آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر بارہ دسمبر 2011 کو تیس دسمبر 2009 کے عظیم عوامی کارنامے کی سالگرہ کے پروگراموں کی مہتمم کمیٹی سے ملاقات میں فرمایا کہ تیس دسمبر سنہ 2009 کو عظیم الشان عوامی ریلیاں انقلاب کی ماہیت و شناخت یعنی عوام کے دلوں پر دین کی حکمرانی کی آئينہ تھیں۔ آپ نے عوام کی وسیع شراکت اور دینی جذبے کو تیس دسمبر کے عوامی کارنامے کے دو اہم عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ تیس دسمبر سنہ 2009 کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ عوام کی یہ یادگار اور پائيدار مہم انقلاب کے ابتدائي ایام کی مہم جیسی تھی اور یہ کوشش ہونا چاہئے کہ اس کارنامے کی سالگرہ کے موقعے پر ملت ایران کے اصلی پیغام یعنی دین کے زیر سایہ حرکت اور وعدہ الہی کے ایفاء کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلے عنصر یعنی مختلف میدانوں میں عوام کی وسیع شراکت کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا سب سے بڑا فن یہ تھا کہ آپ عوام کو میدان میں لائے۔ جہاں جہاں بھی عوام شجاعت و بصیرت اور ایمان کے مطابق عملی اقدام کے ساتھ میدان میں اترے تمام مشکلات اور بڑی سے بڑی رکاوٹیں عوامی عزم و ارادے کے سامنے ختم ہو گئیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی عوام معینہ ہدف اور نعرے نیز ایمان اور اس سے ہم آہنگ عملی اقدام کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے، یہ تمام قوموں کے لئے اہم ترین نسخہ ہے جس پر امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) نے عمل کیا اور ملت ایران بھی عظیم الشان امام خمینی پر بھرپور اعتماد کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر عمل پیرا رہی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلے میں تو برادران عزیز جناب جنتی صاحب اور کوآرڈینیٹر کمیٹی کے سرگرم ارکان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جن کے بارے میں بجا طور پر کہا گيا کہ ان برسوں میں انہوں نے جہاں کہیں بھی اپنا فریضہ دیکھا عوام کی رہنمائی کے لئے وارد میدان ہو گئے۔ البتہ ہم سب جانتے ہیں کہ لوگوں کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ عوام الناس کا سڑکوں پر نکل آنا، عظیم عوامی شراکت اور ان کا یہ اجتماعی پیکر جو ان کے چھلکتے جذبات کا آئینہ ہے۔ مختلف مواقع پر منجملہ گیارہ فروری (جشن انقلاب) یوم القدس اور حال کے دو برسوں سے تیس دسمبر کی ریلیوں میں نظر آنے والی یہ عظمت، سب اللہ تعالی کا کارنامہ ہے۔ دل اس کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ صرف تیس دسمبر اور اس جیسے مواقع پر دسیوں لاکھ لوگوں کی شراکت کی بات نہیں ہے بلکہ اگر کسی جگہ ایک ہزار لوگ بھی جمع ہو جاتے ہیں تو اس کا باقاعدہ انتظام کرنا پڑتا ہے۔ سپریم کونسل برائے تبلیغات نے واقعی یہ انتظامی ذمہ داری بخوبی نبھائی ہے۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اور ان احباب کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں جو ان امور میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔
