1391/07/19ہجری شمسی مطابق 8/10/2012 عیسوی کو شمال مشرقی ایران کے صوبے خراسان شمالی کے صدر مقام بجنورد کے تختی اسٹیڈیم میں لاکھوں لوگوں کے چھلکتے ہوئے اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ہمہ جہتی روحانی و مادی پیشرفت کی بلندیوں کی جانب ملت ایران کے ارتقائی سفر کا جامع تجزیہ پیش کیا۔ آپ نے ملت ایران اور حکام کی فرض شناسی، ہوشیاری، مستعدی، نشاط و امید، محنت و لگن، اتحاد و ہمدلی اور موقعہ شناسی کو اس تیز رفتار ترقی کے اہم اسباب سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ملت ایران توفیق الہی سے اپنی روز افزوں توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مشکلات کو عبور کر جائے گی اور ملت ایران کو شکست دینے کی سامراجی محاذ کی حسرت اس کے دل میں ہی رہ جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغرب کے مد نظر پیشرفت کو مادی امور تک محدود ادھوری ترقی قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے ترقی و پیشرفت کے مختلف مادی و روحانی پہلو ہیں جن میں علم و دانش کا فروغ، اخلاقیات، مساوات، رفاہ عامہ، معیشت، عالمی وقار و اعتبار، سیاسی خود مختاری اور قرب الہی شامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی پیشرفت کی امتیازی خصوصیت اس کی ہمہ گیریت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے دنیا کے امور کی ایسی منصوبہ بندی کرنا چاہئے کہ اس میں آئندہ کئی نسلوں اور دسیوں سال بعد کے حالات کو مد نطر رکھا گیا ہو اور اس کے ساتھ ہی آخرت کے لئے بھی اس انداز سے تیاری کی جائے کہ گویا سفر آخرت کو بہت کم وقت باقی رہ گیا ہو۔
اسلامی پیشرفت حاصل کرنے کے لوازمات پر روشنی ڈالتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے خوبیوں اور خامیوں کی مکمل شناخت، حالات کے مطابق مناسب منصوبہ بندی، مطلوبہ منزل کی جانب حرکت کے ایک ایک مرحلے پر گہری نظر، عوام الناس کو راستے کے پورے نقشے اور در پیش مشکلات و خطرات سے با خبر رکھنے پر تاکید کی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ فریضہ معاشرے کی ممتاز شخصیات بشمول سیاسی، علمی اور دینی شخصیات، سب کے دوش پر عائد ہوتا ہے۔
آپ نے ملک کے اعلی عہدیداروں کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کی حفاظت، صحیح منصوبہ بندی، قانونی حدود کی پاسداری، فرض شناسی اور غلطیوں کو ایک دوسرے کے سر ڈالنے سے اجتناب پر زور دیا اور فرمایا کہ آئین میں پارلیمنٹ، حکومت، صدر مملکت اور عدلیہ کے دائرہ کار کا تعین کر دیا گیا ہے۔ بنابریں تمام حکام کو چاہئے کہ اپنے قانونی فرائض پر عمل کریں اور آپس میں متحد اور ہم آہنگ رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات کو مغرب بالخصوص امریکا کے نقصان میں اور صیہونی حکومت کے لئے خطرناک قرار دیا اور صیہونی حکام کی لن ترانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس مہمل بیانی کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تا ہم یورپی ملکوں کو جو امریکا کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، یہ بتا دینا ضروری ہے کہ یہ معیت عاقلانہ اور دانشمندانہ عمل نہیں بلکہ ایک طرح کی حماقت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمدللّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و حبيبنا ابى‌ القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين و صحبه المنتجبين و السّلام على عباد اللّه الصّالحين.
اللّهمّ صلّ على علىّ ‌بن ‌موسى ‌الرّضا المرتضى الامام التّقىّ النّقىّ و حجّتك على من فوق الأرض و من تحت الثّرى الصّدّيق الشّهيد صلاة كثيرة تامّة نامية زاكية متواصلة مترادفة كأفضل ما صلّيت على احد من عبادك و اوليائك.

تہہ دل اور تپاک جان سے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ باب الرضا کے نام سے معروف (فرزند رسول امام ہشتم حضرت علی ابن موسی الرضا کے مدفن، مشہد مقدس کے راستے میں واقع ہونے کے باعث صوبہ خراسان شمالی اور وہاں کے صدر مقام بجنورد کو ایران میں اس لقب سے یاد کیا جاتا ہے) صوبہ خراسان شمالی کے عوام سے میری یہ ملاقات امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے مخصوص دن پر انجام پا رہی ہے۔ اگرچہ آج ہمیں یہ توفیق نہیں ملی کہ امام ہشتم کے حرم مطہر کی قریب سے زیارت کرتے لیکن ہم اسی خطے سے جو حضرت سے مربوط علاقہ ہے امام کی بارگاہ میں سلام و تہنیت پیش کرتے ہیں۔
یہ علاقہ جو خراسان شمالی کے نام سے جانا جاتا ہے خراسان کا بہت اہم علاقہ رہا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی۔ اسی طرح لوگوں کی انسانی خصوصیتوں، اخلاقیات، برتاؤ اور ثقافت کے لحاظ سے بھی۔ زمان قدیم سے ہی اس علاقے کی یہ خصوصیات نمایاں رہی ہیں۔ بڑے پرکشش قدرتی مناظر سے آراستہ، گوناگوں اور قیمتی قدرتی ذخائر سے مالامال، نمایاں اور ممتاز ثقافتی ماضی سے مزین، زراعتوں اور چراگاہوں کے لحاظ سے انتہائی غنی، ناشناختہ سیاحتی مراکز سے سرشار، بد قسمتی سے اس علاقے کے بہت سے سیاحتی مراکز ہنوز ملک کے عوام کے لئے آشنا نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر سال کروڑوں مسافر حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے اشتیاق زیارت میں اس علاقے سے گزرتے ہیں۔ اس جغرافیائی اور علاقائی انفرادیت کا مالک خراسان شمالی کا علاقہ خاص اور اہم پوزیشن کا حامل ہے۔ تا ہم ان سب سے بڑھ کر یہاں کے عوام کے صفات و خصوصیات کی ایک الگ اہمیت ہے۔ ہم نے یہاں کے عوام کو قدیم ایام سے ہی ان کے جوش و جذبے اور امید و نشاط سے پہچانا ہے۔ جن میدانوں میں بھی عوامی شراکت نمایاں ہے ان میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام نے، بجنورد کے باسیوں نے اور دیگر علاقوں میں بسنے والوں نے ہمیشہ جوش و خروش اور مسعتدی کا ثبوت دیا ہے۔
