قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے دوسرے مرحلے کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی عوام جمعے کو ایک بار پھر میدان میں اتر کر اپنی مثالی ہوشیاری، بصیرت اور موقعہ شناسی کا مظاہرہ کریں گے۔
یوم استاد کی مناسبت سے ملاقات کے لئے ملک بھر سے آنے والے اساتذہ سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے یوم استاد کی مبارک باد پیش کی اور استاد آیت اللہ مطہری شہید کو یاد کیا جن کی شہادت کے دن کو ایران میں یوم استاد کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ استاد کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ بے پناہ صلاحیت و استعداد اور احساسات و جذبات کے حامل افراد اسے سونپے جاتے ہیں اور استاد کی محنت اور تخلیقی صلاحیت ان بچوں اور نوجوانوں کو نامور مفکر، صالح انسان اور دانا و توانا فرد میں تبدیل کر سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تعلیم و تربیت کے شعبے میں بنیادی تبدیلی کی اس دستاویز پر عملدرآمد کے لئے صحیح منصوبہ بندی، روڈ میپ کی تدوین اور اس پر باریک بینی کے ساتھ عمل آوری ضروری ہے، یہاں تک کہ معینہ اہداف تک رسائی حاصل ہو جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں تعلیم و تربیت کے شعبے کی حیاتی اہمیت کا ذکر کیا اور نوجوان نسل کی صحیح تربیت اور معاشرے میں اخلاقی خوبیوں کی ترویج میں اس کی بنیادی حیثیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کو چاہئے کہ بچوں اور نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل متعارف کرائے اور بچوں اور نوجوانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل شہداء ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں نویں پارلیمنٹ کے انتخابات کے دوسرے مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی قوم نے ہمیشہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ اور بروقت اقدام کیا ہے جس کی نمایاں مثال اسفند کے مہینے (فروری-مارچ) میں پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں عوام کی وسیع اور درخشاں شرکت ہے، عوام کی اس موقعہ شناسی نے اپنا اثر بھی دکھایا۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول ابھی پارلیمانی انتخابات کا عمل پوری طرح مکمل نہیں ہوا ہے چنانچہ ملت ایران جمعہ چار مئی کو ایک اور بڑا قدم اٹھائے گی اور پولنگ مراکز پر پہنچ کر نویں پارلیمنٹ کا کام مکمل کرے گی اور دنیا کے سامنے ایک بار پھر اپنی موقعہ شناسی کا ثبوت پیش کرے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے موجودہ حالات میں قوموں کو چاہئے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے پوری ہوشیاری کے ساتھ میدان میں ڈٹی رہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے لطف سے ملت ایران میدان میں موجود ہے اور بصیرت و موقعہ شناسی سے کام لے رہی ہے، اسے اپنے دشمن کی پوری شناخت ہے چنانچہ اس کے ریاکارانہ اظہار دوستی کے فریب میں آنے والی نہیں ہے۔
بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

