قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے جمعرات 11 اکتوبر کو اساتذہ، طلبہ اور دانشوروں سے ملاقات ميں دنيا ميں علمی تحقیقات ميں ايران کی دو فيصد شراکت کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ يہ ساري علمي ترقي و پيشرفت سختيوں اور ايران پر عائد پابنديوں کے زمانے ميں حاصل ہوئی ہيں- آپ نے فرمايا کہ ہر طرح کے دباؤ کے باوجود ايران کي ماہر علمي شخصيات اور نوجوانوں کي بلند ہمتی کي بدولت يہ ترقي حاصل ہوئي ہے جبکہ ان ايراني نوجوانوں کو پوري طرح منظم مالي حمايت بھي حاصل نہيں تھی۔
آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے ايران ميں حيرت انگيز علمي ترقي و پيشرفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا کہ دنيا کے اہم اور معتبر اداروں نے ایران کو سائنسی ترقی کے لحاظ سے دنیا میں سولہویں نمبر پر رکھا ہے اور ان کي پيشين گوئي ہے کہ آئندہ چار سال ميں ايران چھٹے مقام پر پہنچ جائےگا - قائد انقلاب اسلامي نے فرد اور معاشرے ميں ہمہ جہتي تبديلي پيدا کرنے اور پست خصلتوں پر اعلي انساني خصلتوں کےغلبے کے مقصد سے اسلام ميں تشکيل حکومت کے فلسفے کي تشريح کرتے ہوئے فرمايا کہ اس پس منظر ميں تعليمي اداروں، اعلي تعليمي مراکز اور اساتذہ و معلمين کا مقام اور ان کا کردار اور بھي زيادہ نماياں ہو جاتا ہے - قائد انقلاب اسلامي نے خود اعتمادي کو بچپن کے زمانے ميں بچوں کي تربيت کا ايک اہم عنصر اور بنيادي ضرورت بتايا اور فرمايا کہ ماضي ميں ايک غلط روايت جو قائم ہوگئي اور آج بھي باقي ہے وہ يہ ہے کہ خاص طور پر علمي ميدانوں ميں مغرب کو خود سے برتر تصور کيا جاتا ہے اور يہ احساس کيا جاتا ہے کہ ہميں مغرب کي ضرورت ہے اور ہم مغرب سے کم تر ہيں۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ بچوں اور نوجوانوں ميں خود اعتمادي پيدا کرکے يہ غلط سوچ ختم کي جاني چاہئے۔ آپ نے فرمايا کہ مغرب کو برتر سمجھنے کے بجائے خود اعتمادي کا جذبہ بچوں اور نوجوانوں ميں پروان چڑھايا جانا چاہئے- قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ آج تعليمي اداروں اور اعلي تعليمي مراکز کا ايک اہم فريضہ يہي ہے کہ وہ بچوں اور طلباء ميں خود اعتمادي پيدا کريں -
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌اللَّه‌ الرّحمن‌ الرّحيم‌

بڑی پرشکوہ اور باعظمت نشست ہے۔ ظاہری شکل کے لحاظ سے بھی اور روح و معنی کے اعتبار سے بھی۔ اس صوبے کے اساتذہ کی یہ کثیر تعداد دیکھ کر رشک ہوتا ہے، مسرت حاصل ہوتی ہے۔ جو باتیں اس نشست میں بیان کی گئیں واقعی بہت ماہرانہ، نپی تلی اور پیشہ ورانہ تھیں۔ اس صوبے میں جو مادی لحاظ سے اور وسائل و ذرائع کے لحاظ سے ملک کے نادار صوبوں میں شمار ہوتا ہے، حالانکہ یہاں بے پناہی قدرتی استعداد اور صلاحیت موجود ہے، یہ اعلی افکار، یہ روشن نظریات اور یہ نپی تلی باتیں دیکھ کر بڑی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ آپ یقین جانئے کہ یہ نشست اس حقیر کے لئے عطیہ پروردگار ہے۔ یہاں آپ سب کی زیارت کرنے اور آپ کی باتیں سننے کے اس موقعے کو نعمت خداوندی جانتے ہوئے میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ دوستوں نے ان نشست میں جو تجاویز پیش کیں ان میں بعض کا تعلق اجرائی اداروں اور مختلف محکموں کے عہدیداروں سے ہے۔ اس سلسلے میں ہماری روش یہ ہے کہ تجاویز کو متعلقہ اداروں تک پہنچاتے ہیں، ہم خود کوئی اجرائی اقدام نہیں کرتے۔ تا ہم بعض تجاویز بڑی بنیادی قسم کی ہیں۔ خاتون معلمہ نے جو بات کہی وہ بڑی صائب اور منطقی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح جو دیگر نکات بیان کئے گئے، میں نے انہیں نوٹ کر لیا ہے، یہ مطالعہ کرنے کے لائق ہیں، ان پر غور کرنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ ہمیں یہ توفیق عنایت فرمائے کہ معاشرے کے ان انتظامی امور میں جن کا ہم سے تعلق ہے ان باتوں اور تجاویز سے استفادہ کر سکیں۔
ایک نکتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بڑی دلکش آواز میں ایک بہت ہی خوبصورت ترانہ پیش کیا گيا جس میں بڑے اچھے مفاہیم پروئے گئے ہیں۔ میں صرف اسی نشست کے لئے یہ بات نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میں چاہتا ہوں کا ملکی سطح پر اور پورے معاشرے کی سطح پر اس کا انعکاس ہو۔ حکام کے درمیان، عوام الناس کے درمیان اور بالخصوص دانشور طبقے کے بیچ ایک دوسرے کے تئیں محبت و چاہت کا اظہار بہت اچھی چیز ہے۔ اگر کچھ اساتذہ، معلم حضرات، علمی شخصیات اور ممتاز افراد کسی عہدیدار کی خدمت گزاری کی تعریف کرتے ہیں، اس سے چاہت کا اظہار کرتے ہیں تو یہ بڑی اچھی چیز ہے۔ الحمد للہ ملک کے اندر یہ چیز موجود ہے۔ تاہم دنیا میں بہت سی جگہوں پر یہ چیز عنقا ہے۔ یہ اسلام کی برکت سے ہے، یہ دینداری کی برکت سے ہے، اور یہ دو طرفہ عمل ہے۔؛ شاعر کہتا ہے؛
«راز كم گو من به تو عاشق‌ترم».