تیس دسمبر سنہ دو ہزار نو کے قضیئے میں ایک اساسی نکتہ ہے جس کا تعلق انقلاب کے تشخص اور ماہیت سے ہے۔ یعنی وہی جذبہ جو اصلی انقلابی تحریک میں کارفرما تھا اور سنہ انیس سو اناسی کے جو بے نظیر عوامی جلوس نکلے تھے وہی سب کچھ تیس دسمبر دو ہزار نو کے قضیئے میں نظر آیا۔ یہی چیز دوسرے بھی متعدد معاملات میں نظر آئی لیکن تیس دسمبر کے واقعے میں یہ خصوصیت بہت نمایاں تھی۔ یہاں تک کہ بدخواہوں، خیر خواہوں، دشمنوں اور دوستوں کسی کے لئے بھی کسی شک و تردد کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ جذبہ کیا تھا؟ وہ دینداری کا جذبہ تھا جو لوگوں کے دلوں پر حکمفرما ہے۔ تو دو اہم عنصر ہیں جو بیک وقت نظر آتے ہیں۔ ایک عوامی عنصر ہے یعنی جس ملک اور جس سماج میں بھی عوام ہمت سے کام لیتے ہیں، بصیرت کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں، مشکلات پر غلبہ پا لیتے ہیں۔ یعنی جب عوام سامنے آ جائیں تو کہسار بھی اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے جسے اسلامی اور دیگر ممالک میں بہت سے سماجی امور کے ماہرین سمجھ نہیں سکے۔ ہم نے اس کا بھرپور ادراک کیا اور ہمارے عظیم الشان امام خمینی کا ایک بڑا اور بے مثال فن یہ بھی تھا۔
پندرہ بیس سال قبل میں نے ایک دفعہ استعمار مخالف سرگرمیاں انجام دینے والے ایک رہنما سے جو بہت شہرت یافتہ ہیں تاہم میں یہاں ان کا نام نہیں لینا چاہتا، یہی بات کہی۔ انہوں نے اس پر فوری عمل کیا۔ ہم نے ان کی یہ بات باقاعدہ محسوس کی۔ میں نے عرض کیا کہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی کا فن یہ تھا کہ آپ نے عوام کو میدان میں لا کھڑا کیا۔ عوام الناس اپنے جسم و جان سے آئے اپنے مطالبات اور اپنے اہداف پر ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ گئے۔ پھر تو ساری سیاسی و غیر سیاسی رکاوٹیں، قوموں کے امور پر مسلط استعماری طاقتیں سب پیچھے ہٹتی چلی گئیں۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ آج بھی دنیا کے جس خطے میں بھی قومیں میدان میں قدم رکھ رہی ہیں اور ان کے سامنے خاص ہدف اور ان کی زبانوں پر مخصوص نعرے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کے دلوں میں پختہ ایمان اور اس ایمان کی بنیاد پر عمل صالح کی دولت ہے، کوئی بھی رکاوٹ ان کی استقامت کو متزلزل کرنے پر قادر نہیں ہے۔ عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسلامی انقلاب کی تحریک میں اس نسخے پر عمل کیا۔ اللہ تعالی کی جانب سے ان کی تائید ہوئی، نتیجے کے طور پر ان کی زبان کو گہری تاثیر مل گئی اور آپ کی باتیں لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر گئیں۔ لوگ آپ کے راستے اور آپ کے ہدف کے معتقد ہو گئے اور اس عقیدے کی بنیاد پر انہوں نے اپنا فریضہ بھی پورا کیا۔ عمل صالح سے مراد یہی عمل ہے جو ایمان کی بنیاد پر انجام دیا جائے۔ یہاں ایسا کارنامہ وقوع پذیر ہوا کہ دنیا کے مبصرین ششدر رہ گئے، ان کے لئے یقین کرنا مشکل ہو گیا۔ مختصر یہ کہ اولین عنصر عوامی شراکت اور موجودگی کا عنصر ہے۔