میں سڑکوں پر اس کثیر تعداد میں عوام کے اجتماع پر بھی اظہار تشکر کرتا ہوں۔ اس ڈیڑھ دو گھنٹے کی مدت میں جو سڑک کو عبور کرنے میں صرف ہوئی میں نے عوام کے جوش و خروش اور نشاط و شادابی کا نمایاں طور پر مشاہدہ کیا۔ میں گاڑی کے اندر بیٹھا ہوا تھا، میں نے ‎سڑک پر عزیز نوجوانوں کے اس سیلاب کو دیکھا تو واقعی مجھے تشویش ہونے لگی کہ لوگوں کو کتنی زحمت ہو رہی ہے۔ میں اظہار تشکر بھی کرتا ہوں اور ساتھ ہی معذرت خواہی بھی۔
ہم نے زندگی کے تمام شعبوں میں عوام کے اس جوش و خروش کو ہمیشہ نمایاں پایا ہے۔ اٹھائیس سفر (امام علی رضا علیہ السلام کی تاریخ شہادت) کو پورے صوبے سے لوگ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے روضے کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو دیگر تمام خطوں کے مقابلے میں بجنورد کے زائرین اور گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اہل مشہد اس بات سے واقف ہیں۔ حقیر چونکہ مشہدی ہے لہذا مجھے بھی اس کا بخوبی علم ہے۔ زیارت کا شوق و عقیدت بالکل نمایاں رہتا ہے۔
مقدس دفاع کا زمانہ آیا تو اس موقعے پر بھی یہ خصوصیت بالکل نمایاں رہی۔ خراسان کی جواد الائمہ سے موسوم بٹالین کے پچاس کمانڈر خراسان شمالی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اس علاقے نے راہ خدا میں 2772 شہیدوں کی قربانی پیش کی ہے۔ یہاں کے چھے ہزار سے زائد جانباز (دفاع وطن کی جدوجہد میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سپاہی) ہیں۔ اسی طرح آزادگان (دشمن کی قید کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد آزاد ہونے والے سپاہی) اور ایثارگران (محاذ جنگ پر شجاعت کے جوہر دکھانے کے بعد زندہ لوٹنے والے سپاہی) کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ یہ اسی جوش و خروش اور نشاط و شادابی کا ثبوت ہے۔
اس صوبے کے لوگ ہر میدان میں بڑے زندہ دل واقع ہوئے ہیں۔ کشتی کے مقابلوں کا معاملہ ہو تب بھی اس اسٹیڈیم میں دسیوں ہزار کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے اور لوگ کشتی کے مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہ بڑی اہم خصوصیات ہیں، دفاع وطن کے تعلق سے غیرت و حمیت کا جذبہ بھی یہاں کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہے۔ اس صوبے کی دوسری بھی بڑی اہم خصوصیات ہیں۔
اس صوبے کے اندر بڑی قابل قدر صلاحیتیں پنہاں ہیں۔ مجھے جو رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق یہ صوبہ علمی توانائی و صلاحیت کے اعتبار سے ملک کے دس بہترین صوبوں میں سے ایک ہے۔ طلبہ کی شرکت سے منعقد ہونے والے اولمپیاڈوں میں اس کا نام سر فہرست صوبوں میں رہتا ہے۔ یہ اہم صلاحیتیں ہیں۔ میں نے خود بھی طالب علمی کے زمانے میں مشہد میں ان درخشاں اور نمایاں صلاحیتوں کے نمونے دیکھے ہیں، البتہ یہاں ان کے تذکرے کا موقعہ نہیں ہے، انشاء اللہ علماء و طلاب دینی سے اپنی ملاقات میں اس بارے میں گفتگو کروں گا۔ اس علاقے کے عوام بڑے غیور ہوتے ہیں، سرحدوں کی حفاظت کا جذبہ ان میں موجزن رہتا ہے، زند دل اور شجاع ہوتے ہیں۔ یہ یہاں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
میں یہ باتیں کیوں بیان کر رہا ہوں؟ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے ملک کے مختلف خطوں کے عوام اپنے علاقے کی خصوصیات سے آگاہ رہیں اور ان نمایاں صفات پر فخر کریں۔ بجنوردی نوجوان کو فخر ہونا چاہئے کہ اس کا تعلق اس شہر سے ہے۔ اس صوبے کے نوجوان کو خواہ وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو اپنے اس خطے پر فخر ہونا چاہئے۔ اس صوبے کی ایک بڑی خصوصیت مختلف قومیتوں کے اندر پایا جانے والا نوع دوستی اور باہمی تعاون کا جذبہ ہے۔ کرد، فارس، ترک، تات اور ترکمن قومیتیں اخوت و محبت کے ساتھ آپس میں مل جل کر زندگی بسر کر رہی ہیں، یہ چیز اس صوبے کی منفرد خصوصیت ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے۔
اب میں اپنی گفتگو کے اصلی موضوع کی جانب آتا ہوں۔ میرے عزیزو! بھائیو! بہنو! آپ نے اپنی ان خصوصیات اور امتیازی صفات کے بارے میں سنا۔ انقلاب کے بعد زندہ دلی، شادابی اور ساتھ ہی مستعدی کا جذبہ پورے ملک میں متلاطم ہو گیا۔ یہ پیشرفت کے لئے پرعزم قوم اور ترقی و سربلندی کے لئے پر تولنے والی قوم اور حیات طیبہ کے لئے طاقت فرسائی کرنے والی قوم کی جھولی میں اللہ کی بہت بڑی نعمت و عنایت ہے۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ بلند چوٹیوں پر پہنچنے کی کچھ اور لازمی شرطیں بھی ہیں۔ سب سے پہلی چیز ہے ایک نقشہ راہ یا روڈ میپ کا موجود ہونا۔ یعنی ہر اقدام اور ہر حرکت نپی تلی ہو، پیش قدمی کا افق اور مستقبل واضح ہو، سفر کے راستے طے شدہ ہوں، اس سفر کا صحیح اور مکمل ادراک ہو اور ساتھ ہی اس پر مستقل نظر رکھی جائے۔ ہر قوم کے لئے یہ چیزیں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ آج یہ چیزیں ہمارے بنیادی مسائل کا جز ہیں۔