بردران و خواہران عزیز، معزز اساتذہ کرام اور اس قوم کے فرزندان محترم! خوش آمدید۔ اپنے معروضات کی ابتدا میں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ عظیم الشان ہستی مرتضی مطہری شہید کو خراج عقیدت پیش کروں۔ کیونکہ یہ جلیل القدر ہستی ایک استاد کے طور پر جانی جاتی ہے، ہر فکری سطح کے لوگوں کے استاد کے طور پر، جن کی کارکردگی اور خدمات انتہائی اثرانگیز اور پائیدار ہیں۔ آپ کی خدمات کی حقانیت پر آپ کے خون کی مہر لگی۔ (یعنی اسی مشن کی راہ میں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا)۔ ان بزرگوار کا نام ملک کے اساتذہ کو دی جانے والی توصیفی سند میں رقم کیا گیا ہے جو بہت مناسب فیصلہ تھا۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اس عظیم الشان ہستی پر۔
اس نشست کا اصلی ہدف آپ معزز اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ تعلیم و تربیت، ادارے، انتظامی امور، صورت و مندرجات اور دیگر چیزوں سے متعلق میرے کچھ معروضات ہیں جو میں اس سے پہلے بھی پیش کر چکا ہوں اور آئندہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا۔ ہم نے یوم استاد کی مناسبت سے سالانہ نشست کا اہتمام کیا ہے جس سے یہ پیغام دینا، یہ ثابت کرنا ہے اور یہ اعلان کرنا مقصود ہے کہ ہم استاد کے لئے بہت بلند مقام اور اعلی مرتبے کے قائل ہیں۔ حقیقت حال بھی یہی ہے اور یہ عمل بہت مناسب اور بجا بھی ہے۔ استاد کی قدر و قیمت میں اضافہ کرنے والی چند چیزیں ہیں۔ ایک چیز تو یہی ہے کہ استاد کے ہاتھ میں جو سادہ کاغذ اور خام مال دیا گیا ہے اور جسے وہ اپنی کاوشوں اور محنتوں سے ایک شاہکار اور بہترین تخلیق میں تبدیل کر رہا ہے، وہ کوئی بے جان مادہ نہیں ہے، یہ ایک انسان ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ کبھی کوئی شخص ایک جامد مادے کو اپنی ہنرمندی، اپنی عرق ریزی اور گھنٹوں کی اپنی جفاکشی سے بہترین اور مطلوبہ شئے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں جو خام مال ہے وہ ایک انسان ہے، اپنی جملہ استعدادوں کے ساتھ، اپنے جذبات و احساسات کے ساتھ اور اپنی بے پناہ توانائیوں کے ساتھ جو ایک انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ہمارے اختیار میں آج جو بچہ ہے ممکن ہے کل عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ جیسی ہستی میں تبدیل ہو جائے، ممکن ہے کہ معاشرے کا عظیم مصلح بن کر ابھرے، ممکن ہے بڑا سائنسداں بن جائے، ممکن ہے کہ ایک نیکوکار انسان بنے۔ استاد کے حوالے کئے جانے والے بچوں میں یہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ استعداد اور صلاحیت عملی شکل اختیار کرے۔ آپ غور کیجئے! یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے؟ میری خصوصی سفارش عوام الناس کے لئے ہے، سماج کے مختلف طبقات کے لئے ہے کہ معلم کی قدر و قیمت کو سمجھیں، استاد کے بلند مقام کو پہچانیں۔
خود اساتید محترم کو بھی چاہئے کہ اپنے اعلی مقام، عظیم ذمہ داری اور فریضے کا کما حقہ ادراک کریں، اپنی قدر و منزلت کو سمجھیں، اس حقیقت کا ادراک کریں کہ اگر انہوں نے صحیح عزم و حوصلے کے ساتھ، خالصانہ نیت کے ساتھ، مناسب روش کے تحت محنت کی تو معاشرے کی قدر و قیمت میں کتنا اضافہ ہو گا؟! یہ ثمرہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ انتہائی غیر معمولی ثمرہ ہے۔ ایک عظیم، صالح، صلاحیت مند اور دانا انسان کی تربیت کتنا عظیم عمل ہے؟! اتنے سارے افراد جو اساتذہ کو تعلیم و تربیت کے لئے سونپے جاتے ہیں ان میں کوئی ایک طالب علم ایسا بھی ہوتا ہے جو پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیتا ہے لیکن یہی طالب علم اگر مناسب تربیت سے محروم رہ جائے تو ممکن ہے کہ ہٹلر بن کر ابھرے، چنگیز خاں بن جائے، امر واقعہ یہ ہے۔ استاد کے طریق کار، اس کی روش، سعی و کوشش، جذبہ ہمدردی، صحیح طر‌ز فکر اور درست کارکردگی کی اہمیت کا راز یہ ہے۔ میں تعلیم و تربیت کے شعبے اور ادارے سے بھی یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ اساتذہ اسی ادارے کے پروگراموں اور اصول و ضوابط کے تحت کام کرتے ہیں، اسی کی ہدایات کے مطابق تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لہذا عوام الناس، اساتذہ اور متعلقہ شعبے سب کو چاہئے کہ استاد کی اہمیت کو ہرگز فراموش نہ کریں۔ استاد وہ فنکار ہے، ایسا ہنرمند ہے، وہ کامل فن شخص ہے جو عالم ہستی کی سب سے برتر مخلوق اور سب سے عظیم خام مال کو بہترین شاہکار میں تبدیل کرتا ہے، جس سے سب فیضیاب ہوتے ہیں۔ بنابریں ہماری اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ ہر سال منعقد ہونے والی یہ نشست اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ہے۔ ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ اساتذہ کرام کے لئے اتنے عظیم مقام و مرتبے کے قائل ہیں۔ اگر استاد اپنے فریضے پر بنحو احسن عمل کرے، اپنا کام درست طریقے سے انجام دے، تدبیر و تدبر سے کام لے، ہمدردانہ جذبے کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو ہمارا خیال ہے کہ معاشرے کی تمام مشکلات کا حل آسان ہو جائے گا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسکول کے باہر ہمارے نوجوانوں کی تربیت میں موثر واقع ہونے والے عوامل نہیں پائے جاتے۔ کیوں نہیں، بالکل پائے جاتے ہیں۔ خاندان اور کنبے کا بھی گہرا اثر پڑتا ہے، میڈیا کا بھی گہرا اثر پڑتا ہے، معاشرے کی کلی فضا بھی موثر واقع ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک و تردد نہیں۔ لیکن اصلی معمار، وہ اصلی فنکار ہاتھ جس سے بہترین فن پارہ وجود میں آتا ہے اور جس کی وجہ سے اسکول سے باہر کے یہ عوامل اپنا اثر کھو دیتے ہیں، یہی استاد ہے۔ استاد کی اہمیت کا یہ عالم ہے۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کے عمل کا ثواب اور حسنات بہت زیادہ ہیں۔ آپ جب کلاس کے اندر اس تعلیمی ماحول میں کسی نوجوان اور کسی بچے سے روبرو ہوتے ہیں تو یقین رکھئے کہ اس گھڑی اعمال بندگان کا حساب کتاب رکھنے والے فرشتے کرام الکاتبین آپ کے ایک ایک لمحے کے اعتبار سے آپ کی نیکیاں لکھتے ہیں۔ یہ کتنا سنہری موقعہ ہے کہ انسان کا پیشہ اور روزگار ایسا ہو کہ اس کا ہر لمحہ عبادت میں تبدیل ہو سکتا ہو۔ اس عظیم مقام و منزلت کے ساتھ ہی جس کا میں نے ذکر کیا ایک اور اہم نکتہ بھی ہے جس سے اس پیشے اور فریضے کی اہمیت ثابت ہوتی ہے، وہ نکتہ استاد کی اس زحمت سے متعلق ہے جو استاد کو اٹھانی پڑتی ہے۔ درس کی کلاس میں، تدریس کی اس فضا میں اساتذہ کو بچوں اور نوجوانوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے۔ جن کے مزاج مختلف ہوتے ہیں، احساسات و جذبات مختلف ہوتے ہیں، ان میں نوجوانی کا ہیجان ہوتا ہے، استاد یہ سب کچھ برداشت کرتا ہے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے، اس سے استاد کی منزلت میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بنابریں یوم استاد بہت مبارک دن ہے۔ اللہ یہ دن تمام اساتذہ کے لئے بابرکت قرار دے اور ملت ایران کو بھی اس کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے۔
