سب سے پہلے تو میں تمام اسلامی ممالک سے تشریف لانے والی منتخب اور نمائندہ خواتین، دختران عزیز اور خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ (ملک ایران) آپ کا وطن ہے، آپ سے متعلق ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس اجلاس کو اور اس ملاقات کو امت اسلامیہ کے لئے بابرکت قرار دے۔
میری نظر میں آپ کا یہ اجتماع خاص اہمیت کا حامل ہے۔ دنیائے اسلام کے مشرق و مغرب سے تعلق رکھنے والی نمائندہ خواتین کا اجتماع اسلامی بیداری کے موضوع پر اس کانفرنس کے انعقاد سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس خاص اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ اس اجلاس میں عالم اسلام کی ممتاز خواتین کو ایک دوسرے سے آشنائی حاصل کرنے اور ایک دوسرے کو تلاش لینے کا موقعہ ملا جو بہت اہم ہے۔ سو سال سے مغربی ثقافت اپنی دولت، طاقت، اسلحے اور سفارت کاری کے ذریعے مغربی اسلوب زندگی کو اسلامی معاشروں پر مسلط کرنے اور عورتوں کے درمیان اسے رائج کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ سو سال سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ مسلمان خاتون کو اس کی شناخت اور تشخص سے بیگانہ بنا دیا جائے۔ اس کے لئے تمام موثر عناصر اور طاقت کا استعمال کیا گیا۔ دولت، تبلیغ، اسلحہ، گوناگوں مادی بہکاوے، انسان کی فطری جنسی خواہشات کو بھڑکانا، ان تمام حربوں کو بروئے کار لایا گیا تا کہ مسلمان عورت کو اس کی اسلامی شناخت سے بے بہرہ اور اس سے دور کر دیا جائے۔ آج اگر آپ نمائندہ مسلم خواتین کی حیثیت سے مسلمان عورت کی اسلامی شناخت کی بازیابی میں کردار ادا کرتی ہیں تو یہ آپ کی جانب سے امت مسلمہ، اسلامی بیداری کی تحریک اور اسلامی عزت و وقار کی عظیم خدمت ہوگی۔ یہ اجتماع اس مقصد کی تکمیل کی راہ میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ صرف مل بیٹھنے اور احوال پرسی پر اکتفا نہ کیجئے بلکہ اس ملاقات کو ایک عظیم اور پائیدار تحریک کے نقطہ آغاز میں تبدیل کر دیجئے۔ خواتین کی بیداری، ان کے درمیان اپنے تشخص اور شناخت کے احساس کی بحالی، عورتوں کے معاشرے میں بصیرت و آگاہی کی روشنی کا اسلامی بیداری اور اسلامی وقار پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ تو رہی پہلی بات۔
بعض خواہران گرامی نے اپنی عالمانہ، تعمیری اور نپی تلی تقریروں میں کچھ تجاویز بھی پیش کیں۔ ہم ان تجاویز پر عمل آوری سے اتفاق کرتے ہیں۔
ایک بنیادی نکتہ صنف نسواں کے سلسلے میں اسلام کے نقطہ نگاہ کا ہے۔ یہ زاویہ فکر مغربی ثقافت میں عورت کے تعلق سے پائی جانے والی سوچ کے بالکل برخلاف ہے۔ عورت کے سلسلے میں مغربی ثقافت میں پایا جانے والے زاویہ فکر بڑا توہین آمیز ہے۔ وہ اسے نام تو آزادی کا دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ آزادی نہیں ہے۔ مغرب والوں نے گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران اپنی جملہ مجرمانہ حرکتوں کو بڑے خوبصورت پرکشش نام دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر انہوں نے کہیں قتل کئے، لوٹ مار کی، انسانوں کو غلامی کی زنجیر میں جکڑا، اگر قوموں کے سرمائے کو ہڑپا، اگر قوموں کے مابین جنگوں کی آگ بھڑکائی اور دیگر جرائم انجام دیئے تو ان پر بڑے خوبصورت پرکشش ناموں کا لیبل چسپاں کر دیا۔ جیسے حریت پسندی کا نام، انسانی حقوق کا نام، جمہوریت کا نام۔ عورتوں کے سلسلے میں مغربی ثقافت میں جو طرز فکر ہے اسے دیا جانے والا آزادی کا عنوان بالکل غلط اور سراسر جھوٹ ہے، یہ آزادی ہرگز نہیں ہے۔ مغربی ثقافت کی بنیادی فکر یہ ہے کہ عورت کو استعمال کی ایک چیز کے طور پر، مرد کے ذریعہ تسکین کے طور پر معاشرے میں پیش کیا جائے۔ برہنگی کی اتنی تحریک و ترغیب کا اصلی مقصد یہی ہے۔ مغرب میں سو سال اور دو سو سال کے اس عرصے میں عورتوں پر تشدد بہت بڑھ گیا ہے، اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ مغرب میں جنسی آزادی اور بے راہروی کے باعث شہوت نفسانی جو ایک فطری چیز ہے ٹھنڈی نہیں پڑی، ان کا موقف یہ تھا کہ معاشرے میں عورت اور مرد کو آزادانہ روابط رکھنے کی اجازت دے دی جائے تا کہ شہوت پرستی کم ہو جائے لیکن اس کا عملی نتیجہ بالکل الٹا نکلا۔ معاشرے میں عورت اور مرد کے باہمی روابط کی جتنی زیادہ آزادی اور چھوٹ ہوگی اور اس کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوگی اس میں انسان کی شہوانی خواہشات میں اور بھی اضافہ ہوگا۔ آج نوبت یہ آ گئی ہے کہ مغرب والے بے شرمی پر اتر آئے ہیں اور ہم جنس بازی کو بے عیب اور قابل تعریف قرار دیتے ہیں۔ کوئی بامتانت انسان ہوگا تو اسے اس پر شرم آئے گی لیکن انہیں کوئی حیاء نہیں ہے۔ عورت کے سلسلے میں مغرب کا نقطہ نظر بڑا پست، معیوب، گمراہ کن اور غلط نقطہ نظر ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت بخش نگاہ سے دیکھا ہے، کرامت انسانی کا مستحق قرار دیا ہے، اسلام کی نگاہ عورت کی شخصیت کو خود مختاری عطا کرنے والی اور اسے فروغ کا موقعہ فراہم کرنے والی ہے۔ یہ ہمارا دعوی ہے اور ہم اپنے اس دعوے کو محکم ترین دلیلوں سے ثابت کر سکتے ہیں۔
عورت اسلامی ماحول میں علمی طور پر فروغ پاتی ہے، اس کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسے اخلاقی نشونما ملتا ہے، سیاسی پختگی حاصل ہوتی ہے اور سماج کے کلیدی امور میں وہ صف اول میں جگہ پاتی ہے اور اس سب کے ساتھ ساتھ اس کی نسوانی شناخت بھی باقی رہتی ہے۔ عورت کے لئے اس کی نسوانی شناخت ایک افتخار ہے، قابل فخر امتیاز ہے۔ عورت کے لئے یہ فخر کی بات ہرگز نہیں کہ اسے زنانہ ماحول سے، نسوانی خصوصیات سے اور عورتوں کی اخلاقیات سے بے بہرہ بنا دیا جائے، گھرداری کو، بچوں کی پرورش کو اور شوہر کی دیکھ بھال کو اس کے لئے ننگ اور عار قرار دیا جائے۔ مغربی تہذیب نے خاندان کی بنیادوں کو درہم برہم کر دیا ہے۔ آج مغربی دنیا کے سامنے ایک بڑا بحران خاندانوں کا بکھراؤ ہے، ایک بڑی مشکل بغیر ولدیت کے بچوں کی تعداد میں ہونے والا اضافہ ہے۔ یہ مشکلات مغرب کے دامنگیر ہوں گی۔ سماجی حوادث تسلسل سے پیش آئيں گے۔ مغرب کو اس زاوئے سے بڑی شدید ضرب اٹھانی پڑے گی اور یہ زرق و برق مادی تہذیب اسی زاوئے سے منہدم ہوکر رہ جائے گی۔
اسلام عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ زن و مرد کے درمیان تمام انسانی خصوصیات مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں۔ کوئی بھی انسان مرد یا عورت کی حیثیت سے پہچانے جانے سے قبل ایک انسان ہے۔ انسان ہونے میں عورت و مرد کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہے۔ سب ایک جیسے ہیں۔ یہ ہے اسلام کا نقطہ نگاہ۔ اللہ تعالی نے دونوں صنفوں میں خاص جسمانی خصوصیات رکھی ہیں اور دونوں صنفیں، سلسلہ تخلیق کو آگے بڑھانے، انسان کے رشد و تکامل اور تاریخ کے سفر کو جاری رکھنے میں الگ الگ کردار کی حامل ہیں اور عورت کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انسان کا سب سے اہم کام نسل انسانی کو آگے بڑھانا یعنی بچوں کی پیدائش اور اس عمل میں عورت کا جو رول ہے اس کا مرد کے کردار سے کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ گھربار کی اہمیت کا راز بھی یہی ہے، کنبے کا وجود اسی اعتبار سے اہم ہے اور جنسی ضوابط اسی زاوئے سے لازمی قرار دیئے گئے ہیں۔ اسلامی احکامات اور شریعت کے دستور کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ گمراہ مغربی معاشرہ اسے پابندی اور قید و بند کا نام دیتا ہے اور اپنی گمراہ کن اسیری کو آزادی کہتا ہے۔ یہ مغرب کے فریبوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک نکتہ تھا عورتوں کے بارے میں۔
