بسماللّهالرّحمنالرّحيم
خوش آمدید کہتا ہوں تمام برادران و خواہرین عزیز کو۔ بحمد اللہ اس حسینیہ میں آج کا یہ جلسہ شہادت کی خوشبو، عزیز شہیدوں کی یادوں، عزیز جانبازوں (دفاع وطن میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سپاہیوں) کی شرکت اور شہدا اور جانبازوں کے اہل خانہ کی آمد سے معطر ہو گیا ہے۔ یہ حقیر اس قسم کے جلسوں اور نشستوں کی قدر و منزلت سے بخوبی واقف ہے۔ جہاں شہادت کا ذکر ہو، شہیدوں کو یاد کیا جا رہا ہو، شہیدوں کی باتیں بیان کی جا رہی ہوں، شہیدوں کی عظمت و جلالت کا تذکرہ ہو رہا ہو وہاں ہر انسان اور ہر دل جذبہ تعظیم سے لبریز ہو جاتا ہے، خود کو غیر اللہ کی ہر مدد و اعانت سے بے نیاز پاتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ تمام عزیزوں کو اپنے فضل و کرم کی نعمتوں سے بہرہ مند کرے، ہمارے عزیز شہیدوں کی ارواح طیبہ کو اسی طرح ہمارے ان شہیدوں کے امام (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو اپنے اولیائے خاص کے ساتھ محشور فرمائے۔
یہ ایام امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب ہیں۔ وہ ہستی جو تمام صاحب ایمان انسانوں بالخصوص نوجوانوں کے لئے بہترین اسوہ ہے۔ اس امام کے فضائل، علم و دانش، تقوی و طہارت، ورع و عصمت، دشمنوں کے مقابل بے مثال شجاعت اور سختیوں پر صبر و استقامت کی گواہی اپنے پرائے، معتقدین اور غیر معتقدین، موافقین و مخالفین سب دیتے ہیں۔ اس عطیم انسان نے، اس پرشکوہ ہستی نے جب شہادت پائی تو آپ کی عمر مبارک کل اٹھائیس سال کی تھی۔ تشیع کی مایہ ناز تاریخ میں اس طرح کی مثالیں کم نہیں ہیں۔ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کے والد ماجد اتنے فضائل اور بلند مقامات کے بعد بھی دشمنوں کی مجرمانہ حرکت اور زہر خورانی کا نشانہ بن کر جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ محض اٹھائیس سال کے تھے۔ اس طرح آپ نوجوانوں کے سامنے بہترین اسوہ ہیں۔ نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام جو جواد الائمہ سے ملقب ہیں پچیس سال کی عمر میں شہید کر دئے گئے اور گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اٹھائیس سال کی عمر میں اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ لیکن عظمت و کرامت کا یہ عالم ہے کہ صرف ہم آپ کے قصیدہ خواں نہیں بلکہ ان کے مخالفین اور اور دشمن بھی، آپ کو امام نہ ماننے والے افراد بھی اس کے معترف ہیں۔
ہمارے زمانے میں بھی جو واقعی ایک منفرد دور ہے، اسلامی جمہوری نظام کا یہ دور جو ہماری تاریخ میں واقعی استثنائی دور ہے، یہ زریں باب ہے۔ اس دور میں بھی انہیں شہداء نے جو آپ کے شناسا ہیں، آپ کے انہی عزیزوں نے، آپ کے انہی نوجوانوں نے خود کو بہترین نمونہ عمل کے طور پر متعارف کرایا۔ جو نوجوان بھی جوش و جذبے کے ساتھ اور مقدس و پاکیزہ ایمان کے ساتھ اپنے گھر سے، آغوش پدر و مادر سے، گرمی میں گھر کے اندر ٹھنڈی ہوا کی سہولیات اور سردی میں حرارت کے انتظامات سے، ہر عیش و آرام سے خود کو الگ کر لیتا ہے اور ان خونیں واقعات و لمحات کے قلب میں پہنچ جاتا ہے، اضطراب و وحشت کی اس فضا میں اتر جاتا ہے، جان ہتھیلی پر رکھی کہ اپنے فریضے پر خود کو قربان کر دے وہ بلا شبہ ایک نمونہ ہے، ایک اسوہ ہے۔ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے مجسم عظمتیں ہیں۔