میری تاکید ہے کہ عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل اور دانشور طبقہ ملک کے اصلی اور بنیادی مسائل پر پوری توجہ رکھے۔ آج ہمیں اس کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے اس سفر کے اہداف کا تعین اوائل انقلاب میں ہو گیا تھا۔ عوامی نعروں کی صورت میں بھی اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانوں کے ذریعے بھی نقشہ راہ کا اجمالی تعین انجام پا گیا تھا۔ اس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تیس برسوں میں نقشہ راہ باقاعدہ مدون ہو گیا، اس کی تکمیل انجام پائی اور آج ملت ایران کے سامنے یہ بالکل واضح ہے کہ اس کا ہدف کیا ہے اور وہ کس منزل تک رسائی کے لئے رواں دواں ہے۔
اگر ہم ملت ایران کے اہداف کو خلاصے کے طور پر پیش کرنا چاہیں جو ملک اور قوم کے تقریبا جملہ عمومی مطالبات کی عکاسی کرے تو ہم پیشرفت کا نام لیں گے۔ لیکن وہ پیشرفت جسے اسلام نے پیشرفت قرار دیا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے پیشرفت کی الگ تعریف ہے جو مغرب کی مادی تہذیب میں رائج پیشرفت کے مفہوم سے متفاوت ہے۔ اہل مغرب کی نظر صرف ایک پہلو پر مرکوز ہے، وہ صرف مادی جہت سے پیشرفت کو دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں سب سے اہم پیشرفت سے مراد ہے، دولت و ثروت میں اضافہ، سائنس و ٹکنالوجی میں پیشرفت، فوجی میدان میں مضبوطی۔ مغربی مکتب فکر میں اسی کو پیشرفت کہتے ہیں لیکن اسلامی مکتب فکر میں پیشرفت کے اور بھی پہلو ہیں۔ جیسے علم و دانش کے میدان میں پیشرفت، اخلاقیات کے میدان میں پیشرفت، انصاف و مساوات کے میدان میں پیشرفت، رفاہ عامہ کے شعبے میں پیشرفت، اقتصاد و معیشت میں پیشرفت، عالمی وقار و اعتبار میں پیشرفت، سیاسی خود مختاری کے میدان میں پیشرفت۔ یہ ساری چیزیں اسلام کو مطلوب پیشرفت میں شامل ہیں۔ عبودیت و بندگی میں پیشرفت، قرب الہی کے حصول میں پیشرفت، یعنی روحانی و ملکوتی پہلوؤں کے اعتبار سے پیشرفت، یہ سب اس پیشرفت کا اٹوٹ حصہ ہیں جو اسلام کو مطلوب ہے۔ ہمارے انقلاب میں حتمی اور آخری ہدف ہے قرب الہی کا حصول۔ اس پیشرفت میں دنیا کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور آخرت پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ «ليس منّا من ترك دنياه لأخرته و لا ءاخرته لدنياه»؛(1) دنیا کو آخرت کے لئے ترک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی آخرت کو دنیا پر قربان کر دینا درست ہے۔ ایک روایت میں معصوم کا ارشاد ہے کہ ؛ «اعمل لدنياك كأنّك تعيش ابدا»؛ يعنى دنیا کی منصوبہ بندی بس اپنی اسی چند روزہ زندگی کو مد نظر رکھ کر نہ کرو، محض پچاس سال کی منصوبہ بندی نہ کرو۔ ملک کے حکام اور عوام الناس کے عمومی مسائل کی منصوبہ بندی کرنے والے عہدیدار اس نکتے پر توجہ دیں۔ یہ نہ کہیں کہ کیا معلوم پچاس سال بعد ہم زندہ رہتے بھی ہیں یا نہیں! تو پھر اس کی منصوبہ بندی سے کیا فائدہ؟! جی نہیں، منصوبہ بندی تو آپ کی ایسی ہونی چاہئے کہ گویا آپ کو رہتی دنیا تک زندہ رہنا ہے۔ جس طرح آپ اپنے لئے، اپنے مفادات کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو کتنی باریک بینی اور سنجیدگی کے ساتھ عمل کرتے ہیں، اسی طرح آئندہ نسلوں کے لئے بھی، جب آپ اس دنیا میں نہیں ہوں گے، منصوبہ بندی کریں۔ «اعمل لدنياك كأنّك تعيش ابدا». ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ «و اعمل لأخرتك كأنّك تموت غدا»؛(2) اپنی آخرت کی تیاری ایسے کرو گویا کل ہی تمہیں اس دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ یعنی دنیا کے سلسلے میں بھی کوئی کوتاہی نہ ہونے دیجئے اور آخرت کے لئے بھی کہیں کوئی کسر نہ رہنے دیجئے۔ اسلام میں اور ہمارے اسلامی انقلاب میں اس کو کہتے ہیں پیشرفت۔ یعنی ہمہ جہتی اور ہمہ گیر پیشرفت۔
پیشرفت ہمارا ہدف ہے لیکن ارتقائی سفر کے ہر مرحلے پر گہری نظر رکھنا بھی ضروری ہے اور یہ کام دانشور طبقے کا ہے۔ اس وقت ہمارے حالات کس نہج پر جا رہے ہیں، در پیش رکاوٹیں کیا ہیں، مثبت پہلو کون سے ہیں، خامیاں کہاں پر ہیں، مواقع کیا ہیں، خطرات اور اندیشے کیا ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہئے، مواقع سے استفادہ کرنے اور خطرات کو برطرف کرنے کے لئے منصوبندی کیسے کی جائے؟ یہ سارے کام مفکرین اور دانشور حضرات کے ہیں جو ہر مرحلے میں انجام دیں، منصوبہ بندی کے عمل میں ان باتوں کا خیال رکھیں اور عوام الناس کو بھی آگاہ کرتے رہیں، کیونکہ عوام کھلی آنکھوں کے ساتھ اور بصیرت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کیا اقدام انجام دے رہے ہیں اور کس سمت بڑھ رہے ہیں؟ جب یہ شرط پوری ہو جائے گی عوام پوری لگن سے دشوار گزار میدانوں میں بھی بخوشی اتر جائیں گے۔
