہ دو گھنٹے آکر آپ کی خدمت کروں گی، آپ جب بھی جائیں گي اور خدمت کریں گی تو وہ آپ کا شکریہ ادا کرے گا لیکن اگر آپ زوجہ کی حیثیت سے اس کے گھر میں خدمت انجام دے رہی ہیں تو پھر آپ کی صورت حال اور ہوگی، فطری طور پر یہ ماحول پیدا ہو جائے گا کہ آپ کو یہ خدمت کرنا ہی ہے۔ خواتین نے اس طرح کا ایثار کیا ہے۔ عورتوں کے اس کردار کی اہمیت کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔
مجھے اس بات کا اعتراف ہے، میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ اس کردار کی اہمیت کا ادراک سب سے پہلے جس شخصیت نے کیا وہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی تھے۔ اسی طرح دوسرے بہت سے حقائق اور باریکیوں کو سب سے پہلے آپ ہی نے سمجھا، ہم میں کوئی بھی اس وقت تک ان کا ادراک نہیں کر سکا تھا۔ امام خمینی نے عوام الناس کے کردار کی اہمیت کا بھی سب سے پہلے اندازہ کیا۔ آپ کو عوام الناس کی شراکت اور کردار کی اہمیت کا ادراک اس وقت ہو گیا جب کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا تھا۔ کچھ بڑے لوگ تھے جو بڑے نازیبا الفاظ میں کہتے تھے کہ آپ اس خیال میں ہیں کہ انہیں عوام کی مدد سے بڑا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو جائيں گے؟! ان کا لہجہ اتنا تضحیک آمیز ہوتا تھا کہ گویا جس کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ سرے سے انسان ہی نہیں ہے! لیکن امام خمینی کا معاملہ مختلف تھا، آپ نے عوام کی اہمیت کو پہچانا، عوام کی قدر و منزلت کو جانا، ان کی توانائیوں کو سمجھا، ان کا انکشاف کیا اور پھر منادی کر دی۔ امام خمینی چونکہ صادق انسان تھے اور آپ کی آواز آپ کے نورانی دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھی اس لئے گہرا اثر ڈالتی تھی، نتیجہ یہ نکلا کہ سب میدان میں اتر پڑے۔ جب کمیٹی کی تشکیل کا مرحلہ آیا تھا تو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ آکر اس کمیٹی میں شامل ہوئے۔ طلباء شامل ہوئے، اساتذہ شامل ہوئے، دینی مدارس کے طالب علم شامل ہوئے، علمائے کرام شامل ہوئے، کوچہ و بازار سے لوگ آکر شامل ہوئے، سب نے کمیٹی کی رکنیت حاصل کی۔
جب جنگ کا وقت آیا تو سب امام خمینی کے حکم کے مطابق محاذ جنگ کے لئے روانہ ہو گئے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب فرمایا کہ جائیے، تعمیراتی کام انجام دیجئے تو سب کے سب تعمیراتی میدان میں مصروف کار ہو گئے۔ مشکلات کو برطرف کر دینے کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ میری نظر میں تو آج بھی ہم جو پیشرفت کر رہے ہیں یہ بھی امام خمینی کے اشاروں کے مطابق عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔ آپ نے اس انداز سے راستہ ہموار کیا کہ ہم ابھی طویل عرصے تک اس پر اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ عوام الناس اسی راستے پر آگے بڑھے اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل اسی منزل کی جانب گامزن ہے۔
عورت کے مسئلے میں بھی امام خمینی کی یہ خصوصیت سامنے آئی۔ آپ نے عورتوں کے کردار کی اہمیت کا پورا ادراک کر لیا۔ کچھ بزرگ علماء اس وقت ایسے تھے جن سے ہماری ملاقات اور گفتگو رہا کرتی تھی کہ عورتیں مظاہروں میں شرکت کریں یا نہ کریں، ان کا کہنا تھا کہ عورتیں مظاہروں میں حصہ نہ لیں۔ تاہم جس محکم کہسار کا ہم نے سہارا لیا تھا وہ ہمیں مطمئن رکھتا تھا اور انسان بآسانی اس طرح کے نظریات کے برخلاف جو بڑی ہستیوں کی جانب سے پیش کئے جا رہے تھے، اپنا عمل انجام دے سکتا تھا، یہ کہسار امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا نظریہ، آپ کی فکر اور آپ کا عزم و ارادہ تھا۔ اس عظیم انسان پر تا ابد اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں۔ (آمین)
مختصر یہ کہ عورتوں کا کردار انتہائی عدیم المثال کردار ہے۔ اس کردار کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہیں، کیونکہ اس کا ایک واضح مستقبل ہے۔ ابھی تو انقلاب کو بتیس سال گزرے ہیں۔ بتیس سال تو ایک انسان کی بھی جوانی کی عمر ہوتی ہے، تو پھر ایک تاریخ کی عمر میں بتیس سال کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس نظام الہی کو سیکڑوں سال زندہ رہنا ہے۔ ہم تو ابھی اس کے عنفوان شباب کو دیکھ رہے ہیں۔ مستقبل میں قومی شراکت و کردار کے دائرے میں عورتوں کے موثر کردار کی بہت ضرورت ہے۔ لہذا ہمیں عورت کے مسئلے میں اور معاشرے میں پائی جانی والی اس صلاحیت کی حفاظت کے تعلق سے، بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عورت کے مسئلے پر خاص توجہ دینے کی پہلی وجہ ہے۔ دوسری وجہ، خاندان کا معاملہ ہے۔ اس رات محترم مقررین نے خاندان اور کنبے کے موضوع پر بڑی اچھی بحث کی۔ واقعی یہ بہت اچھا جائزہ تھا۔ مجھے فیصلہ کرنا ہو تو میں یہی کہوں گا کہ مجموعی طور پر بحث کا معیار بہت اونچا تھا۔ باتیں بھی بالکل درست تھیں، اعداد و شمار بھی ٹھیک تھے، استنباط بھی بہت اچھا تھا، نتیجہ اخذ کرنے کی روش بھی بڑی معقول تھی، تو یہ بحث مختلف پہلوؤں سے بہت اچھی تھی۔ کئی پہلوؤں والے اس موضوع کے الگ الگ پہلوؤں کا الگ الگ صاحب رائے دانشوروں نے جائزہ لیا۔ آپ نے اس حساس اور انتہائی اہم موضوع پر باقاعدہ روشنی ڈالی اور یہ تمام پہلو کھل کر سامنے آئے۔ میں نے واقعی بہت استفادہ کیا۔
خاندان اور کنبے کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ یہ معاشرے کی اصلی بنیادوں میں سے ایک ہے، یہ معاشرے کے بنیادی خلیئے سے عبارت ہے۔ یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ اگر ایک خلیہ سالم و صحتمند رہے گا تو دوسرے خلیوں کی سلامتی بھی یقینی بن جائے گا اور اگر یہ خلیہ صحتمند نہ ہوگا تو دوسرے خلیئے بھی صحت مند نہیں رہیں گے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر یہ صحتمند اور سالم ہو جائے تو آپ سمجھ لیجئے کہ پورا بدن صحتمند اور سالم ہو گیا کیونکہ بدن خلیوں کا ہی مجموعہ ہے، خلیوں سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ جسم کا ہر عضو خلیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم نے ان خلیوں کو صحتمند اور سالم بنائے رکھا تو ہمارا یہ عضو صحتمند رہے گا۔ تو خاندان کا مسئلہ اتنا اہم ہے!
ملک میں صحتمند، زندہ اور پرجوش خاندانوں کے بغیر اسلامی معاشرے کی پیشرفت ممکن ہی نہیں ہے۔ خاص طور پر ثقافتی شعبے میں، ویسے دیگر شعبوں میں بھی اچھے خاندانوں کے بغیر پیشرفت کا امکان نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کہ خاندان کی بہت ضرورت ہے۔ یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ مغرب میں خاندان اور کنبے کا شیرازہ بکھر چکا ہے لیکن مغربی دنیا پھر بھی ترقی کر رہی ہے۔ کیونکہ مغرب میں خاندانوں کا شیرازہ بکھرنے کے نتیجے میں جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں وہ اپنا اثر ضرور دکھائیں گی۔ اس میں جلدبازی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ تاریخی واقعات اور عالمی تغیرات ایسے نہیں ہوتے جن کا اثر فوری طور پر سامنے آ جائے۔ ان کے اثرات رفتہ رفتہ نمودار ہوتے ہیں۔ ویسے اس وقت بھی اس کے کچھ اثرات سامنے ہیں۔ جب مغرب نے یہ حیرت انگیز ترقی کی تو اس زمانے میں خاندان اپنی اصلی شکل میں باقی تھے۔ یہاں تک کہ جنسیات کا مسئلہ بھی جنسیاتی اخلاقیات کے ضوابط کے دائرے میں تھا، البتہ اسلامی شکل میں نہیں بلکہ مغربی ضوابط کے مطابق۔ اگر کوئی مغربی تہذیب سے واقفیت رکھتا ہے تو وہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی یہ چیز دیکھے گا کہ حیا کا مسئلہ، تہمت زنی سے اجتناب، مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کے تعلق سے خاص اخلاقیات کو ملحفوظ رکھنا۔ یہ چیزیں مغرب میں تھیں۔ یہ بے راہروی، یہ ضوابط سے آزادی رفتہ رفتہ وہاں درآئی ہے۔ ماضی میں اس کے کچھ مقدمات فراہم ہوئے جن کا نتیجہ آج سامنے آیا۔ مغرب کی آج کی حالت انتہائی تلخ اور دشوار مستقبل کی غماز ہے۔ تو عورت کے کردار کی اہمیت کا دوسرا پہلو خاندان کا مسئلہ ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ ان بتیس برسوں میں ہمارے دشمن محاذ کی نظر میں عورت کا مسئلہ ہم پر کئے جانے والے اعتراضات میں سر فہرست رہا ہے۔ دشمن نے انقلاب کے شروعاتی دنوں سے ہی عورتوں کے مسئلے میں ہم پر اعتراضات کئے، ہمیں دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ملزم قرار دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور یہ بات سامنے بھی نہیں آئي تھی کہ اسلامی نظام میں عورتوں کے تعلق سے کیا پالیسی اختیار کی جائے گی۔ بس انہوں نے راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اسلام عورت کا مخالف ہے، اسلام ایسا ہے، ویسا ہے۔ یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ لہذا ہمیں اس کا سد باب کرنا چاہئے، اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ عالمی رائے عامہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ سب لوگ تو عناد نہیں رکھتے، سارے لوگ تو برے نہیں ہیں۔ خباثت تو ایک خاص گروہ ہے جس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئي ہے۔ خباثت تو ان پالیسی سازوں اور منصوبہ سازوں کے یہاں پائي جاتی ہے۔ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ رائے عامہ اس عظیم فریب کا شکار نہ ہونے پائے۔ اس کے لئے ہمیں میدان عمل میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
البتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مغربی دنیا خاندان کا جب مسئلہ آتا ہے تو پہلو تہی کرنے لگتی ہے۔ مغرب والے تمام بحثیں کرتے ہیں، عورتوں کے موضوع پر اور دیگر موضوعات پر نظریہ پردازی کرتے ہیں لیکن کبھی خاندان اور کنبے کی بحث نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ اس مسئلے میں ان کا عیب سامنے آ جاتا ہے۔ وہ عورت کے مسئلے پر تو بات کرتے ہیں لیکن کبھی بھی خاندان کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لاتے۔ حالانکہ عورت، خاندان سے جدا نہیں ہے۔ لہذا اس مسئلے پر خاص توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔
آج کی نشست بھی بہت اچھی رہی۔ ہم نے احباب کی گفتگو سے بہت استفادہ کیا اور سب سے اہم بات جو ہماری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ عورت اور کنبے کے باب میں علمی لحاظ سے اور ماہرانہ تحقیق و بحث کے لحا‎ظ سے جن پہلوؤں پر کام کرنا باقی ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ کام اتنے زیادہ ہیں کہ بعض احباب نے جو مراکز کی تشکیل کی تجویز دی ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ واقعی ایسا ہونا چاہئے۔ البتہ ہم نے اپنے دفتر کے افراد سے، جناب واعظ زادہ اور دوسرے لوگوں سے عورت اور خاندان کے موضوع پر منعقد ہونے والی اس نشست کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں کے بارے میں پہلے ہی تبادلہ خیال کیا ہے اور بہت سی چیزیں ذہن میں ہیں۔ نظریہ پردازی کی سطح پر بھی انشاء اللہ سنجیدہ اقدامات انجام دیئے جائيں گے، اس موضوع کو عام کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے اور پھر اجرائی اقدامات بھی انجام دیئے جائيں گے۔ ویسے جب ایک مسئلہ معاشرے کی سطح پر رائج ہو جائے تو اس پر عملدرآمد کا مرحلہ دشوار نہیں رہ جاتا۔ یعنی وہ اعتراضات جو پارلیمنٹ، نگراں کونسل اور مجریہ کے تعلق سے اٹھائے جاتے ہیں وہ سب برطرف ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی موضوع معاشرے کی سطح پر عام ہوتا ہے تو وہ ہوا کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور لوگوں کی سانسوں میں شامل ہو جاتا ہے، خواہ سارے لوگ اس کی تفصیلات سے آگاہ ہوں یا نہ ہوں۔ بنابریں اس موضوع کی ترویج ہونا چاہئے اور اس ضمن میں ذرائع ابلاغ عامہ، علمائے کرام، بزرگ ہستیوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کا کردار بہت اہم اور نمایاں ہے۔
ہمیں اس میدان میں فکری و نظری خلاء کو پر کرنا ہے۔ توانائی کی حد تک تحقیقاتی اور مطالعاتی سرمایہ کاری لازمی ہے۔ ہم احباب کے مقالوں کا مطالعہ کرکے، جو خلاصے کی شکل میں یا مکمل مقالے کی شکل میں فراہم کئے گئے ہیں جن پر میں نے سرسری نظر بھی ڈالی ہے، اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو اس مسئلے میں تحقیق و مطالعے پر جہاں تک ممکن ہو سرمایہ کاری کرنا چاہئے۔
دوسرا مرحلہ ہے دنیا میں رائج نظریات اور افکار پر ان سے مرعوب ہوئے بغیر تنقیدی بحث کرنے کا۔ مرعوب ہوئے بغیر بحث کرنے کا معاملہ بہت اہم ہے۔ البتہ آج کی شب میں نے پہلے مقرر سے لیکر آخری مقرر تک سب کی گفتگو میں یہ خصوصیت دیکھی۔ میں نے باقاعدہ محسوس کیا کہ مغرب میں عورت اور خاص طور پر خاندان کے تعلق سے جو صورت حال ہے اس پر ناقدانہ انداز سے بحث کی گئی۔ البتہ آپ حضرات نے مغرب پر جو نکتہ چینی کی اس کا تعلق زیادہ تر خاندان کے مسئلے سے تھا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ عورت اور خاندان کے باب میں مغرب کی سب سے بڑی غلطی اور گناہ عورت کے بارے میں اس کا خاص نقطہ نگاہ ہے۔ اس چیز کو چند جملوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ عورت کی سب سے زیادہ توہین اور اس کے وقار کو مجروح کرنے میں مغربی پالیسیوں کا کردار ہے۔ یہی انتہا پسند فیمینسٹ بھی جو کئی سطحوں پر مشتمل ہیں، نادانستہ طور پر عورت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نادانستہ کا لفظ ہم حسن ظن کی بنا پر استعمال کر رہے ہیں، یعنی جو لوگ ان امور میں سرگرم عمل ہیں بظاہر انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ وہ کس چیز کا ارتکاب کر رہے ہیں؟! ممکن ہے کہ پس پردہ کچھ ارباب سیاست اور پالیسی ساز ایسے ہوں جو پوری آگاہی کے ساتھ یہ کام انجام دے رہے ہوں۔ چنانچہ صیہونزم کے پروٹوکول میں اس احتمال کے بارے میں بات کی گئي ہے۔ یعنی عورت کو تباہ کرکے رکھ دینا اور اسے مردوں کی شہوت کی تسکین کا سامان بنا دینا اس پروٹوکول کا حصہ ہے۔ اب ممکن ہے کہ کوئی اس پروٹوکول کے اعتبار اور صحت کے بارے میں سوال اٹھائے لیکن جب ہم صیہونزم اور اس سے وابستہ تشہیراتی نیٹ ورک کو دیکھتے ہیں تو یہی پاتے ہیں کہ یہی کام عملی طور پر انجام دیا جا رہا ہے۔ اب اگر یہ چیز ان کے لئے ناگزیر نہیں ہے تو بھی ایک پسندیدہ کام کی حیثیت سے اسے انجام دے رہے ہیں۔ بڑے التزام کے ساتھ یہ عمل وہ انجام دے رہے ہیں، عورتوں کی توہین کر رہے ہیں۔ یعنی رسم و رواج کو ایسی سمت دے دی ہے کہ کوئی اس کے خلاف طرز عمل اختیار کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ کوئی رسمی اجلاس ہو رہا ہے تو مرد کو رسمی لباس میں جانا ہے۔ کالر کے بٹن بند ہوں، آستین کے بٹن بند ہوں، ٹی شرٹ اور جینز پینٹ میں نہیں آنا ہے لیکن اسی اجلاس میں اگر خاتون موجود ہے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ جسم کے اہم حصے عریاں ہوں، اگر خاتون پورے لباس میں آ گئی تو یہ معیوب مانا جائے گا۔ اگر جسمانی کشش کو چھپا کر آئے تو قابل اعتراض بات ہو جائے گی، اگر میک اپ کے بغیر آئے تو قابل گرفت بات ہوگی، یہ طریقہ رائج ہو گیا ہے۔ اس پر وہ فخر بھی کرتے ہیں۔ مغرب میں، خاص طور پر امریکہ میں اور شمالی یورپ کے ملکوں میں ایسے اہم مراکز ہیں جہاں کام کرنے کے لئے شرط ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں جنسی کشش والے اعضاء کی نمائش کرے۔ اخبارات و جرائد میں اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں اور کسی کی پیشانی پر بل بھی نہیں پڑتے۔ یہ چیز عام ہو گئي ہے، رائج ہو گئی ہے۔ عورت پر اس سے بڑی کوئي ضرب ہو سکتی ہے؟! عورتوں کے لئے اس طرح کا ماڈل پیش کرنا عورتوں پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے، یہ میں خود ان کی عورتوں کی بات کر رہا ہوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ممالک کی عورتوں کی بات کر رہا ہوں، اپنے ملک کی عورتوں کی بات نہیں کر رہا ہوں، (یعنی وہ خود اپنی عورتوں کی مٹی پلید کر رہے ہیں)۔ اس غلط ماحول کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ مغرب عورت اور خاندان کے مسئلے میں بڑی گہری اور تاریک کھائی میں سرگرداں ہے۔ صرف خاندان کے مسئلے میں نہیں بلکہ عورت کی شخصیت کے مسئلے میں اور عورت کے تشخص کے مسئلے میں مغرب بڑی عجیب گمراہی اور انحطاط کا شکار ہے۔
ان امور کا جائزہ لیتے وقت ہمیں چاہئے کہ اپنے علمی سرمائے سے فائدہ اٹھائیں جس کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں ہے۔ عورت اور خاندان کے اسی مسئلے میں درجنوں نظریات استنباط کے ذریعے نکالے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں نظریہ پردازی کی جانی چاہئے، اسے باقاعدہ تھیوری کی شکل میں پیش کیا جانا چاہئے، اس کے مختلف پہلوؤں اور اجزاء پر گفتگو ہونا چاہئے۔ یہ درمیانہ مدت اور طویل مدت کے کام ہیں جنہیں لازمی طور پر انجام دیا جانا چاہئے۔ قرآن اور احادیث میں موجود اسلام کی خالص اور اعلی تعلیمات کو استنباط کے ذریعے نکالا جانا چاہئے، ان پر عمل ہونا چاہئے۔
میں نے کچھ چیزیں نوٹ کی ہیں لیکن وقت بھی کم ہے اور اس سے متعلق بہت سی باتیں بیان بھی کر دی گئي ہیں، لہذا میں ان باتوں کو دوہرانا نہیں چاہتا۔ جو چیزیں میں نے نوٹ کی ہیں ان میں سے جو بات میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عورت کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ بڑا توقیر آمیز اور غیر معمولی نقطہ نگاہ ہے۔ میری نظر میں عورتوں کے بہت سے مسائل اور مشکلات کی جڑ خاندانی مسائل ہیں کیونکہ عورت خاندان کا محور ہوتی ہے۔ ہمیں قوانین اور عادات و اطوار کا بہت بڑا خلاء نظر آتا ہے۔ بعض اوقات خواتین ہم سے رابطہ کرتی ہیں، ان میں پارلیمنٹ کی خواتین بھی ہوتی ہیں، دینی علوم کے مرکز کی خواتین بھی ہوتی ہیں۔ اسی طرح دوسرے مراکز کی خواتین ہوتی ہیں جو اپنی مشکلات بیان کرتی ہیں۔ یہ مشکلات بنیادی طور پر خاندان کی داخلی مشکلات سے متعلق ہوتی ہیں۔ اگر عورت کو کنبے کے اندر نفسیاتی اور ذہنی تحفظ حاصل ہو، اخلاقی سلامتی حاصل ہو، سکون حاصل ہو، چین کا ماحول میسر ہو، شوہر حقیقی معنی میں اس کا لباس ہو جیسے عورت اپنے شوہر کا لباس ہوتی ہے(ھن لباس لکم و انتم لباس لھن)، جس طرح قرآن نے کہا ہے ان کے درمیان الفت و محبت بھی ہو، اگر خاندان میں اس قانون و لھن مثل الذی علیھن، فرائض کی طرح حقوق کی بھی فراہمی (2) پر عمل ہو جو اصولی اور بنیادی چیزیں ہیں تو پھر خاندان کے باہر کی مشکلات کا سامنا کرنا عورت کے لئے آسان ہو جائے گا۔ وہ بآسانی ان پر قابو پا لے گی۔ اگر عورت اپنے آشیانے میں، اپنے محاذ کے اندر اپنی مشکلات سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئي تو بلا شبہ سماجی میدان میں بھی وہ مشکلات پر قابو پا لے گی۔
عورت کے سلسلے میں بھی اور خاندان کے تعلق سے بھی اسلام کی باتیں انتہائی پرکشش، اہم اور نمایاں ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام عورت اور مرد کے جنسیاتی فرق کو دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ اسلام پہلا درجہ انسانیت کو دیتا ہے جس میں جنسی بنیاد پر کوئي فرق نہیں ہے۔ خطاب انسان سے کیا گيا ہے۔ بیشک یہ ضرور کہا گيا ہے کہ یا ایھا الذین آمنوا یعنی اے ایمان لانے والو! مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، مونث صیغہ استعمال نہیں ہوا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس خطاب میں مرد کو عورت پر ترجیح دی گئي ہے۔ اس کی دوسری وجوہات ہیں جن سے ہم بخوبی واقف بھی ہیں۔ اب میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ زبان فارسی میں کثیر تعداد میں لوگوں کے لئے ہم مردم کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو مرد کے لفظ سے مشتق ہوا ہے۔ ہم کبھی نہیں کہتے زنم۔ انگریزی میں بھی ہیومن کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو مین سے بنا ہے۔ یہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ مردوں کے غلبے کی وجہ سے یہ اصطلاحات رائج ہوئی ہیں اور لغت میں مردوں نے یہ تصرف کیا ہے۔ نہیں، اس کی وجہ دوسری ہے۔ بہرحال خاندان کے معاملے میں مرد کی حیثیت چہرے کی ہوتی ہے، عورت خاندان کا اندرونی حصہ ہے۔ یا یوں کہیں کہ مرد بادام کا سخت چھلکا ہے اور عورت اس چھلکے کے اندر پایا جانے والا مغز۔ اس طرح کی مثالیں استعمال کی جاتی ہیں۔ مرد زیادہ ظاہر ہوتا ہے، اس کی خلقت ہی کچھ اسی انداز کی ہے، اللہ تعالی نے اسی ہدف کے تحت اسے پیدا کیا ہے، جبکہ عورت کو کسی اور کام کے لئے خلق فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد میں ظاہری اور نمائشی پہلو کو نمایاں رکھا گيا ہے، اس کی وجہ یہی خصوصیات ہیں، اس میں ترجیح اور برتری کی کوئي بات نہیں ہے۔
انسانوں کے بنیادی مسائل کا جہاں تک تعلق ہے تو ان میں مرد اور عورت کے مابین کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ آپ غور کیجئے! تقرب الی اللہ کی منزل میں حضرت فاطمہ زہرا، حضرت زینب کبری، حضرت مریم جیسی خواتین ہمیں نظر آتی ہیں جن کا رتبہ ہم جیسے افراد کے تصور سے بالاتر ہے۔ سورہ احزاب کی آیت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہی رہی ہو کہ عورت کے سلسلے میں زمانہ جاہلیت کے طرز فکر کو مٹانا مقصود تھا۔ «انّ المسلمين و المسلمات و المؤمنين و المؤمنات و القانتين و القانتات و الصّادقين و الصّادقات و الصّابرين و الصّابرات و الخاشعين و الخاشعات و المتصدّقين و المتصدّقات و الصّائمين و الصّائمات و الحافظين فروجهم و الحافظات و الذّاكرين الله كثيرا و الذّاكرات». اسلام سے ذکر تک ایک فاصلہ ہے، بتدریج طے ہونے والی ایک مسافت ہے۔ انسان اگر ان الفاظ پر غور کرے تو اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ «اعدّالله لهم مغفرة و اجرا عظيما».(3) یہاں خضوع و خشوع کرنے والے مرد اور عورت میں، صدقہ دینے والے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