ہمارے جیسے افراد جو اپنی عمر گزار چکے ہیں، بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کو دیکھ کر ایک قلبی طمانیت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن نوجوانوں کو اس روحی و قلبی لذت کے ساتھ ہی درس بھی ملتا ہے، نمونہ عمل ملتا ہے۔ ہمارے یہ شہید زندہ ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے کہ: «و لا تحسبنّ الّذين قتلوا فى سبيل اللّه امواتا بل احياء عند ربّهم يرزقون» (1) وہ اللہ کی بارگاہ میں ہیں، زندہ ہیں، ہماری دنیا ان کی نظروں کے سامنے ہے، واقعات و تغیرات پر ان کی نگاہ ہے اور انجام کی انہیں خبر ہے، وہ ہمارے اور آپ کے عمل کو دیکھتے ہیں۔ جب ہم راستہ چلتے وقت کسی پتھر سے ٹکرا جاتے ہیں، جب ہم صحیح راستہ تلاش کرنے میں مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں، گر پڑتے ہیں، حالات پر قابو نہیں رکھ پاتے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ جب ہم حالات کو سمجھ کر، کھلی آنکھوں کے ساتھ محکم قدم اٹھاتے ہیں، صحیح راستے پر آگے بڑھتے ہیں اور اپنے ہدف اور اپنی منزل سے قریب ہوتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے۔ جب ملت ایران کسی میدان کو سر کر لیتی ہے تو ان ارواح طیبہ پر مسرت چھا جاتی ہے۔ مگر جب خدا نخواستہ ہماری غفلتوں کے نتیجے میں، ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہماری قوم پیچھے رہ جائے، بنیادی اور عمومی مشکل پیش آ جائے تو وہ مضطرب ہو جاتے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ یہ دور جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور دشمن ہمارے خلاف وسیع پیمانے پر محاذ آرائی میں مصروف ہے اور بار بار شکست سے دوچار ہو رہا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے عزیز شہدا مسرور و شادماں ہیں۔ ایک قوم اس ہم آہنگی کے ساتھ، اس شکوہ و جلالت کے ساتھ، ان تمام سختیوں اور دشواریوں کے باوجود، اس خباثت آلود مخاصمت کے باوجود جب اتنی متانت سے حرکت کر رہی ہے، محکم قدم اٹھا رہی ہے، معینہ ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ خوش ہوں گے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روح مطہرہ مسرور ہوگی۔ یہ حقیقت کے خلاف کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔
آج دنیا کی تمام اقتصادی اور فوجی طاقتیں، تمام استکباری حکومتیں، تمام تسلط پسند حلقے، تمام خبیث گروہ، ایسے تمام افراد جن کے ہاتھ کہنیوں تک بے گناہ انسانوں کے خون سے سنے ہوئے ہیں، وہ عناصر جو قوموں سے دروغگوئی کرتے ہیں، وہ افراد جو اپنی جیبیں بھرنے کے لئے قوموں کا سرمایہ لوٹتے ہیں، یہ سب کے سب اسلامی جمہوریہ کے خلاف صف آرا ہیں، لام بند ہو گئے ہیں۔ کس مقصد کے تحت؟ اس قوم کے حصے بخرے کر دینے کے مقصد کے تحت، ملت ایران کو اس راستے سے ہٹانے کے لئے جس کی اس نے تعمیر کی ہے اور جو عالم اسلام میں بیداری کی عام لہر اٹھنے کا باعث بنا ہے۔ ابھی تو خیر شروعات ہے۔ انشاء اللہ مستقبل اور بھی تابناک و درخشاں ہیں۔ اگر امریکا، مغربی ممالک، بین الاقوامی صیہونزم، سرمایہ دار، صیہونزم سے وابستہ مفت خور یہودی، ملت ایران کو پسپائی اختیار کرنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لے جائیں تو وہ پوری دنیا کے سامنے سر اٹھا کر فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ دیکھئے ذرا اس قوم کا حال جو بہت آگے آگے رہنے کی کوشش کرتی تھی، ہم نے اسے ہوش میں لاکر اسے اس کی حد بتا دی۔ یہ ہے ان کا ہدف۔ ساری کوششیں اسی ہدف کے حصول کے لئے ہو رہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ بات وہ زبان پر نہیں لاتے تھے، پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے لیکن آج وہ صریحی طور پر اور اعلانیہ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم پابندیاں عائد کر رہے ہیں، آئل انڈسٹری پر پابندیاں، مرکزی بینک پر پابندیاں، فلاں چیز اور فلاں چیز پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے ایک کے بعد ایک قراردادیں منظور کروا رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ملت ایران تھک جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ملت ایران زیادہ شاداب، زیادہ محکم اور زیادہ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
اس سال بائیس بہمن (مطابق گیارہ فروری، جشن انقلاب)، اسلامی نظام کی حمایت میں عوام الناس کی عظیم ریلیاں، استکبار کے چہرے پر پڑنے والے طمانچے کی مانند تھیں۔ استکباری طاقتوں کی تمنا یہ ہے کہ سڑکوں پر اسلامی نظام کے مخالفین کا گروہ اتر آئے۔ وہ ایران کے سلسلے میں جو سازش رچ رہے تھے کہ عوام نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اس کے وہ خود شکار ہو گئے ہیں۔ آپ یورپی ممالک کو دیکھئے! یہ جو لوگ سڑکوں پر جمع ہو رہے ہیں، یہ لوگ جو نعرے لگا رہے ہیں، یہ لوگ جو شیشے توڑ رہے ہیں، یہ انہی نظاموں سے وابستہ عوام ہیں۔ جو برے خواب انہوں نے آپ کے لئے دیکھے تھے ان کی تعبیر انہیں اپنے ہاں نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران پر جو تیر چلایا تھا وہ خود ان کے اپنے جسم میں پیوست ہو گیا۔ یہ ملت ایران کی فتح ہے۔
آج ہم ہر شعبے میں خاص اسٹریٹیجک نقطہ نگاہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کسی شعبے میں، کہیں گوشہ و کنار میں کوئی کوتاہی ہو جائے لیکن عمومی طور پر ہماری وسیع البنیاد حرکت بلندیوں کی جانب جاری ہے اور ملت ایران نے دشمنوں کو ان کی سازشوں کے تعلق سے مطمئن اور خوش ہونے کا کبھی موقعہ نہیں دیا۔ دشمنوں نے کیا نہیں کیا؟! ہمارے نوجوانوں کو سڑکوں پر شہید کیا، ہمارے سائنسدانوں کو کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں، اپنے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کروایا، سیاسی اقدامات، تشہیراتی حربے، اقتصادی وسائل سب آزمائے، سیکورٹی کے حربے اپنائے، جاسوس بھیجے اور یہی سب وہ اب بھی کر رہے ہیں۔ بے پناہ رقم بھی خرچ کر رہے ہیں کہ کسی صورت سے ملت ایران کے عزم و ارادے کو توڑ دیا جائے۔ لیکن آپ غور کیجئے! ملت ایران آج ہمیشہ سے زیادہ پرعزم اور شاداب نظر آتی ہے۔ آج کا نوجوان اگر دس سال اور بیس سال قبل کے نوجوان سے زیادہ پرجوش اور پرعزم نہیں تو کمتر بھی نہیں ہے۔ یہ ملت ایران کی پیشرفت اور دشمنوں کی پسپائی کی علامت ہے۔ یہ کامیابی اللہ تعالی نے اس قوم کو عطا فرمائی ہے۔ یہی انتخابات، یہی لوگوں کا بیلٹ باکس پر جمع ہونا، یہ سب عوامی شراکت کے مظاہر اور عوامی اقتدار کی علامتیں ہیں۔ چھے مہینے بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے وہ انتخابات کے خلاف پرچار کر رہے ہیں، انواع و اقسام کے پرچار۔ اس ہدف کے تحت کہ عوام الناس کی دلچسپی ختم ہو جائے، اس مقصد کے تحت کہ پولنگ مراکز پر سناٹا رہے۔