دوسرا اہم عنصر عوام کے جذبہ ایمانی کا ہے۔ جذبہ ایمانی وہ معجز نما قوت ہے جو سب سے پہلے تو تمام عوام الناس کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیتی ہے اور پھر دوسرے مرحلے میں میدان عمل میں ان کے قدموں کو ثبات عطا کرتی ہے، تیسرے مرحلے میں تمام سختیوں اور دشواریوں کو آسان بنا دیتی ہے۔ کوئی اور جذبہ اس خصوصیت کا حامل نہیں ہے۔ دینی جذبہ ہمیں یہ تلقین کرتا ہے کہ اگر تم غالب آئے اور آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے تو فتحیاب کہلاؤ گے اور اگر قتل کر دیئے گئے تب بھی فاتح قرار پاؤگے، اگر قید کر لیئے گئے تب بھی جیت تمہاری ہی ہوگی کیونکہ تم نے اپنے فریضے پر عمل کیا ہے۔ جب کسی کے دل میں اس طرح کا عقیدہ اور ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے شکست کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا اور وہ پروقار انداز میں وارد میدان ہوتا ہے۔ یہی عنصر صدر اسلام میں ہمیں انتہائی کارساز نظر آتا ہے اور انقلاب میں بھی اس کا خاص اثر دکھائی دیتا ہے۔ تیس دسمبر سنہ دو ہزار نو کو بھی یہی جذبہ نمایاں طور پر نظر آیا۔ تیس دسمبر کا واقعہ اس جذبے کا ایک نمونہ تھا جو اسلامی انقلاب کی پوری تحریک پر حکمرفا رہا۔ یعنی عوام نے اپنے دینی فریضے کو محسوس کیا اور اور اسی فرض شناسی کی بنیاد پر عمل صالح انجام دیا۔ ان کا عمل صالح یہ تھا کہ وہ سڑک پر نکلے اور دنیا والوں کو بتا دیا کہ ایرانی قوم کیا ہے۔ عوام الناس نے یہ اقدام انجام دیا تو دشمن کی تشہیراتی یلغار، جس کا مقصد فتنہ پرور عناصر کو ایرانی قوم کے روپ میں پیش کرنا اور یہ تاثر عام کرنا تھا کہ ایرانی عوام اپنے انقلاب سے اور اپنے اسلامی نظام سے روگرداں ہو چکے ہیں، بے اثر ہوکر رہ گئی۔ یعنی عوام نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم یہ ہے۔ غیر ملکی مبصرین نے جب یہ منظر دیکھا تو بے ساختہ کہا کہ امام خمینی کی رحلت کے بعد یا شاید بعض نے یہ بھی کہا کہ آغاز انقلاب کے اجتماعات کے بعد اتنا بڑا اجتماع کبھی دیکھنے میں نہیں آیا جس میں یہ جوش و خروش ہو۔ تو تیس دسمبر سنہ 2009 کے واقعے کی یہ اہمیت اور حقیقت ہے۔ یہ بڑا باعظمت کارنامہ تھا، یہ بہت عظیم کام انجام پایا۔ جناب جنتی صاحب نے بجا فرمایا کہ سنہ دو ہزار نو کا فتنہ بس اتنا ہی نہیں تھا جو چند افراد نے سڑکوں پر برپا کیا۔ یہ ایک گہری سازش تھی، ایک مہلک وائرس پھیلانے کی کوشش تھی، خاص اہداف مد نظر رکھے گئے تھے اور اس کی وسیع پیمانے پر تیاری کی گئی تھی۔ بہت بڑے پیمانے پر اقدامات انجام دیئے گئے تھے اور بڑے خطرناک اہداف مد نظر تھے، یہ سازش سیاسی اور سیکورٹی کے اقدامات سے ناکام ہونے والی نہیں تھی۔ اس کے لئے عظیم عوامی تحریک کی ضرورت تھی اور یہ تحریک تیس دسمبر کے دن منظر عام پر نمایاں ہو گئی۔ عوام نے میدان میں اتر کر فتنہ گروں کی بساط لپیٹ دی۔ لہذا تیس دسمبر کا واقعہ ہماری تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ میں نے اس سال بھی کہا تھا، گزشتہ سال اور اس سے پہلے والے سال بھی میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ واقعہ آغاز انقلاب کے دور کے واقعات جیسا ہے۔ اس کو یاد رکھا جانا چاہئے۔ البتہ آپ حضرات جو اس تاریخی کارنامے کی سالگرہ کے پروگراموں کی منتظمہ کمیٹی کے ارکان ہیں، یہ کوشش کیجئے کہ اس کارنامے کی ماہیت نعروں کی نذر نہ ہو جائے۔ میں ایک بار پھر یہ بات دہراؤں گا کہ تشہیراتی امور کی کوآرڈینیٹنگ کمیٹی کا کام، امور کو نظم دینا ہے ورنہ اصلی کام تو خود عوام انجام دیتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ عوام الناس کو میدان عمل میں لانے والا خدا ہے یعنی وہی دینی جذبہ اور وہی توفیق و تائید الہی عوام کو میدان میں لاکھڑا کرتی ہے۔ تاہم اس کے لئے انتظامی امور پر توجہ دینے والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام آپ انجام دیں اور اب تک آپ نے بڑے شائستہ انداز میں انتظامی امور انجام دیئے ہیں۔ بہرحال آپ یہ کوشش کریں کہ نعروں کا پہلو غالب نہ آنے پائے۔ بیشک نعرے بہت ضروری ہیں، نعرے کا ہونا تو یقینی اور لازمی ہے، جوش و جذبہ اور تحرک و ہیجان ضروری ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ضروری ہے کہ نعروں کی گہرائی میں جو حقائق نہیں انہیں نمایاں کیا جائے، یعنی وہی اقدامات انجام دیئے جائیں جن کا میں نے ذکر کیا۔ اس دن ملت ایران کا پیغام کیا تھا اور آج کا پیغام کیا ہے؟ ملت ایران کی تحریک اور اس کی سمت کیا ہے؟ ہم دین کے زیر سایہ حرکت کرتے ہیں، اللہ تعالی اور مالک دین کی مدد و نصرت سے ہم آگے بڑھتے ہیں، ہمارا ہدف الہی اہداف کی تکمیل اور اسی مقصد کا حصول ہے جس کا دین نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے اور جسے بطور تحقہ انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی آپ یہ بھی خیال رکھئے کہ تیس دسمبر کے واقعے کی ایک اور بڑی خصوصیت عاشورا سے اس کا رشتہ ہے۔ یہ خصوصیت بھی اس واقعے کو آغاز انقلاب کے واقعات سے بہت قریب کر دیتی ہے۔ یعنی آغاز انقلاب کے واقعات کے دوران بھی ماہ محرم کی آمد ہوئی اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ یہ شمشیر پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔ یہ معمولی جملہ نہیں ہے۔ شمشیر پر خون کی فتح کا جملہ دہرانے کی ہمیں عادت سی ہو گئی ہے اور ہم بسا اوقات اس کی گہرائی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ شمشیر پر خون کو فتح حاصل ہوتی ہے، مظلوم کو ظالم پر غلبہ حاصل ہوتا ہے، مقتول قاتل کو مغلوب کر لیتا ہے، یہ وہ خصوصیت ہے جو عاشوراء میں بہت نمایاں ہے۔ امام خمینی نے سنہ انیس سو اناسی کے ماہ محرم میں یہ جملہ کہا تھا۔ تیس دسمبر سنہ دو ہزار نو کے واقعے میں بھی امام حسین علیہ السلام کا معاملہ در پیش ہوا، عاشوراء کا مسئلہ سامنے آیا۔ اگر روز عاشورا ان پست گروہوں کی وہ گھٹیا اور دردناک حرکتیں سامنے نہ آتیں تو یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ عظیم تحریک اس انداز سے وقوع پذیر ہوتی یا نہیں۔ تو یہاں بھی عاشوراء کا مسئلہ درمیان میں آیا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے۔ آپ کو ہمیشہ امام حسین علیہ السلام، عاشورا اور دین و ایمان کے زیر سایہ رکھے۔ آپ کو کامیابی عطا کرے۔

و السّلام عليكم و رحمة الله‌