اب اگر میں اس ہدف کے سلسلے میں اپنی رائے ظاہر کرنا چاہوں تو یہی کہوں گا کہ میری رائے مثبت ہے۔ انقلاب کے ان تیس برسوں میں ہم مسلسل آگے ہی بڑھتے رہے ہیں۔ البتہ اس میں نشیب و فراز بھی آئے، تیز رفتاری اور سست روی کی کیفیت بھی پیدا ہوئی، شدت و ضعف بھی نظر آیا، لیکن مطلوبہ بلندیوں کی سمت ملک و قوم کی پیش قدمی کا سلسلہ کہیں رکا نہیں۔ کمزوریاں بھی موجود رہی ہیں، چنانچہ قوم، حکام، ممتاز شخصیات، سیاسی شخصیات، علمی ہستیاں، مذہبی قائدین سب کو چاہئے کہ ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے چارہ اندیشی کریں۔ ملک کی ترقی کے عمل کو مہمیز کرنا ہے، آج کون سی باتیں ہیں جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہیں اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جو ہماری مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں؟ میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ آپ کوہ پیمائی کرنے والی ایک ٹیم کو نظر میں رکھئے جو خود کو پہاڑ کی فلک بوس چوٹی پر پہنچانے کی جتن کر رہی ہے۔ اس چوٹی تک رسائی اس کے لئے متعدد فوائد کی راہ ہموار کر سکتی ہے، وہاں تک رسائی قابل فخر کامیابی ہے۔ اس ٹیم کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جانفشانی کرے، محنت کرے، حرکت کرتی رہے، اپنا ارادہ مستحکم رکھے، امید کی شمع بجھنے نہ دے، اہداف کے حصول کی طرف سے کبھی مایوس نہ ہو، پائیداری و مستقل مزاجی کا ثبوت دے، درست لائحہ عمل اس کے پاس ضرور موجود ہو اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار اور ہوشیار بھی ہو۔ ہر راستے پر کچھ مشکلات سے سامنا ہو سکتا ہے، میں اشارتا ذکر کروں گا کہ انقلاب کے ان تیس برسوں میں ہمارے عزیز عوام کو کیسی کیسی مشکلات پیش آئیں اور عوام نے ان مشکلات کو عبور کیا۔ مختصر یہ کہ اس عظیم اور قابل قدر ارتقائی سفر کے بنیادی عوامل ہیں؛ عزم محکم، سعی پیہم، بہترین لائحہ عمل، بھرپور امید و نشاط، مستعدی و ہوشیاری۔ اگر یہ اصلی اور بنیادی عوامل و اسباب فراہم رہے تو یہ ٹیم جو حرکت کر رہی ہے، ہماری مثال میں یہ کوہ پیمائی کرنے والی ٹیم ہے جبکہ حقیقت میں مراد ملت ایران ہے، تمام مشکلات پر غالب آتی جائے گی اور اپنے دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیگی۔ یہ بنیادی ستون ہیں۔ اگر یہ عوامل و اسباب مہیا ہوں تو در پیش ہونے والی کوئی بھی مشکل حقیقت میں مشکل نہیں ہوگی، کوئی بھی خطرہ حقیقت میں خطرہ نہیں رہ جائے گا۔ حقیقی خطرہ کیا ہوتا ہے؟ حقیقی خطرہ یہ ہے کہ قوم ان بنیادی عوامل و اسباب کو گنوا بیٹھے۔ یعنی سعی و کوشش کا جذبہ ماند پڑ جائے، تساہلی اور سستی کی کیفیت پیدا ہو جائے، امید مر جائے اور مایوسی و قنوطیت طاری ہو جائے، صبر و پائیداری کا جذبہ باقی نہ رہے بلکہ عجلت پسندی کی کیفیت پیدا ہو جائے، منصوبہ بندی ترک کرکے بے ہدف ہاتھ پاؤں مارنے کی عادت پڑ جائے، یہ ہیں اصلی خطرات۔ اگر کوئی قوم اپنے اس نمایاں جذبے کو جو امید و عزم و ایمان و سعی پیہم کا آمیزہ ہے، قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے سامنے مشکلیں ہیچ ہوکر رہ جائیں گی۔

اب آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں وطن عزیز اور عظیم الشان ملت ایران پر۔ میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بیان کروں اور جس بارے میں سوچوں وہ عقل و منطق کے دائرے میں ہو۔ نعرے بازی والی باتیں کرنا مجھے پسند نہیں ہے۔ کسی بھی مسئلے میں اور خاص طور پر انقلاب کے معاملے میں میں لاف و گزاف بیان کرنے اور مبالغہ آرائی سے متفق نہیں ہوں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حقائق کیا ہیں، عقل و منطق کی رو سے کون سی بات درست ہے۔
ملت ایران دشمنوں کے ایک گروہ سے بر سر پیکار ہے، دشمنی کا آغاز اسی گروہ کی جانب سے ہوا ہے، دشمنوں میں سر فہرست خطرناک خبیث صیہونی نیٹ ورک ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ بعض مغربی حکومتیں اور خاص طور پر امریکی انتظامیہ اسی نیٹ ورک کے زیر اثر ہے۔ اس نے شروع ہی سے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت کی۔ انقلاب لانے والے عوام کا کینہ اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہے جو اب تک ختم نہیں ہوا ہے۔ اس مقابلہ آرائی میں ایک طرف ملت ایران ہے اور دوسری جانب ملت ایران سے کینہ رکھنے والی کچھ طاقتیں ہیں جو دشمنی و عناد پر تلی ہوئی ہیں۔ جب ہم میدان کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک نظر ملت ایران پر ڈالتے ہیں اور اسے عزم و ارادے سے آراستہ پاتے ہیں، اس کے اندر امید کی روشن شعمیں دیکھتے ہیں، صلاحیتوں اور توانائیوں کے خروشاں چشمے دیکھتے ہیں، پرعزم اور محنتی نوجوان نسل کو آنکھوں کے سامنے پاتے ہیں۔ تمام میدانوں میں نوجوان نسل کی موجودگی اور شراکت نمایاں ہے۔ سائنس کے میدان میں بھی، جیسا کہ متعلقہ افراد اس کا اعتراف کرتے ہیں، ٹکنالوجی کے میدان میں بھی، دیگر گوناگوں سماجی میدانوں میں بھی، اور جب موقعہ پڑا تو مقدس دفاع کے میدان میں بھی، اور اس وقت مختلف انداز کی تیاریوں کے میدان میں بھی۔ آج یہ نعمتیں ملت ایران کے پاس موجود ہیں۔ بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی ہے اور پیشرفت کے لازمی وسائل و امکانات بھی دستیاب ہیں، قدرتی ذخائر بھی ہیں اور قیمتی معدنیات بھی موجود ہیں۔
ہمارے پاس جو بنیادی ذخائر موجود ہیں ان کی مقدار دنیا کے ذخائر کی اوسط شرح سے زیادہ ہے۔ میں بارہا یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ہماری آبادی دنیا کی کل آبادی کا تقریبا ایک فیصدی ہے اور ہمارا رقبہ بھی دنیا کے کل رقبے کا تقریبا ایک فیصدی ہی ہے، لیکن قدرتی ذخائر جو ہمارے پاس موجود ہیں وہ ایک فیصدی سے زیادہ ہیں۔ بعض ذخائر کے سلسلے میں تو ہم دنیا کے ملکوں میں پہلا مقام رکھتے ہیں۔ مثلا تیل اور گیس کے ذخائر کو یکجا طور پر دیکھا جائے تو ہمارا ملک دنیا میں سر فہرست ہے۔ یہ ہماری خصوصیتیں ہیں۔