حکام اور عوام کے مابین یا دانشور طبقے اور عہدیداروں کے مابین یکطرفہ محبت ممکن ہی نہیں ہے، یکطرفہ لگاؤ نہیں ہوتا۔ اگر باہمی اور دوطرفہ کشش اور محبت نہ ہو تو یہ محبت پیچیدہ ہوکر ختم ہو جاتی ہے۔ تو محبت دو طرفہ ہوتی ہے۔ یہاں میں اس نکتے پر تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ یہ محبت بس چند الفاظ بیان کر دینے تک محدود نہ ہو، ایسے الفاظ کی صورت میں نہ ہو جن کا مبالغہ آمیز ہونا سب کے لئے نمایاں ہے۔ بیشک شعر اغراق اور مبالغہ کی زمین ہے لیکن اگر مجھ جیسے حقیر، کوچک اور ناقص انسان کے لئے ایسی اصطلاحات کا استعمال کیا جائے جو عالم خلقت کی چنندہ شخصیات کے لئے ہیں، جن کا تعلق معصومین علیہم السلام اور انبیاء و اولیائے پروردگار سے ہے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ ہمیں معاشرے کے اندر اس کی ترویج سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ان اصطلاحات کو اگر ہٹا دیا جائے تب بھی دو طرفہ محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔
دوستوں نے جو باتیں بیان کیں ان میں بڑے اچھے اور نپے تلے نکات تھے۔ ہمیں واقعی اس کی شدید احتیاج ہے کہ ملک کے اندر تعلیم و تربیت کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ رونق بخشیں۔ اسلامی نطام اور اسلامی انقلاب کا مطمح نظر صرف یہ نہیں تھا اور آج بھی صرف یہ نہیں ہے کہ ملک ترقی کی دوڑ میں دنیا کے دیگر ممالک کے شانہ بشانہ نظر آئے، مادی و سائنسی اور دفاعی و سیاسی رقابت میں ان کی ہمسری کرتا دکھائی دے، جس کی دنیا کے سربراہان مملکت کو ہمیشہ فکر رہتی ہے۔ اسلام اور اسلامی حکومت کا نصب العین تبدیلی پیدا کرنا ہے، انسان کو اندرونی طور پر بدلنا ہے۔ ہمارے اندر فرشتگی کے عناصر و عوامل بھی موجود ہیں اور درندگی کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں۔ «لقد خلقنا الانسان فى احسن تقويم. ثمّ رددناه اسفل سافلين».(1) یعنی علو و ارتقاء اور سرافرازی و سربلندی کی صلاحیت بھی موجود ہے اور سقوط و تنزل کے عوامل کے بارے میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ لا تعداد ہیں۔ خلقت انسانی کا فلسفہ یہ ہے کہ روحانی اقدار کے اعتبار سے ممتاز اور مثبت و تعمیری صلاحیتیں انسان کی اپنی مرضی اور اپنی محنت سے حیوانی خصلتوں پر غلبہ حاصل کریں۔ اگر یہ غلبہ حاصل ہو گیا تو وہ حیوانی رجحانات بھی تعمیری سمت میں مڑ جائیں گے۔ جارحیت اور یلغار کا رجحان اگر تقوے کے پیرائے میں ڈھل جائے تو انسانی دائرے، سماجی و اخلاقی حدود کے دفاع کا کام کرنے لگتا ہے۔ صحیح مقصد کے لئے استعمال ہونے لگتا ہے۔ قرآن اور اسلام نے قتال کا حکم دیا ہے۔ قتال کے معنی ہیں قتل کر دینے کے۔ لیکن اسلام نے اگر قتال کا حکم دیا ہے تو اس کا مقصد انسان کے اندر موجود اس جذبے اور خصلت کو انسانیت کی ہدایت اور دنیا کی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کروانا ہے۔ اس قتال کا مقصد ہے بلند چوٹیوں کی طرف انسان کے سفر اور اعلی انسانی و بشری کمالات تک بنی آدم کی رسائی کے راستے کی رکاوٹوں کو برطرف کرنا۔ اگر ان صلاحیتوں اور ان خصلتوں کو غلبہ حاصل ہو گیا تو دنیا آباد ہو جائے گی اور خوشبختی کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ دنیا اس نہج پر پہنچ جائے گی جہاں نہ کوئی حق تلفی ہوگی، نہ جارحیت، نہ کوئی پستی ہوگی نہ بے بضاعتی، نہ صلاحیتوں سے بے اعتنائی ہوگی اور نہ ہی صلاحیتوں کا غلط استعمال۔ نہ غربت ہوگي نہ تفریق۔ آپ ذرا تصور کیجئے کہ یہ کتنی عظیم دنیا ہوگی۔ انسان اس دنیا میں اپنی تمام وجودی خصوصیات کو بروئے کار لانے پر قادر ہوگا۔ ہماری وجودی خصوصیات اور صلاحیتیں بس یہی اتنی نہیں ہیں جن سے انسان آج موجودہ علمی مقام پر پہنچا ہے، صلاحیتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم اپنی جسمانی صلاحیتوں کے سلسلے میں بھی کوتاہ بینی سے کام لے رہے ہیں۔ ہم نے اب تک اپنی جسمانی صلاحیتوں کو بھی پوری طرح نہیں پہچانا ہے۔