سورہ آل عمران میں ربنا کے لفظ کے بعد کہا گیا ہے: «فاستجاب لهم ربّهم انّى لا اضيع عمل عامل منكم من ذكر او انثى بعضكم من بعض»(4) یعنی مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہی نہیں، ایک جگہ تو عصر جاہلیت کے اسی غلط تصور کو کچلنے کے لئے عورت کو مرد سے بالاتر قرار دیا گيا ہے۔ «ضرب الله مثلا للّذين كفروا امرأت نوح و امرأت لوط».(5) یعنی کفر کے مظہر کے طور پر ان دو عورتوں کو پیش کیا گيا ہے۔ «امرأت نوح و امرأت لوط». انہیں صرف عورتوں کا نمونہ قرار نہیں گيا ہے بلکہ کافر مرد اور عورت دونوں کا مظہر ٹھہرایا گيا ہے۔ «كانتا تحت عبدين من عبادنا صالحين فخانتاهما»(6) الی آخر. «و ضرب الله مثلا للّذين ءامنوا امرأت فرعون» اللہ تعالی نے اس آیت میں مومنین کے لئے بھی مظہر کے طور پر دو عورتوں کا نام لیا ہے۔ اب آپ ابتدائے تاریخ سے تا ابد غور کرتے جائيے! مومن انسانوں کی بشمول اولیاء، انبیاء، صالحین اور برگزیدہ شخصیات کے، کتنی بڑی تعداد ہے جو آئی اور گئی۔ جب ان کے لئے کسی نمونے اور مظہر کو پیش کرنا مقصود ہوا تو دو عورتوں کو پیش کیا گيا۔ ان میں ایک فرعون کی زوجہ ہیں۔ اذ قالت ربّ ابن لى عندك بيتا فى الجنّة و نجّنى من فرعون و عمله»(7) تا آخر - دوسری خاتون مادر عیسی حضرت مریم ہیں «و مريم ابنت عمران الّتى احصنت فرجها».(8) یہ بڑی ہی حیرت انگیز چیز ہے۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جنسی فرق کا مسئلہ ثانوی اور فروعی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فرق صرف زندگی کے روزمرہ کے کاموں میں ظاہر ہوتا ہے، اس کا بنی نوع بشر کی منزل کمال کی جانب پیش قدمی کے عمل میں کوئی اثر اور معنی و مفہوم نہیں ہے۔ دونوں کے کاموں کی نوعیت الگ الگ ہے۔ جهاد المرأة حسن التّبعّل»؛(9) عورت کا جہاد شوہر کے تئیں اچھی اطاعت شعاری ہے۔ یعنی اس جوان کے جہاد کا ثواب جو میدان جنگ میں گیا ہے اور جان ہتھیلی پر لئے لڑ رہا ہے، عورت کو اچھی شوہرداری کے عوض عطا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس عمل کی سختیاں اور زحمتیں جہاد سے کم نہیں ہیں۔ بلکہ شوہرداری اور شوہر کی اطاعت شعاری بڑی مشکل چیز ہے، مردوں کی جو توقعات ہوتی ہیں، ان کی جو بد مزاجی ہوتی ہے، ان کی جو کرخت آواز ہوتی ہے، ان کا جو بلند قد ہے، ان ساری چیزوں کے ساتھ عورت اگر گھر کے ماحول اور فضا میں محبت کی گرمی، اپنائیت کی شیرینی اور سکون و چین کی مٹھاس پیدا کرتی ہے تو یہ اس کا بہت بڑا فن اور کمال ہے۔ یہ واقعی ایک جہاد ہے۔ یہ اس جہاد اکبر کا ایک شعبہ ہے جو جہاد بالنفس کہلاتا ہے۔
خاندان اور کنبے کے موضوع کے تعلق سے بہت سی باتیں ہیں۔ زوجیت کا مسئلہ، ماں کے رول کا مسئلہ، ان چیزوں پر الگ الگ بحث ہونی چاہئے۔ عورت خاندان کے اندر زوجہ کا کردار ادا کرتی ہے، اگر وہ ماں نہیں ہے تب بھی یہ کردار اپنے آپ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ فرض کیجئے کہ کوئی عورت ماں نہیں بننا چاہتی یا کسی اور وجہ سے اس کے ہاں بچے کی پیدائش ممکن نہیں ہے تو بھی وہ بہرحال زوجہ ہے۔ زوجہ کے کردار کو بھی معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک مرد معاشرے میں تعمیری کردار کا حامل بنے تو گھر میں اس کی بیوی کا ایک اچھی زوجہ ہونا لازمی ہے ورنہ یہ مقصد پورا نہیں ہو سکے گا۔
ہم نے انقلابی تحریک کے دوران اور تحریک کے فتحیاب ہو جانے کے بعد کے ادوار میں اس کا باقاعدہ تجربہ کیا ہے۔ جن مردوں کی بیویاں جدوجہد میں ان کے ساتھ تھیں وہ تحریک میں بھی پائیدار رہے اور انقلاب آ جانے کے بعد بھی صحیح راستے پر قائم اور ثابت قدم رہے۔ البتہ اس کے برعکس بھی چند مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں میرے پاس عقد نکاح کے لئے آتے تھے اور میں عقد پڑھتا تھا، البتہ اب اس سعادت سے محروم ہوں، تو اس زمانے میں میں کہتا تھا کہ بہت سی خواتین ہیں جو اپنے شوہروں کو بہشتی بنا دیتی ہیں اور بہت سی خواتین اپنے شوہر کو اہل دوزخ میں شامل کرا دیتی ہیں۔ یہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ البتہ شوہر بھی بالکل ایسا ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ خاندان کے مسئلے میں مردوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ القصہ زوجہ کا کردار بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں کا کردار ہے، جس کے بارے میں تفصیل سے بحث ہوئی اور بہت سی باتیں بیان کی گئیں۔
جو موضوعات بہت زیادہ اٹھائے جاتے ہیں ان میں ایک عورتوں کی ملازمت کا معاملہ ہے۔ عورتوں کا ملازمت پیشہ ہونا ایسی چیزوں میں ہے جس سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ میں تو گوناگوں سماجی سرگرمیوں میں عورتوں کی شراکت کا قائل ہوں، خواہ وہ اقتصادی اور معاشی نوعیت کی سرگرمیاں ہوں، سیاسی نوعیت کی سرگرمیاں ہوں یا رفاہی اور انسان دوستانہ سرگرمیاں ہوں۔ ہمارا آدھا معاشرہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ کتنی اچھی بات ہے کہ ہم معاشرے کے اس نصف حصے سے ان مسائل میں مدد اور تعاون حاصل کر سکیں۔ البتہ دو تین بنیادی چیزیں ہیں جو ہرگز نظر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ ایک بنیادی چیز تو یہ ہے کہ یہ سرگرمیاں عورت کے اصلی فریضے یعنی زوجیت، کنبے کی ذمہ دار اور ماں کے کردار کو متاثر نہ کریں۔ ایسا ممکن بھی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایسے کچھ معاملے ہمارے سامنے آئے کی خواتین اس التزام کے ساتھ ملازمت کرتی تھیں۔ البتہ اس کے لئے انہیں کسی حد تک سختی اور جفاکشی برداشت کرنا پڑتی تھی۔ انہوں تعلیم بھی حاصل کی، پڑھایا بھی، گھر بھی سنبھالا، بچوں کی پرورش بھی کی، پال کر بڑا کیا۔ مختصر یہ کہ ہم خواتین کی اس طرح کی ملازمت اور روزگار سے اتفاق کرتے ہیں جو اس بنیادی مسئلے اور ذمہ داری پر حاوی نہ ہو جائے، اسے متاثر نہ کر دے۔ کیونکہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر آپ نے گھر میں اپنے بچے کی تربیت میں کوئی کوتاہی کی یا بچہ پیدا ہی نہ ہونے دیا، آپ نے اپنے انتہائی ظریف مامتا کے تاروں کو جو ریشم کے دھاگے سے بھی کہیں زیادہ نزاکت رکھتے ہیں اپنی انگلیوں سے اس ڈر کی خاطر نہ کھولا کہ کہیں جذباتیت کی شکار نہ ہو جائیں تو کوئی دوسرا انسان آپ کا یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔ نہ باپ یہ کام کر سکتا اور نہ ہی کوئی اور۔ یہ تو ماں کا کام ہے۔ یہ چیزیں ماں سے مختص ہیں۔ باہر جو آپ کی ملازمت ہے، اگر اسے آپ نے انجام نہ دیا تو دوسرے دس لوگ مل جائیں گے جو اسے انجام دے دیں گے۔ بنابریں ترجیح اس کام کو حاصل ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پہلے اسے انجام دینا ہے۔
یہاں اس سلسلے میں حکومت کی بھی ایک ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ جن خواتین نے کسی بھی وجہ سے یا کسی بھی ضرورت کے تحت کل وقتی یا جز وقتی ملازمت اختیار کی ہے ان کی مدد کرے کہ وہ گھر کے امور سنبھالنے اور بچوں کی پرورش کرنے کی فرصت پا سکیں۔ تعطیل کا بندوبست کرکے، ریٹائرمنٹ کے وقت میں کوئی اصلاح کرکے یا روزانہ کام کا دورانہ تبدیل کرکے، کسی صورت سے حکومت مدد کرے تا کہ یہ خاتون جو کسی وجہ سے ملازمت کر رہی ہے، اپنے کنبے کی ذمہ داری بھی بنحو احسن اٹھا سکے۔
دوسرا اہم مسئلہ محرم اور نامحرم کا ہے۔ اسلام میں یہ مسئلہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں بھی زیادہ تر چیزوں کا تعلق کنبے سے ہی ہے۔ یعنی اگر زوجہ اور شوہر دونوں کی نگاہیں پاک ہوں، دل صاف ہو، اس میں کوئی وسوسہ نہ ہو، گھر کا ماحول بڑا صحتمند اور محبت سے سرشار ہوگا، اس میں پیار کی گرمی ہوگی۔ اب اگر دفتر یا کارخانے میں دوسرے افراد بھی اسی طرح پاکیزہ نگاہوں اور صاف دل والے ہوئے تو وہاں کا ماحول بھی وہی محبت اور اپنائیت سے معمور ماحول ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر آنکھوں میں خیانت ہو، زبان میں دوغلاپن ہو، زوجیت کے تعلق سے وفاداری نہ ہو اور دل محبت سے خالی ہو تو دکھاوے کے لئے کتنی ہی کوشش کر لی جائے گھر میں سرد مہری کا ماحول رہے گا۔
میں نے آپ حضرات کے مقالوں میں پڑھا کہ یہی باہر جانا، یہی نوکری سے متعلق کام کبھی کبھی شک اور بدگمانی کا باعث بنتے ہیں۔ اب اگر شک پیدا ہو گیا تو خواہ اس کی کوئی صحیح وجہ ہو یا نہ ہو، اپنا اثر ضرور دکھائے گا۔ بندوق کی گولی کی مانند ہے جو نلی سے نکلی اور کسی کے سینے میں اتر گئی تو اس کی جان لے لیگی، اب گولی چلانے والے نے ارادتا ایسا کیا ہے یا اتفاقیہ طور پر گھوڑا دب گیا، گولی کو اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا۔ گولی یہ نہیں کہے گی کہ جس نے مجھے فائر کیا ہے چونکہ اس نے غیر ارادی طور پر ایسا کیا لہذا میں نشانہ بننے والے آدمی کا سینہ چاک نہیں کروں گی، گولی تو سینے کو پھاڑتی ہوئی نکل جائے گی۔ تو شک بھی اپنا کام کر جائے گا، چاہے اس کی بنیاد صحیح ہو یا محض وسواس کی بنا پر وجود میں آیا ہے اور بیجا وہم کے نتیجے میں یہ شک پیدا ہوا ہو۔