ہماری آب و ہوا میں تنوع ہے۔ ہمارا ملک جغرافیائی لحاظ سے وسیع ملک ہے۔ ہماری ضرورت کی تمام اشیاء ہمارے پاس موجود ہیں، بہترین قدرتی دولت ہے، معدنیات ہیں، بڑے اچھے عوام ہیں، بہترین صلاحیتیں موجود ہیں، قوم سے گہری ہمدردی رکھنے والے حکام تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) میں موجود ہیں۔ مستعد، شجاع اور پوری طرح تیار مسلح فورسز ہمارے پاس ہیں، سنجیدہ اور انتہائی باصلاحیت مذہبی رہنما موجود ہیں، طلبہ سے آباد یونیورسٹیاں اور دینی مدارس موجود ہیں، چالیس لاکھ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس اور اسی طرح اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم دسیوں لاکھ بچے۔ یہ ہمارے پاس موجود اہم وسائل ہیں۔ ہماری قوم کے اندر عزم و ارادہ بھی کم نہیں ہے۔
انقلاب کے آغاز سے اب تک ہم نے ارتقائی عمل طے کیا ہے۔ اس ارتقائی عمل کا ثمرہ دائمی طور پر ہمیں حاصل ہوتا رہا ہے۔ ان گزرے برسوں میں ہمیں جو کامیابیاں ملی ہیں وہ ہمارے ساتھ برتی جا رہی دشمنی کو مد نظر رکھا جائے تو بہت نمایاں ہیں۔ ہماری ترقی و پیشرفت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بنیادی تنصیبات کے شعبے میں ملک نے قابل لحاظ ترقی کی ہے، عوامی خدمات کے شعبے میں ترقی حاصل ہوئی ہے، روحانیت و معنویت کے میدان میں بھی ترقی ملی ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں بھی یہی عالم ہے۔ ہمارے ملک کے اندر جو نمایاں خصوصیات ہیں ان میں سر فہرست ملک کا سیاسی استحکام ہے۔ مختلف حکومتیں تشکیل پائیں، جن کے الگ الگ سیاسی رجحانات و میلانات تھے، لیکن ملک کا ثبات و استحکام اوائل انقلاب سے تا حال ہمیشہ قائم رہا اور وطن عزیز بلند اہداف کی جانب رواں دواں رہا۔ جماعتی اور سیاسی اختلافات اور تنازعات سے ملک کا سیاسی استحکام نابود نہیں ہونے پایا، یہ بڑی بنیادی خصوصیت ہے۔
ہمارے پاس اقتصادی بنیادیں، نافذ قوانین کے لحاظ سے بھی اور علمی و حقیقی تصویر کے لحاظ سے بھی، بہت نمایاں ہیں۔ آئین کی دفعہ چوالیس (نجکاری سے متعلق دفعہ) کے تحت وضع کی گئی پالیسیاں بہترین قانونی بنیاد اور فریم ورک کا درجہ رکھتی ہیں۔ مواصلاتی بنیادیں، نقل و حمل، شاہراہیں، ریل اور فضائی ٹرانسپورٹ کا انفراسٹرکچر، بجلی گھر، ڈیم، یہ سارے وہ کام ہیں جو انقلاب کے اوائل سے لیکر اب تک مستقل بنیادوں پر انجام پاتے رہے ہیں۔ تقریبا یہ ساری کامیابیاں ملک کے با استعداد اور با لیاقت نوجوانوں کی محنتوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ یہ معمولی کامیابیاں نہیں ہیں جو ہمیں حاصل ہو چکی ہیں۔
ہمارا ایک اہم ترین سرمایہ یہی تعلیم یافتہ نوجوان نسل ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل کے پاس شجاعت بھی ہوتی ہے، امید و نشاط کا جذبہ بھی ہوتا ہے اور آگے بڑھنے کی لگن بھی ہوتی ہے۔ میں ضمنی طور پر یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک غلطی جو ہم سے سرزد ہوئی ہے، جس میں خود میں بھی شریک ہوں، یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے منصوبے پر عملدرآمد کا سلسلہ انیس سو نوے کے عشرے کے وسط سے روک دیا جانا چاہئے تھا۔ ہم نے اسے نہیں روکا، یہ ہم سے غلطی ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ اس غلطی میں ملک کے حکام شریک ہیں اور خود یہ حقیر بھی اس میں شامل ہے۔ اللہ تعالی اور تاریخ ہمیں معاف کرے! نوجوان نسل کی حفاظت ہونا چاہئے! آج ہمارے پاس جو نوجوان نسل ہے اگرہم آئندہ دس سال، بیس سال اور اس کے بعد کے مراحل و ادوار میں نوجوان نسل کی اسی تعداد کو قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو وطن عزیز کی تمام مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا۔ نوجوان نسل کے اندر جو جوش و جذبہ ہوتا ہے، جو شوق و تجسس ہوتا ہے اور ایرانیوں میں جو صلاحیت پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے ہمارے سامنے پیشرفت کے راستے کی مشکلات باقی نہیں رہیں گی۔
البتہ کچھ مشکلات بھی موجود ہیں جن کی طرف میں اشارہ کروں گا۔ کچھ مشکلات ہیں ملکی سطح کی اور کچھ علاقائی سطح کی۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ گرانی اور روزگار کا مسئلہ ہے۔ یہ عوام کی بڑی مشکلات ہیں، یہ کسی ایک خطے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہیں۔ میرے سفر سے پہلے دوستوں نے یہاں عوام سے مشکلات کے بارے میں استفسار کیا تو نتیجہ یہی نکلا کہ یہاں بھی وہی مشکلات ہیں جو دیگر خطوں میں پائی جاتی ہیں۔ گرانی اور بے روزگاری سب سے بنیادی تشویش ہے۔ یہ مشکلات بیشک موجود ہیں لیکن یہ ایسی مشکلات نہیں ہیں جنہیں ہماری یہ قوم اور ہمارے حکام حل کرنے سے قاصر ہوں۔