آپ منتخب خواتین اور نمائندہ نوجوان لڑکیوں کی آج اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ اسلامی کسوٹی پر پورے اترنے والے عورت کے کردار کی تصویر پیش کیجئے اور اسے نمایاں اور واضح کیجئے۔ عورت کی انسانی تربیت اسلامی و انسانی معاشروں کی سب سے عظیم خدمت ہے۔ یہ مہم شروع ہونی چاہئے۔ البتہ اس کا آغاز ہو چکا ہے تاہم اسے تقویت دینے، اسے وسعت دینے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس مہم میں آپ کی فتح یقینی ہے۔ یہ ایک بنیادی کام ہے۔
سماجی تغیرات میں، انقلابی تحریکوں اور اسلامی بیداری کی اسی عظیم لہر میں بھی عورتوں کا کردار بہت اہم نکتہ ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر کسی قوم کی سماجی تحریک میں عورتیں شامل نہیں ہیں تو وہ تحریک نتیجہ بخش نہیں ہو سکتی، کامیاب نہیں ہو سکتی۔ (1)
اگر کسی تحریک میں عورتوں کی شمولیت و شراکت ہو، سنجیدہ، آگاہانہ اور بصیرت آمیز شراکت تو وہ تحریک تیز رفتاری سے آگے بڑھتی ہے۔ اسلامی بیداری کی اس عظیم لہر میں عورتوں کا کردار بے مثال ہے جسے بدستور جاری رہنا چاہئے۔ عورتیں اپنے شوہروں اور بچوں کو پرخطر محاذوں اور میدانوں میں قدم رکھنے کے لئے آمادہ کرتی ہیں اور انہیں ہمت دلاتی ہیں۔ ہم نے ایران میں طاغوتی حکومت کے خلاف تحریک کے دوران اور پھر انقلاب کی فتح کے بعد سے تاحال خواتین کو ہمیشہ نمایاں پایا۔ مسلط کی جانے والی جنگ کے دوران اگر ہماری خواتین، ہماری عورتیں میدان جنگ میں، عظیم قومی پلیٹ فارم پر قدم نہ رکھتیں تو ہم اس دشوار اور پرمحن آزمائش میں کامیاب نہ ہو پاتے۔ عورتوں نے ہمیں کامیابی دلائی۔ شہداء کی ماؤں، شہداء کی ازواج، جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جانبازوں کی ازواج، جنگی قیدیوں کی ازواج اور ان کی ماؤں نے اپنے صبر و ضبط سے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ جس سے ہمارے مردوں اور جوانوں کو جنگ میں مزید بیباکی اور یکسوئی سے شرکت کا حوصلہ ملتا تھا۔ یہ ماحول پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے پورے ملک میں مجاہدت و استقامت کی فضا قائم ہو گئی، فداکاری، ایثار اور جان کی بازی لگا دینے کی فضا، اور پھر فتح نے ہمارے قدم چومے۔ آج دنیائے اسلام میں یہی حالات ہیں۔ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، بحرین میں، یمن میں اور دیگر مقامات پر۔ اگر خواتین صف اول میں اپنی موجودگی اور شراکت کو جاری رکھتی ہیں اور اسے تقویت پہنچاتی ہیں تو کامیابیاں یکے بعد دیگرے ان کا مقدر بن جائیں گی۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ (2)
ایک اور نکتہ اسلامی بیداری کے سلسلے میں عرض کرنا ہے۔ عالم اسلام میں رونما ہونے والا یہ عظیم واقعہ جس کا آغاز تیونس سے ہوا اور جو مصر میں پہنچ کر بڑی عظیم شکل اختیار کر گیا اور پھر دوسرے ملکوں میں سرایت کر گیا، یہ بڑی عجیب تبدیلی ہے جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ تاریخ پر آپ نظر دوڑائیے تو اس واقعے کو بڑا عظیم واقعہ پائيں گے۔ یہ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ واقعہ پوری دنیا کا رخ بدل سکتا ہے، عالم اسلام پر استکبار اور صیہونزم کے ظالمانہ تسلط کو جو برسہا برس سے جاری ہے ختم کر سکتا ہے، یہ (متحدہ) مسلم امہ کی تشکیل کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اسی طرح جاری رہے۔ اسلامی تحریکوں کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں تاہم انہیں خطرات اور اندیشے بھی لاحق ہیں، ان خطرات کی شناخت کرکے ان کا تدارک کیا جانا چاہئے۔ آج خوش قسمتی سے شمالی افریقا میں مسلمان قوموں نے بہترین انداز میں عمل کیا، بہترین نمونہ پیش کیا۔ یہ تحریک بہت با عظمت ہے اور اب تک پوری طرح کامیاب رہی ہے لیکن آپ ذرا غور کیجئے! مغرب اور ان میں سر فہرست امریکا و صیہونزم پورے لاؤ لشکر کے ساتھ میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ اس تحریک کو قابو میں کرنے اور اس فضا میں اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے مزید وسائل بھی بروئے کار لائيں گے۔ لہذا قوموں کو چاہئے کہ بہت ہوشیار رہیں۔ سامراجی طاقتیں ششدر ہیں، وہ حالات کا پہلے سے اندازہ نہیں کر سکیں اور اندازہ کر بھی نہیں سکتی تھیں۔ ان کی یہ غفلت تدبیر الہی کا نتیجہ تھی۔؛ «و مكروا و مكر اللَّه واللَّه خير الماكرين».(3)
لبنان کے قضیئے میں بھی یہی ہوا کہ سر سے پاؤں تک کیل کانٹے سے لیس صیہونی فوج کو لبنان کے جیالے نوجوانوں نے شکست دیکر انہیں حیران کر دیا۔ وہ اس کا اندازہ کر سکے اور نہ ہی تدارک کی کوئي سبیل۔ اب وہ انتقام لینے کی کوشش میں ضرور ہیں۔ ان کی ایک چال تو یہی ہے کہ عوامی جوش و جذبے کو کسی صورت سے ٹھنڈا کر دیں۔ عالم اسلام کے نوجوانوں، عورتوں، مردوں، ممتاز ہستیوں بالخصوص ان ممالک کے نوجوانوں کو جہاں انقلاب آئے ہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ میدان میں ڈٹے رہے، ثابت قدم رہے تو دشمن کے تمام حربوں اور وسائل پر ان کا غلبہ یقینی ہے۔ (4) استکباری طاقتوں کے اقتدار کے تمام حربے عوامی موجودگی کے مقابل، قوموں کی طاقت ایمانی کے سامنے ناکارہ اور کند ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس دولت ہے، اسلحہ ہے، ایٹم بم ہے، مسلح فوجیں ہیں، سفارتی ذرائع ہیں لیکن یہ سب کچھ قوموں کے ایمان کی طاقت کے سامنے بونے نظر آتے ہیں۔ بہت محتاط رہئے کہ کہیں نوجوانوں کو کسی انداز سے، بوڑھوں کو کسی اور انداز سے، مذہبی افراد کو کسی چال سے اور غیر مذہبی لوگوں کو کسی اور چال سے وہ اختلافات میں ڈال کر مختلف چیزوں میں الجھا کر آپ سے یہ ایمان کی دولت نہ چھین لیں۔ دینی و اسلامی نعروں پر عوام الناس کا اجتماع واحد راستہ ہے جو ان قوموں کی پیشرفت کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس طویل تجربہ ہے۔
خواہران گرامی، میری پیاری بیٹیو! ہم تینتیس سال سے سامراج کی مخاصمتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ آج عالمی سطح پر یہ ہنگامہ ہے اور عالمی میڈیا چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ ہم نے ایران پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ تاہم انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ تیس سال سے ہم پر مسلسل پابندیاں عائد کرکے انہوں نے ہمیں پابندیوں کا ٹیکہ لگا دیا ہے (ہمارے اندر اس صورت حال سے نمٹنے کی طاقت بھی پیدا کر دی ہے)۔ ہم تیس سال سے پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور نتیجے میں ہمیں پابندیوں کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اب پابندیاں ہمیں زک نہیں پہنچاتیں۔ ملت ایران نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ملت ایران اپنی جان و مال کے ساتھ اپنے عزیز ترین فرزندوں کے ساتھ دشمن کی سازشوں کے مقابلے پر ڈٹی رہی۔ تیس سال قبل کی نسبت ہم آج سو گنا زیادہ طاقتور اور ترقی یافتہ ہیں۔