میں اکثر یہ مثال دیتا ہوں کہ آپ ایک جمناسٹ کو دیکھئے۔ جس آدمی نے ورزش نہیں کی ہے، اس کی مشق نہیں کی ہے، وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ایک شخص اپنے جسم کو اس انداز سے موڑ سکتا ہو۔ لیکن جب انسان مشق کرتا ہے تو خواہ وہ کوئی غیر معمولی صلاحیت کا حامل نہ بھی ہو، دوسروں سے بالکل مختلف نہ بھی ہو، تب بھی مشق سے اپنے جسم میں یہ لچک پیدا کر سکتا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے انسان کے اندر پنہاں ہزاروں صلاحیتوں کا، اگر وہ سب حرکت میں آ جائیں تو کیسی عظیم توانائی پیدا ہو جائے گی۔ یہ ساری چیزیں اس دنیا میں بآسانی انجام پائیں گی جہاں انسان کے وجود کے اندر پست خصلتوں پر انسانی و روحانی صفات کا غلبہ ہوگا۔ یہی ہدف بھی ہے اور یہی فریضہ بھی ہے۔ اگر یہ نصب العین ہے تو پھر بڑی جفاکشی کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اس راہ میں خواہ کتنی ہی پیشرفت کر چکے ہوں لیکن ابھی ابتدائی منزلوں میں ہی ہیں۔ علمی پیشرفت کی اہمیت کو کم کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ آپ دیکھتے ہیں کہ ہم کتنا فخر کرتے ہیں کہ علمی ترقی ہمیں حاصل ہوئی ہے، ٹکنالوجی کے شعبے میں ہم نے پیشرفت کی ہے، سیاسی شعبے میں ہمیں ترقی ملی ہے، تعمیراتی شعبے میں ہم کافی آگے پہنچ چکے ہیں، ہمارے پاس قومی توانائیاں ہیں، ہم نے اپنا وقار قائم کیا ہے، یہ سب بہت قیمتی اور گراں قدر چیزیں ہیں لیکن یہ سب ابھی شروعاتی مراحل ہیں۔ جب انسان وطن عزیز کی ذمہ داریوں اور قوم کے اسلامی فرائض کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے تو پھر تعلیم و تربیت کے شعبے کے کردار کی اہمیت اور تعلیمی ماحول کی افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملک کے اندر تعلیم و تربیت اور اعلی تعلیم کی کلیدی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس طرح کی جو نشستیں ہوتی ہیں، اساتذہ کے ساتھ یا طلباء کے ساتھ، البتہ خاص طور پر اساتذہ کے ساتھ جو ملاقاتیں ہوتی ہیں، ان کا انعقاد یہاں ہو یا تہران میں، ان میں ہم چند باتیں کرتے ہیں یا چند نکات سنتے ہیں، یہ بھی اپنی جگہ بہت مفید چیز ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہمارا مقصود ہوتا ہے معاشرے میں استاد کے مقام و مرتبے اور اس کے خاص احترام پر تاکید کرنا۔ ہمیں اس چیز کی بہت ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ استاد کی قدر و قیمت سمجھی جائے، خواہ وہ اسکولوں کے اساتذہ ہوں یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور پروفیسر حضرات۔ سب سے پہلے تو خود معلم کو اپنی قدر و قیمت سے باخبر ہونا چاہئے، تعلیم و تربیت کے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کے لئے اسے اپنی پوری توانائی بروئے کار لانا چاہئے اور اپنی اس استعداد میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ اس جلسے سے ہمارا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اس نو تشکیل شدہ صوبے کے اساتذہ کی صنف کا خاص احترام کرتے ہیں۔ واقعی یہ کتنے اہم اور قابل احترام افراد ہیں، اسکولوں کے اساتذہ بھی اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور لیکچرر حضرات بھی۔
دوستوں نے اس نشست میں جو نکات بیان کئے ان میں ایک اہم نکتہ کہ جو ہمیشہ میرے بھی ذہن میں رہتا ہے، یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی شخصیت کی تعمیر کرنے اور اسے سنوارنے پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر ہم ایام طفولیت میں اس بچے کی انسانی سرشت کو تعمیر کرنے اور اسے زیور اخلاق سے آراستہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا فائدہ ہمیں ہمیشہ ملے گا۔ کچھ ایسے منفی اثرات ہوتے ہیں جو انسان کے اخلاقیات کو متاثر کرتے ہیں، لیکن اگر کمسنی میں ہی بچے کی شخصیت کی تعمیر کا عمل پورا ہو جائے تو منفی چیزوں کا اثر بہت محدود ہو جائے گا اور مددگار و معاون عناصر و عوامل اس کی بآسانی مدد کریں گے۔