انقلاب کے ان تینتیس برسوں میں اس سے بڑے بڑے خطرات اور مشکلات کا سامنا ہوا اور ملک ان خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھتا رہا۔ دشمنوں نے آگ لگا دینے کی بڑی کوششیں کیں لیکن وہ اپنا مقصود حاصل نہ کر سکے۔ سب سے پہلے تو انقلاب کی فتح کے انہی ابتدائی مہینوں میں ملک بھر میں مختلف قومیتوں کو ورغلانے اور مشتعل کرنے کی سازش ہوئی۔ ہمارے ملک میں مختلف قومیتیں زندگی بسر کرتی ہیں۔ یہ کوشش کی گئی کہ ان قومیتوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں کر دیں۔ آپ کے اسی علاقے میں کمیونسٹوں کے ایک گروہ نے جسے دین اور وطن عزیز سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں تھی شریف و نجیب ترکمن قومیت کے لوگوں کو انقلاب مخالف بنانے کی کوشش کی۔ اس گروہ کا مقابلہ کس نے کیا؟ سب سے پہلے تو اسی شریف و نجیب ترکمن قوم کے افراد مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ترکمن علمائے کرام نے جن میں بعض انتقال فرما چکے ہیں اور بعض بحمد اللہ بقید حیات ہیں، اس گروہ کو للکارا۔ ملک کے دیگر علاقوں کے نوجوان بھی، یہاں بھی اور دوسرے خطوں میں بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں ورغلانے کی کوشش کی جا رہی تھی، آگ لگائی جاتی تھی اور پھر آگ کو ہوا دی جاتی تھی، اختلاف کی اس آگ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن ملت ایران نے اور خاص طور پر انہیں افراد نے، جنہیں مذکورہ گروہ اسلامی انقلاب کے مقابل لا کھڑا کرنا چاہتا تھا، فتنے کی اس آگ کو خاموش کر دیا۔ کردستان کے علاقے میں بھی خود کردوں نے، مسلمان کرد جوانوں نے، صاحب ایمان کرد علما نے آگے بڑھ کر اختلاف کی آگ بجھائی۔ دوسرے علاقوں میں بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ یہ سب سے پہلی مشکل تھی جو سامنے آئی۔ اس کے بعد مسلط کردہ جنگ شروع ہو گئی۔ آٹھ سال تک جنگ کوئی مذاق ہے؟ انقلاب کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی گئی، اسے جھکا دینے کی کوشش کی گئی، لیکن ساری کوششیں لاحاصل رہیں۔ ملت ایران اس موڑ سے بھی بحفاظت گزر گئی۔
اس کے بعد پابندیوں کا مسئلہ پیش آیا۔ آج ہمارے دشمن، نشریاتی ادارے اور انہی کے سر میں بولنے والے کچھ دیگر افراد پابندیوں کے موضوع کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، بڑی مبالغہ آرائي کرتے ہیں۔ پابندیاں آج اور کل کی چیز نہیں ہیں۔ شروع سے ہی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔ البتہ انہوں نے ان میں شدت پیدا کی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، بڑی تدبیریں سوچیں ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ پابندیاں شروع سے ہی لگی ہوئی ہیں۔ آج ہمارے دشمنوں نے خواہ وہ امریکا ہو یا بعض یورپی حکومتیں، پابندیوں کو جوہری توانائی کے مسئلے سے نتھی کر دیا ہے جبکہ یہ ان کا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ جس زمانے میں انہوں نے پابندیاں شروع کی تھیں، ملک میں ایٹمی توانائی نہیں تھی اور اس کا کوئی ذکر تک نہیں تھا۔ تو ملت ایران سے ان کی جھلاہٹ اور ان کے ان معاندانہ فیصلوں کی وجہ ملت ایران کی سربلندی و سرفرازی ہے۔ یہ خود مختاری کا جذبہ، یہ خود شناسی کی خصوصیت اور خود سپردگی سے انکار کی جرئت جو اسلام کی برکت سے اور قرآن کی برکت سے ملت ایران کے اندر پیدا ہوئی ہے، یہی دشمنوں کی ناراضگی کی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کے دشمن بن گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ جب کسی ملک میں اسلام اپنی جڑیں پھیلا لیتا ہے تو اس ملک میں خود مختاری کا جذبہ اس طرح پروان چڑھتا ہے کہ پھر اسے کوئی دبانے کی جرئت نہیں کر سکتا۔ وہ دنیا کے ملکوں میں کمزور اور زبوں حال افراد کو اقتدار میں پہنچاتے ہیں یا بطور حاکم منصوب کر دیتے ہیں تا کہ یہ حکمراں ان کے بندہ بے دام بنے رہیں۔ لیکن ہمارے وطن عزیز جیسے ملک میں جہاں عوام خود اپنے عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں ہر شعبے میں عوام کی شراکت اور کردار بالکل نمایاں رہتا ہے وہاں یہ دشمن کیا کر سکتے ہیں؟ صاحب ایمان عوام، اسلامی اصولوں کے پابند عوام، اسلام سے جوش و جذبہ حاصل کرنے والے عوام ہرگز دبنے یا پسپا ہونے پر تیار نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ یہ طاقتیں چراغ پا رہتی ہیں۔ آج وہ نیوکلیئر انرجی کی بات کرتی ہیں اور یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ اگر ملت ایران جوہری توانائی سے صرف نظر کر لے تو پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وہ اپنے بغض و کینے کی وجہ سے نامعقول اور غیر منطقی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ ان پابندیوں کو جب بھی کوئی عقلمند اور انصاف پسند انسان دیکھتا ہے تو یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ بالکل نامعقول اور در حقیقت درندگی کی کارروائی ہے۔ یہ ایک قوم کے خلاف باقاعدہ جنگ ہے۔ البتہ اس جنگ میں بھی ملت ایران توفیق الہی سے دشمنوں پر غالب آئے گی۔