(5) آج ہم علم و دانش کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، معیشت کے میدان میں، ملک کے انتظامی امور میں، عوام کی گہری بصیرت کے اعتبار سے اوائل انقلاب کی نسبت بہت آگے ہیں۔ یہ کامیابی دشمنوں کی مخاصمتوں کا سامنا کرنے کے دوران ملت ایران کو حاصل ہوئی ہے۔ آج ایران میں مسلمان عورت ایک سربلند اور باوقار شخصیت کی مالک ہے۔ ہزاروں تشہیراتی وسائل، اطلاعات کی بمباری کرتے ہیں کہ کسی صورت سے اس حقیقت کو دگرگوں کر دیں لیکن حقیقت تو پھر حقیقت ہے۔ آج ہماری سب سے زیادہ صاحب ایمان اور سب سے زیادہ انقلاب دوست خواتین اعلی تعلیم یافتہ خواتین ہیں۔ آج ہماری خواتین، ہماری تعلیم یافتہ خواتین، عورتوں کی نوجوان نسل آرٹس اور سائنس کے سخت و دشوار علمی شعبوں کے تحقیقاتی مراکز اور تجربہ گاہوں میں مصروف کار ہے۔ (6) سیاسی میدان میں، علمی میدان میں، سماجی انتظامی شعبوں میں سب سے زیادہ سرگرم اور فعال خواتین صاحب ایمان اور انقلابی خواتین ہیں۔ اعلی تعلیم کی مالک اور بہترین فکری سرمائے سے سرشار۔
ملت ایران کو ملنے والی کامیابیاں اس کی استقامت کا نتیجہ ہیں۔ اگر کوئی قوم استقامت کا ثبوت دے اور اللہ کی خوشنودی کے لئے راہ خدا میں ثابت قدم رہے تو اللہ یقینا اس کی مدد فرمائے گا۔ یہ وعدہ الہی ہے اور وعدہ الہی کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ (7)
استکباری اداروں اور سامراج کے پالیسی سازوں نے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاکر اسلامی جمہوریہ کو فلسطین کی حمایت سے دست بردار ہو جانے اور باز آ جانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن ہم فلسطین کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ مذہبی اور نسلی امور کو ہوا دینے کی کوششیں کی گئیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہا خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، شیعہ ہوں یا سنی ہوں۔ جہاں بھی اسلامی تحریک ہے، جہاں بھی اسلامی تشخص کے دفاع کی بات ہو رہی ہے، جہاں بھی مظلوم کی حمایت و امداد کا مسئلہ ہے، اسلامی جمہوریہ ایران وہاں فعالانہ طور پر موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ امریکا، صیہونزم اور استکباری عناصر کا شرپسند سیاسی نیٹ ورک اسلامی جمہوریہ پر غالب نہ آ سکا اور آئندہ بھی اسے غلبہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ (8) توفیق پروردگار سے ہم ملت فلسطین کے شانہ بشانہ ثابت قدمی سے کھڑے رہے، انقلاب لانے والی مسلم اقوام کی حمایت میں پیش پیش رہے، مظلوم بحرینی عوام کی حمایت میں ڈٹے رہے، ہم امریکا اور صیہونزم سے برسر پیکار تمام جماعتوں کی پشت پناہی کے لئے آمادہ ہیں اور ان کا دفاع کرتے رہیں گے اور اس سلسلے میں کسی بھی طاقت کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ (9)
اللہ تعالی نے جو عظیم شئے ہماری اور دیگر مسلم اقوام کی تقدیر میں لکھ دی ہے وہ لطف الہی اور رحمت خداوندی ہے۔ ہمیں ایسا طرز عمل اپنانا چاہئے کہ ہمیشہ رحمت الہی کے مستحق بنے رہیں اور اللہ تعالی سے یہ دعا کریں کہ اپنی رحمت و عنایت کے اسباب و عوامل سے ہمیں بہرہ مند رکھے۔ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
مسلم خواتین کے اس عمل کو، پورے عالم اسلام کی سطح پر ایک دوسرے سے ہونے والی آشنائی کو غنیمت جانئے اور اسے مسلم امہ کے درمیان ایک عظیم تحریک کی بنیاد بنائیے جو انشاء اللہ عظیم کامیابیوں پر منتج ہوگی۔
1) نعرہ تكبير
2) نعرہ تكبير
3) آلعمران: 54
4) نعرہ تكبير
5) نعرہ تكبير
6) نعرہ تكبير
7) نعرہ تكبير
8) نعرہ تكبير
9) نعرہ تكبير