ایک صاحبہ نے فلسفیدن کی اصطلاح استعمال کی۔ انہوں نے یہ بالکل صحیح اصطلاح استعمال کی ہے۔ دور حاضر میں مادی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں ایک اہم کام اور بنیادی چیز بچوں کو فلسفے کی تعلیم دینا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد کے لئے حیرت کی بات ہوگی کہ بچوں کے لئے بھی فلسفے کی تعلیم ضروری ہے۔ بعض افراد کے ذہن میں یہ تصور رہتا ہے کہ فلسفہ ایک انتہائی پیچیدہ اور بڑی بھاری بھرکم چیز ہے جس پر گنے چنے افراد ہی وہ بھی پختہ عمر تک پہنچ جانے کے بعد توجہ دیتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ فلسفہ سوچنے کا انداز سکھاتا ہے، فکر کا طریقہ سمجھاتا ہے، ذہن کو تفکر و تدبر کا عادی بناتا ہے، یہ چیز شروع سے ہی سکھائی جانی چاہئے۔ یہ بہت اہم قالب ہے۔ بچے کو شروع سے ہی غور و فکر کرنے کی عادت پڑنا چاہئے، تدبر کی عادت ہونا چاہئے یہ بہت اہم ہے، مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ تقاریر میں یہ نکتہ سننے کو ملا۔
ایک اور اہم نکتہ خود اعتمادی کا ہے۔ ہمیں بچے میں شروع سے ہی خود اعتمادی اور خود باوری پیدا کرنا چاہئے۔ یہ صرف پرائمری کے بچوں کی بات نہیں ہے بلکہ ہائی اسکول کے بچوں میں بھی اور یونیورسٹی کے طلبہ میں بھی اس نکتے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے بالکل گمراہ کن ثقافت کی بنیاد رکھی گئی جس کے منفی اثرات اب تک پوری طرح مٹائے نہیں جا سکے ہیں۔ ہم نے ابتدائے انقلاب سے ہی اس سلسلے میں انتھک تشہیراتی کام انجام دئے لیکن مغرب کی جانب نیازمندانہ نظر، مغرب کو بہت عظیم اور خود کو اس کے سامنے کمتر سمجھنا، یہ فکر آج بھی پوری طرح ختم نہیں ہو پائی ہے، بلکہ آج بھی موجود ہے۔ یہ خود اعتمادی کے فقدان کا منفی نتیجہ ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ فلاں برانڈ کی قیمت زیادہ ہے لیکن ایک مخصوص طبقے میں اس کے خریدار بہت زیادہ ہیں، حالانکہ بالکل اسی معیار کی ایرانی مصنوعات موجود ہیں جو کیفیت میں شاید اس سے بہتر ہوں۔ یہ اسی طرز فکر کا نتیجہ ہے، یہ ایک طرح کی بیماری ہے، یہ ایک آفت ہے۔ اگر سننے میں آتا ہے کہ فلاں اسپیشلسٹ نے ملک کے اندر ہی اسپیشلائیزیشن کیا ہے، بیرون ملک نہیں گيا ہے، تو اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ جب یہی ماہر جس نے ملک کے اندر ہی اعلی تعلیم حاصل کی ہے، اپنے نمایاں کاموں سے اس طرز فکر پر خط بطلان کھینچ دیتا ہے، چنانچہ حالیہ چند برسوں میں اس کی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں، تب جاکر یہ سوچ بدلتی ہے۔ لیکن اگر یہ سلسلہ چلتا رہے گا کہ فلاں صاحب نے ملک کے اندر ہی تعلیم حاصل کی ہے اور فلاں نے بیرون ملک جاکر تعلیم پوری کی ہے لہذا آخر الذکر بہتر ہے، تو یہ بڑے عیب کی بات ہوگی۔
آپ نے میری زبان سے یہ بات بارہا سنی ہوگی کہ میں بیگانو‎ں سے تعلیم حاصل کرنے کی ہرگز مخالفت نہیں کرتا، ہرگز نہیں، میں نے بارہا تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ کسی کی شاگردی اختیار کرنا اور اس سے علم حاصل کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ عیب اور شرم کی بات یہ ہے کہ ہم یہ باور کر لیں کہ دوسروں کی فکر، ان کے کام اور ان کے ہاتھ پر ہماری نیازمندانہ اور محتاجانہ نگاہ ہمیشہ مرکوز رہنا چاہئے۔ یہ بری بات ہے، اس کو ختم کیا جانا چاہئے۔ ہم کبھی معاشرے میں ایک اچھی خصلت رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس اچھی خصلت کے لئے جب ہم کوئی مثال پیش کرنا چاہتے ہیں تو کسی مغربی ملک کی مثال لاتے ہیں! اس کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اپنے مخاطب افراد کے ذہن میں یہ خیال کیوں بٹھا رہے ہیں کہ اچھے برے اور نمایاں و غیر نمایاں کی تشخیص کے لئے ہمیں مغرب کے طرز عمل کو دیکھنا چاہئے؟ بعض دوستوں نے اپنی تقریر میں مغرب باوری کی بات کی۔ خود باوری اور خود اعتمادی اسی کے مد مقابل جذبہ ہے۔ کسی کی دشمنی ہمارا مقصود نہیں ہے، یہ کسی جغرافیائی یا سیاسی خطے سے تعصب کی بات نہیں ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنی توانائیوں کو، اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو، اپنی محنت کے ثمرات کو نظرانداز کرنے لگتی ہے، اس کا بھروسہ ان چیزوں سے اٹھ جاتا ہے تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو اغیار پر منحصر ممالک کا ہونا چاہئے۔ چنانچہ پہلوی حکومت کے دور میں ہم نے خود بھی یہی انجام دیکھا اور دیگر ممالک میں بھی اس کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کے اندر، اپنے بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا چاہئے۔ مجھے کبھی کبھی ایسی رپورٹیں ملتی ہیں کہ کسی استاد نے اپنی کلاس میں یا یونیورسٹی کے کسی پروفیسر نے اپنے لیکچر کے دوران مسلمہ سائنسی پیشرفت کو شک و تردد کی نظر سے دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیم سیلز کے شعبے میں، نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں، دیگر علمی شعبوں میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں، الحمد للہ آج ایسے شعبوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ یہ ترقی حقیقی ترقی ہے، اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ترقی نظروں کے سامنے ہے۔ واضح طور پر دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ لیکن وہ جناب یونیورسٹی کی کلاس میں یا اسکول کی اپنی کلاس میں شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نہیں جناب ایسا نہیں ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا! سوال یہ ہے کہ اس قسم کی باتیں کرکے ہم کون سا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر واقعی ہمیں اس بارے میں شک و شبہ ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے مخاطب نوجوانوں کے ذہنوں میں بھی وہی شبہ ڈالیں؟ ہمیں جاکر تحقیق کرنا چاہئے، حقیقت حال معلوم کرنا چاہئے۔ تا کہ خود اعتمادی اور خود باوری پیدا ہو۔ خود اعتمادی کا جذبہ بہت اہم اور کلیدی ہے۔
ایک اور اہم صفت ہے بردباری کی۔ سماجی تعلقات میں ہمیں جن چیزوں کی اشد ضرورت ہے ان میں ایک حلم و بردباری ہے۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات میں حلم و بردباری پر اسی لئے اتنی تاکید کی گئی ہے۔ بردباری نہ ہو تو نچلی اور شخصی سطح پر بھی اور سماجی سطح پر بھی گوناگوں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی حلقے بھی بردباری سے کام لیں تو کام بہترین انداز میں سرانجام پائیں گے۔ مختلف گروہ، کوئی کسی کا طرفدار ہے، کوئی کسی کا حمایتی ہے، بس ان کے درمیان اگر بردباری ہو تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ حلم و بردباری کا مطلب برائیوں اور خرابیوں سے چشم پوشی کر لینا نہیں ہے اقدار اور اصولوں سے بے اعتنائی برتنا نہیں ہے، بلکہ طرز سلوک کی اہمیت ہے۔ «ادع الى سبيل ربّك بالحكمة و الموعظة الحسنة و جادلهم بالّتى هى احسن».(2) اگر بحث و جدل بھی ہو، کسی نظرئے یا کسی مسئلے پر لفظی ٹکراؤ ہو تو وہ بھی «بالّتى هى احسن» بہترین انداز میں ہونا چاہئے۔
ایک اور مسئلہ تجسس اور اشتیاق کا ہے جس کا ذکر دوستوں کی تقاریر میں آیا، استفسار اور سوال کرنے کی عادت۔ اسی طرح ایک اور اہم نکتہ ہے اجتماعی کام، باہمی تعاون، امداد باہمی اور بلند ہمتی۔ بچوں اور نوجوانوں کو شروع ہی سے بلند ہمتی کی عادت ڈالیں۔ گوناگوں مسائل جن پر عالمی سطح کے زاویہ نگاہ کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، عالمی سطح کی سوچ کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، علاقائی سطح پر نہیں، لہذا ملکی اور صوبائی سطح کا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ ایسے امور ہیں جن کا سو سالہ اور ڈیڑھ سو سالہ منصوبے کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں پانچ سالہ اور دس سالہ کوتاہ بینی کے ساتھ نہیں دیکھنا چاہئے۔ اس کے لئے بلند ہمتی کی ضرورت ہے۔ گوناگوں امور کے تعلق سے دراز مدتی زاویہ فکر کی ضرورت ہے۔ یہ بچہ اور یہ طالب علم جو آج آپ کے ہاتھوں تربیت حاصل کر رہا ہے، چند روز بعد استاد بنے گا، ڈائریکٹر بنے گا، نمایاں ماہر فن بنے گا، ملک کے سیاسی شعبے کی بااثر شخصیت بنے گا، چند روز بعد معاشرے میں خاص اثر و نفوذ کا مالک بنے گا۔ اس کی ایسی تربیت کیجئے کہ اس کے اندر ضروری بلند ہمتی موجود ہو۔
ایک اور اہم نکتہ ہے جذبہ عمل کا۔ ہماری ایک مشکل ہے تساہلی اور کاہلی۔ مطالعہ اور کتاب خوانی بہت ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں کتاب سے بے اعتنائی کی مشکل موجود ہے۔ کبھی کبھی ٹیلی ویزن کے پروگراموں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی صاحب سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ چوبیس گھنٹے میں کتنے گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں یا کتاب بڑھنے کا کتنا وقت ملتا ہے؟ کسی کا جواب ہوتا ہے پانچ منٹ، کوئی کہتا ہے آدھا گھنٹا! سن کر تعجب ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو کتابوں کے مطالعے کی عادت ڈالنا چاہئے۔ یہ عادت پھر پوری عمر ختم نہیں ہوگی۔ اس حقیر کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد، ویسے میں نوجوانوں سے کئی گنا زیادہ مطالعہ کرتا ہوں، لیکن اس سن میں مطالعے کا فائدہ اور اثر نوجوانی کے مطالعے کی نسبت کم ہوتا ہے۔ انسان کے لئے جو چیز سرمائے کے طور پر ہمیشہ باقی رہتی ہے وہ کم عمری میں کیا گيا مطالعہ ہے۔ آپ نوجوانوں اور بچوں کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو کتب کا مطالعہ کیجئے۔ مختلف موضوعات اور فنون پر عبور حاصل کیجئے۔ البتہ کتابوں میں بھی لا یعنی مطالب کے مطالعے سے گریز کرنا چاہئے لیکن یہ بعد کے مرحلے کی نصیحت ہے۔ اولیں نصیحت تو یہ ہے کہ کتاب سے رجوع ہونے کی عادت پڑنا چاہئے۔ متعلقہ اداروں اور ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ بہت خیال رکھیں، لوگوں کی رہنمائی کریں اچھی کتب کی طرف، بے سود کتابوں کے مطالعے میں وقت ضا‏ئع ہونے سے بچائیں۔
ایک اور اہم نکتہ جس کا ذکر یہاں موجود خواتین نے اپنی گفتگو میں کیا اور جسے میں نے نوٹ کر لیا ہے، وہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے بچوں میں جو خصوصیات اور عادات پیدا کرنا اور پروان چڑھانا چاہتے ہیں وہ یونہی وجود میں نہیں آئیں گی، اس کے لئے محنت کرنا ہوگی۔ محنت کرنا کس کا کام ہے؟ یہ کام اساتذہ کا ہے، خواہ وہ اسکولوں کے اساتذہ ہوں یا یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات۔ اساتذہ کو اس کے لئے پوری طرح آمادہ اور تیار رہنا چاہئے، اس کی مہارت اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے، اس کے لئے ایک ادارے کی ضرورت ہے جو ٹریننگ دے۔ یہ بالکل منطقی طریقہ ہے۔ وزیر تعلیم و تربیت بھی یہاں تشریف فرما ہیں، آپ کابینہ کی سطح پر اسے اٹھائیے اور آپ خود بھی اپنی وزارت کی سطح پر اس کا جائز لیجئے کہ اس سلسلے میں کیا اقدامات انجام دئے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی کلاس میں آنے والے طلبہ کے اندر یہ خصائص پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ فن آنا چاہئے۔ ہر کسی کے پاس یہ فن نہیں ہے، یہ فن سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے مراکز قائم کئے جائیں جنہیں خاندانی ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کا نام دیا گيا ہے۔ یہ تجویز بعض دوستوں نے پیش کی جو بہت اچھی ہے، بالکل درست ہے، ان امور پر کام ہونا چاہے۔ البتہ اس تجویز کا بنیادی ہدف خاندانوں کی اخلاقی صحتمندی و سلامتی ہے۔ تاہم یہ چیز اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی ضروری ہے۔ الحمد للہ اس شعبے میں جو ہماری بھی دلچسپی کی چیز ہے اور جس سے ملک کے علمی و ثقافتی طبقے کو بھی خاص لگاؤ ہے، حاصل ہونے والی پیشرفت واقعی غیر معمولی رہی ہے۔ اس میں کسی کو کوئي شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ چیزیں سب کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ آغاز انقلاب میں ہمارے یہاں طلباء کی تعداد تقریبا ایک لاکھ ستر ہزار تھی۔ آج یہ تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں اکیڈمک بورڈز کے ارکان کی تعداد تقریبا پانچ ہزار تھی۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ انقلاب کے شروعاتی دور میں پانچ ہزار کی اس تعداد کا بڑا ذکر ہوا کرتا تھا۔ بعض اساتذہ ملک چھوڑ کر چلے جاتے تھے تو یہ باتیں ہونے لگتی تھیں کہ ایک پروفیسر کم ہو گیا، دس پروفیسر کم ہو گئے! آج اکیڈمک بورڈز کے رکن اساتذہ کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ آج یہ تعداد دسیوں ہزار سے زیادہ ہے۔ اس وقت پورے ملک میں دو سو یونیورسٹیاں ہیں دو ہزار اعلی تعلیمی مراکز ہیں۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ ہم نے یہ کامیابیاں انتہائی تنگ دستی اور کسمپرسی کے عالم میں حاصل کی ہیں۔ یہ پابندیاں جن کے بارے میں آج کہا جا رہا ہے کہ ان میں شدت پیدا کر دی گئی ہے، یا یہ کہ ان میں دائمی شدت لائی جا رہی ہے، یہ شروع سے ہی موجود تھیں۔ ان سب کے علاوہ ہم نے جنگ کا بھی سامنا کیا، علاوہ ازیں مختلف ادوار میں تیل کی قیمت میں شدید کمی کا بھی سامنا ہوا۔ ہمارے اوپر مختلف النوع داخلی مشکلات مسلط کر دی گئیں۔ آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ انقلاب کے شروعاتی دور میں ہماری آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی جو بڑھ کر دگنی ہو گئ۔ تو یہ ساری مشکلات تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں رہے۔
میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ علمی شعبے میں ہمیں یہ جو نمایاں کامیابیاں ملی ہیں، ان میں کسی بھی پیشرفت کے سلسلے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی گروپ نے خاص مقام پر بھرپور وسائل کے ساتھ یہ کام انجام دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ نہیں۔ ایسا نہیں ہے، مختلف شعبے ایسے ہیں جن میں یہ ہوا کہ صاحب استعداد گروپ محدود وسائل اور حمایت کے ساتھ لگن سے کام کرتے ہوئے اچانک انتہائی بلندی پر پہنچ گیا۔ کئي سال قبل ہمارے دوست ممالک میں سے ایک ملک کے حکام، میں قصدا اس ملک کا نام نہیں لینا چاہتا، یہاں آئے تھے، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اتنا بجٹ ہے فلاں پروجیکٹ پر کام کرنے کے لئے، مثلا بایو ٹکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے کے لئے، پورا ملک اسی شعبے پر پوری محنت کے ساتھ لگ گیا۔ لیکن ہمارا طریق کار یہ نہیں رہا۔ ہمیں جو کامیابیاں ملی ہیں وہ مختلف گروہوں کی خاص دلچسپی اور بے پناہ صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔ ایک چھوٹی سی تعداد نے محنت کی اور مثال کے طور پر ہم نے اسٹیم سیلز کے شعبے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ کچھ صاحب استعداد نوجوانوں نے ایک جگہ اسٹیم سیلز پر کام شروع کیا، انہیں تھوڑی بہت مدد ملی اور آپ نے دیکھا کہ اچانک انہوں نے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کر دیا۔ نینو ٹکنالوجی میں بھی بالکل یہی واقعہ ہوا۔ دوسرے متعدد شعبوں میں بھی یہی چیز دیکھنے میں آئی۔ میزائل سازی کے شعبے میں بھی یہی ہوا ہے، خواہ وہ سیٹیلائٹ لیکر خلا میں جانے والے میزائل ہوں، یہ دفاعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے میزائل۔ یہ ساری کامیابیاں ایسی ہیں جو گہرے شوق و رغبت کے ساتھ کام شروع کرنے والے کسی گروپ نے کچھ ہی مدت میں ایسا کارنامہ انجام دیا کہ سب کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملک کے اندر استعداد کی کوئی کمی نہیں ہے اور ہم ابھی بہت آگے جا سکتے ہیں۔