ایک اور اہم نکتہ تعلیم و تربیت کے تعلق سے ہے۔ تعلیم و تربیت کا ادارہ ملک گیر سطح کا وسیع ادارہ ہے۔ ملک اور انقلاب کو جو بہترین چیزیں حاصل ہوئی ہیں ان میں ایک تعلیم و تربیت کا ادارہ ہے۔ شعبہ تعلیم و تربیت کے آپ عہدیداروں کے پاس کئی ملین افراد پر مشتمل نیٹ ورک ہے جس کے تار ملک کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بالکل جسم میں خون کی رگوں کے نیٹ ورک کی مانند ہے۔ یہ ادارہ شہروں اور قریوں کی اندرونی تہوں تک پھیلا ہوا ہے۔ خاص طور پر اسلامی انقلاب کے بعد ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہوگا جہاں تعلیم و تربیت کے ادارے کی رسائی نہ ہوئی ہو۔ تعلیم و تربیت کا ادارہ بہت عظیم ادارہ ہے۔ ہمارے پاس اتنا وسیع اور تمام افراد تک پہنچ رکھنے والا ایسا کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہے۔ لوگ آتے ہیں اور اپنے نونہالوں کو رغبت و چاہت کے ساتھ آرزوؤں اور امنگوں کے ساتھ اس ادارے کو سونپتے ہیں۔ یہ ادارہ بڑے عظیم کاموں کا ذمہ دار ہے۔ اس ادارے کو جو مواقع فراہم کئے گئے ہیں ان سے اس کی ذمہ داری اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔ میں سنگین ذمہ داریوں کے نکتے پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا۔ جیسا کہ وزیر محترم نے فرمایا ہے اور حقیر کو بھی اس کی اطلاع ہے کہ وزارت تعلیم و تربیت کی سطح پر بڑی مستحسن کوششیں انجام دی جا رہی ہیں۔ وقت نکال کر اہم کام انجام دئے جا رہے ہیں، اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں، کام مکمل کئے جاتے ہیں، تبادلہ خیال کا سلسلہ رہتا ہے، اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، ہم ان کوششوں اور کاوشوں کی قدردانی کرتے ہیں۔ تاہم آپ کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس شعبے کی کارکردگی کی عظمت اس درجہ ہے کہ جتنی بھی محنت کی جائے کم ہے۔ کسی مقام پر بھی پہنچ کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب کام مکمل ہو گیا۔
ہم نے پہلے بھی تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلی کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ ایک عرصہ سے میں اساتذہ، شعبہ تعلیم کے عہدیداروں، سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے ذمہ داروں اور دیگر متعلقہ افراد سے ملاقاتوں میں میں بار بار اس کا اعادہ کرتا رہتا ہوں۔ خوش قسمتی سے اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا ہے اور بنیادی تبدیلی کی دستاویز تدوین اور منظوری کے مراحل سے گزری۔ آج تعلیم و تربیت کے شعبے کے پاس ایک تحریری دستاویز موجود ہے جس میں شعبہ تعلیم و تربیت میں بنیادی تبدیلیوں کی روش کا تعین کیا گيا ہے۔ یعنی یہ کہ کام کا ایک حصہ مکمل ہو گیا ہے۔ تاہم یہ سند اور دستاویز ڈاکٹر کے نسخے کی مانند ہے۔ جب ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اس کی فیس بھی ادا کرتے ہیں، ڈاکٹر بخوبی معائنہ کرتا ہے اور ایک نسخہ لکھ کر ہمیں دے دیتا ہے۔ ہم اس نسخے کو اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں اور گھر پہنچ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ معالجے کا کام پورا ہو گیا۔ تو اس میں اور ڈاکٹر کے پاس سرے سے نہ جانے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نے تھوڑا سا راستہ طے کر لیا اور کچھ پیسے خرچ کر دیئے۔ ضروری ہے کہ دوا خریدی جائے اور اسے استعمال کیا جائے۔ اس نسخے میں لکھا ہے کہ کس دوا کو کس مقدار میں کتنی دفعہ کھانا ہے۔ ہمیں اس کی تعمیل کرنا چاہئے۔ اگر ہم نے اس پر عمل نہ کیا تو ڈاکٹر کے پاس جانا اور دواؤں کا نسخہ لکھوانا عبث ہوگا۔ آج ہمارے پاس تعلیم و تربیت کے شعبے کی بنیادی تبدیلی کی سند تیار ہے۔ یہ ایک نسخہ ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ درست منصوبہ بندی کے ذریعے اس سند اور دستاویز کی ایک ایک شق پر عمل کیا جائے کیونکہ یہ ظاہری شکل اور پیرائے کی تبدیلی کا معاملہ نہیں بلکہ بنیادی تبدیلی کا قضیہ ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام ہمیں باہر سے ملا تھا، اس کے پس پردہ کچھ اہداف مضمر تھے۔ ہم نے برسوں اس کے مطابق کام کیا۔ اگر یہ نظام ہمارا اپنا بھی ہوتا، ہمارے یہاں مقامی طور پر تیار کیا گیا ہوتا تب بھی اتنے سال گزر جانے کے بعد انسان کو اس میں کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور نظر آتیں، اس کی اصلاح کی ضرورت پیش آتی۔ بنابریں بنیادی تبدیلی ایک ضروری کام ہے۔ اگر ہم تعلیم و تربیت میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، یہ بجٹ جو آپ خرچ کر رہے ہیں، یہ وقت جو آپ صرف کر رہے ہیں، ملک بھر میں بچوں کی تعلیم کے لئے بڑے پیمانے پر اساتذہ کا جو بندوبست کیا جاتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس کی تاثیر اور اس کے ثمرات میں کئی گنا کا اضافہ ہو، وسائل اور بجٹ کا درست استعمال ہو تو یہ بنیادی تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس تبدیلی کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تبدیلی کی اس سند کے مطابق ایک ایک قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایک نقشہ راہ ضروری ہے۔ یہ درست نہیں کہ آج کوئی عہدیدار، کوئی وزیر، کوئی ذمہ دار شخص کسی شعبے کے سلسلے میں ایک فیصلہ کرے اور کل دوسرا عہدیدار آئے تو اپنی پسند کے مطابق دوسرا فیصلہ کرے اور پہلے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ یہ وقت اور ملک کی افرادی قوت کا ضیاع ہے۔ یہ بنیادی نکتہ ہے۔ اس بنیادی تبدیلی کے لئے درست اور محکم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ روڈ میپ ضروری ہے۔ اسے سب تسلیم کریں، سب کی تائید حاصل کی جائے، سب کی حمایت ہو اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ آخری منزل تک رسائی حاصل کرنے تک اسی منصوبے کے مطابق عمل کرے گا۔ یہاں ایک اور اہم سفارش یہ ہے کہ کام کو ادھورا نہ چھوڑا جائے۔ اس کا تعلق ایک لحاظ سے اسی پہلے نکتے سے ہے۔ کام ادھورا نہ چھوڑا جائے، اسے آخری منزل تک پہنچایا جائے۔ ورنہ اگر ایک کام شروع کیا جائے، اس کی خوب پبلیسٹی ہو، کچھ لوگ اس پر خوش ہیں اور بعض دیگر تنقید کر رہے ہیں، پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے، سب ٹھنڈے پڑ جائیں اور نتیجتا کام بیچ میں ہی رک جائے۔ ایسی صورت میں اس مہم کو نقصان پہنچے گا۔ یہ بات میں تمام عہدیداروں سے عرض کر رہا ہوں، مختلف وزارتوں کے حکام سے میری اس سلسلے میں خاص سفارش ہے اور صوبوں اور شہروں کے عہدیداروں سے میرا خصوصی خطاب ہے۔
کتاب کا مسئلہ بہت اہم ہے، منصوبہ بندی کا مسئلہ بہت اہم ہے، اصول و ضوابط کا مسئلہ بہت اہم ہے اور استاد کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اساتذہ کی کارکردگی کی افادیت بڑھانے کے لئے ٹریننگ کی ضرورت ہے، تربیتی ورکشاپ کی ضرورت ہے جو بنیادی کاموں میں شمار ہوتے ہیں تو اس کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔
ان جملہ باتوں سے میں تعلیم و تربیت کے شعبے کی اہمیت کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر انسان ملکی امور کی، ان شعبوں کی اور ملک کے مخلفت محکموں کی تقسیم بندی کرے اور اہمیت و افادیت کے اعتبار سے ان کے مقامات کا تعین کرنا چاہے تو سر فہرست قرار پانے والے شعبوں میں تعلیم و تربیت کا شعبہ ہوگا۔ ہمارے نوجوان کا انحصار تعلیم و تربیت پر ہے، ہمارے اخلاقیات کا دارومدار تعلیم و تربیت پر ہے۔ کچھ لوگ اس پر بہت واویلا کرتے ہیں کہ اخلاقی لحاظ سے ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ بیشک یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ اخلاقی شعبے میں پیشرفت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لازمی شرائط میں ایک یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہو۔ بعض افراد اپنی رفتار سے، اپنی کارکردگی سے، اپنے بیانوں سے نوجوانوں کی نظر میں منفی نمونے کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ بنابریں اچھے نمونہ عمل اور آئیڈیل کا تعین بنیادی کام ہے۔ اچھے آئیڈیل ہمارے پاس کم نہیں ہیں۔ تاریخ کی تو بات چھوڑئے، خود ہمارے اس زمانے میں بھی اتنے نورانی چہرے، اتنے ممتاز نوجوان ہیں کہ بس ان کا تعارف کراکے نوجوانوں کے سامنے بہترین نمونہ عمل اور بہترین آئیڈیل پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسے نوجوان تھے جو اپنے پیشروؤں پر بھی سبقت لے گئے۔ ایسے نوجوان جو میرے یا مجھ جیسے دیگر افراد کے درس میں شریک ہوتے تھے لیکن آج ہم سے سو قدم آگے جا چکے ہیں۔ ہم نے وعدہ کیا لیکن انہوں نے جامہ عمل پہنایا، ہم نے بتایا مگر انہوں نے عمل کرکے دکھایا، ہم خود مقام عمل میں پیچھے رہ گئے۔ ان نوجوانوں میں، ان شہداء میں کتنے ایسے تھے جنہوں نے ہم جیسے افراد سے کچھ باتیں سیکھیں مگر وہ پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہوئے، انہوں نے ملک کے وقار کو بڑھایا اور اللہ کی بارگاہ میں زیادہ سرخرو ہوئے۔ کیونکہ : «چرا كه وعده تو كردى و او بجا آورد»؛(1)
ہم نے وعدے کئے اور انہوں نے عملی اقدام کیا۔ ہمارے پاس کتنے آئیڈیل نوجوان ہیں؟! انہیں نوجوان نسل کے سامنے پیش کیجئے! ان کی غیرت و حمیت کو، ان کی سچائی و صداقت کو، ان کی پاکیزگی و طہارت کو، ان کی فداکاری و قربانی کو، ان کی بینش و بصیرت کو، عوام الناس، نوع انسانی، دوست احباب، والدین اور خاندان سے ان کے حسن معاشرت کو آج کی نوجوان نسل کے سامنے رکھئے! یہ بہترین سبق آموز نمونے ہیں۔
ہمارے سامنے بہت کام ہیں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں، تشہیراتی شعبے میں، قومی نشریاتی ادارے کی سطح پر، حکومتی اداروں کی سطح پر، علماء کی سطح پر بہت کچھ انجام دیئے جانے کی ضرورت ہے، بہت کام باقی ہے۔ ہماری ذمہ داریاں ہیں۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنا چاہئے، ذمہ داریوں کے بوجھ سے ہمارے شانے جھکے ہوئے ہیں۔ کام کرنے کی ضرورت ہے، سب کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چند باتیں انتخابات کے تعلق سے عرض کر دوں! ایک اہم ترین کام پرسوں منعقد ہونے والے (دوسرے مرحلے کے پارلیمانی) انتخابات میں شرکت کا ہے۔ ملت ایران نے ان تینتیس برسوں میں ہمیشہ ضرورت کے وقت دانشمندی کے ساتھ لازمی قدم اٹھایا ہے۔ انقلاب سے قبل بھی یہی صورت حال تھی جس کا نتیجہ انقلاب کی فتح کی صورت میں نکلا۔ انقلاب کے بعد ان تینتیس برسوں میں بھی ملت ایران نے اسی روش پر عمل کیا ہے۔ جب جب یہ ہوشیاری اور دانشمندی، بر وقت اقدام اور برمحل پیش قدمی عمل میں آئی ہے عوام الناس کو زیادہ اہم اور بیش بہا کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ایک کامیابی اسفند کے مہینے میں (دو مارچ سنہ دو ہزار بارہ کو) منعقد ہونے والے (پہلے مرحلے کے پارلیمانی) انتخابات کی صورت میں ملی۔ ملت ایران نے زبردست تعاون کا مظاہرہ کیا، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کا اثر بھی سامنے آیا۔ تاہم کام کا کچھ حصہ انجام پا چکا ہے اور اس کا کچھ حصہ باقی ہے۔ ایرانی عوام انشاء اللہ جمعے کو ایک بار پھر انتخاباپ میں جو شاندار شرکت کریں گے، پولنگ مراکز پر جاکر پارلیمنٹ کے الیکشن کا عمل پورا کریں گے اس سے دنیا والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا منظر ایک بار پھر سامنے آئے گا۔
آج کی دنیا ایسی ہے جس میں قوموں کو خود آگے بڑھ کر اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام اگر کنارہ کش رہیں گے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے، دوسروں سے آس لگائے بے عملی کا شکار رہیں گے تو وہ کسی مقام تک پہنچنے والے نہیں ہیں۔ قومیں اپنی ہوشیاری و دانشمندی سے کام لیکر، میدان عمل میں سرگرم ہوکر، خود کو اور اپنی توانائیوں کو میدان عمل میں پیش کرکے ہی کوئی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ آج دنیا اس نہج پر چل رہی ہے۔ یہ ماحول ہمیشہ رہا ہے تاہم اس وقت قوموں میں بیداری بڑھی ہے۔ اگر کوئی عظیم قوم جو قدیمی تاریخ اور نمایاں علمی ورثے کی مالک ہے، اپنے حالات سے غافل ہو جائے، میدان عمل سے کنارہ کش ہو جائے، کوئی سعی و کوشش نہ کرے تو اچانک خود کو ایسی پسماندہ اقوام کی صف میں پائے گی جن کی نہ کوئی تاریخ ہے نہ علمی میراث۔
ملت ایران میدان عمل میں ڈٹی ہوئی ہے، خوش قسمتی سے انتہائی بابصیرت اور موقعہ شناس ہے، الحمد للہ اسے دشمن کی بھی بھرپور شناخت ہے۔ ان تینتیس برسوں میں ہم نے اپنے دشمنوں کو بخوبی پہچان لیا ہے، ہم سمجھ گئے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو بعض اوقات ممکن ہے ریاکاری اور دروغگوئی سے کام لیتے ہوئے دوستی کی بات کریں لیکن در حقیقت وہ ہمارے دشمن ہیں۔ ملت ایران کو اس مادی دنیا میں طاقتوں کے بیچ جاری رسہ کشی کے ماحول میں اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے، اپنے مستقبل کی حفاظت کرنے کے لئے اور اپنی آئندہ نسلوں کی سلامتی کے لئے ہمیشہ بیدار رہنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے، میدان عمل میں موجود رہنا چاہئے۔ اس کا ایک اہم موقعہ یہی الیکشن کا موقعہ ہے۔ اسی طرح اس کے اور بھی متعدد نمونے اور مواقع ہیں۔
ہم مستقبل کو روشن دیکھ رہے ہیں، الحمد للہ بلطف پروردگار ایک لمحے کے لئے بھی مجھے یہ محسوس نہیں ہوا کہ میرے دل میں امید کی روشنی ذرہ برابر بھی ماند پڑی ہو۔ انشاء اللہ یہ امیدیں پوری ہوں گی۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں کہ فضل پروردگار سے اسلامی مملکت ایران کا مستقبل، وہ دن جب آج کے نوجوان میدان میں آکر مختلف عہدوں کو سنبھالیں گے، آج کی صورت حال کی نسبت بدرجہا بہتر ہوگا۔
میری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے۔ ہمارے نوجوانوں کی توفیقات میں اضافہ کرے، سب کی مدد فرمائے اور ہم جہاں کہیں بھی مصروف کار ہیں ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کامیاب فرمائے۔

و السّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته‌

1) ) حافظ