ایک اور اہم نکتہ شادی کا ہے۔ شادی کا خاص تقدس ہے ان ادیان کے نزدیک جن کے بارے میں میں نے پڑھا ہے۔ میں نے اس موضوع پر زیادہ تحقیق نہیں کی ہے۔ نامناسب نہیں ہے کہ جو لوگ اس موضوع پر تحقیقاتی کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ کام کریں۔ اکثر جگہوں پر شادی کی تقریب ایک مذہبی تقریب ہوتی ہے۔ عیسائی یہ تقریب کلیسا میں منعقد کرتے ہیں، یہودی اس تقریب کو اپنے کنائس میں منعقد کرتے ہیں، مسلمان مسجدوں میں تو نکاح نہیں کرتے تاہم اگر ممکن ہوتا ہے تو مقدس مذہبی مقامات پر شادی کرتے ہیں، یا مقدس دینی ایام میں یہ عمل مذہبی افراد کی مدد سے انجام دیتے ہیں۔ جب ایک مذہبی انسان آکر تقریب میں شریک ہوتا ہے تو دین کی باتیں بیان کرتا ہے۔ یہ بالکل دینی پہلو ہے۔ تو شادی میں ایک طرح کا تقدس پایا جاتا ہے، اس تقدس کو ختم نہیں ہونے دینا چاہئے۔ تقدس ختم ہوتا ہے انہیں برے رواجوں سے جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پھیل گئے ہیں۔ یہ مہر کی بڑی بڑی رقمیں طے کرنا، اس خیال کے تحت کہ اس سے ازدواجی زندگی کو تحفظ ملے گا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر مہر دینے سے انکار کرتا ہے، اسے جیل میں ڈالا جاتا ہے۔ ایک سال، دو سال جیل کاٹتا ہے۔ اس پورے قضیئے میں عورت کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگتا۔ اس کو کوئی فائدہ نہیں ملتا، اس کا گھر بکھر کر رہ جاتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا؛ ہم نے اپنی بیٹیوں، بہنوں اور ازواج کا عقد صرف اور صرف مہر السنۃ پر کیا ہے۔ اس کی یہی وجہ ہے۔ ورنہ اگر امام حسین علیہ السلام چاہتے تو ہزار دینار بھی مہر کی رقم رکھ دیتے۔ آپ کی مجبوری نہیں تھی کہ پانچ سو درہم پر ہی عقد پڑھتے۔ آپ بڑی رقم رکھ سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ مہر کی رقم کم رکھی۔
شادی کے یہ سرسام آور اخراجات، یہ فضول خرچی، یہ کئی کئی جشن! واقعی انسان سن کر کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے امور ہیں جن پر معاشرے کی سطح پر کام ہونا چاہئے۔ ذی اثر افراد، صاحب نفوذ خواتین، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، علمائے کرام بالخصوص نشریاتی ادارے آئي آر آئی بی کو چاہئے کہ اس سلسلے میں کام کریں۔ موجودہ صورت حال کو ختم کریں۔
مردوں کے کردار کے بارے میں بھی ایک نکتہ عرض کر دوں۔ خاندان کی بات ہوتی ہے تو بار بار عورت کے رول اور کردار کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عورت کنبے کا کلیدی اور محوری عنصر ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ خاندان میں مرد کا کوئی کردار اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ چہ غم قسم کے افراد، سرد مہری برتنے والے مرد، عیش و عشرت میں غرق رہنے والے مرد، گھر کے اندر عورتوں کی جفاکشی کی ناقدری کرنے والے مرد کنبے کی فضا کو بری طرح نقصان پہنچاتے ہیں۔ مرد کو قدرداں ہونا چاہئے، معاشرے کو قدرداں ہونا چاہئے۔ واقعی گھریلو خواتین کے کام کی اہمیت اور قدر و منزلت کا احساس ہونا چاہئے۔ یہ عورتیں بھی باہر جاکر ملازمت کر سکتی تھیں، ان میں بعض اعلی تعلیم حاصل کر سکتی تھیں اور بعض اعلی تعلیم یافتہ خواتین تھیں۔ میں نے اس طرح کی خواتین کو دیکھا ہے، جن کا یہ کہنا ہے ہم نے اپنے بچے کی پرورش کے لئے، اسے بہترین تربیت دینے کے لئے ملازمت کا خیال دل سے نکال دیا۔ اس خاتون نے ملازمت نہیں کی اور ملازمت کی وہ جگہ بھی خالی نہیں رہی، دوسرے افراد نے جاکر وہ کام انجام دیا۔ ایسی خاتون کی قدر کی جانی چاہئے۔ کچھ حاضرین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ان خواتین کا بھی بیمہ ہونا چاہئے، بالکل درست خیال ہے، ان کا بیمہ اور دیگر چیزیں بھی مد نظر رکھی جانی چاہئے۔
خاندان میں بچوں کا بھی کردار ہوتا ہے۔ کنبے کا ایک اہم ترین حصہ بچے ہیں۔ ان کا فریضہ والدین کا احترام کرنا ہے۔ یہ بحث بھی طولانی ہے۔
میں آپ تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس نشست سے میں مطمئین ہوں۔ الحمد للہ بہت اچھی نشست رہی۔ اللہ تعالی ہم سے راضی و خوشنود رہے اور آپ نے جو زحمتیں اٹھائي ہیں انہیں حضرت امام زمانہ علیہ السلام قبول فرمائیں۔ اس موضوع پر باقاعدہ کام ہو۔ عورت کے موضوع پر عالمی سطح کا کام انجام دینے کی تجویز بھی رکھی گئی، اس کے بارے میں گفتگو کرنے کا وقت نہیں بچا۔ میں نے اس تجویز کو دیکھا ہے، میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ عالمی مسائل کے سلسلے میں ایک خاتون نے گفتگو کی۔ عورتوں کے سلسلے میں عالمی سطح پر کام کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر دے۔ پالنے والے! اس جماعت پر اپنا لطف و کرم اور ہدایت و رحمت نازل فرما۔ ہم نے جو کچھ کہا اور جو بھی سنا اسے اپنے راستے کی گفت و شنید قرار دے۔ اے اللہ اسے قبول فرما۔ پالنے والے! تمام حاضرین پر، تمام ملت ایران پر اور اس شعبے میں کام کرنے والے حکام پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

1) توبه: 118
2) بقره: 228
3) احزاب: 35
4) آل‌عمران: 195
5) تحريم: 10
6) تحريم: 10
7) تحريم: 11
8) تحريم: 12
9) كافى، ج 5، ص 9