اس وقت علمی پیشرفت کے اعتبار سے ایران دنیا میں سولہویں نمبر پر ہے۔ کیا پہلے کوئی اس پر یقین کرسکتا تھا؟ یہ دنیا کے معتبر تحقیقاتی مراکز نے اعلان کیا ہے۔ ایسے ہی ایک مرکز نے پیشین گوئی کی ہے کہ سنہ دو ہزار اٹھارہ تک ایران سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہوگا۔ تو وطن عزیز کے اندر استعداد اور صلاحیتیں اس انداز کی ہیں۔ علمی ایجادات و اختراعات کے لحاظ سے دنیا میں ایران کی شراکت دو فیصدی ہے، یعنی علمی پیداوار اور اختراعات کے شعبے میں ایران کی جو فطری شراکت ہونا چاہئے اس کی دگنی شراکت ایران کر رہا ہے۔ یہ بڑی نمایاں کامیابیاں ہیں، بڑی اہم پیشرفت ہے۔
مختصر یہ کہ ہمارے حوصلے بلند رہنے چاہئے۔ ہمیں حکومتی سطح پر، اعلی حکام کی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تا ہم بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آپ اپنی کلاسوں میں، اسکولوں کی کلاسیں ہوں یا یونیورسٹیوں کی کلاسیں، بچوں اور نوجوانوں کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ اور پیشرفت کا حوصلہ بڑھائیے، پھر دیکھئے کہ وہ کس برق رفتاری سے ترقی کرتے ہیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو ملک کو اس کے وجود سے بے پناہ فائدہ پہنچے گا۔ آپ جوش و جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ نوجوانوں کے راستے میں بہت سے خطرات موجود ہیں، ایک بڑا خطرہ ہے مایوسی اور قنوطیت۔ قنوطیت کی تلقین سے سختی سے بچنا چاہئے۔
اس صوبے میں اسکولوں کی سطح پر بھی اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی کچھ مشکلات ہیں، ان کی رپورٹ مجھے مل چکی ہے اور کچھ مشکلات کا ذکر یہاں اس نشست میں بعض دوستوں نے اپنی گفتگو میں کیا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ یہ تمام مشکلات برطرف ہوں گی۔ ہم ان مشکلات سے حکام کو باخبر کریں گے۔ اجرائی امور تو خیر متعلقہ عہدیدار ہی انجام دیں گے، ان کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے۔ بیشک ہم تاکید کریں گے، تائید کریں گے، بات کو ان تک پہنچائيں گے اور ان سے کہیں گے کہ جہاں تک ممکن ہو ان کاموں کو انجام دیا جائے۔
میں نوجوانوں سے قرآن کی تلاوت اور قرآن فہمی کی سفارش کرتا ہوں۔ آپ قرآن سے اپنا رابطہ منقطع نہ ہونے دیجئے۔ قرآن کی تلاوت ہر روز کیجئے چاہے نصف صفحہ ہی کیوں نہ پڑھیں۔ یہ چیزیں انسان کو قرب الہی کا شرف عطا کرتی ہیں، اس سے انسان کا دل اور اس کی روح شادابی و فرحت کا احساس کرتی ہے۔ اسے وہ صبر و طمانیت حاصل ہوتی ہے جس کی انسان کو شدید ضرورت ہے اور جس کا ذکر اللہ نے بھی کیا ہے کہ «فأنزل اللَّه سكينته على رسوله و على المؤمنين و الزمهم كلمة التّقوى»؛(3)
یہ ایسی نعمت ہے کہ اللہ نے مومنین کے سامنے اپنی اس نعمت کو جتایا ہے کہ ہم نے تمہیں سکون اور طمانیت عطا کی، یہ طمانیت اسی راستے سے حاصل ہوتی ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ اس کے لئے سب سے پہلے تو گناہوں سے اجتناب ضروری ہے۔
ہم جو گناہوں سے دوری کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے آپ تمام گناہ ترک کر دیجئے اس کے بعد دوسرے مرحلے میں قدم رکھئے، نہیں، یہ ضروری نہیں ہے۔ آپ دونوں کا آغاز ایک ساتھ کر سکتے ہیں۔ بس آپ کی کوشش یہ ہونا چاہئے کہ ہرگز کوئی گناہ سرزد نہ ہونے پائے۔ اسی کو تقوی بھی کہتے ہیں۔ نماز میں خضوع و خشوع اور توجہ کے ساتھ تلاوت کلام پاک۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں روحانیت و معنویت عطا کرتی ہیں۔ ہمیں سکون اور طمانیت عطا کرتی ہیں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے ہمارے لئے مفید بنائے، اپنی توفیقات ہمارے شامل حال کرے کہ ہم اپنے فرائض پر بخوبی عمل پیرا ہو سکیں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) تين: 4 و 5
2) نحل: 125
3) فتح: 26