پوری دنیا میں پرجوش انتخابات، تمام میدانوں میں قوم اور عوام کی زندہ دلی اور عزم و ارادے کا مظہر ہوتے ہیں۔ جہاں بھی عوام کی بھاری شراکت کے ساتھ انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے، وہاں کے بارے میں یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ عوام بیدار ہیں، زندہ ہیں اور اپنے نظام کے حامی و طرفدار ہیں۔ دشمن ملت ایران کی یہی خصوصیت سلب کر لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں، ہزاروں اور اگر نو ظہور انٹرنیٹ میڈیا کو بھی جوڑ لیں تو دسیوں لاکھ تشہیراتی ذرائع کو فعال کر دیا ہے کہ ملت ایران کے جوش و جذبے کو ختم کر دیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ عوام انتخابات میں شرکت نہیں کریں گے، کبھی کہتے ہیں کہ انتخابات کا بائیکاٹ ہوگا، کبھی کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی یقینی ہے، کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے ہیں۔ اس سب کا مقصد یہ ہے کہ عوام ووٹ نہ ڈالیں، لا تعلق ہو جائیں۔ لیکن جو چیز میں محسوس کر رہا ہوں اور لطف الہی سے جو قوی امکان ہے وہ یہ ہے کہ ملت ایران جمعے (2 مارچ 2012) کے روز ایک بار پھر میدان میں اترے گی اور استکبار کے منہ پر اور بھی زوردار طمانچہ رسید کرے گی۔
نصرت الہی آپ کے ساتھ ہے، ہمارے دلوں اور ارواح کی ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے. «ازمّة الأمور كلّا بيده»؛ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب قوم اور عوام کے دل، حکام کے دل، ہمدرد افراد کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہوں تو وہ راستے کو آسان کر دیتا ہے، سفر کو آسان بنا دیتا ہے، بند راستے بھی کھول دیتا ہے، توفیقات عنایت فرماتا ہے۔ انشاء اللہ یہ توفیقات ملت ایران کا مقدر بنیں گی۔
حقیقت میں الیکشن اس قوم کے دشمنوں کے چہرے پر پڑنے والا طمانچہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام بھرپور شرکت کریں اور یہ بھی بہت زیادہ اہم بات ہے کہ بالیاقت و با صلاحیت امیدوار کو ووٹ دیں۔ یہ دونوں ہی چیزیں بہت اہم ہیں۔ لیکن شراکت کی اہمیت پہلے نمبر کی ہے۔ عوام کی شرکت جتنی زیادہ پرشکوہ ہوگی، مجلس شورائے اسلامی کے لئے عوامی پشتپناہی بھی اتنی ہی مضبوط سمجھی جائے گی، پارلیمنٹ بھی اتنی ہی زیادہ مضبوط، توانا اور شجاع ہوگی۔ پارلیمنٹ عوام کی آواز پوری وضاحت کے ساتھ دنیا والوں کے کانوں تک پہنچا سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں شرکت بہت اہم ہے، اس کی بڑی عظمت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس دفعہ کے انتخابات کی حساسیت اور اہمیت گزشتہ انتخابات سے زیادہ ہے۔ کیونکہ آپ ایرانی عوام کے خلاف استکبار کے ترکش کے تیر ختم ہو چکے ہیں۔ اس سے جہاں تک بن پڑا اس نے ضرب لگانے کی کوشش کی، جہاں تک ان کی عقل کام کر سکتی تھی انہوں نے اقدامات انجام دئے۔ اب یہ آخری تیر ہیں جو وہ چلا رہے ہیں۔ استقامت کے ساتھ سامنا کرنے کی ضرورت ہے، توفیق الہی اور فضل الہی سے اپنے عزم و ارادے کا شاندار مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ دشمن کو ایک بار پھر یہ پیغام مل جائے کہ اس قوم کا سامنا کرنے کی جرئت اس کے پاس نہیں ہے۔
اللہ آپ سب کو نیکیاں عطا کرے، آپ ایرانی عوام پر، آپ عزیز نوجوانوں پر اپنی برکتیں نازل فرمائے۔ میں آپ سب کا ایک بار پھر خیر مقدم کرتا ہوں، خاص طور پر شہدا کے عزیز خاندانوں کو اور عزیز جانبازوں اور ان کے اہل حانہ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھے۔
1) آلعمران: 169