بیشک وہ مسائل و مشکلات ضرور پیدا کر دیتے ہیں اور (اندرون ملک) بعض غیر دانشمندانہ اقدامات کے باعث ان مشکلات میں اضافہ بھی ہوتا ہے، یہ سب کچھ ہے۔ لیکن یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جنہیں حل کرنے سے اسلامی جمہوریہ قاصر ہو۔ اللہ کی مدد سے ایرانی قوم ان تمام مشکلات کو عبور کر جائے گی۔ ملت ایران اور ملک کے حکام نے اس سے زیادہ بڑی اور سخت مشکلات کو برطرف کیا ہے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ ذرا سی کوئی مشکل پیدا ہوئی دشمن شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ انہی چند دنوں کے دوران جب زر مبادلہ اور ریال کی قیمتوں میں نشیب و فراز دیکھنے میں آیا، ان کی خبر رساں ایجنسیوں میں یہی خبر شہ سرخی کے طور پر نظر آتی تھی، دشمن کھلے عام بغلیں بجا رہے تھے۔ انہوں نے سفارتی آداب و متانت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا، بالکل بچکانہ اور کودکانہ انداز میں خوش ہو رہے تھے کہ ایرانی عوام کے سامنے مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں، اسلامی جمہوریہ کو ہم نے مشکل میں ڈال دیا ہے، یہ باتیں وہ کھلے عام کہتے ہیں! تہران کی دو سڑکوں پر مٹھی بھر افراد نے دو تین گھنٹے آکر چند کوڑے دانوں کو آگ کیا لگا دی، سمندر پار ان لوگوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ہاں آشوب برپا ہو گیا ہے۔ ہماری حالت خراب ہے یا آپ کی؟ تقریبا ایک سال ہونے کو آیا یورپ کے اہم ممالک کی سڑکیں شب و روز مظاہروں کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ فرانس میں احتجاج ہو رہا ہے، اٹلی میں مظاہرے ہو رہے ہیں، اسپین میں ریلیاں نکل رہی ہیں، برطانیہ میں جلوس نکالے جا رہے ہیں، یونان میں عوام سڑکوں پر جمع ہیں۔ آپ کی مشکل بدرجہا پیچیدہ اور لا ینحل ہے۔ آپ کی معیشت جمود کا شکار ہو گئی ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں کہ ایران کی معیشت کمزور ہو رہی ہے؟! بدبختی کا شکار آپ ہیں، جمود، انہدام اور زوال کا شکار آپ ہیں، اسلامی جمہوریہ ان مشکلات سے زیر ہونے والی نہیں ہے۔
آج بنیادی مشکلات خود مغربی ممالک کے دامنگیر ہیں۔ آج امریکا کے صدارتی انتخابات کا ایک اہم ایشو اقتصادی مشکلات ہیں، عوام لاچارگی کا شکار ہیں، مشکلات سے دست و گریباں ہیں۔ کمزور طبقے کچل کر رہ گئے ہیں۔ ننانوے فیصدی کی تحریک کی جو بات سامنے آئی ہے یہ عین حقیقت ہے۔ البتہ اس تحریک کو کچلا جا رہا ہے۔ اقتصادی بحران سے دوچار وہ خود ہیں اور ہمارے یہاں معمولی سی چیز پر بغلیں بجا رہے ہیں۔
انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ فضل الہی سے اسلامی جمہوریہ ان تمام مشکلات پر غالب آ جائے گی اور ملت ایران کو شکست دینے کی حسرت ان کے دل میں ہی رہ جائے گی۔ اللہ کی نصرت و مدد سے، عوام کے ہوشیاری و دانشمندی اور حکام کی مدبرانہ کوششوں سے مشکلات برطرف ہو جائیں گی۔ عوام الناس کا بھی فریضہ ہے، حکام کا بھی فریضہ ہے، سب کو اپنے اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہئے۔ جب ہم اپنے فریضے پورے کریں گے تو تمام امور بحسن و خوبی آگے بڑھیں گے۔ عوام الناس کی ہوشیاری و بیداری کا بڑا اہم کردار ہے۔ آپ غور کیجئے! تہران میں کچھ لوگوں نے بازار کے تجار کے نام پر سڑکوں پے آکر آشوب برپا کیا، محترم تاجر برادری نے فورا موقعہ شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بیان جاری کرکے اعلان کر دیا کہ یہ افراد جھوٹ بول رہے ہیں۔ تاجر برادری سے ان کا تعلق نہیں ہے! یہ بہت مستحسن اقدام تھا۔ اگر عوام الناس کے مختلف طبقات کی ہوشیاری اور موقعہ شناسی بروقت کام کر جائے تو اس کی بڑی قیمت ہے۔ یہ بڑا اہم اقدام تھا جو انہوں نے انجام دیا۔ سنہ دو ہزار نو کے ( صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے) فتنے کے سلسلے میں بھی میرا موقف یہی ہے۔ سنہ دو ہزار نو کے فتنے میں یہ ہوا کہ پرشکوہ انتخابات کے چند روز بعد کچھ لوگوں نے سامنے آکر اعتراض کیا، جبکہ کچھ لوگوں نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھایا، ہتھیار اٹھا لیا اور آشوب و کشیدگی کا ماحول پیدا کر دیا، بسیج (رضاکار فورس) کی چھاونی پر فائرنگ کر دی۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ وہ افراد جن کے نام پر یہ سارا کارنامہ انجام پا رہا تھا فورا اعلامیہ جاری کرتے اور اپنی بیزاری کا اعلان کرتے، دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتے کہ ان افراد کا ہم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگر انہوں نے یہ دانشندانہ اقدام انجام دے دیا ہوتا تو فتنے کی بہت جلد بیخ کنی ہو جاتی اور بعد میں پیش آنے والے متعدد مسائل پیش نہ آتے۔ یہ ہوشیاری، موقعہ شناسی، ہر ہر لمحے کا محاسبہ، بہت اہم اور نمایاں خصوصیت ہے، ہمارے عوام کو تمام امور میں ہوشیار رہنا چاہئے، جیسے ہی دشمن کی سازش اور معاندانہ حرکت نظر آئے اسی لمحہ محتاط ہو جائیں۔ یہ عوام الناس کی ذمہ داری ہے۔
ملک کے حکام کا جہاں تک تعلق ہے تو انہیں باہم متحد رہنے کی ضرورت ہے، دوستانہ ماحول قائم رکھنے کی ضرورت ہے، اچھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، فرض شناسی اور فریضے کی ادائیگی ضروری ہے، غلطیوں اور کوتاہیوں کو ایک دوسرے کے سر ڈالنے سے گریز کریں، اپنی کارکردگی کے سلسلے میں آئینی حدود کی پاسداری کریں۔ ہمارے آئین میں نقص اور خامی نہیں ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کا کردار واضح کر دیا گیا ہے، حکومت کا دائرہ کار معین ہے، صدر جمہوریہ کا کردار طے شدہ ہے، عدلیہ کا کردار معین ہے۔ سب کے اپنے اپنے فرائض ہیں اور سب کو ان پر عمل کرنا ہے۔ انہیں چاہئے کہ آپس میں دوستانہ ماحول رکھیں، ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک دوسرے کی آواز سے آواز ملانے کی کوشش کریں۔
«پس زبان همدلى خود ديگر است / همدلى از همزبانى بهتر است».
الحمد للہ اس سلسلے میں ہمیں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔ ملک کے حکام جذبہ ہمدردی سے سرشار ہیں۔ ہم سب انسان ہیں، ہم سے کبھی غلطیاں بھی ہوتی ہیں، خطائیں سرزد ہوتی ہیں، لیکن ان غلطیوں کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ الحمد للہ حکام کے اندر دلسوزی ہے، تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) کے سربراہوں میں ان تینوں شعبوں کے محکمہ جاتی ڈھانچے میں، ہمدردانہ جذبے کی کمی نہیں ہے، اسلامی نظام کی سرنوشت سے دلچسپی اور لگاؤ کی کمی نہیں ہے، سب ہمدردی رکھتے ہیں، سب کو لگاؤ ہے، انشاء اللہ وہ امور کو آگے بڑھائیں گے، وہ سب بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔
میری سفارش یہ ہے کہ ہمیں ہرگز یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ محنت، لگن، امید، صبر و پائیداری اور درست منصوبہ بندی اس راستے پر چلنے کی لازمی شرطیں ہیں جسے ہم نے چنا ہے۔ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں وہ بڑا اہم راستہ ہے، ایسا راستہ ہے جو تاریخ عالم کو دگرگوں کر سکتا ہے، چنانچہ وہ علاقے کی تاریخ کو تبدیل کر رہا ہے، جس کا آپ خود مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ شمالی افریقا اور مغربی ایشیا کے اس حساس علاقے میں، اسی علاقے میں جسے یورپ والے مشرق وسطی کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں، اتنے اہم تغیرات رونما ہوں گے؟ لیکن یہ واقعات رونما ہوئے اور ان کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ واقعات جو رونما ہو رہے ہیں وہ مغرب اور خاص طور پر امریکا کے لئے ضرر رساں اور صیہونی حکومت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ صیہونی حکومت کے عہدیدار جو مہمل بیانی کر رہے ہیں اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے کہ اس کا کوئی جواب دیا جائے۔ کچھ باتیں وہ کہہ رہے ہیں اور کچھ باتیں مغربی حکام بیان کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ان میں امریکی اور ان کے مطیع افراد ہی ہیں، یورپی حکام کو زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ اس قضیئے میں امریکا کی معیت و ہمراہی یورپی حکومتوں کے لئے دانشمندانہ اور عاقلانہ فعل نہیں ہے۔ وہ اس معاملے میں خود کو امریکا پر قربان کر رہے ہیں، یہ ان کا احمقانہ فعل ہے۔ ہمارے عوام بہت سے یورپی ملکوں کے سلسلے میں کوئی بدگمانی نہیں رکھتے۔ فرانس، اٹلی اور اسپین کے سلسلے میں ہمارے برے تاثرات نہیں ہیں۔ بیشک برطانیہ کے سلسلے میں ہمارا تجربہ بہت خراب رہا ہے، ہم برطانیہ کو کہتے ہیں کہ خبیث برطانیہ لیکن دیگر یورپی ممالک کے سلسلے میں یہ تاثرات نہیں ہیں۔ تاہم وہ اب جو کام کر رہے ہیں یعنی امریکا کی پیروی جو ہماری نظر میں سراسر غیر دانشمندانہ فعل ہے، اس سے وہ ملت ایران کی دشمنی مول لے رہے ہیں، خود کو ایرانی عوام کی نظر میں نفرت انگیز بنا رہے ہیں۔
ہم اس موڑ کو بھی عبور کر لیں گے۔ ہماری قوم ایسی شجاع، توانا اور چابک دست قوم ہے کہ ان راستوں سے بآسانی گزر جائے گی۔ ہم تینتیس سال سے انہی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنا سفر طے کر رہے ہیں، روز بروز ہمارے عضلات قوی تر ہوتے جا رہے ہیں، ہم زیادہ مستعد اور زیادہ تجربہ کار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم تعطل کا شکار ہونے والے نہیں ہیں، تعطل کا شکار تو آپ ہیں۔ آپ ملت ایران کی نفرت مول لیکر اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی ہے۔ ملت ایران اس مرحلے کو عبور کر جائے گی۔ البتہ اس کی لازمی شرط یہی ہے کہ قوم اور عوام کی استقامت، ان کا جذبہ عمل، ان کا ثبات، ان کی ہوشیاری، ان کی موقعہ شناسی، انقلاب کے بعد کے تمام ادوار کی مانند موجودہ دور میں بھی اسی طرح قائم رہے۔ حکام بھی اپنے فرائض پر عمل کریں۔ یہ یقین رکھنا چاہئے کہ جملہ امور عوام الناس کی مرضی و خواہش کے مطابق طے پائیں گے اور اقتصادی مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا۔
البتہ آج سب سے بنیادی چیز قومی پیداوار کا مسئلہ ہے۔ تمام مشکلات کا بنیادی اور اصلی حل قومی پیداوار کا فروغ ہے، جس پر ہم نے اس سال کے نعرے میں بھی تاکید کی، قومی پیداوار، ایرانی سرمایہ اور کام۔ اس سے گرانی بھی دور ہو جائے گی، پیداوار میں اضافہ ہوگا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، بے روگاری دور ہوگی، قومی سرمایہ صحیح انداز میں استعمال ہوگا، قوم کے اندر اسغناء اور بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ مختلف سطح کے حکام کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو قومی پیداوار کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہمارا خطاب اعلی رتبہ حکام سے ہی ہے، خواہ وہ پارلیمنٹ کے حکام ہوں یا مجریہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن صوبائی سطح کے حکام اور نچلی سطح کے عہدیداروں کو بھی اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دیگر صوبوں کی طرح اس صوبے میں بھی حکام کی توجہ عوام کی مشکلات کے ازالے پر مرکوز ہونا چاہئے۔ ان میں سر فہرست پیداوار کا موضوع اور مقامی وسائل کے بروئے کار لائے جانا کا مسئلہ ہے۔ یقینی طور پر اس صوبے میں پانی کی فراوانی، زرخیز زمین، زراعت کے لئے سازگار حالات، مویشیوں کی صنعت جس نے صوبے ہی نہیں بلکہ باہر کی ضروریات بھی پوری کی ہیں، صنعتوں کی موجودگی، بڑی صنعتیں موجود ہیں لہذا ضمنی اور ذیلی صنعتوں پر توجہ دی جا سکتی ہے، ان وسائل کو دیکھتے ہوئے روزگار، قومی پیداوار اور عوامے کے اندر امید و نشاط میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر صوبے کے حکام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
میں اس دھوپ میں آپ برادران و خواہران عزیز کو اتنی دیر تک نہیں بٹھانا چاہتا تھا لیکن پھر بھی گفتگو طولانی ہو گئی۔ بہت سی باتیں ہیں، میں ابھی ساری باتیں بیان نہیں کر سکا ہوں۔ تاہم آئندہ چند دنوں تک میں آپ عزیزوں کا مہمان ہوں، مختلف جگہوں اور مواقع پر اپنے معروضات پیش کروں گا۔ نوجوانوں، علماء، علمی شعبے کے حکام، رضاکار فورس اور دیگر طبقات سے اپنی ملاقاتوں میں نیز بعض شہروں کے دوروں کے موقعے پر انشاء اللہ بہت سی باتیں بیان کروں گا۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنی برکتیں آپ کے شامل حال فرمائے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ اس صوبے کے عوام پر اپنی برکتیں، اپنی رحمتیں اور اپنا فضل و کرم نازل فرما۔ پالنے والے! نوجوانوں کی حفاظت فرما! پالنے والے! دشمنوں کے ہاتھ منقطع کر دے! پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں اس راستے پر ثابت قدم رکھ جو تیری خوشنودی اور تیرے اولیائے خاص کی رضامندی کا باعث ہے۔ ہمارے عزیز شہیدوں اور عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روح مطہرہ کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

والسّلام عليكم و رحمة اللّه و بركاته‌

1) من لا يحضره الفقيه، ج 3، ص 156
2) مذکورہ بالا ماخذ